Monday, 6 April 2020

ہائے کورونا! کیا کیا رنگ ہیں تیرے

ہائے کورونا! کیا کیا رنگ ہیں تیرے!
———————————
پھول نُما خوش رنگ کورونا کی ہولناکیاں، قیامت خیزیاں اور حشر سامانیاں بھی کس قدر  عجیب وغریب، متضاد اور نصیحت آموز ہیں؟ کہیں خزاں رسیدہ درخت کے سوکھے پتّوں کی طرح انسانی جانیں گر رہی ہیں، کہیں ملکی اقتصادیات کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔ کہیں سینکڑوں سالوں سے اذان ونماز پہ عائد پابندی  والی مسجدوں میں صدائے توحید بلند ہورہی ہے، تو کہیں مرکزاسلام حرمین طیبین میں جماعتوں پہ پابندی لگ رہی ہے 
کہیں ملکی پردھان کو ستار، طبلہ، ہارمونیم، تالی، تھالی، ڈھول باجا، طنبورہ بجوانے کی پڑی ہے  
تو کہیں فاسشٹ حکومتوں کو اقلیات پر اپنا مخصوص مذہبی ایجنڈہ تھوپنے کا حسین موقع مل رہا ہے۔ کہیں ناقابل شکست عظیم ترین سلطنتوں کے حکمرانوں  کو اپنے  اوپر اسلامی رقیہ کراتے اور مسجدوں میں جاکر نمازیوں سے دعائوں کی گو ہار لگاتے دیکھا جاسکتا ہے 
تو کہیں مذہبی قیادتیں اپنی بعض ناعاقبت اندیش بیانیے کی وجہ سے متنازع بنتی نظر آرہی  ہیں 
کہیں ترقی یافتہ ترین ممالک اپنے شہروں کو جراثیم کُش اسپرے سے سینیٹائیزر کرکے جراثیم سے پاک کررہے ہیں، تو کہیں  کورونا سے پنجہ آزمائی کے لئے گوبر اور گو متر کی پارٹیاں دی جارہی ہیں۔
کہیں فلاح انسانیت کی غیر حکومتی آزاد تنظیمیں مفلوک الحال غریبوں کی راحت رسانی  میں فراخ دلی کے ساتھ قابل ستائش انسانی خدمات انجام دے رہی ہیں، تو کہیں  کورونا ریلیف سرکاری فنڈ میں مہذب لوٹ مار کے لئے ابھی سے مونچھوں پہ ہاتھ پھیرے جارہے ہیں، 
اس خدائی جھٹکے نے جہاں طاقت ودولت کے بڑے بڑے مصنوعی خدائوں کے غرور خاک ملادیئے ہیں وہیں حالات سے عبرت حاصل نہ کرنے والے غافلوں کو  جری اور باغی بھی بنادیا ہے۔
سائنس وٹیکنالوجی کے قلعے، سیم وزر کےانبار اور جنس تک تبدیل کردینے والے طبی اداروں میں گھُس کر اس بے جان جرثومے نے جو اتپات مچائی ہے وہ عقل وخرد والوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ 
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ—
اس میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں ۔
اس موقع سے خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمہ اللہ کا یہ پُرتاثیر واثر انگیز 'درس عبرت' ضرور پڑھیں اور چشم ونظر کے راستے سیدھے قلب میں اتارلیں: 
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے
کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے
جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے
ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گٔیٔ آسماں کیسے کیسے

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندرسا فاتح بھی ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیاکیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹ سارا

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا
جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا

کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟
جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آ بھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے​

شکیل منصور القاسمی 
بیگوسرائے
http://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_76.html?m=1

No comments:

Post a Comment