دیا جلانا توہم پرستی اور شرکیہ عمل!
اسلام ایک حقیقت وسچائی کا نام ہے، اس میں چھوت چھات، توہمات دیومالائی کہانیوں اور داستانوں کی کوئی گجائش نہیں۔ عالمی وباء کورونا سے مقابلہ کے لئے عالمی طاقتوں نے اپنے ملکوں میں بڑے بڑے انتظامات کئے، افسوس ہے ہمارا ملک اس حوالے سے سب سے پیچھے رہا، یہاں بر وقت اس کی کوئی پیش بندی ہوئی نہ اس سے نمٹنے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیا گیا، دنیا کی سب سے گھنی اربوں آبادی پہ مشتمل ملک کو بِلا کوئی منظم و مربوط پلان و پیشگی اعلان کے، لاک ڈائون کردیا گیا، جتنی انسانی جانیں کورونا سے لقمہ اجل نہیں بنیں اس سے کئی گنا زیادہ بھکمری کی وجہ سے ہلاک ہوچکی ہیں، برے گورننس بد نظمی اور حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا ہوگئی ہے.
حکومت کے طرز عمل سے محسوس ہوتا ہے کہ اس خطرے کو سنجیدگی سے وہ نہیں لے رہی ہے۔
اس عالمی افتاد وبلاء کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کی بجائے ہمارے وزیر اعظم صاحب تالی، تھالی گھنٹی بجانے اور مخصوص دورانیہ کے لئے دیا جلانے کی تلقین کرنے میں لگے ہوئے ہیں
اکیسویں صدی کے دور ترقی میں پتھر کے زمانے جیسی چھوت چھات اور توہم پرستی کا تجربہ کرنا مضحکہ خیز ہے.
۵ اپریل کی شب میں ۹ بجے ۹ منٹ تک شمعیں روشن کرنا توہم پرستی، دیومالائی طاقتوں اور دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے جیسے شرکیہ عقیدے پر مبنی رسم ہے، ایک خاص مذہب کے لوگوں کا یہ نجی معاملہ ہے، وہ اسے انجام دیں کوئی حرج نہیں؛ لیکن مسلمانوں کو دیا جلانے کے عمل میں شرکت کرنا ہر گز جائز نہیں ہے، غیرمسلم آبادیوں میں رہنے والے مسلمان اندیشۂ فتنہ اور ”اتقاء شر“ کے لئے اپنے گھروں کی صرف لائٹ آف کرلیں تو گنجائش ہے، اس کے درمیان رب کے حضور الحاح وزاری کے ساتھ دعاء واستغفار کریں، پورے ملک میں امن وعافیت کی دعائیں مانگیں۔
پتھروں میں کیڑے پالنے والی ”کُن فیکون“ کی مالک ذات ہی اس مصیبت سے نکلنے کا راستہ نکال سکتی ہے۔
اس بے وقعت بیکٹیریا نے بڑی بڑی زمینی طاقتوں اور مصنوعی خداؤں کی اوقات یاد دلادی ہے۔ ربّ دو جہاں! ہم صرف آپ سے ہی مدد مانگتے ہیں، آپ کے علاوہ ہمارا کوئی ملجاء ومأویٰ نہیں!!!
No comments:
Post a Comment