سجدے میں جانے کا راجح و مسنون طریقہ
سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سجدہ میں جانے کے طریقے کے بارے میں دو طرح کی حدیثیں ہیں: ایک فعلی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے گھنٹے مبارک رکھتے تھے۔ دوسری قولی حدیث ہے جس میں یہ حکم ہے کہ جب کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے. دونوں احادیث تحقیق اور وجہ ترجیح مطلوب ہے براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں!
(محمد نوازش قاسمی امروہوی)
الجواب وباللہ التوفیق
نماز میں سجدہ کے لئے جھکتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھنا چاہئے یا پہلے ہاتھ؟
فقہاء کرام کے اس مسئلے میں دو نقطہاے نظر ہیں:
امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد (ایک روایت میں)، امام نخعی، امام سفیان ثوری، امام اسحاق بن راہویہ اور جمہور فقہاء کے نزدیک پہلے گھٹنے زمین پر رکھنا مستحب ہے، پھر ہاتھ، اور آخر میں پیشانی (المجموع شرح المهذب" (3/ 427، ط. دارالفكر)،المغني (1/ 370، ط. مكتبة القاهرة)
یہی طریقہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے۔ (مصنف ابن أبي شيبة (1/ 236-239، ط. مكتبة الرشد)
ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح روایت ہے کہ آپ جب سجدے میں جاتے تو پہلے گھٹنے رکھتے تھے، پھر ہاتھ:
(عن وائل بن حُجْررضي الله عنه قال: "رَأيتُ النَّبيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وآله وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قبل يدَيْهِ، وإذا نَهَضَ رَفَعَ يدَيْهِ قبْل رُكْبَتَيْهِ"( سن ابودائود 838، صحیح ابن حبان 1912)
جبکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ایک روایت کے مطابق امام احمد، امام اوزاعی، اور بعض محدثین کے نزدیک سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر رکھنے چاہئیں، پھر گھٹنے. (المجموع شرح المهذب" (3/ 421، ط. دارالفكر)، نيل الأوطار للشوكاني (2/ 293، ط. دارالحديث).
ان کی دلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے، بلکہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے:
(عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبيِّ صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال: إذَا سَجَدَ أَحَدُكُم فلا يَبْرُك كَمَا يَبْرُكُ البعيرُ، وليَضَعْ يدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ۔ (سنن دارمی 1360)
علامہ ابن القیم جوزیہ رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل کی تحقیق کے بعد دس وجوہ سے ثابت کیا ہے کہ راجح، صحیح اور ثابت طریقہ وہی ہے جو جمہور فقہاء نے کہا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا عمل بھی اسی پر تھاکہ وہ پہلے گھٹنہ رکھتے تھے، پھر ہاتھ۔ اس سلسلے میں انہوں نے متعدد احادیث موقوفہ بھی نقل کی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ میں راوی سے غلطی ہوئی ہے، کیونکہ حدیث کے شروع اور آخر میں تضاد ہے:
[كان صلى الله عليه وآله وسلم يضع ركبتيه قبل يديه ثم يديه بعدهما ثم جبهته وأنفه، هذا هو الصحيح... وأما حديث أبي هريرة رضي الله عنه يرفعه: «إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ، وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ»، فالحديث -والله أعلم- قد وقع فيه وهم من بعض الرواة، فَإِنَّ أوَّله يُخَالف آخره، فإنه إذا وضع يديه قبل ركبتيه فقد برك كما يبرك البعير، فإِنَّ البعير إنما يضع يديه أوَّلًا، ولَمَّا علم أصحابُ هذا القول ذلك قالوا: رُكْبَتَا البعير في يديه لا في رجليه، فهو إذا برك وضع ركبتيه أوَّلًا، فهذا هو الْمَنْهي عنه، وهو فاسد... وكان يقع لي أن حديث أبي هريرة رضي الله عنه كما ذكرنا مما انقلب على بعض الرواة متنه، وأصله ولعله: "وَلْيَضَعْ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ" (زاد المعاد ٢١٥/١)
امام ابن القیم جوزیہ رحمہ اللہ نے درج ذیل دس وجوہِ ترجیح بتائے ہیں:
وحديث وائل بن حجر رضي الله عنه أولى؛ لوجوه:
أحدها: أنه أثبت من حديث أبي هريرة، قاله الخطَّابي وغيره.
الثاني: أنَّ حديث أبي هريرة مُضْطرب المتن كما تقدم، فمنهم من يقول فيه «وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ» ومنهم من يقول بالعكس، ومنهم من يقول: «وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ»، ومنهم من يحذف هذه الجملة رَأْسًا.
الثالث: ما تقدَّم من تعليل البخاري والدارقطني وغيرهما.
الرابع: أنه على تقدير ثبوته قد ادعى فيه جماعة من أهل العلم النسخ، قال ابن المنذر: وقد زعم بعض أصحابنا أَنَّ وضع اليدين قبل الركبتين مَنْسُوخٌ، وقد تقدم ذلك.
الخامس: أنه الْمُوَافِقُ لِنَهْي النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم عَنْ بُرُوكٍ كَبُرُوكِ الْجَمَلِ فِي الصَّلَاةِ، بخلاف حديث أبي هريرة رضي الله عنه.
السادس: أنه الموافق للمنقول عن الصحابة كعمر بن الخطاب وابنه وعبد الله بن مسعود رضي الله عنهم، ولَمْ يُنْقَل عن أحدٍ منهم ما يُوَافِقُ حديث أبي هريرة إلا عن عمر رضي الله عنه على اختلاف عنه.
السابع: أن له شواهد من حديث ابن عمر وأنس رضي الله عنهم، كما تقدم، وليس لحديث أبي هريرة شَاهِدٌ، فلو تقَاوَمَا لقدم حديث وائل بن حجر من أَجْلِ شواهده، فكيف وحديث وائل أقوى كما تقدم.
الثامن: أَنَّ أكثر الناس عليه، والقول الآخر إنما يحفظ عن الأوزاعي ومالك، وأما قول ابن أبي داود: "إنه قول أهل الحديث" فَإِنَّما أراد به بعضهم، وإلا فأحمد والشافعي وإسحاق على خلافه.
التاسع: أنه حديث فيه قصة مَحْكِيَّة سِيقَتْ لِحِكَايَةِ فِعْلِه صلى الله عليه وآله وسلم، فهو أَوْلَى أن يكون مَحْفُوظًا؛ لأن الحديث إذا كان فيه قِصَّة مَحْكِيَّة دَلَّ على أنه حفظ.
العاشر: أَنَّ الأفعال المحكية فيه كلها ثابتة صحيحة من رواية غيره، فهي أفعال معروفة صحيحة، وهذا واحد منها فله حكمها، ومعارضه ليس مقاومًا له؛ فيتعين ترجيحه، والله أعلم۔ زاد المعاد ٢٢٣-٢٢٤/١]
(کذا فی دارالافتاء المصریۃ dar-alifta .org)
واللہ اعلم بالصواب
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
مركز البحوث الإسلامية العالمي ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/11/blog-post_14.html
No comments:
Post a Comment