غیرمسلم کو صدقہ نافلہ دینا باعثِ اجر وثواب ہے یا نہیں؟
----------------------------------
----------------------------------
سوال: غیرمسلم کو صدقہ نافلہ دینا باعثِ اجر وثواب ہے یا نہیں؟
سائل: مفتی محمد اطہر القاسمی، ارریہ، بہار
الجواب وباللہ التوفیق:
غیر مسلم کو صدقہ دینا شرعاً جائز، اخلاقاً پسندیدہ اور دینی طور پر باعثِ اجر عمل ہے، بشرطیکہ وہ اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی نہ رکھتا ہو۔ قرآنِ کریم میں واضح ہدایت ہے کہ جو لوگ مسلمانوں سے دشمنی یا جنگ نہیں کرتے، اُن کے ساتھ بھلائی اور انصاف سے پیش آنا چاہیے:
لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الممتحنة: 8)
اسی بھلائی ”أَن تَبَرُّوهُمْ“ میں مالی مدد، خیرات وصدقات نافلہ ، خندہ پیشانی ، نرم گوئی وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے عمل سے یہ تعلیم دی ہے، بخاری میں ہے:
فِي كُلِّ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ (بخاری 2363)
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی والدہ مشرکہ تھیں، جب وہ بیٹی سے ملنے آئیں تو حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو:
عن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنها أنها قالت: "قدمت علي أمي وهي مشركة في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستفتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت: إن أمي قدمت وهي راغبة، أفأصل أمي؟ قال: "نعم، صلي أمك( بخاری 2620)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم والدین یا اقارب یا دوست یا پڑوسی کے ساتھ مالی تعاون اور خیرات کرنا نہ صرف جائز بلکہ باعثِ ثواب ہے. لیکن شرط یہ ہے کہ وہ کافر مسلمانوں کے ساتھ بر سر پیکار نہ ہو اور مالی مدد صدقات نافلہ سے کی گئی ہو ،زکات وغیرہ سے ان کی مدد کرنا اصح قول کے بموجب بالکل جائز نہیں ہے۔ صدقہ نافلہ میں بھی بہتر یہ ہے کہ محتاج مسلمانوں سے آغاز کرے۔ علامہ عینی کی بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:
والأصح أنه لا يجوز دفع الصدقة إليهم إلا التطوع، وبالمنع قال مالك والشافعي، وأما الحربي فلا يجوز دفع صدقة ما إليه بالإجماع حتى التطوع (بنایہ شرح ہدایہ ٤٦١/٣)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
واللہ اعلم بالصواب
(روز جمعہ ۱۵ جمادی الاولی ۷ نومبر ۲۰۲۵ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/11/blog-post_490.html
No comments:
Post a Comment