بالی ووڈ ایکٹر عرفان خان کیا تھے؟
✏ فضیل احمد ناصری
پرسوں بروز بدھ بتاریخ 29 اپریل 2020 کو فلمی دنیا کا ایک بندہ عرفان خان کینسر کے مرض میں آں جہانی ہوگیا۔ یہ جناب اپنے فن میں کیا تھے اور کیا نہیں تھے، ہم جیسے لوگوں کو اس سے کیا سروکار!! سوشل میڈیا پر بہت سے مسلمانوں کو دیکھا کہ ان کی موت کے غم میں دبلے ہورہے ہیں اور مغفرت کی دعا کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، ان کی اداکاری کی تعریف بھی کررہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے مسلمانوں کی تھی، جنہیں دین کے مسائل سے برائے نام ہی واقفیت ہے۔ عام مسلمان کسی بندے پر کوئی رائے قائم کرتے وقت صرف نام پر جاتے ہیں اور عربی فارسی نام دیکھ کر صاحبِ نام کے مومن ہونے کا فیصلہ کردیتے ہیں۔ اس لیے مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا۔ حیرت ان نوجوانوں پر ہوئی جو مدارس کے فاضل اور علما کی صحبتیں اٹھائے ہوئے تھے اور اس فلم ادا کار کی تعریف وتحسین کررہے تھے۔ بعض فضلا نے انہیں فنکار اور مؤثر کردار سے یاد کیا۔ ان کی فلموں پر زوردار تبصرے کیے۔ یہ صورتِ حال میرے لیے بڑی درد ناک تھی۔ میں نے متوفیٰ کے احوال جاننے کی کوشش کی تو ایسا ایسا انکشاف ہوا کہ میں سر پکڑکر بیٹھ گیا، کہ ایسے دین بیزار کی تعریف فضلائے مدارس بھی کر رہے ہیں۔ آئیے ذرا عرفان خان کی مذہبی حالت پر ایک اچٹتی نظر ڈالتے ہیں:
شادی کے لیے ہندو دھرم قبول کرنے کو تیار:
جناب کی شادی آسام کی باشندہ سُتاپا سِکدَر سے ہوئی، جس کا تعلق اسلام سے نہیں تھا۔ اسکول کے زمانے سے دونوں میں اس قدر قربت ہوئی کہ بات شادی تک پہونچ گئی۔ جناب کو لگا کہ ان کا اسلام اس شادی میں رکاوٹ بن سکتا ہے تو اپنی منگیتر سے کہہ بیٹھے: اگر آپ کے گھر والوں کو میرے مسلمان ہونے سے تکلیف ہے تو میں ہندو ہونے کو تیار ہوں۔ خیر ایسی نوبت نہیں آئی اور اپنے اپنے فکر و خیال پر رہتے ہوئے دونوں نے شادی رچالی۔
درد بڑا یا خدا؟
عرفان خان آنتوں کے کینسر میں مبتلا تھے۔ جس سے درد بار بار اٹھتا تھا اور وہ بے چین ہو جاتے تھے۔ اپنی اس تکلیف کا اظہار انہوں نے طویل مضمون میں کیا ہے۔ 2018 میں اپنی ایک تحریر میں انہوں نے لکھا ہے کہ: یہ معلوم تھا کہ درد ہوگا، مگر ایسا درد!! اب درد کی شدت محسوس ہو رہی ہے۔ نہ کوئی ڈھارس، نہ کوئی دلاسہ۔ ساری کائنات اس درد میں سمٹ آئی۔ درد خدا سے بھی بڑا محسوس ہوا۔
روزہ کی بجائے مسلمان اپنا احتساب کرے:
تین سال پہلے جے پور میں اپنی فلم مداری کی تشہیر کے دوران انہوں نے اسلام پر جیسے حملے کیے، وہ دل دہلانے والے ہیں۔ ذیل میں انہیں کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔ رمضان کا مہینہ کتنا مقدس ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نفل کو فرض کا اور فرض کو ستر فرائض کا مقام دے دیا جاتا ہے۔ ہر نیکی کی قیمت کئی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس ماہ کی سب سے خاص عبادت روزہ ہے، جس میں مسلمان صبحِ صادق کی شروعات سے سورج ڈوبنے تک کھانے پینے اور بیوی سے تعلق بنانے سے بچتا ہے۔ دن کا وقت اس حالت میں گزارنا ہر شخص کے لیے آسان نہیں، بالخصوص دھوپ دھوپ چلنے والوں کے لیے، لیکن یہ سب اللّٰہ کو خوش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس روزے کی جناب کے نزدیک کیا حیثیت ہے، اسے سنیے: رمضان میں بھوکے رہنے سے زیادہ بہتر ہے کہ انسان کو اپنا خود تجزیہ کرنا چاہیے کہ وہ کتنا خود دار ہے۔ مطلب یہ کہ آدمی روزہ نہ رکھے، بلکہ اپنا احتساب کر لے، یہ روزے سے اچھا عمل ہے۔
جانوروں کو ذبح کرنے کا نام قربانی نہیں:
عیدالاضحی کی سب سے بڑی عبادت قربانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ محبوب اللّٰہ کے نزدیک کوئی اور عبادت نہیں۔ قربانی ایسی عبادت ہے، جسے چند مخصوص جانوروں کو مخصوص طریقے پر ذبح کر کے انجام دیا جاتا ہے۔ جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی بھی رکھی گئی ہے۔ اس قربانی کا مقام جناب کے نزدیک کیا ہے، سنیے: قربانی کا مطلب اپنے قریبی اور پسندیدہ چیز کو قربان کرنا ہے۔ بھیڑ یا بکری کی قربانی سے کیسے ثواب ہوگا؟ جانوروں کو مارنا قربانی نہیں کہا جاسکتا۔
محرم کا مہینہ ماتم کرنے کے لیے ہے:
اپنے متنازع بیانات میں ایک اور بیان جڑتے ہوئے جناب فرماتے ہیں کہ: ہم مسلمانوں نے محرم کا مذاق بنا لیا ہے، اس ماہ میں غم منانا چاہیے، اور ہم کیا کرتے ہیں!! بس جلوس نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔
علمائے حق دقیانوسی اور جنونی ہیں:
ان تین بیانات سے علمائے امت ناراض ہوئے اور انہیں خاموش رہنے کی تلقین کی تو بجائے ندامت کے علما پر ہی برس پڑے اور سخت و سست سنا بیٹھے۔ جناب نے انہیں دقیانوسی اور جنونی اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیا۔ فرمایا: میرے نزدیک مذہب دقیانوسیت اور جنونیت کا نام نہیں، بلکہ خود احتسابی، اعتدال پسندی، ہمدردی اور حکمت کا نام ہے۔ علمائے کرام! مجھے مت ڈرائیے! خدا کا شکر ہے کہ میں ایسے ملک میں نہیں رہتا جہاں دین کے ٹھیکیداروں کی حکومت ہو۔
شعائراللّٰہ کا انکار یا استخفاف کفر ہے:
جن باتوں کا عرفان خان نے مذاق اڑایا ہے، وہ اسلامی شعائر کہلاتے ہیں۔ اور اسلامی شعائر کی برائی کرنے، مذاق اڑانے یا نہ ماننے سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔
رمضان میں مرنے کا فائدہ صرف مسلمانوں کو ملتا ہے:
موصوف کی وفات چوں کہ رمضان میں ہوئی ہے اور ان کا نام بھی عربی فارسی والا ہے، اس لیے بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ آں جہانی جنت میں چلے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض کمزور احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ رمضان میں وفات پانے والے مسلمان کو عذابِ قبر نہیں ہوتا، مگر اس کا فائدہ صرف مسلمانوں کو ملتا ہے، نہ کہ غیرمسلموں کو۔ اللّٰہ ہمیں حق بولنے اور حق سمجھنے کی توفیق بخشے۔
https://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post.html
https://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post.html
No comments:
Post a Comment