صدقہ کی کتنی اقسام ہیں؟
سوال»
صدقہ کی کتنی اقسام ہیں؟
کیا لاک ڈاؤن میں زکوة صدقہ فطرہ وغیرہ دے سکتے ہیں؟
لاک ڈاؤن میں اجنبی شخص جو کہیں پھنسے ہوۓ ہیں جبکہ وہ صاحب نصاب ہیں ان کو زکوۃ کی رقم دینا کیسا ہے؟
کیا غیر مسلم کو بھی ایسی حالت میں زکوة وغیرہ دینا صحيح ہوگا؟
لاک ڈاؤن میں (مسلم وغیرمسلم) کی مدد سود کی رقم سے کرنا کیسا ہے؟
کیا صاحب نصاب شخص سال مکمّل ہونے سے پہلے پیشگی زکوة اداء کرسکتا ہے؟
براہ مہربانی مفصل جواب دینے کی زحمت فرمائیں
المستفتی::» عبد الملک الہ آباد یوپی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بسم الله الرحمن الرحیم
الجواب بأسم الملھم الصواب
صدقہ کی تین قسمیں ہیں
(1) فرض، جیسے زکوۃ
(2) واجب، جیسے نذر، صدقہ، فطر وغیرہ۔
(3) نفلی صدقات، جیسے عام خیرات۔
پہلی دو قسموں کے صدقات
(زکوۃ، صدقاتِ واجبہ وغیرہ) کسی مسلمان مستحق شخص کو دینا ہی ضروری ہے، جب کہ نفلی صدقات غریب اور امیر دونوں کو دے سکتے ہیں۔
اور مستحق زکوۃ سے مراد یہ ہے کہ: جس مسلمان کی ملکیت میں اس کی ضروریاتِ اصلیہ سے زائد نصاب کے برابر یعنی ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کے بقدر مالِ تجارت ، کیش یا کوئی سامان نہ ہو۔ جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد اتنا سامان یا مال موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہو وہ شرعاً مال دار ہے، اور مال دار کو زکات دینا جائز نہیں ہے۔
غیرمسلم اگر ضرورت مند ہو تو اس کو زکات دینا تو جائز نہیں ہے، اس لئے کہ زکات کی ادائیگی کے لئے مسلمان مستحق کو مالک بنانا ضروری ہے، البتہ نفلی صدقات وغیرہ سے غیرمسلم کی مدد کی جاسکتی ہے۔
"عن إبراهیم بن مهاجر قال: سألت إبراهیم عن الصدقة علی غیر أهل الإسلام، فقال: أما الزکاة فلا، وأما إن شاء رجل أن یتصدق فلا بأس"۔ (المصنف لابن أبي شیبة / ما قالوا في الصدقة یعطي منها أهل الذمة۶؍۵۱۳ رقم:۱۰۴۱۰) فقط واللہ اعلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سود کی رقم سے لاک ڈاؤن میں امداد کرنا
سود کی رقم یا اس سے خرید کردہ سامان ضرورتمند (مسلم وغیرمسلم) کو بلانیتِ ثواب بطور امداد دینے کی گنجائش ہے
زکوٰۃ کی رقم یا اس سے خریدکردہ سامان غیرمسلم غریب کو دینا جائز نہیں؛ اس لئے اگر لینے والے کی بات معلوم ہے کہ وہ غیرمسلم ہے تو اس کو زکاة نہ دی جائے، اس سے زکاة دینے والوں کی زکاة ادا نہ ہوگی اور جہاں مسلم اور غیرمسلم کے درمیان امتیاز دشوار ہو وہاں احتیاط اسی میں ہے کہ امداد وعطیہ کی رقم تقسیم کی جائے، زکاة نہ دی جائے۔ ہاں اگر دینے والے نے غور وتحقیق کے بعد کسی کو مصرف زکاة سمجھ کر زکاة دیدی (مثلاً غیرمسلم غریب بھی مسلمان غرباء ومتأثرین کی لائن میں مسلم حلیہ میں کھڑا تھا) بعد میں پتہ چلا کہ وہ مسلمان نہیں تھا یا غریب نہیں تھا تب بھی زکاة ادا ہوجائے گی۔ دفع بتحرّ لمن یظنہ مصرفًا - إلی قولہ - وإن بان غناہ أو کونہ ذمیًا أو أنہ أبوہ أو ابنہ أوامرأتہ أو ہاشمي لا یعید (درمختار)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تقسیم کیا جانے والا راشن غیر مستحق کو لینا جائز نہیں:
جو راشن تقسیم کیا جارہا ہے، اگر وہ زکاۃ کی مد سے ہو تو صرف مستحقِ زکاۃ کے لئے ہی لینا جائز ہے، غیرمستحق کے لئے اس کا لینا جائز نہیں، البتہ اگر نفلی صدقات اور خیرات سے ہو تو پھر غیرمستحق ضرورت مند کے لئے بھی لینا جائز ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
في الدر:
"باب المصرف
أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة. (ومسكين من لا شيء له) على المذهب، - لقوله تعالى {أو مسكينا ذا متربة} [البلد: ١٦]- وآية السفينة للترحم".
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سال مکمل ہونے سے پہلے زکوۃ اداء کرنا:
اگر صاحبِ نصاب آدمی سال مکمل ہونے سے پہلے اپنے مال کی زکاۃ ادا کرنا چاہے تو جائز اور درست ہے، زکاۃ ادا ہوجائے گی، البتہ رقم دینے سے پہلے یا دیتے وقت زکاۃ کی نیت ضروری ہے، رقم دے دینے کے بعد نیت کا اعتبار نہیں ہوگا۔
زکوة یا اس کی رقم سے خرید کردہ چیز کس کو دینا جائز ہے:
یہ یاد رہے کہ زکوۃ کا مستحق شریعت کی نگاہ میں وہ مسلمان ہے جس کے پاس اس کی بنیادی ضرورت (یعنی رہنے کا مکان، گھریلو برتن، کپڑے وغیرہ) سے زائد نصاب کے بقدر (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو، ایسے شخص کو زکاۃ یا زکاۃ کی مد میں راشن دینا جائز ہے۔
زکوۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لئے کسی مستحق مسلمان کو مالک بناکر رقم یا سامان دینا ضروری ہے، لہٰذا جو ادارے /ٹرسٹ مسلمان غیرسید مستحقِ زکاۃ فرد کو زکاۃ کا مالک بناکر زکاۃ صرف کرتے ہوں، انہیں زکاۃ کی رقم دینا درست ہے۔ اور جو ادارے مستحق، غیرمستحق، مسلمان ،غیر مسلم کی تمییز نہ کرتے ہوں، وہاں زکاۃ دینا درست نہیں۔ نیز جہاں شبہ ہو وہاں زکاۃ دینے کی بجائےخود مستحق تلاش کرکے اسے یا کسی مستند دینی ادارے کو زکاۃ دی جائے۔ مذکورہ ضابطے کی روشنی میں اداروں کا نظام دیکھ کر زکاۃ دینے کے جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
في الدر:
"باب المصرف
أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة. (ومسكين من لا شيء له) على المذهب، - لقوله تعالى {أو مسكينا ذا متربة} [البلد: ١٦]- وآية السفينة للترحم".
فقط
محمد اسعد المظاھری الہ آبادی عفی عنہ خادم دارالافتاء والتدریس جامعه کنزالعلوم الہ آباد یوپی الہند
http://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_53.html?m=1
No comments:
Post a Comment