شعبان
کی پندرہویں شب میں
کیا چیزیں مشروع ہیں اور کیا نہیں؟
تفصیلی بحث روایات، آثار، اقوال سلف کی روشنی میں دینی مناسبات کے آتے ہی یہ باتیں بکثرت گردش کرنے لگتی ہیں بعض اس کی مشروعیت کا سرے سے انکار کردیتے ہیں. بعض اس کو ثابت کرنے کی انتھک کوششوں میں جٹ جاتے ہیں انہیں مناسبات میں سے نصف شعبان کی رات ہے جسے شب برات (برأت کی رات) کہا جاتا ہے
چنانچہ بعض لوگوں نے شب برات کی فضیلت و مشروعیت اور اس رات عبادت کا یہ کہہ کر سرے سے انکار کر دیا کہ جتنی بھی احادیث فضائل اور مشروعیت کے سلسلے میں بیان کی جاتی ہیں وہ انکے اجتہاد اور تحقیق کے مطابق ضعیف ہیں
اور بعض نے اس کی فضیلت و مشروعیت کو ان احادیث سے ثابت کیا ہے جو ان کے اجتہاد اور تحقیق کے مطابق صحیح ہیں
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فضائل نصف شعبان کے متعلق دس اصحاب رسول (رضوان اللہ علیہم اجمعین) سے احادیث مروی ہے گرچہ سنداً کچھ ضعف ہے جس کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل اور بے بنیاد ہے لیکن جمہور محدثین و فقہاء کی یہ رائے ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کچھ کمزرو ہو اگر اس کی تائید دیگر احادیث سے ہوتی ہو تو چند شرطوں کے ساتھ اس کا ضعف دور ہوجاتا ہے.
اسباب رد الحدیث لمحمد محمود بکار (ص/١٤)
إعلاء السنن میں ہے:
و تعدد الطرق يورث الضعيف قوة
(إعلاء السنن ٤/١٥٢)
جیسا کہ اوپر ذکر کا گیا کہ اس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہے لہذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا ناانصافی ہے
ائمہ اربعہ اس رات کے قیام کے استحباب کے قائل ہیں.
مذہب احناف:
قالَ الشرنبلالي في ”مراقي الفلاح“:
”(و) يندبُ إحياءُ ( ليلةِ النصف من شعبانَ) لأنها تكفِّرُ ذنوبَ السَّنة…ومعنى القيامُ أن يكونَ مشتغلاً مُعظمَ الليلِ بطاعةٍ [151/1]
شرنبلالی "مراقی الفلاح" میں فرماتے ہیں:
نصف شعبان کی رات کو جاگنا مستحب ہے کیونکہ یہ سال بھر کے گناہوں کا کفّارہ ہوجاتا ہے. اور قیام کے معنی یہ ہیں کہ رات کے اکثر حصوں میں عبادت کے ساتھ مشغول رہیں.
وقال في موضعٍ آخرَ:
”و”نُدبَ“ الاغتسال”في ليلةِ براءة ”وهي ليلةُ النصفِ من شعبانَ لإحيائِها وعِظم شأنها إذ فيها تقسَّمُ الأرزاقُ والآجالُ“.
اور دوسری جگہ پر فرمایا:
اور مستحب ہے غسل کرنا شب برأت میں اور یہ (لیلۃ البراءۃ) نصف شعبان کی رات ہے, اس کے عظمتِ شان کی وجہ سے کیونکہ اس رات میں رزق تقسیم کیا جاتا ہے اور آجال (عُمریں) مقرّر کی جاتی ہیں.
مذھب مالکی:
جاء في حاشية الدسوقي المالكي
”( قوله وندب إحياء ليلته ) أي لقوله عليه الصلاة والسلام {من أحيا ليلة العيد وليلة النصف من شعبان لم يمت قلبه}" [1/399]
حاشیہ الدسوقی المالکی میں یہ بات لکھی ہے:
(ماتن کا قول کہ اس رات جاگنا مستحب ہے) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی وجہ سے: جو شخص عید کی رات اور نصف شعبان کی رات کو جاگا اس کا دل مردہ نہ ہوگا-
مذھب شافعی:
قالَ الإمامُ النوويُّ رحمه الله تعالى:
”وَاسْتَحَبَّ الشَّافِعِيُّ وَالْأَصْحَابُ الْإِحْيَاءَ الْمَذْكُورَ مَعَ أَنَّ الْحَدِيثَ ضَعِيفٌ لِمَا سَبَقَ فِي أَوَّلِ الْكِتَابِ أَنَّ أَحَادِيثَ الْفَضَائِلِ يُتَسَامَحُ فِيهَا وَيُعْمَلُ عَلَى وَفْقِ ضَعِيفِهَا وَالصَّحِيحُ أَنَّ فَضِيلَةَ هَذَا الْإِحْيَاءِ لَا تَحْصُلُ إلَّا بِمُعْظَمِ اللَّيْلِ“
المجموع شرح المهذب [5/ 43]
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام شافعی اور ان کے اصحاب نے (اس رات میں) جاگنے کو مستحب قرار دیا ہے باوجودیکہ اس بارے میں حدیث ضعیف ہے. جیسا کی ابتداءِ کتاب میں گزرچکا ہے کہ احادیثِ فضائل میں نرمی سے کام لیا جاتا ہے اور اس کے ضعیف ہونے کے باوجود اس پر عمل کیا جاتا ہے. اور صحیح بات یہ ہے کہ اس رات میں جاگنے کی فضیلت اس رات کے اکثر حصے میں عبادت کرنے سے حاصل ہوگی
مذهب حنبلي:
قال العلامة البهوتي رحمه الله تعالى:
”ولا يقومُهُ كلَّه-يعني الليلَ- إلا ليلةَ عيدٍ، ويتوجَّهُ ليلةُ النصفِ من شعبان“.
الروض المربع للبهوتي [118]
كشاف القناع [1/ 444]
علامہ بھوتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اور پوری رات قیام نہ کرے مگر عید کی رات کو اور نصف شعبان کی رات...
وانظر شرح منتهى الإرادات [1/251]
وقال: ”(وأما ليلة النصف من شعبان ففيها فضل وكان) في (السلف من يصلي فيها…“
اور شرح منتھی الارادات میں ہے: فرمایا اور نصف شب شعبان کی فضیلت ثابت ہے اور بعض سلف اس رات میں نوافل ادا فرمایا کرتے تھے.
اور جو لوگ نصف شعبان کے قیام کے استحباب کی رائے اختیار کئے ہیں ان میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ الحرانی الحنبلی رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں فرماتے ہیں:
مسألة: في صلاة قيام النصف شعبان؟
الجواب:
"إذا صلى الإنسان ليلة النصف وحده، أو في جماعة خاصة كما كان يفعل طوائف من السلف، فهو أحسن. وأما الاجتماع في المساجد على صلاة مقدرة. كالاجتماع على مائة ركعة، بقراءة ألف: قل هو الله أحد دائما. فهذا بدعة، لم يستحبها أحد من الأئمة. والله أعلم" اهـ
الفتاوى الكبرى لابن تيمية [2/ 262]
ومجموع الفتاوى [23/ 131]
نصف شعبان کی رات کو قیام کرنا کیسا ہے؟
جواب: جب انسان نصف شعبان کی رات انفراداً نماز پڑھے یا کسی خاص جماعت میں نماز پڑھے جیسا کہ سلف کی ایک جماعت کیا کرتی تھی تو یہ احسن ہے (اچھا ہے). اور مساجد میں جماعت کرنا متعین مقدار کی نماز پر جیسے سو رکعت کی نماز پر جماعت کرنا یا یہ کہ قل ھو اللہ احد ہزار بار پڑھیں تو یہ بدعت ہے. کسی بھی امام نے اس کو مستحب نہیں قرار دیا. واللہ اعلم
وفي مجموع الفتاوي [23/ 132]:
"وأما ليلة النصف فقد روى في فضلها أحاديث وآثار ونقل عن طائفة من السلف أنهم كانوا يصلون فيها.........
اور مجموع الفتاوی میں یہ بھی ہے
اور نصف شعبان کی رات کی فضیلت تو اس بارے میں احادیث و آثار منقول ہیں اور یہ بات بھی نقل کی گئی ہے کہ سلف کی ایک جماعت ان راتوں نوافل ادا کیا کرتی تھی .............
معاصر علماء میں سے شیخ صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ومن هذا الباب ليلة النصف من شعبان روي في فضلها أحاديث ومن السلف من يخصها بالقيام ومن العلماء من السلف وغيرهم من أنكر فضلها وطعن في الأحاديث الواردة فيها، لكن الذي عليه كثير من أهل العلم أو أكثرهم على تفضيلها"
(مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين: 7/ 156)
نصف شعبان کے فضائل میں سلف سے مروی ہے جن میں سے بعض اس رات کے قیام کی تخصیص کی یے اور علماء سلف کی ایک جماعت نے نصف شعبان کے فضائل کا انکار کیا ہے اور اس سلسلے میں مروی احادیث پر جرح کی ہے لیکن حق بات جس پر اکثر اہل علم ہیں وہ نصف شعبان کے فضائل (کے قائل) ہیں
قال ابن عباس رضي الله عنهم: (في النصف من شعبان): (إنَّ الرجلَ ليمشي في الأسواق، وإن اسمه لفي الموتى)
ابن عباس رضی اللہ عنہ نصف شعبان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ایک شخص (نصف شعبان کی رات کو) بازار میں گھوم رہا ہوتا ہے حالانکہ اس کا نام مردوں میں (لکھا جاچکا) ہوتا ہے
مصنف عبد الرزاق: ج4/ص317
وقال عبد الله بن عمر رضي الله عنهم: (خمس ليال لا تردُّ فيهن الدعاء ليلة الجمعة وأول ليلة من رجب وليلة النصف من شعبان وليلتيِ العيدين)
اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ:
پانچ راتیں جس میں دعائیں رّد نہیں ہوتیں, جمعہ کی رات کو اور رجب کی پہلی رات کو اور نصف شعبان کی رات کو اور عید کی دو راتوں کو
مصنف عبد الرزاق: ج4/ص317.
وقال عطاء بن يسار رحمه الله: (تنسخ في النصف من شعبان الآجال، حتى أنَّ الرجلَ ليخرجُ مسافراً وقد نسخ من الأحياء إلى الأمواتِ، ويتزوج وقد نسخ من الأحياء إلى الأموات)
عطاء ابن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: نصف شعبان کو عمریں لکھی جاتی ہیں یہاں تک کہ آدمی سفر کی غرض سے نکلتا ہے حالانکہ وہ زندوں سے مردوں میں لکھا جاچکا ہوتا ہےاور آدمی شادی کرلیتا ہے حالانکہ وہ زندوں سے مردوں میں لکھا جاچکا ہوتا ہے.
مصنف عبد الرزاق: ج4/ص317.
وقال الشافعي رحمه الله: (بلغنا أنه كان يقال: إن الدعاء يستجاب في ليلة الجمعة، وليلة الأضحى، وليلة الفطر، وأول ليلة من رجب، وليلة النصف من شعبان، وبلغنا أن ابن عمر كان يحيي ليلةَ جمعٍ، وليلةُ جمع هي ليلة العيد لأن في صبحها النحر... ثم قال (أي الشافعيّ): وأنا أستحبُّ كل ما حكيت في هذه الليالي من غير أن يكون فرضا)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ دعائیں, جمعہ کی رات کو اور عیدالاضحی کی رات کو اور عیدالفطر کی رات کو اور رجب کی پہلی رات کو اور نصف شعبان کی رات کو قبول کی جاتی ہیں.
اور ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ لیلۃ جمع (مزدلفہ کے قیام) والی رات کو جاگا کرتے تھے اور لیلۃ جمع لیلۃ عید ہے کیونکہ اس رات کی صبح ہی قربانی کا دن ہوتا ہے.
پھر امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس رات کے بارے میں تمام روایات کے پیش نظر اسے فرض جانے بغیر مستحب قرار دیتا ہوں
الام: ج 1/ ص 364،
معرفة السنن والآثار ج3/ص67
قال المباركفوريّ: اعلم أنه قد ورد في فضيلة ليلة النصف من شعبان عدة أحاديث مجموعها يدل على أن لها أصلاً... فهذه الأحاديث بمجموعها حجة على من زعم أنه لم يثبت في فضيلة ليلة النصف من شعبان شيء والله تعالى أعلم
مبارکپوری فرماتے ہیں کہ جان لیجئے کہ نصف شعبان کے فضائل کے بارے میں متعدد احادیث منقول ہیں جس کا مجموعہ اس کی حقیقت پر دلالت کرتا ہے.ان احادیث کا مجموعہ ان لوگوں کے خلاف حجت ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اس رات کی فضیلت کے بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں، واللہ اعلم بالصواب
تحفة الأحوذي: ج3/ص365،
مشكاة المصابيح مع شرحه مرعاة المفاتيح (4/ 645).
خلاصـــــہ
تمام احادیث، آثار، اقوال سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس رات میں کوئی مخصوص عبادت مشروع نہیں، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اس کا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بے اصل بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکرکریں، تسبیح پڑھیں، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں اور مخصوص طریقے پر عبادت کرنا بدعت کے زمرے میں آئیگا ۔
نیز بعض لوگ انتظام واہتمام کے ساتھ قبرستان جاتے ہیں یہ بھی مشروع نہیں آپ صلی اللہُ علیہ وسلم پوری زندگی مبارک میں صرف ایک بار جنت البقیع تشریف لے گئے لہذا آپ بھی زندگی میں ایک بار یا دو بار جائیں لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا،التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی، یہ اسکو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے اور یہی عمل بدعت کی راہ ہموار کرتا ہے۔
اور روزہ رکھنے کے استحباب پر علماء نے رد کیا ہے کہ اس سلسلے میں صرف ایک حدیث وارد ہوئی ہے وہ بھی ضعیف ہے البتہ شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے لیکن 28 اور29 شعبان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کےلئے انسان نشاط کے ساتھ تیا ر رہے۔
نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کےلئے انسان نشاط کے ساتھ تیا ر رہے۔
اللہ ﷻ سے دعاء ہے کہ ہم تمام کو قرآن و حدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بدعت و خرافات سے دور رکھے
✍ محسن السیف
http://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_28.html?m=1
http://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_28.html?m=1
No comments:
Post a Comment