Monday, 20 April 2020

دین کی سلامتی کے لئے فقہاء کی رہنمائی ضروری ہے

دین کی سلامتی کے لئے فقہاء کی رہنمائی ضروری ہے

صحابہ کرام، سلف صالحین اور ائمہ متبوعین پر اعتماد وبھروسہ ہی دین کی حفاظت کا "حصار" ہے ۔۔ اس حصار سے نکل جانے کے بعد پوری نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ بھی انسان نہایت غلط اور گمراہ کن راستوں پر پڑسکتا ہے۔
انسان کی وسعت مطالعہ اور علمی گہرائی کی خوش فہمی اپنی جگہ!
لیکن جمہور علماء پہ اعتماد کے اس "حصار" کو توڑ ڈالنے والے اور منصب اجتہاد کی شرائط پہ پورا نہ اترنے کے باوجود خود کو اس منصب پہ فائز سمجھنے والے جمہور علماء سلف وخلف کے اجتہادات کے خلاف ذاتی اجتہاد کے ذریعہ عقائد واحکام کی نئی نئی ماڈرن تشریحات کرنے والے اپنے مزعومہ اجتہاد واستنباط میں کسی مجتہد ومحدث کے وضع کردہ کسی اصول کی پابندی نہ کرنے والے دین، اسلام، ایمان، توحید، رسالت، تقوی،عبادت، سنت، اسوہ اور بدعت وغیرہ کی تشریح سب سے الگ تھلگ من مانے انداز میں کرنے والے 'مجتہدین' نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں!
اجتہاد سے عاری ایسے نرالے مجتہدین کی فقہ چوں چوں کا مربّا سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
راست کتاب وسنت سے استفادے کے سحرانگیز وپُرفریب خوشنما دعوے کے باوجود اپنی کتابوں میں بعض باتیں ایسی اٹھا لاتے ہیں جو اہل سنت والجماعت کے خلاف ہیں۔ کچھ باتیں دبستان معتزلہ سے درآمد کی ہوئی ہوتی ہیں۔ کچھ روافض کی فیض رسانی ہیں۔ کچھ غیر مقلدین اور لامذہبیین کی ہوتی ہیں۔ کچھ منکرین حدیث کی۔
ایسے نرالے مجتہدین کا پیش کردہ "دین اسلام" جدید قسم کا ماڈرن دین اسلام تو ہوسکتا ہے۔ چودہ سو سالوں سے متوارث چلا آرہا دین اسلام ثابت نہیں ہوسکا ہے
کتاب وسنت میں غور وتدبر اور اخذ واستنباط کرکے ہر زمانے کے پیش آمدہ مسائل وتقاضے کا حل ڈھونڈنے کا حکم ضرور ہے، الحمد للّٰہ حضرات علماء سدا یہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
لیکن غور وتدبر اور بحث وتحقیق کے حسین عنوان سے اباحیت و تجدد پسندی اور لامذہبیت کو فروغ دینا افسوسناک والمناک ہے
حضرات فقہاء کتاب وسنت کے واقف کار اور نکتہ سنج ہوتے ہیں
بغیر مستحکم بنیادوں کے فقہاء مجتہدین کے مفتی بہ قول سے انحراف اور اظہار واختلاف رائے کے حق کے استعمال کے بہانے اقوال شاذہ پہ اعتماد و بھروسہ خطرناک روش ہے ۔
خطیب بغدادی لکھتے ہیں:
"التسليم للفقهاء سلامة في الدين"
{تاريخ بغداد للخطيب ٢\٨٢ .ط: دارالكتاب. بيروت}
[دین کی سلامتی کے لئے فقہاء کی رہنمائی ضروری ہے]
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment