Tuesday 12 May 2020

قرآن و سنت کی روشنی میں ارطغرل ڈرامہ

قرآن و سنت کی روشنی میں ارطغرل ڈرامہ

✏ فضیل احمد ناصری 

آج کل ایک ڈرامہ مسلم نوجوانوں میں بڑا مقبول ہے۔ یہ ترکی حکومت کا تیار کردہ ڈرامہ ہے، جسے ار طُغرُل غازی کا نام دیا گیا ہے۔ 'ار طغرل' 'ط' اور 'ر' کے پیش کے ساتھ ہے۔ ڈاکٹر اقبال کا مشہور شعر ہے: 
کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
غلامِ طغرل و سنجر نہیں میں
'ار' اور 'طغرل' یہ دونوں ترکی الفاظ ہیں۔ 'ار' کا معنیٰ سپاہی ہے اور 'طغرل' کا معنیٰ عقاب۔ دونوں کا معنیٰ 'عقابی شخصیت' ہوا۔ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے بانی کو عثمان اول کہا جاتا ہے۔ ار طغرل اسی کے والد تھے۔ یہ فلم انہیں کی عقابی شخصیت پر تیار کی گئی ہے۔ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان کی سربراہی میں اسے فلمایا گیا ہے۔ اس ڈرامے کی دو سو سے زیادہ قسطیں ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل چل رہی ہے۔ عوام ہی کیا، خواص میں بھی بہت دیکھی جا رہی ہیں۔ جب تک یہ فلم اردو میں نہیں آئی تھی، اردو والوں میں اس کا چرچا برائے نام تھا۔ اب جب کہ اردو میں بھی یہ فلم آ چکی ہے تو اس حلقے میں بھی اس نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں۔ غیر علما کو تو جانے دیجیے، بہت سے نوجوان علما اور فضلا بھی اس کی تائید میں ہیں اور تائید سے بڑھ کر اس کے فضائل و مناقب بھی بیان کر رہے ہیں۔ جو علما اس کے خلاف فتوے دے رہے ہیں انہیں دقیانوسیت، رجعت پسندی، انتہا پسندی، بنیاد پرستی اور قدامت پرستی کے طعنے مل رہے ہیں۔ انہیں غدارِ ملت کا تمغہ دیا جا رہا ہے۔ جب کہ ار طغرل کئی خرابیوں کا مجموعہ ہے: 
ایک تو یہ کہ اس ڈرامے میں سچی باتیں برائے نام اور جھوٹی باتیں زیادہ ہیں۔ ارطغرل کی تاریخ بالکل بھی محفوظ نہیں۔ جو ہے سب تخمین و ظن ہے۔ اٹکل پچّو ہے۔ خیالات اور گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔
دوسرا یہ کہ اس میں لڑکیوں اور عورتوں کا کردار بھی شامل کیا گیا ہے۔
تیسرا یہ کہ اس میں موسیقی اور نفس کو بگاڑنے والے گانے بھی ہیں۔
چوتھا یہ کہ عشق و معاشقے کے مناظر بھی اس میں پیش کیے گئے ہیں۔
پانچواں یہ کہ یہ سراسر لا یعنی اور عبث ہے۔
چھٹا یہ کہ اس میں تصویر جیسی حرام شے شامل ہے۔ 
یہ ساری باتیں انتہائی بری ہیں۔ قرآن و حدیث میں جھوٹ بولنے کی ممانعت اتنی زیادہ ہے کہ شمار نہیں کی جاسکتی۔ اللّٰہ نے ایسے انسانوں پر لعنت بھیجی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کے منہ سے ایسی خطرناک بدبو پھوٹتی ہے کہ فرشتے اس سے ایک میل دور ہٹ جاتے ہیں۔ جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت بھی کہا گیا ہے۔ ایسا آدمی شرعی گواہی کا اہل نہیں رہ جاتا۔ إذا كذب العبدُ تباعد الملَكُ عنه مِيلًا من نتنِ ما جاء به۔ الراوي: عبدالله بن عمرالمحدث: المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب- الصفحة أو الرقم: 4/55
علامہ شامی جھوٹ کی اباحت وحرمت پر روشنی ڈالتے ہوے فرماتےہیں: والضابط فیہ کما فی تبیین المحارم وغیرہ عن الاحیاء أن کل مقصود محمود یمکن التوصل الیہ بالصدق والکذب جمیعاً فالکذب حرام (الحظر والاباحۃ /ص ۵۲۵) جس کا مطلب یہ ہے کہ جس اچھے مقصد کو سچ اور جھوٹ دونوں طرح حاصل کیا جاسکتاہو ، ایسے موقع پر جھوٹ بولنا حرام ہے۔ رہیں لڑکیاں اور خواتین؛ تو ان پر غیرمحرموں کے لیے نظر ڈالنا کبھی بھی جائز نہیں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر محرم خواتین کو دیکھنا آنکھ کا زنا کہا ہے۔ قرآن کی عام عادت یہ ہے کہ جب وہ وہ کوئی حکم دیتا ہے تو مخاطب مردوں کو بناتا ہے اور ان کے ضمن میں عورتوں پر بھی حکم لگاتا ہے، لیکن جب اس نے غضِ بصر یعنی نگاہیں پست رکھنے کا حکم دیا تو صرف مردوں کو فرمان نہیں سنایا، بلکہ خواتین کو بھی الگ سے تاکید کی۔ نا محرم پر نظر ڈالنا ایسا خطرناک گناہ ہے کہ آدمی اس ایک راہ سے انتہائی گناہوں تک پہونچ جاتا ہے، ان کا اندازہ ہر باشعور مسلم کو ہے۔ احادیث میں عورتوں کو شیطان کا جال کہا گیا ہے۔ 
ياعليُّ، إنَّ لكَ كَنزًا مِنَ الجَنَّةِ، وإنَّكَ ذُو قَرْنَيْها، فلا تُتْبِعِ النَّظرةَ النَّظرةَ؛ فإنَّما لكَ الأُولى، وليستْ لكَ الآخِرةُ۔
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: أحمد شاكر- المصدر: مسند أحمد- الصفحة أو الرقم: 2/354
الشبابُ شعبةٌ منَ الجُنونِ، والنساءُ حبالةُ الشيطانِ- الراوي: زيد بن خالد الجهني المحدث: السيوطي- المصدر: الجامع الصغير- الصفحة أو الرقم: 4911
موسیقی بھی کم حرام نہیں، شعب الایمان کی حدیث ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: مجھے مزامیر اور موسیقی کے آلات توڑ ڈالنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس کا حرام ہونا جگ ظاہر ہے۔ بعثني اللهُ رحمةً وهدًى للعالمين ، وبعثني لمحْقِ المعازفِ والمزاميرِ وأمرِالجاهليَّةِ ، ثمَّ قال: من شرِب خمرًا في الدُّنيا سقاه اللهُ كما شرِب منه من حميمِ جهنَّمَ معذَّبٌ هذا ومغفورٌ له. الراوي: أنس بن مالك المحدث: البيهقي- المصدر: شعب الإيمان- الصفحة أو الرقم: 5/2227
رہے عشق ومعاشقے کے مناظر، تو وہ بھی گناہوں اور جرائم میں کسی دوسرے جرائم سے کم نہیں، ان سے مسلمانوں کے اخلاق فاسد ہوتے ہیں۔ قرآن میں ایسے ہی قصے کہانیوں والوں کے لیے ذلت آمیز عذاب کی دھمکی دی گئی ہے: ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم و یتخذھا ھزوا اولئک لھم عذاب مھین ۔
مفتئ اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع دیوبندی لکھتےہیں:
اس زمانے میں بیشتر نوجوان فحش ناول یا جرائم پیشہ لوگوں کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار دیکھنے کے عادی ہیں- یہ سب چیزیں اسی قسم لہوِ حرام میں داخل ہیں- اسی طرح گمراہ اہلِ باطل کے خیالات کا مطالعہ بھی عوام کےلیے گمراہی کا سبب ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے- اورجن کھیلوں میں نہ کفر ہے نہ کھلی ہوئی معصیت، وہ مکروہ ہیں کہ ایک بےفائدہ کام میں اپنی توانائی اور وقت کوضائع کرناہے- (معارف القرآن جلد ہفتم /ص/۲۳)      
 اسلام نے عبث اور فالتو کاموں سے منع کیا ہے۔ مسلمانوں کا ایک ایک منٹ، ایک ایک سکینڈ بہت قیمتی ہے۔ انہیں اسلام کے فروغ کے لیے بر پا کیا گیا ہے۔ عمر کم ہے اور کام زیادہ۔ اس مختصر مدت میں وقت ضائع کرنے کا موقع کہاں! اسی لیے فرمایا: من حسنِ اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ، سب سے شان دار مسلمان وہ ہے جو فالتو کاموں سے پہلو بچاتا ہے۔ 
رہی تصویر، تو اس کا حرام ہونا ہر دور میں اتنی شدت سے بیان کیا گیا ہے کہ ایک متقی مسلمان اس کے قریب جانے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔ ان سے کہا جائے گا کہ اس میں جان ڈالو! فوٹو کھینچنا اللّٰہ کی تخلیق کی برابری کرنا ہے، اس لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر شدید وعید سنائی۔ جان دار تصویر کی ہر شکل حرام ہے، خواہ وہ ساکن فوٹو ہو، یا متحرک۔ ڈیجیٹل ہو یا ہاتھ سے نقش کیا ہوا۔ ہمارے بہت سے علما اگرچہ فوٹو کھنچوا رہے ہیں، مگر مفتی شفیع دیوبندیؓ کے بقول: میرے زمانے تک تصویر کی کسی بھی شکل کو کوئی بھی جائز نہیں کہتا تھا۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ ضرور قائل تھے، مگر مفتی صاحبؒ کے رسالے ‌‌" ‌‌التصویر لاحکام التصویر" کے بعد انہوں نے اس سے بھی رجوع کر لیا تھا۔ علمائے عرب و مصر اور برِصغیر ہند و پاک میں بھی تصویر کی ہر شکل کو ناجائز سمجھا جاتا رہا ہے۔ دنیائے مدارس کا عالمی مرکز دارالعلوم دیوبند اس کی ساری شکلوں کو حرام اور نا جائز بتاتا ہے۔ علما کی تصویر ہونا اس کے جائز ہونے کی دلیل نہیں، یہ خالص تساہل اور سستی پر محمول ہے۔ اصل حکم وہی ہے، جو معتبر فتاویٰ سے ظاہر ہیں۔ ایک دو  دارالافتاء کا تصویر کشی کو جائز قرار دینا شاذ کے درجے میں ہے، اور شاذ اقوال اصل حکم کو نہیں بدل سکتے۔ تفصیل کے لیے حضرت مولانا شعیب اللّٰہ خان صاحب کی تحریر پڑھیے۔ 
قرآن میں ہے: ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین آمنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا و الآخرۃ۔ جو لوگ مسلمانوں میں بری باتوں کو عام کرتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہ سارے گناہ اکیلے اکیلے بھی حرام ہیں اور ان سے دور رہنا ضروری۔ اور اگر یہ سارے ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں تو یہ ظلمات بعضہا فوق بعض کی مثال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سارے دارالافتاء نے ارطغرل سیریز کو دیکھنا حرام بتایا ہے، کسی نے بھی اجازت نہیں دی۔ اس میں جواز کا کوئی بھی پہلو نکالا ہی نہیں جاسکتا۔ مجھے حیرت ہے کہ ارطغرل ڈرامے میں اتنی ساری خرابیاں ہونے کے باوجود لوگ اس کے دیکھنے کی تبلیغ کر رہے ہیں اور اس کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ وہ بھی رمضان جیسے مقدس مہینے میں۔ چھوٹے گناہ پر اصرار اور اس کو گناہ نہ سمجھنا بھی آدمی کو کفر تک پہونچا دیتا ہے اور یہاں تو چھوٹے گناہ ہی کیا، بڑے بڑے گناہوں کا انبار ہے، مگر انہیں گناہ نہیں سمجھا جا رہا۔ ارطغرل سیریز کے شوقین، بلکہ عاشقین اس کے دیکھنے کی جو دلیلیں دے رہے ہیں، ان کے بعد تو ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی بہت ساری فلمیں جائز ہو جائیں گی، بالخصوص تیس چالیس سال پرانی فلمیں، جن میں بے حیائیاں بہت کم ہیں اور معلومات بھی زیادہ ہیں۔ تاریخ سمجھنے اور زورِ بازو لانے کے لیے تاریخ کی کتابیں پڑھی جائیں۔ اگر فلموں ہی سے تاریخ سمجھی جاتی اور زور حاصل کیا جاتا تو اللّٰہ تعالیٰ سارے انبیاء اور ان کی اقوام کی فلمیں بنانے پر قادر تھا، وہ قرآن کیوں اتارتا، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر فلمیں ہی نازل کر دیتا، لیکن یہ چیزیں برحق اور صالح انقلاب کی صلاحیت نہیں رکھتیں، اس لیے امت کو پڑھنے پڑھانے کا مکلف بنایا۔ آپ بہادر بننا چاہتے ہیں۔ آپ میں انقلاب برپا کرنے کی للک ہے۔ آپ دنیا کا نقشہ بدلنا چاہتے ہیں تو قرآن کی معتبر تفسیریں پڑھیے۔ سیرت کی مستند کتابیں دیکھیے۔ یہ ڈرامے زیادہ سے زیادہ منو رنجن کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کی کوئی اوقات نہیں۔ یہ گناہوں کی پٹاری ہے۔ اسے حلال سمجھنے کی غلطی کرنا اسلام کے دائرے سے نکال سکتا ہے۔ شرح فقہِ اکبر صفحہ 199 میں ہے: استحلال المعصیۃ کفر گناہ کو حلال سمجھنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔
Ertuğrul on a 2001 Turkmen coin

No comments:

Post a Comment