فرعون کا دعوائے الوہیت
مصری زبان میں ”فارا“ بمعنی: محل، اور ”اَوْہ“ بمعنی اونچا، کے مجموعے کو ”فرعون“ کہا جاتا ہے، لغوی اعتبار سے ”عظیم محل“ پہ اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن اس سے مراد شاہِ مصر کی ذات ہوا کرتی تھی۔
لفظ فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں بلکہ شاہان مصر کا لقب تھا۔ جس طرح روم کے بادشاہ کو قیصر، چین کے بادشاہ کو خاقان اور روس کے بادشاہ کو زار، ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے تھے اسی طرح مصر کے بادشاہ کو فرعون کہتے تھے۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَفِرْعَوْنُ عَلَمٌ عَلَى كُلِّ مَنْ مَلَكَ مِصْرَ كَافِرًا مِنَ الْعَمَالِيقِ وَغَيْرِهِمْ، كَمَا أَنَّ قَيْصَرَ عَلَمٌ عَلَى كُلِّ مَنْ مَلَكَ الرُّومَ مَعَ الشام كافرا، وكسرى لمن مَلَكَ الْفُرْسَ، وَتُبَّعٌ لِمَنْ مَلَكَ الْيَمَنَ كَافِرًا، وَالنَّجَاشِيُّ لِمَنْ مَلَكَ الْحَبَشَةَ، وَبَطْلَيْمُوسَ لِمَنْ مَلَكَ الْهِنْدَ، وَيُقَالُ: كَانَ اسْمُ فِرْعَوْنَ الَّذِي كَانَ فِي زَمَنِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ الْوَلِيدُ بْنُ مُصْعَبِ بْنِ الرَّيَّانِ، وَقِيلَ مُصْعَبُ بْنُ الرَّيَّانِ، فكان من سلالة عمليق بن الأود بْنِ إِرَمَ بْنِ سَامِ بْنِ نُوحٍ، وَكُنْيَتُهُ أبو مرة، وأصله فارسي من إصطخر، وأيّا ما كان فعليه لعنة الله.
(تفسیر ابن کثیر، البقرہ ۴۹/۵۰)
قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصّے کے سلسلہ میں دو فرعونوں کا ذکر آتا ہے۔ ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ علیہ السلام پیدا ہوئے اور جس کے گھر میں آپ علیہ السلام نے پرورش پائی۔ دوسرا وہ جس کے پاس آپ علیہ السلام اسلام کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے اور وہ بالآخر بحیرہ احمر میں غرق ہوا۔ موجودہ زمانہ کے محققین کا عام میلان اس طرف ہے کہ پہلا فرعون رعمسیس دوم تھا جس کا زمانہ حکومت سن 1292 قبل مسیح سے سن 1225 قبل مسیح تک رہا۔ اور دوسرا فرعون منفتہ یا منفتاح تھا جو اپنے باپ رعمسیس دوم کی زندگی ہی میں شریک حکومت ہوچکا تھا اور اس کے مرنے کے بعد سلطنت کا مالک ہوا۔
حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں غرق ہونے والا یہی فرعون "منفتہ" یا "منفتاح" تھا۔
بعض نے اور نام بھی بتائے ہیں۔
یہ اصلاً ایک کافر، مشرک، دہریہ، منکر خدا اور الحادی ذہن فکر کا حامل شخص تھا، کائنات کا کوئی خالق نہیں مانتا تھا، برساتی حشرات وگھانس پھونس کے مانند ازخود عالم کے وجود وفناء کا عقیدہ رکھتا تھا.
بڑا ہی جابر، سرکش، متکبر ومتجبر حکمراں تھا.
اہم امور میں مشاورت کے لئے وہ اپنی ایک ”کانگریس“ (الملاء) بنا رکھی تھی، اپنی کانگریس حواریوں اور مشیروں کی باتوں کی تعمیل کو وہ ضروری سمجھتا تھا. ہر برے وقت میں مشیر ان سے مشورے طلب کیا کرتا تھا. ”فماذا تامرون“
یہ مشرک ودہریہ تھا.
سلطنت، حکمرانی اور مال ودولت کی بہتات سے اس میں جبر ونخوت کوٹ کوٹ کر بھرگئی تھی، خود کو سب سے بڑا مُطاع، واس رائے اور فرماں روائے اعلی (رب) تصور کرتا تھا
اس کے مذہبی عقائد کے بارے میں علامہ قرطبی لکھتے ہیں:
فرعون بتوں کی عبادت کرتا تھا، پس وہ خود عبادت کرتا تھا اور اس کی عبادت کی جاتی تھی۔
سلیمان تمیی نے کہا ہے: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ فرعون گائے کی پوجا کرتا تھا۔ تیمی نے کہا ہے: میں نے حسن سے پوچھا کیا فرعون کسی شے کی عبادت کرتا تھا؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، بلاشبہ وہ ایک شے کی عبادت کرتا تھا اور وہ اسے اپنی گردن میں ڈال لیتا تھا۔
امام بغوی آیت:
وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَى وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ
7:127
(وقال الملا من قوم فرعون) فرعون کو کہنے لگے (اتدر موسیٰ وقومہ لیفسدوا فی الارض) یہاں فساد سے ان کی مراد لوگوں کو فرعون کی عبادت سے ہٹانے کی دعوت دینا ہے (ویذرک والھتک) نہ وہ تیری عبادت کریں گے اور نہ تیرے بتوں کی۔)
کے ذیل میں لکھتے ہیں:
حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ فرعون اپنی ایک گائے کی عبادت کرتا تھا اور جہاں کہیں کوئی خوبصورت گائے دیکھتا تو اس کی عبادت کا لوگوں کو حکم دیتا۔ اس لئے سامری نے ان کے لئے بچھڑا بنادیا تھا۔ حسن (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ گردن پر صلیب لٹکائی ہوئی تھی اس کی عبادت کرتا تھا اور سدی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ فرعون نے اپنی قوم کے لئے بت بنائے تھے ان کی عبادت کا حکم دیتا تھا اور قوم کو کہتا تھا یہ تمہارے معبود ہیں یعنی میں تمہارا اور تمہارے معبودوں کا رب ہوں کہ ان کو میں نے بنایا ہے اس لئے تو وہ کہتا تھا ”انا ربکم الاعلی“
وَنَادَى فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي أَفَلَا تُبْصِرُونَ
043:051
اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا کہ اے میری قوم! کیا یہ مصر کی حکومت میری نہیں اور یہ نہریں میرے (محل کے) نیچے بہہ رہی ہیں تو کیا تمہیں نظر نہیں آتا؟
فرعون کے اس اعلان خسروی کا مضمون یہ تھا کہ حکومت، جائز وقانونی حکومت مصر بھر اور اس کے توابع پر میری ہے، یعنی میری ماتحتی میں، میرے احکام کے مطابق اب سارے امور انجام پائیں گے، میرے اذن وحکم سے سرمو انحراف کی طاقت اب کسی میں نہیں
یہیں سے وہ خود کو واجب الاطاعت سمجھنے لگا.
اسی زعم باطل میں اس نے خود کو اپنی رعایا سے ”انا ربکم الاعلی“ میں تم سب کا سب سے بڑا مطاع وفرماں روا ومنقاد ہوں
کہنے لگا:
رب کے معنی جہاں خالق، رفتہ رفتہ پالنے والے کے معنی ہیں وہیں اس لفظ کے معنی مطاع، منتظم، آقا، سردار اور مدبر وفرماں روا کے بھی ہیں!
علامہ ابن الاثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قال ابنُ الأثير: ”الرَّبُّ يُطْلَقُ في اللُّغةِ على المالكِ والسَّيِّدِ والمدَبِّرِ والمُرَبِّي والقيِّم والمُنْعِمِ.
ولا يُطلقُ غيرَ مضافٍ إلا على اللهِ تعالى، وإذا أُطْلِقَ على غيرِهِ أُضيفَ، فيقال: رَبُّ كذا“ [النهاية (1/ 179).
ہاں استعمالی فرق صرف اتنا ہے کہ غیر رب کے معنی میں استعمال کے وقت اضافت ضروری ہے جیسے رب المال رب البیت وغیرہ
سورہ یوسف آیت نمبر 41 میں لفظ رب بادشاہ وحکمراں کے معنی میں استعمال ہوا ہے:
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ۖ وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ ۚ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ
(یوسف :۴۱)
فرعون نے جب حضرت موسی علیہ السلام کی مصر میں دعوتی سرگرمیوں کی بابت اپنی کانگریس سے مشاور ت کی تو ان کے مشیروں نے جو کچھ کہا وہ بہت ہی قابل غور ہے:
وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ (الاعراف :127)
موسیٰ (علیہ السلام) آپ کو اور آپ کے معبودوں کو چھوڑکر فساد کرتے پھریں)
اس بابت صریح ہے کہ
فرعون اگرچہ اپنی قوم کے سامنے خود خدائی کا دعویدار تھا اور اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى کہتا تھا، لیکن خود بتوں کی پوجا پاٹ بھی کیا کرتا تھا۔
اس نے اپنی کانگریس اور اعوان سلطنت کے سامنے کبھی بھی رب اعلی بمعنی خالق کائنات کا دعوی نہیں کیا تھا بلکہ رب بمعنی مطاع اعلی استعمال کیا تھا
اگر وہ رب بمعنی الٰہ و خالق کا دعوی کرتا تو آج اس کی کانگریس ”وآلهتك“ کہ کر فرعون کے معبودوں کا تذکرہ کیوں کرتی؟
یہ لفظ اس کے ادعاء الوہیت کی کھلی نفی ہے
ایک موقع سے حضرت موسی علیہ السلام نے بھی دو ٹوک انداز میں فرعون سے فرمایا تھا:
قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ أَنزَلَ هَٰٓؤُلَآءِ إِلَّا رَبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّى لَأَظُنُّكَ يَٰفِرْعَوْنُ مَثْبُورًۭا ﴿102﴾
ترجمہ: انہوں نے کہا کہ تم یہ جانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے پروردگار کے سوا ان کو کسی نے نازل نہیں کیا۔ (اور وہ بھی تم لوگوں کے) سمجھانے کو۔ اور اے فرعون میں خیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤگے (سورۃ بنی اسرائیل، آیت 102)
الوہیت وربوبیت کے دعویدار تو تاریخ میں ان گنت گزرے ہیں.
لیکن پوری دنیا پہ حکومت کرنے والے دو بادشاہوں نے الوہیت کا دعوی کیا ہے
ایک نمرود بن کنعان
دوسرا بخت نصر بادشاہ
جس کے قتل وخونریزی وسفاکیت وبہیمیت کو سورہ بنی اسرائیل کے ابتدائی رکوع میں بیان کیا گیا ہے.
حاکم نے ”مستدرک“ 2: 589
میں اور مفسرین نے اپنی تفسیروں میں یہ روایت نقل فرمائی ہے:
قال الإمامُ الطبري في ”تفسيره ”حدثني المثنى، قال: ثنا أبو حذيفة، قال: ثنا شبل، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، قال: أنا أحيي وأميت: أقتل من شئت، وأستحيي من شئت، أدعه حيا فلا أقتله. وقال: ملك الأرض مشرقها ومغربها أربعة نفر: مؤمنان، وكافران، فالمؤمنان: سليمان بن داود، وذو القرنين؛ والكافران: بختنصر ونمرود بن كنعان، لم يملكها غيرهم .
وقال ابنُ كثيرٍ في ”البدايةِ والنهاية“: ”وقال الزبير بن بكار: حدثني إبراهيم بن المنذر، عن محمد بن الضحاك، عن أبيه، عن سفيان الثوري قال: بلغني أنه ملك الأرض كلها أربعة: مؤمنان وكافران، سليمان النبي، وذوالقرنين، ونمرود، وبخت نصر. وهكذا قال سعيد بن بشير سواء .
وقال السيوطي في ”الدرالمنثور“: ”وأخرج عبد بن حميد وابن جرير عن مجاهد في قوله : ”قال أنا أحيي وأميت” قال: أقتل من شئت، وأستحيي من شئت، أدعه حيا فلا أقتله، وقال: ملك الأرض مشرقها ومغربها أربعة نفر: مؤمنان وكافران، فالمؤمنان: سليمان بن داوود وذو القرنين، والكافران: بختنصر ونمرود بن كنعان، لم يملكها غيرهم.
وقال أيضاً: ”قال مجاهد: ملك الدنيا مشارقها ومغاربها أربعة : مؤمنان وكافران، فالمؤمنان (سليمان بن داود) و (ذو القرنين) والكافران (نمرود) و (بختنصر) .
وقال السيوطي في ”الحاوي“: ”وأخرج (ك) ابن الجوزي في تاريخه عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ملك الأرض أربعة مؤمنان وكافران فالمؤمنان ذوالقرنين وسليمان والكافران نمروذ وبخت نصر وسيملكها خامس من أهل بيتي“.
فرعون کے دعوائے الوہیت کی قلعی اس وقت کھل گئی جب سمندر میں غرقاب ہوتے ہوئے یہ کہا:
وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ (یونس :90)
ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ فرعون نے حقیقی معنوں میں رب والٰہ ہونے کا دعوی نہیں کیا، جہاں اس کے حوالے سے رب یا الہ جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو ان کے معنی وائس رائے اور فرماں روا و حکمراں کے ہیں
ان کلمات میں یہ معانی مراد لئے جانے کی گنجائش بھی ہے.
واللہ اعلم
No comments:
Post a Comment