Monday, 10 November 2025

قرآنِ کریم کی تلاوت کا معمول، اس کی اہمیت اور تلاوتِ قرآن کے درجات

قرآنِ کریم کی تلاوت کا معمول، اس کی اہمیت اور تلاوتِ قرآن کے درجات

-------------------------

-------------------------

قرآنِ مجید مومن کے دل کی زندگی ہے،مؤمن کا دل اسی وقت منور رہتا ہے جب وہ کتابِ الٰہی سے مسلسل وابستہ رہے؛ اسی لیے اہلِ علم نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمان کو قرآنِ کریم کی تلاوت کے لیے باقاعدہ وباضابطہ وقت مقرر کرنا چاہیے؛ تاکہ وہ ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائے جن کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہِ حق تعالیٰ میں یہ شکایت فرمائیں گے:

 "وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا" (الفرقان: 30)

اور کہیں گے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو مہجور و متروک کردیا ہے۔ )

فقہاء نے بیان کیا ہے کہ قرآن کو چالیس دن سے زیادہ عرصے میں ختم کرنا مناسب نہیں ہے۔ امام ابن قدامہؒ حنبلی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بلا عذر چالیس دن سے زیادہ قرآن ختم نہ کرے تو یہ تساہل اور غفلت کی علامت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کو نصیحت فرمائی کہ وہ ابتدا میں ہر چالیس دن میں قرآن ختم کریں، پھر آہستہ آہستہ کم کرتے ہوئے فرمایا کہ سات دن سے کم میں ختم نہ کیا جائے. (المغني، 2/127)

یہ اعتدال کا معیار ہے۔ اس سے زیادہ جلدی پڑھنے میں تدبر اور غور و فکر متاثر ہو جاتا ہے، اور اس سے زیادہ تاخیر غفلت کا باعث بن سکتی ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ کا معمول تھا کہ وہ ہر ہفتے قرآن ختم کرتے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے فرمایا تھا:

اقرأِ القرآن في كل شهر، قال: قلت: أُطِيقُ أكثر من ذلك، قال: اقرأْ في كل سبعِ ليالٍ مرّةً (رواه البخاري 5052، ومسلم 1159)

بہت سے سلفِ صالحین بھی اسی طرح قرآن کو سات دن میں مکمل کیا کرتے تھے۔ تاہم محدثین اور فقہاء نے اس پر زور دیا کہ یہ معاملہ ہر شخص کے حال اور مشغلے کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے۔امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قرآن کے معانی پر غور کرنا چاہتا ہے یا اسے دینی و علمی مشاغل میں مصروفیت ہے، تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق اتنا ہی پڑھے جتنا دل و دماغ کے سکون اور فہم کے ساتھ ممکن ہو۔ اور اگر کسی کے پاس وقت فراخ ہے اور دل کو تلاوت سے لذت حاصل ہوتی ہے تو جتنا زیادہ پڑھ سکے، بہتر ہے، بشرطیکہ بے توجہی اور تھکن وملل پیدا نہ ہو۔ امام ابن حجرؒ نے بھی اسی توازن کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نہ تلاوت میں اتنی جلدی ہو کہ تدبر ختم ہو جائے، نہ اتنی تاخیر کہ قرآن سے تعلق کمزور ہو۔ (فتح الباري، 9/96)

سب سے بہتر یہ ہے کہ مسلمان اپنے لیے روزانہ ایک حصہ مقرر کرے۔ چاہے وہ نمازِ فجر کے بعد ہو یا عشاء کے بعد، مقصد یہ ہے کہ دل کا رشتہ قرآن سے ہمیشہ قائم رہے۔ خواہ ایک صفحہ ہو ، ایک رکوع یا ایک جزو ۔ مقدار معیار نہیں ؛ بلکہ تسلسل اور تدبر معیار ومطلوب ہے۔ قرآنِ کریم خود اپنے بارے میں فرماتا ہے:

"يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ" (یونس: 57)

"وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ" (الإسراء: 82)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص قرآن کے ایک حرف کی تلاوت کرتا ہے، اس کے لیے ایک نیکی ہے، اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ (الم) ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے، اور میم ایک حرف ہے۔" (ترمذی)

سلف صالحین قرآن کو ہفتے کے ایام پر تقسیم کر کے ہر دن ایک حصہ پڑھا کرتے تھے، تاکہ ایک ہفتے میں مکمل تلاوت ہو جائے۔ اس طرح قرآن کے ساتھ مسلسل رفاقت قائم رہتی اور دل ایمان سے تازہ رہتا۔

تلاوتِ قرآن کے درجات

قراء کرام کے نزدیک تلاوتِ قرآن کے چار درجے ہیں:

1. ترتیل: یعنی مخارج و صفات کی رعایت رکھتے ہوئے خوش الحانی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔ فرض نمازوں میں یہی اسلوب مناسب ہے۔

2. تحقیق: یعنی ترتیل سے بھی زیادہ اطمینان سے پڑھنا، جیسا کہ جلسوں یا درس میں تلاوت کی جاتی ہے۔

3. حدر: یعنی قواعدِ تجوید کی رعایت رکھتے ہوئے قدرے رواں انداز میں پڑھنا، جیسا کہ تراویح میں کیا جاتا ہے۔

4. تدویر: یعنی ترتیل اور حدر کے درمیانی انداز میں تلاوت کرنا۔

ان مراتب میں سب سے اعلیٰ ترتیل ہے۔ نبی کریم ﷺ کی قراءت تحقیق کے اسلوب پر تھی، جو ترتیل کا اعلیٰ درجہ ہے۔ آپ ﷺ کو حکم دیا گیا تھا:

"وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا" (سورۃ المزمل: 4)

نبی کریم ﷺ نے اسی حکم کے مطابق قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا اور تلاوت کا عملی نمونہ امت کے لیے پیش فرمایا۔

ام المؤمنین حضرت حفصہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سورت کی تلاوت فرماتے اور اس قدر ترتیل سے پڑھتے کہ وہ اپنی طوالت میں مزید بڑھ جاتی. (مسلم، حدیث: 118، باب صلاۃ المسافرین)

ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے حرف بہ حرف آپ کی تلاوت نقل کر کے بتائی کہ آپ ﷺ ایک ایک حرف واضح ادا فرماتے تھے۔ (سنن الترمذي، أبواب ثواب القرآن، حدیث: 2923؛ النسائي، 2/181)

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رات قرآن کی ایک ہی آیت کے ساتھ قیام فرمایا۔" (مسند احمد، 5/149؛ تفسیر بغوی، 4/408)

علماء کرام فرماتے ہیں کہ فرائض و واجبات میں ترتیل کا اسلوب اختیار کیا جائے، جبکہ سنن و نوافل میں حدر اور تدویر کی رفتار میں پڑھنے کی گنجائش ہے، تاکہ کثرتِ قراءت کا اہتمام ہو، جو زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کتاب اللہ سے ایک حرف پڑھا، اسے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ‘الم’ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے، اور میم ایک حرف ہے۔" (الترمذي، باب ثواب القرآن، حدیث: 2910؛ سنن الدارمي، 2/308؛ مستدرک حاکم، 1/567)

یہ حدیث کثرتِ قراءت کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، لہٰذا سنن و نوافل میں حدر و تدویر کے انداز میں تلاوت کی اجازت دی گئی ہے۔ جن صحابہ و تابعین سے کثرتِ قراءت منقول ہے، ان کا مطلب یہی تھا کہ وہ حدر کے انداز میں قرآن پڑھتے تھے۔ مثلاً:

حضرت عثمان بن عفانؓ نے ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھا۔ (البيهقي، شعب الإيمان، 5/145؛ السنن، 3/24)

حضرت تمیم داریؓ، حضرت سعید بن جبیرؒ اور حضرت علقمہ بن قیسؒ (شاگرد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ) سے بھی ایک رات میں قرآن ختم کرنے کی روایت ہے۔ (فضائل القرآن، ابو عبيد)

یہ واضح ہے کہ وہ حضرات اسی اندازِ حدر میں تلاوت کرتے تھے، کیونکہ ترتیلاً ایک رکعت یا ایک شب میں مکمل قرآن پڑھنا عادۃً ممکن نہیں۔ البتہ ایسی تیز رفتاری جس میں حروف و الفاظ درست طور پر ادا نہ ہوں اور مفہوم سمجھ میں نہ آئے، اسے "الهذّ" یا "الهذرمة" کہا گیا ہے، جس سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ یہ مکروہِ تحریمی ہے۔ (التبيان، ص: 89)

تلاوتِ قرآن کے روحانی اثرات:

قرآن کی زیادہ تلاوت حافظے کو کمزور نہیں کرتی ؛ بلکہ اسے مضبوط اور مؤثر بناتی ہے۔ قرآن کی تلاوت اور حفظ دونوں بہترین عبادات میں سے ہیں جو انسان کے لیے برکت، شرحِ صدر اور بلندیِ درجات کا ذریعہ بنتی ہیں۔ خاص طور پر جب تلاوت غور و فکر کے ساتھ کی جائے تو یہ یادداشت کو سہارا دیتی ہے اور حفظ کو مزید پختہ کر دیتی ہے۔ الغرض، قرآنِ کریم کی تلاوت کے لیے کوئی مقررہ مقدار لازم نہیں! ہر مسلمان اپنی حالت، وقت اور توفیق کے مطابق تلاوت کو ورد زبان بنائے۔ جو جتنا زیادہ تلاوت کرے گا، وہ اتنا ہی زیادہ روحانی سکون اور اجر پائے گا۔ اہم یہ ہے کہ قرآن سے تعلق روزانہ اور مستقل رہے؛ چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو!

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
مركز البحوث الإسلامية العالمي 

(پیر 18؍ جُمادَی الأُولى 1447ھ 10 نومبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر ) 

https://saagartimes.blogspot.com/2025/11/blog-post_79.html



No comments:

Post a Comment