وبائی امراض کے اسباب وحکمتیں اور مسلمانوں کے حق میں اس کا عذاب ہونے نہ ہونے سے متعلق تفصیل
وبائی امراض کے اسباب کیا ہیں؟ بیماری عام حالت میں بھی نیک و بد ہر طرح کے لوگوں پر آتی ہے اور وبائی مرض ہونے کی صورت میں بھی، جیساکہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طاعون سے شہید ہوگئے، پھر اس طرح کے مواقع پر کیوں کہا جاتاہے کہ یہ عذاب اور پکڑ ہے؟ اس حوالے سے صحیح شرعی راہ نمائی فرمائیں!
===============================
باسمہ سبحانہ و تعالیٰ
(الجواب وبااللہ التوفیق)
قرآنِ کریم یہ بتاتا ہے کہ دنیا کے نظام میں فساد اور انسانوں کو پہنچنے والی مصیبتوں کا سبب انسان کے اعمال ہوتے ہیں، جیسے ظاہری اسباب کے اثرات ہوتے ہیں جو حواس سے محسوس کیے جاتے ہیں، اسی طرح نظامِ کائنات کی اصلاح وفساد کے کچھ باطنی اور معنوی اسباب بھی ہیں، جیسے ظاہری اسباب کی وجہ سے بیماری ہوسکتی ہے، مثلاً کوئی سخت سردی میں بچاؤ کا انتظام نہ کرے تو اسے سردی سے بخار ہوسکتاہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی بھی ایک منفی تاثیر ہے، جب وہ حد سے بڑھ جاتی ہے تو اس کے مہلک اثرات ظاہر ہوتے ہیں، اور یہ اثرات قدرتِ خداوندی سے مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں، ان کے لیے کوئی خاص صورت متعین نہیں ہے، تاہم عمومی طور پر جس قسم کی معصیت ہوتی ہے اس کی مناسبت سے ابتلا ہوتاہے، قرآنِ پاک و احادیثِ مقدسہ میں یہ بات مختلف انداز میں اور کئی مقامات پر بیان کی گئی ہے، اور جب بدعملی فرد سے تعلق رکھتی ہے اور حد سے تجاوز کرتی ہے تو تکوینی نظام کے تحت اس ایک فرد کی بھی پکڑ ہوتی ہے اور اعلانیہ یا بہت عام ہوتی ہے تو ابتلا بھی عام ہوجاتاہے، اس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ انسان اپنے حقیقی معبود کی طرف رجوع کریں، اس پر ایمان لائیں، توبہ و استغفار کریں، چناں چہ بعض کے حق میں یہ ابتلا گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتی ہے، بعض کے حق میں رفعِ درجات اور بعض (جو ایمان قبول نہیں کرتے یا گناہ گار رجوع نہیں کرتے، ان) کے حق میں غضبِ خداوندی کا مظہر، اور ایک ہی واقعے سے مختلف لوگوں کے حق میں مختلف نتائج سامنے آتے ہیں، تاہم اُخروی معاملہ مصیبت میں مبتلا افراد کی نیتوں اور ان کے ذاتی اعمال کے مطابق ہوتاہے، جیساکہ احادیثِ مبارکہ میں اس کی صراحت موجود ہے۔ نیز احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ طاعون پچھلی امتوں کے لیے عذاب تھا اور مؤمنین کے لیے رحمت اور شہادت ہے، چناں چہ جو مسلمان کسی علاقے میں طاعون پھیلنے کے بعد وہیں ثابت قدم رہتاہے اور اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کا یقین رکھتاہے تو اس کے لیے شہید کا اجر ہے، اور شہید ہوجائے تو شہادت کا درجہ پاتاہے۔ گویا مسلمانوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ دنیا تو فانی ہے، اگر وبائی امراض عام بھی ہوجائیں تو وہ مایوس نہ ہو، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے ثابت قدم رہے، اس علاقے سے نہ نکلے، تو یہ ایمان اور ثابت قدمی اس کے لیے شہادت کے اجر و ثواب کا باعث ہے اگرچہ وہ اس وبا میں وفات نہ پائے۔ اور یہی وبائی امراض اگر ایمان و ثابت قدمی اور رجوع الی اللہ کے بجائے مزید غفلت کا سبب بنے تو گویا یہ تنبیہ اور خدا کی پکڑ کی نشانی ہے۔قرآنِ کریم میں ہے:
{فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ} [البقرہ: 59]
ترجمہ: ہم نے نازل کی ان ظالموں پر ایک آفت سماوی (وہ آفت سماوی طاعون تھا۔از حاشیہ) اس وجہ سے کہ وہ عدول حکمی (نافرمانی) کرتے تھے۔ (بیان القرآن)
اسی طرح ا یک اور مقام پر ہے:
{وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ} [الشوري: 30]
ترجمہ: اور تم کو (اے گناہگاروں) جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کیے ہوئے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سی تو درگزر ہی کردیتا ہے۔ (بیان القرآن)
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جس شخص کو کسی لکڑی سے کوئی خراش لگتی ہے، یا کوئی رگ دھڑکتی ہے یا قدم کو لغزش ہوتی ہے، یہ سب اس کے گناہوں کے سبب سے ہوتا ہے اور ہر گناہ کی سزا اللہ تعالیٰ نہیں دیتے بلکہ جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف کردیتے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جن پر کوئی سزا دی جاتی ہے۔
علامہ بیضاوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ آیت ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جن سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں۔ انبیاء (علیہم السلام) جو گناہوں سے معصوم ہیں یا نابالغ بچے اور مجنون جن سے کوئی گناہ نہیں ہوتا، ان کو جو تکلیف و مصیبت پہنچتی ہے وہ اس حکم میں داخل نہیں۔ اس کے دوسرے اسباب اور حکمتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً رفع درجات اور درحقیقت ان کی حکمتوں کا احاطہ انسان نہیں کرسکتا۔ (مستفاد از معارف القرآن)
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ} [الروم: 41]
ترجمہ: خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب بلائیں پھیل رہی ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزہ ان کو چکھا دے تاکہ وہ باز آجائیں۔ (بیان القرآن)
یعنی خشکی اور دریا میں سارے جہاں میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اعمال بد کی وجہ سے۔
تفسیر روح المعانی میں ہے کہ فساد سے مراد : قحط اور وبائی امراض اور آگ لگنے اور پانی میں ڈوبنے کے واقعات کی کثرت اور ہر چیز کی برکت کا مٹ جانا، نفع بخش چیزوں کا نفع کم نقصان زیادہ ہوجانا وغیرہ آفات ہیں۔
اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان دنیوی آفات کا سبب انسانوں کے گناہ اور اعمال بد ہوتے ہیں جن میں شرک و کفر سب سے زیادہ اشد ہیں، اس کے بعد دوسرے گناہ ہیں۔ اور یہی مضمون دوسری ایک آیت میں اس طرح آیا ہے:
{وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ}،
{وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ}،
یعنی تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمارے ہی ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے ہے۔ یعنی ان معاصی کے سبب جو تم کرتے رہتے ہو اور بہت سے گناہوں کو تو اللہ تعالیٰ معاف ہی کردیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو مصائب اور آفات تم پر آتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمہارے گناہ ہوتے ہیں، اگرچہ دنیا میں نہ ان گناہوں کا پورا بدلہ دیا جاتا ہے اور نہ ہر گناہ پر مصیبت و آفت آتی ہے، بلکہ بہت سے گناہوں کو تو معاف کردیا جاتا ہے، بعض بعض گناہوں پر ہی گرفت ہوتی اور آفت و مصیبت بھیج دی جاتی ہے۔ اگر ہر گناہ پر دنیا میں مصیبت آیا کرتی تو ایک انسان بھی زمین پر زندہ نہ رہتا۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ بہت سے گناہوں کو تو حق تعالیٰ معاف ہی فرما دیتے ہیں اور جو معاف نہیں ہوتے ان کا بھی پورا بدلہ دنیا میں نہیں دیا جاتا، بلکہ تھوڑا سا مزہ چکھایا جاتا ہے جیسا کہ اسی آیت کے آخر میں فرمایا:
{لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا}
{لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا}
یعنی تاکہ چکھاوے اللہ تعالیٰ کچھ حصہ ان کے برے اعمال کا۔اور اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اعمال بد اور گناہوں کی وجہ سے جو مصیبت و آفت دنیا میں بھیج دی جاتی ہے وہ بھی غور کرو تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت ہی ہے؛ کیوں کہ مقصود اس دنیا کی مصیبت سے یہ ہوتا ہے کہ غافل انسان کو تنبیہ ہوجائے اور وہ اپنے گناہوں اور نافرمانیوں سے باز آجائے جو انجام کار اس کے لیے مفید اور بڑی نعمت ہے، جیسا کہ آخر آیت میں فرمایا:
لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ۔ (معارف القرآن)
﴿مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۫ وَمَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ؕ وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰهِ شَهیْدًا﴾ [النساء:۷۹]
ترجمہ: (اے انسان) تجھ کو جو کوئی خوش حالی پیش آتی ہے وہ محض اللہ کی جانب سے ہے اور جو کوئی بدحالی پیش آوے وہ تیرے ہی سبب سے ہے اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہیں۔ (بیان القرآن)
معارف القرآن میں ہے:
انسان کو نعمت محض اللہ کے فضل سے ملتی ہے:
﴿مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ﴾
یہاں حسنة سے مراد نعمت ہے۔ (مظہری)
اس آیت سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ انسان کو جو نعمت ملتی ہے وہ کوئی اس کا حق نہیں ہوتا، بلکہ محض اللہ کا فضل ہوتا ہے، انسان خواہ کتنی ہی عبادت کرے، اس سے وہ نعمت کا مستحق نہیں ہوسکتا اس لیے عبادت کی توفیق بھی تو اللہ ہی کی جانب سے ہوتی ہے پھر اللہ کی نعمتیں تو بےحساب ہیں، ان کو محدود عبادات اور اطاعات سے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ خصوصاً جب کہ ہماری عبادت بھی رب العلمین کی بادشاہت کے شایان شان نہ ہو ۔
چنانچہ ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں:
”یعنی سوائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا، راوی نے عرض کیا آپ بھی نہیں جائیں گے؟ فرمایا: ہاں میں بھی نہیں ۔“
مصیبت انسان کے شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے:
﴿وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ﴾
یہاں سیئة سے مراد مصیبت ہے۔ (مظہری)
مصیبت کی تخلیق اگرچہ اللہ ہی کرتا ہے، لیکن اس کا سبب خود انسان کے اعمال بد ہوتے ہیں، اب اگر یہ انسان کافر ہے تو اس کے لیے دنیا میں جو مصیبت پیش آتی ہے یہ اس کے لیے اس عذاب کا ایک معمولی سا نمونہ ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اور اگر وہ مومن ہے تو اس کے لیے مصائب و تکالیف اس کے گناہوں کا کفارہ ہو کر نجات آخرت کا سبب ہو جاتی ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا :”یعنی کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو کسی مسلمان کو پہنچے، مگر وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کانٹا جو اس کے پاؤں میں چبھتا ہے۔“
”حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندے کو جو کوئی ہلکی یا سخت مصیبت پیش آتی ہے تو وہ اس کے گناہ کا نتیجہ ہوتی ہے، اور بہت گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں ۔“ (معارف القرآن)
حدیثِ مبارک میں ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے جماعتِ مہاجرین!! پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہوجاؤ۔ اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تم ان چیزوں میں مبتلا ہو۔
1۔ پہلی یہ کہ جس قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں۔
2۔ اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط مصائب اور بادشا ہوں (حکم رانوں) کے ظلم وستم میں مبتلا کردی جاتی ہے ۔
3۔ اور جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکاۃ نہیں دیتی تو بارش روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ بر سے۔
4 ۔ اور جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں۔
5۔ اور جب مسلمان حکم ران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام میں (مرضی کے کچھ اَحکام) اختیار کرلیتے ہیں (اور باقی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو خانہ جنگی اور) باہمی اختلافات میں مبتلا فرما دیتے ہیں۔
سنن ابن ماجه (2/ 1332): "عن عبد الله بن عمر، قال: أقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: "يا معشر المهاجرين! خمس إذا ابتليتم بهن، وأعوذ بالله أن تدركوهن: لم تظهر الفاحشة في قوم قط، حتى يعلنوا بها، إلا فشا فيهم الطاعون، والأوجاع التي لم تكن مضت في أسلافهم الذين مضوا، ولم ينقصوا المكيال والميزان، إلا أخذوا بالسنين، وشدة المئونة، وجور السلطان عليهم، ولم يمنعوا زكاة أموالهم، إلا منعوا القطر من السماء، ولولا البهائم لم يمطروا، ولم ينقضوا عهد الله، وعهد رسوله، إلا سلط الله عليهم عدوا من غيرهم، فأخذوا بعض ما في أيديهم، وما لم تحكم أئمتهم بكتاب الله، ويتخيروا مما أنزل الله، إلا جعل الله بأسهم بينهم".
نیز جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عمومی مصیبت آئے تو دنیا میں مؤمنین بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں، اس کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں، مثلا:
(1) گناہ گاروں کو حق کی تلقین نہ کرنے پر تنبہ
(2) ابتلا و آزمائش
(3) انجام کار رحمت ونعمت۔
(1) گناہ گاروں کو حق کی تلقین نہ کرنے پر تنبہ!
جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [الأنفال: 25]
ترجمہ: اور تم ایسے وبال سے بچوجو خاص انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں ان گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں، اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزادینے والے ہیں۔ (بیان القرآن)
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
”ان میں سے پہلی آیت میں ایسے گناہ سے بچنے کی خاص طور پر ہدایت کی گئی ہے جس کا عذاب شدید صرف گناہ کرنے والوں پر محدود نہیں رہتا، بلکہ ناکردہ گناہ لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
وہ گناہ کو ن سا ہے؟ اس میں علماء تفسیر کے متعدد اقوال ہیں:
بعض حضرات نے فرمایا کہ: یہ گناہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو نیک کاموں کی ہدایت اور برے کاموں سے روکنے کی جد و جہد کا ترک کردینا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس کا حکم دیا ہے کہ کسی جرم و گناہ کو اپنے ماحول میں قائم نہ رہنے دیں؛ کیوں کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا یعنی جرم و گناہ دیکھتے ہوئے باوجود قدرت کے اس کو منع نہ کیا تو اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردیں گے جس سے نہ گناہ گار بچیں گے نہ بےگناہ۔
اور بےگناہ سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو اصل گناہ میں ان کے ساتھ شریک نہیں مگر امر بالمعروف کے ترک کردینے کے گناہ گار وہ بھی ہیں؛ اس لیے یہاں یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک کے گناہ کا عذاب دوسرے پر ڈالنا بےانصافی اور قرآنی فیصلہ (آیت) اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى کے خلاف ہے؛ کیوں کہ یہاں گناہ گار اپنے اصل گناہ کے وبال میں اور بےگناہ ترک امر بالمعروف کے گناہ میں پکڑے گئے، کسی کا گناہ دوسرے پر نہیں ڈالا گیا۔
امام بغوی نے شرح السنہ اور معالم میں بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود و صدیقہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی خاص جماعت کے گناہ کا عذاب عام لوگوں پر نہیں ڈالتے جب تک کہ ایسی صورت پیدا نہ ہوجائے کہ وہ اپنے ماحول میں گناہ ہوتا ہوا دیکھیں اور ان کو یہ قدرت بھی ہو کہ اس کو روک سکیں اس کے باوجود انہوں نے اس کو روکا نہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کا عذاب ان سب کو گھیر لیتا ہے۔
اور ترمذی ابوداؤد وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ: میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب لوگ کسی ظالم کو دیکھیں اور ظلم سے اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردیں۔
صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: جو لوگ اللہ تعالیٰ کی قانونی حدود توڑنے والے گناہ گار ہیں اور جو لوگ ان کو دیکھ کر مداہنت کرنے والے ہیں، یعنی باوجود قدرت کے ان کو گناہ سے نہیں روکتے ان دونوں طبقوں کی مشال ایسی ہے جیسے کسی بحری جہاز کے دو طبقے ہوں اور نیچے کے طبقہ والے اوپر آکر اپنی ضرورت کے لیے پانی لیتے ہوں جس سے اوپر والے تکلیف محسوس کریں، نیچے والے یہ دیکھ کر یہ صورت اختیار کریں کہ کشتی کے نچلے حصہ میں سوراخ کرکے اس سے اپنے لیے پانی حاصل کریں اور اوپر کے لوگ ان کی اس حرکت کو دیکھیں اور منع نہ کریں تو ظاہر ہے کہ پانی پوری کشتی میں بھر جائے گا اور جب نیچے والے غرق ہوں گے تو اوپر والے بھی ڈوبنے سے نہ بچیں گے، ان روایات کی بنا پر بہت سے حضرات مفسرین نے یہ قرار دیا کہ اس آیت میں فتنہ سے مراد یہی گناہ یعنی امر بالمعرف اور نہی المنکر کا ترک کردینا ہے۔ (معارف القرآن)
(2) ابتلا وآزمائش!!
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ} [العنكبوت :2]
ترجمہ: کیا ان لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اتنا کہنے پر چھوٹ جاویں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کو آزمایا نہ جاوے گا۔ (بیان القرآن)
{وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ}،
فتنہ سے مشتق ہے جس کے معنی آزمائش کے ہیں، اہلِ ایمان خصوصا انبیاء و صلحاء کو دنیا میں مختلف قسم کی آزمائشوں سے گزرنا ہوتا ہے پھر انجامِ کار فتح اور کامیابی ان کی ہوتی ہے، یہ آزمائشیں مخالفین کبھی کفار و فجار کی دشمنی اور ان کی طرف سے ایذاؤں کے ذریعہ ہوتی ہیں، جیسا کہ اکثر انبیاء اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اکثر پیش آیا ہے، جس کے بے شمار واقعات، سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں مذکورہ ہیں اور کبھی یہ آزمائش امراض اور دوسری قسم کی تکلیفوں کے ذریعہ ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو پیش آیا اور بعض کے لیے یہ سب قسمیں جمع بھی کردی جاتی ہیں۔
شان نزول اس آیت کا اگرچہ ازروئے روایات وہ صحابہ ہیں جو ہجرت مدینہ کے وقت کفار کے ہاتھوں ستائے گئے، مگر مراد عام ہے ہر زمانے کے علماء و صلحاء اور اولیاء امت کو مختلف قسم کی آزمائشیں پیش آتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ (قرطبی)
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ} [البقرة: 214]
ترجمہ: کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ جنت میں (بے مشقت) جاداخل ہوگے حالانکہ تم کو ہنوزان (مسلمان) لوگوں کا سا کوئی (عجیب) واقعہ پیش نہیں آیا جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں۔ ان پر (مخالفین کے سبب) ایسی ایسی تنگی اور سختی واقع ہوئی اور (مصائب رہے) ان کو یہاں تک جنبشین ہوئیں کہ (اس زمانے کے) پیغمبر تک اور جو ان کے ہم راہ اہلِ ایمان تھے بول اٹھے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد (موعود) کب ہوگی۔ یاد رکھو بیشک اللہ تعالیٰ کی امداد (بہت) نزدیک ہے۔ (بیان القرآن)
اس آیت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بغیر مشقت ومحنت کے اور بغیر مصائب وآفات میں مبتلا ہوئے کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا ، حال آں کہ ارشاداتِ قرآنی اور ارشاداتِ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کہ بہت سے گناہ گار محض اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم اور مغفرت سے جنت میں داخل ہوں گے ان پر کوئی مشقت بھی نہ ہوگی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مشقت و محنت کے درجات مختلف ہیں، ادنیٰ درجہ نفس و شیطان سے مزاحمت کرکے یا دینِ حق کے مخالفین کے ساتھ مخالفت کرکے اپنے عقائد کا درست کرنا ہے اور یہ ہر مومن کو حاصل ہے آگے اوسط اور اعلیٰ درجات ہیں، جس درجہ کی محنت ومشقت ہوگی اسی درجہ کا دخول جنت ہوگا، اس طرح محنت ومشقت سے خالی کوئی نہ رہا ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ”أشد الناس بلاءً الأنبیاء، ثمّ الأمثل فالأمثل“: سب سے زیادہ سخت بلائیں اور مصیبتیں انبیاء (علیہم السلام) کو پہنچتی ہیں، ان کے بعد جو ان کے قریب تر ہیں۔
(3) انجام کار رحمت ونعمت!!
حدیثِ مبارک میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الطاعون، فأخبرني «أنه عذاب يبعثه الله على من يشاء، وأن الله جعله رحمةً للمؤمنين، ليس من أحد يقع الطاعون، فيمكث في بلده صابرًا محتسبًا، يعلم أنه لايصيبه إلا ما كتب الله له، إلا كان له مثل أجر شهيد»". (صحيح البخاري (4/ 175)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کی حقیقت دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا کہ (ویسے تو) یہ عذاب ہے جسے اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بھیجتا ہے (لیکن) اللہ تعالیٰ نے اسے (ان) مؤمنین کے لیے (باعث) رحمت قرار دیا ہے (جو اس میں ابتلا کے وقت صبر کرتے ہیں) اور جس شہر یا جس جگہ طاعون ہو اور (کوئی مؤمن) اپنے اس شہر میں ٹھہرا رہے اور صبر کرنے والا اور اللہ سے ثواب کا طالب رہے (یعنی اس طاعون زدہ علاقہ میں کسی اور غرض و مصلحت سے نہیں، بلکہ محض ثواب کی خاطر ٹھہرا رہے) نیز یہ جانتا ہوکہ اسے کوئی چیز (یعنی کوئی اذیت ومصیبت) نہیں پہنچے گی مگر صرف وہی جو اللہ نے (اس کے مقدر میں لکھ دی اور جس سے کہیں مفر نہیں) تو اس مؤمن کو شہید کے مانند ثواب ملے گا۔ (بخاری)
اسی طرح ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:
"عن أنس بن مالك رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الطاعون شهادة لكل مسلم»". (صحيح البخاري (4/ 24)
ترجمہ: حضرت انس راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "طاعون (میں مرنا) ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے" ۔
ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:
"عن محمد بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي صعصعة، أنه قال: سمعت سعيد بن يسار أبا الحباب، يقول: سمعت أبا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من يرد الله به خيرًا يصب منه»". (صحيح البخاري (7/ 115)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ جس شخص کو بھلائی پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے، وہ (اس بھلائی کے حصول کے لیے) مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ (بخاری)
"مصیبت" ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے دل قبول اور پسند نہ کرے، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت خواہ وہ تکلیف و بیماری کی صورت میں ہو یا حادثہ و صدمہ کی شکل میں، ہمیشہ اللہ کے قہر اور عذاب ہی کے طور پر نہیں آتی، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بندہ پر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کا سایہ کرنا چاہتا ہے اسے خیر و بھلائی کے راستہ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اسے کسی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ صاف ہو جاتے ہیں، بلکہ اس کے قلب و دماغ کو مصیبت کی سختی مجلی ومصفا کرکے خیر وبھلائی کے نور کو اپنے اندر ضیا بار کرنے کی صلاحیت پیدا کر دیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بندہ مصیبت وتکلیف پر صبر کرے اور راضی برضا رہے تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ یہ مصیبت اس کے لیے اپنے دامن میں اللہ کی رضا و رحمت لے کر آئی ہے۔ ہاں اگر کوئی بندہ کسی مصیبت پر صبر و ضبط کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ کر جزع و فزع کرنے لگے اور ناخوش وخفا ہونے لگے تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ یہ مصیبت اس کے حق میں رحمت نہیں، بلکہ عذاب الٰہی ہے۔
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ سورۂ روم کی آیت نمبر 41 کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”مصائب و آفات کے ذریعہ جن لوگوں کو ان کے گناہوں کی کچھ سزا دی جاتی ہے اور جن نیک لوگوں کو رفعِ درجات یا کفارۂ سیئات کے لیے بطور امتحان مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے، ظاہری صورت ابتلا کی ایک ہی سی ہوتی ہے، ان دونوں میں فرق کیسے پہچانا جائے؟
اس کی پہچان حضرت شاہ ولی اللہ نے یہ لکھی ہے کہ جو نیک لوگ بطور ابتلا و امتحان کے گرفتار مصائب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے قلوب کو مطمئن کردیتے ہیں اور وہ ان مصائب وآفات پر ایسے ہی راضی ہوتے ہیں جیسے بیمار کڑوی دوا یا آپریشن پر باوجود تکلیف محسوس کرنے کے راضی ہوتا ہے، بلکہ اس کے لیے مال بھی خرچ کرتا ہے، سفارشیں مہیا کرتا ہے، بخلاف ان گناہ گاروں کے جو بطور سزا مبتلا کیے جاتے ہیں، ان کی پریشانی اور جزع و فزع کی حد نہیں رہتی، بعض اوقات ناشکری، بلکہ کلمات کفر تک پہنچ جاتے ہیں۔
سیدی حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے ایک پہچان یہ بتلائی کہ جس مصیبت کے ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اپنے گناہوں پر تنبہ اور توبہ و استغفار کی رغبت زیادہ ہوجائے وہ علامت اس کی ہے کہ یہ قہر نہیں، بلکہ مہر اور عنایت ہے اور جس کو یہ صورت نہ بنے، بلکہ جزع و فزع اور معاصی میں اور زیادہ انہماک بڑھ جائے وہ علامت قہر الہی اور عذاب کی ہے۔ (معارف القرآن)
لہذا وبائی امراض میں مسلمانوں کو چاہیے کہ صبر واستقامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کریں، توبہ واستغفار، اپنے گناہوں پر خوب ندامت کے ساتھ اللہ کے سامنے گڑگرائیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے، نمازیں ادا کرنے، صدقہ وخیرات کی کثرت کا اہتمام کریں، بحیثیت مسلمان ان وباؤں سے بچنے کے لیے ظاہری جائز اسباب وتدابیر اختیار کریں، اور اس کے ساتھ اس حقیقی سبب کی طرف بھی متوجہ ہوں، اور اسی پر توکل کریں۔ ایسے وقت میں ثابت قدم رہیں، ایک دوسروں کو حوصلہ دیں، بے جا توہم پرستی کا شکار نہ ہوں۔
اگر کوئی ایسی صورتِ حال میں اسلامی اَحکام کی رعایت رکھےگا تو اس کے لیے یہ مصیبت بھی اللہ کی رحمت بن جائے گی! اس لیے دنیا میں تکلیف اور مصیبت نیک مؤمن پر بھی آتی ہے اور گناہ گار مؤمن اور کافر پر بھی آتی ہے، بعض کے لیے تکلیف و مصیبت رفعِ درجات کا سبب ہوتی ہے، اور بعض کے حق میں گناہوں کی معافی کا ذریعہ اور بعض کے لیے آخرت کے عذاب سے پہلے دنیاوی پکڑ ثابت ہوتی ہے تاکہ کافر و گناہ گار اسے دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ بیماری یا تکلیف کے رحمت بننے کی علامت یہ ہے کہ بیماری یا تکلیف کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع بڑھ جائے اور عملی زندگی میں اِصلاح اور مثبت تبدیلی آجائے تو یہ رحمت کا باعث ہے، اور اگر شکوہ شکایت، جزع فزع، اور اللہ سے رجوع ہٹ کر صرف دنیاوی اسباب اور غموم و ہموم کی طرف ہوجائے تو یہ آزمائش یا پکڑ کی علامت ہے۔ یہ سب باتیں قرآنِ مجید کی تعلیمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ثابت شدہ ہیں۔
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
https://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post.html
https://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post.html
No comments:
Post a Comment