عظیم کارنامہ —— قابل تقلید پیش رفت!
الأمان و الحفیظ! کرونا وائرس وبا ہے، یا عذاب الہی؟ خدا معلوم! اللہ پاک ہر کسی کو اس ”آدم خور جرثومے“ سے اپنے حفظ وامان میں رکھے، اغلب یہی ہے کہ یہ ہمارے گناہوں کا پشتارہ ہے، جو ہماری طرف سے ہو رہے مسلسل نا فرمانیوں کی وجہ سےابتلاء عظیم کا سبب بن گیا ہے، ہم جیسے ”بدچلنوں“ اور ”غفلت کیشوں“ کے لئے اس صدائے ”فاَفہم“ (سمجھ جاؤ) کی وجہ سے بہت سے خاصان خدا، بھولے بھالے، چھل کپٹ سے عاری، یومیہ وماہانہ اجرت پہ کمانے کھانے والے دہاڑی دار سادے لوگ بھی پکڑ میں آگئے، ان کے لئے کرونا کی موہوم تباہ کاری قبل ازوقت یقینی تباہی بن گئی ہے، دراصل مملکت وسلطنت کے ناخداؤوں نے تحفظ کے نام پر تعطل کا جو حصار قائم کیا ہے، اس سے ہر شہری ودیہاتی زندگی یک دم سے منجمد ہوگئی، بنی نوع انسان کی ترقی کو ریورس گیئر لگ گیا ہے، وہ لوگ جو توکل کے نام پر اپنے شبانہ روز میں مگن تھے، ان کی تو شامت ہی آگئی، کیا کھائیں؟ بچوں کو کیا کھلائیں؟ اور دیگر ضروریات کی تکمیل کہاں سے ہو؟ ہر طرف لاک ڈون کا سناٹا ہے، کمپنیوں کے مالکان اور کاروبار کے ذمہ داران نے اپنے اپنے دروازے بند کرلئے ہیں، موسم کے اتار چڑھاؤ سے بے نیاز، سرد وگرم ہواؤں سے نبردآزمائی کرتے ہوئے بلاناغہ مساجد کے میناروں سے ہر روز پانچ وقت ”حییَّ علی الفلاح“ کی آواز لگانے والے ان مؤذنوں، اور پابندی سے یومیہ پانچ وقت امامت کے فرائض انجام دینے والے حضرات ائمہ کا کیا ہوگا؟ مدرسوں کی چہاردیواری اور مکتبوں کے کمروں کے مسند نشیں جو لوگوں کو نار جہنم سے نجات دلانے کے لئے فکرمند ہوا کرتے تھے، آج وہ اور ان کے اہل خانہ اپنی آتشِ جوع کو کیسے ٹھنڈا کرپائیں گے؟ شاید اہل ثروت، فارغ البال، مرفَّہ الحال اور صالح المزاج اشخاص وأفراد کے لئے اس سے زیادہ بہتر وقت نہیں ہوگا کہ ان آیات ربانی اور فرمودات نورانی پر عمل پیرا ہوں جو اب تک وہ مسجدوں کے محرابوں، اور دینی مجلسوں سے انہی مولویوں کی زبانی سنتے چلے آرہے ہیں:
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ ۚ وَاِنْ تُخْفُوْہَا وَ تُؤْتُوْہَا الْفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیْرٌلَّکُمْ ؕ وَیُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِکُمْ ؕ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ﴿البقرہ ۲۷۱﴾—
(اگر ظاہر کرکے دو خیرات تو کیا اچھی بات ہے اور اگر اس کو چھپاؤ اور فقیروں کو پہنچاؤ تو وہ بہتر ہے تمہارے حق میں اور دور کرے گا کچھ گناہ تمہارے اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے ۔۔۔۔)
یعنی اگر لوگوں کے دکھانے کی نیت نہ ہو تو خیرات کرنا لوگوں کے روبرو بھی بہتر ہے تاکہ اوروں کو بھی شوق اور رغبت ہو اور چھپاکر خیرات کرنا بھی بہتر ہے تاکہ لینے والا نہ شرمائے۔ خلاصہ یہ کہ اظہار واخفاء دونوں بہتر ہیں مگر ہر موقع اور مصلحت کا لحاظ ضروری بات ہے۔
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ ۫ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ ۚ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ؕ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ ﴿البقرہ ۲۷۳﴾—
(اصل) حق ان حاجتمندوں کے لئے جو اللہ کی راہ میں گھرگئے ہیں، ملک میں کہیں چل پھر نہیں سکتے، ناواقف انہیں غنی خیال کرتا ہے ان کی احتیاطِ سوال کے باعث، تو انہیں ان کی بشرہ ہی سے پہچان لے گا، وہ لوگ سے لگ لپٹ کر نہیں مانگتے، اور تم مال میں سے جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ اس کا خوب جاننے والا ہے)
مفسر ومحقق تھانوی رحمہ اللہ کے بقول: ”آیت کے مصداق ہمارے ملک میں سب سے زیادہ وہ حضرات ہیں جو علوم دین میں مشغول ہیں کہ علم دین میں جس مشغولی وانہماک کی ضرورت ہے اس کے ساتھ اگر فکر معاش کی مصروفیت کو جمع کرلیا جائے تو علم دین کی خدمت ناتمام رہ جائے گی.“
جن کی غیرت وخود داری گوارا نہیں کرتی کہ وہ لوگوں سے سوال کریں۔ ناواقفوں کو اس سے گمان یہ گزرتا ہے کہ یہ لوگ خوشحال ہیں، محتاج، ومستحق امداد نہیں۔
اس وقت ہمارا پورا ملک کورونا وائرس کی لپیٹ میں کراہ رہا ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب ومفلوک الحال لاچار وبے بس لوگ گھروں میں پھنس کر رہ گئے ہیں، غریب سے لیکر سفید پوش تک محتاجی کے شکار ہوگئے ہیں،
ان میں ریلیف کیٹس اور امدادی رقوم کی تقسیم ازبس ضروری ہے۔
اصحاب خیر، فیاض دل اور متمول طبقہ باہر آکر "ذات، مذہب، برادری، علاقائی، وطنی، لسانی تنگنائیوں" سے اوپر اٹھ کر محض انسانی رشتوں کی بنیادپر حالات گزیدہ دُکھی انسانیت کی مدد اور راحت رسانی اور فلاح انسانیت کے کاموں میں بیش بہا خدمات کی انجام دہی میں بحمد اللہ جُٹ کر خیر امت ہونے کا عملی ثبوت پیش کررہا ہے۔
تاہم اس موقع سے بطور خاص اپنی زندگیاں دینی علوم کی ترویج و اشاعت اور شعائر اسلام کے بقاء وتحفظ کے لئے وقف کر دینے والے مفلس، باغیرت اور خوددار علمائے کرام، ائمہ ومؤذنین کے حالات کی خبر گیری کرنا، ان کی ضروریات کا تکفل کرنا، تلاش تلاش کر ان کی حاجتوں اور ضرورتوں کو پورا کرنا نسبۃً زیادہ ضروری ہے۔
مدارس ومساجد کا نظام انہی کے ایثار سے قائم ہے، ان کے تعطل سے مدارس اور اس کا سارا تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہوگا۔
وقت کے میناروں سے یہ صدا آرہی ہے، گردش زمانہ آواز دے رہی ہے، انسانیت ہمارے جذبے کو مہمیز لگا رہی ہے، کہ ہم اپنی نگاہ غیرت وہمدردی کو بلند کریں، ہم اپنی دینی حمیت اور ملی تخیل کو بیدار کریں اور ارشاد ربانی
لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون
کا علم بلند کرکے اس لاک ڈون کی مہاماری میں انسانیت کی خدمت اور بطور خاص مسکین ومفلوک الحال علماء کی دست گیری کے لئے نکل پڑیں؛ کیونکہ
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
مقام مسرت ہے کہ مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کا ایک جید الاستعداد، متحرک وفعال، اپنی بیش بہا علمی، اصلاحی، فلاحی اور سماجی خدمات کے باعث طبقہ عوام وعلماء میں شناخت واعتبار رکھنے والے باوقار نوجوان عالم دین، جنھیں بارگاہ ایزدی سے دینی حمیت، ملی غیرت، انسانی ہمدردی، احقاق حق اور ابطال باطل کے پاکیزہ جذبات سے وافر حصہ عطا ہوا ہے، یعنی محبی ومحترمی ابو حنظلہ مولانا عبدالاحد صاحب قاسمی زید مجدہ، مقیم سوجان گڑھ، راجستھان .............. نے موجودہ لاک ڈون کےظالمانہ چپیٹ میں پھنسے ہوئے دین کی ترویج واشاعت سے وابستہ افراد کی ضروریات وحاجات کی تکمیل کے لئے ایک بڑا میدان تیار کیا ہے، ان کی ایک ترغیب وتحریک پہ ان کے مصلیان، متوسلین ومعتقدین نے خطیر رقم (دس لاکھ روپے) پہ مشتمل ایک مخصوص رفاہی فنڈ قائم کردیا ہے، تقسیم کے عمل میں شفافیت لانے کے لئے وہ ایک منظم ومضبوط نظام بنانے میں مصروف عمل ہیں
مستحق علماء کرام کی فہرست بنے گی پھر وہ اپنے نظام کے مطابق امدادی رقوم کی تقسیم کریں گے
مولانا نے انتہائی نازک اور حساس موقع پر ایک موثر ومفید ترین پیش رفت کی ہے
جس پہ وہ قابل صد تبریک وستائش ہیں
انہوں نے ایک نئی راہ دکھائی اور اپنے حصے کا چراغ جلایا ہے۔
ملک کے طول وعرض میں پھیلے اپنے اپنے حلقے میں اثر ورسوخ رکھنے والے علماء کرام بھی اس طرح کا فنڈز قائم کریں، اور دبے کچلے پریشان حال باغیرت علماء کرام کی معاونت کا مستحکم مضبوط اور صاف وشفاف نظام بنائیں
لاک ڈاؤن کا قہر طول پکڑ سکتا ہے، دنیا کی بڑی بڑی معیشت کی کمر ٹوٹ رہی ہے
بڑے بڑے اقتصادیات والے ممالک بدحالی کا شکار ہیں
معمولی تنخواہوں پہ تدریس وامامت میں مصروف علماء کا کیا حال ہوگا؟
پیش بندی اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہر ذمہ دار شخصیت اس حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا کرے:
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ہم بصمیم قلب انھیں ارمغان تبریک وتہنیئت پیش کرتے ہیں، اور ان کے بلند عزائم اور پاکیزہ جذبات کو سلام کرتے ہیں، اوراللہ تبارک و تعالٰی کی بارگاہ میں التجا کرتے ہیں کہ ان کی یہ کوشش کامیابی سے ہمکنار ہو، اور صاحبان جبہ ودستار کے لئے اس نوجوان فاضل کا یہ عمل مشعل راہ ثابت ہو!
✍️: شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_79.html?m=1
No comments:
Post a Comment