Saturday, 11 April 2020

غرباء میں تقسیم کے لئے بینک انٹرسٹ کی وصولی مہم؟

غرباء میں تقسیم کے لئے بینک انٹرسٹ کی وصولی مہم؟
کیا 
لوگوں سے سود 
کی رقم کا چندہ کرسکتے 
ہیں تاکہ اسے مستحقین کے حوالے 
کرسکیں. دلیل دینے والے یہ کہتے ہیں کہ 
حضور اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم کے دور میں کسی 
صحابی نے سود کا چندہ اکٹھا نہیں کیا مجھے اس کا جواب دینا ہے.
الجواب وباللہ التوفیق:
یہ استدلال کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی صحابی نے سود کا چندہ نہیں کیا.“ 
عجیب احمقانہ وجاہلانہ استدلال ہے 
ایسا استدلال کرنے والے بھائی مجھے بتادیں کہ کیا اصحاب رسول میں سے کسی سے بھی ’’سودی مال“ 'لینا' ثابت ہے؟؟؟
ثابت تو کسی صحابی سے یہ بھی نہیں ہے! پھر سودی بنک سے انٹرسٹ کی رقم لیتے کیوں ہیں؟
"وذروا ما بقى من الربا"  آیت مبارکہ سودی بینک سے سودی مال لینے کی حرمت کو بتاتی ہے، قرآن وحدیث میں ساری وعیدیں سودی رقوم ’’لینے“ پر ہی وارد ہوئی ہیں خواہ جس مقصد یا نیت سے لیا جائے!
عالمی اقتصادیات اور بینکی امور پہ گہری نظر  ومہارت رکھنے والے علماء فرماتے ہیں کہ سودی رقوم بینک میں چھوڑ دینا خلاف مصلحت ہے. 
یہ رقوم اسلام مخالف سرگرمیوں میں استعمال ہوتی ہیں ؛ اس لئے حضرات علماء کا خیال ہے کہ سودی رقوم بینک میں چھوڑنے کی بجائے وہاں سے لے لی جائیں، دیکھنے میں تو یہ بظاہر ’’مال حرام لینا“ ہے؛ لیکن اصلیت میں اسے ہلاک اور دریا برد کرکے اپنے بقیہ دیگر اموال کو پاک وصاف کرنا ہے۔
اسی باطنی حیثیت کا لحاظ کرکے اور اسلام مخالف عناصر میں ممد و معاون بننے سے احتراز کے مقصد سے سودی اضافہ بینک سے نکال لینے کی رخصت دی گئی ہے اور اس پہ سودی مال لینے کا حقیقی اطلاق نہیں ہوگا ۔
مال حرام کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے لیکن یہاں ایسا ممکن نہیں ہے؛ اس لئے مال حرام کا تصدق علی الفقراء (مصارف زکات)  بلا نیت ِثواب علی اصح الاقاویل ضروری ہے 
جبکہ ہمارے بعض دیگر اکابر  مفتیان کی رائے یہ ہے کہ تصدق علی الفقراء کے علاوہ دوسرے رفاہی کاموں میں بھی اسے صرف کیا جاسکتا ہے
صرف کرتے ہوئے تصدق بلانیت ثواب کی قید ملحوظ رکھی گئی ہے۔کیونکہ مال خبیث میں نیت کرنا بہتر نہیں۔
ان الله طيب لايقبل إلا طيبا الحديث!
لیکن خدمت انسانیت کی وجہ سے مآلاً اس کو ثواب بھی پہنچ سکتا ہے۔
پھر یہ تصدق بھی دراصل خبیث مال کو جلانے اور دریا برد کردینے کے درجے میں ہے۔
ایسے موقع سے مستحقین زکات کو سودی رقم کا مالک بنادیا جائے یا اشیاء مایحتاج ان کے حوالے کردی جائے، تملیک بہرحال ضروری ہے،
اوپر عرض کردیا، اصلاً اس مال کو بینک سے لینا ہی درست نہیں تھا؛ لیکن اہم ترین حکمتوں اور مصلحتوں کے پیش نظر اس کی رخصت ملی ہے، لہذا اس کے جمع وتقسیم بھی اس شکل میں ہو کہ سود کی قباحت لوگوں کے دلوں سے نہ نکلے، انفرادی طور پہ اپنا بینک انٹرسٹ اس کورونا قہر کے ایام میں مستحقین کو دیدیں، بعض لوگوں کو اس جانب ترغیب بھی دی جاسکتی ہے، اس میں ایسی کوئی سخت پابندی نہیں ہے. 
لیکن ’’سود وصولی“ کی باضابطہ مہم نہ چھیڑی جائے کہ اس سے سودی اموال کی قباحت رفتہ رفتہ کم یا ختم ہوسکتی ہے. 
واللہ اعلم 

No comments:

Post a Comment