Monday, 10 November 2025

حقوق اللہ اورحقوق العباد کی اقسام و ترجیح

حقوق اللہ اورحقوق العباد کی اقسام و ترجیح
----------------------------------
----------------------------------
فقہاء کے نزدیک حقوق کی بنیاد پر دنیا کے تمام معاملات چار اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں:
۱: خالص اللہ کے حقوق:
یہ وہ تمام اعمال یا احکام ہیں جن کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی تعظیم، اور اس کے دین کے شعائر کا قیام ہو، یا وہ امور جن میں عام مصلحت ہو مگر کسی خاص شخص سے متعلق نہ ہو۔ انہیں "اللہ کے حقوق" اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی اہمیت زیادہ اور نفع سب کے لیے عام ہوتا ہے۔ ان میں ایمان، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد، حدود، کفارات وغیرہ شامل ہیں۔
۲: خالص بندوں کے حقوق:
یہ وہ حقوق ہیں جو صرف انسان کی ذاتی مصلحت اور فائدے سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں اللہ کے حق کا کوئی پہلو شامل نہیں ہوتا۔
مثلاً: مالی حقوق ؛ جیسے قرض، ملکیت، وراثت وغیرہ۔
یہ تمام حقوق بندے کی دنیاوی ضرورتوں اور شخصی مفادات سے متعلق ہیں۔
۳: ایسے حقوق جن میں اللہ اور بندے دونوں کا حق جمع ہو، لیکن اللہ کا حق غالب ہو:
یہ وہ معاملات ہیں جن میں دونوں پہلو پائے جاتے ہیں، بندے کا بھی اور اللہ کا بھی، مگر اللہ کا حق مقدم مانا جاتا ہے۔ مثلاً: حدِ قذف؛ اس میں ایک طرف فرد کی عزت پر حملہ ہے، لیکن چونکہ یہ معاشرتی پاکیزگی اور اجتماعی اخلاقیات سے متعلق ہے، اس لیے اللہ کا حق زیادہ اہم ہے۔
اسی طرح چوری کی حد، عدتِ طلاق، اور عدتِ وفات وغیرہ میں بھی نسب کی حفاظت اور معاشرتی نظم وغیرہ کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
۴: ایسے حقوق جن میں اللہ اور بندے دونوں کا حق جمع ہو، لیکن بندے کا حق غالب ہو:
یہ وہ معاملات ہیں جن میں دونوں حقوق کا تعلق ہوتا ہے، مگر بندے کا حق زیادہ نمایاں اور مقدم ہوتا ہے، مثلاً: قصاص اور دیت۔
قتلِ عمد میں اللہ کا حق اس لیے ہے کہ یہ مخلوقِ خدا پر ظلم اور معاشرتی فساد کا سبب بنتا ہے،جبکہ بندے کا حق اس لیے ہے کہ مقتول کی جان اس کی ذاتی ملکیت تھی، اور اس کے وارثوں کو اس کے نقصان کا صدمہ پہنچا۔
اسی لیے شریعت نے قصاص کو مشروع کیا تاکہ دونوں حقوق محفوظ رہیں اور زمین سے ظلم و فساد ختم ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ کس موقع پر کس حق کو مقدم رکھا جائے؟
تو یہ ایک دقیق اور تفصیل طلب مسئلہ ہے۔ شریعت میں کوئی کلی اصول مقرر نہیں ہے کہ ہمیشہ بندوں کے حقوق مقدم ہوں یا ہمیشہ اللہ کے حقوق۔ اس بارے میں علامہ عزّ بن عبدالسلامؒ نے درج ذیل تین پہلوؤں سے بحث کی ہے:
۱: وہ مواقع جہاں اللہ کے حقوق کو ترجیح دی جاتی ہے:
یہ وہاں ہوتا ہے جہاں بندے کی آخرت کی بھلائی مقصود ہو۔
مثلاً وقت کی تنگی میں کھانے پینے پر نماز کو ترجیح دینا، عبادت میں آنے والی مشقت برداشت کرنا،اور اللہ کے دین کی خاطر جان و مال قربان کرنا۔ یہ سب اس لیے مقدم ہیں کہ ان میں بندے کے لیے اخروی فائدہ زیادہ ہے۔
۲: وہ مواقع جہاں بندوں کے حقوق کو ترجیح دی جاتی ہے:
یہ وہاں ہوتا ہے جہاں بندے کی دنیوی آسانی اور راحت مقصود ہو۔ جیسے جبر و اکراہ کی حالت میں جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر کہہ دینا، بیماری یا سفر میں روزہ مؤخر کرنا،نمازِ جمعہ یا جماعت سے شرعی عذر کی بنا پر رخصت پانا،یا مجبوری کے وقت جہاد سے معذوری اختیار کرنا وغیرہ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر نرمی اور رحمت کے مظاہر ہیں۔
۳: وہ معاملات جن میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ کون سا حق مقدم ہو: جیسے اگر کوئی شخص وفات پا جائے اور اس پر قرض اور زکوٰۃ دونوں باقی ہوں، تو اگر زکوٰۃ کا مال موجود ہے تو پہلے زکوٰۃ ادا کی جائے گی، کیونکہ اس میں اللہ اور فقراء دونوں کا حق شامل ہے۔ اگر مال تلف ہو گیا ہو تو بعض علماء قرض کو مقدم مانتے ہیں، بعض نے دونوں کو برابر رکھا، اور بعض کے نزدیک زکوٰۃ مقدم ہے؛ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى"
(صحیح البخاری ۱۹۵۳—اللہ کا قرض زیادہ واجب الادا ہے)
اور زکوٰۃ میں دو حقوق جمع ہیں اللہ کا اور بندوں کا۔
اسی طرح اگر کسی پر حج اور قرض دونوں لازم ہوں تو اس میں بھی اختلاف ہے:
کچھ علماء کے نزدیک حج مقدم ہے کیونکہ اس پر نص وارد ہے،کچھ کے نزدیک قرض مقدم ہے کیونکہ وہ بندوں کا حق ہے،اور بعض نے دونوں کو برابر قرار دیا ہے۔ (الفصل السادس: فيما يتقدم من حقوق الرب على حقوق عباده إحسانا إليهم في أخراهم ……قواعد الأحكام في مصالح الأنام ١٤٦/١)
خلاصہ یہ ہے کہ شریعت میں کوئی مطلق اصول مقرر نہیں ہے کہ ہمیشہ بندوں کے حقوق مقدم ہوں یا ہمیشہ اللہ کے۔ بلکہ اصول یہ ہے کہ جہاں آخرت کا فائدہ مقصود ہو وہاں اللہ کے حقوق مقدم ہوتے ہیں، اور جہاں دنیاوی سہولت و راحت کا پہلو غالب ہو وہاں بندوں کے حقوق مقدم ہوتے ہیں۔ باقی وہ معاملات جن میں دونوں پہلو جمع ہوں، وہاں فیصلہ مصلحت، موقع اور مقتضائے حال کے لحاظ سے جلب مصالح اور ازالہ مفاسد کے ضابطے کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ 
واللہ اعلم بالصواب 
(روز جمعہ ۱۵ جمادی الاولی ۷ نومبر ۲۰۲۵ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/11/blog-post_62.html



No comments:

Post a Comment