عورت اور حقِ امامت
-------------------------------
--------------------------------
عورت ومرد کے مابین صنفی اعتبار سے بین فرق ہے، خلقی اعتبار سے خواتین میں بدیہی ضعف ہے، عقل ودرک فکری بلوغت وپختگی اور جسمانی قوت کے لحاظ سے بھی وہ ضعیف ہیں۔ امامت، ولایت وحکمرانی کا استحقاق خلقی وصنفی کمال وتمام کے پیش نظر ہی ثابت ہوتا ہے، جب عورت ومرد میں خلقی لحاظ سے مساوات نہیں ہے تو پھر تمدنی لحاظ سے دونوں میں مساوات کی پرفریب چیخ وپکار اور بیجا مطالبہ کرنا نری حماقت ہے۔
اسلام میں عورتوں کے لئے ولایت عامہ وحکمرانی ثابت نہیں ہے، مسجد کی امامت کا منصب بھی ولایت وحکمرانی ہی کی ایک قسم ہے، عورت اپنے صنفی ضعف (حیض، حمل، رضاعت وغیرہ) کے باعث اس منصب کا متحمل نہیں ہوسکتی؛ اس لئے امامت مساجد کا منصب مردوں کے حوالے کیا گیا ہے، عورتیں مسجدوں کی امامت مطلقہ کی شرعی اہل نہیں، بیک وقت حمل ورضاعت کے ساتھ ساتھ تمدنی ذمہ داریوں کا تحمل بھلا وہ کیسے کرسکتی ہیں؟؛ اس لئے اسلام نے اس بابت انہیں بری الذمہ کرکے ان کے ساتھ عین عدل وانصاف کا معاملہ کیا ہے، اگر خواتین کے کندھے پہ امور امامت وولایت بھی تھوپ دیئے جاتے تو ان کے ساتھ ظلم ہوتا، انصاف ہرگز نہیں۔ انہی مقاصد کے پیش نظر اسلام میں عورت کو منصب امامت کا اہل نہیں گردانا گیا ہے:
وہ قوم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے اپنے معاملات عورت کے سپرد کردیئے:
(لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ ولَّوْا أمْرَهُمُ امْرَأَةً./ عن نفيع بن الحارث الثقفي صحيح البخاري.: 4425)
اسی لئے عورت کا عورت کے لئے امام بننا ائمہ مجتہدین کے یہاں مختلف فیہ مسئلہ ہے. ہر مجتہد نے اپنے ذوق فہم اور طرق استنباط کے لحاظ سے اس بابت احکام ثابت کئے ہیں۔
احناف ومالکیہ کے یہاں عورت کا عورت کے لئے امام بننا مختلف علتوں کی بناء پر مکروہ تحریمی ہے، (مالکیہ کے یہاں تو بالکل ہی ناجائز ہے) فرائض میں بھی اور نوافل میں بھی، عورتوں کا تنہا نماز پڑھنا شریعت کی نظر میں زیادہ افضل وبہتر ہے، لیکن چونکہ حضرت عائشہ، حضرت اُم سلمہ اور حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہما کی امامت کی احادیث وآثار سنن ابی داؤد، مستدرک حاکم، بیہقی، دارقطنی، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، امام محمد کی کتاب الآثار اور دیگر کتب حدیث میں روایت ہوئے ہیں۔ اور ان کی صحت بھی اہل علم کے یہاں مسلم ہے؛ اس لئے بعض اہم ترین مقاصد یا معقول عذر کی بناء پر اس کراہت کے باوجود اگر وہ اندرون خانہ عورت کے لئے امامت کرلے تو کراہت تحریمی کے ساتھ امامت جائز ہوجائے گی، اب خاتون امام مردوں کے امام کی طرح صف کے آگے نہ بڑھے، بلکہ صف ہی میں ذرا آگے کھڑی ہو:
عن عائشۃ-رضي الله عنہا- أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم، قال: لاخیر في جماعۃ النساء إلا في مسجد جماعۃ۔ (المعجم الأوسط، دارالفکر ۶/۴۴۸، رقم:۹۳۵۹، مسند أحمد بن حنبل ۶/۶۷، رقم:۲۴۸۸۰، ۶/۱۵۴، رقم:۲۵۷۲۸)
عن جابر بن عبد الله ؓ، قال: خطبنا رسول الله صلی الل علیہ، فقال:…ألا لاتؤمن امرأۃ رجلا۔ الحدیث (سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب في فرض الجمعۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۷۵،دارالسلام رقم:۱۰۸۱)
ویکرہ تحریمًا جماعۃ النساء ولو في التراویح الخ (در مختار، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، زکریا ۲/۳۰۵، کراچي ۱/۵۶۵،کوئٹہ ۱/۴۱۸)
تمام ہی نمازوں میں، چاہے فرض ہو یا نفل! عورتوں کی امامت کو مکروہ قرار دیا گیا ہے اور ان کے تنہا نماز پڑھنے کو افضل بتا یا گیا ہے:
’’و یکرہ إمامۃ المرأۃ للنساء في الصلوۃ کلہا من الفرائض و النوافل ۔۔۔ و صلوتہن فرادی أفضل‘‘ (الفتاوی الہندیۃ: ۱/۸۵۔)
دیگر ائمہ کے یہاں عورت کا عورت کے لئے گھروں میں امام بننا جائز اور درست ہے۔ انہوں نے اپنے ذوق وفہم کے اعتبار سے نصوص کو سامنے رکھ کر یہ حکم مستنبط کیا ہے۔
عورت کا مردوں کی امامت کرنا؟
عورت کا مردوں کی امامت کرنا ائمہ اربعہ متبوعین اور جمہورامت کے یہاں ناجائز ہے. حنفیہ کے یہاں فرض ہو یا نفل، کسی بھی نماز میں عورت کا مردوں کی امامت کرنا جائز نہیں ہے، عورتوں کی اقتدا میں مردوں کی نماز باطل ہے:
"ولا يجوز للرجال أن يقتدوا بامرأة أو صبي أما المرأة فلقوله صلى الله عليه وسلم: أخروهن من حيث أخرهن الله . فلا يجوز تقديمها". (المرغيناني في الهداية 1/61)" [البناية شرح الهداية للعینی: 2/329]
"إن قدم المحدث امرأة فصلاته وصلاتها وصلاة القوم كلهم فاسدة. لأن المرأة لا تصلح لإمامة الرجال, قال عليه الصلاة والسلام: أخروهن من حيث أخرهن الله, فاشتغاله باستخلاف من لا يصلح خليفة له إعراض منه عن الصلاة فتفسد صلاته وبفساد صلاته تفسد صلاة القوم, لأن الإمامة لم تتحول منه الى غيره". (السرخسي في كتاب المبسوط 1/180-181)
"وفسد اقتداء رجل بامرأة بالإجماع, قيد بالاقتداء: لأن صلاة الإمام تامة على كل حال, وبالرجل: لأن اقتداء المرأة بمثلها ولو خنثى مشكلاً صحيح". (ابن نجيم في النهر الفائق شرح كنز الدقائق 1/251)
المرأة لا تصلح لإمامة الرجال.(المبسوط للسرخسي 1/ 179. ) "فلا تصح إمامة النساء للرجال مطلقاً لا في فرض ولا في نفل" (فقه العبادات 1/ 109)
"ولا يصح اقتداء رجل بامرأة, المراد بالمرأة الأنثى الشامل للبالغة وغيرها". (ابن عابدين في رد المحتار 1/378)
مالکیہ کا خیال بھی یہی ہے، عورت کی اقتداء میں مردوں کی نماز فرض ہو یا نفل، سب باطل ہے:
"لا تؤم المرأة".(الامام مالک) [المدونة الكبرى رواية سحنون 1/207] قلت: المراد لا تؤم المرأة مطلقًا.
"وبطلت الصلاة بسبب اقتداء فيها أي بإمام أو الإمام الذي بان أي تبين وظهر فيها أو بعدها امرأة ولو لامرأة". (منح الجليل شرح مختصر سيدي خليل 1/358 - 359)
"لا تؤم المرأة في فريضة ولا نافلة لا رجالاً ولا نساءً, فإن ائتم بها أحد أعاد أبدًا على المذهب, فالذكورة شرط في صحة الإمامة". [حاشية العدوي على كفاية الطالب الرباني لرسالة أبي زيد القرواني 1/263].
(انظر: بداية المجتهد 1/ 227، وانظر الفواكه الدواني 1/ 205)
شوافع کے یہاں بھی عورت کی امامت مرد کے لئے صحیح نہیں ہے:
"ولا تصح إمامة المرأة للرجال” (حلية العلماء 2/ 170، المجموع 4/ 223.)
علامہ نووی کے بقول اس قول پہ تمام علماء شوافع کا اتفاق ہے:
"واتفق أصحابنا على أنه لا تجوز صلاة رجل بالغ ولا صبي خلف امرأة حكاه عنهم القاضي أبو الطيب والعبدري". [المجموع شرح المهذب 5/338].
(المجموع 4/ 223.)
حنابلہ کے یہاں اگرچہ کئی اقوال ملتے ہیں، بعض کے اعتبار سے تراویح میں یا جبکہ عمدہ قرآن پڑھنے والا مرد دستیاب نہ ہو تو اپنے محارم کے ساتھ خاتون خانہ کے لئے امامت کی گنجائش منقول ہے۔ لیکن امام ہونے کے باوجود وہ مرد کے پیچھے ہی کھڑی ہوگی؛ لیکن حنابلہ کے راجح وصحیح قول کے مطابق عورت کی امامت مردوں کے لئے ان کے یہاں بھی صحیح نہیں ہے:
"ولا تصح إمامة المرأة للرجل هذا المذهب مطلقاً، الإنصاف للمرداوي 2/ 263.)
"لا يصح أن يأتم رجل بامرأة في الصحيح من المذهب وهو قول عامتهم، قال البيهقي: وعليه الفقهاء السبعة والتابعون۔ (المبدع 2/ 72)
ظاہر یہ کے یہاں بھی عورت مرد کی امامت کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے:
ولا يجوز أن تؤم المرأة الرجلَ ولا الرجال وهذا ما لا خلاف فيه، وأيضاً؛ فإن النص قد جاء بأن المرأة تقطع صلاة الرجل إذا فاتت أمامه
(المحلى لابن حزم :3/ 125)
کیا مرد کے لئے عورت کی امامت حدیث سے ثابت ہے؟
روى أبو داود عن الوليد بن جميع عن عبد الرحمن بن خلاّد عن أمِّ ورقةَ بنتِ نوفل رَضِيَ اللهُ عنها: (أنَّ رسولَ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان يَزورُها في بيتِها، وجعَل لها مؤذِّنًا يؤذِّنُ لها، وأمَرَها أن تؤمَّ أهلَ دارِها۔ ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصاریہ صحابیہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات کے لئے ان کے گھر جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اذان دینے کے لئے ایک موذن مقرر کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا تھا کہ انہیں (اپنے قبیلے یا محلے والی خواتین) کو نمازپڑھائیں!) أخرجه أبو داود (592)، وأحمد (27324)، وابن خزيمة (1676) بنحوه صحَّحه ابن القيِّم في (إعلام الموقعين) (2/274)
یہ روایت ہے، جس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ ام ورقہ کے عمردراز موذن، ان کے غلام ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، اسی سے گنتی کے کچھ لوگ زور زبردستی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مرد کا عورت (ام ورقہ) کے پیچھے نماز پڑھنا ثابت ہورہا ہے! حالانکہ ایسا کچھ بھی اس روایت سے ثابت نہیں، جیساکہ ذیل میں آپ دیکھیں گے۔
اس روایت کا حال:
اس حدیث کے راوی: ولید بن عبد اللہ بن جمیع اور اس کے استاذ عبد الرحمن بن خلاد پہ لوگوں نے کلام کیا ہے، اور ولید کو ضعیف اور عبدالرحمن بن خلاد کو مجہول الحال کہا ہے؛ لیکن ولید صحیح مسلم کا راوی ہے، جمہور محدثین کے نزدیک وہ سچا اور قابل وثوق راوی ہے "ثقة صدوق" (تحرير تقريب التهذيب ٧٤٣٢)۔
اسی طرح بن خلاد کو بھی ثقہ مانا گیا ہے، ابوداؤد کا راوی ہے: (ذكره بن حبان في كتاب الثقات روى له أبوداؤد ۔ تهذيب الكمال 17/ 82)
علامہ زیلعی کہتے ہیں: ذكرهما ابن حبان في الثقات۔ (نصب الراية 2/ 21)
علامہ عینی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے (إرواء الغليل 2/ 256.) ان کی اتباع میں زیلعی کا رجحان بھی ادھر ہی ہے، حاکم نے بھی صحیح کہا ہے (المستدرك 1/ 320.)۔ ہاں علامہ ابن حجر کا رجحان اس کے ضعف کی طرف ہے (التلخيص الحبير 2/ 27)
لہذا اکثر محدثین وناقدین حدیث کے نزدیک اسنادی حیثیت سے دونوں کی روایت قابل اعتبار واستناد واحتجاج ہے۔
اس حدیث کے دیگر طرق:
1: روى أبو داود عن الوليد بن جميع عن عبد الرحمن بن خلاّد عن أم ورقة بلفظ: «وكان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يزورها في بيتها وجعل لها مؤذناً يؤذن لها وأمرها أن تؤم أهل دارها» قال عبد الرحمن فأنا رأيت مؤذنها شيخاً كبيراً. (سنن أبي داود برقم 500)
2. روى الدارقطني عن الوليد بن جميع عن أمه عن أم ورقة: «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أذِن لها أن يؤذن لها ويقام وتؤم نساءها» (سنن الدارقطني 3/ 194، برقم 1094)
3. روى الدارقطني والبيهقي عن الوليد بن جميع حدثتني جدتي عن أم ورقة - وكانت تؤم- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أذن لها أن تؤم أهل دارها»(سنن الدارقطني 4/ 180، برقم 1524، سنن البيهقي الكبرى 3/ 130، قال الألباني: حسن. انظر: مختصر إرواء الغليل 1/ 99 برقم 493)
4. روى أبو داود أيضاً عن الوليد بن عبد الله بن جميع قال حدثتني جدتي وعبد الرحمن بن خلاّد الأنصاري عن أم ورقة بنت نوفل: وفيه «وكانت قد قرأت القرآن فاستأذنت النبي -صلى الله عليه وسلم- أن تتخذ في دارها مؤذناً فأذن لها» (سنن أبي داود 2/ 206، برقم 500)
5. روى الحاكم والبيهقي عن الوليد بن جميع عن ليلى بنت مالك وعبد الرحمن بن خالد الأنصاري عن أم ورقة الأنصارية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- «كان أمر أن يؤذن لها ويقام وتؤم أهل دارها في الفرائض»(المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 235، برقم 687 وقال الذهبي: احتج مسلم بالوليد، سنن البيهقي الكبرى ج: 1/ 406)
یہ کل پانچ طرق ہوئے. ان میں نمبر دو کی دارقطنی کی حدیث چھوڑکر باقی تمام طرق میں "تؤم أهل دارها" کی بات مطلق آئی ہے، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہل قبیلہ کی امامت کا حکم دیا تھا، اب یہ اہل قبیلہ کون تھے؟
ابوداؤد کی حدیث میں اس کا ذکر وتعین نہیں، صرف سنن دارقطنی کی مذکورہ حدیث نمبر 2 میں اس کی صراحت ہے"وتؤم نساءها" کہ ام ورقہ کو اپنے محلہ کی خواتین کی امامت کا حکم حضور اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم نے دیا تھا، مردوں کی امامت کا نہیں!
جب ایک روایت میں اس کی قید آگئی، تو اب بقیہ تمام مطلق روایات کو اسی پر محمول کیا جائے گا، اور اگر مطلق کو مقید پہ محمول نہ کیا جائے تو تو یہ روایت عورت اور مرد دونوں کے لئے امامت کا محتمل ہوئی، اور محتمل روایت سے استدلال درست نہیں: إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال!
کیا یہ اضافہ جزو روایت ہے یا دارقطنی کی اپنی بات ہے؟
دارقطنی کی روایت کے اس اضافے کو کچھ تجدد پسند لیکن کوڑھ مغز یہ کہکر مسترد کردیتے کہ یہ امام دار قطنی کی اپنی بات ہے، حدیث کا جزو نہیں!
آہ، کس قدر شرم وافسوس کی بات ہے، کیا آج تک کسی ناقد حدیث نے امام دارقطنی پہ تدلیس اور غلط بیانی (تعصب مذہبی سے قطع نظر) کا الزام لگایا ہے؟
شیخ الاسلام ابوالطیب طاہر بن عبداللہ الطبری (متوفی 450ھ ) نے دار قطنی کے بارے میں کہا ہے:
كان الدارقطني أمير المؤمنين فى الحديث [تاريخ بغداد 12/36ت 6404]
خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی 363ھ) نے کہا:
وكان فريد عصره و قريع دهره و نسيج وحده و إمام وقته، انتهي إليه علم الأثر و المعرفة بعلل الحديث و أسماء الرجال و أحوال الرواة مع الصدق و الأمانة و الفقه و العدالة [و فى تاريخ دمشق عن الخطيب قال: و الثقة و العدالته، 46/47] وقبول الشهادة وصحة الإعتقاد و سلامة المذهب. [تاريخ بغداد 12/34ت6404]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
الإمام الحافظ المجود شيخ الإسلام علم الجهابذه [سيراعلام النبلاء 16؍449]
اسی لئے علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں:
وهذه زيادة يجب قبولها
”اور اس زیادت (نساء ھا) کا قبول کرنا واجب ہے۔“ [المغني 2؍16 م 1140]
(حافظ زبیر زئی حفظہ اللہ، نماز میں عورت کی امامت)
دارقطنی کی تدلیس جب کہیں سے ثابت نہیں ہے تو لامحالہ ان کی روایت میں جو اضافہ ہے وہ روایت کے ہی الفاظ ہیں، دارقطنی کے الفاظ نہیں، لہذا حدیث رسول سے خود طے ہوگیا کہ ام ورقہ کی امامت قبیلے کی خواتین کے لئے ہوا کرتی تھی، مرد اس میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ شوافع وحنابلہ کے نزدیک خواتین کی امامت خواتین کے لئے جائز ہے، وہ حضرات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں کراہت ہے۔
الغرض متجددین کو جس روایت سے مردوں کے لئے عورت کی امامت ثابت کرنے کا زور تھا اس سے بالفاظ حدیث عورتوں کے لئے ہی امامت طے ہوتی ہے، مردوں کے لئے نہیں! اب قیاسی گھوڑے دوڑانا یا لغوی حقیقتوں کا سہارا لینا فضول ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین عظام ام ورقہ رضی اللہ عنہا والی اس روایت پہ اپنی کتابوں میں "عورت کے لئے عورت کی امامت" جیسا عنوان ہی لگائے ہیں، کسی ایک محدث نے بھی "مرد کے لئے عورت کی امامت" جیسا باب قائم نہیں کیا۔ دیکھئے:
◈ ام ورقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث پر امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (متوفی 311ھ) نے درج ذیل باب باندھا ہے۔
باب إمامة المرأة النساء فى الفريضة [صحيح ابن خزيمه3؍89ح1676]
◈ امام ابوبکر بن المنذر النیسا بوری رحمہ اللہ (متوفی 318ھ) فرماتے ہیں:
ذكر إمامة المرأ ة النساء فى الصلوات المكتوبة [الاوسط فى السنن و الاجماع و الاختلاف ج 4 ص 226 ] (حافظ زبیر زئی حفظہ اللہ، نماز میں عورت کی امامت)
ان دونوں عنوانوں سے بھی واضح ہے کہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں عورت کے لئے امامت کرنا ہی مراد ومنشاء رسول ہے، حدیث پاک کو سمجھنے میں اسلاف کرام کے فہم وفراست پہ بھروسہ کیا جاتا ہے، تجدد پسندوں کی خوش فہمی پہ نہیں!
عورت کو منصب امامت کا حق کیوں نہیں؟
قرآن، حدیث، اجماع امت، قیاس، عقل، اور فقہ ہر لحاظ سے عورت کا مرد کے لئے امام بننا ناجائز ہے:
قرآن کریم سے
{الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ}. [النساء الآية 34].
مردعورتوں پر حاکم ہیں، اس بنا پر جو اللہ نے ایک کودوسرے پرفضیلت دی ہے، اوراس واسطے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے۔)
امام قرطبی فرماتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ مردوں میں حکام ، امراء وحکمراں اور غازی ہوتے ہیں، جبکہ عورتوں میں نہیں "فإن فيهم الحكام والأمراء ومن يغزو وليس ذلك في النساء" [تفسير القرطبي 5/147].
مسجد کی امامت بھی حکمرانی وامارت ہی کی قسم ہے، اگر عورت کو مرد کا امام بنادیا جائے تو عورت کو مرد پہ حاکم بنانا لازم آئے گا جو قرآن کریم کی اس آیت کی صریح خلاف ورزی ہے۔
2- {وَلا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ}. [محمد الآية 32] "اپنے اعمال کو باطل نہ کرو."
مسلم شریف کی ایک روایت کے ظاہر مفہوم سے واضح ہوتا ہے کہ نمازی کے سامنے عورت اگر ہو تو نماز فاسد ہوجاتی ہے:
[يقطع الصلاة المرأة والحمار والكلب] [صحيح مسلم, كتاب الصلاة, باب قدر ما يستر المصلي ح511].
اگر عورت کو مرد کا امام بنادیا جائے تو نماز جیسی اہم ترین عبادت کو فاسد کرنا لازم آئے گا جو نص قرآنی کے خلاف ہے)
3-.وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا [النساء الآية 32].
اور جس چیز میں کہ خدا نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اس کو ہوس نہ کیا کرو۔ مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو۔ بیشک اللہ ہر ایک چیز جانتا ہے۔)
منصب امامت وحکمرانی مردوں کا حصہ ہے، عورتیں اگر مردوں کی امامت کی تمنا کرنے لگیں تو یہ نص قرآنی کے خلاف ہے۔
عورتوں کی امامت کی ممانعت حدیث رسول سے:
1: «لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة» (صحيح البخاري 13/ 337، برقم 4073، سنن النسائي 16/ 224، برقم 5293.) يفيد منعهن من أن يكون لهن منصب الإمامة في الصلاة للرجال. (22) ۔۔۔ وہ قوم ہرگز کا میاب نہیں ہوسکتی جو اپنے امور ولایت کسی عورت کو سونپ دے۔
امیر صنعانی فرماتے ہیں یہ دلیل ہے کہ عورت کو احکام کا کوئی عمومی منصب نہیں سونپا جاسکتا:
"وفيه دليل على عدم جواز تولية المرأة شيئًا من الأحكام العامة بين المسلمين" [سبل السلام 882]
2. عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: خطبنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «لا تؤمن امرأةٌ رجلا» (سنن ابن ماجه 3/ 381، برقم 1071. في إسناده علي بن زيد بن جدعان، وعبد الله بن محمد العدوي، وهما ضعيفان انظر: تهذيب التهذيب 6/ 19.) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: کوئی عورت کسی مرد کی امامت بالکل نہ کرے۔
3. «أخروهن حيث أخرهن الله» (المعجم الكبير للطبراني 8/ 234، برقم 9371، صحيح ابن خزيمة 6/ 279، برقم 1606 موقوف) عورتوں کو پیچھے رکھو کیونکہ اللہ نے بھی انہیں پیچھے رکھا ہے۔
عورت کی صف کی ترتیب بالکل پیچھے رکھی گئی ہے، امام کے آگے یا محاذات میں عورت کا ہونا مفسد صلات ہے، اگر عورت کو امام بناکر آگے کردیا جائے تو اس حکم رسول کی صریح خلاف ورزی بھی ہے اور نماز کو برباد کرنا بھی! [عمدة القاري شرح صحيح البخاري 5/261, وانظر البناية 2/328].
یا جس طرح گواہی اور وراثت وغیرہ میں عورت کا حصہ مرد سے کمتر ہے. اسی طرح امامت میں بھی عورت کو مرد سے پیچھے رکھو: (و"قيل يجوز أن تكون حيث للتعليل يعني كما أخرهن الله تعالى في الشهادة والإرث والسلطنة وسائر الولايات". [البناية 2/328].
4- [يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله ]. [مسلم, كتاب المساجد ومواضع الصلاة , باب مَنْ أحق بالإمامة] قوم کی امامت وہ کرے جو سب سے زیادہ کتاب اللہ کا جانکار ہو یا اچھا پڑھتا ہو)
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں "قوم" کے عموم میں عورت داخل نہیں ہوتی، لفظ قوم کا اطلاق صرف مردوں پہ ہوتا ہے، لہذا حدیث دلیل ہے کہ قوم یعنی مردوں کی امامت کا حق عورت کو نہیں ہے: "هذا الحديث حجة في أن المرأة لا تؤم, لأن لفظ "القوم" يختص بالذكورة بدليل قوله تعالى: {لا يسخر قوم من قوم ولا نساء من نساء} ففصل بين النساء والقوم". [تبيين المسالك لتدريب السالك الى مذهب مالك 458 – 459]
5 - [خير صفوف الرجال أولها وشرها آخرها, وخير صفوف النساء آخرها وشرها أوّلها]. [صحيح مسلم, كتاب الصلاة, باب تسوية الصفوف وإقامتها، (ح 440)]
مردوں کی بہترین صف آگے والی اور بدترین صف پیچھے والی ہوتی ہے، جبکہ عورتوں کی بہترین صف آخر والی اور بدترین صف آگے والی ہوتی ہے(کیونکہ اس میں ان کے ستر وپردہ کا زیادہ لحاظ ورعایت ہے)
اگر عورت کو مردوں کی امامت کے لیے سرمحفل آگے بڑھا دیا جائے تو اس میں مردوں کو فتنہ میں ڈالنے کا سامان مہیا کیا جائے گا، اس لئے عورت کی امامت مردوں کے لئے جائز نہیں:
قال المحقق التهانوي: "وجه دلالته... أن إمامتها تستلزم تقدمها على الصفوف, وقد منع في الحديث كما ترى فتكون إمامتها ممنوعة". [إعلاء السنن 4/234]
6 - [من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ]. [البخاري, كتاب الصلح, باب إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود. ومسلم كتاب الأقضية, باب الأحكام الباطلة وردّ محدثات الأمور]- جو شخص دین میں نئی بات پیدا کرے وہ پیدا کرنے والے ہی کے منہ پہ مار دی جائے گی (مردود ہوگی)
عبادات میں اصل توقیف وتشریع ہے، جس چیز کا حکم رسول نے نہ دیا ہو ، کسی صحابی وتابعی نے جسے نہ کیا ہو، چودہ سو سالوں سے جس کے عدم جواز پہ تمام علماء امت کا اجماع چلا آرہا ہو اسے بشکل عبادت انجام دینا یقینا دین و مذہب میں نئی چیز پیدا کرنا ہے جو بدعت ومردود ہوگی.
7 - [صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها]. [أبو داود, كتاب الصلاة].
عورت کا صحن کمرہ میں نماز پڑھنے سے کمرہ کے تنگ ومختصر ترین جگہ میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔
اس حدیث میں کمرے کی تنگ جگہ میں عورت کو نماز پڑھنے کہا جارہا ہے، سرمسجد مردوں کے امام بننے میں اس حدیث کی صریح خلاف ورزی ہے۔
8- [هلكت الرجال حين أطاعت النساء]. [مسند أحمد. والحاكم وقال صحيح الإسناد]
مرد جب عورتوں کی اطاعت کرنے لگیں تو وہ ہلاک ہوجائیں گے۔
عورت کی اقتدا میں نماز پڑھنا یقینا عورتوں کا مطیع بننا ہے، جو حکم رسول کی خلاف ورزی ہے.
"دلالته ظاهرة حيث عدّ إطاعة النساء هلاكة للرجال, فكانت ممنوعة, ولا يخفى أن إمامتها للرجال تستلزم كونها مطاعة لهم". [إعلاء السنن، 4/234]
9 - [المرأة عورة فإذا خرجت استشرفها الشيطان]. [الترمذي في كتاب الرضاع, باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات (ح 1173) 2/230، وقال حديث حسن غريب]
یعنی عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے چنانچہ جب کوئی عورت (اپنے پردہ سے باہر) نکلتی ہے تو شیطان اس کو مردوں کی نظر میں اچھا کرکے دکھاتا ہے۔
جب گھر سے باہر نکلنے میں فتنہ کا اندیشہ ہے تو ہر مزاج طبعیت وقوی کے حامل مردوں کے سامنے امامت کے لئے کھڑی ہوجانا کتنے بڑے فتنے کا باعث ہوگا؟ اس لئے عورت کی امامت مرد کے لئے جائز نہیں۔ [إعلاء السنن، 4/234].
10 : التسبيحُ للرجالِ، والتصفيق للنساءِ (صحيح البخاري:1204)
تصفیق (خاص طریقے سے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارنا) عورتوں کے لئے ہے اور تسبیح (سبحان اللہ کہنا) مردوں کے لئے ہے۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ عورت مردوں کی موجودگی میں نماز میں آواز نہیں نکال سکتی، امام کو غلطی پر متنبہ کرنے کے لئے جب عورت معمولی سی آواز نہیں نکال سکتی تو مکمل نماز کی امامت کیسے کرسکتی ہے؟ کیا کوئی اس کا جواب دے سکتا ہے؟
اجماع امت سے مرد کے لئے عورت کی امامت کی ممانعت:
تمام علماےامت کا چودہ سو سالہ اجماع قائم ہوچکا ہے کہ عورت مرد کا امام نہیں بن سکتی:
1- "وأجمع العلماء على أن الرجال لا يؤمهم النساء". [الاستذكار، ابن عبد البر 2/79].
2- محقق ابن الہمام بھی یہی کہتے ہیں: الإجماع على عدم جواز إمامة المرأة للرجل". [تحفة النبلاء 24].
3- اعلاء السنن میں ہے عورت باتفاق علما فرائض میں مرد کی امامت نہیں کرسکتی: "لا تصح إمامة المرأة بالرجال في الفرائض بالاتفاق". [إعلاء السنن 4/235].
4: ابن حزم کہتے ہیں تمام علماء کا اتفاق ہے کہ عورت مرد کی امامت نہیں کرسکتی، اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے: "ولا يجوز أن تؤم المرأة الرجل ولا الرجال, وهذا مما لا خلاف فيه"، ثم قال: "يثبت بطلان إمامة المرأة للرجل والرجال يقينًا". [المحلى 2/167].
مرد کے لئے عورت کی امامت کی ممانعت قیاس سے:
جب امور سلطنت جیسے خالص دنیوی وانتظامی معاملات میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں ہے جیساکہ اوپر بخاری کی حدیث میں آچکا ہے تو نماز جیسی خالص روحانی عبادت میں عورت کو امام بناکر شمع محفل بنانا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟
فقہی ضابطہ بھی یہی ہے کہ نماز ودیگر عبادات میں اصل ممانعت ہے مگر صاحب شرع کی طرف سے جس کی مشروعیت ہوجائے اسے انجام دیا جائے گا، جس عبادت وطریقے کی مشروعیت شرع کی جانب سے نہ ہوئی ہو اسے عقل کے بل بوتے مشروع نہیں کیا جاسکتا، مرد کے لئے عورت کی امامت کہیں سے بھی کسی صحابی وتابعی سے بھی ثابت نہیں ہے تو بھلا اسے کیسے تسلیم کرلیا جائے؟ ممانعت کے ان گنت دلائل ہیں جبکہ مشروعیت کی ایک بھی صریح دلیل نہیں؟ اگر واقعی دین و شریعت میں اس کی گنجائش ہوتی تو بیان جواز کے لئے بھی کم ازکم ایک بار بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین رحمہم اللہ سے ثابت ہونا چاہئے کہ نہیں؟ "ولأنه لو كانت إمامتهن جائزة لنقل ذلك عن الصدر الأول (بداية المجتهد 1/ 227)
پھر معاملہ امامت تک ہی محدود تھوڑا ہی رہے گا؟، اگر امامت جائز ہوگی تو پھر عورت کا خطبہ جمعہ وعیدین کا کیا بنے گا؟ کس روایت سے ان کے خطبہ جمعہ کا جواز ثابت کیا جائے گا؟ ذرا متجددین اس کا حکم بھی واضح کردیں!
(حكم إمامة المرأة بالرجال في الصلاة/ للشیخ ناصر بن سلیمان العمر، وتحقیق المقال فی حکم امامة المراة بالرجال للشیخ الدکور علی عثمان جرادی سے مستفاد)
جب مردوں کے لئے عورت کی امامت جائز نہیں ہے تو بعض علماء اس کے قائل کیسے ہوئے؟
مفسر ابن جریر طبری، امام مزنی، ابوثور اور داؤد ظاہری وغیرہ کی طرف مردوں کے لئے عورت کی امامت کا جو جواز کا قول مطلقاً نقل کیا جاتا ہے وہ اس طرح مکمل نہیں ہے
امام مزنی کا مطلقا ایسا مذہب نہیں ہے، وہ امام شافعی کے ساتھ ہیں اور ان کے ہم خیال ہیں۔
وہ صرف یہ فرماتے ہیں کہ اگر بھول سے عورت، کافر، یا جنبی کے پیچھے کوئی نماز پڑھ لے تو چونکہ شوافع کے یہاں امام ومقتدی ہر کوئی اپنی اپنی نماز ازخود پڑھتا ہے، کوئی کسی کا ضامن نہیں ہوتا، اس لئے عورت کے پیچھے لاعلمی میں پڑھی گئی مرد کی نماز درست ہے:
والقياس أن كل مصل خلف جُنُب و امرأة ومجنون وكافر تجزئه صلاته إذا لم يعلم بحالهم, لأن كل مصل لنفسه لا نفسد عليه صلاته بفسادها على غيره". [مختصر المزني, باب اختلاف نية الإمام والمأموم 8/116].
ان کی بات مکمل پڑھے اور سمجھے بغیر غلط انداز میں پیش کردیا گیا ہے.
ابوثور اور مفسر ابن جریر طبری بھی شوکانی کی نقل کے بموجب مطلقا جواز امامت کے قائل نہیں ہیں؛ بلکہ ان کے یہاں بھی جواز، تراویح کی نماز کے ساتھ خاص ہے بشرطیکہ کوئی مرد قرآن پڑھنے والا نہ ملے۔ جن کتابوں میں بھی ان علماء کے مذاہب نقل ہوئے ہیں وہ یا تو غلط ہیں یا بلاسند منقول ہوئے ہیں، بغیر سند وتحقیق کسی نقل کا کوئی اعتبار نہیں۔
الغرض عورت کا مرد کے لئے امام بننا قرآن، حدیث، اجماع امت اور عقل ونقل ہر ایک کے خلاف ہے۔
واللہ اعلم
بیگوسرائے
No comments:
Post a Comment