Sunday, 12 April 2020

ظاہری شکل وشباہت — اور اقامتِ دین

ظاہری شکل وشباہت — اور اقامتِ دین!
-------------------------------
اسلام اور شعائراسلام خدا تعالی کا پسندیدہ اور مستقل بالذات نظام و قانون ہے، جو آفاقی بھی ہے اور ابدی ودائمی بھی، اس کے جملہ شعائر واحکام وحیِ ربانی اور الہامِ یزدانی کے تابع ہیں، قومیت، اور وطنیت جیسی تنگنائی وعلاقائی خول سے اگر وہ یکسر پاک ہے تو تقلیدِ رسم ورواج سے بھی اس کا کوئی سروے کار نہیں۔ دنیا میں آباد اربوں انسانوں کے درمیان مسلم وغیرمسلم، کافر ومومن کے مابین امتیاز اگر افکار وعقائد کے ذریعہ ہوتا ہے تو وہیں تہذیب، طرز لباس، فیشن، تراش خراش، شکل وشباہت، رنگ ڈھنگ، ہیئت وکیفیت اور وضع قطع کو بھی قوموں کے درمیان وجہِ امتیاز مانا گیا ہے۔ اسی لئے غیروں کی شباہت اپنانے  پر وعیدِ حدیث  آئی ہے۔
دینی غیرت، اسلامی حمیت اور شرعی امتیازات وخصوصیات کا تحفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے مسنون و مامور شکل وشباہت اختیار کرنے میں ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی پوری زندگی ان ظاہری خصوصیات وامتیازات پہ عملی مداومت فرمائی، اور امت کو صریح ایجابی حکم بھی فرمایا:
انهكوا الشواربَ، وأعفوا اللحى
عن عبدالله بن عمر.
/صحيح البخاري: 5893.
[صحيح].
یعنی مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو اور ڈاڑھیوں کو اچھی طرح بڑھائو)
جُزُّوا الشَّواربَ وأرخوا اللِّحَى . أبو هريرة. /مسلم: 260. {صحيح}.
یعنی مونچھوں کو تراشو، اور ڈاڑھیوں کو لٹکاؤ)
ان نصوص سے ڈاڑھی رکھنے کا وجوب اور  نہ رکھنے کی حرمت (سلباً) ثابت ہورہی ہے ،پہر اصحاب رسول اس واجبی مقدار کا تعین اپنے عمل سے یوں کرتے ہیں:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں باریک کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔‘‘
بخاري، الصحيح، 5: 2209، رقم: 5553، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
مروان بن سالم مقفع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔
يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَی الْکَفِّ.
’’وہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑکر جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔‘‘
سنن أبي داؤد، 2: 306، رقم: 2357، دارالفکر
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1: 584، رقم: 1536، دارالکتب العلمية بيروت
حضرت ابو زرعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ ثُمَّ يَأخُذُ مَافَضَلَ عَنِ القُبْضَةِ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑتے اور مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔‘‘
ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 225، رقم: 25481)
مصنف ابن أبي شيبة 
3504 (20) ما قالوا في الأخذ من اللحية. 
حدثنا غندر عن شعبة عن منصور قال: سمعت عطاء بن أبي رباح قال: كانوا يحبون أن يعفوا اللحية إلا في حج أو عمرة، وكان إبراهيم يأخذ من عارض لحيته. 
حدثنا عائذ بن حبيب عن أشعث عن الحسن قال : (كانوا) يرخصون فيما زاد على القبضة من اللحية أن يؤخذ منها. 
حدثنا علي بن هاشم ووكيع عن ابن أبي ليلى عن نافع عن ابن عمر أنه كان يأخذ ما فوق القبضة، وقال وكيع: ما جاوز القبضة. 
حدثنا وكيع عن سفيان عن منصور عن إبراهيم قال: كانوا يطيبون لحاهم ويأخذون من عوارضها. (مصنف ابن أبي شيبة 3504 (20) ما قالوا في الأخذ من اللحية)
انہی نصوص وآثار کی بناء ہر جمہور ائمہ مجتہدین نے متفقہ واجماعی طور پر ان ظاہری خصوصیات وامتیازات کی پابندی کو لازم قرار دیتے ہوئے ایک مشت ڈاڑھی رکھنے کو واجب اور اس سے کم مقدار ہونے پر تراش خراش کو فسق  وگناہ قرار دیا ہے۔ 
احناف کا کہنا ہے: 
قال محمد بن الحسن - صاحب أبي حنيفة- رحمهما الله: أخبرنا أبو حنيفة عن الهيثم عن ابن عمر- رضي الله عنهما-: أنه كان يقبض على لحيته ثم يقص ما تحت القبضة. قال محمد: وبه نأخذ، وهو قول أبي حنيفة" الآثار ص766 (رقم 897)  
قال الحصفكي: "يحرم على الرجل قطع لحيته" الدرالمختار ص664) 
قال ابن عابدين: "الأخذ من اللحية دون القبضة كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال لم يبحه أحد" تنقيح الفتاوى الحامدية ج 1 ص329)

”وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرة من القبضة، فغیرُ جائزٍ فی المذاهب الأربعة“․ (العرف الشذی، کتاب الآداب، باب ما جاء فی تقلیم الأظفار، 4/162، دارالکتب العلمیۃ)
چار انگلی سے کم خش خشی ڈاڑھی رکھنا ارشاد نبوی کی خلاف ورزی ہے : علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں:
"وَأَمَّا قَوْلُهُ وَأَعْفُوا اللِّحَى فَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ يَعْنِي وَفِّرُوا اللِّحَى لتكثر يقال فِيهِ عَفَا الشَّعْرُ إِذَا كَثُرَ وَقَدْ عَفَوْتُ الشعر وعفيته لغتان" الاستذكار ج 8 ص 429)
”وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرةً من القبضةِ، فغیرُ جائزٍ في المذاھب الأربعة“․ (العرف الشذي، کتاب الآداب، باب ما جاء في تقلیم الأظفار، 4/162، دارالکتب العلمیة)
مالکیہ کا کہنا ہے:  
”ویحرم علی الرجل حلق اللحیة والشارب، ویوٴدب فاعلہ، ویجب حلقھما علیٰ المرأة علی المعتمد“․ (شرح منح الجلیل علیٰ مختصر خلیل، کتاب الطھارة، باب فرائض الوضوء وسننہ وفضائلہ: 1/48، مکتبة النجاح، طرابلس)
(مرد پر داڑھی اور مونچھ کا مونڈنا حرام ہے، ایسا کرنے والے کو حد لگائی جائے گی اور معتمد قول کے مطابق عورت پر داڑھی اور مونچھ کا مونڈنا واجب ہے۔)
امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہے: 
”وقد روی ابن القاسم عن مالک: لا بأس أن یوٴخذ ما تطایر من اللحیة، وشذ․ قیل لمالک: فإذا طالت جدا، قال: أریٰ أن یوٴخذ منھا، وتقص․ وروی عن عبداللہ بن عمر وأبي ھریرة أنھما کانا یأخذان من اللحیة ما فضل عن القبضة“․ (المنتقیٰ شرح الموٴطا، کتاب الجامع، باب السنة في الشعر:9/395، دارالکتب العلمیة)
(امام مالک رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ داڑھی کے جو بال حدِّ داڑھی سے بڑھ جائیں اور الگ ہوجائیں، انہیں کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جب داڑھی بہت زیادہ لمبی ہوجائے تو کیا کیا جائے؟ تو امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میری رائے تو یہ ہے کہ اس کو کاٹ دیا جائے اور حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ ایک مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیا کرتے تھے۔)
مذہب شافعیہ: 
قطع لحیہ کے بابت علماء شوافع کے اقوال میں قدرے اختلاف ہے علامہ نووي، رافعي اور ان کی اتّباع میں علامہ ابن حجر اور رملی وغیرہ کے یہاں قطع لحیہ مطلقاً مکروہ تنزیہی  ہے جبکہ ابن رفعہ، اذرعی، اسنوی، زرکشی اور ہیتمی وغیرھم سے حرمت وعدم جواز کا قول منقول ہے  کراہت والی روایت بھی عدم جواز اور حرمت پر محمول ہے۔ صاحب فیض القدیر علامہ مناوی شافعی نے مادون القبضہ تراش خراش کو ناجائز کہا ہے:
(وأعفوا اللحى) وفروها فلا يجوز حلقها ولا نتفها ولا قص الكثير منها كذا في التنقيح” فيض القدير ج1 ص198.
شوافع کے یہاں مادون القبضہ تراش خراش کی حرمت وعدم جواز راجح ہے:
قال الغزالي في (الإحياء) (1/143): ((وقد اختلفوا فيما طال منها، فقيل: إنْ قبَضَ الرجلُ على لحيتِه وأخذَ ما فضَلَ عن القبضةِ، فلا بأس؛ فقد فعَلَه ابن عمر وجماعةٌ من التابعين، واستحسَنه الشَّعبي وابن سيرين، وكَرِهَه الحسَنُ وقتادة وقالا: ترَكْهُا عافيةً أحَبُّ؛ لِقَولِه صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: ((أعفُوا اللِّحى)) والأمرُ في هذا قريبٌ إن لم يَنتَهِ إلى تقصيصِ اللِّحيةِ وتدويرِها من الجوانبِ)) ا.هـ
حنابلہ کا کہنا ہے:
والمعتمد في المذھب حرمة حلق اللحیة․ قال في الإقناع: ویحرم حلقھا․ وکذا في شرح المنتھی وغیرھما․ قال في الفروع: ویحرم حلقھا، ذکرہ شیخنا، انتھیٰ․ وذکرہ في الإنصاف، ولم یحک فیہ خلافاً“․ (غذاء الألباب شرح منظومة الآداب، مطلب: في أول من اخترع علم البدیع: 1/334، دارالکتب العلمیة)
علامہ سفارینی حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں معتمد قول داڑھی مونڈنے کی حرمت کا ہے، شرح منتہیٰ اور اس کے علاہ دیگر کتب میں ایسے ہی مذکور ہے، فروع میں ہے کہ ہمارے شیخ نے ذکر کیا ہے کہ داڑھی مونڈنا حرام ہے۔ اور الانصاف میں مذکور ہے کہ اس بارے میں کسی کا بھی اختلاف منقول نہیں ہے۔
داڑھی کی حد کے بارے میں حنابلہ کی مشہور کتاب ”المبدع في شرح المقنع“ میں لکھا ہوا ہے:
”ویحرم حلقھا، ذکرہ الشیخ تقي الدین، ولا یکرہ أخذ ما زاد علی القبضة“․ (المبدع في شرح المقنع، کتاب الطہارة، باب السواک وسنة الوضوء85/1)
ہر دینی معاملے میں قابل اقتدا واتباع ذات رسول ہے، آپ کا اسوہ ہی امت کے لئے نمونہ عمل ہے، عرب کے حکمراں یا زید عمر بکر کا قول وعمل اسوہ نہیں، رسول کی معاشرت وشکل وشباہت کے خلاف عمل کرکے دل کی صفائی کا دعوی کرنا کتنا مضحکہ خیز اور جھوٹا ہے؟ 
صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب بلکہ اصرار کرنے والے کا دل صاف کیسے ہوسکتا ہے؟ دل کی صفائی اللہ کی مرضی اور نبی کے کامل اتباع میں ہے، اگر عمل، معاشرت وہیئت مسنونہ کی اہمیت نہ ہوتی، صرف دل صاف رکھنے سے ہی کام بن جاتا تو بس پورے تئیس سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہی ارشاد فرماتے رہتے کہ قلب کو صاف کرو اور روح پاک کرو، نہ اعمال صالحہ بتاتے، نہ گناہوں سے بچنے کا حکم فرماتے، بلکہ فرائض وواجبات سے بھی باخبر نہ کرتے، بس سارا دین قلب کی صفائی تک ہی محدود رہتا! (مستفاد: حیلے بہانے /مرشد تھانوی)
ظاہر، باطن کا ترجمان ہوتا ہے۔ اگر کسی کی ظاہر ہیئت میں ترک واجب ہو تو باطن صالح کبھی کسی طور نہیں ہوسکتا، جس شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آدھے تولہ ڈاڑھی کا بوجھ اپنے چہرے پہ برداشت نہیں، وہ پورے عالم کو دین اسلام پہ چلانے اور اقامت دین کا بوجھ کیسے برداشت کرسکتا ہے؟؟
نبی کے حکم صریح وجوبی کی خلاف ورزی کرکےاحیاءِ دین، اقامتِ  دین، اور امامت وامارتِ صالحہ کا دعوی سراب ودھوکہ کے سوا کچھ نہیں!
ایک مٹھی ڈاڑھی رکھنا واجب ہے تو اسے سنت کیوں کہا جاتا ہے؟
سنن انبیاء میں محسوب ہونے کے لحاظ سے ڈاڑھی کو کتابوں میں تو سنت لکھا جاتا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کے رکھنے
کا حکم دیا ہے، صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال وعمل سے اس حکم کی مقدار بھی متعین ہوگئی ہے؛ اس لیے جمہور علمائے امت (جیساکہ ہمارے اوپر کے مضمون میں مذاہب ائمہ منقول ہیں) کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے. ایک مشت سے کم رکھنا حرام وگناہ کبیرہ ہے. عوامی ہدایات وفتاوی میں اس سے متعلق ایسی تعبیرات استعمال ہونی چاہئیں جن سے اس کے وجوب وتاکید ظاہر ہوتی ہو صرف سنت کہنے سے عوامی ذہنوں میں اہمیت کم ہوگی. ہمارے اکابر کا متفقہ موقف مقدار قبضہ کے وجوب کا ہے. صریح لفظوں میں یہ موقف ہر جگہ نقل ہونا چاہئے. حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
اگر اس کی تشریعی حیثیت واقعی سنت کی ہوتی تو مذاہب اربعہ میں مقدار قبضہ سے کم کاٹنے کی اجازت کیوں نہ ہوتی؟
حضرت محقق تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "داڑھی قبضہ (ایک مشت) سے کم کروانا حرام ہے، بلکہ یہ دوسرے کبیرہ گناہوں سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے اس کے اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اس میں دینِ اسلام کی کھلی توہین ہے اور اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں، اور ڈاڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے حتی کے نماز وغیرہ عبادات میں مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلا ہے." ("ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا اس کا مذاق اڑانا کفر ہے." ص 10، مکتبہ حکیم الامت)
شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اور شیخ المشائخ حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ نے اس حوالے سے مستقل اتنا کچھ علمی مواد فراہم کردیا ہے کہ اب اس کے بعد اس پہ کچھ لکھنا اشتغال بمالایعنی ہے.

No comments:

Post a Comment