رمضان کے قضا روزے ذمہ میں ہوتے ہوئے اگر دوسرا رمضان آجائے؟
ہر عاقل، بالغ اور مسلمان مرد وعورت پر ماہِ رمضان کے روزے فرض ہیں، سفرشرعی، بیماری اور خواتین کو حالتِ حمل وغیرہ میں روزہ رکھنے میں رخصت دی گئی ہے۔ اگر ان حالتوں میں روزہ نہ رکھا جائے تو ان کے ختم ہونے کی مدت کے بعد رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنا ضروری ہے۔
کسی عذر کی وجہ سے رمضان کا روزہ نہ رکھنے یا رکھ کر کسی عذرِ شرعی کی وجہ سے توڑدینے، ٹوٹ جانے اسی طرح نفلی روزہ رکھ کر توڑ دینے سے روزے کی صرف قضا لازم ہوتی ہے۔ کفارہ نہیں۔
رمضان کا روزہ رکھ کر جان بوجھ کر کھا پی کر، یا ہمبستری کرکے روزہ توڑ دینے سے قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوجاتا ہے۔ یہ کفارہ مسلسل ساٹھ روزے رکھنے کی صورت میں ادا ہوتا ہے اور اگر روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں ہو تو ایک روزے کا فدیہ ساٹھ مسکینوں کو پیٹ بھرکر دو وقت کا کھانا کھلانا ضروری ہے۔
اگر کسی کے رمضان کے روزے قضا ہوگئے ہوں تو جب بھی وقت ملے اور جس قدر جلدی ہوسکے قضا کرلینا بہتر ہے، بلاوجہ تاخیر کرنا بہتر نہیں:
[1]۔ وقضوا لزوماما قدروا بلا فدية و بلا ولاء لأنه على التراخي(ردالمحتار،کتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة۔۔۔) إذا كثرت الفوائت يحتاج لتعيين كل صلاةيقضيها لتزاحم الفروض والأوقات۔۔۔ فإن أراد تسهيل الأمر عليه نوى أول ظهر عليه۔۔۔ وكذا الصوم الذي عليه من رمضانين إذا أراد قضاءه يفعل مثل هذا(مراقی الفلاح ،کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت) إذا أكل متعمدا ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة (الفتاویٰ الھندیۃ،ص 76، الناشر دارالفكر، سنة النشر 1411هـ 1991 م) فيعتق أولا فإن لم يجد صام شهرين متتابعين فإن لم يستطع أطعم ستين مسكينا (ردالمحتار، کتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم)
ائمہ اربعہ کا اس مسئلے پر اتفاق ہے کہ جس کے رمضان کے روزے قضا ہوگئے ہوں وہ آنے والے رمضان سے پہلے پہلے پورے ایک سال میں جب چاہے (ایام منہیہ چھوڑکر) ان فوت شدہ روزوں کی قضا کرلے، رمضان کے روزوں کی قضا ہر ایک امام کے یہاں علی الفور واجب نہیں ہے؛ بلکہ ایک سال کے اندر اندر اسے قضا کرلینے کی گنجائش رہتی ہے۔ لیکن اگر پہلے رمضان کے روزے کی قضا ابھی نہیں کی گئی تھی کہ دوسرا رمضان آگیا تو اب کیا کرے؟ تو یہاں سے ائمہ مجتہدین کی آراء مختلف ہوگئی ہیں، ائمہ ثلاثہ کا خیال ہے کہ عذر مثلا بیماری وغیرہ کے تسلسل کی وجہ سے اتنی تاخیر ہوئی کہ دوسرا رمضان آگیا تب تو کوئی حرج وگناہ نہیں؛ کیونکہ وہ معذور ہے، اب بھی صرف قضا ہی واجب ہوگی، لیکن اگر بغیر عذر اتنی تاخیر کردی کہ دوسرا رمضان آگیا تو اب اس تاخیر بے جا کا مالی جرمانہ ادا کرنا ہوگا، یعنی اب صرف قضا سے کام نہیں چلے گا: بلکہ ہر روزہ کی قضا کے ساتھ ہر ایک روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا یا غلہ (تقریبا ڈیڑھ کلو غلہ) دینا (فدیہ) بھی ضروری ہوگا، اور وہ گنہگار بھی ہوگا۔ ائمہ ثلاثہ کے پیش نظر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے:
مَن أدرَكَ رمضانَ وعليهِ من رمضانَ شيءٌ لم يَقضِهِ، لم يتقبَّل مِنهُ، ومَن صامَ تطوُّعًا وعليهِ من رمضانَ شيءٌ لم يقضِهِ، فإنَّهُ لا يتقبَّلُ منهُ حتَّى يَصومَهُ۔ (أخرجه أحمد (8621) والطبراني في ((المعجم الأوسط)) (3284) مختصراً.
(حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس پر گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہے، اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہیں ہوں گے اور جس نے نفلی روزے رکھے، جبکہ اس پر رمضان کے روزوں کی قضاباقی تھی، اس کے نفلی روزے قبول نہیں ہوں گے، حتٰی کہ وہ قضا روزے رکھ لے) جبکہ احناف، شافعیہ میں امام مزنی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا ایک قول، امام بخاری اور امام شوکانی اور اصحاب ظواہر رحمہم اللہ کا مسلک یہ ہے کہ بتصریح قرآن کریم رمضان کے روزوں کی قضا کی بات فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ (البقرہ 184۔۔۔ تو دوسرے دنوں میں عدد پوراکرنا لازم ہے) مطلق آئی ہے، اس میں قضا کے لئے مہہ وسال کی کوئی قید نہیں ہے، لہذا رمضان کی قضا تراخی پر مبنی ہے، انسان پوری زندگی میں جب چاہے رمضان کے روزوں کی قضا کرسکتا ہے۔ نہ گنہگار ہوگا نہ قضا کے ساتھ مزید کوئی مالی جرمانہ (واجب) ہوگا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے "مَتٰی یُقضیٰ قَضَاءُ رَمَضَانَ؟ (رمضان کے روزوں کی قضا کب کی جائے) کے نام سے مستقل باب قائم فرماکر اس کے تحت انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے درج ذیل روایات بیان فرمائی ہیں:
بَاب مَتَى يُقْضَى قَضَاءُ رَمَضَانَ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَا بَأْسَ أَنْ يُفَرَّقَ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ فِي صَوْمِ الْعَشْرِ لَا يَصْلُحُ حَتَّى يَبْدَأَ بِرَمَضَانَ وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ إِذَا فَرَّطَ حَتَّى جَاءَ رَمَضَانُ آخَرُ يَصُومُهُمَا وَلَمْ يَرَ عَلَيْهِ طَعَامًا وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مُرْسَلًا وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ يُطْعِمُ وَلَمْ يَذْكُرْ اللَّهُ الْإِطْعَامَ إِنَّمَا قَالَ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
1849 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلَّا فِي شَعْبَانَ قَالَ يَحْيَى الشُّغْلُ مِنْ النَّبِيِّ أَوْ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (فتح الباری ج 4 ص 222)
"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگریہ روزے مُتفرق رکھے جائیں توکوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو دوسرے دنوں میں عدد (پوراکرنا لازم ہے)، (سورۃ البقرہ:184)‘‘۔ قضا روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ بلاناغہ تسلسل کے ساتھ رکھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اپنی سہولت کے مطابق بیچ میں وقفہ بھی کرسکتے ہیں۔ نیز قضائے رمضان کا روزہ غیر رمضان میں اگر رکھنے کے بعدکسی وجہ سے ٹوٹ جائے یاتوڑ دیاجائے تو اس کا کفارہ نہیں ہے، صرف قضا ہے۔ ترجمہ: ’’ابوسلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے سنا: میرے ذمے ماہِ رمضان کے روزوں کی قضا ہوتی تھی اور میں ان کو صرف شعبان کے مہینے میں قضا کرسکتی تھی۔ یحییٰ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشغولیت کی وجہ سے یا آپ کے سبب سے مشغولیت کی وجہ سے، (صحیح بخاری :1950)‘‘۔ (فتح الباری ج 4 ص 222)
امام بخاری رحمہ اللہ نے ابراہیم نخعی کا مسلک بھی یہی بتایا کہ دوسرا رمضان آجانے کے بعد بھی صرف قضا ہی لازم ہے فدیہ کے وجوب کے وہ بھی قائل نہیں تھے: قَوْلُهُ: (وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ) أَيِ: النَّخَعِيُّ (إِذَا فَرَّطَ حَتَّى جَاءَ رَمَضَانُ آخَرُ يَصُومُهُمَا، وَلَمْ يَرَ عَلَيْهِ إِطْعَامًا) باب نمبر 40
اس حدیث سے معلوم ہواکہ رمضان کے روزوں کی قضا علیٰ الفور واجب نہیں ہوتی، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ذمے عائد ماہِ رمضان کے روزوں کی قضا اگلے رمضان کے آغاز سے قبل ماہِ شعبان میں کرتی تھیں۔ اگر علی الفور بلاتاخیر قضا واجب ہوتی تو وہ روزوں کی قضا شعبان تک موخر نہ کرتیں۔
ائمہ ثلاثہ نے مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جس روایت "(جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس پر گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہے، اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہیں ہوں گے اور جس نے نفلی روزے رکھے، جبکہ اس پر رمضان کے روزوں کی قضا باقی تھی، اس کے نفلی روزے قبول نہیں ہوں گے، حتٰی کہ وہ قضا روزے رکھ لے) سے استدلال فرمایا ہے وہ روایت مضطرب اور ضعیف ہے، اس لئے اس سے استدلال درست نہیں۔
مشہور محقق علامہ شعیب ارناؤط رحمہ اللہ نے اپنی تخریج مسند احمد بن حنبل میں اسے ضعیف الاسناد کہا ہے:
مَنْ أَدرَكَ رمضانَ وعليه مِن رمضانَ شيءٌ لم يَقضِه؛ لم يُتَقَبَّلْ منه، ومَن صام تَطوُّعًا وعليه مِن رمضانَ شيءٌ لم يَقْضِه؛ فإنَّه لا يُتقَبَّلُ منه حتى يَصومَه (عن أبی هريرة: شعيب الأرناؤوط: تخريج المسند. 8621، إسناده ضعيف)
البانی نے بھی سلسلہ الضعیفہ میں اسے ضعیف کہا ہے:
مَن أَدْرَكَ رمضانَ، وعليه من رمضانَ شيءٌ لم يَقْضِهِ، لم يُتَقَبَّلْ منه، ومَن صام تَطَوُّعًا وعليه من رمضانَ شيءٌ لم يَقْضِهِ، فإنه لا يُتَقَبَّلُ منه حتى يصومَه (السلسلة الضعيفة. 838. إسناده ضعيف)
اس حدیث کے راویوں میں ابن لہیعہ ہے جو ائمہ جرح وتعدیل کے یہاں ضعیف راوی ہے، اس لئے اس کی روایت بھی ضعیف ہوگی, یہ روایت ناقابل استدلال اس لئے بھی ہے کہ شافعیہ اور ومالکیہ کا عمل خود اس روایت کے دوسرے جزء پہ نہیں ہے، روایت کا دوسرا جزء بتاتا ہے کہ جس کے ذمہ رمضان کی قضا باقی ہو اس کا نفل روزہ صحیح نہیں ہوگا، جبکہ حنابلہ کے سوا ائمہ ثلاثہ کا مسلک یہ ہے کہ ذمے میں رمضان کی قضا رہتے ہوئے اگر شوال کے چھ نفلی روزے یا عاشورہ وتاسوعہ وغیرہ کا روزہ کوئی رکھنا چاہے تو بالکل جائز ہے، رکھ سکتا ہے، احناف کے یہاں بغیر کراہت کے جائز ہے جبکہ شافعیہ ومالکیہ کے یہاں کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
قابل غور ہے کہ جس روایت کا آخر خصہ خود ائمہ ثلاثہ (حنابلہ کا ایک قول بھی جواز کا ہے) کے ہاں متروک ہو تو بھلا اس کا شروع حصہ دوسروں کے یہاں کیسے معمول ہوجائے گا؟
فنی ضعف سے قطع نظر یہ روایت آیت قرآنی کے بھی صریح معارض ومخالف ہے، آیت قرآنی میں صاف لفظوں میں قضائے رمضان کے لئے وقت کی کوئی تحدید نہیں کی گئی (فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ۔۔۔ دوسرے دنوں میں عدد پوراکرنا لازم ہے) جبکہ ایک ضعیف اور مضطرب ومتروک البعض روایت اس کے مد مقابل قضاء رمضان کو ایک سال کی مدت کے ساتھ مقید کررہی ہے، مسلمہ اصول ہے کہ جو حدیث آیت قرآنی کے معارض ہو اسے ترک کردیا جاتا ہے، اس لئے شوکانی اور دیگر حنبلی وشافعی ائمہ نے اس حدیث کو ترک کرکے اس کے خلاف موقف اپنایا ہے۔
انہی وجوہات کی بنا پر حضرات حنفیہ کا کہنا ہے کہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے بہتر ہے کہ جتنی جلد ہوسکے قضا کرلئے جائیں، تاہم اگر قضا نہ کئے گئے کہ دوسرا رمضان آگیا تو اب قضا چھوڑکر سامنے والے رمضان کا روزہ رکھنا ضروری ہے، بعد میں اسے جب قدرت وسہولت ہو پچھلے سالوں کے روزوں کی قضا کرے، فوت شدہ روزوں کی قضا سے پہلے نفلی روزہ رکھنا بھی جائز ہے اور سامنے والے رمضان کا روزہ رکھنا بھی جائز ہے، اس بابت مسند احمد وغیرہ کی جو حدیث پیش کی جاتی ہے وہ درجہ صحت نہ پہنچنے کی وجہ سے قابل استدلال واحتجاج نہیں، امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک بھی وہی ہے جو امام الائمہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔ الدرالمختار میں ہے:
(وَقَضَوْا) لُزُومًا (مَا قَدَّرُوا بِلَا فِدْيَةٍ وَ) بِلَا (وَلَاءٍ) لِأَنَّهُ عَلَى التَّرَاخِي وَلِذَا جَازَ التَّطَوُّعُ قَبْلَهُ بِخِلَافِ قَضَاءِ الصَّلَاةِ. ردالمحتار مع الدرالمختار 2 [ص: 421] فَصْلٌ فِي الْعَوَارِضِ الْمُبِيحَةِ لِعَدَمِ الصَّوْمِ...
’’جن ایام میں وہ (روزہ رکھنے پر) قادر ہو، وہ فدیہ کے بغیر ان کی قضا رکھے اوران کو پے درپے رکھنا بھی لازم نہیں ہے، کیونکہ روزے کی قضا کاحکم (فوری نہیں بلکہ) تراخی پر مبنی ہے، اسی وجہ سے قضا سے پہلے نفلی روزہ رکھنا جائز ہے، نماز کی قضا کا معاملہ مختلف ہے اور اگر دوسرا رمضان آجائے تو ادا کو قضا پر مقدم کرے گا اور اس پر کوئی فدیہ نہیں ہوگا‘‘۔ اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
’’علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول: اگر (گزشتہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنے سے پہلے اگلا رمضان آجائے تو) ادا کو قضا پر مقدم کرے گا، یعنی اسے یہی کرنا چاہئے، ورنہ اگر اس نے اگلے رمضان کے روزے (پچھلے رمضان کی) قضا کی نیت سے رکھے، تو پھر اسی رمضان کے ادا روزے شمار ہوں گے، جیساکہ ’’نہر‘‘ میں ہے، میں کہتا ہوں: بلکہ ظاہر یہ ہے کہ رواں رمضان کے ادا رکھنے ہی واجب ہیں، کیونکہ کتاب الصوم کے آغاز میں گزرچکا ہے کہ اگر اس نے نفل یا کسی اور واجب کی نیت کی تو اس پر کفر کا خطرہ ہے، غور کرنا چاہئے، (حاشیہ ابن عابدین شامی، جلد 6، ص: 355، دمشق)‘‘
واللہ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment