Sunday, 12 April 2020

حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا زہر پینا

حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا زہر پینا
سوال: مولانا احمد بھاولپوری صاحب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ کے دوران جرجا رومی کے ہاتھ سے انہوں نے زہر کی شیشی پی لی مگر ان کو کچھ نہیں ہوا۔ اس پر جرجا رومی نے کلمہ پڑھا اور پھر جہاد کیا اور صرف دو نفل پڑھ کر شہید ہوگیا… کیا یہ واقعہ مستند ہے؟
الجواب باسمه تعالی
اس سوال میں تین امور قابل توجہ ہیں:
١.  حضرت خالد کا جورجا کے ہاتھ سے زہر پینا.
٢.  جورجا کا مسلمان ہونا.
٣.  حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا زہر پینا.
نمبر ١ اور ٢ کا جواب:
یہ نام اصلا جورج ہے جو کہ عربی کتب میں جورجا ہوگیا ہے.
جورجا کا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو زہر دینا کسی بھی کتاب میں ثابت نہیں.
یرموک کے موقعے پر جورجا کا واقعہ مختلف تاریخی کتب میں موجود ہے لیکن سند کے لحاظ سے یہ واقعہ درست نہیں، کیونکہ اس واقعے کے راویوں پر محدثین کا کلام کافی سخت ہے.
واقعہ یرموک میں جورجا کا اسلام:
■  اس واقعے کی اسنادی حیثیت:
یہ واقعہ سند کے لحاظ سے درست نہیں، اس کی سند میں تین راوی بہت کمزور ہیں:
(١) ابوعثمان یزید بن اسید الغسانی:
اس راوی کو مجہول الحال قرار دیا گیا ہے کہ اس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے.
–  الأسم:  يزيد بن أسيد.
–  الشهرة:  يزيد بن أسيد الغساني.
–  الكنية:  أبوعثمان.
–  النسب:  الغساني.
–  الرتبة:  مجهول الحال.
 (١١) سیف ابن عمر التمیمی:
١.  یحیی بن معین نے کہا کہ یہ ضعیف ہے،  اور ایک جگہ فرمایا کہ اس میں خیر نہیں.
قال يحيى بن معين: ضعيف الحديث.
وقال أيضاً: فلا خير منه.
٢.  امام ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ واقدی کی طرح کمزور اور متروک ہے.
وقال أبوحاتم: متروك الحديث يشبه حديثه حديث الواقدى.
٣.  ابوداود رحمه اللہ کہتے ہیں کہ یہ بےحیثیت راوی ہے.
وقال أبوداود: ليس بشىء.
٤.  دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
وقال البرقانى عن الدارقطنى: متروك. وفي رواية: ضعيف.
٥.  ابوحاتم بن حبان کہتے ہیں کہ یہ ثقہ لوگوں سے من گھڑت روایات نقل کرتا ہے.
وقال أبوحاتم بن حبان: يروى الموضوعات عن الأثبات.
٦.  امام حاکم کہتے ہیں کہ اس پر زندیق ہونے کا الزام لگا ہے اور یہ ساقط الروایة ہے.
وقال الحاكم: اتهم بالزندقة، وهو فى الرواية ساقط
 (١١١) شعیب بن ابراہیم الکوفی:
١.  امام ذہبی کہتے ہیں کہ سیف جب ان سے روایات نقل کرتا ہے تو اس میں جہالت ہوتی ہے (کیونکہ سیف پر وضع کی تہمت ہے).
قال الذهبي في ميزان الاعتدال (2/465): رواية كتب سيف عنه، فيه جهالة.
٢.  ابن عدی کہتے ہیں کہ ان سے روایات زیادہ منقول نہیں اور جتنی روایات منقول ہیں ان سب میں کچھ نہ کچھ مسئلہ ہے.
وقال ابن عدي في الكامل (4/4): له أحاديث وأخبار، وهو ليس بذلك المعروف، ومقدار ما يروي من الحديث والأخبار ليست بالكثيرة، وفيه بعض النكرة، لأنَّ في أخباره واحاديثه ما فيه تحامل على السلف.
٣. حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا زہر پینا:
یہ واقعہ بہت ساری کتب میں مختلف اسانید کے ساتھ مختلف پیرائے سے منقول ہے.
● پہلی روایت:
حضرت خالد رضی اللہ عنہ جب حیرہ کے مقام پر اترے تو لوگوں نے آپ کو خبردار کیا کہ عجم لوگوں کو زہر دے کر مارتے ہیں لہذا آپ احتیاط کیجئے،  تو حضرت خالد نے زہر منگوایا اور
 بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمه شیء
 پڑھ کر پی لیا. (فضائل الصحابة لابن حنبل ج: 2، ص: 815)
حدثنا عبدالله قال حدثني أبي قال ثنا يحيى بن زكريا قال حدثني يونس بن أبي إسحاق عن أبي السفر قال: ثم نزل خالد بن الوليد الحيرة على بني أم المرازبة فقالوا له: احذر السم لا يسقيكه الأعاجم؛ فقال: إيتوني به؛ فأتى منه بشيء فأخذه بيده ثم اقتحمه وقال: بسم الله؛ فلم يضره شيئا.
● دوسری روایت:
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک جنگ کے موقع پر میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹیں. جب ان کے سامنے زہر لایا گیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ تو بتایا گیا کہ زہر ہے… تو آپ نے بسم اللہ پڑھی اور زہر پی لیا. (فضائل الصحابة لابن حنبل ج: 2، ص: 816)
حدثنا عبدالله قال حدثني أبي ثنا سفيان عن إسماعيل عن قيس قيل لسفيان سمعت خالدا رضي الله عنه يقول فقال: لقد اندقت في يدي يوم مؤتة تسعة أسياف فلم يبق في يدي إلا صفيحة يمانية وأتى بالسم؛ فقال: ما هذا؟ قالوا: السم؛ قال: بسم الله؛ فشربه. (قال المحقق: إسناده صحيح).
● تیسری روایت:
حیرہ کے موقع پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے سامنے زہر پیش کیا گیا جو انہوں نے ہتھیلی میں رکھا اور بسم اللہ پڑھ کر پی لیا.
فقد روى أبویعلى، وغيره عن أبي السفر قال: لما قدم خالد بن الوليد الحيرة، أتي بسمٍّ، فوضعه في راحته، ثم سمَّى وشربه، فلم يضره.
■ ان واقعات کو مختلف پیرائے سے نقل کرنے والے محدثین:
١.  قد أخرجها أيضا أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة.
٢.  الطبراني في المعجم الكبير.
٣. الأصفهاني في معرفة الصحابة.
٤.  ابن أبي شيبة في المصنف.
٥.  اللالكائي في كرامات الأولياء.
٦.  ابن عساكر في تاريخ دمشق من عدة طرق.
٧.  الامام الذهبي.
٨.  شيخ الإسلام ابن تيمية.
٩.  ذكر محقق كتاب الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان أن سندها حسن لغيره.
● چوتھی روایت: یہ سب سے تفصیلی روایت ہے
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب یمامہ کی جنگ سے لوٹے تو ان کے لشکر نے حیرہ اور نہر کے درمیان پڑاؤ ڈالا اور اہل حیرہ اپنے قلعوں میں بند ہوگئے جن کا نام قصر أبیض اور قصر ابن بقیلہ تھا، مختصر یہ کہ انہوں ایک شخص کو بھیجا جس کا نام عبدالمسیح بن عمرو تھا اور اس کی عمر ساڑھے تین سو (350) سال تھی.
وہ جب آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک شیشی تھی جس میں فوری طور پر مارنے والا زہر موجود تھا تو حضرت خالد نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ زہر قاتل ہے.
حضرت خالد نے وہ زہر لیا اور بسم اللہ الذی لا یضر….. پڑھ کر زہر پی لیا، حضرت خالد پر بےہوشی طاری ہونے لگی تو انہوں اپنی ٹھوڑی اپنے سینے پر ماری جس سے پسینہ آیا اور طبیعت بحال ہوگئی.
ابن بقیلہ اپنی قوم کے پاس جاکر کہنے لگا یہ تو انسان نہیں بلکہ کوئی جن ہے جو زہر قاتل پی کر بھی زندہ ہے، ان سے صلح کرلو… (مختصرا)
لما انصرف خالد بن الوليد من اليمامة ضرب عسكره على الجرعة التي بين الحيرة والنهر، وتحصن منه أهل الحيرة في القصرالأبيض، وقصر ابن بقيلة، فجعلوا يرمونه بالحجارة حتى نفذت، ثم رموه بالخزف من آنيتهم، فقال ضرار بن الأزور: ما لهم مكيدة أعظم مما ترى، فبعث إليهم ابعثوا إلي رجلًا من عقلائكم أسائله، ويخبرني عنكم، فبعثوا إليه عبدالمسيح بن عمرو بن قيس بن حيان بن بقيلة الغساني، وهو يومئذ ابن خمسين وثلاثمائة سنة، فأقبل يمشي إلى خالد… قال: ومعه سم ساعة يقلبه في يده، فقال له: ما هذا معك؟ قال: هذا السم، وما تصنع به؟ قال: أتيتك فإن رأيت عندك ما يسرني وأهل بلدي حمدت الله، وإن كانت الأخرى لم أكن أول من ساق إليهم ضيمًا وبلاء فآكله وأستريح، وإنما بقي من عمري يسير، فقال: هاته، فوضعه في يد خالد، فقال: بسم الله وبالله رب الأرض ورب السماء الذي لا يضر مع اسمه داء” ثم أكله، فتجلته غشية، فضرب بذقنه على صدره، ثم عرق وأفاق، فرجع ابن بقيلة إلى قومه، فقال: جئت من عند شيطان أكل سم ساعة فلم يضره، أخرجوهم عنكم، فصالحوهم على مائة ألف…إلخ.
■ اس واقعے کی اسنادی حیثیت:
اس واقعے کو بہت سارے محدثین نے نقل کیا ہے، بعض اسناد صحیح ہیں اور بعض کمزور ہیں جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ واقعہ حسن درجے میں ثابت ہے.
■ اس واقعے کو استدلال کے طور پر ذکر کرنے والے اکابر:
١.  قال شيخ الإسلام ابن تيمية: من السلف من يأتي بالآيات دلالة على صحة الاسلام، وصدق الرسول، كما ذكر أن خالد بن الوليد شرب السم.
٢.  الإمام أحمد في فضائل الصحابة (ولم يستنكرها).
٣. الحافظ الطبراني كما ذكر ذلك الهيثمي في المجمع.
٤. الحافظ أبويعلى في مسنده.
٥.  اللاكائي في كتابه: كرامات أولياء الله عزوجل.
٦.  ابن عساكر في تاريخ دمشق.
٧.  الحافظ ابن حجر في تهذيب التهذيب.
٨.  الحافظ ابن حجر في فتح الباري.
٩.  الحافظ الذهبي في سير أعلام النبلاء.
١٠.  الحافظ الهيثمي في مجمع الزوائد.
١١.  الحافظ بدر الدين العيني في عمدة القاريء.
١٢.  أخرجه عنه أبونعيم (الخصائص للسيوطي 2/349).
١٣.  ابن عساكر في تاريخه. (تهذيب ابن عساكر: 5/106) أيضا وإسناده صحيح متصل.
امام ذہبی نے اس واقعے کو نقل کیا ہے اور فرمایا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بہت سارے مناقب ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کا نام لے کر زہر پی لیا.
قال الإمام الذهبي في تاريخ الإسلام: مناقب خالد كثيرة ساقها ابن عساكر، من أصحها ما رواه ابن أبي خالد، عن قيس بن أبي حازم قال: رأيت خالد بن الوليد أتي بسم؛ فقال: ما هذا؟ قالوا: سم، فقال: بسم الله وشربه.
خلاصہ کلام
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا زہر پینا صحیح روایات سے ثابت ہے، البتہ جورجا نام کے عیسائی سے لے کر پینا اور پھر اس جورج کا مسلمان ہونا اور اسی لڑائی میں شہید ہونا یہ واقعہ سند کے لحاظ سے درست نہیں ہے
واللہ اعلم بالصواب

No comments:

Post a Comment