Saturday 25 April 2020

ضرورت کی بنا پر کھانا چکھنا

ضرورت کی بنا پر کھانا چکھنا 
میں
نے سنا ہے کہ
روزہ کی حالت میں خواتین
کو اجازت ہے کہ وہ کھانے کا نمک
چکھُ سکتی ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے؟

اس کے کچھ حوالہ جات مل سکتے ہیں کیاُ؟

الجواب وباللہ التوفیق:
اگر شوہر بدمزاج ہو تو پکانے والی بیوی ضرورت کی وجہ چکھ سکتی ہے. حوالے کے لئے فتاوی شامی کی عربی عبارت پیشِ خدمت ہے. 

اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر شوہر بدمزاج ہو تو بیوی کے لئے کھانا چکھنا مکروہ نہیں ہے. لہٰذا جن لوگوں نے رمضان کے اشتہارات وپمفلٹس میں اس کا ذکر کیا ہے انہوں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا ہے.
سوال: میرے بیٹے نے کہا آج کہ ظالم شوہر کو عورت کیوں برداشت کرے۔۔؟؟ اس نے کہا نمک کم ذیادہ مسئلہ نہیں ہے وہ ذہنیت ہے جو اس کو فروغ دیتی ہے کہ شوہر ظالم ہو تو چکھ لیں. بدمزاج شوہر پر سے شرعی احکام ہٹا لئے جائیں گے کیا؟ کہُ بیوی کو کھانا پکانے پرُمجبور بھی کرنے کے لئے آزاد اور اسے روزہُ مکروہ کرنے کی حد تک لے جائے. میں نےُاسیُ لئے اس حکم کے شرعی حوالے جاننے کی خواہش کی ہے۔ اگر ہیں تو براہ کرم پیش کریں. اور اگر نہیں ہیںُ تو روزہ کے احکام کے ذیل میں سے اس قسم کے احکامات کاُ ذکر حذف ہونا چاہئے ہم اپنے بچپن سے پڑھتے چلے آرہے ہیں چھوٹے چھوٹے پمفلٹ تک میں لکھاُ ہوتا ہے
بخاری شریف کی اس حدیث میں ایک عمومی حکم ہے جو ظالم شوہر کی بیوی کے لئے ہی مخصوص نہیں ہے پھر ہم اپنے لٹریچر میں اسے خواتین وہ بھی مظلوم خواتین کی مجبوری بناکر کیوں پیش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ظلم کرنے والے شوہر کے بارے میں بھی کچھ نہیں لکھتے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا شوہر کا ظلم کرنا اس کا حق ہے اور عورت کو اس ظلم کا پاس رکھنا جیسے واجب ہو
الجواب وباللہ التوفیق:
بخاری شریف کی حدیث میں صحابی نے بتایا ہے کہ کھانا چکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے. عربی میں لابأس حرج نہیں کے معنی میں بہت وسعت پائی جاتی ہے. یہ ہمارے اردو والا "کوئی حرج نہیں" نہیں ہے. عربی میں مکروہ پر بھی اس تعبیر کا اطلاق کیا جاتا ہے. 
چکھنے کی صورت میں اس کا خطرہ موجود ہے کہ کھانے کا اثر حلق کے نیچے اتر جائے اور روزہ ٹوٹ جائے. لہٰذا احتیاط کے پیشِ نظر بلاضرورت چکھنے کو مکروہ کہا گیا ہے. اسی وجہ سے محدث عظیم وفقیہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں چکھنے کو مکروہ سمجھتا ہوں. البتہ ضرورت کی وجہ سے مکروہ نہیں ہے. اور ضرورت کو فقہاء نے دو صورتوں میں تسلیم کیا ہے. عورت کے چکھنے کو مکروہ نہیں کہا ہے اگر اس کا آقا یا شوہر بدمزاج ہو. ایسی صورت میں عورت کا روزہ مکروہ نہیں ہوگا. یہ عورت کی رعایت میں بات کہی گئی ہے، شوہر کی رعایت میں یا اس کے ظلم کو روا رکھنے کے لئے نہیں کہی گئی ہے. دوسری صورت یہ ہے کہ عورت کو اپنے بچے کو لقمہ چباکر دینے کی ضرورت ہو. ان دونوں صورتوں میں عورت کی مجبوری کے پیشِ نظر اس کے روزے کو مکروہ قرار دینے سے بچا گیا ہے.
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں مرد کے ظلم کو جواز بخشا گیا ہے انہیں اپنی سوچ پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے. اگر وہ عورت کے روزے کو نمک چکھنے پر مکروہ قرار دینے کے قائل ہونگے اور شوہر نمک کم زیادہ ہونے پر ظلم کرنے والا ہوگا تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ عورت روزے کو مکروہ ہونے سے بچانے کے لئے شوہر کے ظلم وزیادتی کی شکار ہوگی. فقہاء اس ظلم سے عورت کو بچانا چاہتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ پِٹوانا چاہتے ہیں. 
البتہ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ اگر شوہر بدمزاج و ظالم ہے اور باز نہیں آتا ہے تو عورت کو قانون اور عدالت کا سہارا لینا چاہیے یا نہیں. یقیناً یہ عورت کی صوابدید پر موقوف ہے. اگر وہ عدالت میں جائے گی تو قاضی اسے مکمل انصاف دے گا. لیکن اگر ایسی صورت نہ بن سکے یا وہ عدالت نہ جانا چاہے تو نمک چکھنے کی صورت میں اس کا روزہ مکروہ نہیں ہوگا. فقہاء کسی مسئلے کا صرف حکمِ شرعی بیان کردیتے ہیں کیونکہ ان کا میدان یہی ہے. اگر کوئی صوفی عابد ہوگا تو وہ عورت کو شوہر کے خوش اخلاق ہونے کی دعاء کرنے کے لئے کہے گا. کوئی عامل اور جھاڑ پھونک کرنے والا ہوگا تو وہ اسے کوئی تعویذ دے گا. وکیل اسے مقدمہ لڑنے کے لئے کہے گا غرضیکہ تمام لوگ اپنے اپنے میدان کے اعتبار سے الگ الگ تجویز دینگے. فقہاء کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ بتادیں کہ ایسی مجبوری کی صورت میں عورت اگر نمک چکھ لیتی ہے تو اس کا روزہ مکروہ نہیں ہوگا. دوسروں کا مکروہ ہوجائے گا. اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ فقہاء شوہر کو ظلم پر اکسا رہے ہیں یا اس کے ظلم کو جائز قرار دے رہے ہیں افسوسناک ہی کہا جاسکتا ہے.
عورتوں کو جو حقوق اسلام نے دیئے ہیں ان کا عشرِعشیر اب بھی دیگر جگہوں پر حتی کہ ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی نہیں ہیں. اور پہلے دیگر جگہوں پر ان پر جو مظالم ہوتے تھے ان کا تصور کرلیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں. صدیوں تک یہی بحث جاری رہی کہ وہ انسان بھی ہے یا نہیں. کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے تقریباً 100 سال پہلے تک تعلیمی سرٹیفیکٹ تک انہیں عورت ہونے کی وجہ سے نہیں دیا جاتا تھا. عیسائیت اور دیگر مذاہب میں عورت کو اسلامی شریعت کی طرح مرنے والے/والی کی میراث میں بحیثیت بیوی، بہن، بیٹی، ماں، دادی حق ملنے کی بات تو ابھی بہت الگ ہے.
اسلامی شریعت اور قانون سے مکمل طور پر واقف ہونے اور موازنہ کرنے کے بعد ہی اسلام میں شعورت کے منصفانہ حقوق کا صحیح اندازہ ہلگایا جاسکتا ہے. 
کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ ساری باتیں میں عورت پر ظلم کو جائز ٹھہرانے کے لئے کہہ رہا ہوں بلکہ یہ حقائق ہیں. اسلامی شریعت میں عورت یا کسی پر بھی ادنی ظلم کی اجازت نہیں ہے. ظلم کے خلاف اسلام میں واضح ہدایات بھری پڑی ہیں. بہر کیف یہ بہت تفصیلی موضوع ہے لہذا ترک کرتا ہوں.
نمک چکھنے والا مسئلہ ظلم کو برداشت کرنے کے لئے نہیں بتایا گیا ہے بلکہ اس صورت میں ہے جب عورت ظاہری تدابیر کے ذریعے شوہر کی بدمزاجی کو دور کرنے میں ناکام ہوچکی ہو. ایسی صورت میں شوہر کی بدمزاجی کے پیشِ نظر عورت کے ذریعے نمک کو چکھنے سے اس کا روزہ مکروہ نہیں ہوگا، دوسروں کا مکروہ ہوجائے گا.
۔۔۔۔۔۔
سوال: میری بیوی نے افطاری تیار کرنے میں مجھ سے تعاون کرنے کو کہا تو میں نے اس تعاون کے دوران بھول کر کھانے کا نمک چکھ لیا کیا اس بنا پر میرا روزہ تو نہیں ٹوٹ گیا کیونکہ میں نے ایسا کام کیا ہے جو کہ نہ تو شرعی طور پر اور نہ ہی عرف کے اعتبار سے میرے ذمہ ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
روزے دار پر کوئی حرج نہیں کہ وہ ضرورت پڑنے پر کھانے کا نمک چکھے وہ اس طرح کہ زبان پر رکھ کر چکھنے کے بعد بغیر نگلے تھوک دے اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ روزے دار مرد ہو یا عورت۔
اور اگر روزے دار نے بھول کر اسے نگل بھی لیا تو اس پر کوئی چیز نہیں بلکہ وہ اپنے روزے کو مکمل کرے کیونکہ شریعت میں عموعی طور پر یہ دلائل موجود ہیں کہ بھولنے والے کے ذمہ کچھ نہیں۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ فرمان ہے کہ:
(جس نے روزے کی حالت میں بھول کر کھا پی لیا تو وہ اپنے روزے کو مکمل کرے بیشک اسے اللہ تعالی نے کھلایا اور پلایا ہے)
صحیح بخاری حدیث نمبر (1399) صحیح مسلم حدیث نمبر (1155)
واللہ تعالی اعلم.
(تدوین: ایس اے ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_26.html

No comments:

Post a Comment