Saturday, 11 April 2020

مسلمانوں کا کافر پڑوسی کو نذر آتش کرنا یا مرگھٹ تک جانا؟

مسلمانوں کا کافر پڑوسی کو نذر آتش کرنا یا مرگھٹ تک جانا؟
--------------------------------
بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی
-------------------------------
آج کل کچھ مسلمان برادران وطن کی موت کے بعد ان کی آخری رسوم انہی کے مذہب کے مطابق ادا کررہے ہیں یعنی نذر آتش کرنا وغیرہ. اس کی کہاں تک گنجائش ہے؟
سائل: احمد خان قاسمی نئی دہلی
الجواب وباللہ التوفیق:
اسلام ایک مکمل دین اور مستقل تہذیب ہے۔ اس میں زندگی کے ہر مسئلے کا تشفی بخش حل موجود ہے۔کسی بھی دوسرے مذہب اور تہذیب وتمدن سے کچھ لینے اور خوشہ چینی کی ضرورت نہیں۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 208 میں مسلمانوں سے جو مطالبہ کیا گیا ہے وہ بہت ہی عام ہے کہ اسلامی عقائد واعمال اور احکام وتعلیمات کی صداقت وحقانیت پہ دل ودماغ بھی مطمئن ہو اور اعضاء وجوارح بھی عملی ثبوت پیش کریں۔ پوری کائنات میں سب سے افضل واشرف مخلوق انسان ہے۔ خواہ زندہ ہو یا مردہ، مسلم ہو یا کافر! بحیثیت انسان اس کی تکریم واحترام کو اسلام میں واجب قرار دیا گیا ہے: 
(وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ)
اس کی یا اس کے کسی عضو جسمانی کی توہین اسلام میں جائز نہیں ہے۔ اس کے کسی بھی جزء سے انتفاع واستفادہ کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اسی لئے مدت رضاعت سے زائد مدت دودھ پلانا بھی ممنوع ہے۔ ہر اس عمل سے اسلام نے روکا ہے جو انسان کی اشرفیت وافضلیت کے منافی ہو۔ اگر اسلام انسان کی تکریم واحترام کی اتنی موکد تعلیم نہیں دیتا تو انسان قابل تکریم اور اشرف المخلوقات کی بجائے متاع بازار بن کے رہ جاتا اور لوگ اس کے گوشت پوست سے سربازار بھوک مٹاتے نظر آتے!
قال العلامۃ کمال الدین ابن الہمام ؒ:..................  لان الآدمی مکرم غیر مبتذل فلایجوز ان یکون شی من اجزائہ مھانا ومبتذلا آه (فتح القدیر:ج؍۶، ص؍۶۳، باب البیع الفاسد)
قال العلامۃالکاسانیؒ: والآدمی بجمیع اجزائہ محترم مکرم ولیس من الکرامۃ والاحترام ابتذالہ بالبیع والشراء۔ (البدائع والصنائع: ج؍۵، ص؍۱۴۵، کتاب، البیوع، فصل واماالذی یرجع الی المقصود ۔۔۔ الخ
ومثلہ فی ردالمحتار: ج؍۶، ص؍۳۷۲، فصل فی النظر والمس۔ کتاب الخطر والاباحۃ۔ والآدمي مکرم شرعًا، والمراد تکریم صورتہ وخلقتہ، وکذا لم یجز کسر عظام میت۔ (شامي ۷؍۲۴۵ زکریا، البحرالرائق ۶؍۸۱)
جسم انسانی خواہ مسلمان کا ہو یا کافر کا، قابل اکرام وواجب الاحترام ہے، اسے جلانا جزو انسان کی توہین ہونے کے سبب ناجائز وحرام ہے۔ بتصریح قرآن کریم ہرگروہ اور ہر جماعت خواہ اہل حق میں سے ہو یا اہل باطل میں سے اپنی ہی مزعومات ومعتقدات اور آئیڈیالوجی میں مگن ہے۔ 
"كل حزب بما لديهم فرحون" (الروم ۔32۔)۔
اس بنیاد پر اگر کسی مذہب، تہذیب ومعاشرت میں مردے کو جلانا مروج ہو تو یہ اس کا "اندرون خانہ" معاملہ ہے۔ مرگھٹ تک جانا یا اس میں معاون وشریک کار بننا جائز نہیں ہے۔ کسی کے عمل، طریقہ اور رواج کی تحقیر وتضحیک کئے بغیر اسلامی ہدایات پر  پہ عمل کی کوشش کرنی چاہئے۔ مردے کو نذر آتش کرنے کا طریقہ مسلمانوں کے لئے جائز نہیں۔ اسلامی طریقہ سے ہٹ کے نئے نئے طریقوں میں شرکت کرنا افسوس ناک بھی یے خطرناک بھی اور اسلامی غیرت اور دینی حمیت کے خلاف بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص کسی دوسری قوم کے اخلاق وعادات اور طور طریقہ کی پیروی کرنے لگے وہ انہی میں سے ہوجاتا ہے۔ دیگر مذاہب والوں کے ساتھ تعاون اور عدم تعاون کا اسلامی اصول یہ ہے کہ ان کے ساتھ مشترک سماجی وملکی مسائل ومعاملات میں، جن میں شرعی نقطئہ نظر سے اشتراک وتعاون کرنے میں کوئی ممانعت نہ ہو ان میں ساتھ دینا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں اس طرح کے متعدد نمونے ملتے ہیں۔ صرف ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
 في ’’صحیح البخاري‘‘: عن أنس رضي اللہ عنہ قال: کان غلام یہودي یخدم النبي ﷺ فمرض، فأتاہ النبي ﷺ یعودہ فقعد عند رأسہ فقال لہ: ’’أسلم‘‘ فنظر إلی أبیہ وہو عندہ فقال لہ: أطِع أبا القاسم - ﷺ - فأسلم، فخرج النبي ﷺ وہو یقول: ’’الحمد للہ الذي أنقذہ من النار‘‘ ۔ (۱/۱۸۱، کتاب الجنائز ، باب إذا أسلم الصبي فمات ہل یصلی علیہ وہل یعرض علی الصبي الإسلام ، الرقم :۱۳۵۶)
و في ’’البحر الرائق‘‘: قال رحمہ اللہ: (وعیادتہ) یعني تجوز عیادۃ الذمي المریض لما روي أن یہودیا مرض بجوارالنبي ﷺ فقال: قوموا بنا نعود جارنا الیہودي فقاموا ودخل النبي ﷺ وقعد عند رأسہ وقال لہ : قل ’’أشہد أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ فنظر المریض إلی أبیہ فقال: أجبہ، فنطق بالشہادۃ، فقال ﷺ: ’’الحمد للہ الذي أنقذ بي نسمۃ من النار‘‘ الحدیث ۔ ولأن العیادۃ نوع من البر وہي من محاسن الإسلام فلا بأس بہا۔ (۸/۳۷۴، کتاب الکراہیۃ)
وفي ’’بدائع الصنائع‘‘: ولا بأس بعیادۃ الیہود والنصاری، لما روي أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاد یہودیا فقال لہ: ’’قل لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، فنظر إلی أبیہ فقال لہ أبوہ: أجب محمدا، فأسلم، ثم مات، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’الحمد للہ الذي أنقذ بي نسمۃ من النار‘‘ ولأن عیادۃ الجار قضاء حق الجوار، وأنہ مندوب إلیہ، قال اللہ تبارک وتعالی: {والجار الجنب} من غیرفصل مع ما في العیادۃ من الدعوۃ إلی الإیمان رجاء الإیمان فکیف یکون مکروہا۔ (۶/۵۰۹، ۵۱۰، کتاب الاستحسان، الدرالمختار مع الشامیۃ: ۹/۵۵۶، کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع، الہدایۃ :۴/۴۵۸، کتاب الکراہیۃ)
لیکن کفار ومشرکین کے مذہبی  ودینی امور میں اشتراک وتعاون تعلیمات اسلام کے خلاف ہے، جسے ہمارا مذہب ناجائز وحرام کہتا ہے۔ کنز العمال میں ہے:
من کثر سواد قوم فہو منہم، ومن رضي عمل قوم کان شریکا في عملہ‘‘ ۔ (۹/۱۱، الرقم: ۲۴۷۳۰، نصب الرایۃ للزیلعي: ۵/۱۰۲، کتاب الجنایات، باب ما یوجب القصاص وما لا یوجبہ، الحدیث التاسع)
مذہبی رواداری مادر پدر آزاد نہیں ہے؛ بلکہ وہ مذہبی واخلاقی قدروں اور حدود کے  ساتھ محدود ہے 
برادران وطن کے مذہبی رسوم میں اس طرح  تعاون پیش کرنا "مذہبی اشتراک وتعاون" کا شائبہ پیش کرتا ہے اس لئے یہ جائز نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اپنے ہر عمل کو سنت اور شریعت کی کسوٹی پر جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان نذر آتش کرنے والی کسی  نوعیت میں کہیں اچانک مبتلا ہوجائے تو موقع اور حالات کے لحاظ سے کوئی پہلو یا حکمت عملی اختیار کرکے کنارے ہوجائے ۔۔ ہاں! سخت مجبوری، اضطرار یا رفع حرج کے ذیل کی خصوصی نوعیت کی کوئی عارضی شکل پیش آجائے تو ایسے وقت مستند علما کرام سے صورت حال بتلاکر شرعی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے. اگر کورونا جیسی کسی خطر ناک متعدی مہلک بیماری میں کوئی کافر رشتہ دار یا پڑوسی انتقال کر جائے اور اسے اس کا کوئی ہم مذہب اس کے مذہبی عقائد کے مطابق آخری رسوم ادا کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو تو اب بدرجہ مجبوری مسلمان رشتہ دار یا پڑوسی کے لئے رخصت ہے کہ اسے کسی کپڑے میں لپیٹ کر کسی گڑھے میں چھپادے. باضابطہ غسل وکفن دینا یا مرگھٹ تک جاکر  اسے نذر آتش کرنا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے:
عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ : قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ. قَالَ: "اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي". فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ وَجِئْتُهُ، فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ، وَدَعَا لِي. (سنن أبي داود:٣٢١٤ كِتَابٌ: الْجَنَائِزُ  | بَابٌ: الرَّجُلُ يَمُوتُ لَهُ قَرَابَةٌ مُشْرِكٌ)
كافر مات و له ولي مسلم قال يغسله و يكفنه و يدفنه و في الفتاوى العتابية ويجهزه و في الولوالجبة و لا يصل عليه.... و لا يغسل كما يغسل المسلم... و كذلك لا يراعى في حقه سنة الكفن. (الفتاوى التاتارخانية ٧٧/٣ كتاب الصلاة باب الجنازة زكريا جديد)
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور  القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_11.html?m=1

No comments:

Post a Comment