پہلے
کرونا وائرس
..... اور اب ٹڈی دل
ٹدی دل بہت عرصے کے بعد ایک بار پھر حملہ آور ہوا ہے، اس بار خلیج، مشرقی افریقہ کے کچھ علاقے اور جنوبی ایشیا میں ہندوستان اور پاکستان وغیرہ اس کا خاص نشانہ ہیں ـ............ ہندوستان میں ٹدیوں کے تقریبا پانچ الگ الگ جھنڈ مختلف علاقوں آسام، بہار، بنگال، یوپی، گجرات، راجستھان اور مہاراشٹر وغیرہ میں سرگرم ہیں ـ کہتے ہیں کہ ایک جھنڈ میں کئی ارب ٹڈیاں ہوتی ہیں، اِن کے بعض جھنڈ کئی کئی مربع کلومیٹر پر محیط ہوسکتے ہیں، جس علاقے میں ایک جھنڈ زمین پر اترتا ہے وہاں کی تمام ہریالی چاٹ جاتا ہےـ
انسان اپنی تمام تر مادی ترقیوں کے ساتھ مچھر اور ٹڈی جیسے معمولی کیڑوں کا صدیوں سے مقابلہ کررہا ہے مگر آج تک ختم نہیں کرپایا، ہر سال انکی وجہ سے بے شمار جانی مالی نقصانات اُٹھانے پڑتے ہیں .......... ٹڈیوں سے براہ راست جانی نقصان تو نہیں ہوتا، مگر مالی نقصان بہت ہوتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق اِن کا ایک جھنڈ ایک رات میں کھیتوں سے اتنا اناج وغیرہ کھا جاتا ہے جو ڈھائی ہزار لوگوں کے ایک سال تک کے کھانے کےلئے کافی ہوسکتا تھا، ....... چنانچہ ٹڈیوں کو مارنے کے لئے ہیلی کاپٹر، ہوائی جہاز وغیرہ کے ذریعے کرم کش دواؤں کا چھڑکاؤ ہوتا ہے آج کل بھی ہورہا ہے، اب اس کے لئے ڈرون جہاز کی مدد بھی لی جارہی ہے ـ
ٹڈیوں کا استعمال غذا کے طور پر بھی ہوتا ہے، اسلام میں بھی اس کا کھانا حلال ہے ـ بعض لوگ اس کو خشکی کا جھینگا بھی کہتے ہیں، جھینگے کی طرح ٹڈی بھی بہت لذیذ ہوتی ہے، جس طرح جھینگے کی بظاہر شکل کریہہ ہوتی ہے مگر جب کام ودھن سے سابقہ پڑتا ہے تو اس کا ذایقہ پیٹ بھر کر کھانے کے لئے مجبور کردیتا ہے، اسی طرح ٹڈی بھی ایک بار منہ لگ جائے تو پیٹ بھر کر کھائی جاتی ہے ـ
اس کو کھانے کا طریقہ بھی جھینگے سے ملتا جلتا ہے، جس طرح جھینگے کے اوپر کا سخت حصہ الگ کرکے نرم حصہ پکاکر غذا کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اسی طرح ٹڈی بھی کھائی جاتی ہے، کھانے میں بعض لوگ ٹڈی کو تیل میں تل کر ہلکا نمک مرچ شامل کرکے سوکھے سوکھے کرکرے کے طور کھاتے ہیں اور محفوظ بھی رکھتے ہیں، بعض اس کو چاولوں اور مصالحوں کے ساتھ پکالیتے ہیں اور ٹدی بریانی بناکر استعمال کرتے ہیں، بعض لوگ تلی ہوئی ثڈیوں کوسینڈویچ میں ککڑی وغیرہ کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ـ .......... ٹڈی میں غذائیت بھی ہوتی ہے، اس کے اندر تقریبا ۶۲ فیصد پروٹین ہوتا ہے، ۲۱ فیصد بغیر کروسٹرال والا تیل ہوتا ہے، باقی کیلشیم، آئرن، فاسفورس وغیرہ ہوتے ہیں، ......... ٹڈی جوڑوں اور کمر درد وغیرہ کے لئے بھی مفید ہوتی ہے، ......... اِس کے استعمال سے انسان میں قوت مدافعت بڑھتی ہے، آجکل کرونا وائرس کے علاج کے لئے اب تک کوئی دوا سامنے نہیں آئی ہے، صرف دوسرے عوارض کے علاج کے ساتھ مریض کی قوت مدافعت بڑھانے کی کوششیں کی جاتی ہیں جس کے اضافے کی وجہ سے ہی ابتک ہزاروں کرونا مریض شفایاب ہوئے ہیں ............. بہت ممکن ہے اللہ تعالی نے ان ٹڈیوں کو غریبوں کے لئے غذائی ضروت پوری کرنے کے بہترین ذریعے کے ساتھ ان کے لئے کرونا وائرس کا علاج بھی بنا کر بھیجا ہو ـ
عام طور پر ٹڈیاں صبح سورج کی کرن ظاہر ہونے کے بعد سفر شروع کرتی ہیں اور شام ہوتے ہوتے کسی نہ کسی علاقے میں اترجاتی ہیں اور رات بھر اس جگہ کی تمام ہریالی چاٹ لیتی ہیں اور اگلی صبح پھر سفر شروع کردیتی ہیں ........ اس لئے دن میں ان کا پکڑنا مشکل ہے، البتہ رات میں باسانی ہاتھ آتی ہیں، لوگ جال، چادر وغیرہ کے ذریعے پکڑلیتے ہیں ـ
آج کل ہندوستان اور دیگر ممالک میں کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاوں نافذ ہے جس کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں مکمل ٹھپ ہیں، لاک ڈاون کے اِن تین مہینوں میں کھربوں کا تجارتی نقصان ہوچکا ہے اور ابھی جلد حالات میں سدھار کی امید بھی نظر نہیں آتی، .......... ایسے میں کسانوں کے ذریعے حاصل ہونے والی پیداوار اناج اور سبزیوں کا سہارا تھا جو ملک کی غذائی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ایکسپورٹ وغیرہ کے ذریعے بیرونی زر مبادلہ حاصل ہونے کا ایک ذریعہ بن سکتے تھے .......... مگر ٹڈیوں کے حملے اگر یوں ہی جاری رہے تو یہ ہمارے ملک کی گرتی ہوئی معیشت کے لئے دوھرا عذاب ثابت ہوگا ـ مستقبل میں عوام کو غذائی اشیا کی قلت اور گرانی سے بھی جھوجھنا پڑسکتا ہے ـ
فرعون کی قوم کے لئے اللہ نے پسو (جراثیم) کے ساتھ ٹڈیوں کا عذاب بھی مقرر فرمایا تھا، موجودہ حالات میں بھی اللہ نے ایک وائرس (جراثیم) کے ساتھ ٹڈیاں بھیجدی ہیں ہیں، اس موقع پر ہم سب کو توبہ، استغفار وانابت الی اللہ کا سہارا لینا چاہئے، اگر یہ ہمارے لئے عذاب ہے تو اپنے گناہوں کی معافی، حقوق العباد، صلہ رحمی اور غربا ومساکین کی دستگیری کی طرف خصوصی توجہ رکھنا چاہئے، ........ فراٰض واجبات کی پابندی کے ساتھ خلوت اور جلوت کے تمام گناہوں سے بچنے کا اہتمام بھی ہونا چاہئےـ اللہ تعالی اپنا فضل فرمائے، اور ہر طرح کے عذاب اور بلاوں سے محفوظ رکھے ـ آمین ـ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
--------
ٹڈی اور مچھلی بغیر ذبح کے حلال ہیں یا حرام؟
سوال ]۹۸۱۴[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: ٹڈی اور مچھلی بغیر ذبح کے حلال کب سے ہیں، تخلیق کے وقت سے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے، یہ دونوں مردے حلال کیوں؟ حکمت کیا ہے؟
المستفتی: انور الحق امام بڑی مسجد ہنومان گڈھ راجستھان
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے پہلے کے احکام کے ہم مکلف نہیں ہیں، بلکہ ہم اس کے مکلف ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے حلال کہا ہے اسے حلال سمجھیں اور جسے حرام کہا ہے، اسے حرام جانیں، ٹڈی اور مچھلی کو بغیر ذبح کے حلال بتلایا ہے اس لئے اسے ہم حلال سمجھتے ہیں اور بلا ذبح کے کھاتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے زمانہ کی بات ہم کو معلوم نہیں ہے۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ: أحلت لنا میتتان و دمان، فأما المیتتان: فالحوت والجراد، وأما الدمان: فالکبد والطحال۔ (مسند أحمد بن حنبل ۲/۹۸، رقم: ۵۷۲۳، سنن ابن ماجہ، باب الکبد والطحال، النسخۃ الہندیۃ ۲/۲۳۸، دار السلام رقم: ۳۳۱۴، سنن الدار قطنی، کتاب الأشربۃ وغیرہا، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۴/۱۸۴، رقم: ۴۶۸۷)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
یکم ذیقعد ۱۴۲۵ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۸/۸۵۸۷)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۱؍۱۱؍۱۴۲۵ھ
----------
ٹڈی جس کو عربی میں ’’جراد‘‘ اور انگریزی میں ’’Locust ‘‘ کہتے ہیں، یہ حلال ہے، ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے لئے دو میتہ (مچھلی اور ٹڈی) اور دو خون (جگر اور تلیّ) حلال کردیے گئے ہیں۔
مسند أحمد ط الرسالة (10/ 16):
"عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ، وَدَمَانِ. فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ: فَالْحُوتُ وَالْجَرَادُ، وَأَمَّا الدَّمَانِ: فَالْكَبِدُ وَالطِّحَالُ ".
الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (6/ 307):
"(وحل الجراد) وإن مات حتف أنفه، بخلاف السمك (وأنواع السمك بلا ذكاة)؛ لحديث: «أحلت لنا ميتتان: السمك والجراد، ودمان: الكبد والطحال» بكسر الطاء.
(قوله: لحديث: «أحلت لنا ميتتان» إلخ) وهو مشهور مؤيد بالإجماع فيجوز تخصيص الكتاب به، وهو قوله تعالى: {حرمت عليكم الميتة والدم} [المائدة: 3] على أن حل السمك ثبت بمطلق قوله تعالى: {لتأكلوا منه لحماً طرياً} [النحل: 14]، كفاية". فقط واللہ اعلم بالصواب۔
اس کی تائید میں جامعہ علوم اسلامیہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ پیش کیا جاتا ہے۔
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب نیل الاوطار میں ابن العربی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جراد کی دو قسمیں ہیں، ایک حجاز کی ٹڈیاں اور دوسری اندلس کی ٹڈیاں، پھر اندلس کی ٹڈیوں سے متعلق لکھا کہ اس کو نہیں کھایا جائے گا؛ اس لئے کہ اس کے کھانے میں ضررِ محض ہے، اس لئے اس کا کھانا درست نہیں، لہذا ٹڈی کی جس قسم میں ضرر ہو اس کو نہیں کھایا جائے گا، باقی کو کھایا جاسکتا ہے، البتہ احادیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں مل سکی۔ نيل الأوطار (8/ 169):
"ونقل النووي الإجماع على حل أكل الجراد. وفصل ابن العربي في شرح الترمذي بين جراد الحجاز وجراد الأندلس، فقال في جراد الأندلس: لايؤكل؛ لأنه ضرر محض، وهذا إن ثبت أنه يضر أكله بأن يكون فيه سمية تخصه دون غيره من جراد البلاد تعين استثناؤه".
مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (9/ 415):
"والحديث يدل أيضًا على جواز أكل الجراد مطلقًا وقد حكى غير واحد من أهل العلم الإجماع على إباحة أكله، لكن فصل ابن العربي في شرح الترمذي بين جراد الحجاز وجراد الأندلس، فقال في جراد الأندلس: لايؤكل؛ لأنه محض، وهذا إن ثبت أنه يضر أكله بأن يكون فيه سمية تخصه دون غيره من الجراد البلاد تعين استثناؤه، كذا في الفتح".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144004201547
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
---------------
ٹدی دل --- کرونا کے بعد اگلی بھیانک عالمی وباء
Locusts--- Next Pandemic
ٹڈی دَل کیا ہے؟ یہ ٹڈیوں یعنی grasshoppers کی ایک مخصوص قسم ہے جو شدید سبزہ خور یعنی Gregarious ہوتے ہیں. ٹڈیوں کی 7000 اقسام میں سے 20 جدید شکل کی سبزی خور ہیں. یہ ٹڈی دَل اپنی ساخت، شکل اور رنگ تبدیل کرتے رہتے ہیں اور جیسے جیسے ان کو خوراک ملتی جاتی ہے، یہ مزید طاقتور، خطرناک اور بھیانک ہوتے جاتے ہیں اور جہاں جہاں سے گزرتے ہیں فصلوں اور سبز درختوں اور چراگاہوں کا صفایا کرکے تباہ و برباد کرتے جاتے ہیں. ٹڈی دل کی تعداد میں اضافہ بھی بھیانک شرح سے ہوتا ہے. ایک مادہ ایک دن میں 1000 انڈے دیتی ہے اور نمی میسر آجائے تو ان میں سے سینکڑوں انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں جو ٹڈی دل کی پہلے سے موجود فوج ظفر موج میں مزید لاکھوں کا روزانہ کی بنیاد پہ اضافہ کردیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ٹڈی دل کو دور سے آتے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے گرد کا کوئی خطرناک طوفان یا گہرے سیاہ بادل آگے بڑھ رہے ہوں. نئے ٹڈی دل میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ یہ زہریلے پودے اور پتے بھی کھا جاتا ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا. جو کہ اس کو مزید خطرناک بنادیتی ہے. ایک اندازے کے مطابق یہ ٹڈی دل ایک دن میں 90 میل سے زیادہ کا سفر بآسانی طے کرسکتے ہے. اور فصلوں کو چَٹ کرتے جاتے ہیں. یہ دانے دار فصلوں گندم، مکئ، باجرہ، چاول، چنا، دالوں، پھل دار درختوں کی سخت ترین دشمن ہے، جو کہ انسانی خوراک کیلئے انتہائی اہم ہیں. ایک اندازے کے مطابق ایک مربع کلومیٹر میں پھیلا ٹڈی دل لشکر تقریباً 35،000 انسانوں کی خوراک ایک دن میں چٹ کر جاتا ہے. آپ اسی سے اس وباء کے بھیانک پن کا اندازہ لگالیجئے.
اب آتے ہیں اس اہم سوال کی طرف کہ یہ موجودہ وباء کب اور کیسے پھوٹی؟
بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ خطہ عرب میں "ربع الخالی" کے علاقے میں دو عدد cyclones آنے کے باعث ٹڈی دل کو پانی اور نمی میسر آئے جس کے باعث اس کی افزایش میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا اور محض چند ماہ میں کروڑوں اربوں ٹڈی دل جمع ہوگئے اور جیسے ہی موسم گرم ہوا، انہوں نے یمن اور اومان کی جناب حجرت کردی. اور ایرن کے راستے پاکستان، جبکہ دوسری طرف افریقہ تک جا پہنچے. یہ تو وہ "سرکاری کہانی" ہے جو سنائی جا رہی ہے. مگر خود ٹڈی دل ماہرین حیران ہیں کہ کروڑوں اربوں ٹڈی دل کی افزایش "ربع الخالی" جیسے صحرا میں اس قدر تیزی سے کیسے ہوئی جبکہ وہاں سبزہ بھی نہیں ہے؟؟ جب آزاد ماہرین نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یمن کے بارڈر کے ساتھ، ربع الخالی کے صحرا میں انتہائی دور دراز اور ناقابلِ رسائی علاقے میں ایک خفیہ امریکی فوجی بیس ہے. جس میں ڈرونز کا علاقائی آڈہ بھی ہے جو یمن میں ڈرون حملوں اور نگرانی کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے جو 2011 میں بنایا گیا. یہ بات بھی ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ چھوٹے جہازوں اور ڈرونز کو مصنوعی بارش برسانے کیلئے عرصہ دراز سے استعمال کیا جارہا ہے. لہذا یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ امریکہ نے افریقہ، ایران، صومالیہ سوڈان پاکستان میں زرعی اجناس کو نقصان پہنچانے اور شدید زرعی بحران پیدا کرکے خوراک کی کمی کا شکار کرنے کی کوشش کی ہو. مصنوعی سائیکلون ، نمی اور مصنوعی بارش سے وہاں genetically modified locusts کی ایسی نسل کی افزایش کی گئی جو تیزی سے بڑھتے ہیں. جہاں سے ٹڈی دل وباء پھوٹی، آزاد ماہرین بھی وہاں سے ان لشکروں کے نکلنے پہ حیران ہیں، لہذا وہاں امریکی خفیہ فوجی بیس اور ڈرونز کی موجودگی conspiracy theory کو تقویت دیتی ہے. یاد رہے کہ genetically engineered locust کی تیاری کوئی نئ بات نہیں، فصلوں کیلئے نقصاندہ حشرات الارض کو کھانے کیلئے genetically engineered locust اور دیگر ٹڈیوں کی بڑے پیمانے پہ لیبارٹری میں تیاری open secret ہے، جو عام گوگل سرچ سے بھی دیکھی جاسکتی ہے.
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عالمی اشرافیہ خوراک کی سپلائی کو اپنے ہاتھ میں کرنا چاہتی ہے تاکہ جہاں ایک طرف وہ genetically modified food لوگوں کو کھلا سکیں، وہیں عالمِ انسانی کو اپنا محتاج بھی بناسکیں. چنانچہ ایسے ٹڈی دل حملوں کے بعد بڑے پیمانے پہ فصلوں اور زرعی زمینوں پہ خطرناک کیمیکلز کا سپرے کروایا جائے گا اور فضا سے بھی جہازوں کے ذریعے کیمیکل سپرے کیا جائے گا، جو بظاہر تو ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے ہوگا مگر اس کا اہم مقصد نیچرل فصلوں اور بیجوں کی تباہی اور زمینوں کی زرخیزی میں کمی ہوگا. جس کے بعد genetically modified بیجوں کے استعمال پہ ہی زور دیا جائے گا. جبکہ زیادہ اجناس ملٹی نیشنل کمپنیوں سے خریدی جانے لگیں گی.
اس وباء کو locusts infestation 2019-20 کا نام دیا گیا ہے. جبکہ موجودہ ٹڈی دل کو schistocerca gregaria اور desert locusts کا نام دیا جاتا ہے. یہ وباء اب تک جن ممالک کو شدید متاثر کرچکی ہے ان میں پاکستان سرفہرست ہے. دیگر ممالک میں صومالیہ، ایتھوپیا، یوگنڈا، سوڈان، یمن، سعودی عرب، ایران، بھارت شامل ہیں. تاہم پاکستان میں اس کا حملہ سب سے سخت ہے. بھارت نے اس وباء سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو تعاون کی درخواست بھی کردی ہے کیونکہ بھارت بھی اس سے شدید متاثر ہو رہا ہے.
ماہرین موجودہ ٹڈی دل حملے کو کرونا کے بعد ایک نئی اور خطرناک عالمی وباء قرار دے کر خبردار کررہے ہیں کہ اگر بروقت اس کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی گئی تو خوراک کا ایک عالمی بحران پیدا ہو سکتا ہے، جس سے لاکھوں لوگوں کی جان جاسکتی ہے. عالمی ادارہٴ خوراک نے اس عالمی ٹڈی دل وباء کے باعث عالمی سطح کے خوراک بحران کی پیش گوئی کر دی ہے. اقوام متحدہ کے Food and agriculture Organization نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران اس وبا سے شدید متاثر ہونگے. پاکستان میں حالیہ ٹڈی دل حملے سے نقصان کا تخمینہ، پاکستانی ماہرین کے مطابق 205 ارب روپے ہوسکتا ہے. جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے FAO کے مطابق پاکستان میں فصل ربیع کا نقصان 353 ارب روپے جبکہ خریف کا نقصان 464 ارب روپے ہوسکتا ہے. (پاکستان کا کل دفاعی بجٹ 1200 ارب ہوتا ہے، جبکہ محض ٹڈی دل سے ہونے والا نقصان 800 ارب سے زائد ہے، جس سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے- یہ اعداد وشمار ڈان نیوز نے 11 مئ کو شائع کئے ہیں)
اس عالمی وباء کو اللہ کا عزاب قرار دیا جائے، ہمارے انفرادی واجتماعی گناہوں کی سزا گردانا جائے، مسلمانوں پہ آزمائش یا کوئی عالمی سازش سمجھا جائے، یہ ایک قدرتی phenomenon ، بہرصورت ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام کی عموماً اور پاکستان کی زرعی یونیورسٹیوں میں خصوصاً جنگی بنیادوں پہ اس حوالے سے تحقیق کی جائے اور ٹڈی دل سے نجات کے طریقوں پہ غور کرکے ایسا لائحہ عمل اپنایا جائے کہ جس سے کم سے کم نقصان ہو اور سائنسدانوں کے ساتھ مل کے ایسا سپرے تیار کیا جائے جس سے فصلوں و زمین کی زرخیزی کو قطعاً نقصان نہ پہنچے. جن عالمی اداروں کے مشورے پہ سپرے کی جائے، اس سپرے کو اپنی لیبارٹریوں میں مکمل تحقیق کے ساتھ چیک کیا جائے اور اس کے مضر اثرات یا side effects سامنے آنے پہ نہ صرف وہ کیمیکل استعمال نہ کیا جائے ایسے کیمیکل بنانے والوں پہ ہرجانے کا دعویٰ بھی کیا جائے. اور عالمی فورمز پہ اس حوالے سے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا جائے. اس سلسلے میں آزاد عالمی ماہرین اور زراعت کے شعبے میں ترقی یافتہ اسلامی ممالک کے ماہرین سے بھی مدد اور مشاورت لے جائے. پاکستان جو کہ پہلے ہی خوراک کی شدید کمی کا شکار ہے، اس وباء کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا. پاکستان میں 70 سال بعد ٹڈی دل کا یہ بدترین حملہ ہے. کراچی میں گزشتہ 70 سال جبکہ پنجاب اور کے پی میں نقصانات کا گزشتہ 25 سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے.
(ماخوذ)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_28.html?m=1
No comments:
Post a Comment