Monday 13 April 2020

کورونا وائرس: مالک ومزدور کے حقوق ومعاملات

کورونا وائرس _______ مالک ومزدور کے حقوق ومعاملات
اللہ تبارک وتعالی  نے ہر انسان کو جسمانی طاقت وقوت بخشی تاکہ وہ جسمانی محنت ومزدوری کرکے اپنی روزی تلاش کرسکے اور  اپنی جسمانی ومعاشی ضروریات کی تکمیل ازخود کرسکے، ہمارے مذہب میں آدمی کی خود اپنے ہاتھ کی کمائی کو سب سے پاکیزہ عمل قرار دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے  اپنے چہیتے بندے  نبیوں اور رسولوں سے محنت ومزدوری کرواکے پیشہ محنت واجرت کی فضیلت اور عملی مثال بھی بیان کردی۔
یہ خدا کا کتنا بڑا کرم واحسان ہے کہ بعض بندوں، مزدوروں، جفاکشوں اور محنت کشوں کو بعضوں کے ماتحت کرکے اس کا غلام، نوکر، خادم یا مزدور بنادیا،  تاکہ وہ ازخود محنت مزدوری کرنے سے بچا رہے۔
جس کو کسی کے کام پہ لگایا جائے خواہ جسمانی کام ہو یا ذہنی (جیسے اساتذہ ومدرسین) اسے اجیر وملازم اور جس کے ماتحت کیا جائے اسے مالک ومستاجر کہتے ہیں۔
جو شخص متعین وقت کے اندر ایک ہی آدمی کا کام کرے اسے "اجیر خاص"، اور جو مختلف لوگوں کا کام کرے جیسے درزی وغیرہ،  تو اسے "اجیر مشترک"  کہتے ہیں۔
سرکاری اور پرائیویٹ اداروں اور  مدارس کے مدرسین وملازمین؛ جن کے کام اور ذمہ داری کے اوقات متعین ہوں وہ ان اوقات میں اجیرِ خاص ہیں، متعینہ اوقات میں تسلیم نفس اور حاضر باشی سے یہ لوگ اجرت ومزدوری کے مستحق ہوجاتے ہیں، عمل کرنا ضروری نہیں، جبکہ اجیر مشترک تسلیم نفس سے نہیں، مفوضہ کام کرنے کے بعد اجرت کا مستحق ہوگا:
الأجیر المشترک من یستحق الأجر بالعمل لا بتسلیم نفسہ للعمل۔ الأجیر الخاص من یستحق الأجر بستلیم النفس وبمضی المدۃ، ولا یشترط العمل في حقہ لاستحقاق الأجر۔ (تاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۲۸۱، رقم: ۲۳۰۷۴، ۲۳۰۷۵، المحیط البرہاني، المجلس العلمي ۱۲/ ۳۸، رقم: ۱۴۰۳۶، ہندیۃ، زکریا قدیم ۴/ ۵۰۰، جدید ۴/ ۵۴۳)
الأجیر الخاص: ہو الشخص الذي یستأجر مدۃ معلومۃ لیعمل فیہا، الأجیر المشترک: ہو الذي یعمل لأکثر من واحد، فیشترکون جمیعا في نفسہ کالصباغ والخیاط۔ (فقہ السنۃ، دارالکتاب العربي ۳/ ۱۹۳)
کسب معاش کے تین ذرائع: تجارت، زراعت اور اجارہ ومزدوری میں سے تیسرا ذریعہ معاش "محنت ومزدوری" ہے۔
ہر مخلوق کا اصل رازق تو اللہ تعالی ہے؛ لیکن سبب وذریعہ کے درجے میں اللہ تعالی نے دونوں طبقوں: مالک ومزدور کی روزی روٹی ایکدوسرے سے مربوط کردی ہے۔ اگر مالک، زمیندار وصنعت کار مزدوروں وملازموں کے محتاج ہیں تو وہیں محنت کش مالکان کے! 
مالکان ائیرکنڈیشنڈ گھروں، بنگلوں، کاروں اور دفتروں میں بیٹھ کر ملوں، کمپنیوں اور فیکٹریوں کے جو مالک بن رہے ہیں تو مزدوروں کے خون پسینے، قوت بازو اور دماغی ریاضتوں کی برکت سے! ادھر محنت کشوں کی روزگار کی فراہمی بھی صنعتکاروں اور مالکوں کے ذریعہ ہی مکمل ہورہی ہے۔ دونوں کے باہمی ارتباط وانضباط سے سماج کا اقتصادی نظام رواں دواں ہے:
’’نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَعِیْشَتَھُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضاً سُخْرِیّاً‘‘___ دنیوی زندگی میں ہم نے ان کی روزی تقسیم کررکھی ہے اور ہم نے ایک کو دوسرے پر رفعت دے رکھی ہے، تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔ (سورۃ الزخرف: ۳۲)
سرمایہ دارانہ نظام کی طرح مالک ومزدور کا یہ رشتہ خودغرضی، مفاد پرستی، جبر وتشدد، بدعہدی پر مبنی نہیں ہے؛ بلکہ مالک ومزدور کے مابین محنت واجرت کا یہ رشتہ اخوت، بھائی چارہ، جذبہ خیرخواہی، وفاداری، نفع رسانی، ترحم، تعاون باہمی،  ہمدردی وغمگساری اور مساوات پہ مبنی ہے۔ مذاہب عالم کے نظامہائے اقتصاد وعمال ومزدور میں یہ صرف اسلامی قانون محنت واجرت کا امتیاز ہے کہ اس نے مالک ومزدور کو بنیادی انسانی حقوق میں یکسر برابر قرار دیا، اونچ نیچ، اعلی وادنی، ارفع وکمتر کے فرق کو مٹایا، مالک کو بالادستی کے خبط اور مزدور کو حقیر وکمتر جیسے احساس کمتری سے یکسر پاک کیا۔ دونوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی استواری کی یہی اساس وبنیاد ہے۔ اس میں کمی ہونے سے ہی دونوں طبقوں میں تصادم واحتجاج کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اپنے حقوق کے مطالبہ کے لئے دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل آتے، صف آرا ہوتے اور اس کے نتیجے میں احتجاج ومظاہرے ہوتے ہیں۔
 ارشاد نبوی ہے:
............ إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُ
(صحيح البخاري. كتاب الإيمان 30)
(جس شخص کے بھائی کو اللہ اس کا ماتحت بنائے یعنی جو شخص کسی غلام کا مالک بنے تو اس کو چاہئے کہ وہ جو خود کھائے وہی اس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو بھی پہنائے نیز اس سے کوئی ایسا کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور اگر کوئی ایسا کام اس سے لئے جائے جو اس کی طاقت سے باہر ہو تو اس کام میں خود بھی اس کی مدد کرے)
پسینہ خشک ہونے سے قبل مزدوری ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ. (سنن ابن ماجة.كتاب الرهون. باب أجر الأجراء، رقم الحديث 2443.) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو۔) 
مزدور کے حقوق ہضم کرلینے والوں کو قیامت میں سزا ہوگی اور اللہ تعالی  خود مزدور کی طرف سے روز قیامت جگھڑیں گے: 
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ 
(صحيح البخاري. كتاب البيوع رقم الحديث 2114. بَاب إِثْمِ مَنْ بَاعَ حُرًّا__ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جھگڑوں گا، ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام اور میری سوگند کے ذریعے کوئی عہد کیا اور پھر اس کو توڑ ڈالا دوسرا وہ شخص ہے جس نے ایک آزاد شخص کو فروخت کیا اور اس کا مول کھایا اور تیسرا شخص وہ ہے جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے کام لیا (یعنی جس کام کے لئے لگایا تھا وہ پورا کام اس سے کروایا) لیکن اس کو اس کی مزدوری نہیں دی) 
"آدم خور" کورونا کی تباہ کاری وقیامت خیزی سے ایک بھی شعبہ زندگی بچ نہیں سکا، جہاں اس نے  لاکھ کے قریب قیمتی انسانی جانوں کو نگل گیا، لاکھوں صحت مند افراد کو بیمار کردیا وہیں دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی منڈیوں کی کمر توڑ دی اور کاروبار زندگی کا پہیہ جام کردیا ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے فیکٹریاں، سرکاری وپرائیویٹ ادارے، ملازمتی مراکز، مدارس وجامعات بالکل بند ہوگئے، معاشی سرگرمیاں معطل ہوگئیں، معاشی بحران کی وجہ سے برسر روزگار کروڑوں افراد ملازمت سے فارغ یا بغیر تنخواہ چھٹی پر بھیجے جارہے ہیں، لاکھوں دیہاڑی دار افراد فاقہ کشی پہ مجبور ہیں۔ 
کورونا خدائی قہر اور آسمانی عذاب ووباء ہے، یہ مزدوری اور محنت کشوں کی طرف سے پیدا کردہ صورت حال نہیں ہے بلکہ ایک مجبوری کی حالت ہے، ماہانہ، ہفتہ وار، یومیہ مزدوری پانے والے اجیر خاص کی طرف سے کوئی تفریط وتعدی نہیں ہے، مالکان ومستاجرین جس طرح اس مہاماری کے دنوں میں اپنے اہل وعیال اور گھر والوں کا خیال رکھ رہے ہیں اسی طرح اپنے ملازمین کا بھی خیال رکھیں، جس طرح وہ کھارہے ہیں اپنے ملازمین کے چولہا چکی گرم رکھنے کا بھی نظم فرمائیں، ماہانہ متعینہ تنخواہ نہ سہی! بنیادی ضروریات کے بقدر تنخواہ لازمی دیں، "لاضرر ولاضرار" "لایظلمون ولایظلمون" اور "الضرر یزال" یعنی حتی الامکان نقصان کی تلافی کی جائے گی) جیسے اصول وضوابط کا تقاضہ ہے کہ ملازمین کو فارغ کرنا یا بغیر تنخواہ چھٹی پہ بھیج دینا شرعا واخلاقا جائز نہیں، 
 اگر کوئی اجیر کام میں کوتاہی کرے یا اجرت معاہدہ یا حکومت کے مقر ر کردہ معیار سے زیادہ اُجرت مانگے تب تو اس کو روکنے اور تنبیہہ کرکے عدالت تک معاملہ لے جانے کا حق ہے۔
"ولوقصرالاجیرفی حق المستاجر فنقصہ من العمل اواستزادہ فی الاجرمنعہ منہ" 
(ابو یعلیٰ / الاحکام السطانیہ ص ٦٨٦) 
اجیر اگر مستاجر کے حق میں کوئی کوتاہی کرے یعنی کام کم کرے یا مقررہ معیار سے اُجرت زیادہ مانگے تو اس کو بھی اس سے روکا جائے گا۔ اگر اس محکمہ کے ذمہ داروں کی تنبیہہ اور ہدایت کے بعد بھی وہ باز نہ آئیں یا آپس میں کشمکش کریں تو فوراً یہ معاملہ سول کورٹ کے سپرد کردیا جائے اور وہ اس بارے میں اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرے گی۔) 
لیکن آسمانی افتاد کے وقت جبکہ اس کی جانب سے کوئی تعدی نہیں ہے کام سے فارغ کرنا یا بلاتنخواہ چھٹی کرنا انسانی اقدار وشریعت کے خلاف ہے) 
اسلام کا قانون محنت واجرت خیرخواہی، بھائی چارہ، ترحم وہمدردی پر مبنی ہے، یہ کیسی خیر خواہی ہے؟ کہ جن کے دم سے ہمارے آگن میں امیری کے شجر لگے ہوں، سخت مجبوری، کس مپرسی اور لاچارگی کی گھڑی میں ہم انہیں ہی بے یار ومددگار چھوڑ دیں؟ انسانی حقوق میں مالک ومزدور سب برابر ہیں، متعینہ تنخواہ میں مناسب حال کمی کرکے قدر ضرورت "تن خواہ" کا نظام حسب حال بحال رکھا جائے، جن لوگوں کو اجیر خاص بناکر ان کا  معاشی تکفل آپ کے کندھوں تھا، سخت مجبوری کے لمحے میں ان پہ تنگی کرنا ٹال مٹول کے زمرے میں آکر گناہ کا کام شمار ہوگا۔
اسی طرح جو لوگ آپ کی دکانوں کے کرایہ دار ہیں، سوائے روزمرہ اور سبزی وفروٹ کی دکانوں کے ان دنوں ہر کاروبار بند ہے، ان حالات میں خطیر کرائے کی رقوم ادا کرنا بھی ایک مصیبت ہے، ہر چند کہ کرایہ داری کے  باہم طے شدہ  معاہدہ کے بموجب کرایہ دار کے ذمے کرائے کی ادائی ضروری ہے؛ لیکن مالک مکان ودوکان ان کی مجبوریوں کو سمجھے، کرائے  میں کچھ فی صد کمی کردے یا حالات نارمل ہوجانے تک مہلت دیدے تو اعلی اخلاق اور خدمت انسانیت کی اعلی ترین مثال ونمونہ ہوگا.
مذہب اسلام نے انسان ہی نہیں جانوروں تک کے ساتھ رحم وکرم اور خیر خواہی کرنے کا حکم دیا ہے. 
محتاجوں کے کام آنا‘ بھوکے کو کھانا کھلانا‘ مسکینوں کی سرپرستی کرنا‘ امن وآشتی، انس والفت اور تسکین قلوب کا باعث ہے، کمزروں لاچاروں اور معاشی بے چاروں کے طفیل ہی اللہ تعالی مالداروں کو روزی دیتا ہے۔
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں 
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں 
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا 
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ!
✒: شکیل منصور القاسمی
https://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_13.html

No comments:

Post a Comment