شب برات اور زیارت قبور آداب واحکام
————————-
شب برات میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پوری عمر مبارک میں ایک مرتبہ خاموشی سے جنت البقیع جانا اور مردوں کے لئے دعائے مغفرت کرنا بعض ضعیف روایت سے ثابت ہے:
عن عائشة قالت: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ "أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ". قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ. فَقَالَ "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ"
(ترمذی، الصوم، باب ماجاء فی لیلة نصف الشعبان (۷۳۹)، وابن ماجه (۱۳۸۹)، واحمد (٢٦٥٤٦)، والبیھقی فی شعب الایمان (٣٨٢٤)، والمعجم الاوسط لطبرانی (۱۹۹)، وجمع الجوامع (۱۷۳۷)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر سے) غائب پایا۔ (میں نے تلاش کیا) آپ صلی اللہُ علیہ وسلم بقیع الغرقد میں تھے۔ آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے...؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا یہ گمان تھا کہ آپ کسی دوسری اہلیہ کے ہاں چلے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان (۱۵ شعبان) کی رات کو آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے۔ (ترمذی، الصوم، باب ماجاء فی لیلة نصف الشعبان (۷۳۹)، وابن ماجه (۱۳۸۹)، واحمد (٢٦٥٤٦)، والبیھقی فی شعب الایمان (٣٨٢٤)، والمعجم الاوسط لطبرانی (۱۹۹)، وجمع الجوامع (۱۷۳۷)
یہ روایت اسنادی حیثیت سے کمزور ہے، مسلم شریف کی ایک صحیح طویل حدیث میں بقیع غرقد جانے کا یہ واقعہ مطلق وارد ہوا ہے، شب برات کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔
ترمذی وغیرہ کی روایات مذکورہ کی بنیاد پر شب برات میں عبرت وموعظت کے حصول اور مردوں کے ایصال ثواب کے غرض سے قبرستان جانے کا جواز ثابت تو ہوتا ہے۔ لیکن اس کی شرعی حیثیت استحباب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
کسی التزام واہتمام و اجتماعی ہیئت وکیفیت کے بغیر انفرادی طور پر اس رات قبرستان جانا مستحب ہے۔
قبرستان جاکر قبروں سے استمداد، جزع فزع، صاحب قبر کی بیجا تعریف کرنے سے منع کیا گیا ہے:
نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا۔(طبرانی کبیر:11653)
حضرت عبد اللہ بن عباس نبی کریم صلی اللہُ علیہ وسلم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، پس اب تم زیارت کرلیا کرو اور کوئی بیہودہ بات نہ کہا کرو۔
حضرت ابن بُریدہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ وسلم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:
وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَزُورَ فَلْيَزُرْ، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا۔ (نسائی:2033)
میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، لیکن اب جو زیارت کرنا چاہے وہ کرسکتا ہے، لیکن (قبروں کی زیارت میں) کوئی بیہودہ بات نہ کہا کرو۔
قبرستان پہنچ کر سب سے پہلے صاحب قبر کے لئے سلامتی کی دعا کی جائے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ وسلم ایک دفعہ قبرستان کی جانب نکلے اور آپ نے یہ دعاء پڑھی: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ» تم پر سلامتی ہو اے ایمان والو! اور بیشک ہم بھی تمہارے ساتھ لاحق ہونے والے ہیں۔ (مسلم: 975۔ ترمذی: 1053)
سلامتی کی دعا کے بعد ان کے لئے دعا مغفرت ورحمت کی جائے:
«السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا، مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ، بِكُمْ لَاحِقُونَ، اَللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ»۔ (سلامتی ہو تم پر اے مومنین! تمہارے پاس وہ چیز آئی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا یعنی ثواب وعذاب کل کو یعنی قیامت کے دن کو تمہیں ایک معین مدت تک مہلت دی گئی ہے اور یقیناً ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم سے ملنے ہی والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد والوں کو بخش دے)۔(مسلم: 974)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم میرے ہاں قیام فرما ہوتے تو (اکثر) آپ صلی اللہُ علیہ وسلم رات کے آخری حصہ میں بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (قبر والوں سے خطاب کرکے یہ دعا فرماتے)
مردہ کے پائوں کی طرف سے قبر پہ جائے، سر کی طرف سے داخل نہ ہو، اس سے مردے کو تکلیف ہوتی ہے۔ ایصال ثواب کرتے ہوئے قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پشت کرکے کھڑا ہو. اور جب دعا کا ارادہ کرے تو قبر کی طرف پشت اور قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو، ہندیہ میں ہے:
ثم يقف مستدبر القبلة مستقبلا لوجه الميت. وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلة مستدبرا لوجه الميت.(هنديه 350/5. كتاب الكراهية)
قبرستان میں بحالت قیام قبلہ رو ہوکر، دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعاء واستغفار کرنا سنت ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے قبرستان بقیع الغرقد میں کھڑے ہوکر، ہاتھ اُٹھا کر تین دفعہ دعاکی: جاء البقيع فأطال القيام ثم رفع يديه ثلاث مرات. (مسلم. الجنائز. باب الذهاب الى زيارة القبور 1619. نسأي 2010.)۔ دوسرے رخ پہ اور بیٹھے ہوئے اور بلا ہاتھ اٹھائے ہوئے بھی دعا کرنا جائز ہے۔
اس کے بعد قرآن میں سے جو یاد ہو پڑھ کر ایصالِ ثواب کرے، بعض روایات میں ہے کہ جو شخص قبروں پر سے گزرا اور [قل ھو اللّٰہ احد] گیارہ دفعہ پڑھ کر اس کا ثواب مرُدوں کو پہنچایا، تو اس کو وہاں کے مرُدوں کی تعداد کے برابر اجر ملے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو قبرستان میں داخل ہو ا،اور سورۂ فاتحہ اور اخلاص اور الھاکم التکاثر پڑھا اور کہا کہ اے اللہ! میں نے تیرا جو کلام پڑھا ہے اس کا ثواب قبر والے مؤمن مردوں اور عورتوں کو میں دیتا ہوں تو یہ قبر والے اللہ کے پاس اس کے حق میں سفارش کریں گے۔ (بہ حوالہ اعلاء السنن: ۸/۲۸۷ تا ۸/۲۸۸)
قبرستان جاتے ہوئے قبروں کے درمیان جوتے پہن کر نہ چلے، ہاں اگرباضابطہ راستہ بنا ہوا ہو تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔ قبر پہ ٹیک لگاکے بیٹھے، نہ اسے روندے اور نہ وہاں پیشاب پاخانہ کرے۔
شور وغوغا، چشم چراغاں اور ہوہاؤ کئے بغیر انفرادی طور پر مذکورہ بالا آداب کی رعایت ولحاظ کے ساتھ انفرادی طور پہ شب برات میں قبروں کی زیارت کی اجازت ہے، یہ عمل صرف مستحب کے درجے کا ہے، عوام اسے سنت و واجب نہ سمجھے۔
فقط۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_50.html?m=1
No comments:
Post a Comment