ایک بھولا ہوا سبق
(رازہائے سربستہ اور طریقہائے زن جفتہ)
چہل سال عمر عزیزت گزشت
(چالیس سال سے کم عمر حضرات اس تحریر سے دور رہیں)
مشورے میں خیر ہے۔ پڑھ کر میں شادی سے پہلے، ایک خیرخواہ سے آداب معاشرت و مباشرت معلوم کرنے گیا۔ صاحب نے کہا کہ بیٹا، وہ دیکھو چڑا اور چڑی، وہ دونوں اوپر نیچے تھے، کہا کہ بیٹا ان کو کس نے سکھلایا؟ میں سمجھ گیا کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ سیکھے بغیر سب کچھ آجاتا ہے لیکن انھوں نے اس لائن کی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیا پوشیدہ راز سے سربستہ راز تک، پنڈتوں کی مترجم کتابوں سے لے کر ڈاکٹر اور مولانا تک کہ کتابیں چھان ڈالیں لیکن وہ کہتے ہیں ناکہ بعض علوم سر انجام دے کر ہی حاصل ہوتے ہیں۔ ایک من گھڑت واقعہ بھی سن رکھا تھا۔ ایک محقق نے حج پر ایک کتاب لکھی۔ پہنچ کر خود ہی الٹا طواف کرنے لگے۔ کتاب پڑھ کر بھی اطمینان نہیں تھا، بے تکلف یار تمثیل دیتے ہوئے سمجھایا: بھائی ہاتھ پکڑ کر کچھ دیر باتیں کرنا، تھوڑا گردن پر ہاتھ پھرانا۔ یہ سب سیکھنا نہیں ہے (میں نے دل میں کہا)۔ اس نے کہا کہ: پھر چھلی ہوئی مرغی دیکھی ہے مرغی کے قصائی کی دکان پر، بس تھوڑا کمر کے نیچے تکیہ رکھ دینا، میں فون پر اچھل پڑا گیا۔ تمثیل سے تصویر کافی حد تک واضح تھی۔
ہمارے لوگ سیکس ایجوکیشن کے خلاف ہیں، اور ہونا بھی چاہئے، لیکن جماع صرف فراغت حاصل کرلینے کا نام نہیں ہے، اس کا دوسرا نام استمتاع اور استلذاذ ہے، ایک حد تک اس کو سیکھنا برا نہیں ہے، مجھے یاد ہمارے ایک بہت ہی موقر استاذ، جو بہت ہی نپا تلا مزاح فرمایا کرتے تھے، انھوں اصول الشاشی کے سبق میں کافی حد تک لذت دینے اور لذت حاصل کرنے اور اجڈ لوگوں کی روش سے بچنا سکھلایا تھا اور آخر میں کہا تھا کہ میں یہ بھی سکھلایا کرتا ہوں۔
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کنواری عورت سے بھی زیادہ حیاء رکھتے تھے، آپ نے ہرطرح کی تعلیم دی لیکن جو باتیں آپ کے شایان شان موافق حیاء نہیں تھیں، کبھی قرآن نے کبھی ازواج مطہرات نے تو کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کو بیان فرمایا۔
ظریقہائے جماع ایک ایسا فن ہدایت کی کتاب اس کے جزئیات سے تو بحث نہیں کرسکتی، البتہ اصول بیان کرسکتی ہے اور بیان کرنا ضروری بھی ہے۔ آپ صرف اس آیت کی فصاحت و بلاغت، گہرائی و گیرائی اعجاز و جامعیت پر غور کریں،
تشبیہ پر غور کیجئے ۔۔۔ عورت کو کھیتی سے تشبیہ دی، کھیتی وہ ہوتی ہے جس میں بیج ڈالنے سے پیداوار ہو، جائے حرث قبل ہے دبر تو موضع فرث (گندگی) ہے۔ جماع استلذاذ اور استمتاع تو ہے لیکن ہمبستری نرے مزے کا نام نہیں، اس سے مقصود ابقائے نسل انسانی بھی ہے۔ کہا گیا: "اَنَّی شِئْتُمْ" سوراخ ایک رکھنے کے بعد کتنا عموم رکھا، ذرا دیکھو تو سہی، صاحب جلالین، جو خود بہت کم لکھنے کے عادی ہیں، لکھنے پر مجبور ہوگئے: "من قيام وقعود واضطجاع وإقبال وإدبار"، کھڑے ہوکر بھی ہمبستری کرسکتے ہو، بیٹھ کر بھی، پہلو کے بل لیٹ کر بھی، سامنے سے اترکر بھی اور پیچھے سے آکر بھی۔ یعنی اس آیت میں جو رخصت اور چھوٹ دی گئی اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن شرط یہی ہے کہ آنا اپنی کھیتی میں ہے، بازو میں سنڈاس کی پائپ لائن ہے اس سے دور رہنا۔
(نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنَّی شِئْتُمْ: یعنی تمہاری عورتیں تمہارے لئے بمنزلہ کھیت کے ہیں۔ جس میں نطفہ بجائے تخم کے ہے اور بچہ بجائے پیداوار کے ہے۔ بس اپنے کھیت میں آوٴ جس طرف سے چاہو کروٹ سے ہو، پیچھے سے ہو آگے بیٹھ کر ہو اوپر یا نیچے لیٹ کر ہو یعنی جس ہیئت سے بھی چاہو لیکن ہر حال میں کھیت ہی میں آنا ہے، کھیت سے مراد قُبُل ہے کیونکہ قُبُل موضعِ حَرْث ہے دُبر مراد نہیں ہے کیونکہ وہ موضعِ فرث ہے یعنی پاخانہ کی جگہ ہے۔ دُبر میں نطفہ ڈالنے سے پیداوار یعنی اولاد نہ ہوگی، نطفہ ضائع جائے گا۔ اور قُبُل میں نطفہ ڈالنے سے اولاد کی تخم ریزی ہوگی۔ تو اصل کھیت قُبُل ہوا نہ کہ دُبر۔ وہ گندگی کی جگہ ہے۔ اسی لئے جماع فی الدبر حرام قرار دیا گیا ہے :معارف القرآن: ۱/۵۴۳)
ہمارے ساتھی عموما چالیس پار ہوچکے ہیں، گیند بلے کا کھیل ان کے لئے پرانا ہوگیا ہے، ایک ہی طریقے سے گلی ڈنڈا کھیلتے کھیلتے وہ بور ہوگئے ہیں۔ گلی اڑانا اور ڈنڈا مارنا کچھ نیا نہیں، کھانے کا شوق ہے، پینے میں بھی ذوق رکھتے ہیں لیکن چائے ایک ہی طرح کی پینے کا مذاق رکھتے ہیں۔ بڑے بزرگ کہتے ہیں، عورت کو اگر خوش مزاجی اور سیرابی حاصل ہو، بہت سی نصیحتوں کی ضرورت نہیں پڑتی، بہت سی مخاصمتیں دم توڑ دیتی ہیں، بہت سی نااتفاقیاں، شکوے شکایات جنم نہیں لیتیں، اور اس موقع پر جو چھاپ پڑتی ہے، وہ تندرست، صحتمند، ہوشمند اولاد ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں وطی کے معنی کیا ہیں: "روندنا، قدموں کے نیچےمسلنا"۔۔۔ روندنے کے بعد حالت کس کی بری ہوتی ہے؟ بدحال کون ہوتا ہے؟ مجھے پتہ ہے، جواب آپ یہی دیں کہ فراش، صاحب فراش پہلے بھی تندمند تھا اب بھی لیکن سوچو اگر صاحب فراش ہی لڑکھڑانے لگے، بدحال ہی نہیں بلکہ پریشان حال ہوجائے، تو چہ باید کرد، اس لئے فدوی اپنے چالیس پار ساتھیوں کے سامنے چار طریقے جن کی طرف اشارہ قرآن و حدیث دیکھا، رکھنا چاہتا ہے۔۔
ہم بستری کا مقصد:
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ایسی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے جو زیادہ محبت کرنے والی ہو اور زیادہ بچے جننے والی ہو۔
محبت کی اہمیت اس معنی کر بھی زیادہ کہ محبت زیادہ ہوگی تو ہم بستری بھی زیادہ ہوگی جس اولاد کی کثرت ہوگی۔ حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ: "میں اپنے نفس کو جماع پر مجبور کرتا ہوں تاکہ الله اس کے ذریعہ سے ایسی جان کو وجود دے جو الله تعالی کی پاکی بیان کرے۔ [السنن الکبری للبیہقی: ۱۳۴۶۰]
۔۔۔۔۔
(قسط دوم)
زن چشیدہ ہو یا زن گزیدہ ہو
یا زن کشیدہ ہو یا زن ہذیرفتہ
زنان کی احتیاج ہر کسی کو ہے، خواہش دلوں میں ہر ایک کے جوان ہے ارمان اور تمنائیں ہیں کہ فراش میں کما و کیفا اضافہ ہو، کم و عدد کی بحث فی الحال یہاں نہیں ہے لیکن ضرورت بستر کی زندگی کو کیفا مضبوط کرنے کی ہے۔ ایک کامیاب مرد وہ سمجھا جاتا ہے کہ نفس (بسکون الفاء) بھی اس کے قابو میں ہو اور نفس (بفتح الفاء)، اول پر قدرت یافتہ ہوگا انسان خود پر قابو پاسکے گا ثانی پر کنٹرول ہوگا تو وہ اپنی گھر والی ہر قابو پاسکے گا۔ ایک اچھی جفتی کا اندازہ آپ ان دو واقعوں سے لگا سکتے ہو ۔۔ امام اصمعی کہتے ہیں کہ امرءالقیس نے ایک عورت سے نکاح کیا جس کا نام جندب تھا، پہلی رات میں رات کا ابھی پہلا ہی حصہ گزرا تھا، اس نئی نویلی دلہن نے اپنے شوہر امرءالقیس کو یہ کہہ کر اٹھایا کہ اٹھو اے بہترین کڑیل جوان! صبح ہوگئی۔ جب اس نے دیکھا کہ ابھی تو رات ہی ہے تو اس نے پوچھا: کیوں بیگم آپ نے ایسا کیا؟ بیگم ٹال رہی تھی لیکن یہ بضد تھا تو، تو بیگم نے کہا:
"لأنك ثقيل الصدر، خفيف العجز، سريع الإراقة، بطيء الإفاقة"
چار صفات گنوائیں:
(۱) اس لئے کہ تو سینے پر بھاری ہے یعنی جماع کرتے وقت سینے پر پڑجاتا ہے، (عورت کو جماع کے تھوڑا کھلا کھلا اچھا لگتا ہے تاکہ وہ بھی برابر لذت حاصل کرے، اگر مرد عورت پر اپنا پورا وزن ڈال دے تو عورت کا مزہ ختم ہوجاتا، ایسا وہ شخص کرتا ہے جس کے بازو کمزور ہوں)
(۲) اور تو ہلکی سرین والا ہے (عورت کو مرد کی بھاری سرین پسند آتی ہیں. تاکہ اس کو اس کی چار شاخوں کے درمیان بوجھ محسوس ہوسکے، اور جس کا پیٹ آگے کو نکل گیا ہو وہ کما حقہ اس جگہ پر زور ڈال ہی نہیں سکتا، وہ زور ڈالنے کی کوشش کرے لیکن اس کا پیٹ پیٹ سے اڑ جائے گا، یہ بات سمجھنے جیسی ہے کہ جب پیٹ ڈھنگ معانقہ نہیں کرنے دیتا تو معالجہ کیسے کرنے دے گا،
نیز ہلکی سرین والے کا نصف اسفل کی تمام چیزیں ہلکی ہی ہوتی ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا جس کے انگلیوں کے پوروے لمبے ہوتے ہیں اس کی کلائیاں اور بازو بھی لمبے ہوتے ہیں، عورت بہت سمجھدار تھی، امرءالقیس کو اسی کی زبان میں سمجھا رہی تھی۔
(۳) تیسری بات یہ کہی کہ "تو پانی بہت جلدی بہانے والا ہے۔" (میں پک کر گرم توا ہوچکی ہو تم لگے کمربند باندھنے، ابھی تو مجھے لذت آنا شروع ہوئی تھی! میری پراگندگی کو سمیٹے گا کون؟)
یہ ایک ایسا مسئلہ بہت سے نیم حکیموں کی دوکان رواں دواں ہے، منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی بہت سے مرد منزل (بضم المیم) ہوجاتے ہیں، ظاہر عورت کو اس کو کوئی فکر نہیں ہوتا کہ اس کے انزل سے پہلے بھی راستہ واں تھا اور انزال کے بعد بھی راستہ واں ہے، وہ برابر لائق جفتن باقی رہتی ہے لیکن مرد منزل (بالضم) ہونے بعد کسی کام کا نہیں رہتا، ایسے اشخاص کو نفس شناس طبیب مشورہ دیتے ہیں کہ روٹی توے پر رکھنے سے پہلے ہی خوب گرم کرلیا کرو، جیسے ہی روٹی توے پر رکھی جائے روٹی پک جائے، یعنی جم کر ملاعبت کیا کرو، ملاعبت کا مطلب ہوتا ہے ایک دوسرے سے کھیلنا یہ ایک مفید مبارک عمل ہے، اس میں مرد بعض بیہودگیوں سے بچتے عورت کو کافی حد تک آمادہ کرسکتا ہے، عورت کے جسم کے بعض حصہ ایسے ہوتے جو کافی حساس ہوتے ہیں، ذرا سے لمس سے وہ مچل جاتی ہے۔ اس کے بدن میں جھنجھناہٹ سی چھا جاتی ہے کہہ لیجئے کہ ہلکا کرنٹ سا دوڑ جاتا ہے، کچھ جگہ تو مشترک ہوتی ہیں، جیسے پشت، بالائی سینہ، گردن، کانوں کی لو اور پہلو یعنی جس حصہ پر وہ کروٹ لیتی ہے بطور خاص سر پستان اور بظر اندام نہانی۔
ان حصوں سے ہونٹ سے زبان سے، انگلیوں کے سرے سے کھیل کر عورت کو بے قابو کیا جاسکتا ہے۔ ایسا وہ مرد خوب کرسکتے ہیں جن پر کاروبار کا بار نہ ہو، ذہن پر کسی قسم کا دباؤ اور ہاتھ پاؤں شل کردینے والا محنتی کام کا بوجھ نہ ہو۔
(۴) چوتھی بات اس عورت نے کہی: اس لئے کہ تو افاقہ میں بڑا سست ہے یعنی ایک مرتبہ جماع سے فارغ ہونے کے بعد دوسری مرتبہ تیار ہونے میں بہت دیر لگاتا ہے، جو کڑیل صحت مند جوان ہوتے ہیں، ان میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ ایک مرتبہ فراغت کے بعد بہت جلد دوسری مرتبہ کے لئے مستعد تیار۔ اب یہ صاحب ایسے ہیں کہ اس سنڈے کے بعد اب اگلے سنڈے تک انتظار کرو، نہ کوئی حرکت ہے نہ سنسناہٹ۔
یہ خوبی اسی وقت آسکتی ہے جب غذا مقوی روغن دار ہو مرد وڑا پاؤ، سموسہ، چائے اور جلیبی کے بجائے صحت بخش طاقتور غذا کھائے۔ خاص طور پر جماع سے فارغ ہوکر کوئی مرغن مقوی غذا کھائے،
ہمارے ایک مشفق بزرگ کا بتایا ہوا نسخہ پیش خدمت ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ: بیٹا، آدھا کپ دیسی گھی لینا، اس میں آدھا کپ اصلی شہد ملانا اور دیسی انڈا ڈال کر پھینٹ دینا اور شام 7 بجے اگر مکمل کھاسکو تو کھالینا اور جماع بعد کوئی مرغن غذا ضرور لینا اور ناشتہ ابلے ہوئے دیسی انڈا اور دودھ سے کرنا۔" (بواسیر والے احتیاط کریں)
دوسرا واقعہ:
یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں گیارہ عورتوں نے اکٹھا ہوکر عہد کیا کہ ہم اپنے شوہروں کے بارے میں سچ کہیں سچ کے سوا کچھ نہ کہیں گے: ان میں سے ساتویں عورت نے کہا کہ میرا شوہر، بہن میرا شوہر! بالکل نکما، اس میں حد سے زیادہ درماندگی اور سستی ہے، کسی مرض کی دوا نہیں، ہر کام اس پر بوجھ ہوجاتا ہے اور وہ بیوی پر بوجھ ڈالنے والا ہے، (یعنی جماع کے وقت اپنی بیوی پر پڑجاتا ہے، جلد فارغ ہوکر اپنا ڈھیلا ٹھنڈا جسم بیوی پر ڈال دیتا ہے۔
قابل شرم بات ہوتی کہ مرد کو جہاں فاعل بنایا گیا تھا وہ وہاں مفعول بن جاتا ہے، جہاں اس کو لذت دینے والا بنایا گیا تھا، وہ وہاں فقط لذت حاصل کرنے والا بن جاتا ہے، ہم نے اپنے ایک باذوق ساتھی سے چٹکلہ سنا ہے کہ کسی نے سوال کیا کہ جماع، مجامعت مفاعلہ کا مصدر ہے اس میں فعل کا صدور جانبین سے ہوتا ہے، لیکن مزہ کس کو زیادہ آتا ہے؟ تو جواب میں کہا گیا کہ آپ نے کبھی انگلی سے کان میں کھجایا ہے؟ کہا کہ: ہاں، فرمایا کہ مزہ کس کو زیادہ آتا ہے کان کو یا انگلی کو؟
اسی وجہ سے امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر میاں بیوی نے رمضان کے دن میں مجامعت کرکے روزہ فاسد کردیا تو عورت پر کفارہ نہیں آئے گا، اس لئے کہ جماع تو مرد کا فعل ہے، عورت تو متعلقۂ جماع ہے، صاحب ہدایہ نے اس دلیل کی تردید بھی نہیں کی۔ تو ذرا سوچو جو صاحب جماع اس کا کیا ہوکر رہ جائے گا جب وہ متعلق جماع ہوجائے؟ آدمی اپنی کہی ہوئی بات پہلا مخاطب ہوتا ہے تو مناسب سمجھا کہ وہ چار طریقہ ذکر کئے جائے جن کے بیان میں تاخیر ہوگئی ہے۔
۔۔۔۔
قسط: سوم
جو زمان طالب علمی میں یا بعد فراغت فورا نکاح کرتے ہیں وہ عموما شعبان میں کرتے ہیں، اور ان کا سرور شہر رمضان میں آجاتا ہے، معلموں کو بھی قدرے فرصت رمضان ہی میں میسر آتی ہے۔ یہ ان کی تعطیل کلاں ہوتی ہے یہی ان کے لئے کلیاں چٹخانے کا وقت ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ رمضان میں "شد مئزر" اور "احیاء الیل" ہو لیکن ہمیں نو آموز اور نو وارد کو معذور سمجھنا چاہئے۔ پھر شریعت نے "لکل امرئ مانوی" کہہ بہت سے مباحات کو بھی عبادت کا درجہ دے دیا ہے۔ اور جماع تو درحقیقت عبادت ہے۔
جماع کا عبادت ہونا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے: نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے کسی کا اپنی (بیوی، باندی) سے جماع کرنے میں صدقہ کا ثواب ہے۔ لوگوں نے کہا کہ: اے الله کے رسول، ہم میں سے کوئی اپنی شہوت پوری کرتا ہے، کیا اس میں بھی اجر ملتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا بتاؤ، اگر وہ حرامکاری کرتا تو اس پر گناہ نہ ملتا؟ (مسلم شریف)
(عن أبي ذر أن ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، ذهب أهل الدثور بالأجور يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ويتصدقون بفضول أموالهم، قال: "أوليس قد جعل الله لكم ما تصدقون؟ إن بكل تسبيحة صدقة، وكل تكبيرة صدقة، وكل تحميدة صدقة، وكل تهليلة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن منكر صدقة، وفي بضع أحدكم صدقة، قالوا: يا رسول الله، أيأتي أحدنا شهوته ويكون له فيها أجر؟ قال: «أرأيتم لو وضعها في حرام أكان عليه فيها وزر؟ فكذلك إذا وضعها في الحلال كان له أجر»." (صحیح مسلم/جلد:2/صفحہ:697، باب بيان أن اسم الصدقة يقع على كل نوع من المعروف،ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)
طبرانی میں ہے کہ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ایک شخص سے دریافت فرمایا: آج کسی کی عیادت کی ہے؟ کہا: نہیں۔ دریافت فرمایا: کوئی صدقہ کیا ہے؟ کہا کہ: نہیں۔ دریافت فرمایا کہ: اپنی بیوی سے ہمبستری کی ہے؟ کہا کہ: نہیں۔ فرمایا: ہمبستری کرلو، اس لئے کہ آپ کی طرف سے ان پر یہ صدقہ ہے۔ راوی کہتے ہیں یہ جمعہ کا دن تھا، اس لئے بعض حضرات نے جمعہ کے دن / جمعہ کی رات کو جماع کرنا مستحب قرار دیا ہے۔
شب زفاف زوجین کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتوں میں سے ایک وصیت یہ ہے کہ وہ دونوں جمعہ کے روز جماع کرنا نہ بھولیں۔ حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مَنْ غَسَّلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْتَسَلَ ثُمَّ بَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَمَشَى وَلَمْ يَرْكَبْ، وَدَنَا مِنَ الإِمَامِ وَأَنْصَتَ وَلَمْ يَلْغُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ أَجْرُ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا" (حدیث صحیح ہے) (ابو داود: 345)، (احمد: 4/104)، (نسائی: 3/97) و (ابن ماجہ: 1087)
" جس نے جمعہ کے روز غسل کیا اور کرایا، پھر اول وقت میں ہی مسجد گیا اور شروع سے ہی خطبہ میں رہا، پیدل چل کر مسجد گیا، اور امام کے قریب بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ خطبہ سنا، کوئی لغو بات نہ کی، تو اس کو ہر قدم پر ایک سال صیام و قیام کے برابر ثواب ملے گا."
بعض علماء فرماتے ہیں: "غسّل" کا معنی یہ ہے کہ وہ نماز جمعہ سے پہلے بیوی کے ساتھ جماع کرے تاکہ وہ نفس پر قابو رکھے اور اپنی نگاہ کی حفاظت کرے، حضرت وکیع بن جراح سے بھی یہی معنی مروی ہے۔ حضرت خزیمہ فرماتے ہیں: دیث پاک میں جو "غسّل واغتسل" آیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ شوہر نے بیوی سے جماع کیا اور اس کے اوپر غسل واجب کیا، اور "ابتکر" کا معنی ہے خطبہ میں شروع ہی سے موجود رہنا، چنانچہ ملاحظہ ہو کہ جمعہ کا دن کتنا ہی افضل ہے۔
بہرحال جماع جو کہ عبادت ہے اس میں مندرجہ ذیل نیات کرکے راتوں کو رنگین کرنے کیساتھ ساتھ احیاء کا کچھ نہ کچھ ثواب بھی حاصل ہوسکتا؛
حدیث میں مطلق ثواب کا ذکر ہے، چنانچہ غنیة الطالبین میں ایک حدیث ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ عورتوں کو تو بہت سا ثواب مل گیا، مَردوں کے بارے میں بھی ارشاد فرمائیے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: مرد اپنی عورت کا ہاتھ پکڑ کر مانوس کرتا ہے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے، جو مرد پیار سے اپنی عورت کے گلے میں ہاتھ ڈالتا ہے اس کے حق میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، جب وہ عورت سے مباشرت کرتا ہے تو دنیا ومافیہا سے افضل ہوتا ہے، جب غسل کرتا ہے تو بدن کے جس بال پر سے پانی گذرتا ہے اس کے لیے ہربال کے بدلے میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ معاف ہوجاتا ہے اور ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے او رغسل کرنے کے عوض میں جو چیز دی جاتی ہے وہ دنیا اور مافیہا سے بہتر ہوتی ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ اس پر فخر کرتا ہے اور فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندے کی طرف دیکھو کہ ایسی سرد رات میں غسل جنابت کے لیے اٹھا ہے اور وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ میں اس کا رب ہوں تم اس بات پر گواہ رہو کہ میں نے اس کو بخش دیا (فتاویٰ رحیمیہ: ۵/۲۴۷/ نقلاً عن غنیة الطالبین: ۹۳-۹۴، فصل فی آداب النکاح)
استمتاع کی نیت:
جماع نام ہی استمتاع کا ہے، صرف استمتاع کی نیت بھی اچھی ہے کہ عورت "خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا" ہے اور "استمتعتم" میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے۔ علماء فرماتے ہیں یہ نیت ہو؛
قضاء الوطر بنیل اللذۃ و التمتع بالنعمۃ؛
یعنی حاجت طبعیہ کا پورا کرنا حصول لذت کے ساتھ اور شہوت و عورت جو الله تعالی کی نعمت ہیں، ان سے جائز اور مناسب طریقہ سے متمتع ہونا۔
الدرالمنضود میں ہے: منافع نکاح میں سے یہی ایک منفعت ایسی ہے جو جنت میں پائی جائے گی، اس لئے کہ جنت میں گو نکاح ہوگا لیکن توالد و تناسل وہاں نہیں ہوگا بلکہ جماع صرف حصول لذت و راحت کے لئے ہوگا میں (صاحب الدر) کہتا ہوں نکاح کے اس فائدہ کا حصول اول تو محسوس و مشاہد ہے دوسرے احادیث میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے۔
پاک دامنی کی نیت:
اپنی اور اپنی بیویوں کی شرمگاہوں کی حفاظت، عفت و پاکدامنی کے حصول کی نیت کرنا۔
"فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج"
ایک حکیم فرماتے ہیں: یہ الله تعالی کی بڑی نعمت ہے، دین و دنیا دونوں کام اس سے درست ہوجاتے ہیں، اس میں بہت فائدے اور مصلحتیں ہیں، آدمی گناہوں سے بچتا ہے اور دل ٹھکانے لگتا کے، نیت خراب اور ڈانواں ڈول نہیں ہونے پاتی اور بڑی بات یہ ہے کہ فائدے (لذت) کا فائدہ اور ثواب کا ثواب (ہم خورما و ہم ثواب)۔
تحصیل نسل کی نیت:
اولاد حاصل کرنے کی نیت کرے جو اس کے لئے ذخیرۂ آخرت ہو اور مرنے کے بعد صدقۂ جاریہ ہو اور اس کے لئے دعائے خیر کرے۔
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله تعالی عنہما نے ارادہ کیا کہ وہ نکاح نہیں کریں گے تو ان کی بہن حضرت حفصہ رضی الله تعالی عنہا نے ان کو کہا: نکاح کرلو، اس لئے کہ اگر الله تعالی نے آپ کو ولد کی نعمت عطا فرمائی اور وہ ولد آپ کے بعد زندہ رہا تو آپ کے لئے دعا کرے گا۔ [سنن کبری: ۱۳۴۶۱]
ان کے والد حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں اپنے آپ کو جماع پر مجبور کرتا ہوں اس امید سے کہ الله تعالی اس جماع کے نتیجے میں ایک جان نکالیں گے جو الله کی پاکی بیان کرے گا۔ [سنن کبری]
تکثیر الاسلام و المسلمین کی نیت:
تکثیر امت پر حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کا فخر و مباہات متحقق ہوجائے اس کی نیت:
کثرت تعداد، کثرت افراد (مسلمین) کی اہمیت و فائدہ کا اندازہ ہر ایک کو ہے۔ عرب جن جن علاقوں کو زیر کرتے رہے وہاں انھوں نے اپنے افراد کو بسا، کثرت نساء سے اولاد بھی کثرت سے کیں اور دعوت الی الله کے ذریعہ سے بھی تکثر ملت کی، اس لئے جہاں جہاں عرب قابض ہوئے، آج وہ مسلم اکثریتی ممالک میں شامل ہیں اور تعدد ازدواج وہاں معیوب نہیں ہے۔ لیکن جہاں عجمی مسلمانوں نے فتح کے جھنڈے گاڑھے عموما وہاں مسلمان اقلیت میں رہ گئے۔ حالاں کہ کثرت امت مطلوب ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی عورت سے شادی کروجو خوب محبت کرنے والی (اور) زیادہ بچے جننے والی ہو؛ اس لیے کہ میں تمہاری( کثر ت کی )وجہ سے( قیامت کے دن) دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔
"حدثنا أحمد بن إبراهيم، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا مستلم بن سعيد ابن أخت منصور بن زاذان، عن منصور - يعني ابن زاذان - عن معاوية بن قرة عن معقل بن يسار، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال: إني أصبت امرأة ذات حسب وجمال، وأنها لا تلد، أفاتزوجها؟ قال: "لا" ثم أتاه الثانية فنهاه، ثم أتاه الثالثة، فقال: "تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم." (سنن ابی داود، كتاب النكاح، باب في تزويج الأبكار، ج: ۳، صفحہ: ۳۹۵، رقم الحديث: ۲۰۵۰، ط: دارالرسالة العالمية)
کسی کے ماننے والے، اتباع کرنے والے زیادہ ہوں تو یہ خوشی و فخر کی بات ہوتی ہے، لیکن اس میں متبعین (مسلمین) کا بھی فائدہ ہے۔ اکثریت ہونے کی وجہ سے ان کا رعب و دبدبہ ہوگا، اقلیت میں ہونے کی وجہ سے وہ مقہور نہیں ہوں گے۔ بہر حال ایک عبادت میں جتنی نیت ہو بہتر ہے. مجھے معلوم ہے کہ طریقہائے جماع کا ذکر موخر ہورہا ہے لیکن اس سے پہلے مزید چند باتیں جان لینا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔
قسط چہارم
ایک عورت کا مجھے میسج آیا کہ اس عورت کے شوہر اس سے جماع نہیں کرتے۔ کہتے ہیں آگے کے لئے طاقت بچا رہا ہوں۔ امام مہدی کے خروج کا زمانہ قریب ہے، طاقت کی ضرورت محسوس ہوگی۔ کیا ان کی یہ سوچ غلط ہے۔
دوسری عورت نے میسج کیا - حال یہ کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ باتیں کرتے کرتے میسج دیکھ رہا تھا- مفتی صاحب ایک مرد اپنی بیوی سے کتنی مدت دور رہ سکتا ہے۔ کتنی مرتبہ جماع کرنا چاہئے؟ کیا جماع میں مرد کا حق نہیں ہے۔ مجھے خواہش زیادہ ہے لیکن میرے شوہر ہر روز اس عمل جنت پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں۔
سوال پڑھ کر حکایات لطیف کی وہ فارسی حکایت ذہن میں گردش کرنے لگی جس میں ایک خاتون ایک قاضی صاحب کے پاس اپنے شوہر کی یہ شکایت بڑی شدت کے ساتھ لے کر پہنچی کہ یہ میرا حق ادا نہیں کرتے۔
شوہر نے کہا: قاضی صاحب!
راست نمی گوید، بلی من حقوق آں در جماع اورا رسانیدم۔
قاضی صاحب نے خاتون کی طرف دیکھا تو خاتون کچھ دبے لفظوں میں کچھ جلدی جلدی بولتے ہوئے گویا ہوئی: مجھے ایک رات میں چار مرتبہ فراغت چاہئے اور یہ ایک رات میں تین مرتبہ میں "مردہ بدست زندہ" کے مانند ہوجاتے ہیں۔
قاضی صاحب نے جواب دیا کہ اے دوشیرہ آپ فکر نہ کرو۔ وہ ایک رات میں جتنی چڑیا اڑاسکتا ہے آڑائے۔ مابقیہ کے لئے قاضی الحاجات کا در یاد کیا جائے۔
قریب تھا کہ میں یہ حکایت نقل کردوں لیکن بیوی کے قریب ہونے نے اور اس کی ترچھی نگاہوں سے میری مسکراہٹ کو بھانپتے رہنے کے مجھے یہ نقل کرنے سے روکے رکھا۔ کسی اور موقع پر خیال آیا کہ اس سلسلے کچھ لکھا جائے لوگ کثرت جماع کو حضرت صحت سمجھتے ہیں تو کچھ اجڈ جماع میں عورت کا کوئی حق ہی نہیں سمجھتے۔ اب چون کہ اس ارادہ کی تکمیل کرچکا ہوں اور ایک ایسی تحریر تیار ہوچکی ہے جو پیش خدمت ہے؛
جماع میں عورت کا حق:
کہتے ہیں کہ جماع میں عورتوں کا بھی حق ہے، اصل مجامع اگرچہ مرد ہے اور عورت متعلق جماع ہے، لیکن عورت بھی باب مفاعلۃ (مجامعۃ) کی وجہ سے من وجہ فاعل ہے۔ اسی حق کی وجہ سے مرد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل نہیں کرسکتا۔
عشاء بعد سونے کی تاکید حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے تاکہ نماز فجر میں بیداری اور چستی رہے، عشاء بعد بیدار رہنے کو ناپسند کیا ہے مگر تین لوگوں کو صراحتا اجازت دی نمازی، مسافر اور عروس۔
آپ کی بات خدا کی بات ہوتی ہے پھر آپ کسی کو "حق" کہہ دیں تو اس کی اہمیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں، "ہر تماشہ (دل لگی) جو انسان کرتا ہے وہ باطل ہے الا یہ کہ وہ تیر اندازی کرے، اپنے گھڑے کو سدھائے اور اپنی بیوی سے کھیلے اس لئے کہ یہ سب حق میں سے ہیں۔ [سنن الترمذی بحوالہ مشکاۃ ۲/۱۱۹]
(حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْأَزْرَقِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ لَيُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ الثَّلَاثَةَ الْجَنَّةَ: صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَالْمُمِدَّ بِهِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْمُوا، وَارْكَبُوا، وَأَنْ تَرْمُوا، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا، وَكُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ، إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتَهُ امْرَأَتَهُ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ.") (سنن ابن ماجه: حدیث نمبر: 2811)
حضرت جابر رضی الله تعالی عنہ سے نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے جب کہ انھوں نے کم عمری کے باوجود ثیبہ سے نکاح کیا تھا تو فرمایا تھا: "کیوں باکرہ سے نکاح نہیں کیا، وہ آپ کے ساتھ کھیلتی آپ اس کے ساتھ کھیلتے۔" (صحيح مسلم)
(حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَأَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ : أَنَّ عَبْدَاللَّهِ، هَلَكَ وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ، أَوَ قَالَ: سَبْعَ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً ثَيِّبًا، فقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا جَابِرُ، تَزَوَّجْتَ"، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: "فَبِكْرٌ أَمْ ثَيِّبٌ"، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، أَوَ قَالَ: تُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ"، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: إِنَّ عَبْدَاللَّهِ هَلَكَ وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ أَوْ سَبْعَ، وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ آتِيَهُنَّ أَوْ أَجِيئَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَجِيءَ بِامْرَأَةٍ تَقُومُ عَلَيْهِنَّ وَتُصْلِحُهُنَّ، قَالَ: "فَبَارَكَ اللَّهُ لَك"، أَوَ قَالَ: لِي خَيْرًا، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي الرَّبِيعِ: تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، وَتُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ) (صحيح مسلم)
علامہ مظہری شرح مشکاۃ میں فرماتے ہیں: "جو میاں بیوی میں کھیل، اٹھکیلیاں، بوس و کنار، لمس و مس ہوتا ہے، یہ شارع کی مرضی ہے اور یہی سنت ہے اس لئے کہ یہ دل لگی، دل بستگی، انسیت اور نشاط کا سبب ہے، اموشن کو آسمان پر لے جانے والا اور شہوت کو برانگیختہ کرنے والا ہے جو کہ ولادت کا سبب ہے۔ [۴/۱۳]
مرد جس طرح چاہتا ہے کہ اس پر مس و جس ہو اس کے حساس اعضاء پر مساس ہو عورت بھی اس طرح کی خواہش رکھتی ہے:
"وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ"
ایک مرتبہ حضرت امام ابویوسف نے ہمارے امام اعظم سے پوچھا: "کیا مرد عورت کی شرمگاہ کو اور عورت مرد کے عضو تناسل کو مس کرسکتی ہے تاکہ تحریک ہو؟ کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ تو امام صاحب نے جواب دیا: کوئی حرج نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ان کو عظیم اجر دیا جائے گا۔"
مرد کی شرمگاہ باہر ہوتی ہے اور عورت کی ذرا اندر کو، اس لئے بسا اوقات عورت مرد سے سے زیادہ ملاعبت کی طلبگار بلکہ محتاج ہوتی ہے، تاکہ لذت جماع جو اس کا حق ہے، اس کو مل سکے۔
ابن قدامہ رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں: عورت سے جماع سے پہلے کھیلنا مستحب ہے تاکہ اس کی شہوت بھڑک اٹھے اور جو لذت جماع مرد حاصل کررہا ہے وہ اس کو بھی حاصل ہو۔ [المغنی]
ملاعبت کرکے عورت کو اچھی طرح سے تیار نہ کرنا اور عورت کی تحریک اور نہوض شہوت کو خاطر میں نہ لانا بسا اوقات عورت کو عمل جماع سے متنفر کردیتا ہے۔ (خصوصا جب شب زفاف ہو جو اس کی پہلی رات ہے اس وقت اس کے ساتھ ایسا کیا جائے۔)
مرد کے لئے یہ بھی پسندیدہ ہے کہ وہ اپنی فراغت کی طرح عورت کی فراغت کا بھی انتظار کرے، تاکہ عورت بھی منزل ہوجائے،
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد اپنی بیوی سے جماع کرے تو چاہئے کہ وہ اسے بھی مطمئن کردے، پھر اگر مرد کی خواہش پوری ہوگئی تو جلدی نہ کرے تا آں کہ عورت کی خواہش بھی پوری ہوجائے۔ [مجمع الزوائد]
اس حدیث کی ضمن میں علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ اگر حاجت پوری ہوجائے تو بھی اس سے نہ ہٹے بلکہ مص الشفتین اور تحریک الثدیین میں لگارہے جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ وہ بھی مطلوب تک پہنچ چکی ہے، اس کہ یہ حسن مباشرت ہے اس کو پاک دامن رکھنا ہے خوش اخلاقی اور نرمی مزاجی ہے۔
مزید فرماتے ہیں کہ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی سریع الاراقہ ہو اپنی بیوی کے ساتھ ٹھہرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے تو وہ امساک کا علاج اور معجون لے، اس لئے کہ یہ مندوب تک پہنچنے کا وسیلہ ہے: وللوسائل حکم المقاصد۔
کثرت جماع:
حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم ایک وقت میں اپنی گیارہ بیویوں پر چکر لگاتے تھے، [بخاری] چکر لگانے سے مراد جماع کرنا، بعض مرتبہ ایک ہی مرتبہ آخر میں غسل فرماتے،
(معمر کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دو بیویوں کے درمیان جماع کرنے سے پہلے وضو تو کرتے تھے۔)
کبھی آپ ہر ایک بیوی محترمہ کے پاس سے فارغ ہوکر غسل فرمایا کرتے۔ اور اس عمل کو آپ نے زیادہ ستھرا زیادہ پاک صاف بیان فرمایا۔ (سنن کبری)
قتادہ نے حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم اتنی طاقت رکھتے تھے؟ تو حضرت انس نے جواب دیا: ہم آپس میں باتیں کرتے تھے کہ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کو تیس کی قوت عطا کی گئی ہے۔ (اور گیارہ بیویوں سے مراد نو زوجات محترمات اور دو باندیاں؛ ماریہ و ریحانہ، آخرالذکر کے بارے میں کچھ اختلاف ہے)
نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ایسا اپنی زندگی میں گاہے بگاہے سفر پر جانے کے وقت یا آنے کے وقت کیا ہے، لیکن اس سے کثرت جماع کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
حکیم ترمذی رحمہ الله تعالی نوادرالاصول میں فرماتے ہیں؛ انبیاء نکاح زیادہ کیا کرتے تھے اپنی نبوت کے فضل کی وجہ سے، یہ اس وجہ سے کہ نور سے جب سینہ لبالب بھرجاتا ہے تو وہ رگوں میں بہتا ہے، جس سے نفس اور رگیں لذت حاصل کرتیں ہیں، جس کے نتیجے میں شہوت بھڑکتی ہے اور توانا ہوتی ہے۔
ابن مسیب رحمہ الله تعالی سے روایت کیا گیا ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام لوگوں سے جماع میں بھی بڑھے ہوئے ہوتے ہیں،
یہ بھی حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کو پکڑ، مضبوطی اور نکاح میں چالیس مردوں کی قوت دی گئی تھی۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مومن کامل کو دس لوگوں کی قوت دی جاتی ہے اور کافر کی قوت صرف شہوت طبعیہ ہوتی ہے۔
[حاشیہ سندھی علی سنن النسائی، کتاب عشرۃ النساء]
ایک ہی رات میں اگر کوئی مرد دوسری مرتبہ جماع کرنا چاہے تو نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے بہتر یہ قرار دیا ہے کہ دو جماع کے درمیان ذکر دھوکر وضو کرلے اس لئے کہ یہ عمل نشاط آور ہے۔ [سنن کبری]
اس حدیث کی اشارۃ النص سے بھی کثرت کا جواز مفہوم ہوتا ہے۔
صحابہ میں:
سلمہ بن صخر البیاضی رضی الله تعالی عنہ ایک نادار صحابی تھے وہ فرماتے ہیں، میں اتنا جماع کرتا ہوں کہ دوسرے اتنا نہیں کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ رمضان کا مہینہ آیا، مجھے خوف ہوا کہ کہیں میں جماع میں مشغول ہوؤں اور جماع کرتے کرتے صبح ہی نہ کردوں، (جس سے میرا روزہ خراب ہوجائے گا) اس لئے میں نے اپنی بیوی سے ایک مہینے کا ظہار کرلیا، لیکن ایک مرتبہ میری خاتون میری خدمت کررہی تھی، اس کی پازیب (یا اس کی جگہ) ظاہر ہوگئی، میں بے بس ہوگیا اور اپنے آپ کو روک نہیں سکا اور خاتون پر آدھمکا۔۔۔۔۔ [مشکاۃ]
حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ "میں اپنے نفس کو جماع پر مجبور کرتا ہوں تاکہ الله اس کے ذریعہ سے ایسی جان کو وجود دے جو الله تعالی کی پاکی بیان کرے۔ [السنن الکبری للبیہقی: ۱۳۴۶۰]
قرآن و حدیث میں کثرت جماع پر نکیر نہیں آئی ہے بلکہ ماہر نفسیات اس کو بہت سی چیزوں کے لیے مفید مانتے ہیں۔
جیسے محبت بین الزوجین، تناؤ اور ڈپریشن کے خطرات کم ہوتے ہیں، دل کے لئے بھی مفید اور انسان جوان اور خوش مزاج نظر آتا ہے، نیند اچھی آتی ہے، وغیرہ۔ یہ اس وقت ہے جب کہ منی کا خروج بیوی یا بیویوں سے ہو اگر غیر فطری طریقہ پر منی کا خروج ہو جیسے مشت زنی، اغلام بازی یا مرض احتلام سے تو یہ نقصان دہ ہے، اسی طرح جو آدمی کمزور ہے اس کے لئے بھی زیادہ پانی بہانا مضر ہے، اطباء کے کلام کو بھی اسی پر محمول کیا جانا چاہئے۔
یقینا ہر چیز جب اپنی حد سے بڑھ جاتی ہے تو مضر ہوتی ہے،
(کل شیئ زاد عن حدہ انقلب الی ضدہ)
لیکن کثرت امر اضافی ہے ایک توانا جوان عمر کے لئے کثرت کی حد علی حدہ ہوگی ادھیڑ عمر یا ناتواں کے لئے علی حدہ۔
لہذا جس شخص کے پاس قوت و توانائی ہے وقت اور عمدہ غذا ہے تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ جب رغبت اور اشتہاء محسوس کرے جماع کرلے، بلکہ اس کے لئے باعتبار صحت کے یہی مناسب ہے، تاکہ بدن میں وہ مادہ جمع باقی نہ رہے جس کا بقا کبھی نقصان بھی دے سکتا ہے۔
پانچویں اور اخری قسط:
ناموں کے اچھے اور برے اثر سے کون واقف نہیں؟ ناموں کا اثر جس طرح ذات پر پڑتا ہے کام اور فعل پر بھی وہ اثر انداز ہوتا ہے، موزوں کو الخفین کہا جاتا ہے چنانچہ موزوں کے سلسلے میں مسح کی تخفیف وارد ہوئی۔ واضعین جو بھی نام رکھتے ہیں بڑی غو ر فکر کے بعد رکھتے ہیں، جماع کے لئے بھی جو نام جس زبان میں اصل وضع میں رکھے گئے ان میں کر نام مسمی کی وضاحت کرتا ہے، ہر نام میں قدرے مشترک سختی ہے۔ آپ نے جان لیا عربی میں اس کو "وطی" کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں روندنا، عوامی اردو زبان میں اس کو کہا جاتا ہے "پیلنا" (سینے سے زور لگاکر کسی چیز کو جگہ سے ہٹانا)
اور فارسی کی عام زبان میں "جفتی کردن" جفتن یعنی کودنا، عورت دو طرح کی ہوتی ہیں بعض عمل جماع آہستگی سے دھیرے دھیرے، ہر کام اطمنان سے کرنا پسند کرتی ہیں اور بعض سخت، جلدی جلدی اور محنت مشقت کرتے ہوئے، لیکن مرد تمام محنت مشقت اٹھاتے ہوئے جلد جلد کودتے پھلانگتے ہوئے کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ پہلی ہی رات کو ان کی بیوی زبان حال سے یہ شعر کہہ دے:
سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جماع میں فاعلیت بلکہ فعالیت کا پہلو ذرا غالب رہنا چاہئے، قرآن و حدیث میں ہمیں ایسے چار طریقوں کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
(1) فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِيفاً
یہاں قرآن کریم میں ایک تمثیل بیان کرتے ہوئے فرمایا (بعض حضرات نے اس واقعہ سے مراد حضرت آدم و حضرت حواء علیہا السلام مراد لیا ہے وہ صحیح نہیں ہے)
فرمایا جب ڈھانک لیا مرد نے عورت کو (اس سے وطی کرنے سے کنایہ کیا گیا ہے) یہ ایک عام اور رائج طریقہ ہے وطی کرنے، اس کو سب سے زیادہ آسان اور لذت بخش کہا جاتا ہے کہ عورت بستر پر چت لیٹی ہو اور مرد اس کو کچھ اس طرح ڈھانک لے کہ اس کے ہر ہر عضو کے مقابلے میں عورت کا ہر ہر عضو ہو، سینہ کے مقابل میں سینہ اور رخ کے مقابل میں رخ۔ مذکورہ طریقہ پر مرد جماع کرتے ہوئے عورت کے بالائی سینے، لب و رخسار اور گردن سے بآسانی استمتاع کرسکتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ ایسی صورت میں کمر کے نیچے کچھ رکھ کر "موضع" کو اوپر کرلیا جائے۔
(2) إذا جلس بين شُعَبِها الأربع ثم جهدها فقد وجب الغسلُ. (متفقٌ عليه)
جب مرد عورت کے پیروں اور رانوں کے درمیان بیٹھے پھر محنت کرکے مشقت اٹھائے تو غسل واجب ہوگیا۔ یہ بیٹھ کر جماع کا ایک شاندار طریقہ ہے کہ عورت کی پشت کے نیچے کچھ رکھ کر اونچا کردیا جائے اور مرد اس کے پیروں کے درمیان دائیں بائیں جانب کرکے، پیر کے پنجوں کو زمین کر رکھ کر ایڑیوں کے بل کچھ اس طرح بیٹھے جیسے مردانہ پیشاب خانہ میں جو عموما مسجدوں میں بنے ہوتے ہیں مرد بیٹھتا ہے۔ اب چاہے وہ ان پیروں کو وہ اپنے دونوں کندھوں پر رکھ لے، چاہے دائیں بائیں جانب ہی پھیلے رہنے دے۔ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں تیر نشانے پر واقع ہوتا ہے اور حمل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جبکہ پہلی صورت الذ اور زیادہ سرور آور ہے کیوں مرد و عورت کے جسم ایک دوسرے سے مس کئے ہوتے ہیں۔
(3) عن ابن عباس ۔۔۔۔۔۔ وكان هذا الحي من قريش يشرحون النساء شرحا منكرا، ويتلذذون منهن مقبلات ومدبرات ومستلقيات، فلما قدم المهاجرون المدينة، تزوج رجل منهم امرأة من الأنصار، فذهب يصنع بها ذلك، فأنكرته عليه، وقالت: إنما كنا نؤتى على حرف واحد، فاصنع ذلك ، وإلا فاجتنبني حتى سرى أمرهما، فبلغ ذلك رسول الله - صلى الله عليه وآله وسلم - " فأنزل الله [ص: 556 ] - تبارك وتعالى: (نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم) أي مقبلات ومدبرات ومستلقيات ، يعني ذلك موضع الولد (مستدرک: 2845)
حضرت ابن عباس رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں قریش عورتوں کئی طریقہ سے لطف اندوز ہوتے تھے، آگے سے آکر، چت لٹاکر، گھانا کر الٹا کرکے، جب ہجرت کا عمل ہوا اور بعض مہاجرین نے انصاری خاتون سے نکاح کیا تو وہ بھی انصاریہ کے ساتھ ایسا ہی کرنے لگے۔ انصاریہ نے منع کیا کہ ہم ایک ہی طریقہ استعمال کرتے ہیں ویسا ہی کریں ورنہ علی حدہ رہیں۔ ان کی یہ بات نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کو بھی پہنچ گئی تو آپ نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ
انصاریوں پر یہ اثر یہودیوں کا پڑا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر گھماکر پیچھے سے جماع کروگے تو بچہ احول (بھینگا) پیدا ہوگا، لیکن یہودیوں کی اس بات کی تردید مشاہدہ بھی کرچکا ہے۔
اس میں ایک طریقہ جماع کا اشارہ ہے اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر جماع کرنا ہے، اس طرح کہ عورت کو گھماکر گھٹنوں کے بل کردیا جائے اور عورت اپنا چہرہ اور ہاتھ زمین پر رکھ دے، اس طرح کہ اس کے سرین کا حصہ بلند اور سر اور مونڈھے نیچے کی جانب ہو اور دونوں گھٹنوں کے درمیان قدرے فاصلہ ہو، ثمیل سے یوں سمجھ سکتے ہو کہ کبڈ یا الماری کے نیچے کوئی چیز چلی جائے اور کوئی عورت اس کو تلاش کرنے کے لئے الماری (جو زمین سے چار انگل قریب ہے) کے نیچے جھانکے، تو اس کا پچھلا حصہ بلند اور اگلا حصہ نیچے کی طرف جھکتا چلا جاتا ہے، بالکل اسی طرح عورت کو رکھے اور خود گھٹنوں کے بل عورت کے پیچھے کھڑا ہوجائے، مذکورہ طریقہ پر عورت کی ہیئت سے عورت کی اندام نہانی نظر آجائے گی، مرد کولہے پر ہاتھ رکھ کر دخول کرسکتا ہے، عین جماع کے موقع پر اس کی پشت اور گدی سے لطف اندوز بھی ہوسکتا ہے۔ اس طریقہ کا ایک فائدہ یہ ہے چت لیٹنے کے بر خلاف عورت کی کولہے کہ ہڈی قریب قریب رہتی ہیں راستہ کھلا کھلا لگنے کے بجائے تنگ محسوس ہوتا ہے۔
(4) إنما الطلاق لمن أخذ بالساق. (سنن ابن ماجہ)
فرمایا کہ: "طلاق کا حق اس کو ہے جو (بیوی کی) پنڈلی پکڑے" غلام کی بیوی کو آقا بیٹے کی بیوی کو والدین طلاق نہیں دے سکتے، بلکہ طلاق دینے کا اختیار صرف اس کو ہے جو پنڈلی پکڑے یعنی جو اس عورت سے جماع کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس میں جماع کرنے کے اس طریقہ کی طرف اشارہ جس میں جماع کرتے وقت شوہر پنڈلی پکڑے۔ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کھڑے ہوکر جماع کرنے کا ایک عمدہ طریقہ میں جا میں عورت مرد کے نصف اسفل کے مقابل کسی اونچی جگہ پر ہو جیسے پلنگ یا ٹیبل پر، مرد اس اونچی جگہ سے قریب ہوکر عورت کا پاؤں اوپر کی طرف کھینچ کر پنڈلی پکڑلے پھر ایلاج شروع کردے، بات ںانیں لذت حاصل کرنے کا یہ ایک نیا اور اچھوتا طریقہ ہوگا۔
لیٹ کر چھاجانا، ایڑیوں کے بل، گھٹنوں کے بل اور کھڑے ہوکر جماع کرنے کی یہ چار صورتیں اہل چست و چابک لوگوں کے لئے آپ کے سامنے ہے، لگے ہاتھوں ایک پانچویں صورت اہل سست کے لئے بھی نذر نواز کئے دیتا ہوں۔
وہ یہ کہ مرد چت لیٹ جائے اور عورت اس پر اس طرح بیٹھ جائے کہ ایلاج کماحقہ ہوجائے، یعنی نوے کا زاویہ بنا کر، زاویہ مستقیہ یا زاویہ حادہ بناکر، پھر عورت کچھ اس طرح کرے جیسے بچپن میں آپ نے سل پر یتھر سے مسالہ رگڑتے ہوئے یا گھستے ہوئے دیکھا ہوگا، اس درمیان مرد عورت کے حسن سے بھی ملاعبت کرکے دل بہلا سکتا ہے اور عورت کو یہ فائدہ ہوگا کہ اس کو اندر تک دخول محسوس ہوگا، عورت کی رحم دانی پر اگر ذکر مرد مس کرے تو اس کی لذت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور انزال جلد ہوجاتا ہے۔ اس میں ایک خرابی ہے ذکر کی گئی ہے کہ منی کے کچھ قطرات ذکر یاحشفے میں رکے رہ جاتے ہیں جو بعد میں بیماری کا سبب بن سکتے ہیں اس کا علاج یہ ہے کہ جماع کے بعد فورا پیشاب کرلیا جائے تاکہ تمام قطرات سے فراغت ہوجائے۔
اشارۃً یہ چند باتیں اس گمان سے عرض کردی ہیں کہ آپ (چالیس پار) تفصیلات سے بخوبی واقف ہیں: لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبر مشاہدے کی طرح نہیں ہوتی۔“
أَخْبَرَنَا أَبُو مُسْلِمٍ، مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْبَغْدَادِيُّ الْكَاتِبُ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ، ثنا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، ثنا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ» [مسند الشهاب/حدیث: 1182]
بس بھولا ہوا سبق دہرانا مقصود تھا، بسا اوقات ذکر (بکسر الذال) وہ لذت دیتا ہے جو عمل نہیں دیتا۔ "الأذن تعشق قبل العين أحيانًا"
ہجر میں بھی مزہ
ہے وصل سے جدا
م ی قاسمی
( #ایس_اے_ساگر )
۔۔۔۔۔
https://youtu.be/zr5JHnrtu6g?si=XgGuNg74iu6zMvdk
No comments:
Post a Comment