Sunday, 17 May 2020

یادرفتگاں: شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ: ۱۹۹۳-۱۹۲۷

یادرفتگاں: شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ 
﴿۱۹۹۳-۱۹۲۷﴾
سب کو موت کی یاد دلانے والے شمس نوید عثمانی رحمتہ الہ علیہ کو موت کی آغوش میں سوئے ہوئے سترہ برس کاعرصہ گزر گیا۔ لیکن ایسامعلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان اب بھی موجود ہیں، ہم سب کو تعارف اسلام اور دعوتی جدوجہد کے لئے اکسارہے ہیں اور صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی زندگیوں کو ہمارے سامنے اس طرح پیش کررہے ہیں گویا ہم بھی اُسی مقدس دور میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ موت کی یاد اور آخرت کے احساس سے خود بھی تڑپنا اور دوسروں کو بھی تڑپانا ان کا وظیفۂ زندگی تھا۔
جناب شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ ایک بلندپایہ اسلامی ادیب بھی تھے اور پُرگو شاعر بھی۔ اسلامی اور اسلام پسندی کا ٹائٹل بہت عام ہوگیا ہے۔ ہم ہر اُس شاعر وادیب کو اسلام پسند یا اسلامی کہہ دیتے ہیں، جو کسی اسلامی تنظیم سے وابستہ ہو یا اس کی دوچار نگارشوں میں اسلام کا ذکر آگیا ہو۔ لیکن جناب شمس نوید عثمانی ہند-پاک کے اُن چند ادیبوں اور شاعروں میں تھے، جنھیں صحیح معنوں میں اسلام پسند یا اسلامی ادیب کہا جانا چاہئے۔ ان کی پوری زندگی ملک نصراللہ خاں عزیز رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کا مصداق تھی:
مری زندگی کا مقصد، ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں، میں اسی لئے نمازی
شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ ادبی دنیا میں ماہ نامہ تجلّی دیوبند کے مستقل کالم ’کیا ہم مسلمان ہیں؟‘ سے متعارف ہوئے۔ پھر یہی کالم اُن کی شناخت بن گیا۔ ’تجلّی‘ کی بے پناہ مقبولیت میں مدیر تجلّی کے دوسرے مستقل عنوانوں کے ساتھ ساتھ جناب شمس نوید عثمانی کے مستقل کالم ’کیا ہم مسلمان ہیں؟‘ کو بھی بہت کچھ دخل تھا۔ مدیر تجلّی مولانا عامر عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ لیکن اس کے تین حصّے جو کتابی صورت میں شائع ہوئے ہیں، وہ اسلامی ادب میں شہ پارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد تینوں حصّے یک جا کردیے گئے اور ان کی اہلیہ محترمہ خدیجہ نوید عثمانی کی اجازت سے یہ کتاب ملک کے عظیم اشاعتی ادارے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہورہی ہے۔
جناب شمس ۷۲۹۱ میں دیوبند کے معزز و علمی خانوادے ﴿خانوادۂ عثمانی﴾ میں پیدا ہوئے۔ شیخ الاسلام علاّمہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے برادر زادے اور تحریک اسلامی کے بے باک نقیب حضرت مولانا عامر عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے برادرِ عمّ زاد اور بہنوئی تھے۔ ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو نکھارنے اور پروان چڑھانے میں مولانا عامر عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی برادرانہ و مشفقانہ توجّہ کو بھی دخل تھا۔
جناب شمس نوید عثمانی زبان و قلم کے ہی نہیں کردار و عمل کے بھی غازی تھے۔ بل کہ اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگاکہ مرحوم جتنا کہتے یا لکھتے تھے، اس سے زیادہ عمل کرتے تھے۔ اپنے کردار و عمل کو بنانے اور سنوارنے کی کوشش سے وہ کبھی غافل نہیں رہے۔ راقم الحروف کی کم و بیش بیس سال تک اُن سے کسی نہ کسی درجے میں وابستگی رہی ہے، اس دوران میں انھیں دور و نزدیک سے بھی دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا ہے اور سفر و حضر میں بھی۔ کبھی اور کسی موقعے پر ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ملا۔ نہ کسی کی غیبت و بدگوئی ان کی زبان سے سننے کو ملی اور نہ کوئی خلافِ واقعہ بات یا کسی قسم کا شکوہ و شکایت۔ میں عمر کی تقریباً ساٹھ منزلیں طے کرچکا ہوں۔ اس عمر میں تقریباً ہر سطح اور ہرمکتب فکر کے لوگوں سے مراسم رہے، لیکن ایسے لوگ معدودے چند ہی مل سکے ہیں، جنھیں تقویٰ، طہارت، احتیاط، خداترسی، آخرت بینی، اخلاص، للہیت، احساس ذمّے داری، اداے حقوق اور اتباعِ سنت میں مرحوم کا ہم سر و مثیل کہا جاسکے۔
موت سے تقریباً دس گھنٹے پہلے کی بات ہے، جناب عمر فاروق عثمانی ﴿مولانا عامر عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے برادرِ خرد اور شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے برادرنسبتی﴾ اور مولانا حسن احمد صدیقی ﴿مولانا عامر عثمانی کے داماد، جو اِن دنوں حسن الہاشمی کے نام سے جانے جاتے ہیں﴾ مرحوم کی اہلیہ محترمہ خدیجہ نوید عثمانی کی علالت کی خبر پاکر رام پور گئے ہوئے تھے۔ حسن صاحب تو کچھ وقت گزارکر وہاں سے بریلی چلے گئے، لیکن بھائی فاروق صاحب اپنی بہن کی حالت کسی قدر زیادہ خراب دیکھ کر وہیں رک گئے۔ اس لئے کہ شمس صاحب گھر میں تنہا تھے۔ تیمارداری اور دوا لانے اور کھلانے کا کام تنہا ایک فرد کے بس کی بات نہیں ہوتا۔ شمس صاحب نے اپنے برادرِ نسبتی کی ضیافت کے لئے بازار سے سیب منگوائے۔ چھلکوں والے سیب خود کھاتے رہے اور بھائی فاروق صاحب کو چھلکے اُتارکر دیتے رہے، جب سیب کھاچکے تو چھلکے ایک کاغذ کی تھیلی میں ڈال کر پلنگ کے نیچے رکھ دیے۔ فاروق صاحب صورت حال سے واقف نہیں تھے۔ انھوں نے چھلکوں کی تھیلی اُٹھائی کہ اُسے کوڑے دان میں ڈال دیں۔ بھائی شمس مرحوم نے فوراً ان کے ہاتھ سے تھیلی لے لی اور کہاکہ اسے میں پھینکوں گا۔ چنانچہ تھوڑی دیر بعد انھوں نے تھیلی اُٹھائی اور بہت دور کہیں لے جاکر اُسے پھینکا۔ اُن کی اہلیہ نے بتایاکہ اُن کایہ عمل کئی برسوں سے ہے کہ وہ پھلوں کے چھلکے کوڑے دان میں محض اس وجہ سے نہیں ڈالتے کہ اُسے بھنگن اُٹھاکر لے جاتی ہے اور جب وہ پھلوں کے چھلکے دیکھے گی تو اُس غریب کے دل میں یقینا کسک پیدا ہوگی۔ خدا جانے اس کے بچوں کو پھل کھانے کو ملتے ہیں یا نہیں۔
 شمس نویدعثمانی مرحوم کرایے کے جس مکان میں رہتے تھے، وہ بالائی منزل پر تھا۔ نیچے سے اوپر پانی لے جانے میں انھیں بڑی دقت ہوتی تھی۔ بعض دوستوں نے دوڑ دھوپ کر میونسپلٹی سے رننگ واٹر کا نظم کروادیا۔ کاغذی کارروائیوں سے پانی تو جاری ہوگیا، لیکن اور دوسری چیزیں باقی رہ گئیں، جس کی وجہ سے وہ گڈھا نہیں پاٹا جاسکا، جو اس سلسلے میں کھودا گیا تھا۔ مرحوم پانی کے نظم سے تو خوش ہوئے لیکن، انھیں یہ خدشہ لاحق ہوگیاکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ رات کے اندھیرے میں کوئی ادھر سے گزرے اور اس گڈھے میں گرپڑے۔ چنانچہ انھوں نے لالٹین جلائی اور اُس کو گڈھے کے پاس رکھ دیا۔ تراویح پڑھ کر خود بھی اسی کے پاس بیٹھے پوری رات نگہبانی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وہیں سحری بھی کھائی۔ صبح کو جب خوب روشنی ہوگئی، تب وہ وہاں سے ہٹے۔
ایک مرتبہ دیکھاکہ کسی چیز سے وہ ایک اٹھنی کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب وجہ پوچھی گئی تو بتایاکہ کسی دکان دار نے غلطی سے یہ کھوٹی اٹھنّی انھیں دے دی تھی۔ وہ اس غرض سے توڑرہے ہیں کہ اگر اُسے یوں ہی پھینک دیں گے تو ممکن ہے کہ کسی کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاکر کسی دوسرے بھائی کو نقصان پہنچادے۔
یہ محض چند واقعات نمونے کے طور پر نقل کردیے گئے۔ ورنہ ان کی زندگی میں اِس قسم کے ایک دو نہیں لاتعداد واقعات بکھرے پڑے ہیں۔ یہ واقعات بہ ظاہر بہت معمولی ہیں، لیکن ان کی تہہ میں خداترسی اور حقوق شناسی کی جو دنیا بسی ہوئی ہے، اسے بس محسوس کیا جاسکتا ہے۔
جناب شمس نوید عثمانی رحمۃ اللہ علیہ زندگی کے آخری دس پندرہ برسوں میں ہندستان کے قدیم مذاہب کا مطالعہ کررہے تھے۔ ان کے اس مطالعے کے جو نتائج کتابوں اور مضامین کی شکل میں شائع ہوتے رہے ہیں، اُن سے علمی دنیا میں خاصا اضطراب رہا۔ راقم الحروف بھی قدیم نیاز مندانہ تعلق کے باوجود اس ذیل میں اُن سے متفق نہیں ہوسکا۔ اپنے اختلاف کا اظہار اُن سے بھی کیا ہے اور اُن کے ارادت مندوں سے بھی۔ ملک کے دوسرے علمی حلقوں کی طرف سے بھی تنقیدیں ہوئیں۔ بالعموم لوگوں نے ان کی اِس کوشش کو پسند نہیں کیا۔ لیکن ان کے اخلاص وللہیت اور خداترسی کا اعتراف ہر ایک کو رہا اور ہے۔ وہ جو کچھ کررہے تھے، اُسے اپنا فریضہ سمجھ کر کررہے تھے۔ ہم نے یہ منظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کسی نے بتایاکہ ’فلاں محلّے میں ایک غیرمسلم ہیں، وہ آپ کے پیغام کو سمجھنے کے لئے آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، جب آپ کہیں انھیں آپ کے پاس بلایاجائے۔‘ بس اُسی وقت وہ کھڑے ہوگئے۔ وقت خواہ کچھ بھی رہا ہو۔ اس شخص کے ہاں پہنچنے اور اپنے مخصوص انداز میں اس تک اسلام کی دعوت پہنچائی اور چلتے وقت اُس شخص سے لپٹ کر بہت بہت دیر تک روتے رہے اور جب وہاں سے لوٹ کر گھر آئے تو وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھی اور اس غیرمسلم بھائی کے لئے گھنٹوں دعائیں کیں۔ اِس قسم کے متعدد واقعات ایسے ہیں، جن میں میں بھی شریک رہا ہوں۔
۱۹۹۰ کے کسی مہینے کا ذکر ہے۔ رام پور میں اُن کی کتاب کے حوالے سے ایک غیرمسلم وکیل نے ایک مضمون لکھا۔ وہ مضمون رام پور کے ایک مقامی ہندی اخبار میں شائع ہوا۔.مضمون رام پور کے مسلمانوں کے لئے کسی قدر دل آزار تھا۔ چنانچہ اس کے خلاف جلوس نکلے اور مضمون نگار کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ گرفتاری عمل میں بھی آگئی۔ شمس صاحب حالات کو مکّدر دیکھ کر لوگوں کے مشورے سے دیوبند آگئے۔ یہاں آکر انھوں نے تین چار افراد پر مشتمل ایک میٹنگ کی۔ ازراہِ ذرّہ نوازی مجھے بھی بلایا۔ فرمایا:
‘‘غیرمسلم بھائی نے جو نتیجہ میری تحریر سے نکالا ہے، وہ درست ہے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلنا چاہئے تھا۔ میرے الفاظ وضاحت طلب ہیں۔ میں چاہتاہوں کہ وضاحت کرکے اخبارات میں بھیج دوں۔ تاکہ آئندہ کسی غیرمسلم بھائی کو وہ مفہوم اخذ کرنے کا موقع نہ ملے جو ہمارے مسلم بھائیوں کی دل آزاری کا سبب بنا۔ ورنہ سارا گناہ میرے ہی کھاتے میں جائے گا۔’’
ایک مولانا صاحب جو کہ اُن کے مشن میں کئی ماہ سے لگے ہوئے تھے۔ اُنھیں مرحوم کا یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ خدا جانے کیوں ان کی رائے تھی کہ ابھی وضاحت کرنا قبل از وقت ہوگا اور ہمارے مشن کے لئے مفید نہیں ثابت ہوگا۔ لیکن مرحوم نے بڑی سختی سے اپنے فیصلے پر عمل کرنے کا اعلان کیا اور فرمایا:
‘‘آپ کہتے ہیں کہ ابھی وضاحت کا وقت نہیں آیا، اگر میں اس دوران میں مرگیا اور وضاحت نہ کی تو جس طرح ایک ہندو بھائی نے اس سے غلط نتیجہ اخذ کرلیا، اسی طرح نہ جانے کتنے لوگ گم راہ ہوتے رہیں گے۔’’
چنانچہ انھوں نے عشاء کے بعد کا وقت مقرر کیا کہ ہم لوگ وہاں جمع ہوں تاکہ وہ وضاحت آمیز معذرت نامے کا مسودہ تیار کرکے سنائیں اور باہمی نقد و تبصرہ اور رائے و مشورہ کے بعد اُسے اخبارات کو بھیجاجاسکے۔ راقم الحروف طے شدہ پروگرام کے مطابق عشاء کی نمازپڑھ کر اُن کی قیام گاہ پر پہنچا تو وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ بارہ بجے تک انتظار کرنے کے بعد جب میں واپس ہونے لگا تو اچانک سامنے سے وہ آگئے ان کے ہم راہ دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ وہ مولانا صاحب بھی تھے، جو اِس بات سے متفق نہیں تھے کہ مرحوم شمس صاحب کسی قسم کی وضاحت شائع کریں۔ مرحوم نے دور سے ہی دیکھ کر معذرت آمیز لہجے میں فرمایا : ’بھائی تابش صاحب! دوستوں کا شدید اصرار ہے کہ ابھی میں ایک دو روز مزید اپنے فیصلے پر غورنکروں۔
جناب شمس نوید عثمانی دینی قدروں کے معاملے میں بہت حساس واقع ہوئے تھے۔ رام پور میں ایک صاحب تھے جو کہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ اپنے افکار و خیالات میں بہت آزاد واقع ہوئے تھے۔ دینی احکام کی من مانی تعبیر وتوجیہہ ان کا مزاج بن چکا تھا۔ چودھری غلام احمد پرویز کو وہ اپنا فکری ہیرو بتاتے تھے۔ قادیانیوں کے سلسلے میں بھی ان کے نظریات عام مسلمانوں سے مختلف تھے۔ مرکزی مکتبہ اسلامی کو کسی مسئلے میں انھیں خط لکھنا تھا، لیکن ڈاک کا پتا معلوم نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً خط لکھ کر بھائی شمس مرحوم کے پتے پر پوسٹ کردیا گیا۔ اس لئے کہ ماضی میں ان سے ان کے اچھے مراسم رہے ہیں۔ چند دنوں بعد وہ لفافہ کھولے بغیرایک دوسرے لفافے میں رکھ کر میرے نام واپس کردیا۔ اس کے ساتھ یہ خط بھی تھا:
"رامپور
۱۸/ اکتوبر ۹۲؁
برادرمحترم!                               
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘
﴿...صاحب﴾ کے نام یہ لفافہ آپ نے میری معرفت روانہ کیا ہے۔ افسوس کہ جس ... سے میرا تعلق تھا، وہ بقول خود ان کے مرگیا ہے۔ موجودہ ... سے اور ان کے موجودہ خلاف کتاب و سنت وفکرو نظر سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور میں اتنا بھی جائز نہیں سمجھتاکہ ان کی ڈاک میں آیندہ آپ میری وساطت و معرفت، کو استعمال فرمائیں۔ مجھے بے حد دکھ کے ساتھ اور خوف خدا اور .... کے متعلق عبرت اور دعاء خیر کے فرض کی بھرپور ادائی کی تڑپ کے ساتھ یہ چند سطور لکھنی پڑرہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سابقہ ... کو ان کے نام کے مطابق اور ہمیں بھی ہمارے ناموں کے مطابق ہمیشہ کے لئے اسم باسمیٰ بنائے اور خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین                                                شمس نوید"
خط میں جہاں انھوں نے ان صاحب کا نام لکھا تھا، وہاں میں نے تین نقطے لگادیے ہیں، تاکہ ان کے عزیزوں کو تکلیف نہ پہنچے۔ اس لئے کہ اب وہ بھی دنیا میں نہیں رہے۔ ان کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
بھائی شمس نوید عثمانی کے اس خط سے کتاب و سنت سے ان کے والہانہ تعلق اور غیرمعمولی وابستگی و شیفتگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ورنہ اب تو بڑی سے بڑی گم راہی اور کتاب و سنت سے ہٹی ہوئی بات محض نقطہ نظر کا اختلاف کہہ کر نظرانداز کردی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ عذاب قبر، رفعِ مسیح، سزاے رجم، مرتد کی سزا، معراج اور معجزہ جیسے متفق علیہ احکام و مسائل کے انکار بل کہ مذاق اور تمسخر محض نقطہ نظر کا اختلاف کہہ کر بات ختم کردی جاتی ہے۔ میں اِسے دینی قدروں سے بے تعلقی اور یک گونہ بے حسی سمجھتا ہوں۔
جناب شمس نوید کو اپنے مطالعۂ مذاہب کے مشن سے اس درجہ تعلق تھا کہ انھوں نے اپنی سرکاری ملازمت سے سبک دوشی اختیارکرلی اور بہت محدود پنشن پر گزراوقات کرتے رہے۔ ان کے نیازمندوں کو رہ رہ کر یہ خیال آتا ہے کہ کاش انھوں نے عمر کے آخری حصّے تک اپنے اُس تحریری سلسلے کیا ہم مسلمان ہیں؟ کو بھی باقی رکھا ہوتا، جو ان کی داعیانہ تڑپ کا مؤثر نمونہ اور اسلامی ادب کا قیمتی ذخیرہ تھا اور جسے پڑھ کر نہ جانے کتنی زندگیوں میں نیکی و تقویٰ اور خدا ترسی و آخرت بینی کی برق دوڑگئی۔
پیدا کہاں ہیں ایسے فرشتہ صفات لوگ
افسوس تم کو میر  سے صحبت نہیں رہی
(بشکریہ ماہ نامہ 'زندگی')
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_17.html?m=1

1 comment:

  1. السلام علیکم ، کیا ان کے سب مضامین کا کوئی مجموعہ شائع شدہ ہے ؟

    ReplyDelete