Friday, 12 December 2025

علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے متنوع علمی جہات اور حجۃ الاسلام اکیڈمی کی لائق تحسین خدمت

 علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے متنوع علمی جہات اور حجۃ الاسلام اکیڈمی کی لائق تحسین خدمت

-------------------------------
-------------------------------

امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کا نام آسمانِ علم و فضل پر اس درخشندہ کہکشاں کی مانند ہے جس کے ستارے ہر سمت روشنی بانٹتے ہیں، ان کی علمی عظمت کتب و دفاتر کے اوراق تک ہی محدود نہ تھی؛ ان کی متنوّع الجہات شخصیت علوم و معارف کا ایسا زندہ و تابندہ انسائیکلوپیڈیا تھی جس کے سینے میں حدیثِ نبوی کے اسرار بھی محفوظ تھے، تفسیر کے لطائف بھی، فقہ کے دقائق بھی اور کلام و منطق کے نکتہ آفرین مباحث بھی، غیر معمولی قوتِ حافظہ، حدّتِ ذہن، فقاہتِ نظر، حدیث فہمی میں اصابت رائے، اسرارِ شریعت پر گہری نگاہ اور علومِ متعدّدہ پر قابلِ رشک دسترس ، نے حضرت العلامہ کو معاصرین ہی نہیں؛ متقدمین کے قافلے میں بھی نمایاں اور ممتاز بنا دیا تھا۔

آپ کی علمی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ مسائلِ فقہیہ میں آپ کی رائے معیار سمجھی جاتی، مباحثِ حدیثیہ میں آپ کی توضیحات حجت مانی جاتیں، اور معارفِ قرآنیہ میں آپ کے  اشاراتِ محضہ بھی تشریح و تأویل کے نئے دروازے کھول دیتے تھے، ایسی ہمہ گیر اور آفاقی شخصیت، اور ان کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں کو اُجاگر کرنا تحقیق  کے ساتھ علمی امانت کی ادائیگی اور تراثِ ملت کو زندہ رکھنے کی سعی محمود بھی ہے۔

اسی پس منظر میں حجۃ الاسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف دیوبند کا امام العصر علامہ کشمیریؒ کے علوم و خدمات پر سیمینار منعقد کرنا ’’کار‘‘ نہیں؛ ایک عظیم ’’کارنامہ‘‘ اور خدمتِ تراث کا درخشندہ مینار ہے۔ اکیڈمی نے جس حسن ترتیب، نفاست فکر، وقار علمی اور تحقیق جدید کے دلکش معیار کے ساتھ اس علمی وفکری ذخیرے کو پیش کرنے کا  انتظام؛ بلکہ اہتمام کیا ہے ، وہ اس کے بلند پایہ علمی شعور، پاکیزہ مقصد اور اپنے اکابر کے ساتھ قلبی و روحانی نسبت کی روشن علامت ہے۔

اکیڈمی نے حضرت العلامہ کی شخصیت کے تقریباً ہر پہلو: حدیث و فقہ، تفسیر و کلام، اصول و تاریخ، شعرو ادب، منطق و علمِ کلام، سوانحی نقوش، درسگاہی خدمات اور دیگر جملہ علمی اثرات، کو تحقیقی دائرے میں سمو کر نئی نسل کے سامنے نہایت واضح، مربوط اور دقیق انداز میں پیش کرنے کا جو اہتمام کیا ہے، وہ دراصل ماضی کی علمی عظمت سے تجدیدِ رابطہ، روحانی نسبتوں کی تجدیدِ وفا، اور فکرِ دیوبند کی اصل روح سے ازسرِنو آشنائی کی کامیاب کوشش ہے۔

یہ اقدام، فضلاء جدید کے لئے فکری سمت، فنی پختگی اور تحقیقی روش کا سنگِ میل بھی مہیا کرتا ہے، بالخصوص نو فاضلین ترجیحی بنیادوں پر اس سیمینار کی علمی فضاؤں سے بھرپور استفادہ کریں، اس میں پیش کردہ مباحث و مضامین کو غور و تدبر سے پڑھیں، اور علامہ کشمیریؒ کی فکری عظمت و تحقیقی منهج سے اپنی علمی زندگی کو وابستہ کریں!

اللہ تعالیٰ حجۃ الاسلام اکیڈمی کی اس سعی مشکور کو دوام بخشے، اس کے چراغِ علم و تحقیق کو تازگی اور تابندگی عطا فرمائے، اور ہمیں علامہ کشمیریؒ کی علمی و روحانی میراث سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔ آمین۔

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_18.html



صحت نکاح کے لئے گواہوں کی موجودگی ضروری ہے؛ ولی کی نہیں

صحت نکاح کے لئے گواہوں کی موجودگی ضروری ہے؛ ولی کی نہیں

-------------------------------
-------------------------------
سوال یہ ہے کہ باپ کے ہوتے ہوئے نکاح میں گواہ کا ہونا ضروری ہے؟ ہاں یا نہیں

اگر نہیں تو لا نكاح الا بولي و شاهدين أم كما قال کا معنی و مطلب کیا ہوگا؟ امید ہے مفتیان کرام توجہ فرمائیں گے. ان شاء اللہ تعالیٰ

الجواب وباللہ التوفیق: 

صحتِ نکاح کے لئے گواہ شرعی کا ہونا ضروری ہے. حنفیہ کے یہاں عاقلہ بالغہ اپنا نکاح خود بھی کر سکتی ہے، ولی کی موجودگی ضروری نہیں؛ بہتر ہے۔

حدیث ولا نكاح إلا بولي، وشاهدي عدل 

کو محدثین (یحيیٰ بن معین، احمد بن حنبل، اسحاق وغیرھم) نے ضعیف کہا ہے، لہٰذا حنفی مذہب کے نزدیک اس سے استدلال مضبوط نہیں ہے۔ عورت اپنی ذات کے حقوق کی مالک ہے؛ جس طرح اپنے مال میں تصرف کرسکتی ہے، اسی طرح نکاح میں بھی خود تصرف کرسکتی ہے، بشرطیکہ کفو (ہمسری) اور مہرِمثل کا لحاظ رکھا گیا ہو؛ البتہ کفو کا حق اولیاء کا ہے، اس لئے وہ اس حق کو ختم نہیں کرسکتی. اس بابت تفصیلی واقفیت کے لئے ناچیز کے مضمون "ولی کے بغیر عاقلہ بالغہ کا نکاح" 1756) کی طرف مراجعت کی جاسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب 

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_12.html


Thursday, 11 December 2025

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

     اگر ایک مرد کو کئی شادیوں کی اجازت نہ دی جائے تو یہ فاضل عورتیں ہیں بالکل معطل اور بیکار رہیں گی کون ان کی معاش کا کفیل اور ذمہ دار بنے گا اور کس طرح یہ عورتیں اپنے کو زنا سے محفوظ رکھیں۔ بس تعددِ ازدواج کا حکم کسی عورتوں کا سہارا ہے اور ان کی عصمت اور ناموس کی حفاظت کا واحد ذریعہ ہے اور ان کی جان اور آبرو کا نگہبان اور پاسبان ہے عورتوں پر اسلام کے اس احسان کا شکر واجب ہے۔ {حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی رحمت اللہ علیہ}

    اگر آپ کے شوہر کو اپنے اوپر یہ اعتماد ہے کہ دوسری شادی کرنے کے بعد آپ کے درمیان اور نئی بیوی کے درمیان عدل (برابری) کرلیں گے تو ان کے لیے آپ کو بتائے بغیر بھی شرعاً نکاح کرنا صحیح ہے، ایسی صورت میں آپ کو بھی اعتراض نہ کرنا چاہیے: ”في البزازیة: لہ امرأة أو جاریة فأراد أن یتزوج أخری، فقالت اقتل نفسي، لہ أن یأخذ ولا یمتنع؛ لأنہ مشروع قال اللہ تعالیٰ: لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاةَ اَزْوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ“ (الفتاوی البزازیة علی الہندیة)

ترجمہ: اگر کسی شخص کی بیوی یا باندی ہو، پھر وہ دوسری عورت سے نکاح کرنا چاہے، تو اس کی بیوی یہ کہے کہ اگر تم نے دوسری شادی کی تو میں خود کو قتل کر لوں گی، تو مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ دوسری شادی کرے اور اس کی دھمکی کی وجہ سے رکنا اس پر لازم نہیں؛ کیونکہ نکاح کرنا شرعاً جائز عمل ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اے نبی! آپ کیوں حرام کرتے ہیں اس چیز کو جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے، اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں؟ اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔“ (التحریم: ۱)

     البتہ حتی الامکان مرد کو چاہیے کہ ایک سے زائد نکاح سے پرہیز کرے خصوصاً ایسے علاقوں میں جہاں تعدد ازدواج کا زیادہ رواج نہیں ہے؛ اس لیے ایک سے زیادہ نکاح کرنے میں بسا اوقات زندگی کا سکون چھن جاتا ہے، دو سوکنوں کے ساتھ گھر بسانا اور ان کے ساتھ نباہ کرنا بہت مشکل کام ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”موجودہ حالات میں بغیر سخت مجبوری کے دوسرا نکاح ہرگز نہ کرنا چاہیے“ (اسلامی شادی، ص: ۲۵۵) ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: ”دو بیویوں میں نباہ حکومت کرنے سے زیادہ مشکل ہے“ (حوالہ سابق، ص:۲۵۳) {دارالافتاء دار العلوم دیوبند}

{شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ}:

     جن عورتوں سے نکاح جائز نہیں ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا : وان تجمعوا بين الاختين اور یہ بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرلو، ذرا سوچئے کہ قرآن کریم نے یہاں دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنے سے کیوں منع فرمایا ؟ اور اگر دو باہم اجنبی عورتوں سے بیک وقت نکاح کا عام رواج عہد رسالت میں نہ ہوتا تو اس تنبیہ کی کیا ضرورت تھی کہ دیکھو دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں نہ رکھ لینا ؟ اس تنبیہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عہد رسالت میں تعدد ازدواج کا عام رواج تھا جس کی بناء پر یہ اندیشہ تھا کہ کوئی شخص دو بہنوں سے نکاح نہ کرے، اس لئے اللہ تعالٰی نے اس فعل کو صراحۃً ممنوع قرار دے دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود مغرب میں یک زوجی کا یہ اصول مرد کے لئے کتنے ہی سامان تعیش پیدا کر رہا ہو، عورت کے لئے ایک ایسا عذابِ جان بن چکا ہے کہ اُن کی مظلومیت آج اس مظلومیت سے بدرجہا زیادہ ہے جس کا بڑے سے بڑا تصور تعدد ازواج کی صورت میں کیا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ وہاں کے منصف مزاج مفکرین عورت کی اس المناک مظلومیت کو محسوس کر کے یک زوجی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام حقائق کو کھلی آنکھوں دیکھنے کے باوجو بھی اگر ہم اپنے یہاں تعددِ ازواج کو نا جائز قرار دینا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ اقدام کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ اگر ہم نے بھی یہاں " یک زوجی " کا قانون بنا دیا تو ہمارے معاشرے کے طول و عرض میں بھی فحاشی اور جنسی جرائم کی وہی داستانیں دہرائی جائیں گی جو یورپ اور امریکہ میں قدم قدم پر عام ہو چکی ہیں، تعددِ ازواج کو ممنوع قرار دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم بھی اپنے یہاں کی عورت پر وہی ظلم کرنا چاہتے ہیں جس کا مظاہرہ دو صدیوں سے یورپ اور امریکہ میں ہو رہا.

(حکومت نے تعدد ازدواج پر بہت سی شرطیں لگاکر ناقابل عمل بنا دیا تھا اس کے رد میں حضرت نے ایک مقالہ لکھا تھا۔ جس کے یہ اقتباسات ہیں)

------

قسط دوم:

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

{حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ}: 

      حضرت حاجی نے آخر عمر میں نکاح (ثانی) کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت کی پیرانی صاحبہ ( پہلی بیوی ) نا بینا ہوگئی تھیں یہ بی بی حضرت کی بھی خدمت کرتی تھی اور پیرانی صاحبہ کی بھی۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ عورت محض شہوت کے لیے تھوڑی کی جاتی ہے اور بھی مصلحتیں اور حکمتیں ہیں۔

     خود عورتوں کو بعض وقت ایسی مجبوریاں آپڑتی ہیں کہ اگر ان کے لیے یہ راہ کھلی نہ رکھی جائے کہ وہ ایسے مردوں سے نکاح کر لیں جن کے گھروں میں پہلے سے عورتیں موجود ہیں تو اس کا نتیجہ بدکاری ہوگا کیونکہ ہر سال دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں لاکھوں مردوں کی جانیں لڑائیوں میں تلف ہو جاتی ہیں اور عورتیں بالکل محفوظ رہتی ہیں اور ایسے واقعات ہمیشہ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور جب تک دنیا میں مختلف قومیں آباد ہیں ایسے واقعات ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور ہمیشہ مردوں کی تعداد میں کمی ہو کر عورتوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔

     اس کی اجازت بلا کراہت کے منصوص قطعی ( قرآن سے ثابت) ہے اور سلف میں بلا نکیر رائج تھا اس میں کراہت یا حرمت کا اعتقاد یا دعویٰ اور اس کی بناء پر آیات قرآنیہ ہیں تحریف کرنا سراسر الحاد و بد دینی ہے۔

عدل پر قدرت کے باوجود بغیر ضرورت کے دوسری بیوی کرنے کی مذمت:

    اور عدل کرنے کی صورت میں مرد پر یہ الزام تو نہیں لیکن پریشانی میں تو پڑگیا جس کے بڑھ جانے سے بعض اوقات دین میں خلل پڑنے لگتا ہے اور بعض اوقات صحت و عافیت میں خلل پڑنے لگتا ہے ) اور اس کے واسطے ہے کبھی دین میں بھی خرابی آجاتی ہے جہاں اس کا ظن غالب ہو (یعنی کئی بیویاں کرنے اور ان میں انصاف کرنے کی وجہ سے خود اس کے پریشانی میں پڑ جانے اور دین میں خرابی آجانے کا ظن غالب ہو) ایسی پریشانی سے بچنا ضروری ہے اور پریشانی کے اسباب سے بھی بچنا ہوگا اور وہ تعدد ازواج (کئی بیویاں کرنا ) ہے۔ اگر یہ بچنے کا لزوم واجب شرعی نہ بھی ہوتا تاہم عقل کا مقتضی تو ضرور ہے کیونکہ بلاوجہ پریشانی مول لینا عقل کے خلاف ہے۔ 

    مجھ کو (حضرت تھانوی رحمہ الله) اس قدر دشواریاں اس میں پیش آئیں ہیں کہ اگر علمِ دین اور حسنِ تدبیر حق تعالٰی نہ عطا فرماتے تو ظلم سے بچنا مشکل تھا سو ظاہر ہے کہ اس مقدار میں علم اور اس قدر اہتمام کا عام ہونا بہت مشکل ہے نیز ہر شخص کو نفس کا مقابلہ کرنا بھی مشکل کام ہے (ایسے حالات میں ) اب تعدد ازواج ( کئی بیویاں رکھنا ) بجز اس کے حق ضائع کرکے گنہگار ہوں کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

یہ (مذکورہ بالا) حقوق تو واجب تھے بعض حقوق مروت کے ہوتے ہیں گو واجب نہیں ہوتے مگر ان کی رعایت نہ کرنے سے دل شکنی ہوتی ہے جو رفاقت کے حقوق کے خلاف ہیں ان کی رعایت اور بھی دقیق ہے غرض کوئی شخص واقعات و معاملات کے احکام علم سے پوچھے اور پھر عمل کرے تو نانی یاد آ جائے گی اور تعدد ازواج سے توبہ کرلے گا۔ (۱ اصلاح انقلاب صفحہ ۸۴)

بغیر سخت مجبوری کے دوسری شادی کرنے کا انجام:

     موجودہ حالات میں بغیر سخت مجبوری کے دوسرا نکاح ہرگز نہ کرنا چاہیے اور مجبوری کا فیصلہ نفس سے نہ کرانا چاہیے بلکہ عقل سے کرانا چاہیے بلکہ عقلاء کے مشورہ سے کرنا چاہیے۔ اور پختگی سن ( عمر ڈھل جانے کے بعد ) دوسرا نکاح کرنا پہلی منکوحہ کو بے فکر ہو جانے کے بعد اس کو فکر میں ڈالنا ہے اور جہالت تو اس کا لازمی حال ہے وہ اپنا رنگ لائے گا اور اس رنگ کے چھینٹے سے نہ ناکح (نکاح کرنے والا مرد ) بچے گا نہ منکوحہ ثانیہ ( دوسری بیوی ) بچے گی خواہ مخواہ علم کے دریا بلکہ کے خون کے دریا میں سب غوطے لگا ئیں گے۔ خصوصاً جب کہ مرد عالم دین اور متحمل بھی نہ ہو علم نہ ہونے سے تو وہ عدل کی حد کو نہ تھے اور قل برداشت کا مادہ نہ ہونے کی وجہ سے ان حدود کی حفاظت نہ کر سکے گا اس وجہ سے وہ ضرور قلم میں مبتلا ہوگا چنانچہ عموماً کئی بیویوں والے لوگ ظلم و ستم کے معاصی (گناہ) میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ (۲) ایضاً صفحہ ۲۸۳)

       دو شادی کرنا پل صراط پر قدم رکھنا اور اپنے کو خطرہ میں ڈالنا ہے مجھے دوسری بیوی کرنے میں بہت ساری مصلحتیں ظاہر ہوئیں مگر یہ مصلحتیں ایسی ہیں جیسے جنت کے راستہ میں پل صراط کو بال سے زیادہ باریک تلوار سے زیادہ تیز جس کو طے کرنا سہل کام نہیں اور جو طے نہ کر سکا وہ سیدھا جہنم میں پہنچا اس لیے ایسے پل پر خود چڑھنے کا ارادہ ہی نہ کرے۔

ان خطرات اور ہلاکت کے موقعوں کو پار کرنے کے لیے جن اسباب کی ضرورت ہے وہ ارزاں (سستے ) نہیں ہیں دین کامل عقل کامل نور باطن ریاضت سے نفس کی اصلاح کر چکنا (یہ سب اس کے لیے ضروری ہیں)۔

چونکہ ان سب کا جمع ہونا شاذ ہے اس لیے تعدد ازواج ( کئی بیویوں کے چکر میں پڑتا ) اپنی دنیا کو تلخ اور برباد کرنا ہے یا آخرت اور دین کو تباہ کرتا ہے۔

 (۱اصلاح انقلاب: بحوالہ اسلامی شادی)

......

قسط سوم:

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

     آج سے سو سال پہلے نہ اس قدر مدارس تھے نہ خانقاہیں اور نہ ہی جماعتوں کی زیادہ آمد و رفت تھی، لیکن بے حیائی کم تھی۔ اب مدارس کی فراوانی ہے، خانقاہیں بھی کم نہیں اور جماعتیں بھی بے حد و حساب نکل رہی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ بے حیائی افزوں تر ہوتی جارہی ہے، فحاشی کے اڈے کھلے ہوئے ہیں، سنیما گھر بھرے ہوئے ہیں، زنا کا عموم ہے۔ میری سمجھ میں یہ آتا ہے بچوں(مولانا نے زور دیتے ہوئے کہا اور سلسلہ کلام روانی سے چلتا ہے، ہم پر بھی سکوت طاری تھا گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہوں) فرمایا: تعددِ ازدواج کو رواج دینا چاہیے۔جب لوگ کئی کئی نکاح کریں گے تو فحاشیت دم توڑ دے گی،قَحبہ خانے ویران ہو جائیں گے، زنا کا دروازہ بند ہو جائے گا، شیطان کی کوششیں ماند پڑ جائیں گیں۔ سب اپنی اپنی مشغولیوں میں، متعدد بیویوں کی ذمہ داریوں میں لگے ہوں گے تو سنیما گھر  سونے سونے معاشرہ سہانہ سہانہ اور بیویاں شونا شونا لگے گیں۔"  {حضرت مولانا رشید احمد صاحب سلوڑی رحمۃ اللہ علیہ}

    ہمارے دیار میں ہنود کے ہاں جہیز  اور بے فائدہ نقصان دہ رسومات کی وجہ سے بیٹیوں کی شرح پیدائش کم ہے اور مسلم معاشرہ میں بکثرت اور فزوں تر۔ جس کا نتیجہ یہ کہ ان کے لڑکوں کو ان کے معاشرہ میں رشتۂ ازدواج مل نہیں پاتا۔ اس لئے وہ ہمارے معاشرہ کا رخ کرتے ہیں. اس لیے ہمارے معاشرہ میں تعدد ضروری اور لابدی امر ہے. اور تعدد ازدواج کے جو مفاسدِ موھمہ ذکر کئے جاتے ہے وہ ترکِ ایمان کے مقابلہ میں اخف ہیں لہذا اخف الضررین کو اختیار کیا جانا ہی اصل الاصول ہے. رہی بات ہماری اکابر کی تو وہ حالت گھروں کے عمومی ماحول کے زیرِ اثر ہے۔ {حضرت مولانا قاضی مفتی حفظ الرحمن صاحب دامت برکاتہ}

    فرمایا: "کہ میں ذاتی طور پر ایسے واقعات جانتا ہوں کہ عورتیں اپنے تئیں جانتی ہیں کہ وہ اب بعض عوارض کی وجہ سے شوہر کے لائق نہیں رہیں۔ وہ اپنے شوہروں کو گناہ (زنا) کے مواقع فراہم کر کے دیتی ہیں لیکن دوسرا نکاح نہیں کرواتیں۔" {حضرت مولانا مفتی محمود صاحب بارڈولی}

----

قسط چہارم :

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

    میں کسی کو دوسری شادی کا مشورہ نہیں دیتا۔ حد شریعت اور ہے مزاج شریعت اور ہے لوگ حدود کی رعایت کرتے ہیں تو مزاج شریعت کی رعایت نہیں کرتے۔

     عموماً کوئی اپنی بچی بحیثیت دوسری بیوی کے تین وجہوں سے دیتا ہے: 

۱) یا تو آپ کے پاس مالی فراوانی ہے لڑکی والے سوچتے ہیں کہ ہم غریب ہیں ہمیں بھی کچھ پیسے مل جائیں  گے۔ 

۲) یا آپ مشہور شخصیت با کمال انسان ہیں کہ آپ سے نسبت جڑ جانا اچھی بات ہے 

۳) یا اس وجہ سے کہ لڑکی کا معاشقہ ہوگیا ہے اب وہ بیٹی کے ہاتھوں مجبور ہیں۔

میں (گھمن صاحب) عرض کرتا ہوں: دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت شرط نہیں ہے لیکن اس کو اعتماد میں لینا چاہیے کہ میرا شوہر مجھ پر ظلم نہیں کرے گا۔ {حضرت مولانا الیاس گھمن صاحب مدظلہ}

     حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں جہاں کہیں قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ایک سے زیادہ نکاح کی ممانعت کی گئی ہے وہاں غیر قانونی تعددِ ازواج کا ایسا طوفان اٹھا ہے کہ شاید شیطان بھی ان کو دیکھ کر شرماتا ہوگا، موجودہ دور کا مغربی سماج اس کی کھلی ہوئی مثال ہے؛ اس لئے اسلام نے مردانہ فطرت کی رعایت کرتے ہوئے اس کی گنجائش رکھی ہے ؛ لیکن اس کو نہ واجب و ضروری قرار دیا ہے، نہ مستحب و مرغوب ، اور اس میں بھی یہ شرط عائد کی ہے کہ ایک سے زیادہ نکاح سنجیدہ جذبہ کے تحت کیا جائے، پہلی بیوی کو ضرر پہنچانا مقصود نہ ہو۔ (مولانا مفتی خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم)

{مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم}:

     ہم دوسری شادی کی مخالفت نہیں کرتے کر ہی نہیں سکتے ہیں جب اللہ تعالی نے اجازت دی ہے تو کیسے کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم آگاہ کرتے ہیں کہ اگر دوسری شادی کرو گے تو عدل و انصاف کرنا مشکل ہو جائے گا تو جو بندہ آخرت کی ذلت سے ڈرتا ہے وہ بچے۔

     کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دوسری شادی کرنے کے بعد ایک بیوی بن کے رہتی ہے دوسری بیوہ بن کے رہتی ہے۔دوسری شادی کے جو فرائض ہیں اس سے ڈرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس چکر میں مت پڑو جہاں تک ضرورت کا معاملہ ہے تو بیوی صحت مند ہیں تو ضرورت پوری ہو سکتی ہے اور جہاں تک چاہت کا اور شہوت کا معاملہ ہے، یہ نہیں پوری ہوتی جتنی مرضی ہو جائے۔ (انتھی کلامہ)

     ایک صاحب بیوہ سے نکاح کرنا چاہتے تھے، جس کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، اس بیوہ کا بیان یہ تھا کہ اگر یہ مجھ سے نکاح نہ کرتا تو میں لازماً زنا میں مبتلا ہوجاتی۔ 

میں نے شادی کا مشورہ دیا تو مرد نے کہا کہ میری بیوی مرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔ تو میں (مفتی طارق مسعود صاحب) نے کہا مرنے دو۔ آپ کو گناہ نہیں ہوگا۔ اس کے حقوق میں کوتاہی نہ کرو۔ لیکن ایک شریعت کا حکم ہے بیوہ کا کہیں سے رشتہ نہیں آرہا بات طے ہوگئی ہے، حقوق بھی دونوں کے ادا کرسکتے ہو، پھر بھی اگر کوئی خود کشی کر کے مرتا ہے تو یہ اس کی کوتاہی ہے۔

{مفتی طارق مسعود صاحب مدظلہ}

    لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ تعددِ ازدواج کی اجازت ایک معاشرتی ضرورت ہے اور بہت سی دفعہ اس سے نہ صرف شوہر کی ضرورت پوری ہوتی ہے، بلکہ پہلی بیوی کے حق میں بھی یہ مفید ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس سماج میں تعددِ ازدواج کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی اجازت نہیں دی جاتی، وہاں قانونی طور پر تو ایک ہی بیوی ہوتی ہے، لیکن غیر قانونی تعلقات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، مغربی ممالک آج اس کی واضح مثال ہیں۔

`(حضرت سید نظام الدین جنرل سیکرٹری مسلم برسنل لا بورڈ)`

     سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں جب عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو تو اس مشکل اور پیچیدگی کا کیا حل ہے؟ اگر عورتوں کی اس کثیر تعداد کو غیر شادی شدہ مرد نکاح کے لئے نہ ملے تو آخر وہ کیا کریں؟ زندگی بھر اپنی فطری خواہشات کو قربان کریں، شادی، شوہر، ازدواجی حقوق اور ماں بنے کی نعمت سے محروم رہیں، یا اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے اپنی عفت و عصمت کو پامال کریں اور بدکاری و بے حیائی کی راہ پر چل کر ملک و معاشرہ میں اخلاقی گندگی اور صنفی انارکی پھیلائیں یا اس کا ایسا حل پیش کیا جائے جس سے عورت کی عزت و شرافت بھی محفوظ رہے اور خاندان وسماج کی پاکیزگی بھی برقرار رہے اور جنسی برائی سر نہ اٹھائے، ظاہر ہے کہ یہ دوسرا حل جو اسلام نے پیش کیا ہے وہ پہلے کے مقابلے میں ہر لحاظ سے بہتر ہے۔

  احادیث سے مرد کے نکاح میں چند بیویوں کا ہونا تو تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ عہد رسالت میں صحابہ کرام میں سے بہت سے حضرات نے متعدد شادیاں کیں لیکن انہوں نے عدل کو ملحوظ رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ خلیفه دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کےدورِ خلافت میں ایک بیوہ خاتون ام ابان کو حضرت عمرؓ، حضرت عؓلی بن ابی طالب ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے پیغام نکاح پیش کیا، انہوں نے حضرت طلحہؓ کے پیغام کو قبول کر کے باقی کو مسترد کر دیا، ان چاروں کے نکاح میں پہلے سے بیویاں موجود تھیں۔۔۔۔۔۔۔اسلام شخصی اور اجتماعی ضرورتوں کی تکمیل، اخلاقی اقدار کی حفاظت اور فحش کاریوں کے سدِ باب کے لئے تعددِ ازدواج کو قانونی جواز عطا کرتا ہے، تا کہ اگر ایک شخص اپنی ذاتی یا سماجی اور ملکی مصالح کے پیش نظر ایک سے زیادہ عورتوں سے تعلق کی ضرورت محسوس کرے تو وہ شرعی، اخلاقی اور قانونی حدود میں رہ کر نکاح کے ذریعہ اسے اپنی حرم میں داخل کرے، اور ازدواجی رشتہ کی بنیاد پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو قبول کرے۔

{مولانا نورالحق صاحب رحمانی}

.....

قسط پنجم : 

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

     مشہور انگریز صاحب قلم جارج برناڈ شاہ اسلام کے اس الٰہی قانون کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    "اس میں کوئی بڑی حکمت ہے کہ مرد عورتوں کے مقابلہ میں زیادہ خطرات کا نشانہ بنتے ہیں، اگر عالم انسانیت پر کوئی بڑا حادثہ ٹوٹ پڑے جس کی وجہ سے تین چوتھائی مرد ہلاک ہو جائیں اور اس وقت اگر شریعت محمّدی پر عمل کر کے ہر مرد کے لئے چار بیویاں ہوں تو تھوڑی ہی مدت میں مردوں کی تلافی ہو جائے گی، جرمنی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد عورتوں نے تعدد ازدواج کا پر زور مطالبہ کیا۔"  (مسئلہ تعدد ازدواج مؤلفه شیخ عبدالعزيز العلی القناعی ص ۱۹)

    أظهرت جمعية النساء العزل تحرجها من فقدان البعولة وسألت الحكومة أن يسمح لهن بسنة تعدد الزوجات الاسلامية حتى يتزوج من شاء من الرجال بأزيد من واحدة و يرتفع بذالك غائلة الحرمان، غير أن الحكومة لم تجبهن في ذلك و امتنعت الكنيسة من قبوله و رضيت بفشو الزنا و شيوعه و فساد النسل (الميزان في تفسير القرآن (۱۹۴/۴)

افریقی مشنریوں کے ذریعہ تعددِ ازدواج کے خاتمہ کا نتیجہ یہ نکلا ہے عصمت فروشی و محبہ گری میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے، اس حد تک کہ تنہا یوگنڈا کو بیس ہزار پونڈ سالا نہ امراض خبیثہ کی روک تھام پر صرف کرنا پڑ رہا ہے، رہے اخلاقی عواقب و نتائج تو وہ بدترین اور نا قابل بیان ہیں۔  (تعدد ازدواج مؤلفہ سید حامد علی )

    شیخ عبداللہ مراغی اپنی کتاب "الزواج والطلاق في جميع الأديان“ میں فرانس کے بارے میں لکھتے ہیں: حکومتِ فرانس کے ایک سرکاری افسر نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ کیمپوں میں حرامی بچوں کی تعداد ایک کثیر حد تک پہونچ گئی ہے جو ملک کے لئے پریشان کن مسئلہ ہے اور یہ محض تعددِ ازدواج سے ممانعت کا نتیجہ ہے۔ یک زوجگی کی مشکلات بعض معاشروں کے لئے بہت پریشان کن ہے اور فوری حل تلاش کرتی ہے۔  (ص۱۶۰ بحوالہ المقارنات والمقابلات)

    اگر قانونی تعدد کو اختیار نہیں کرتے تو غیر قانونی تعدد کو لازماً گوارہ کرنا ہوگا جس کے نقصانات قانونی تعدد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ ترکی جو مسلم اکثریت کا ملک ہے اس نے ۱۹۲۶ء میں اسلام کے اس قانون کے خلاف ایک شہری قانون نافذ کیا جس کی رو سے تعددِ ازدواج نا جائز قرار پایا لیکن آٹھ سال ہی گذر پائے تھے کہ ناجائز ولادتوں ، خفیہ غیر قانونی داشتاؤں و خفیہ طور پر قتل کئے گئے بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے حکومت کے اربابِ حل و عقد کو اس قانون پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کردیا. ( ماذا عن المرأة ص: ۱۵۱)

      خلاصۂ کلام یہ کہ تعددِ ازدواج انسانی معاشرہ کی ایک ناگزیر اور فطری ضرورت ہے، اسی بنا پر ہر زمانے، ہر معاشرے اور ہر مذہب و ملت میں اس کا رواج رہا ہے اور موجودہ حالات نے عالمی سطح پر اس کی ضرورت پیدا کر دی ہے، لہذا فرد اور سماج کو پاکیزہ رکھنے اور اخلاقی گندگی و جنسی آلودگی سے بچانے کے لئے اسے قانونی جواز عطا کرنا ضروری ہے۔ {مولانا نورالحق صاحب رحمانی}

{فتوى سماحة الشيخ عبد العزيز بن عبدالله بن باز (حفظه الله) في تعدد الزوجات}

س - هل الأصل في الزواج التعدد أم الواحدة؟

ج - الأصل في ذلك شرعية التعدد لمن استطاع ذلك ولم يخف الجور لما في ذلك من المصالح الكثيرة في عفة فرجه وعفة من يتزوجهن والإحسان إليهن وتكثير النسل الذي به تكثر الأمة ويكثر من يعبد الله وحده ويدل على ذلك قوله تعالى : ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ الْنِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا ... ولأنه تزوج أكثر من واحدة، وقد قال الله سبحانه وتعالى: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ . . وقال ﷺ لما قال بعض الصحابة : أما أنا فلا آكل اللحم وقال آخر أما أنا فأصلي ولا أنام وقال آخر أما أنا فأصوم ولا أفطر، وقال آخر أما أنا فلا أتزوج النساء، فلما بلغ خطب الناس فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : «إنه بلغني كذا وكذا ولكني أصوم وأفطر وأصلي وأنام وآكل اللحم وأتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني وهذا اللفظ العظيم منه الله يعم الواحدة والعدد والله ولي التوفيق ۔

س ـ هل تعدد الزوجات مباح في الإسلام أو مسنون؟

ج - تعدد الزوجات مسنون مع القدرة لقوله تعالى :

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا ولفعله عليه الصلاة والسلام فإنه قد جمع تسع نسوة ونفع الله بهن الأمة وهذا من خصائصه عليه الصلاة والسلام أما غيره فليس له أن يجمع أكثر من أربع ولما في تعدد الزوجات من المصالح العظيمة للرجال والنساء وللأمة الإسلامية جمعاء فإن تعدد الزوجات يحصل به للجميع غض الأبصار وحفظ الفروج وكثرة النسل وقيام الرجال على العدد الكثير من النساء بما يصلحهن ويحميهن من أسباب الشر والانحراف أما من عجز عن ذلك وخاف ألا يعدل فإنه يكتفي بواحدة لقوله سبحانه : ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةٌ .

وفق الله المسلمين جميعاً لما فيه صلاحهم ونجاتهم في الدنيا والآخرة۔

......

قسط : ٦

تعدد ازدواج - سوال ان کے جواب ہمارے 

سوال: 

(۱) دیکھا؟ میں نے کہا تھا نا ۔۔۔۔ اکابر سے تعددِ ازدواج پر۔۔۔۔ تشجیع اور برانگیختہ کرنا منقول نہیں ہے۔۔۔۔ بلکہ عام حالات میں تکفف اور رکے رہنے کی تلقین ثابت ہے۔۔۔۔ کہ تعددِ ازدواج اڑتی ہوئی مصیبت کو گلے میں لینا ہے۔۔۔۔اکثر حضرات نے تعددِ ازدواج کو اجازت و اباحت ہی تک محدود کیا ہے۔۔۔۔ سنت کہنے والے بعض معاصرین علمائے عرب ہیں۔۔۔۔اور جن اکابر نے تعدد کے حق میں بات کی ہے۔۔۔۔ انھوں نے حکمتیں گنوائی ہیں ۔۔۔۔ حکمتوں کا بھی اگرچہ منقبت و مزیت میں دخل ہے۔۔۔ لیکن یہ حکمتیں ان لوگوں کے خلاف شمار کرائی ہیں۔۔۔ جو تعدد کو شجرِ ممنوعہ قرار دیتے ہیں۔۔۔۔ خلاف از قیاس اور غیر معقول قرار دیتے ہیں۔۔۔۔ اور ان پر قانونی پابندی لگانا چاہتے ہیں۔۔۔۔ یہ اسرار و رموز ایک پر اکتفاء کو پسند کرنے والے ۔۔۔ اور معاشرے کو یک زوجی پر ابھارنے والے کی طرف نظر کرتے  ہوئے نہیں ہے۔ افضل اور بہتر یک زوجی ہی ہے۔ یک گیر محکم بگیر۔

     اگر تعدد اور کثرتِ زوجات افضل اور مطلوبِ الہی اور مرغوب عند الشرع ہے تو میرے چند سوالوں کے جوابات دیجیے۔

(۲) حضرت آدم علیہ السلام کو جب دنیا میں بھیجا گیا تو ان کو ایک ہی زوجہ محترمہ دی گئی۔ پتا چلا کہ تعدد ضرورتِ انسانی میں داخل نہیں۔ قرآن میں ہے و جعل منھا زوجھا ۔۔۔ زوجاتھا نہیں ہے۔

(۳) ایک حدیث اپ بتا دیجیے جس میں تعدد کی فضیلت آئی ہو؟

(۴) آپ ﷺ نے کبھی کسی صحابی کو دوسرے نکاح پر نہیں ابھارا نہ کسی عورت کو کہا کہ آپ دوسری بیوی بن جائیں۔

(۵) خود حضرت نبیِ کریم ﷺ نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں فرمایا جب تک آپ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ الکبری رضی الله تعالی عنہا حیات تھیں۔ 

(۶) اور آپ کے دامادوں نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں کیا جب تک ان کی پہلی بیوی یعنی نبیِ کریم ﷺ کی پاک بیٹیاں حیات تھیں۔

(۷) بلکہ حضرت علی رضی الله تعالی عنہ کو تو روکنا ثابت ہے۔

جواب:

    حضرات علماء نے یہ بات لکھی ہے کہ سنت کہا جاتا ہے "ما اضیف الی النبی ﷺ من قول او فعل او تقریر" 

پھر فرمایا "و اما افعالہ من حیث العبادت فھو السنن الھدی و من حیث العادت السنن الزوائد"۔

یعنی نبیِ کریم ﷺ کے قول و فعل اور تقریر کو سنت کہتے ہیں (الا یہ کہ وہ نبیِ کریم ﷺ کے ساتھ خاص نہ ہو اور منسوخ نہ ہو)۔ اور جو کام آپ نے از راہِ عبادت کیے ہیں وہ سنت ِ مؤکدہ اور سننِ ھدی ہیں اور جو کام آپ نے از راہِ عادت کیے ہیں وہ بھی سنت ہیں لیکن سننِ زوائد ہیں۔  اور آپ کے طریقہ اور سنت کی تأسی (اسوہ اختیار کرنا) مطلوب عند الشرع اور مرغوبِ الہی ہے۔ لقد کان لکم فی رسول الله اسوۃ حسنۃ۔

      پھر آپ کے اوصاف کو بھی بعض علماء نے سنت کی تعریف میں شامل کیا ہے۔ یعنی اوصاف خلقی (بفتح الخاء) یعنی آپ کا ظاہری حلیہ اور خد و خال۔ یعنی کوشش اس بات کی کریں کہ پیٹ اور سینہ ایک سطح پر رہے۔ چلنے میں رفتار بطریق تکفی رہے (یعنی قدم مضبوطی سے اٹھاتے ہوئے آہستہ رکھتے ہوئے ہلکی تیز رفتار لیے ہوئے خمیدگی سے چلنا گویا ڈھلان سے اتر رہے ہو) جب بعض ان اوصاف میں بھی تأسی محبوب ہے جس میں اختیار نہیں ہوتا تو جو آپ نے با اختیار کیے ہیں وہ کیوں کر محبوب عند اللہ نہیں ہوں گے۔

     ذرا مجھے بتائیں کسی کام کے دو پہلو ہیں دونوں جائز ہیں۔ کیا الله تعالی اپنے محبوب کو  کسی ایسے پہلو پر علی سبیل الدوام باقی رکھیں گے جو غیر افضل ہے۔ جس نبی کریم ﷺ کی اطاعت اختیار کرنے کا حکم الله تعالی کو جگہ جگہ دینا ہو۔ کیا دنیا کا کوئی بادشاہ جو بہت سی چیزوں پر قابو یافتہ ہو اپنے محبوب کو دو چیزوں میں سے کم اہم چیز دے کر کریم اور سخی کہلا سکتا ہے۔ تو مالک الملوک کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

     ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ تعددِ ازدواج کا ثبوت جواز و اباحت تک ہے لیکن مباح ہونے اور سننِ زوائد ہونے میں تباعد و استحالہ نہیں ہے۔ یہ ایسا مباح نہیں ہے جیسا آئس کریم کھانا مباح ہے۔

یہ ایسا ہے مباح جس میں بہت سی شرعی و ملکی و ذاتی مصلحتیں پنہا ہیں۔ 

     میں بغیر تشبیہ دیے کہہ سکتا ہوں جیسے مدرسہ میں رہ کر تعلیم حاصل کرنا وغیرہ مباح ہیں. لیکن اس میں بہت دینی و شرعی منصوص مصلحتیں ہیں، اس وقت نفسِ عمل (تعدد ازدواج وغیرہ) کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ ان مصلحتوں میں غور کیا جاتا ہے جن کا حصول متوقع یا متیقن ہو۔ ان نصوص کے ذریعہ سے تعلیم دی جاتی ہے۔ مدرسہ میں داخلہ لینے والے کو فضائلِ علم سنا کر راغب کیا جاتا ہے اور بیعت کرنے والے سالکین کو فضائلِ تزکیہ سنا کر آمادہ کیا جاتا ہے۔

     پھر ایک کام جس کی اصلیت فرض یا واجب ہو تو اس کا تکثر عام حالت میں مطلوب ہوتا ہے جب کہ کوئی وجہ قباحت کی نہ ہو۔ جیسے نماز روزہ وغیرہ ہیں جس کی اصلیت فرض ہے لہذا اس میں تکثر مطلوب و مقصود ہے۔ ال٘ا یہ کہ مکروہ وقت نہ ہو اور ایام تشریق نہ ہو۔

     آج ہمارے دیار میں تعددِ ازدواج کو مباح بلکہ غیر مطلوب سمجھ کر اس قدر ترک کردیا ہے اور یک زوجی کو اتنا عموم دے دیا ہے کہ جیسے ہم مصری علماء کو بے ریش دیکھ کر تعجب کرتے ہیں کہ اتنے اہم حکم کو مباح سمجھ کر کس طرح چھوڑ دیا گیا ہے! تعجب ہے ۔ عرب علماء ہم پر از راہِ حیرت و استعجاب سے صرف سر نہیں پکڑتے بلکہ ٹھٹھا کرتے ہوئے اپنی ہنسی روکنے کے لیے منہ پر بھی ہاتھ رکھتے ہیں۔ کہ "ھذا ھندی فقط واحدۃ! علامتھم اثنین الطنبورۃ (بے ڈھنگا ، بڑا پیٹ) و الزوجۃ الواحدۃ۔ ولیس یکون المرأۃ تحت الھندی بل یکون ھو تحتھا."

.......

قسط :۷

تعدد ازدواج - سوال ان کے جواب ہمارے

بہر حال جب اس عمل (تعددِ ازدواج) میں کئی اہم مصلحتیں ہیں اور وہ مصلحت منصوص ہیں جن پر فضیلت وارد ہوئی ہیں تو یہ اس عمل کی فضیلت کوئی کم نہیں ہے۔

     ہم کو یہ بات بھی تسلیم ہے کہ بسا اوقات مرد اس عملِ تعدد کے سر انجام دینے کے باوجود - پہلی بیوی کی سرکشی و ہنگامہ آرائی یا اپنی بعض نا حسن تدبیر کی وجہ سے- حکمتوں اور ذکر کردہ اغراض و فوائد کے حصول میں ناکام ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ مأجور ہے۔

اس نے بے شمار شرعی و دینی اور ملکی و شخصی فوائد کے خاطر نکاح کیا تھا لیکن نامناسب زمانے اور پہلی بیوی کو مضبوط کرتے قوانین کی وجہ سے وہ ناکام رہا۔

     بھلا بتائیے! عہد خیر القرون ہوتا اور دوسرا نکاح کرنے پر کوئی عورت تعنت و تعلی کا مظاہرہ کرتی، اس پر بس نہ کرتے ہوئے وہ تعدد کے جواز ہی کو موضع سخن بناتی تو دربارِ رسالت سے کس طرح کی جواب کی امید کی جائے گی، اور نزول وحی میں کیا اس طرح فرمان الٰہی نہیں ہوسکتا تھا 

﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا﴾

[الأحزاب: 36]

     یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب دوسرے احکام کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے العطایا علی متن البلایا اور اجرک بقدر نصبک۔ لیکن جب تعددِ ازدواج کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے اس راہ میں رکاوٹیں کثیر، مصائب و الم الم ناک، ہم و غم حیران کن اور فکروں کا نہ تھمنے والا تسلسل ہے۔ اس لیے مفت میں ان مصائب و آلام کو اور بے فائدہ ہموم و غموں کو گلے نہ لگاؤ۔

    میں نہیں سمجھتا کہ تعددِ ازدواج کی راہ میں پہچنے والے مصائب بے فائدہ ہیں، اور ان پر ثواب کا ترتب نہیں ہوگا، اور قیامت کے دن مسلسل ملنے والے  نصب و الم کے نتیجہ میں اجر غیر ممنون سے سرخرو نہیں ہوگا۔

پھر ذرا بتائیے آج کل تعدد کے فوائد کا حصول جوئے شیر لانے کے مرادف کیوں ہوگیا ہے؟ کیا زمانے کا ناموافق ہونا، عورت کے حق میں غیر منصفانہ قانون بننا، پہلی بیوی کا جبر کرنا اور بچوں کے سامنے ہنگامہ بپا کرنا- یہ اعذار ایسے ہیں کہ ان کے علاج کے بجائے مرد ہی کو تعدد سے روک کر اس کے فوائد سے ناآشنا رہیں۔

     کیا ہمارے سامنے ہمارا پڑوسی ملک نہیں ہے؟ وہاں بھی تعدد کے فوائد کا حصول دشوار تھا، وہاں بھی یک زوجی کو ہی فروغ تھا بنظر استحسان دیکھا جاتا تھا بلکہ اس مبارک عمل کو ناقابلِ عمل اور ناکارہ بنانے کے لیے قانون پاس کرا دیے گئے تھے لیکن چند سرفروش علماء یدان عمل میں آئے کسی نے مقالے لکھ کر کسی نے عمل پیرا ہو کر اور کسی نے عمومی ماحول بنانے کی سعی کی، چناں چہ بہت سے علماء، دانشور اور مشہور شخصیات نے دوسرے نکاح کا اقدام کیا فوائد کا حصول آسان ہورہا ہے۔ 

     مزید بر آں وہاں بہت سی عورتوں نے ناموافق حالات اور احسان کے بدلے ملنے والی نا انصافیوں کے باوجود پہلے شوہر کا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ بالقصد باقاعدہ اس عمل کی مشتہرہ اور مروجہ بن گئیں۔ جب اس تعددِ ازدواج کو جس کو عورت پر ظلم ہونے کی وجہ سے بدنام کیا گیا  عورتوں کی آواز میسر آئی  پھر نصیب سے وہ سعی مشکور و مقبول بھی ہوئی تو حکمِ تعدد نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا۔

     بعض عرب ممالک بھی ہمارے سامنے ہیں جہاں چند زوجی کو عورتوں کے لیے عیب سمجھا جانے لگا، مرد یک زوجی پر اکتفاء کربیٹھے، شادیوں کو کئی کئی دن کی تقریبات سے مہنگا کردیا گیا، عورتوں کی ڈیمانڈ اور نہایت گراں مہر سے بے برکتی کو بڑھایا گیا تو نتیجہ ہمارے سامنے ہے وہاں بھی ہمارے دیار کی طرح دوسرا نکاح عملاً دشوار، اغراض کا حصول مشکل ہوگیا ہے عورتیں دوسری بیوی بننے کو عیب سمجھنے لگی ہیں، جس کے نتیجہ میں بے نکاحی خواتین کا تناسب بڑھ گیا ہے اور جنسی بے راہ روی نے جگہ پکڑ لی ہے۔

ذکر کردہ دونوں ممالک میں نتائج جو برآمد ہوئے ہیں وہ تعددِ ازدواج پر عمل کرنے اور نہ کرنے کی وجہ سے۔

     اور کچھ بعید نہیں ہے اگر تعددِ ازدواج پر یہی سرد مہری رہی تو حکومت دینِ اسلام کے بنیادی حکم نہ ہونے کا ٹھپا لگا کر آیتِ نسا کو خیر القرون کی ضرورت بتلا کر اس مبارک عمل کے خلاف قانون نہ پاس کردے۔

     عبد ضعیف کہتا ہے مان لیں دوسرا نکاح کرنے کی وجہ سے خود کے بچوں کی پرورش نہ ہوسکی، دینی خدمات متاثر ہوگئی، سماج میں ذلتی کا سامنا ہوا بلکہ مصائب و آلام نے کمر توڑ دی۔ کیا الله اپنے اس بندے کو تاابد ایسے ہی چھوڑ دیں گے؟ جس نے خیر القرون میں رائج ایک عمل کا احیاء چاہا، جس نے کسی کی ضرورت مرد کی چاہت پوری کر کے احسان کرنا چاہا اور جس نے زنا کے مقابلے میں جو آسان تھا دشوار گزار حلال راہ کو اختیار کیا۔

    کیا اگر وقتی طور پر جو ایک دروازہ بند ہوا ہے مالکِ دو جہاں اس کے لیے کئی دروازے وا نہیں فرمائے گا، اس کی ایک آد اولاد کی پرورش میں خلل آیا ـ جس کا گناہ بھی اس پر نہیں ہے- کیا فعال لما یرید ذات اس کے لیے ہزارہا روحانی اولاد عطا نہیں فرمائے گا جو اس کے لیے حقیقی اولاد سے بھی زیادہ دینی و دنیوی امور میں کار آمد و مفید ہوگی۔؟ ؟

.....

قسط :۸

تعدد ازدواج - سوال ان کے جواب ہمارے

دوسری شادی کے سلسلے میں یہ بات بڑی شد و مد سے بیان کی جاتی ہے کہ دو بیویوں میں عدل نہیں ہوسکے گا۔ قرآن میں بھی ہے

ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء و لو حرصتم (اور تمہارا کتنا ہی جی چاہے تم بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرسکتے)

     اعتراض کرنے والے تصور یہ دیتے ہیں کہ مراد اس آیت میں عدل سے  وہی عدل ہے جو فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة میں مراد ہے، جب کہ اس آیت میں عدل فی النفقۃ و القسم یعنی رات گزارنے اور نفقہ میں عدل مراد ہے اور پہلی آیت میں عدل فی المحبۃ یعنی محبت میں برابری مراد ہے جیسا کہ صاحب تفسیر الجلالین نے اس بات کی تصریح کی ہے۔ یعنی تم چاہنے کے باوجود بیویوں میں محبت یکساں نہیں رکھ سکتے کیوں کہ دل انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔

ہاں دلی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایسا قدم نہ اٹھانا کہ کسی ایک کی طرف پورے طور پر مائل ہوگئے اور دوسری کو معلق یعنی ادھر لٹکی چھوڑ دیا۔

    اسی وجہ سے نبیِ کریم ﷺ برابری فرماتے اور یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے الله یہ میری برابری کرنا ہے اس میں جس میں، میں اختیار رکھتا ہوں (یعنی رات گزارنے اور نفقہ میں) آپ میری پکڑ نہ فرما اس میں جس میں، میں اختیار نہیں رکھتا (یعنی دلی محبت میں) 


    احناف کے نزدیک برابری کرنا تین چیزوں میں ضروری ہے۔

(۱) نان نفقہ

(۲) شب باشی یعنی رات گزارنا 

(۳) تبرعات یعنی زائد لین دین،ہدیے، تحفے جوڑے وغیرہ جو لازمی نہیں ہیں ان میں بھی عدل برابری واجب ہے۔

اسلامی شادی میں ہے: 

    حنفیہ کے یہاں زوجین (میاں بیوی) میں تبرعات ( کسی کے ساتھ احسان کرنے میں) عدل واجب ہے اور دوسرے علماء کے نزدیک صرف واجبات (نفقہ واجب وغیرہ میں) عدل واجب ہے، حنفیہ کے یہاں اس میں تنگی ہے۔

     مکان میں جو برابری واجب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کو الگ گھر دینا چاہیے جبراً دونوں کو ایک گھر میں رکھنا جائز نہیں البتہ اگر دونوں رضا مند ہوں تو ان کی رضا مندی تک جائز ہے۔

     ان سب میں برابری کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی عورت اپنا حق خود ساقط کردے تو وہ کرسکتی ہے۔جیسا کہ قرآنِ کریم میں کہا گیا ہے اگر عورت کو اپنے شوہر سے زیادتی یا بے رُخی کا اندیشہ ہو تو ان دونوں کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ آپس میں کچھ صلح کرلیں (بایں طور کہ اپنا حق چھوڑ دے؛ مہر معاف کردے، باری ساقط کردے، نفقہ سے دست بردار ہو جائے) اور صلح ( بہر حال ) بہتر ہے، (جس طرح یہ پہلی بیوی کے لیے ہے دوسری بیوی بھی مصالحت کے ساتھ آنا چاہے تو یہ بھی روا ہے، اور آج کل بے نکاح خواتین کے اضافے اور شریف نیک باشرع مردوں کی کمی کی وجہ سے بہت سی خواتین اپنے یہ سب حقوق معاف کرا کے صرف حلال تعلقات کا استوار چاہتی ہیں، اسی وجہ سے عربوں میں نکاح مسیار(یعنی بعض حقوق معاف کرکے نکاح کرنا) کا رواج بڑھا ہے اور علماء نے اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیا ہے۔

     اور حرص تو دلوں میں بسادی گئی ہے. مرد جب یہ دیکھے گا کہ دوسری ہونے والی بیوی نے مجھے بہت سے حقوق کے بارِ گراں سے سبک دوش رکھا ہے تو وہ بھی نکاح کرنے پر آمادہ ہو جائے گا۔

     لہذا اگر کسی کے ساتھ ایسی صورت مہیا ہو جائے تو عدل و انصاف اس کے لیے آسان ہوگیا۔ البتہ یہ عورت جس نے اپنے حقوق معاف کیے ہیں اگر دوبارہ مطالبہ کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔

ناچیز جیسے غیر معروف شخص کے پاس تین رشتے ایسے موجود ہیں کہ خاتون برسر روز گار ہیں، اور انھیں اپنے لیے صرف شوہر اور رشتۂ پاک کی تلاش ہے۔ سوچتی ہیں کہ الله کا دیا سب کچھ ہے ہمارے پاس لیکن اپنے پھر بھی ہمیں غیر کی نظر سے دیکھتے ہیں، عمر دراز ہونے کی وجہ سے والد کا گھر پرایا ہونے لگا ہے ، کسی اپنے کی تلاش ہے جو اسے اپنی الگ شناخت دے، معاشرے میں عزت دے بدلے میں ، میں اور میری وفاداریاں ان کی ہوں گی اور میں اپنی ہی ذمہ داری رہوں گی۔

بیویوں کے درمیان عدل کرنا نہایت ضروری ہے لیکن ہمارے دیار میں اس کو اتنا مشکل کرکے بتایا گیا ہے کہ لوگ اس کو محال اور ناممکن سمجھنے لگے ہیں، اور اتنا ڈرتے ہیں جیسے كخشية الله أو أشد خشية۔

صحابہ بھی کچھ چیزوں سے ڈرتے تھے جیسے وہ کذب علی النبی ﷺ (نبیﷺ کی جھوٹی بات منسوب کرنا)  سے ڈرتے تھے، چنانچہ روایتوں میں اتا ہے کہ بعض صحابی جب قال رسول الله ﷺ کہتے تو بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی، رنگ فق ہو جاتا، انکھیں انسوؤں سے بھر جاتی۔ بعض صحابہ اپ کا فرمان نقل کرنے کے بعد او کما قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے۔ بعض صحابہ نے حدیث نقل کرنا ہی کم کر دیا تھا۔

       ہم نے کسی صحابی کے بارے میں یہ تو سنا ہے کہ وہ باری کا بہت اہتمام کرتے، برابری کا لحاظ کرتے حتی کہ بوسوں کو بھی گنتے لیکن اس طرح ڈرتے ہوئے خوف کھا کر تعدد ازدواج کو چھوڑتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح ہمارے دیار میں ہے۔ یہاں گنگا الٹی بہ رہی ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی باتوں کو بے دھڑک بغیر تحقیق کے نقل کیا جاتا ہے سوشل میڈیا پر ہی ارسال کیا جاتا ہے، اس میں خوف نہیں اتا لیکن جہاں تعدد ازدواج کی بات اتی ہے تو عدل اور برابری کے سلسلے میں ایسا خوف پایا جاتا ہے جیسے برابری اور عدل ناقابل عمل کوئی شے ہو۔

....

قسط :۹

تعدد ازدواج - سوال ان کے جواب ہمارے

دیگر  سوالات کا جوابات: 

(۲) حضرت آدم علیہ السلام کو جب دنیا میں بھیجا گیا تو ان کو ایک ہی زوجہ محترمہ دی گئی۔ پتا چلا کہ تعدد ضرورتِ انسانی میں داخل نہیں۔ قرآن میں ہے و جعل منھا زوجھا ۔۔۔ زوجاتھا نہیں ہے۔

جواب: تعددِ ازدواج کو انسانی ماہیت یا انسانی وجود میں تو دخل نہیں ہے۔ ایسا کسی کا دعویٰ بھی نہیں ہے کہ دھوکا دینے کے لیے یہ بات یا اعتراض ذکر کیا جائے۔

ہاں بہت سی ضرورتیں، مصلحتیں، اغراض و احکام اس سے وابستہ ہیں، اور ضروریات ہر زمانے کی جدا جدا ہونا مستبعد نہیں ہے۔

     ممکن ہے حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں اس کی ضرورت نہ ہو اور بعد کے ادوار میں جب آدم علیہ السلام سے نسل آگے بڑھی، عورتوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تو بعد کے انبیاء نے اس ضرورت کو محسوس کیا لہذا تعدد فرمایا۔

سوال میں جو دلیل پیش کی گئی وہ ہمارے مدعی ہی سے خارج ہے۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ تعدد میں کئی حکمتیں و مصلحتیں ہیں لہذا اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اور آپ کی دلیل ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے ایک ہی بیوی بنائی گئی دونوں میں کوئی جوڑ نہیں ببین تفاوت راہ از کجاست تا بہ کجا۔ 

(۳) ایک حدیث آپ بتا دیجیے جس میں تعدد کی فضیلت آئی ہو؟

جواب: حدیث نبی کریم ﷺ کے قول و فعل و تقریر کو کہا جاتا ہے۔ کیا تعددِ ازدواج آپ کا فعل نہیں ہے؟؟ 

اور  تأسی رسول کی فضیلت سے ثابت ہے۔ نیز کسی چیز میں فضیلت آتی ہے اس میں موجود فوائد و حِكَم کی وجہ سے تعددِ ازدواج کو بھی اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه، إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض.(مشکاۃ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تمہارے پاس ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کے دین اور اخلاق سے تم راضی ہو تو اس کا نکاح کر دو، اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پیدا ہو جائے گا۔

     اس حدیث سے واضح طور پر یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ اگر ایک بیوی والا بھی تم کو پیغام نکاح دے لیکن اس کے دینداری اور اخلاق سے تم راضی ہو تو منع کرنا عمومِ فساد کا سبب بن سکتا ہے۔ کیوں کہ اس حدیث میں فتنہ اور فساد کی تفسیر علماء نے زنا اور عورتوں کا بغیر شوہر کے رہ جانے سے کی ہے جو ترکِ تعدد کی صورت میں ظاہر ہے۔

ابن ماجہ شریف میں ایک روایت ہے :

عن أنس بن مالكؓ يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من أراد أن يلقى الله طاهرا مطهرا، فليتزوج الحرائر۔

رسول الله ﷺ کا فرمان ہے : “جو شخص یہ چاہتا ہو کہ وہ اللہ سے پاک اور پاکیزہ حالت میں ملاقات کرے، تو اسے چاہیے کہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے۔”

اس حدیث کے ضمن میں بعض علماء نے فرمایا کہ "الامر راجع الى التعدد اذ كثيرا لا تقنع النفس بالواحدة فتطمع في غيرها"

یعنی امر تعدد کی طرف راجع ہے کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نفس ایک ہی بیوی پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ دوسری کی طرف بھی رغبت اور طمع رکھتا ہے۔

     لیکن اس میں دو کمیاں ہیں ایک تو یہ کہ یہ حدیث سلام بن سوار اور کثیر بن سلیم کی وجہ سے ضعیف ہے اور علامہ سندھی نے ان بعض علماء کے قول کی یہ کہتے ہوئے تردید کی ہے کہ "الحرائر" کا الف لام جنس کی طرف راجع ہے چناں چہ تعدد کو لازم ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ یہ حدیث موقوف تو بخآری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله تعالی عنہ سے ثابت ہے ؛ "نکاح کرو اس لیے کہ ہم میں بہتر وہ ہے جو ہم میں زیادہ بیویوں والا ہو۔"

    حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا اس کا یہ معنی بعض علماء نے بیان کیا ہے :  کہ امتِ محمد ﷺ میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے پاس دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بیویاں ہوں، بشرطیکہ دیگر تمام فضائل میں وہ اس کے برابر ہوں۔”

    علماء ایسی احادیث موقوفہ - جو ما لا یدرک بالقیاس ہو یعنی اس میں عقل کا دخل نہ ہو- اس کو مرفوعِ حکمی کا درجہ دیتے ہیں۔ اب یہ موقوف حدیث اس درجہ کی ہے یا نہیں کبار علماء فیصلہ کریں گے۔

...........

قسط :۱۰

تعدد ازدواج - سوال ان کے جواب ہمارے

(۴) آپ صلی الله تعالی علیہ و آلہ وسلم نے کبھی کسی صحابی کو دوسرے نکاح پر نہیں ابھارانہ کسی عورت کو کہا کہ آپ دوسری بیوی بن جائیں۔

(۵) خود حضرت نبیِ کریم ﷺ نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں فرمایا جب تک آپ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ الکبری رضی الله تعالی عنہا حیات تھیں۔

(۶) اور نہ ہی آپ کے دامادوں نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں کیا جب تک ان کی پہلی بیوی یعنی نبی کریم ﷺ کی پاک بیٹیاں حیات تھیں۔

جواب :

     تعددِ ازدواج حکمتوں سے بھرا ایک مباح کام ہے۔ آپ کے عمل کے ساتھ اگر فضائلِ قولیہ بھی ثابت ہوتے یعنی آپ زبان سے بھی دوسروں کو ترغیب دیتے مبادا یہ حکم سنت یا سنت مؤکدہ اشد تاکیدا گردانا جاتا، جس سے بعد والی امت کو بالخصوص عاشقان رسول کو سخت کوفت ہوتی کہ ہم - ہمارے دیار میں رواج نہ ہونے کے باعث- عمل سے محروم ہیں۔

     علاوہ ازیں ترغیب کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب لوگوں میں اس کی طرف پیش قدمی نہ ہو۔ ہم کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ خیر القرون میں تعدد کوئی ایسا مباح کام نہیں تھا کہ جس پر ابھارنے کی ضرورت پیش آئے۔ لوگ بڑھ بڑھ کر زوجات میں اکثار کرتے۔ حتی کہ قرآن نے پابندی عائد کردی جو تعدد کا چلن ہے یہ اس وقت  تک جاری رکھو جب کہ چار سے پار نہ ہو، دو بہنیں ایک ساتھ نکاح میں نہ ہو اور عدل کرسکتے ہو۔

      ہم دیکھتے ہیں کہ عورتیں دوسری بیوی بننے میں ذرا عار نہیں کیا کرتی تھی حتی کہ اپنی بہن کی سوتن بن جاتیں، یا پانچویں بیوی بن جاتیں حتی کہ دسواں نمبر بھی ان کو قبول ہوتا، حدیث کی کتابیں ان کی شاہد ہیں حتی کہ قرآن نے آکر حدوں کو مقرر کردیا۔

    لیکن تعدد کو باقی رکھا، جب تعدد کی طرف ایسی پیش رفت تھی تو ترغیب نفسِ عمل کی نہیں دی جاتی بلکہ اس میں موجود شرائط و احکام کینڈی جاتی ہے، اس حساب سے آپ احادیث کا جائزہ لیں کس قدر تعدد کی احادیث احکام موجود ہیں، کسی عمل کے احادیث احکام کی کثرت اس کے فضائل کے لیے کافی ہیں۔

     چلیں تسلیم کرلیں نبی کریم ﷺ نے کسی صحابی کو دوسرا نکاح کرنے کی یا کسی صحابیہ کو دوسری بیوی بننے کی ترغیب نہیں دی۔ کیا آپ نے کسی مرد کو دوسرا نکاح کرنے سے (سوائے حضرت علی رضی الله تعالی عنہ کے جس کی وجہ ممانعت کچھ اور ہے) یا کسی عورت کو دوسری بیوی بننے سے روکا ہے؟؟ 

آپ نے یہاں تک کہا کہ فلاں بیوی کو بہت مارنے والا ہے، اپنی چھڑی گردن سے رکھتا نہیں ہے۔ فلاں کنگال شخص ہے اس سے نکاح کا مشورہ نہیں ہے۔ فلاں عورت کو ذرا دیکھ لینا کیوں ان میں آنکھوں میں کچھ (عیب) ہے۔ لیکن آپ نے کسی کو یہ کہہ کر منع نہیں کیا ہے کہ اس کی تو پہلے ہی سے بیوی ہے اس سے نکاح مت کرو ، یا کسی کو کہا ہو کہ آپ کی ضرورت تین بیویوں سے بحسن وخوبی انجام پارہی ہیں آپ چوتھا نکاح مت کرو۔

یقیناً آپ نے حضرت خدیجہ الکبری رضی الله تعالی عنہا کی موجودگی میں کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا یہ حضرت خدیجہ الکبری رضی الله تعالی کے آپ صلی الله تعالی علیہ وسلم کے نزدیک عظیم المرتبت ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے حضرت خدیجہ الکبری رضی الله تعالی عنہا نے آپ کو دوسری بیوی سے بے نیاز کردیا تھا۔


علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیں: 

قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: "وَهَذَا مِمَّا لَا اِخْتِلَاف فِيهِ بَيْن أَهْل الْعِلْم بِالْأَخْبَارِ , وَفِيهِ دَلِيلٗ عَلَى عِظَمِ قَدْرهَا عِنْده وَعَلَى مَزِيد فَضْلهَا ، لِأَنَّهَا أَغْنَتْهُ عَنْ غَيْرهَا ، وَاخْتَصَّتْ بِهِ بِقَدْرِ مَا اِشْتَرَكَ فِيهِ غَيْرهَا مَرَّتَيْنِ , لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَاشَ بَعْد أَنْ تَزَوَّجَهَا ثَمَانِيَة وَثَلَاثِينَ عَامًا ، اِنْفَرَدَتْ خَدِيجَة مِنْهَا بِخَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ عَامًا وَهِيَ نَحْو الثُّلُثَيْنِ مِنْ الْمَجْمُوع , وَمَعَ طُول الْمُدَّة فَصَانَ قَلْبهَا فِيهَا مِنْ الْغَيْرَة وَمِنْ نَكَد الضَّرَائِر الَّذِي رُبَّمَا حَصَلَ لَهُ هُوَ مِنْهُ مَا يُشَوِّش عَلَيْهِ بِذَلِكَ , وَهِيَ فَضِيلَة لَمْ يُشَارِكهَا فِيهَا غَيْرهَا" انتهى. ("فتح الباري" (7/137) .

وقال الحافظ ابن كثير رحمه الله: "و لم يتزوج في حياتها بسواها، لجلالها و عظم محلها عنده" ("الفصول في سيرة الرسول" ، 104) .

وقال أيضا 

".. وكونه لم يتزوج عليها حتى ماتت، إكراما لها، وتقديرا لإسلامِها " انتهى . "البداية والنهاية" (3/159) .

ممکن ہے ان ہی وجوہات کی بنا پر نبیِ کریم ﷺ کے دامادوں نے آپ کی بیٹیوں کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا اور نہ ہی ان کو ضرورت پیش آئی ہو۔

نسائی شریف کی روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے اور حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہما نے بھی رسول الله ﷺ کو حضرت فاطمہ رضی الله تعالی عنہا کے بارے میں نکاح کا پیغام بھیجا اور آپ نے یہ کہتے ہوئے منع فرمادیا: انھا صغیرۃ (کہ وہ چھوٹی ہیں عمر کا تفاوت کافی برس کا ہے)

حالاں شیخین شادی شدہ تھے اگر دوسری بیوی ہونے کی حیثیت سے سیدۂ جنت حضرت فاطمہ رضی الله تعالی عنہا کا ہاتھ مانگنا آپ کے نزدیک برا ہوتا تو شیخین جو آپ کی مزاج کی سب سے سے زیادہ واقف کار ہیں کبھی پیغام نہ بھیجتے۔ اور نبیِ کریم ﷺ نے بھی جو منع فرمایا اس کی وجہ یہ نہیں فرمائی کہ تم پہلے سے بیویوں والے ہو۔

     بہر حال کثرتِ زوجات کا اس قدر رواج تھا کہ نبی آقائے دوجہاں کی بیٹی کو ادھیڑ عمر اشخاص پیغامِ نکاح دینے میں عار محسوس نہ کرتے اور نہ یہ محسوس کرتے کہ نبی کو گراں بار خاطر نہ ہوں۔

کوئی یہ نہ کہے کہ اس زمانے میں رواج تھا اس دنیا میں اس کا چلن نہیں ہے اس لیے کہ رواج بنتا ہے اپنانے سے عمل میں لانے سے اس زمانے کے افراد سے کیا ہم نہیں دیکھتے کہ پاک میں افراد رواج دیتے جارہے ہیں اور دبی و کویت میں افراد چلن ختم کرتے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں وہاں کا عائلی معاشرہ پورپ و امریکہ کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔

(۷) بلکہ حضرت علی رضی الله تعالی عنہ کو تو روکنا ثابت ہے۔

جواب: حضرت علی کو سیدۂ جنت حضرت فاطمہ پر نکاح سے منع فرمایا اس کی کئی وجوہات علماء نے تحریر کیے ہیں:

۱) نبی کریم ﷺ تمام امت کے روحانی والد ہیں اور نبی کریم ﷺ کی نسبت کی وجہ سے حضرت فاطمہؓ  امت کی تمام عورتوں کے لیے قابلِ تعظیم ہیں جبکہ سوکن کے ساتھ عام طور پر عورتوں کی فطری خلقت کے اعتبار سے سوکنوں کا آپس میں حسد  یا رشک اور شوہر کو خود سے قریب کرنے اور سوکن سے دور کرنے کا معاملہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں سوکنوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے  بغض یا میل آجاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نہیں چاہتے تھے کہ حضرت فاطمہ ؓ ، سوکن کی وجہ سےدینی اعتبار سے  آزمائش میں مبتلا ہوں (شوہر کے حقوق ادا کرنے کے معاملے میں مثلاً)

حضرت فاطمہؓ کو سوکن سے ایذاء پہنچنے کے خدشہ تھا اور حضرت فاطمہ ؓ کو ایذاء پہنچنے سے نبی کریم ﷺ کو ایذاء پہنچتی جو کہ ممنوع ہے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھا ہے کہ سوکنوں کے بغض کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کی بیٹی کے نکاح میں ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت  سے شادی کرنا ممنوع ہے اس لیے کہ پھر دوسری بیوی نبی کریم ﷺ کی بیٹی اور ان کے واسطے سے نبی کریم ﷺ کے گھرانے سے بغض میں مبتلا ہوجائے گی اورنبی کریم ﷺ کا بغض چاہے معاشی امور کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو، کفر تک لے جاتا ہے! (دارالافتاء بنوریہ)

۲) رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کا جمع ہونا نامناسب ہونا

نبی ﷺ نے فرمایا: "اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں کبھی جمع نہ ہوں گی۔"

امام ابن القیم کہتے ہیں: یہ ایک عظیم حکمت ہے، کہ فاطمہ کا مقام اتنا بلند تھا کہ ان کے برابر ابوجہل کی بیٹی کو رکھنا شرعاً و قدراً مناسب نہ تھا۔

 ۳) فاطمہ رضی اللہ عنہا کی  عظمت و مقام کا اظہار کی وجہ سے منع فرمایا۔

ابن حبان کہتے ہیں: یہ نکاح حضرت علی کے لیے اصلًا جائز تھا، مگر نبی ﷺ نے فاطمہ کی تعظیم کے لیے اسے ناپسند فرمایا، نہ کہ نکاح کو حرام قرار دیا۔

اسی لیے نبی ﷺ نے صراحتاً فرما دیا: "میں کسی حلال چیز کو حرام نہیں کرتا اور نہ کسی حرام کو حلال کرتا ہوں۔" (بخاری، مسلم)

٤) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں: "السياق يشعر بأن ذلك مباحٌ لعلي ، لكنه منعه النبي صلى الله عليه وسلم رعاية لخاطر فاطمة ، وقَبِلَ هو ذلك امتثالاً لأمر النبي صلى الله عليه وسلم .

والذي يظهر لي أنه لا يبعد أن يُعدَّ في خصائص النبي صلى الله عليه وسلم أن لا يتزوج على بناته ، ويحتمل أن يكون ذلك خاصاً بفاطمة رضي الله عنها" انتهى من "فتح الباري" (9/329)

ترجمہ : سیاق اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ (کام) علی رضی الله تعالی عنہ کے لیے مباح تھا، لیکن نبی ﷺ نے فاطمہ کی خاطر داری (اور دل کا خیال رکھنے) کی وجہ سے اسے منع فرمایا، اور انہوں (یعنی علی رضی اللہ عنہ) نے نبی ﷺ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسے قبول کرلیا۔ اور میرے نزدیک ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ بات بعید نہیں کہ نبی ﷺ کے خصائص (خصوصی احکام) میں شمار کی جائے کہ آپ کی کسی بھی بیٹی پر (کسی اور عورت سے) نکاح نہ کیا جائے گا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ خصوصیت صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص ہو۔"

دوسری جگہ فرماتے ہیں: اور یہ واقعہ فتحِ مکّہ کے بعد کا تھا، اور اس وقت نبی ﷺ کی بیٹیوں میں سے اس کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہ گئی تھی، اور وہ اپنی ماں کے بعد اپنی بہنوں (کی وفات) سے مصیبت زدہ ہو چکی تھی، تو اس پر غیرت داخل کرنا  اس کے غم کو بڑھانے والا ہوتا۔" (اس لیے منع فرمایا) (فتح الباری)

محمد یحیی بن عبدالحفیظ قاسمی

( #ایس_اے_ساگر )

https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_42.html



آداب مباشرت

آداب مباشرت 
شب زفاف قدم بقدم (مختصر)
ہمارے ایک بزرگ ساتھی کہتے تھے کہ میرے چار سال ضائع ہوگئے۔ پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ پندرہ/۱۵ سال کی عمر میں شادی ہوجانا چاہئے، میری شادی انیس /۱۹ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔
بات در حقیقت ایسی ہی ہے کہ الله تعالی نے مرد کے اندر عورت کی طرف کھچاؤ اور میلان رکھ دیا، دونوں کو ایک دوسرے کا جائے ضرور اور محتاج بنادیا ہے، بالغ ہونے کے بعد بے کلی بڑھ جاتی ہے، میلان افزوں تر ہوجاتا ہے، بلکہ ضرورت کا درجہ اختیار کرلیتی ہے۔
شریعت نے بھی اس ضرورت کی تکمیل کا خاص خیال رکھا ہے اور بعض ناپسندیدہ چیزوں سے روکتے ہوئے دونوں کو ایک دوسرے کے لیے مکمل طور پر قابل استمتاع اور لطف اندوزی کا ذریعہ و سیلہ بنایا ہے۔
بلکہ اولاد کا حصول جو ایک شدید ضرورت اور شدید تر چاہت انسانی ہے اس کو بھی اس عمل سے جوڑ دیا ہے۔
ہمارے ایک ساتھی کھانے کی طرف اپنے اصحاب کو بلاتے تو مجلس میں پکارتے "تعالوا الی عمل الجنۃ"۔ (جنت کے عمل کی طرف چلو)
میرے دل میں خیال آیا کہ جس طرح جنت میں جنتی بھوک کی ٹرپ نہ ہونے کے باوجود بھی کھائے گا صرف حاصول لذت کے لیے اسی طرح اولاد کی  طلب نہ ہونے کے باوجود بھی جنتی عمل جماع میں مشغول ہوگا۔ 
طعام اور زنان کا خاص جوڑ ہے، دونوں انسان کی ضرورت ہے۔ اور دونوں میں مرد تعدد و تفنن چاہتا ہے۔ دونوں گرم اور تر پسند کی جاتی ہے، دونوں منہ زبانی کھائی جاتی ہے اور دونوں سے مرد ایک وقت تک کے لیے ہی سیراب ہوتا ہے۔
بہر حال جماع ایک ایسی ضرورت ہے جس کی جائز تکمیل کے لیے اسلام نے نکاح کو رکھا ہے ، نکاح کو آسان کردیا، جلد نکاح کرنے کی ترغیب دی۔
ہمارے دیار میں مختلف غیر مقبول وجوہات کی بنا پر نکاح میں تاخیر کردی جاتی جس کی وجہ سے ایک لمبی مدت خواہش ، ضرورت ، تقاضا ہونے کے باوجود مرد و عورت اپنی ضرورت کی تکمیل نہیں کر پاتے جس سے دونوں میں کئی طرح کی نفسانی و جسمانی بیماریاں جڑ پکڑ لیتی ہیں۔ اور ان کا بدن بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ ڈہریشن، چڑچڑاپن، کثرت احتلام، سستی، طبیعت پر تقل وغیرہ بہت سے امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر آفتاب عالم لکھتے ہیں: 
۔۔۔اور اس سے انحراف اور بغاوت بے کیف و بے مزا زندگی اور مختلف قسم کے امراض کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔۔۔ منی کا روکاؤ نہ صرف طبیعت کو بوجھل رکھتا ہے بلکہ بعض اوقات بڑا فساد پیدا کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو گرم مزاج نو جوان مرد اپنی طبیعت پر جبر کر کے شادی نہیں کرتے وہ اکثر امراض جنون اور فساد خون میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
  
بدن کو صحت مند اور اعضاء جسمانی کو مستعد و فعال (ACTIVE) رکھنے کے لیے غذا اور لباس کی طرح جماع کرنا بھی ضروریات بدن میں شامل ہے۔ 
جماع کے ذریعہ بدن کے فضلات (غیر ضروری اجزاء ) دفع ہو جانے سے بدن سبک اور ہلکا ہو جاتا ہے۔ طبیعت میں خوشی ، نشاط اور جولانیت پیدا ہو جاتی ہے ، جو بدن کو غذا کی خواہش و قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ جس سے خوب بھوک لگتی ہے۔

جماع غضب و غصہ کو ساکن کرتا ہے۔ برے خیالات اور وسوسوں کو دور کرتا ہے، روشن خیال پیدا کرتا ہے۔ جماع کے وقت اخراج منی پر جو بے پایاں کیف و سرور حاصل ہوتا ہے اُس کو الفاظ کے ذریعہ سمجھانا اور بتانا ممکن ہی نہیں ۔ کسی پھل کا مزا تو کھانے پر ہی معلوم ہو سکتا ہے کسی نابالغ لڑکے کو انزال کی لذت الفاظ کے ذریعہ نہیں سمجھائی جاسکتی ہے۔ یہی انزال یا اخراج منی اگر جلق (مشت زنی) یا کسی اور غیر فطری طریقہ سے ہو تو یہ بات حاصل نہیں ہوتی۔ غیر فطری طریقوں سے مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جماع سے اعضاء رئیسہ کمزور اور جسم نحیف و لاغر ہو جاتا ہے۔ چہرہ کی چمک دمک اور رونق ختم ہو جاتی ہے اور آدمی جلد بوڑھا ہو جاتا ہے ایسا خیال بالکل غلط ہے جو محض جہالت اور کم علمی پر بنی اور موقوف ہے یہ صورت اُس وقت ضرور لاحق ہو سکتی ہے جب کہ اس فعل جماع کو حد اعتدال اور ضرورت سے کہیں زیادہ نیز غلط اور بے ڈھنگے پن سے انجام دیا جائے۔
صحبت کے وقت عورت و مرد کے جسموں کا لمس دونوں کے جسموں میں ایک برقی قوت اور لطیف و پر کیف انداز میں بے پایاں جوش و خروش فراہم کرتا ہے۔ جو حرارت غریزی کو قوت اور روح کو جولانیت بخشتا ہے اس حالت کی چند گھڑیاں بے پایاں خوشی کے ذریعہ دل کو وہ سکون و روح کو وہ سرور عطا کرتی ہیں جوکسی بھی قیمتی سے قیتی ٹانک اور سونے و جواہرات کے کشتہ جات کے استعمال سے بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہر محل جماع سے مزاج میں شگفتگی طبیعت میں جولانی اور دل میں قوت پیدا ہوتی ہے اور ساری سستی دور ہو جاتی ہے طبیعت سے غضب و غصہ کا ازالہ ہوتا ہے اور عقل سلیم پیدا ہوتی ہے۔ حواس خمسہ بیدار ہو جاتے ہیں۔جس سے صلاحیتیوں میں اضافہ ہوتا ہے ہر کام کرنے میں اُس کا دل لگتا ہے حوصلہ برقرار رہتا ہے۔ عورت بھی جسمانی اور ذہنی طور پر مستعد و خوش نظر آتی ہے۔
ایک ماہر لیڈی ڈاکٹر نے اپنے تجربہ کی بنا پر لکھا ہے کہ جنسی خواہش پیدا ہونے کے بعد اگر اس کو دفع نہ کیا جائے تو انسان کو نیند نہیں آتی اور وہ بے چین سا رہتا ہے ایسی حالت میں عبادت میں شہوانی و شیطانی خیالات کی بھر مار سے نہ تو نماز ہی پورے کے دھیان اور توجہ سے پڑھی جاتی ہے اور نہ دوسری عبادتوں میں ہی جی لگتا ہے۔

جماع سے امراض گردہ و مثانہ کا ازالہ ہوتا ہے۔ ورم خصیتین دور ہوتا ہے مرض مالیخولیا (MANIA) ایک قسم کا جنون و پاگل پن کا سد باب ہوتا ہے۔ میں نے کئی ایسے نوجوانوں کو دیکھا ہے جن کو یہ عارضہ تھا اور اطبا نے اس کا علاج شادی کر دینا بتایا تھا چنانچہ شادی کے بعد اُن کا یہ مرض ختم یا کم ہو گیا۔ مرض کا اصل سبب جو ذہنی الجھنیں تھیں وہ جماع سے دور ہوگئیں ۔

جسم میں قوت جماع کی موجودگی میں خواہش جماع کی تکمیل سے انحراف و گریز اور جبرا خواہش جماع کر دہانے سے بجائے فائدہ کے شدید نقصان ہوتا ہے کثرت احتلام کا مرض کی لاحق ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ مختلف قسم کی ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اکثر بدن میں دردو چکر طبیعت میں کرب و بے چینی۔ مزاج میں ترشی و چڑ چڑاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ نگاہ کمزور۔ آنکھیں اندر کو دھنس جاتی ہیں۔ دماغ کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے۔ بار بار عضو میں انتشار ہونے سے مجبور ہو کر جولوگ جلق ۔ اغلام یا کسی اور غیر فطری طریقہ پر اخراج منی کے ذریعہ سکون حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے عادی ہو جاتے ہیں وہ آگے چل کر جریان منی کے مریض بن جاتے ہیں مادہ تولید پتلا اور عضو کی نسوں میں ڈھیلا پن آ جاتا ہے جس سے ذرا سی شہوانی تحریک و خیال پر یا کسی حسین عورت پر نگاہ پڑتے ہی انزال ہو جاتا ہے پھر ایسے لوگ جب کبھی شادی کا ارادہ کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ناکارہ محسوس کرنے لگتے ہیں اس وقت ان کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔
(آداب مباشرت)
جاری۔۔۔۔
( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_11.html




Wednesday, 10 December 2025

محترم استاد سیف اللہ صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے

محترم استاد سیف اللہ صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے!
بروز بدھ، 19 جمادی الثانی 1447، مطابق 10 دسمبر 2025، شہرِ بھٹکل کی فضاؤں میں ایک نہایت دلخراش خبر گونج اٹھی کہ ہمارے ہر دلعزیز، مخلص مربی اور شفیق استاد ماسٹر سیف اللہ صاحب اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ ان کی وفات نے اہلِ شہر، جامعہ اسلامیہ کے اساتذہ و طلبہ اور ان کے ہزاروں شاگردوں کو غم و اندوہ میں ڈبو دیا۔
دنیا میں انسان کو اپنے والدین کے بعد اگر کسی سے حقیقی محبت، قدر اور تعلق ہوتا ہے تو وہ اس کے مخلص استاد اور مربی سے ہوتا ہے۔ استاد ہی وہ ہستی ہے جو طالب علم کے ذہن کو روشن کرتی ہے، اس کی صلاحیتوں کو جِلا بخشتی ہے اور اسے زندگی کے نشیب و فراز کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ مخلص استاد نہ شہرت کا خواہاں ہوتا ہے نہ تعریف کا محتاج۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کا شاگرد زیورِ علم سے آراستہ ہو، اپنی مافی الضمیر کو سلیقے سے ادا کرنے کا ملکہ پیدا کرے اور حق و خیر کے راستے پر گامزن ہو۔ ایسے استاد کی صحبت نعمت، اس کی دعا سرمایہ اور اس کی رہنمائی زندگی بھر کا روشنی کا چراغ ہوتی ہے۔
مرحوم ماسٹر سیف اللہ صاحب انہی اوصاف کے حامل ایک بے مثال استاد تھے۔ ان میں ایک مخلص معلم اور سچے مربی کی تمام صفات کامل درجے میں موجود تھیں۔ وہ نہایت باوقار، نرم دل، شفیق اور اخلاص ودیانت سے معمور شخصیت کے حامل تھے۔ آپ جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں انگریزی، کنڑا اور معاشیات کے استاد رہے اور اپنی تدریسی زندگی کے ہر مرحلے میں سنجیدگی، محنت، ایثار اور اعلیٰ اخلاق کا شاندار نمونہ پیش کرتے رہے۔ آپ کی خاموش تربیت، نفیس عادتیں اور علمی وقار طلبہ و اساتذہ سب کے دلوں پر نقش تھا۔
آپ کا تعلق شہرِ ہبلی سے تھا۔ گوا میں سرکاری ملازمت پر فائز تھے، لیکن سابق ناظمِ جامعہ محترم محیی الدین منیری رحمہ اللہ تعالیٰ کی دعوت پر بھٹکل تشریف لائے۔ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور ان کے روشن مستقبل کی خاطر آپ نے بھٹکل کو مستقل مسکن بنایا۔ یہ فیصلہ آپ کی مثالی دوراندیشی، والدانہ فکر اور تربیتی شعور کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 
آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جن میں بڑی تعداد میں علماء ، خطباء اور اس وقت شہر کے کئی ایک ذمے دران اور مختلف علمی، دینی اور  ثقافتی اداروں کے بانیان شامل ہیں۔ درحقیقت آپ صرف ایک استاد نہیں تھے، بلکہ کئی نسلوں کے مربی، رہنما اور محسن تھے۔ آپ کی تربیت، شفقت، خلوص اور علم کا فیض آج بھی بے شمار دلوں میں زندہ ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ تابندہ رہے گا۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مکمل مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، ان کی قبر کو نور، راحت اور سکینت کا گہوارہ بنا دے۔ اللہ  تعالی ان کی خدماتِ علمی و تربیتی کو ان کے لئے صدقۂ جاریہ بنا ئے  اور اہلِ خانہ و متعلقین کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔  آمین یا رب العالمین۔ (شریک غم: سید ہاشم نظام ندوی، ایڈیٹر انچیف فکروخبر بھٹکل) ( #ایس_اے_ساگر )





ہندپاک کی بریانیاں

ہندپاک کی بریانیاں

(فقہ اور ادبی چاشنی کیساتھ ایک شگفتہ تحریر)
بابُ ما جاء فی مذاہبِ بریانیہ
(ہند، پاک کی بریانیوں کا ثقافتی و فقہی تجزیہ)
از: جامع الفتاوی و البریانیات
مقدمہ: بریانی صرف ایک کھانا نہیں، بلکہ ایک تہذیب ہے۔
یہ چاول اور گوشت کا وہ مقدس نکاح ہے، جس میں مصالحہ جات قاضی کا کردار ادا کرتے ہیں، یخنی خطبۂ نکاح ہے، اور دم پر رکھنا عقدِ دائمی کی علامت!
لیکن صد حیف! اس مقدس رشتہ میں آلو داخل کرکے کلکتہ والوں نے ایسا ظلم کیا ہے، جسے فقہائے بریانیہ کی زبان میں "نکاحِ فسخ شدہ بالمکر" کہا جائے گا۔
باب اول: فقہائے بریانیہ کے مختلف مکاتبِ فکر
1. دہلوی فقہائے بریانیہ
دہلی کی بریانی کو شائستگی، تہذیب اور امتیازی لطافت کا درجہ حاصل ہے۔
حضرت کریم ہوٹل (نزد جامع مسجد) کے ہاں بریانی وہ نازک طعام ہے جو نہ شور میں غرق ہوتی ہے، نہ مصالحے میں ڈوبی ہوتی ہے، بلکہ ہر دانہ توازن کا مظہر ہوتا ہے۔
یہاں بریانی گویا ایک غزل ہے،
چاول: قافیے
گوشت: ردیف
خوشبو: بحرِ رمل
فقہائے دہلی فرماتے ہیں:
"اذا حضرت البریانی فی دہلی، فہٰذا مجلسِ ادب لا مائدۃِ طعام!"
2. لکھنؤی فقہائے بریانیہ (مکتبِ نَوَابی)
بریانی یہاں ریشمی تہذیب کی علامت ہے۔
چاہے حقیقی دونگا بریانی ہو یا ٹونٹی دار یخنی، لکھنؤ میں بریانی پیٹ بھرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ فنِ خورد و نوش کا ایک کلاسیکی باب ہے۔
ہر چاول: حرفِ تہذیب
ہر بوٹی: ایک قرینہ
ہر خوشبو: مصرعِ موقوف
یہ وہ ذائقہ ہے جو واجد علی شاہ کے شاہی باورچی خانوں سے چل کر آج بھی پرانے لکھنؤ کی گلیوں میں زندہ ہے۔
اودھ کی مشہور بریانی اور باورچی:
ادریس بریانی ( پاٹہ نالہ چوک) جس کا ہر نوالہ گویا "نوابی سلام" ہے۔
مبین بریانی (اکبری گیٹ)  جہاں یخنی بھی گویا غالب کی غزل ہے۔
للا بریانی (چونپٹیوں مارکیٹ)  جس کی دم دار تہیں لکھنؤ کی تہذیبی تہیں ہیں۔
ابصار بھائی: جن کا ہاتھ یخنی میں ڈوبا ہو، تو گویا فتوٰی میں عطر ہو۔۔۔۔
پوسو بھائی: جو بریانی کو خطِ نسخ میں لکھتے ہیں: واضح، خوش خط، لازوال!
لکھنؤ کے فقہاء کا اجماعی فتویٰ:
 "ہٰذہ بریانی علٰی میزانِ شرعی!"
3. حیدرآبادی مکتبِ بریانیہ
یہاں بریانی مسلکِ تند و تیز پر قائم ہے۔
اتنا مرچ، اتنا زور، اور اتنی خوشبو کہ:
پہلا لقمہ: استغفار
دوسرا لقمہ: توبہ
تیسرا لقمہ: "سبحان اللہ! یہی جنت ہے!"
چاہے شاہ غوث ہوٹل ہو، بسم اللہ ہوٹل یا پارک حیات 
یہ سب شعلہ بیان ذاکرین کی تقریریں محسوس ہوتی ہیں۔
احنافِ حیدرآباد کا قول:
 "بلا مرچ بریانی کالصلاۃ بلا تکبیر!"
4. کلکتوی مکتب (جس پر نکیر واجب ہے)
یہاں فقہی انحراف کی انتہا ہو چکی ہے۔
آلو کو بریانی میں داخل کرکے جو فتنہ و بدعت برپا کی گئی، وہ فقہائے ذائقہ کے نزدیک ایسا ہے جیسے نماز میں پتنگ اڑانا۔
مشہور بدعاتی نام:
ارسلان بریانی
زمزم بریانی
زہرا بریانی
حاجی صاحب بریانی
یہ محض بدعت نہیں بلکہ:
 "مکروہِ تحریمی مع الفسادِ الذوقی!"
آلو، جس کا اصل مقام ترکاری، شوربے یا بگھارے بیگن میں ہے، اسے بریانی میں داخل کرنا:
 "تحریفِ ترکیبِ الٰہی"
فقہائے دہلی و لکھنؤ کا اجماعی فتویٰ:
 "من جعل البطاطا فی البریانی، فلیس من اہلِ الذوق، و کان علیہ کفارۃُ صحنٍ کامل!"
5. کراچی فقہائے بریانیہ
کراچی کی بریانی اجتہادِ جری کا شاہکار ہے۔
یہاں کی اقسام مثلاً:
نورانی بریانی
نانبائی بریانی
فرحت بریانی
جعل بریانی
سب ایسی ہیں کہ مصالحہ جگر کو جھنجھوڑتا ہے، اور گوشت ایسا نرم کہ فقہائے مالکیہ بھی عش عش کر اٹھیں۔
کراچی کی بریانی اگر بغیر کباب ہو، تو یہ:
"قصر فی الفتوٰی" ہے!
باب دوم: تہذیبی تسلسل
شہر بریانی کی تعبیر
دہلی بریانی ایک شعر ہے
لکھنؤ بریانی ایک ادب ہے
حیدرآباد بریانی ایک خطابت ہے
کراچی بریانی ایک مزاحمت ہے
کلکتہ بریانی کا جنازہ ہے (آلو کی صورت میں)
باب سوم: ردِ بدعتِ آلو
لکھنؤی ادب فرماتا ہے:
جس بریانی میں نزاکت نہ ہو،
جس میں یخنی کا ذوق نہ ہو،
جہاں گوشت و چاول ہم آہنگ نہ ہوں
وہ طعام نہیں، فقط تغافل ہے!
جہاں دہلی بریانی کو غزل کہتی ہے، وہیں لکھنؤ کہتا ہے:
بریانی ایک رباعیِ ذائقہ ہے
1. پہلا مصرع: خوشبو
2. دوسرا مصرع: یخنی
3. تیسرا مصرع: گوشت
4. چوتھا مصرع: چاول کی تہ
یہ رباعی جب دم پر آئے، تو دل بھی دم بخود ہو جائے!
بریانی کو ویسے کھایا جائے، جیسے غالب کا دیوان پڑھا جاتا ہے۔۔۔۔۔
آہستہ، انہماک سے، چاول چبائے نہیں جاتے، محسوس کیے جاتے ہیں۔
اقوالِ فقہائے ذوق
ابنِ دہلی:
من زاد فی البریانی مالا یلزم، فذوقہ ناقص و فہمہ فاسد!"
امامِ کریم ہوٹل:
آلو بریانی نہیں، فتنے کی ابتدا ہے!"
احنافِ حیدرآباد:
بریانی میں آلو ڈالنا ایسا ہے جیسے خطبۂ جمعہ میں لطیفہ سنانا!"
خاتمہ
بریانی ذائقے کی عبادت ہے۔
اسے آلو، کشمش، یا بد ذوق ہاتھوں کی تحریف سے محفوظ رکھنا فقہاءِ بریانیہ پر فرضِ کفایہ ہے۔
 فمن أراد أن یدخل الآلو فی البریانی، فلیخرج من دارِ ذوق، و لیدخل دارِ شبہات!
اللہم احفظ لنا بریانیاتنا، کما حفظت القرآن من تحریف الرافضۃ... آمین! (منقول) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_10.html



Tuesday, 9 December 2025

چاندی کی تسبیح کا استعمال

چاندی کی تسبیح کا استعمال
-------------------------------
-------------------------------
سوال: چاندی کی تسبیح کا استعمال کیسا ہے؟
مفتی شاہجہاں قاسمی
الجواب وباللہ التوفیق: 
مَردوں کے لئے چاندی کی مخصوص مقدار (4.374 gm) صرف انگوٹھی میں استعمال کی گنجائش ہے۔
(خواتین کے لئے تختم اور زیورات میں کوئی خاص مقدار متعین نہیں)
عورتوں کے لئے انگوٹھی وزیورات اور مرد کے لئے صرف انگوٹھی کے علاوہ، سونے چاندی کا عام استعمال ناجائز ہے۔ چاندی کی تسبیح کا استعمال اوپر ذکر کردہ مستثنی حالتوں کے علاوہ ہے؛ اس لئے اس کی گنجائش نہیں ہے ۔ درج ذیل احادیث اور فقہی نصوص سے عام استعمال کی ممانعت مستنبط ہوتی ہے جس میں چاندی کی تسبیح کا استعمال بھی شامل ہوگا:
۱: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ شَرِبَ فِي إِنَاءٍ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ، فَإِنَّمَا يُجَرْجِرُ فِي بَطْنِهِ نَارًا مِنْ جَهَنَّمَ" (صحیح مسلم 2065)
۲: وَلَا تَشْرَبُوا فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَا تَأْكُلُوا فِي صِحَافِهَا (صحیح مسلم 2067)
۳: "ولايجوز استعمال آنية الذهب والفضة، ويستوي فيه الرجال والنساء. (الاختيار لتعليل المختار: 4/ 159)
۴: وَيُكْرَهُ أَنْ يُكْتَبَ بِالْقَلَمِ الْمُتَّخَذِ مِنْ الذَّهَبِ أَوْ الْفِضَّةِ أَوْ مِنْ دَوَاةٍ كَذَلِكَ، وَيَسْتَوِي فِيهِ الذِّكْرُ وَالْأُنْثَى، كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ.(الفتاوى الهندية: 5 / 334)
واللہ اعلم بالصواب 
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_09.html





Monday, 8 December 2025

روحانی اور جسمانی ہاضمہ: حیاتِ طیبہ کا فلسفہ

روحانی اور جسمانی ہاضمہ: حیاتِ طیبہ کا فلسفہ
انسان کی مکمل صحت کا انحصار صرف جسمانی اعضاء کی درست کارکردگی پر نہیں، بلکہ اس کا گہرا تعلق روحانی ہاضمہ (Spiritual Digestion) سے ہوتا ہے۔ یہ دونوں ہاضمے، یعنی جسمانی اور روحانی، دراصل زندگی میں توازن (Balance) اور اطمینان (Peace) قائم کرنے کے لئے بنیادی ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جسمانی ہاضمہ غذا سے توانائی کشید کرتا ہے، جبکہ روحانی ہاضمہ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کو صبر، حکمت اور سکون میں ڈھالتا ہے۔
🍎 اول: جسمانی ہاضمہ – صحت کا سنگِ بنیاد
جسمانی صحت کا آغاز معدے سے ہوتا ہے۔ اگر غذا صحیح طریقے سے ہضم نہ ہو تو یہ کئی خرابیوں کو جنم دیتی ہے:
 * غذا کا نہ ہضم ہونا \Rightarrow بیماریوں کا آغاز: خراب ہاضمہ نہ صرف جسمانی کمزوری، تھکاوٹ اور پیٹ کے امراض پیدا کرتا ہے، بلکہ یہ دماغی چڑچڑاپن اور سستی کا بھی سبب بنتا ہے۔
 * حل: متوازن خوراک، بروقت غذا، اور جسمانی سرگرمیوں کے ذریعے جسمانی ہاضمے کو بہتر بنانا، کیونکہ ایک صحت مند جسم ہی ایک پرسکون روح کا ٹھکانہ بن سکتا ہے۔
💖 دوم: روحانی ہاضمہ – کردار کی تعمیر
روحانی ہاضمہ سے مراد یہ ہے کہ ہم زندگی میں پیش آنے والے سماجی، جذباتی اور نفسیاتی محرکات کو کس طرح قبول کرتے، تحلیل کرتے اور ردِ عمل دیتے ہیں۔ اگر ہم ان چیزوں کو 'ہضم' نہیں کرتے تو یہ ہمارے اندر زہر بن کر کردار اور تعلقات کو تباہ کردیتے ہیں۔
| روحانی عمل (ان پٹ) | اگر ہضم نہ ہو | نتیجہ (منفی آؤٹ پٹ) |
|---|---|---|
| تعریف / ستائش | انسان اسے حق سمجھے | تکبر اور غرور کا آغاز (عاجزی ختم) |
| لوگوں کی بات / سُن گُن | کینہ یا بوجھ بن جائے | چغلی اور غیبت کا فروغ (سکون تباہ) |
| تنقید / اعتراض | ذاتی حملہ محسوس ہو | ناراضگی اور تلخی کا پھیلاؤ (اصلاح رُک گئی) |
| دکھ / صدمہ | تکلیف دل میں جگہ بنالے | نااُمیدی اور مایوسی کا غلبہ (جدوجہد کا خاتمہ) |
| آزمائش / مشکل | نعمتوں کو بھول جائے | ناشکری اور شکوہ کی عادت (اطمینان کا فقدان) |
کلیدی وضاحت:
 * تعریف کا ہاضمہ (عاجزی): کامیابی پر ملنے والی تعریف کو اللہ کا فضل سمجھ کر فوراً ہضم کرلینا چاہئے۔ اسے دل میں جگہ دینے سے تکبر پیدا ہوتا ہے جو سب سے بڑی روحانی بیماری ہے۔
 * بات کا ہاضمہ (سکوت): اگر ہم کسی کی منفی بات یا چغلی کو اپنے اندر جگہ دیں، اور پھر اسے دوسروں تک پہنچائیں، تو یہ چغلی کی صورت میں نکلتی ہے۔ روحانی ہاضمہ سکھلاتا ہے کہ منفی باتوں کو سُنو اور بھول جاؤ۔
 * تنقید کا ہاضمہ (قبولیت): تنقید یا اختلاف کو اگر ہم ناراضی سے وصول کرتے ہیں تو ہم سیکھنے کا موقع گنوا دیتے ہیں۔ روحانی ہاضمہ ہمیں سکھلاتا ہے کہ تنقید سے اصلاح کے پہلو نکالیں، نہ کہ ذاتی رنجش بنائیں۔
 * دکھ کا ہاضمہ (صبر): دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ یہاں دکھ اور پریشانیاں آتی ہیں۔ اگر ہم ان دکھوں کو مستقل اپنے دل میں رکھیں تو یہ نااُمیدی بن جاتی ہے۔ ہاضمہ یہ ہے کہ صبر اور توکل کے ساتھ آگے بڑھیں۔
 * آزمائش کا ہاضمہ (شکر): مشکل حالات یا آزمائش کے باوجود اگر ہم چھوٹی بڑی نعمتوں کا اعتراف نہ کریں تو یہ ناشکری کو جنم دیتا ہے۔ روحانی طور پر مضبوط شخص آزمائش کو بھی رب کی طرف سے تربیت سمجھ کر شکر ادا کرتا ہے۔
💡 نتیجہ: مکمل ہاضمہ، کامل انسان
جسمانی اور روحانی ہاضمے کی درستی دراصل حکمت اور توازن کا نام ہے۔ جس طرح فاسد غذا کو جسم سے باہر نکالنا ضروری ہے، اسی طرح منفی جذبات، تکبر، ناراضگی اور مایوسی کو اپنے قلب اور ضمیر سے باہر نکالنا لازم ہے۔
ان دونوں ہاضموں کی درستی سے ہی ایک انسان صحت مند، شکرگزار، با کردار اور مطمئن زندگی گزار سکتا ہے۔ یہی زندگی کا سب سے بڑا سبق ہے کہ ہم ہر چیز کو صحیح طریقے سے 'ہضم' کرنا سیکھیں۔ (ترتیب و پیشکش: محمد ادریس پھلتی) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_08.html