کیا نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے کی ممانعت ہے؟
سوال: کیا نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے جائز ہيں، کیونکہ میں نے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جب نصف شعبان ہوجائے تو روزہ نہ رکھو) سنن ابوداود حدیث نمبر (3237) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر (1651) سنن ترمذی حدیث نمبر (738) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی (590) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
لہذا یہ حدیث نصف شعبان یعنی سولہ شعبان سے روزہ رکھنے سے منع کرتی ہے، لیکن اس کے علاوہ اور دوسری احادیث میں روزہ کا جواز بھی ملتا ہے ذیل میں ہم چند ایک احاديث ذکر کرتے ہيں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(رمضان المبارک سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، لیکن وہ شخص جو پہلے روزہ رکھتا رہا ہے اسے روزہ رکھ لینا چاہئے) صحیح بخاری حدیث نمبر (1914) صحیح مسلم حديث نمبر (1082) ۔
یہ حدیث نصف شعبان کےبعد روزہ رکھنے کے جواز پردلالت کرتی ہے لیکن صرف اس شخص کےلیے جو عادتا روزہ رکھ رہا ہے مثلا کسی شخص کی عادت ہے کہ وہ پیر اورجمعرات کا روزہ رکھتا ہے یا پھر ایک دن روزہ رکھتا اور دوسرے دن نہيں رکھتا تو اس کے لئے جائز ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتے ہيں کہ:
(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تقریبا پورا شعبان ہی روزہ رکھا کرتے تھے) یہ مسلم کے الفاظ ہیں دیکھيں صحیح بخاری حدیث نمبر (1970) صحیح مسلم حديث نمبر (1156)۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں:
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا یہ کہنا کہ (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پورا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے، اوراس میں سے چند ایک دن چھوڑ کر سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے)، دوسرا جملہ پہلے کی شرح ہے، اور اس کی وضاحت ہے کہ کلہ سے مراد غالبا ہے ا ھـ ۔
لہذا یہ حدیث نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے پر دلالت کرتی ہے لیکن صرف اس شخص کے لئے جو نصف سے پہلے بھی روزہ رکھ رہا تھا۔
اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے شافعیوں کا کہنا ہے کہ:
نصف شعبان کے بعد صرف اس کے لئے روزہ رکھنا جائز ہے جس کی روزہ رکھنے کی عادت ہو یا پھر پہلے نصف میں جس نے روزے رکھيں ہوں۔
اکثر اہل علم کے ہاں صحیح بھی یہی ہے کیونکہ حدیث میں نہی تحریم کے لئے ہے۔
اور بعض – مثلا رویانی – کا کہنا ہے کہ یہاں پر نہی تحریم کے لئے نہیں بلکہ کراہت کے لئے ہے۔
دیکھیں: کتاب المجموع (6 / 399 - 400) فتح الباری (4 / 129)۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی ریاض الصالحین میں کہتے ہيں:
نصف شعبان کے بعد رمضان سےایک یا دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت میں باب لیکن جس شخص کی روزہ رکھنے کی عادت ہو یا وہ پہلے سے رکھ رہا ہو اور آخر شعبان کو بھی ساتھ ملانا چاہے یا وہ جمعرات اور.پیر کا روزہ رکھتا ہو اس کے لئے جائز ہے۔ ا ھـ دیکھیں ریاض الصالحین صفحہ (412)۔
اور جمہور علماء کرام نے نصف شعبان کے بعد روزہ سے نہی والی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، لہذا وہ اس بنا پر کہتے ہيں کہ نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے مکروہ نہيں۔
حافظ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے:
جمہور علماء کہتے ہيں کہ: نصف شعبان کے بعد نفلی روزے رکھنا جائز ہیں، اوراس کی نہی میں وارد شدہ حدیث کو انہوں نے ضعیف قرار دیا ہے، امام احمد اورابن معین کا کہنا ہے کہ یہ منکرے ہے۔ ا ھـ فتح الباری۔ اس حدیث کو صعیف کہنے والوں میں امام بیہقی اور امام طحاوی رحمہم اللہ شامل ہیں۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے المغنی میں کچھ اس طرح کہا ہے:
امام احمد نے اس حدیث کے بارہ میں کچھ یوں کہا ہے:
یہ حدیث محفوظ نہیں، ہم نے اس کے بارہ میں عبدالرحمن بن مھدی سے پوچھا تو انہوں نے اسے صحیح قرار دیا اورنہ ہی اسے میرے لئے بیان ہی کیا، بلکہ اس سے بچتے تھے۔
امام احمد کہتے ہیں: علاء ثقہ ہے اس کی احادیث میں سوائے اس حدیث کے انکار نہيں ۔ ا ھـ
علاء کون ہے:
وہ علاء بن عبدالرحمن اس حدیث کو اپنے والد سے اور وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہيں:
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے 'تہذیب السنن' میں اس حدیث کو ضعیف قرار دینے والوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے، جس کا ماحاصل یہ ہے کہ:
یہ حدیث صحیح اور مسلم کی شرط پر ہے، اور علاء کا اس حدیث میں تفرد اس حدیث میں قدح شمار نہيں ہوگا، کیونکہ علاء ثقہ ہے، اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں اس کی بہت سی احادیث روایت کی ہيں جوکہ اس سند علاء عن ابیہ عن ابوہریرہ سے ہیں، اور بہت سے ایسی سنتیں ہیں جوثقات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متفرد بیان کی ہیں اورامت نے اسے قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کیا ہے۔
پھر وہ کہتے ہيں:
اور شعبان کے روزوں والی احادیث کے بارہ میں معارض ہونے کاخیال کرنا صحیح نہیں کیونکہ ان میں کوئی معارضہ نہيں ہے، کیونکہ وہ احاديث پہلے نصف کے دوسرے نصف کے ساتھ اور نصف شعبان میں عادتا رکھے جانے والے روزوں پر دلالت کرتی ہے، اورعلاء والی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ نصف شعبان کے بعد جوشخص عمدا روزے رکھے اس کے لئے ممانعت ہے، ناکہ عادتا اورنہ ہی جو پہلے نصف میں روزے رکھتا ہوا دوسرے نصف کو بھی ساتھ ملانا چاہے۔ اھـ
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے والی نہی کی حدیث کے بارہ میں سوال کیا گيا تو ان کا جواب تھا:
یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ ہمارے بھائی علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ تعالی نے کہا ہے، اوراس حدیث سے مراد یہ ہے کہ نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے شروع کئے جائيں، لیکن جوشخص مہینہ کے اکثر ایام یا پھر تقریبا سارا مہینہ ہی روزے رکھتا ہے تو وہ سنت پر عمل پیرا ہے۔ ا ھـ
دیکھیں مجموع فتاوی الشيح ابن باز رحمہ اللہ تعالی (15 / 385)۔
اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ریاض الصالحین کی شرح میں کہتے ہیں:
اگر حدیث صحیح بھی ہو تو اس میں وارد نہی تحریم کے لیے نہيں بلکہ صرف کراہت کے لئے ہے، جیسا کہ بعض اہل علم رحمہم اللہ نے بھی ایسا ہی اخذ کیا ہے، لیکن جس کی روزہ رکھنے کی عادت ہو وہ روزہ رکھ سکتا ہے چاہے نصف شعبان کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ ا ھـ
دیکھیں شرح ریاض الصالحین (3 / 394)
جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا یا تو کراہت یا پھر تحریم کی بنا پر منع کیا گيا ہے، لیکن جوشخص عادتا رکھتا ہو یا پہلے نصف کو آخر شعبان کےساتھ ملائے اس کےجائز ہے، واللہ تعالی اعلم۔
اور اس نہی کی حکمت یہ ہے کہ مسلسل روزے رکھنے سے ہوسکتا ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے میں کمزوری آجائے۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر شعبان کے شروع سے ہی روزے کھے تو اس میں اوربھی زيادہ کمزوری پیدا ہوگی!
تواس کا جواب ہے کہ:
جوشخص شعبان کے شروع سے ہی روزے رکھتا ہے وہ روزے کا عادی بن جاتا ہے جس کی بنا پر اس کی مشقت میں کمی پیدا ہوجائے گی۔
ملا علی قاری کا کہنا ہے:
یہاں پر نہی تنزیہ کے لئے ہے، امت اسلامیہ پر مہربانی اوررحمت ہے کہ کہیں وہ کمزورہو کررمضان المبارک کے روزے رکھنے کا حق ادا نہ کرسکیں اور ان میں سستی پیدا ہوجائے، لیکن جو شخص پورے شعبان کے روزے رکھتا ہے وہ تو روزوں کا عادی بن چکا ہے، جس کی بنا پر اس سے یہ مشقت زائل ہوجائے گی۔ اھـ
No comments:
Post a Comment