بھینس کا انڈا اور اردو
(آصف انظار عبدالرزاق صدیقی)
دنیا کے ہر خطے میں گاؤں ہوتے ہیں ۔گاؤوں میں بہت سے گھر ہوتے ہیں اور ان گھروں میں لڑکے بالے رہتے ہیں ۔جنھیں منہ اندھیرے اٹھا کر حسب مقام ومنصب قاعدہ بغدادی ، یسرنا القرآن، نورانی قاعدہ، اردو کی پہلی کے ساتھ ساتھ کوئی پوتھی، کوئی ریڈر تھمادی جاتی ہے
پھر شروع ہوتا ہے مشقتوں کا ایک سلسلہ۔
یعنی
"قیدِ کتاب و بند ِ قلم اصل میں دونوں ایک ہیں
مکتب کے بعدبھی لڑکے چین و سکون پائے کیوں"
چنانچہ غالب کے لیے غم ناؤ نوش
مولویوں کے لیے غم چندہ و بریانی
قائدوں کے لیے غم ممبری،کونسل صدارت،
کسانوں کے لیے غم سیلاب و خشک سالی
ویسی سوہانِ روح نہیں ہوسکتی جیسی
مکتبی نونہالوں کے لیے کتابوں کا بار دوش کرنا، پگڈنڈیوں پر جاڑے کی صبح اوس سے لتھڑی دوب پر غربت کے ننگے پھٹے پاؤں میں گاؤں کے بابو سے سچائی مشین کی نکلی پرانی گریس مانگ کر ،ویسلین جیلی کی جگہ ملنا اور باسی روٹی کا مالیدہ کھا کر دوڑتے ہوئے مکتب جانا۔
پھر مکتب کی کچی فرش پر اپنے بورئیے بچھاکر بیٹھنا۔
طوطی وار رٹے ہوئے سبق کو قمچیوں کے سائے میں مجاہدانہ سنانا۔اور غازیانہ اپنے بورئیے پر واپس آنا۔
برستی قمچیوں اور گوش مالی کرتی انگلیوں سے اپنے کان بجالانا اصلی کارنامے ہوتے تھے۔۔
صبح کے تعلیمی دورانیے کو لشتم پشتم پورا کرنا۔
جھوم جھوم کر اسباق کا اعادہ کرنا، انگلیوں کے دباؤ اور رگڑ سے حروف کو مندرس کردینا۔
کتاب کے ناقابل استعمال ہونے کی وجہ سے والد اور استاد دونوں کی مار برداشت کرنا۔
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
۔۔۔
ہماری خوش قسمتی یہ تھی کے ہمیں گریس مانگنی نہیں پڑتی تھی۔ اور پاؤں بھی" حافی" نہ تھے۔مگر شبنم کھائے سبزے ، مکتب کی کچی زمین اور بوریئے کا کوئی متبادل موجود نہ تھا۔ مولوی ایوب رحمۃ اللہ علیہ کی لچکتی قمچیوں، دھار دار کھپچیوں اور سنٹیوں کی آپ ہمیشہ خیر نہیں منا سکتے تھے ، کبھی تو آپ کی سرکش پیٹھ ان قمچیوں کی سٹاک پٹاک کا شکار ہوں گی۔
۔۔۔۔
مولانا عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی بلند بانگ آواز سے بھی آپ کی اصلاح ہوتی رہتی ہے۔
مولانا اکثر معلومات اور تجربات کو بیک جنبش لب پلٹ دیتے ۔۔ہمارے کورے کچے ذہن کی زمین پر وہ اکثر اپنا سکہ بند ڈایئلاگ دے مارتے۔۔ہمارا سارا علم ساری وِدّیا خاک بسر ہوجاتی۔۔ہم اپنے ننھے دماغوں میں ہوش کے کچے کچے ناخن گاڑ تے مگر ہر کھود کرید کے بعد بھی نتیجہ یہی آتا ہے آخر بھینس کے انڈے کا ہونا ممکن نہیں ہے۔۔مگر مولانا بلاتفریق ہر غبی و ذکی کو یومیہ دوچار بار بھینس کا انڈا ضرور کہتے ۔۔
اور اس وقت سے تاحال ہم بھینسوں کے دودھ کے علاوہ قورمے ،کباب، قیمے اور پائے ہی سے واقف ہوسکے۔۔غالبا مولانا کے بھینسوں کا انڈا دلی کے الوؤں کے پٹھوں کی طرح کا کوئی جملہ تھا ۔۔
یعنی
سنا ہے کہ دلی میں الو کے پٹھے
رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں
یا یہ بھینس کا انڈا کوئی پندرہ لاکھ کا عنقا ہے جسے حضرت مودی علیہ ماعلیہ نے الیکشن کے دوران ایسا اڑایا کہ نہ اب مودی اور اس کے وزیر خارجہ کے ہات آتا ہے نہ ہی غریب عوام کے کھاتے میں اس کا سراغ ملتا ہے۔۔
مدتوں ہم بھینس کا انڈا ڈھوتے رہے کہ کسی دن تو اس میں سے کوئی شتر مرغ برآمد ہوگا ۔۔۔مگرنہ ہوا۔۔
پھر ایک دن والد صاحب کی کاپیوں میں ہم غالب سے جا بھڑے۔۔ کون غالب وہی مرزا نوشہ ،غالب شاہ کا مصاحب، خستہ وخوار مشکل گو و مشکل پسند ۔۔جس کے بارے میں حضرت یگانہ چنگیزی بہاری ثم لکھنوی اپنی ظالمانہ تصنیف" غالب شکن" میں فرماتے ہیں:
"غالبؔ زیادہ سے زیادہ ہندوستان کا اک بلند خیال دقت پسند گمراہ شاعر ہے جو آخرِ عمر میں راہ پر آیا۔"
اسی غالب کا شعر والد محترم کی روایت سے پہلے پہل ہمیں پہنچا۔ لکھا تھا
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
ہم پوری ایمانداری سے تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں تغافل کا مطلب خاک سمجھ میں نہ آیا اور اس شعر کا لطف سارا اسی پر موقوف تھا ۔۔مگر ہم نے یہ شعر یاد کرلیا یا زیادہ صحیح لفظوں میں یہ کہ ہمیں یاد ہوگیا۔۔
۔۔۔
غالب کا باب بند ہوگیا اور ہمارے استاذ نے شیخ سعدی وغیرہ سے ہمیں جا لڑایا۔۔ہم آج تک حیرت میں ہیں کہ یا خدا اردو کی تیسری کتاب پڑھنے والے مکتبی بالک کو گلستان ِ سعدی کے رزمیہ اور عشقیہ ابواب پڑھانے کے کیا معنی تھے۔۔
۔۔۔۔
مدتیں گزریں کہ ہم بھینس کے انڈوں کو بھول گئے۔۔ پھر ایک دن غالباً جب ہم حفظ کے اسباق لیتے تھے اور قصۂ گل بکاؤلی پڑھتے تھے کہیں سے انشا جی اپنی اردو کی آخری کتاب کے ساتھ ہم سے متعارف ہوئے ۔۔
اور ان کی یہ نثری پیروڈی کی کتاب ، گتوں سمیت ہمارے دل میں اتر گئی۔۔ اس کتاب میں بھی ایک عدد بھینس ہے۔۔ مگر انڈا وہاں بھی نہیں ہے۔۔بس انڈے کے وجود کا اشارہ ہے۔۔
ہم ایک بار پھر بھینس کے انڈوں کی تلاش میں نکلے مگر بھینس کے انڈوں سے پہلے ڈایناسور کے باقیات مل گئے۔ہم نے بھرپور امیدوں سے جراسک پارک کی پہلی قسط دیکھی۔۔اور وہی سال تھا کہ ہمیں ۔۔دارا العلوم العربیہ الاسلامیہ جودھپور میں عربی سوم کے سال میں خواجہ الطاف حسین حالی کی "یادگار غالب "ہاتھ لگی
آپ کو بتا دیں کہ ہمارے لیے پچپن سے ہی غالب کے مقابلے میں حالی زیادہ معروف اور محترم تھے۔کیونکہ غالب کے "مخرب اخلاق" اشعار کہاں اور حالی کی اصلاحات و مسدس کہاں ۔
حالی کی "مناجات بیوہ" اور" وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا" روزانہ پڑھنے کی چیز تھی۔۔
۔۔۔
تو حالی یادگار غالب میں لکھتے ہیں کہ۔۔
ایک دفعہ مولوی عبدالقادر رام پوری نے جو نہایت ظریف الطبع تھے اور جن کو چند روز قلعۂِ ِ دہلی سے تعلق رہا تھا، مرزا سے کسی موقع پر کہا کہ آپ کا ایک اردو شعر سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اسی وقت دو مصرعے خود موزوں کر کے مرزا کے سامنے پڑھے۔
پہلے تو روغنِ گل بھینس کے انڈے سے نکال
پھر دوا جتنی ہے کل بھینس کے انڈے سے نکال
۔۔۔
بس اس دن ہمیں معلوم ہوا کہ یہ بھینس کے انڈے والی خرافات مولوی عبدالقادر رامپوری کی چلائی ہوئی ہے۔۔
اور ہمارے دل میں استاذ محترم مولانا عبدالعلیم صدیقی رحمہ اللہ کی قدر بڑھی۔۔کہ گاؤں کا ایک مکتبی مدرس یادگار غالب سے واقف ہے۔۔
اور اپنے کودن بچوں کو غالب کے اشعار کی طرح ہی عظیم سمجھتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔
ہمارے گاؤں کے بچوں میں اقبال بہت مشہور و مقبول نہ تھے البتہ لب آتی ہے دعا۔۔اور سارے جہاں سے اچھا، ہماری اردو کی مجبوریوں میں سے تھی۔۔
کہ ہم نہ مدرسے میں" سرسوتی وندنا " کرسکتے تھے
نہ ہی ہمارے یہاں ڈر اور خوف کا وہ ماحول تھا کہ ۔۔وندے ماترم گانے لگتے ۔۔نہ ہی حکومتی دباؤ تھا کہ جن گن من ادھنایک پڑھتے۔۔
ہم اقبال سے کام چلا رہے تھے۔۔
۔۔۔
اقبال کے شکوے سے ہم بواسطہ نصرت فتح علی خان واقف ہوئے۔۔اورحسرت موہانی سے ہمارا تعارف چپکے چپکے غلام علی نے کروایا۔استاد قمر جلالوی سے منی بیگم نے اوگت کرایا۔۔شکیل بدایونی سے واقفیت محمد رفیع کی رہین منت ہے۔احمد فراز سے شناسائی مہدی حسن نے کروائی۔۔ ۔ اور یہ سب یوں ہوا کہ والد صاحب کے پاس ہمارے پھوپھا جناب مسیح الرحمن صدیقی صاحب کا ہدیہ کیا ہوا پاناسونیک کا ریکارڈ پلیئر تھا ۔۔۔
ابن صفی،نسیم حجازی وغیرہ سے ہم خود واقف ہوئے۔
میاں نظیر اکبرآبادی ہماری دادی کی زبانی ہمارے دل میں اترے ۔
ہمارے گاؤں کی اردو میں بڑا کردار محرم کے جلوس میں پڑھے جانے والے اشعار کا بھی ہے۔۔
یعنی۔۔
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
اور مستان چچا کی اس داستان گوئی کا بھی جو وہ ہمارے دروازے پر سردی کی راتوں میں مسلسل کئی کئی دنوں تک سناتے۔۔تہہ در تہہ کہانیاں ، کہانیوں سے نکلتے قصے، قصوں سے جڑے حواشی اور حواشی کی تشریحات ۔۔
۔۔۔۔۔
آہ اب جو گاؤں کو دیکھتے ہیں تو۔
تو بس دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔۔
وہاں نہ میر ہے نہ غالب ، اقبال ہے نہ شبلی وہاں
ہندی کے ادھیاپک ہیں۔۔"انگلس" کےسر جی ہیں ریاضی کے ماسٹر صاحب ہیں ۔۔جو لطف زبان اور نزاکت ادا سے کالے کوسوں دور رہتے ہیں ۔۔
اردو کے حافظ جی ہیں جو قلقہ، غنا، مد، اور حروف حلقی میں لگے ہیں ۔۔اردو بھی نورانی قاعدے کی معرفت پڑھائی جارہی ہے۔۔۔
حرف حلقی شش بود اے نورِ عین
ہمزہ ہاؤ، حاؤ خاؤ، عین غین۔۔۔
No comments:
Post a Comment