Saturday, 18 April 2020

ثریا ستارہ اور کورونا

🎇 ثریا ستارہ اور کورونا 🎇
ثریا نامی ستارہ کے طلوع ہوتے ہی 12 مئی کو کورونا وائرس کا بھی خاتمہ ہوگا
👆🏽اس طرح کا اصل مضمون عربی میں ابو العباس عبد الالہ عباسی (ایک معاصر عالم) نے لکھا ہے، پھر اپنے دیار کے مختلف حضرات ومن جاورہم نے اس کا اردو ترجمہ کرکے اس کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے مختلف گروپوں میں وائرل کردیا ۔
👈🏽 بہت سے حضرات نے عاجز سے تقاضا کیا کہ اس پر آپ کا کوئی تبصرہ آجائے تو اچھا ہے، میں نے مراجعت کی، تو مجھے ان مضامین میں چند کمزور پہلو نظر آئے، جن کو درج ذیل چار باتوں میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے، ان باتوں کو مختصر نوٹ یا تبصرہ ہی سمجھیں، یہ کوئی مفصل جواب یا مدلل تحقیق نہیں ہے۔
▪️ پہلی بات: مضامین وجوابات لکھنے والے اس سلسلہ میں وارد سب سے مفصل اور مطلب کو واضح کرنے والی روایت، جو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی بخاری شریف، کتاب البیوع (2193) اور ابوداود، کتاب البیوع (3372) میں ہے، ذکر نہیں کرتے، وہ یہ ہے:
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ الله عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَايَعُونَ الثِّمَارَ، فَإِذَا جَدَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ قَالَ الْمُبْتَاعُ : إِنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدُّمَانُ، أَصَابَهُ مُرَاضٌ، أَصَابَهُ قُشَامٌ . عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الْخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ: "فَإِمَّا لَا فَلَا تَتَبَايَعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُ الثَّمَرِ" كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَتِهِمْ.
وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَمْ يَكُنْ يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا، فَيَتَبَيَّنَ الْأَصْفَرُ مِنَ الْأَحْمَرِ. 
💥 ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ پھلوں کی خرید و فروخت (درختوں پر پکنے سے پہلے) کرتے تھے۔ پھر جب پھل توڑنے کا وقت آتا، اور مالک (قیمت کا) تقاضا کرنے آتے تو خریدار یہ عذر کرنے لگتے کہ پہلے ہی اس کا گابھا خراب اور کالا ہوگیا، اس کو بیماری ہوگئی، یہ تو ٹھٹھر گیا پھل بہت ہی کم آئے۔ اسی طرح مختلف آفتوں کو بیان کر کے مالکوں سے جھگڑتے (تاکہ قیمت میں کمی کروالیں) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے مقدمات بکثرت آنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب اس طرح جھگڑے ختم نہیں ہوسکتے تو تم لوگ بھی میوہ کے پکنے سے پہلے ان کو نہ بیچا کرو۔ گویا مقدمات کی کثرت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور مشورہ فرمایا تھا۔ خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے باغ کے پھل اس وقت تک نہیں بیچتے جب تک ثریا نہ طلوع ہو جاتا اور زردی اور سرخی ظاہر نہ ہوجاتی۔ [از: اسلام 360]
▪️ دوسری بات: جو حضرات (وباؤں کے اٹھ جانے) کو عمومی طور پر ہر قسم کی وبا پر محمول کرتے ہیں، وہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم کی مندرجہ ذیل روایت سے استدلال کرتے ہیں، جس کو امام طبری نے تفسیر سورۂ فلق میں نقل کی ہے:
حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: قال ابن زيد، في قوله: ﴿وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ﴾ قال: كانت العرب تقول: الغاسق: سقوط الثريا، وكانت الأسقام والطواعين تكثر عند وقوعها وترتفع عند طلوعها.
💥 ترجمہ: ابن زید فرماتے ہیں کہ (غاسق اذا وقب) سے عرب حضرات کے نزدیک ثریا نامی ستارہ کا ڈوبنا مراد ہے، وہ کہتے ہیں کہ بیماریاں اور وبائیں ثریا کے ڈوبنے کے وقت بڑھ جاتی تھیں، اور طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں۔
🌀 ابن زید کی روایت میں ثریا کے سقوط وطلوع دونوں اوقات کا تذکرہ ہے۔ ماہرین فلکیات کے بقول:
ثریا کے سقوط (ڈوبنے) کا وقت: نومبر مہینہ کا درمیانی عشرہ ہے۔
اور طلوع کا وقت: مئی مہینہ کا درمیانی عشرہ ہے۔
👈🏽 یہاں پر مجھے مضامین وجوابات لکھنے والوں پر تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے روایت کے آخری حصہ کو تو دلیل بناکر کہا کہ: مئی کی بارہ 12 تاریخ کو ثریا نامی ستارہ طلوع ہوگا، اور اس کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس بھی ختم ہوجائے گا۔
مگر 'روایت کا پہلا حصہ' کہتا ہے کہ وبا کا ظہور سقوط ثریا (نومبر کے درمیانی عشرہ) میں ہونا چاہئے، جبکہ سوشل میڈیا کے مطابق کورونا وائرس کا ظہور چائینا میں 12 دسمبر کو ہوا، یعنی سقوط ثریا کی تاریخ سے ایک مہینہ بعد۔
👆🏽 اس سے پتہ چلا کہ کورونا وائرس کو ثریا نامی ستارہ کے طلوع وغروب سے مربوط کرنا درست نہیں ہے۔
▪️ تیسری بات: اس سلسلہ میں بعض علماء کا یہ قول بھی منقول ہے کہ: ثریا کے سقوط وطلوع دونوں اوقات انسانوں اور مویشیوں کے لئے خطرناک ہیں، اور ان دونوں اوقات میں وبائیں پھیلتی ہیں۔
چنانچہ امام ابن القیم نے محمد بن احمد تمیمی اور ابن قتیبہ سے نقل کیا کہ: بیماریاں اور آفتیں ثریا کے سقوط وطلوع دونوں اوقات میں ظاہر ہوتی ہیں، مگر طلوع کے وقت بنسبت سقوط کے کم ہوتی ہے۔
قال الإمام ابن القيم رحمه الله في "زاد المعاد في هدي خير العباد" (٤ / ٥٣): وقد روي في حديث: (إذا طلع النجم ارتفعت العاهة عن كل بلد) . 
[1] وفُسّر بطلوع الثريا.
[٢] وفُسّر بطلوع النبات زمن الربيع ومنه: (والنجم والشجر يسجدان)، فإن كمال طلوعه وتمامه يكون في فصل الربيع، وهو الفصل الذي ترتفع فيه الآفات.
وأما الثريا، فالأمراض تكثر وقت طلوعها مع الفجر وسقوطها.
قال التميمي في كتاب "مادة البقاء": أشد أوقات السنة فسادا، وأعظمها بلية على الأجساد وقتان: أحدهما: وقت سقوط الثريا للمغيب عند طلوع الفجر. والثاني: وقت طلوعها من المشرق قبل طلوع الشمس على العالم، بمنزلة من منازل القمر، وهو وقت تصرُّم فصل الربيع وانقضائه، غير أن الفساد الكائن عند طلوعها أقل ضررا من الفساد الكائن عند سقوطها.
وقال أبو محمد بن قتيبة: يقال: ما طلعت الثريا، ولا نَأتْ إلا بعاهة في الناس والإبل، وغروبها أعوَهُ من طلوعها.
[٣] وفي الحديث قول ثالث - ولعله أولى الأقوال به - أن المراد بالنجم: الثريا، وبالعاهة : الآفة التي تلحَق الزروع والثمار في فصل الشتاء وصدرَ فصل الربيع، فحصل الأمن عليها عند طلوع الثريا في الوقت المذكور، ولذلك نهى صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمرة وشرائها قبل أن يبدوَ صلاحُها.
▪️ چوتھی بات: ابن القیم نے اس حدیث کی راجح تفسیر جو بیان کی کہ اس کا تعلق پھلوں اناجوں کے پکنے اور آفتوں سے محفوظ ہونے سے ہے، اور جس پر ائمہ حدیث کی کتابوں میں موجودہ تبویبات بھی دلالت کرتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ امام ابو الولید باجی "شرح موطا" میں فرماتے ہیں کہ: اس روایت کا اصل مقصود پھلوں کا پکنا ہے، اور ثریا نامی ستارے کے طلوع کو صرف پکنے کی علامت قرار دیا گیا ہے، یعنی طلوع ثریا جواز بیع کی متعینہ تاریخ نہیں ہے کہ اس کے طلوع ہوتے ہی پھلوں کی بیع جائز ہوجائے گی، بلکہ جب تک پھلوں میں پکنے کی صلاحیت ظاہر نہ ہو، اس وقت تک بیع جائز نہ ہوگی ، یہی امام مالک کا قول ہے ۔ "اوجز" میں حافظ ابن حجر اور سخاوی کی طرف بھی یہ تشریح منسوب کی گئی ہے۔
👆🏽 اس سے معلوم ہوا کہ پھلوں کا بھی آفات سے محفوظ ہونا طلوع ثریا کے ساتھ مؤکد نہیں ہے، وہ تو بطور علامت یا غالب حالات کے اعتبار سے ہے، تو پھر (کورونا) کی بلاء سے چھٹکارا پانے کو کیسے مضمون لکھنے والے نے اس تاریخ کے ساتھ یقینی طور پر مان لیا۔
♦️ الحاصل: ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی خلق پر رحم وکرم فرماکر اس بلا کو پوی انسانیت سے جلدازجلد دور فرمادے، ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، اس لئے ادھر ادھر کے زمین آسمان کے قلابے ملانے کی بجائے بس اسی کی طرف رجوع فرمائیں اور استغفار ودعا کو لازم پکڑلیں (ادعونی استجب لکم) اور "من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل ھم فرجا ومن کل ضیق مخرجا ۔۔۔" پر یقین کرتے ہوئے ۔
✔️ ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ
سطرہ العاجز محمد طلحہ بلال احمد منیار
https://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_18.html
ثریا (جھرمٹ)

No comments:

Post a Comment