آداب مباشرت
شب زفاف قدم بقدم (مختصر)
ہمارے ایک بزرگ ساتھی کہتے تھے کہ میرے چار سال ضائع ہوگئے۔ پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ پندرہ/۱۵ سال کی عمر میں شادی ہوجانا چاہئے، میری شادی انیس /۱۹ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔
بات در حقیقت ایسی ہی ہے کہ الله تعالی نے مرد کے اندر عورت کی طرف کھچاؤ اور میلان رکھ دیا، دونوں کو ایک دوسرے کا جائے ضرور اور محتاج بنادیا ہے، بالغ ہونے کے بعد بے کلی بڑھ جاتی ہے، میلان افزوں تر ہوجاتا ہے، بلکہ ضرورت کا درجہ اختیار کرلیتی ہے۔
شریعت نے بھی اس ضرورت کی تکمیل کا خاص خیال رکھا ہے اور بعض ناپسندیدہ چیزوں سے روکتے ہوئے دونوں کو ایک دوسرے کے لیے مکمل طور پر قابل استمتاع اور لطف اندوزی کا ذریعہ و سیلہ بنایا ہے۔
بلکہ اولاد کا حصول جو ایک شدید ضرورت اور شدید تر چاہت انسانی ہے اس کو بھی اس عمل سے جوڑ دیا ہے۔
ہمارے ایک ساتھی کھانے کی طرف اپنے اصحاب کو بلاتے تو مجلس میں پکارتے "تعالوا الی عمل الجنۃ"۔ (جنت کے عمل کی طرف چلو)
میرے دل میں خیال آیا کہ جس طرح جنت میں جنتی بھوک کی ٹرپ نہ ہونے کے باوجود بھی کھائے گا صرف حاصول لذت کے لیے اسی طرح اولاد کی طلب نہ ہونے کے باوجود بھی جنتی عمل جماع میں مشغول ہوگا۔
طعام اور زنان کا خاص جوڑ ہے، دونوں انسان کی ضرورت ہے۔ اور دونوں میں مرد تعدد و تفنن چاہتا ہے۔ دونوں گرم اور تر پسند کی جاتی ہے، دونوں منہ زبانی کھائی جاتی ہے اور دونوں سے مرد ایک وقت تک کے لیے ہی سیراب ہوتا ہے۔
بہر حال جماع ایک ایسی ضرورت ہے جس کی جائز تکمیل کے لیے اسلام نے نکاح کو رکھا ہے ، نکاح کو آسان کردیا، جلد نکاح کرنے کی ترغیب دی۔
ہمارے دیار میں مختلف غیر مقبول وجوہات کی بنا پر نکاح میں تاخیر کردی جاتی جس کی وجہ سے ایک لمبی مدت خواہش ، ضرورت ، تقاضا ہونے کے باوجود مرد و عورت اپنی ضرورت کی تکمیل نہیں کر پاتے جس سے دونوں میں کئی طرح کی نفسانی و جسمانی بیماریاں جڑ پکڑ لیتی ہیں۔ اور ان کا بدن بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ ڈہریشن، چڑچڑاپن، کثرت احتلام، سستی، طبیعت پر تقل وغیرہ بہت سے امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر آفتاب عالم لکھتے ہیں:
۔۔۔اور اس سے انحراف اور بغاوت بے کیف و بے مزا زندگی اور مختلف قسم کے امراض کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔۔۔ منی کا روکاؤ نہ صرف طبیعت کو بوجھل رکھتا ہے بلکہ بعض اوقات بڑا فساد پیدا کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو گرم مزاج نو جوان مرد اپنی طبیعت پر جبر کر کے شادی نہیں کرتے وہ اکثر امراض جنون اور فساد خون میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
بدن کو صحت مند اور اعضاء جسمانی کو مستعد و فعال (ACTIVE) رکھنے کے لیے غذا اور لباس کی طرح جماع کرنا بھی ضروریات بدن میں شامل ہے۔
جماع کے ذریعہ بدن کے فضلات (غیر ضروری اجزاء ) دفع ہو جانے سے بدن سبک اور ہلکا ہو جاتا ہے۔ طبیعت میں خوشی ، نشاط اور جولانیت پیدا ہو جاتی ہے ، جو بدن کو غذا کی خواہش و قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ جس سے خوب بھوک لگتی ہے۔
جماع غضب و غصہ کو ساکن کرتا ہے۔ برے خیالات اور وسوسوں کو دور کرتا ہے، روشن خیال پیدا کرتا ہے۔ جماع کے وقت اخراج منی پر جو بے پایاں کیف و سرور حاصل ہوتا ہے اُس کو الفاظ کے ذریعہ سمجھانا اور بتانا ممکن ہی نہیں ۔ کسی پھل کا مزا تو کھانے پر ہی معلوم ہو سکتا ہے کسی نابالغ لڑکے کو انزال کی لذت الفاظ کے ذریعہ نہیں سمجھائی جاسکتی ہے۔ یہی انزال یا اخراج منی اگر جلق (مشت زنی) یا کسی اور غیر فطری طریقہ سے ہو تو یہ بات حاصل نہیں ہوتی۔ غیر فطری طریقوں سے مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جماع سے اعضاء رئیسہ کمزور اور جسم نحیف و لاغر ہو جاتا ہے۔ چہرہ کی چمک دمک اور رونق ختم ہو جاتی ہے اور آدمی جلد بوڑھا ہو جاتا ہے ایسا خیال بالکل غلط ہے جو محض جہالت اور کم علمی پر بنی اور موقوف ہے یہ صورت اُس وقت ضرور لاحق ہو سکتی ہے جب کہ اس فعل جماع کو حد اعتدال اور ضرورت سے کہیں زیادہ نیز غلط اور بے ڈھنگے پن سے انجام دیا جائے۔
صحبت کے وقت عورت و مرد کے جسموں کا لمس دونوں کے جسموں میں ایک برقی قوت اور لطیف و پر کیف انداز میں بے پایاں جوش و خروش فراہم کرتا ہے۔ جو حرارت غریزی کو قوت اور روح کو جولانیت بخشتا ہے اس حالت کی چند گھڑیاں بے پایاں خوشی کے ذریعہ دل کو وہ سکون و روح کو وہ سرور عطا کرتی ہیں جوکسی بھی قیمتی سے قیتی ٹانک اور سونے و جواہرات کے کشتہ جات کے استعمال سے بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہر محل جماع سے مزاج میں شگفتگی طبیعت میں جولانی اور دل میں قوت پیدا ہوتی ہے اور ساری سستی دور ہو جاتی ہے طبیعت سے غضب و غصہ کا ازالہ ہوتا ہے اور عقل سلیم پیدا ہوتی ہے۔ حواس خمسہ بیدار ہو جاتے ہیں۔جس سے صلاحیتیوں میں اضافہ ہوتا ہے ہر کام کرنے میں اُس کا دل لگتا ہے حوصلہ برقرار رہتا ہے۔ عورت بھی جسمانی اور ذہنی طور پر مستعد و خوش نظر آتی ہے۔
ایک ماہر لیڈی ڈاکٹر نے اپنے تجربہ کی بنا پر لکھا ہے کہ جنسی خواہش پیدا ہونے کے بعد اگر اس کو دفع نہ کیا جائے تو انسان کو نیند نہیں آتی اور وہ بے چین سا رہتا ہے ایسی حالت میں عبادت میں شہوانی و شیطانی خیالات کی بھر مار سے نہ تو نماز ہی پورے کے دھیان اور توجہ سے پڑھی جاتی ہے اور نہ دوسری عبادتوں میں ہی جی لگتا ہے۔
جماع سے امراض گردہ و مثانہ کا ازالہ ہوتا ہے۔ ورم خصیتین دور ہوتا ہے مرض مالیخولیا (MANIA) ایک قسم کا جنون و پاگل پن کا سد باب ہوتا ہے۔ میں نے کئی ایسے نوجوانوں کو دیکھا ہے جن کو یہ عارضہ تھا اور اطبا نے اس کا علاج شادی کر دینا بتایا تھا چنانچہ شادی کے بعد اُن کا یہ مرض ختم یا کم ہو گیا۔ مرض کا اصل سبب جو ذہنی الجھنیں تھیں وہ جماع سے دور ہوگئیں ۔
جسم میں قوت جماع کی موجودگی میں خواہش جماع کی تکمیل سے انحراف و گریز اور جبرا خواہش جماع کر دہانے سے بجائے فائدہ کے شدید نقصان ہوتا ہے کثرت احتلام کا مرض کی لاحق ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ مختلف قسم کی ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اکثر بدن میں دردو چکر طبیعت میں کرب و بے چینی۔ مزاج میں ترشی و چڑ چڑاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ نگاہ کمزور۔ آنکھیں اندر کو دھنس جاتی ہیں۔ دماغ کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے۔ بار بار عضو میں انتشار ہونے سے مجبور ہو کر جولوگ جلق ۔ اغلام یا کسی اور غیر فطری طریقہ پر اخراج منی کے ذریعہ سکون حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے عادی ہو جاتے ہیں وہ آگے چل کر جریان منی کے مریض بن جاتے ہیں مادہ تولید پتلا اور عضو کی نسوں میں ڈھیلا پن آ جاتا ہے جس سے ذرا سی شہوانی تحریک و خیال پر یا کسی حسین عورت پر نگاہ پڑتے ہی انزال ہو جاتا ہے پھر ایسے لوگ جب کبھی شادی کا ارادہ کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ناکارہ محسوس کرنے لگتے ہیں اس وقت ان کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔
(آداب مباشرت)
جاری۔۔۔۔
( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_11.html

No comments:
Post a Comment