Sunday, 16 February 2025

حاجت مندوں کے لئے مجرب عمل

حاجت مندوں کے لئے ایک مجرب عمل
حافظ القرآن و الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ مسجد نبوی شریف میں، گنبد خضریٰ کے سامنے وعظ ارشاد فرما رہے تھے، دوران وعظ فرمایا ایک وظیفہ بتلاتا ہوں جو میرا مجرب ہے، جب بھی کسی چیز کی حاجت پیش آتی ہے تو میں یہ پڑھ لیتا ہوں، اللہ تعالیٰ اتنا عطاء فرماتے ہیں کہ پھر سنبھالا نہیں جاتا، پڑھنے کا طریقہ درج ذیل ہے:
صبح کی نماز کے بعد تین مرتبہ، اور 
مغرب کی نماز کے بعد تین مرتبہ 
اول آخر درود شریف کے ساتھ، ان شآءاللہ چند دنوں میں تمام حاجات پوری ہوتی نظر آئیں گی بشرطیکہ صدق دل اور یقین سے پڑھا جائے،
- اَللّٰهُمَّ مَالِكَ الْملْكِ تُؤتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ رَحْمٰنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَرَحِيْمَهُمَا تُعْطِيْهِمَا مَنْ تَشَآءُ وَتَمْنَعُ مِنْهُمَا مَنْ تَشَآءُ ارْحَمْنِيْ رَحْمَةً تُغْنِيْنِيْ  ِبهَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِوَاكَ.
روایت میں ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ  پر قرض تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسی دعا نہ سکھلاؤں کہ اگر تم پر اُحد پہاڑ جیسا قرض ہو تو بھی اللہ تعالیٰ تمہاری طرف سے ادائیگی کا انتظام فرمادیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں درج بالا دعا  پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ (رواہ الطبراني في المعجم الصغير)
2- " تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَیِّ الَّذِيْ لَا یَمُوْتُ الْحَمْدُلِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا."
3- "اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْ بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَ أغْنِنِيْ بِفَضْلِكَ عَنْ مَنْ سِوَاكَ."
نوٹ: حضرت درخواستی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے وظیفہ پڑھنے کی اجازت عام ہے،
طالب دعاء مرغوب الرحمن درخواستی ( #ایس_اے_ساگر )

Thursday, 13 February 2025

شب برات اور زیارت قبور کے آداب و احکام

 شب برات اور زیارت قبور کے آداب و احکام

----------------------------------

---------------------------------- 

شب برات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پوری عمر مبارک میں ایک مرتبہ خاموشی سے جنت البقیع جانا اور مردوں کے لئے دعائے مغفرت کرنا بعض ضعیف روایت سے ثابت ہے:
عن عائشة قال : فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ "أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ." قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ . فَقَالَ "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ."
(ترمذی، الصوم، باب ماجاء فی لیلة نصف الشعبان (۷۳۹)، وابن ماجه (۱۳۸۹)، واحمد (٢٦٥٤٦)، والبیھقی فی شعب الایمان (٣٨٢٤)، والمعجم الاوسط لطبرانی (۱۹۹)، وجمع الجوامع (۱۷۳۷)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر سے) غائب پایا۔ (میں نے تلاش کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع الغرقد میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا یہ گمان تھا کہ آپ کسی دوسری اہلیہ کے ہاں چلے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان (۱۵ شعبان) کی رات کو آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے۔ (ترمذی، الصوم، باب ماجاء فی لیلة نصف الشعبان (۷۳۹)، وابن ماجه (۱۳۸۹)، واحمد (٢٦٥٤٦)، والبیھقی فی شعب الایمان (٣٨٢٤)، والمعجم الاوسط لطبرانی (۱۹۹)، وجمع الجوامع (۱۷۳۷)
یہ روایت اسنادی حیثیت سے کمزور ہے، مسلم شریف کی ایک صحیح طویل حدیث میں بقیع غرقد جانے کا یہ واقعہ مطلق وارد ہوا ہے، شب برات کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔ ترمذی وغیرہ کی روایات مذکورہ کی بنیاد پر شب برات میں عبرت وموعظت کے حصول اور مردوں کے ایصال ثواب کے غرض سے قبرستان جانے کا جواز ثابت تو ہوتا ہے۔ لیکن اس کی شرعی حیثیت استحباب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ کسی التزام و اہتمام و اجتماعی ہیئت وکیفیت کے بغیر انفرادی طور پر اس رات قبرستان جانا مستحب ہے۔ قبرستان جاکر قبروں سے استمداد، جزع فزع، صاحب قبر کی بیجا تعریف کرنے سے منع کیا گیا ہے:
نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا۔ (طبرانی کبیر: 11653)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، پس اب تم زیارت کرلیا کرو اور کوئی بیہودہ بات نہ کہا کرو۔ حضرت ابن بُریدہ رضی اللہُ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:
وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَزُورَ فَلْيَزُرْ، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا۔(نسائی: 2033)
میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، لیکن اب جو زیارت کرنا چاہے وہ کرسکتا ہے، لیکن(قبروں کی زیارت میں)کوئی بیہودہ بات نہ کہا کرو۔ قبرستان پہنچ کر سب سے پہلے صاحب قبر کے لیے سلامتی کی دعا کی جائے. حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ قبرستان کی جانب نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء پڑھی:
«السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ»
تم پر سلامتی ہو اے ایمان والو! اور بیشک ہم بھی تمہارے ساتھ لاحق ہونے والے ہیں۔ (مسلم: 975۔ ترمذی: 1053)
سلامتی کی دعا کے بعد ان کے لئے دعا مغفرت ورحمت کی جائے:
«السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا، مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ، بِكُمْ لَاحِقُونَ، اَللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ»۔
(سلامتی ہو تم پر اے مومنین! تمہارے پاس وہ چیز آئی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا یعنی ثواب و عذاب کل کو یعنی قیامت کے دن کو تمہیں ایک معین مدت تک مہلت دی گئی ہے اور یقیناً ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم سے ملنے ہی والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد والوں کو بخش دے)۔ (مسلم: 974)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں قیام فرما ہوتے تو (اکثر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصہ میں بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (قبر والوں سے خطاب کرکے یہ دعا فرماتے) مردہ کے پائوں کی طرف سے قبر پہ جائے، سر کی طرف سے داخل نہ ہو، اس سے مردے کو تکلیف ہوتی ہے۔ ایصال ثواب کرتے ہوئے قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پشت کرکے کھڑا ہو. اور جب دعا کا ارادہ کرے تو قبر کی طرف پشت اور قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو، ہندیہ میں ہے:
ثم يقف مستدبر القبلة مستقبلا لوجه الميت . وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلة مستدبرا لوجه الميت. (هنديه 350/5. كتاب الكراهية)
قبرستان میں بحالت قیام قبلہ رو ہوکر، دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعاء و استغفار کرنا سنت ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے قبرستان بقیع الغرقد میں کھڑے ہوکر، ہاتھ اُٹھاکر تین دفعہ دعاکی:
جاء البقيع فأطال القيام ثم رفع يديه ثلاث مرات. (مسلم. الجنائز. باب الذهاب الى زيارة القبور 1619. نسأيي 2010.)۔
دوسرے رخ پہ اور بیٹھے ہوئے اور بلا ہاتھ اٹھائے ہوئے بھی دعا کرنا جائز ہے۔ اس کے بعد قرآن میں سے جو یاد ہو پڑھ کر ایصالِ ثواب کرے، عض روایات میں ہے کہ جو شخص قبروں پر سے گزرا اور [قل ھو اللّٰہ احد] گیارہ دفعہ پڑھ کر اس کا ثواب مرُدوں کو پہنچایا، تو اس کو وہاں کے مرُدوں کی تعداد کے برابر اجر ملے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو قبرستان میں داخل ہو ا، اور سورۂ فاتحہ اور اخلاص اور الھاکم التکاثر پڑھا اور کہا کہ اے اللہ! میں نے تیرا جو کلام پڑھا ہے اس کا ثواب قبر والے مؤمن مردوں اور عورتوں کو میں دیتا ہوں تو یہ قبر والے ا للہ کے پاس اس کے حق میں سفارش کریں گے۔ (بہ حوالہ اعلاء السنن: ۸/۲۸۷ تا ۸/۲۸۸) قبرستان جاتے ہوئے قبروں کے درمیان جوتے پہن کر نہ چلے، ہاں اگر باضابطہ راستہ بنا ہوا ہو تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔ قبر پہ ٹیک لگاکے بیٹھے، نہ اسے روندے اور نہ وہاں پیشاب پاخانہ کرے۔ شور وغوغا، جشن وچراغاں اور طوفان ہائو ہو بپا کئے بغیر انفرادی طور پر مذکورہ بالا آداب کی رعایت ولحاظ کے ساتھ شب برات میں قبروں کی زیارت کی اجازت ہے، یہ عمل صرف مستحب کے درجے کا ہے، عوام اسے سنت و واجب نہ سمجھے۔ فقط۔ واللہ اعلم
https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/blog-post_38.html


سترہ قائم کرنے کی شرعی حیثیت، اس کی حکمت ومقصد اور اس کی شرعی مقدار؟

سترہ قائم کرنے کی شرعی حیثیت، اس کی حکمت ومقصد اور اس کی شرعی مقدار؟

----------------------------------

---------------------------------- 

حضرات مفتیان عظام سے سوال یہ ہے کہ نمازی نماز ادا کررہا ہوتا ہے اس کے آگے کی صف میں بیٹھا ہوا شخص اپنا ہاتھ چوڑائی میں بطور سترہ کے رکھ لیتا ہے پھر لوگ اس کے آگے سے گزرجاتے ہیں تو کیا اس طرح رکھا ہاتھ سترہ کے قائم مقام ہوجائے گا یا نہیں؟ مدلل جواب مطلوب ہے. دارالافتاء دارالعلوم دیوبند اور بنوری ٹائون کا احقر کے سامنے ہے سوال کا مقصد مزید تنقیح و تحقیق ہے بطور خاص مفتی شکیل منصور قاسمی دامت برکاتہم سے توجہ کی درخواست ہے. حضرت ہاتھ کا کہنی تک کا حصہ سیدھا کھڑا کرکے سترہ بنایا تو اوصاف و شرائط سترہ کے وجود کے سبب اس کے کافی ہونے میں شک نہیں لیکن یہاں سوال چوڑائی میں ٹیڑھا رکھنے کے بارے میں ہے.

الجواب وباللہ التوفیق:

امام اور منفرد کے لئے اتخاذ سترہ سنت ہے. حنفیہ کے یہاں اگر کسی کے گزرنے کا مظنہ نہ ہو تو ترک سترہ کی بھی گنجائش ہے؛ ورنہ مکروہ تنزیہی ہے. سترہ قائم کرنے کی سنیت یا استحباب کا مقصد نمازی کو ذہنی انتشار سے محفوظ رکھنا ہے ۔ جب نفس عمل کی حیثیت سنیت کی ہے تو اس کی تحدید وتنصیب بھی سنیت سے متجاوز نہیں ہوسکتی. سترہ کی اقل مقدار کے بارے میں حدیث میں "مِثْلُ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ" آیا ہے، اور مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ (کجاوے کا پچھلا حصہ) کماً مختلف ہوتا تھا. اس لئے ائمہ میں اس کی تحدید مقدار میں اختلاف ہوا. ائمہ ثلاثہ کے یہاں اس کی کم سے کم مقدار  لمبائی میں ایک ہاتھ اور چورائی میں انگلی کے برابر ہونا مسنون ہے جبکہ حنابلہ کے یہاں بالشت بھر ہونے سے بھی کام چل جائے گا. یہ بھی مسنون ہے کہ اس کیفیت کا حامل سترہ کھڑا ہو. لیکن جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں عرضاً رکھ دینے سے بھی سنیت ادا ہوجائے گی. سترہ قائم کرنا بھی سنت ہے. اور اسے لمبائی میں کھڑا کرنا بھی سنت ہے. جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں ہاتھ بھر لمبی جس چیز سے بھی پردہ کردیا جائے اور نمازی کی توجہ منتشر ہونے سے بچ جائے؛ خواہ قیاماً ہو یا نصباً وہ سترہ کے قائم مقام ہوجائے گی. بعض ائمہ کے یہاں خط کھینچ دینا بھی کافی ہے جس سے مسئلے میں عموم وتوسع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے. اس تفصیل سے اب مسئولہ جزئیہ کا جواب بھی واضح ہے کہ چوڑائی میں ہاتھ رکھنے سے بھی سترہ کی سنیت ادا ہوجائے گی۔ واللہ اعلم 

https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/blog-post_13.html


Saturday, 1 February 2025

تیری رضا جو ہو سو ہو

 تیری رضا جو ہو سو ہو 

----------------------------------

---------------------------------- 

خلّاقِ اکبر نے انسان کی طبعیت میں ناپائیدار خواہشات ومتضاد خوابوں کا تعاقب کرنا شامل کردیا ہے، وہ دنیاوی حسن، جمال، دولت، شہرت، مادی آسائش وآرام پاکر بھی مضطرب وبے چین ہی رہتا ہے، انسانی زندگی کی حقیقی خوشی، مسرت وطمانینت اور معنویت دنیاوی آسائشوں ، کامیابیوں اور حصولیابیوں میں نہیں؛ بلکہ روحانی تعلقات کی استواری اور "تسلیم ورضاء" میں مضمر ہے۔ انسان عموماً اپنی ایک حالت پر راضی نہیں ہوتا، بلکہ ہمیشہ اس چیز کی خواہش کرتا ہے جو اسے نصیب نہیں ہوئی ہوتی، اور وہ نعمت جو اللہ نے اسے عطا کر رکھی ہوتی ہے، اس کی قدر نہیں کرتا۔ اسلام نے بندہ مومن کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ صبر وتوکل کا پیکر بنا رہے اور رنج وراحت میں بھی اس کا شعار “الحمد للہ” ہونا چاہیے۔ غم ہوکہ خوشی، آسانی وفتوحات کا زمانہ ہو یا ابتلاء وآزمائش اور مشکلات کی گھڑی، وہ ہر دو حالتوں میں اپنے رب کی عطاء ونوازش اور اس کے فیصلے پر راضی رہ کر "الحمدللہ" کہنے کا مزاج بنائے، اس سے حقیقی بندگی کا مزہ پائے گا اور یہی وہ بلند مقام ہے جس تک پہنچنا انسان کے لئے بہ ظاہر مشکل ہوتا ہے؛ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس میں بھی اس کے لیے کوئی بھلائی چھپا رکھی ہوتی ہے۔ انسانی فطرت کی بے قراری،  خواہشات کی نہ ختم ہونے والی دوڑ اور زندگی کی ناپائیداری کو ایک عربی شاعر  عباس محمود العقاد نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ انتہائی مؤثر اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے، اشعار اس قابل ہیں کہ انہیں سرمہ بصیرت بنایا جائے اور لوح قلب پہ ثبت کرلیا جائے:

۱: صغيرٌ يطب الكبرَا —-وشيخٌ ودَّ لو صغرا

(چھوٹا بچہ بڑا بننے کی خواہش رکھتا ہے، اور بوڑھا شخص چاہتا ہے کہ کاش وہ پھر سے جوان ہوجاتا) یعنی چھوٹا بچہ بڑا ہونا چاہتا ہے تاکہ خود مختار ہوسکے، اپنی امیدوں اور خوابوں کو پورا کر سکے۔جبکہ بوڑھا شخص حسرت کرتا ہے کہ کاش وقت پیچھے پلٹ جائے تاکہ وہ ان تمناؤں کو پورا کر لے جنہیں وہ حاصل نہ کرسکا۔ (جیسا کہ کہا گیا: ألا ليت الشباب يعود يوماً.. فأخبره بما فعل المشيب. "اے کاش! جوانی ایک دن لوٹ آتی، تاکہ میں اسے بتا سکتا کہ بڑھاپے نے میرے ساتھ کیا کیا!")

۲: وخالٍ يشتهي عملًا —-وذو عمل به ضجرا

(بے روزگار شخص کام کی تمنا کرتا ہے، اور جو کام میں لگا ہوا ہے، وہ اس سے بیزار ہے) یعنی بے روزگار شخص چاہتا ہے کہ اسے کوئی مصروفیت ملے، جبکہ جو شخص مصروف کارگہِ حیات ہے، وہ تھکن اور بوجھ سے تنگ آ چکا ہوتا اور کام سے فراغت کی تمنا کرتا ہے)۔

۳: ورب المال في تعب —-وفي تعب من افتقرا

(مالدار شخص بھی پریشان ہے[چاہے اس کے پاس کوئی اس کا کاروبار سنبھالنے والا ہو، پھر بھی وہ فکرمند اور بے چین ہے] اور جو غریب ہے، وہ بھی تکلیف میں ہے [کیونکہ اس کے پاس ضروریات زندگی کے وسائل نہیں ہیں].

۴: وذو الأولاد مهمومٌ —-وطالبهم قد انفطرا 

(جس کے پاس اولاد ہے، وہ ان کے حال اور مستقبل کی فکر میں مبتلا ہے۔

اور جو اولاد کے لیے ترستا ہے، وہ بھی بے چین ہے)

۵: ويشقى المرءُ منهزمًا ولا يرتاحُ منتصرا

( انسان شکست کھا کر افسردہ ہو جاتا ہے، اور جیت کر بھی سکون نہیں پاتا۔( بلکہ ہفت اقلیم کے حصول کے لئے سرگرداں ( حیران وسرگرداں) رہتا ہے)

۶: ومن فقد الجمال شكي —-وقد يشكو الذي بُهِرا

(جسے حسن نہیں ملا، وہ شکوہ کرتا ہے (آئینہ میں شکل دیکھ کر خوش نہیں ہوتا)  چاہے وہ اپنی ذات کے بارے میں ہو یا اپنی بیوی کے بارے میں) اور جسے حسن ملا، وہ بھی شکایت کرتا ہے(اسے دوسروں کی حسد اور جلن کا سامنا کرنا پڑتا ہے) چاہے وہ خود کا ہو یا اپنی بیوی کا۔

۷: ويبغي المجد في لهفٍ فإن يظفر به فترا

(وہ عظمت اور کامیابی کی شدید خواہش رکھتا ہے، لیکن جب اسے حاصل کر لیتا ہے تو اس سے بیزار ہوجاتا ہے (ناقدری شروع کردیتا اور اپنے کام کی تحقیر شروع کردیتا ہے)

۸: شكاة ما لها حَكمٌ —-سوى الخصمين إن حضرا

(یہ تمام شکایتیں ایسی ہیں جن کا کوئی منصف نہیں، سوائے اس کے کہ دونوں فریق خود موجود ہوں)

۹: فهل حاروا مع الأقدا ر—- أو هم حيَّروا القدرا؟

(تو کیا یہ لوگ تقدیر سے پریشان ہیں، یا انہوں نے خود تقدیر کو حیران کردیا ہے؟)

حیاتِ انسانی مستقل "تغیّر" کا نام ہے، یہاں احوال کو نہیں؛ صرف "تغیرات" کو دوام واستقلال ہے۔ رات کی تاریکیوں سے  نورسحر پھوٹتا اور آفتاب عالم تاب کی  ضوفشانیوں کے بعد گُھپ اندھیری رات ڈیرہ ڈال دیتی ہے، غم ہو یا خوشی عسر ہو یا یسر! سارے احوال فانی ہیں، بندہ مومن کو اس فلسفہ تغیرات کو سمجھتے ہوئے اچھی وبُری ہر حالت میں تسلیم وتوکل  کے ساتھ مستانہ وار یہ گنگناتے رہنا چاہیے:

درپہ ہوں تیرے آکھڑا 

کیا کہوں بس خاموش ہوں 

شاہ بنا   گدا بنا 

تیری رضا جو ہو سو ہو 

(ہفتہ 2؍ شعبان المعظم 1446ھ یکم ؍ فروری 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر) 

https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/blog-post.html



اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق (قسط نمبر 2)

 اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق (قسط نمبر 2) 

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ [النساء: 36].

اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، ساتھ بیٹھے (یا ساتھ کھڑے) ہوئے شخص اور راہ گیر کے ساتھ (اچھا برتاؤ رکھو)

معزز قارئین، اس آیت مبارکہ میں والدین اقرباء اور رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے بھی مستقل حقوق بیان کیے گئے ہیں- ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر ہمارا پڑوسی بھوکا ہے تو ہم اسے اپنے کھانے میں شریک کریں، اگر وہ بیمار ہے تو اس کی عیادت و تیمارداری کریں، اگر وہ کسی آفت و مصیبت کا شکار ہے یا کسی رنج و غم میں مبتلا ہے تو ہم اس کا دست و بازو بن کر اس کے رنج وغم کا مداوا کریں لیکن آج ہمارا مسلم معاشرہ اس اسلامی معاشرہ کے سبق سے اتنا غافل ہوچکا ہے کہ ایک طرف تو ایک مسلمان بھائی پوری فیملی کے ساتھ بھوکا سونے پر مجبور ہے کیونکہ گھر پر ایک روٹی کے آٹے تک بندوست نہیں ہے- دوسری طرف پورا محلہ اور گاؤں روایتی بے سود جلسوں اور پروگراموں اور مہنگی شادیوں میں مگن ہے. جی. یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حال ہی میں گھٹی ایک سچی گھٹنا ہے. اسی طرح کچھ عرصہ قبل ایک عالم دین کی ویڈیو کال آئ جو حالات اور تنگدستی سے پریشان ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور تھا- ان سطور کے قلم بند کرنے کا واحد مقصد امت کے اہل خیر حضرات کی توجہ اس پہلو کی طرف مبذول کرنا ہے جس کی امر کی واضح تعلیمات آپ علیہ السلام بار بار امت کے سامنے بیان فرمائی- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں ہمسایہ اور پڑوسی کے حقوق کی اہمیت اس طرح فرمائی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پڑوسیوں کے یہاں تک حقوق بیان کئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے- (مسنداحمد: 20350)

پڑوسی کی اقسام:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پڑوسی کی تین اقسام ہیں: (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے (2 ) وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں (3) وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں۔بعد ازاں خود نبی کریم ﷺ نے ان تینوں اقسام کے حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:مسلمان رشتہ دار پڑوسی کے تین حق ہیں:حقِ پڑوس، حقِ اسلام اور رشتہ داری کا حق۔مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں: حقِ پڑوس اور حقِ اسلام۔ مشرک پڑوسی کا صرف ایک حق ہے: اورہ وہ ہے حقِ پڑوس۔(شعب الایمان، باب فی اکرام الجار: 9113)

پڑوسی کے حقوق کی اختصار کے ساتھ تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ بیمار ہو تو تم اس کی عیادت کرو، اگر وہ مرجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، اگر وہ تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو، اگر وہ بدحال ہو تو اس کی پردہ پوشی کرو، اگر اس کو کوئی اچھائی پہنچے تو اس کو مبارکباد دو، اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کرو، اپنے گھر کی عمارت اس کی عمارت سے بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے۔ (المعجم الکبیر: ج 19، ص 419) 

اُم المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی:میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے ایک میرے دروازے کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا کچھ دور، بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی، لہٰذا ان دونوں میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے- (صحیح بخاری: 2595)۔

حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب تم میں سے کوئی شخص سالن پکائے تو اس میں شوربہ زیادہ کرے، پھر اپنے پڑوسی کو بھی اس میں سے دے (المعجم الاوسط: 3615)۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص پیٹ بھرکر رات گزارے اور اس کو علم ہو کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے اس کا مجھ پر ایمان نہیں ہے. (المعجم الکبیر: 751) ۔

 جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے. (صحیح مسلم: 165)

اللہ تعالیٰ ہم کو اس بھولے سبق پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے 

آمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن يارب العالمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن

مُحَمَّد عَارِف دَهٗلَوِى٘ (02/02/25)  ( #ایس_اے_ساگر )

https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/2.html



Friday, 31 January 2025

اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق

اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق
 وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىٕكُمْؕ-اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (32)
ترجمہ: اور تم میں سے جو بغیر نکاح کے ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو نیک ہیں ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔
اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں  کو نگاہیں جھکاکر رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا، اب اس آیت میں شرم گاہوں کی حفاظت کا ایک پاکیزہ طریقہ بیان کیا جارہا ہے، تم میں سے جو بغیر نکاح کے ہوں، خواہ مرد ہوں یا عورتیں، کنوارے یا غیر کنوارے (یعنی شادی شدہ تھے لیکن پھر طلاق یا موت ہوگئی) اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں  میں سے جو نیک ہیں  ان کے نکاح کردو۔
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تین شخصوں  کی اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ جن میں ایک پارسائی کے ارادے سے نکاح کرنے والا ہے۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی المجاہد والناکح والمکاتب۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۷، الحدیث: ۱۶۶۱)
معزز قارئین، اس وقت ہمارے معاشرے میں ایسی بے شمار خواتین ہیں، جن کو کم عمری ہی میں طلاق ہوجاتی ہے یا شوہر کے وفات پاجانے کی وجہ سے ان پر بیوہ کا ٹائٹل لگ جاتا ہے، بلا شبہ ایسی ستم زدہ اور تقدیر کی ماری خواتین ہر محلہ، گاؤں اور علاقے میں بکثرت پائ جاتی ہیں جو یا تو سسرال ہی میں یا پھر میکے میں بڑے درد و الم کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں، والدین لاکھوں جتن کرکے تو بڑے آسرے اور امنگوں کے ساتھ  بیٹی کو وداع کرتے ہیں لیکن چند سال بعد پھر جب یہ نا ختم ہونے والا درد آگھیرتا ہے تو ستم بالائے ستم ہمارا معاشرہ جلے پر نمک چھڑکنے سے نہیں چوکتا ہے۔
محترم قارئین، ایسی دکھیاری اور غمزدہ خواتین کا ایک ایک منٹ ہزاروں سال کے برابر گزرتا ہے۔ وہ گھٹ گھٹ کر اپنے آنسوؤں کو پی کر زندگی گزارتی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی مایوس اور تاریک زندگیوں میں ایک نئی امید پیدا کرکےخوشیاں بھری جائیں۔
اولا تو یہ ہونا یہ چاہئے کہ جو حضرات اس کی استعداد رکھتے ہیں وہ آگے بڑھیں اور شرعی طریقے سے ایسی خواتین کا ہاتھ تھام کر انہیں نئی زندگی کی شروعات کا موقع فراہم کریں۔ حدیث میں ہے کہ من تمسك بسنتي عند فساد أمتي، فله أجر مائة شهيد (رواه الطبراني)
ترجمہ: جس شخص نے میری امت کے فساد کے وقت میری سنت پر عمل کیا تو اس کے لئے سو شہید کا ثواب ہے۔
آپ علیہ السلام نے اپنے سارے نکاح ایسی ہی  بیوہ یا مطلقہ عورتوں سے فرمائے سوائے ایک کے اور معاشرہ میں ایسی خواتین کا قد بڑھاکر امہات المؤمنین کے لقب سے سرفراز فرمایا۔
اگر ہم خود اس کی قدرت اور استطاعت نہیں رکھتے تو پھر اس حدیث پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بچولیا کا کردار ادا کرکے ایسی بے سہاراؤں کا سہار بن کر ان کی دعائیں لیں: من دل على خير، فله أجر فاعله. (رواه مسلم)
ترجمہ:جس نے بھلائی کا راستہ دکھایا تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتا ہے۔
نوٹ: کئی کارگزاریاں حال ہی میں بڑی تکلیف دہ اس بابت سنیں (تفصیلات کو طوالت کی بنا پر ترک کردیا ہے) اسی وجہ سے مذکورہ بالا چند سطور لکھی گئی ہیں کیونکہ مطلقہ یا بیوہ کی کفالت اور گزربسر کا کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا بالآخر یا تو وہ گداگری کا شکار ہوجاتی ہیں یا پھر ان کو قوم کی زکوٰۃ و صدقات پر نربھر رہنا پڑتا ہے بہت سی دکھیاری بہنیں تو مجبوراً غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
اللہم احفظنا منہ
آمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن يارب العالمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن (بقلم: مُحَمَّد عَارِف دَهٗلَوِى٘) (31/01/25) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_31.html

Thursday, 30 January 2025

محبت کا معیار

محبت کا معیار

مرد کو اپنی بیوی سے اور عورت کو اپنے شوہر سے کتنی محبت ہونی چاہئے- الله تعالی نے انسان کو انسانی صفات، عادات و اخلاق پر ڈھالا ہے۔ جس کو جبلت و فطرت بھی کہتے ہیں، جس پر انسان کو ڈھالا جائے اس میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا، کہاوت ہے: 

"جبل گردد جبلت نگردد"

ان صفات و عادات میں سے ایک "محبت" ہے۔ الله تعالی نے محبت کرنے کا جذبہ، صلاحیت، استعداد ہر انسان کے دل میں رکھی ہے۔ وہ اپنے دل کا کھچاؤ ضرور کسی کی طرف محسوس کرتا ہے۔

محبت گناہ نہیں:

اور محبت کرنا گناہ نہیں ہیں، ہاں اسباب گناہ ہوسکتے ہیں۔ طور طریق گناہ ہوسکتا ہے لیکن کسی پر دل آجانا برا نہیں، کسی کے حسن و جمال، کمال و منال پر فریفتہ ہونا گناہ نہیں۔ "ولو اعجبک حسنھن" ہم نے اپنے بڑوں سے یہ شعر سنا ہے:

گر سمجھو تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

محبت میں انسان مجبور ہے

پھر محبت اضطراری ہے کہ یہ تو دل کا کام ہے، 

"بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے"

اور دل پر کس کا زور چلتا ہے؟ نہ چاہتے ہوئے بھی دل کسی پر مر مٹتا ہے، کسی پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتا ہے، دل کا سودا کرکے سودائی ہوجاتا ہے۔ اس سودائی سے کوئی پوچھے کہ تم یہ کر کیا رہے ہو؟ کس پیچ و تاب میں ہو ؟تو جواب اس کا یہی ہوتا ہے: 

محبت ہو تو جاتی ہے محبت کی نہیں جاتی

یہ شعلہ خود بھڑک اٹھتا ہے بھڑکا یا نہیں جاتا

محبت کسے کہتے ہیں:

بعض چیزیں دقیق و غامض ہوتی ہی اس لیے ان کی تعریف دشوار ہوجاتی ہیں، بعض چیری عیاں، روشن واضح ترین بلکہ ابدہ البدیہیات ہوتی ہیں اس وجہ سے ان کی تعریف دشوار ہوجاتی ہے۔ علم کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں آپ پڑھتے پڑھتے تھک جائیں گے۔ حتی کہ بعضوں نے تو اسے ناقابل تعریف قرار دے دیا۔ محبت بھی اسی قسم میں سے ہے۔ کسی نے کہا:

"میل القلب الی الشیئ لتصور کمال فیہ" [العینی] 

یعنی دل کا کسی چیز پر آجانا اس کے اندر موجود کسی کمال کی وجہ سے۔

المیل الی مایوافق المحب [النووی]

محبوب کے موافق و پسندیدہ چیز کی طرف میلان کا نام محبت ہے، کسی نے کہا: بھلی، خوشگوار لگنے والی چیز کی طرف دل کا جھکاؤ۔ کسی نے کہا: محض محبوب کی خواہش کے پیش نظر اپنی خواہش کو پیروں تلے روند دینا۔ تقی صاحب فرماتے ہیں:

محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا

متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہوجانا

کسی نے کچھ کہا ہے اور کسی نے کچھ۔ اس مقام کے مناسب، سپر ڈال دینا ہے، یہ ایک بدیہی چیز ہے، جیسے انسان پیٹ میں بھوک محسوس کرتا ہے، وہ اپنے دل میں محبت بھی محسوس کرتا ہے اس کو تعریف کرکے سمجھایا نہیں جاسکتا۔ بقول شاعر: 

محبت اصل میں "مخمورؔ" وہ رازِ حقیقت ہے

سمجھ میں آگیا ہے پھر بھی سمجھایا نہیں جاتا

محبت کی کئی قسمیں کی گئی ہیں؛ لغوی عرفی اختیاری اضطراری عشقی ایمانی، حقیقی مجازی ہوسکتا ہے تعریف میں اس اعتبار سے فرق ہو، یا ہوسکتا ہے  ابتداءو انتہاء کا فرق ہو،

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا 

آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا

جیسے انتہاء پر پہچنے کے بعد کوئی عاشق کہہ اٹھتا ہے " بخدا میرا سر قلم ہونے سے بچ جائے اور حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کو ایک کانٹا بھی چبھے مجھے یہ بھی گوارا نہیں" 

کسی شاعر نے کہا ہے: 

من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی

تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری [امیر خسرو دہلوی]

میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔  نبی کی چاہت میں یہی مطلوب ہے کہ انسان ہر چیز/ ہر شخص کی محبت پر نبی کی محبت کو بڑھا دے والد اور اولاد کی محبت سے بھی حتی کہ اپنے آپ سے بھی زیادہ نبی کی محبت ہو۔ [بخآری]

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ اور ان جیسے دوسرے عاشقان رسول نے ایسا کرکے بتایا وہ ایک جان دو قالب تھے، ان کی وہی خواہشات، جذبات و پسند نا پسند تھیں جو نبی کی تھی۔

أَنا مَن أَهوى وَمَن أَهوى أَنا

نَحنُ روحانِ حَلَنا بَدَنا

میاں بیوی کی محبت:

آج کل جب محبت، پیار، عشق بولا جاتا ہے تو عورت کی مرد سے اور مرد کی عورت سے عشق ہی مراد لیا جاتا ہے، معاشرے میں اسے بہت بڑا درجہ دے دیا گیا ہے جو نہ سرحدیں دیکھتا ہے نہ حدیں، نہ رنگ و نسل دیکھتا ہے نہ تہذیب و کلچر، نہ دھرم دیکھتا ہے نہ مذہب، کہا جاتا ہے محبت اور پیار سب سے اوپر ہے، پیار اندھا ہوتا ہے، محبت کا کوئی مذہب نہیں یہ مذہب سے بالاتر ہے. [العیاذ بالله]

حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے جب یہ کہا تھا کہ میری محبت سب سے زیادہ ہونی چاہیے تو فرمایا تھا والدین سے ["والد" بمعنی من له الولد]، اولاد سے بھی اور تمام لوگوں سے زیادہ ہونی چاہیے۔ "زوجہ" کا ذکر صراحتا نہیں کیا بلکہ اسے "والناس اجمعین" کے ضمن میں بیان کیا۔ اور سورۂ توبہ میں الله تعالی ارشاد فرماتے ہیں (اے رسول !) آپ کہہ دیجئے، اگر تمہارے باپ دادا۔ تمہاری اولاد، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان، مال و اسباب جن کو تم نے حاصل کیا ہے، (تمہاری) تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تمہیں ڈر لگارہتا ہے اور وہ رہائش گاہیں جنھیں تم پسند کرتے ہو، اگر تمہیں اللہ، اس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہوں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ جاری کردیں، اور اللہ نافرمانی کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتے۔ اس فرمان میں بھی بیوی کی محبت کو باپ دادا، اولاد اور بھائیوں کے بعد رکھا ہے۔ میرا مقصود بیوی سے محبت کی نفی نہیں ہے بس درجات کا تعین ہے، آخر زمانے میں لوگ بیوی کی محبت میں بیوی کو ماں سے زیادہ ترجیح دینے لگے گیں، مقصد اس کی روک تھام ہے، غلو سے اور اس سلسلے میں ہونے والی خطاووں سے محافظت ہے۔ فی نفسہ میاں بیوی کی محبت تو ان کی فطرت اور گٹھی میں ہے، الله تعالی ارشاد فرماتے ہیں: اسی کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے جوڑے (بیویاں) بنادیئے؛ تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان پائیدار محبت اور ہمدردی پیدا کردی. [سورۂ روم: ۲۰]

الله تعالی نے انسانوں کے فائدے کے لیے بیویاں بنائی، سوچو اگر اس دنیا میں صرف مرد ہی مرد ہوتے عورتوں کا نام و نشان نہ ہوتا تو دنیا کتنی بے رونق ہوتی، دنیا کی سرسبز و شادابی اور خوش نمائی بے رنگ ہوجاتی، زندگی بدمزہ بے ڈھنگ ہوتی۔ اور وہ فائدہ یہ ہے کہ مرد عورت کے پاس جاکر بیٹھے اس سے باتیں کرے اس سے لذت حاصل کرے اور سکون پائے، سکون پانے کے لیے آسانی ہو اس لیے ان دونوں میں پائیدار محبت اور ایک دوسرے کی طرف جھکاؤ و میلان رکھا اور شفقت و ہمدردی بھی۔ اگر محبت نہ ہو تو آدمی اس سے بچے ہونے کی وجہ سے یا اس کی ضرورت ہونے کی وجہ یا اس کے ساتھ کافی عرصہ ساتھ گزارنے کی وجہ سے اس سے مہربانی کا معاملہ کرتا ہے۔ اس وجہ سے ہمدردی بھی رکھی گئی۔ یہ محبت میاں بیوی کی عموما "نکاح" سے وجود میں آتی ہے، الله تعالی نے نکاح کو بنایا ہی ایسی چیز ہے کہ ایک لفظ ہی سے دو پرائے اشخاص ایک دوسرے کے لیے شیر وشکر ہوجاتے ہیں۔ حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: 

"لم تر للمتحابين مثل النكاح۔" 

"تم دو محبت کرنے والوں کے لئے نکاح کی طرح کوئی چیز نہیں پاؤگے۔"  مطلب یہ ہے کہ نکاح کے ذریعہ جس طرح خاوند اور بیوی کے درمیان بغیر کسی قرابت کے بے پناہ محبت والفت پیدا ہو جاتی ہے، اس طرح کا کوئی تعلق ایسا نہیں ہے جو دو شخصوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہوں، اس درجہ کی محبت والفت پیدا کردے۔ یا مطلب یہ ہے کہ مرد کسی پر فریفتہ ہوگیا تو اس فریفتگی اور محبت کا بقا نکاح سے بہتر کسی چیز میں نہیں۔ رسول اللہ صلی الله تعالی علیہ وسلم کی سیرت ہمارے لیے بہترین مشعلِ راہ ہے، آں حضرت صلی الله تعالی علیہ وسلم اپنی ازواجِ مطہرات اور خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہایت محبت رکھتے تھے اور یہ تمام صحابہ کو معلوم تھا، چنانچہ لوگ قصدًا اسی روز  ہدیے اور تحفے بھیجتے تھے جس روز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں قیام کی باری ہوتی۔ [بخآری]

اسی محبت کی وجہ سے آپ اپنے زندگی کے ایام حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالی عنھا کے پاس گزارنا چاہتے تھے، اسی وجہ سے آپ ان کی عزت افزائی کرتے اور کبھی "یاموفقہ" فرماتے کبھی فرماتے "جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر فضیلت ہے اسی طرح عائشہ کو تمام عورتوں پر فضیلت ہے [شمائل ترمذی] کبھی فرماتے: 

"أنا لك كأبي زرع لأم زرع" 

میں تمہارے لیے ایسا ہوں جیسے ابو زرع ام زرع کے لیے۔ کبھی بیوی کی محبت یا شوہر کی محبت حد سے بڑھ جاتی ہے جو اس کے لیے دینی یا دنیاوی ذمہ داریوں میں مخل ہوتی ہے یا مضر ہوتی ہے ایسی محبت نہیں ہونے چاہیے، کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائے یا یہ محبت سے برے یا غلط کام پر آمادہ کرے۔ ایسی خبریں بسا اوقات کانوں سے ٹکراتی ہیں کہ کسی مرد/عورت کو اس کے محبوب نے چھوڑ دیا تو وہ دماغی مریض ہوگیا یا نشےکی لت اختیار کرلی یا کام کاج سے بیٹھ کر دین و دنیا سے بے گانا ہوگیا یا خود کشی کرلی بلکہ بعض ناسمجھ بچیوں کادین تک چھوڑنے کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ کسی کی محبت کو اتنا غالب نہیں ہونے دینا چاہیے کہ وہ اپنا یا اپنے دین کا ہی نقصان کر بیٹھے۔ ہمارے اکابر اگر یہ دیکھتے کہ وہ بیوی کی محبت کی وجہ سے دینی کاموں میں عبادت و ریاضت میں کوتاہی کررہا ہے تو اسے طلاق دینے کا حکم دیتے۔ حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کا واقعہ آپ کو معلوم ہوگا، نہایت حکیم اور مدبر شخص تھے جب انھوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا عبدالله (رضی الله تعالی عنہ) نکاح کے بعد اپنی بیوی سے اس قدر لگاؤ کر رکھا ہے کہ عبادت و مجاہدت میں مخل ہوگا تو انھوں نے طلاق دینے کا حکم دیا- حضرت عبدالله رضی الله تعالی عنہ بھی پریشان کہ کیا کریں۔ انھوں نے نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے الله کے رسول! ابا تو طلاق دینے کا کہہ رہے ہیں؟ کیا کروں؟ تو آپ صلی الله تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ابا کا کہا مانو۔ پھر جب دوسری مرتبہ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ طلاق دینے کہا تو فورا طلاق دے دی، بعد میں بیٹے نے کہا کہ وہ تو فی الحال حائضہ ہے (میں نے اس لیے پہلے نہیں کہا کہ کہیں آپ اسے طلاق نہ دینے کا بہانا نہ سمجھ لیں) ابا نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے استفسار کیا، آپ نے رجوع کرکے پھر ایسے طہر میں طلاق دینے کہا جس میں بیٹے نے بہو سے ہم بستری نہ کی ہو، اور چاہو تو نکاح میں روک بھی سکتے ہو، آپ نے اختیار بھی دیا۔ بہرحال انھوں نے رجوع کیا پھر طلاق نہیں دی کیوں کہ ایک مرتبہ طلاق دینے کے بعد اب پہلے جیسی شدید محبت باقی نہیں رہی تھی۔

مطالبہ حقوق کا ہے محبت کا نہیں:

 جیسا کہ آپ حضرات جان چکے ہیں، دل پر کسی کا زور نہیں چلتا- دل بے قابو ہیں، محبت غیر اختیاری ہوتی ہے۔ اس وجہ سے مردوں سے بھی مطالبہ ادایئگئ حقوق کا ہے اور عورتوں سے بھی، آپ قرآن و حدیث پڑھو گے اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ بیوی سے محبت کرو، محبت پر دائم رہو یا محبت بڑھاؤ بلکہ دونوں کو کہا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو، اس لیے کہ اگر کوئی مرد کہے کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے، آپ کے بنا جینا ادھورا ہے، زندگی فضول ہے، زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے اور حقوق ادا نہیں کرتا نہ اخراجات پورے دیتا ہے نہ خبر گیری کرتا ہے تو یہ زبانی جمع خرچی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عورت یہ کہے آپ میرے سرتاج ہو جان ہی نہیں جان جہاں ہو، تمہارے بنا میں جی تو کجا مر بھی نہیں سکتی، میرے رگ و ریشہ تمہاری محبت میں سرشار ہے لیکن شوہر کے حقوق ادا نہیں کرتی نہ اطاعت کرتی ہے نہ تعظیم تو یہ صرف زبانی ڈھکوسلے اور دغا بازی ہے۔ شاعر کہتا ہے: 

لو كان حبك صادقـاً لأطعتـه

إن المحب لمن يحب مطيـع

اگر تو محبت میں سچی ہوتی تو میری اطاعت کرتی، اس لئے کہ محب جس سے محبت کرتا ہے اس کی اطاعت ضرور کرتا ہے۔

(محمد یحیی بن عبدالحفیظ)

https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_30.html



Monday, 27 January 2025

بدن سے نکلنے والے خون کے ناقض وضوء ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں ائمہ کرام کے نقطہاے نظر

بدن سے نکلنے والے خون کے ناقض وضوء ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں ائمہ کرام کے نقطہاے نظر
----------------------------------
----------------------------------
مفتی صاحب، ایک سوال درپیش ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب ابو لولو فیروز نے زہریلا خنجر مارا تو آپ نے کہا اکلنی کلب درآں حالیکہ آپ نماز میں تھے توکیا اس سے حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کی نماز فاسد ہوگئی؟
 2: اسی طرح اسی طرح حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دو صحابہ کو پہرہ دینے کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ چنانچہ ان میں سے ایک صحابی آرام فرما تھے اور ایک صحابی پہرا دیتے، انھوں نے نماز شروع کردی، دشمن نے ایک تیر پھینکا، وہ ان کو لگا۔ پھر ایک مرتبہ تیر پھینکا تو انھوں نے اس کو توڑ دیا اس عمل سےان کے جسم سے خون تو بہا ہوگا، اس حالت میں انہوں نے نماز مختصر کردی۔ کیا اس سے ان کی نماز ہوگئی یا نمازفاسد ہوگئی؟
مدلل جواب عنایت فرمادیں۔
بہت شکریہ
ایک طالبہ ہفتم عربی
الجواب وبالله التوفيق والسداد 
لما طُعن سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه في صلاة الفجر وسال الدم من جسده قطع صلوته وخرج منها واستناب واستخلف عبدالرحمن بن عوف فتقدم لإتمام الصلاة مع المسلمين وصلى بالناس خفيفة وأتمها،وبعد ما انتهت الصلاة قال عمر لابن عباس انظر من قتلني؟ فجال ساعة ثم جاء فقال غلام المغيرة ….. جاء التصريح عنه في صحيح البخاري "وَأَمَّا نَوَاحِي الْمَسْجِدِ فَإِنَّهُمْ لَا يَدْرُونَ غَيْرَ أَنَّهُمْ قَدْ فَقَدُوا صَوْتَ عُمَرَ ، وَهُمْ يَقُولُونَ : سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ , فَصَلَّى بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ صَلَاةً خَفِيفَةً فَلَمَّا انْصَرَفُوا ، قَالَ : يَا ابْنَ عَبَّاسٍ انْظُرْ مَنْ قَتَلَنِي" إلخ….( صحيح البخاري 3700) 
فقول عمر "قتلني أو أكلني الكلب " كان بعد ما قطع صلوته بوجود ما يوجب الحدث في الصلاة.لا أنه قال هذه الكلمة وهو في الصلاة، فلاإشكال!

وأما مسألة وجوب الوضوء من الدم الخارج من الجسد من غير السبيلين فمما اختلفت فيه آراء الفقهاء المتبوعين.
فالسادة الحنفية جعلت سيلان الدم من الجروح ناقضاً، ولم ينقض به المالكية والشافعيّة 
بينما الحنابلة فرقت بين القليل والكثير على ماهو المعتمد في المذهب.
والقائلون بعدم النقض من دم خارج من غير السبيلين يحتجون بروايات عديدة ، منها عمل عباد بن بشر الأنصاري: 
”أن النبي ﷺ نزل الشِّعب فقال: من يحرسنا الليلة؟ فقام رجل من المهاجرين ورجل من الأنصار فباتا بِفَم الشِّعب، فاقتسما الليلة للحراسة، وقام الأنصاري يصلي، فجاء رجل من العدو فرمى الأنصاري بسهم فأصابه فنزعه، واستمر في صلاته، ثم رماه بثان، فصنع كذلك، ثم رماه بثالث، فنزعه وركع وسجد، وقضى صلاته، ثم أيقظ رفيقه، فلما رأى ما به من الدماء قال له: لم لا أنبهتني أول ما رمى؟ قال: كنت في سورة فأحببت أن لا أقطعها۔ (سنن أبي داود كتاب الطهارة - باب الوضوء من الدم 198، صحيح ابن خزيمة 36, صحيح ابن حبان 1096)
فاستمراره في الصلاة بعد خروج الدم من الجرح يفيد أن الدم الخارج من الجسد لاينقض، والنبي صلى الله عليه وسلم كان مطلعاً عليه ومع ذالك لم يأمره بالوضوء ولا إعادة الصلاة، ولو كان الدم ناقضا لبين له ولمن معه في تلك الغزوة. 

وأما القائلون بانتقاض الوضوء من دم سائل فيستدلون بروايات كثيرة، من أصحّها: 
ما أخرجه أبو داود والترمذي، والنسائي عن حسين المعلم عن يحيى بن أبي كثير حدثني الأوزاعي عن يعيش بن الوليد المخذومي عن أبيه عن معدان بن أبي طلحة عن أبي الدرداء {أن النبي صلى الله عليه وسلم قاء فتوضأ، فلقيت ثوبان في مسجد دمشق فذكرت ذلك له ، فقال: صدق، أنا صببت له وضوءه} (جامع الترمذي - 87، سنن أبي داود - 2381، صحيح ابن خزيمة - 1956، صحيح ابن حبان - 1097)
قال الترمذي: هو أصح شيء في هذا الباب . ورواه الحاكم في "المستدرك " وقال: صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه
وقوله - عَلَيْهِ السَّلَامُ -: «الوضوء من كل دم سائل» أخرجه الدارقطني في "سننه " 
وقوله - عَلَيْهِ السَّلَامُ -: «من قاء أو رعف في صلاته فلينصرف وليتوضأ وليبن على صلاته ما لم يتكلم» ( نصب الراية في تخريج أحاديث الهداية للإمام الزيلعي 93/1، البناية في شرح الهداية لبدر الدين العيني 263/1)

وقال الخطابي أكثر الفقهاء على انتقاض الوضوء بسيلان الدم وهذا أقوى إلى الاتباع.( المصدر السابق)
والله أعلم بالصواب 
الجواب وبالله التوفيق والسداد
جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فجر کی نماز میں خنجر مارا گیا اور ان کے جسم سے خون بہنے لگا تو انہوں نے اپنی نماز ترک کر دی اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کردیا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز مکمل کی۔ جب نماز ختم ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: "دیکھو، مجھے کس نے قتل کیا؟" ابن عباس تھوڑی دیر کے لیے گئے اور آکر کہا: غلام مغیرہ۔
اس واقعہ کا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے:
"اور مسجد کی اطراف میں لوگ یہ نہیں جانتے تھے، سوائے اس کے کہ انہوں نے عمر کی آواز کو غائب پایا، اور وہ سبحان اللہ، سبحان اللہ کہہ رہے تھے۔ عبدالرحمن نے ان کے ساتھ مختصر نماز مکمل کی، پھر جب وہ فارغ ہوئے تو کہا: اے ابن عباس! دیکھو مجھے کس نے قتل کیا۔" (صحیح بخاری، حدیث نمبر 3700)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا “قتلنی أو أکلنی الکلب” (مجھے کتے نے مار ڈالا یا کھالیا) نماز کے دوران نہیں بلکہ نماز کو ترک کرنے کے بعد تھا، کیونکہ نماز میں حدث (وضو توڑنے والی چیز) پایا گیا۔ لہٰذا اس میں کوئی اشکال نہیں۔ جہاں تک جسم کے کسی حصے سے خون بہنے پر وضو کے ٹوٹنے کے مسئلے کا تعلق ہے، تو اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے:
 1. حنفیہ: خون کا بہنا وضو توڑ دیتا ہے۔
 2. مالکیہ اور شافعیہ: اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
 3. حنابلہ: خون کی مقدار پر فرق کرتے ہیں، تھوڑے خون سے وضو نہیں ٹوٹتا لیکن زیادہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔
وضو نہ ٹوٹنے کے قائلین کے دلائل:
 1. عباد بن بشر انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک وادی میں قیام پذیر تھے۔ ایک مہاجر اور ایک انصاری پہرہ دینے کے لئے مقرر ہوئے۔ انصاری رضی اللہ عنہ نماز میں مشغول ہوگئے۔ ایک دشمن نے ان پر تیر مارا جو لگ گیا، لیکن وہ تیر نکال کر نماز جاری رکھتے رہے۔ پھر دوسرا اور تیسرا تیر لگا، لیکن انھوں نے وہ نماز مکمل کرنے کے بعد ہی اپنے ساتھی کو جگایا۔" (سنن ابی داود، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء من الدم، حدیث 198)
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم سے خون بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
وضو ٹوٹنے کے قائلین کے دلائل:
 1. حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی روایت: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قے کی تو وضو کیا۔" (جامع الترمذی، حدیث 87؛ سنن ابی داود، حدیث 2381)
 2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: "ہر بہنے والے خون سے وضو کرو۔" (سنن دارقطنی)
 3. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: "جو شخص نماز میں قے یا نکسیر (رعاف) کرے، وہ وضو کرے اور بغیر بات کئے نماز مکمل کرے۔" (نصب الرایہ، جلد 1، صفحہ 93)
خطابی رحمہ اللہ نے کہا کہ اکثر فقہاء کے نزدیک خون بہنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور یہی اتباع کے زیادہ قریب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
٢٥/ رجب سنة ١٤٤٦هجرية  ( #ایس_اے_ساگر) 
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_27.html

Sunday, 26 January 2025

اسقاط حمل کیوں ممنوع ہے؟

اسقاط حمل کیوں ممنوع ہے؟ 
(ایک تبصراتی تحریر)
------------------------------------
------------------------------------
بسم الله الرحمن الرحيم 
الحمد لله رب العالمين والصلاه والسلام على اشرف المرسلين وخاتم النبيين ورحمه الله للعالمين سيدنا محمد وعلى اله وصحبه اجمعين. اما بعد!
نسل انسانی کی افزائش، اس کا تحفظ، فروغ وبقاء شریعت اسلامی کے ان پانچ مقاصدِ ضروریہ، کلیات وتحفظ  ات خمسہ میں سے ایک ہے جن کے تحفظ کے لئے احکام شریعت کا نزول ہوا ہے۔ ان میں سے ہر مقصد کا تحفظ کلی اور اساسی وبنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس کے بغیر نظام زندگی تہہ وبالا ہوجاتا ہے، نسلِ انسانی کو وجود میں آنے سے روکنا، اسے محدود کرنا، یا وجود میں آنے کے بعد اسے ختم کرنا شریعت کی منشا ومقصد کے منافی ہے؛ اسی لئے اسلام نے زواج ونکاح کو نہ صرف یہ کہ مشروع کیا، اس کی ترغیب دی، بلکہ اسے بذاتِ خود اطاعت اور عبادت قرار دیا، لذائذِ حیات سے کنارہ کشی، تجرد کی زندگی اور ترک واعراضِ نکاح (تبتل) سے سختی سے منع کیا، قطعِ نسل یا اس میں رکاوٹ ڈالنے والے طریقوں (خصی ہوجانے وغیرہ) سے منع کیا، نکاح کرنے کو اللہ کی عظیم نشانیوں میں شمار کیا، نکاح کے بیشمار مقاصد میں سے اولاد کے حصول کو سب سے اولیں مقصد گردانا گیا، ایسی عورتوں سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی جو امت محمدیہ میں کثرت واضافے کا باعث بنے، زنا کو حرام کیا گیا، اس کی تحریم کا اصل مقصد وعلت بھی نسل انسانی کا تحفظ ہی ہے؛ کیونکہ زنا کی وجہ سے نسل انسانی کا تحفظ متاثر ہو تا ہے اور نسب گڈ مڈ ہوجاتے ہیں۔
شریعت اسلامیہ میں پیٹ کے بچے کی زندگی کی وہی اہمیت و احترام ہے جو کسی زندہ انسان کی ہوتی ہے، اس لیے اس کی زندگی کی حفاظت بھی اسی طرح فرض کی گئی ہے جس طرح زندہ انسان کی زندگی کی حفاظت ضروری ہے؛ اسی احترام وتحفظ کی پیش نظر حاملہ عورت کو رمضان کے مہینے میں روزہ توڑنے کی گنجائش دی گئی ہے اور تو اور؛ خود ماں کو بھی اس کا حق نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے پیٹ میں نشو ونما پانے والے بچے کو کوئی نقصان پہنچائے، زنا کی وجہ سے ٹھہرنے والےحمل کو ساقط کرانے کا حق بھی عورت کو اسی لئے نہیں دیا گیا ہے، جنین کی اسی حیثیت کی وجہ سے اسلامی شریعت کا یہ قانون ہے کہ موت کی سزا پانے والی عورت اگر حاملہ ہے تو اسے اس وقت تک موت کی سزا نہیں دی جا سکتی جب تک وہ بچے کو جنم نہ دے لے اور اس کے دودھ چھڑانے کی عمر نہ ہو جائے۔
متعدد شرعی نصوص کے مطابق حملِ انسانی مختلف مراحل ( نطفہ ، گاڑھا اور جامد خون، گوشت کا لوتھڑا ، پھر نفخ روح سے گزرکر) نفس انسانی بنتا ہے ، تام الخلقت ہوجانے اور حمل میں جان پڑجانے کے مرحلے (عموماً چار ماہ) کے بعد باتفاق علماء واہل مذاہب اس نفس انسانی کا اسقاط بالکل ناجائز ہے، لیکن نفخ روح (چار ماہ) سے پیشتر اور ظہور بعض اعضاء (استبانۂ خلق) کے بعد (لیکن کامل تخلیق اعضاء سے پہلے) بھی فقہاء احناف کے راجح قول کے مطابق اسقاط حمل کی گنجائش نہیں ہے، یہ حمل تام الخلقت بچے اور نفس انسانی کے حکم میں ہوتا ہے؛ گوکہ اس پر چار ماہ کی مدت پوری نہ ہوئی ہو ، ہاں البتہ حمل جبکہ بالکل ابتدائی مرحلے میں ہو، اور اس کا حمل ہونا اور غدود وگٹھلی وغیرہ نہ ہونا متحقق ہوجائے تو محققین حنفیہ کا خیال ہے کہ بعض اعضاے انسانی کے ظہور سے پیشتر بھی بلا عذر شرعی اسقاط مکروہ ہے؛ کہ یہ افزائش وتحفظ نسلِ انسانی جیسے مقصد شرع کے منافی عمل ہے۔
حمل پہ چار ماہ یا ایک سو بیس دن سے پہلے اسقاط کی جو بات مطلقاً لکھی یا نقل کی جاتی ہے وہ قول محقَق نہیں ہے.
 اسقاط کی گنجائش یا ممانعت کا مدار اعضاے انسانی کا ظہور (استبانہ خلق ) ہے ، چار ماہ کی مدت مدار حکم نہیں ہے۔ 
اس وقت میرے سامنے اِسی موضوع پر “بہ قامت کہتر بہ قیمت بہتر “ کی مصداق ایک مختصر کتاب "اسقاط حمل" ہے. 
جس میں اس موضوع پر انتہائی جامع، بصیرت افروز، چشم کُشا اور سیر حاصل فاضلانہ بحث کی گئی ہے۔
کتبِ مذہب اور متعدد نصوص سے مرتب نے ثابت کیا ہے کہ ظہور اعضاے انسانی کے بعد جنین بحکم ولد اور نفس انسانی ہوجاتا ہے گوکہ اس پر ابھی چار ماہ کی مدت پوری نہ ہوئی ہو، ایک سو بیس دن والے منقول فقہی قول کے معیار اسقاط ہونے کے اصل مأخذ کی نشاندہی کے ساتھ محققین احناف کے حوالے سے اس قول کو مخدوش ثابت کیا ہے، اور چار ماہ والی تحدید کا خوبصورت محمَل پیش کرنے کے ساتھ بظاہر متعارض فقہی روایات کی قابل قبول تطبیق بھی پیش کی ہے۔
کتبِ مذہب، روایاتِ حدیث، آثار صحابہ وتابعین سے استشہاد واستدلال کے ساتھ انہوں نے طبی ماہرین واہل اختصاص کے اقوال اور بعض تحقیقاتی اداروں کی طرف سے چار ماہ سے پیشتر ظہور اعضاء انسانی کی مہیا کردہ تصاویر سے بھی اپنے موقف پر کامیاب استدلال کیا ہے 
میں نے یہ کتاب پوری پڑھی ہے. انداز واسلوب خالص علمی ، فقہی وتحقیقی ہے، فقہ وفتاوی سے اشتغال رکھنے والے اہل علم کے لئے "بیش قیمت سوغات" ہے۔ کتاب اس لائق ہے کہ اسے چشم سر کے راستے لوح قلب میں ثبت کرلیا جائے، صاحب کتاب نوجوان عالم دین اور دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فاضل ہیں ، معراج العلوم چیتا کیمپ ممبئی کے استاذ فقہ عزیز محترم مفتی محمد ثاقب قاسمی فتح پوری زید فضلہ اس کے مرتب ومؤلف ہیں. مؤلف حلقہ علماء میں خاص اعتبار وشناخت رکھتے ہیں، بڑی خموشی، شوق، لگن، عرق ریزی، جاں کاہی اور یکسوئی کے ساتھ سلگتے فقہی موضوعات پر وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں، ان کی مہربانی یا حسن ظن ہے کہ وہ اپنا ہر مسودہ عاجز کو نظر نواز کرتے ہیں، اس سے پہلے بھی جدید فقہی موضوعات پر ان کی کئی بیش قیمت کتابیں مسافرانِ علم وتحقیق اور اصحاب فقہ وفتاوی سے داد تحسین وصول کرچکی ہیں. زیر نظر کتاب بھی ان کی دیگر تالیفات کی طرح انتہائی چشم کشا اور بصیرت افروز ہے. 
امید قوی ہے کہ کتاب ہذا بھی علمی حلقوں میں شوق کے ہاتھوں لی جائے گی اور قدر کی نگاہوں سے پڑھی جائے گی. میری دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول عام عطا کرے، اور مرتب محترم کو پئے مقصد سرگرم عمل اور سدا تازہ دم رکھے ، آمین! 
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_26.html

Monday, 20 January 2025

مخارج حروف

خارج حروف)
علماء تجوید نے 29 حروف تہجی 
کے لئے جو مخارج بیان کئے ہیں ان کی تعداد 27 ہے۔ 
جنہیں مندرجہ ذیل پانچ مقامات سے ادا کیا جاتا ہے۔
(1) جوف دہن (2) حلق (3) زبان (4) ہونٹ (5) ناک۔
مختصر لفظوں میں ان حروف کے مخارج کی تعیین کی جاتی ہے۔ عملی طور پر صحیح تلفظ کرنے کے لئے اہل فن کا سہارا لینا پڑے گا۔
جوف دہن:
جوف دہن سے صرف تین حروف الف۔ واوٴ۔ ى ادا ہوتے ہیں بشرطیکہ یہ ساکن ہوں جیسے جَوَادٌ -غَفُورٌ - کَرِیمٌ۔
حلق:
حلق کے تین حصّے ہیں:
1۔ ابتدائی حصہ۔ اس سے غ۔ خ ادا ہوتا ہے۔
2۔ درمیانی حصہ۔ اس سے ع۔ ح ادا ہوتا ہے۔
3۔ آخری حصہ۔ اس سے ء۔ ہ ادا ہوتا ہے۔
زبان۔ ہونٹ اور ناک
زبان:
حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کے دس حصے ہیں:
1۔ آخر زبان اور اس کے مقابل تالو کا حصہ۔ اس سے ”قاف“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
2۔ ”قاف“ کے مخرج سے ذرا آگے کا حصہ اور اسکے مقابل کا تالو، ان کے ملانے سے ”کاف“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
3۔ زبان، اور تالو کا درمیانی حصہ، ان سے ”جیم“ ”شین“ ”ی“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
4۔ زبان کا کنارہ اور اس کے مقابل داہنی یا بائیں جانب کے داڑھیں ان کے ملانے سے ”ضاد“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
5۔ نوک زبان اور تالو کا ابتدائی حصہ ان کے ملانے سے ”لام“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
6۔ زبان کا کنارہ، ”لام“ کے مخرج سے ذرا نیچے کا حصہ، ان سے ”ن“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
7۔ نوک زبان کا نچلا حصہ اور تالو کا ابتدائی حصہ ان کے ملانے سے ”ر“ ادا ہوتی ہے۔
8۔ زبان کی نوک اور اگلے دونوں اوپرى دانتوں کی جڑ، زبان کو اوپر کی جانب اٹھاتے ہوئے اس طرح ذرا ذرا کے فرق سے ”ط“ ”دال“ اور ”ت“ ادا ہوتی ہے۔
9۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپرى اور نچلے دانتوں کے کناروں سے ”ز“ ”س“ ”ص“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
10۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپرى دانتوں کا کنارہ ان کے ملانے سے ”ث“ ”ذال“ ”ظ“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
ہونٹ:
حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں:
1۔ نچلے ہونٹوں کا اندرونی حصہ اور اگلے اوپرى دانتوں کا کنارہ ان کے ملانے سے”ف“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
2۔ دونوں ہونٹوں کے درمیان کا حصہ یہاں سے”ب“ ”م“ ”واو“ کی آواز نکلتی ہے۔ بس اتنا فرق ہے کہ ”واو“ کی آواز ہونٹوں کو سکوڑ کر نکلتی ہے۔ اور ”ب“ ”میم“ ہونٹوں کو ملانے سے ادا ہوتی ہے۔
ناک:
غنہ والے حروف ناک سے ادا ہوتے ہیں جو صرف نون ساکن اور تنوین ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان کا غنہ کے ساتھ ادغام کیا جائے اور اخفاء مقصود ہو۔ نون اور میم مشدد کا بھی انہیں حروف میں شمار ہوتا ہے۔ نْ،، نّ، مّ۔
أقسام حروف:
حروف تہجی کی انداز ادا، احکام اور کیفیات کے اعتبار سے مختلف قسمیں ہیں۔ ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_20.html

Monday, 13 January 2025

لائے ہیں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے

لائے ہیں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے
--------------------------------------------------
--------------------------------------------------
جس طرح نبوت ورسالت کسبی نہیں کہ جو چاہے اپنی ریاضت ومحنت سے حاصل کرلے، ٹھیک اسی طرح اس کے علوم بھی خالص عطیہ خداوندی اور موہبت ربانی ہیں۔ خدا تعالی نے علوم نبوت کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے: 
"وعَلّمناهُ مِن لَّدُنّا عِلمًا" 
ان علوم کے حاملین کا انتخاب بھی من جانب اللہ ہوتا ہے۔ 
مَن يُرِدِ ﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں، میں تو (علم) تقسیم کرنے والاہوں اوراللہ تعالیٰ ہی دینے والے ہیں۔‘‘
اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ دین کاعلم وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کرناچاہتے ہیں، اورجوعلم دین حاصل نہیں کرتے، وہ اللہ کی طرف سے بھلائی اور رحمت سے محروم رہتے ہیں۔ حدیث پاک کے دوسرے جزو
اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ
کا مفہوم یہ ہے کہ علمِ دین کی تقسیم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی؛ لیکن یہ ہے عطیۂ ربّانی۔ اللہ جس کے ساتھ دین ودنیا کی بھلائی کا ارادہ کرلیتا ہے اسی کو اس علم کے اکتساب کے لئے قبول کرتا ہے یعنی قرآن وحدیث کے علوم کی تحصیل کے لئے جن کا انتخاب ہوجائے وہ قسمت کے دھنی اور بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ ہر کہ ومہ کے لئے اس کا انتخاب نہیں ہوتا:
إِذَا أَرَادَ اﷲُ بِعَبْدٍ خَيْرًا، فَقَّهَهُ فِي الدِّيْنِ وَأَلْهَمَهُ رُشْدَهُ.رَوَاهُ الْبَزَّارُ 1700.
اس علم کی عظمت ورفعت شان کا تقاضہ ہے کہ اسے ہر چیز سے “ماوراء “ ہوکے حاصل کیا جائے؛ کیونکہ بغیر قلبی جمعیت اور ذہنی یکسوئی کے اس علم کی تحصیل تقریبًا ناممکن ہے۔ ذہنی انتشار اور ماورائے علم سے روابط و تعلقات  محرومی کا باعث بنتی ہیں۔ ہمہ تن مصروفِ عمل ہوئے بغیر مقصد میں درک وکمال کا حصول مشکل ہے:
لايُعْطِيكَ عِلْمٌ بَعضَهٗ حَتّٰى تُعْطِيَهٗ كُلَّكَ.
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے دور طالب علمی میں بیعت کی درخواست کی تھی جسے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے رد فرماتے ہوئے ختم کتب وفراغت پہ موقوف فرمادیا۔ امام مسلم رحمہ اللہ ایک حدیث کی تلاش وجستجو میں کھجور کا پورا ٹوکڑا کھاگئے اور عشق مقصد میں انہماک نے احساس تک نہ ہونے دیا اور پھر یہی "کمال جستجو" موت کا سبب بھی بنا۔ علامہ عبدالحی فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ دوران مطالعہ انڈی کا تیل پی گئے اور پتہ تک نہ چلا۔ شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ دور طالب علمی میں گھر سے آئے ہوئے خطوط کو ایک گھڑے میں جمع کرتے رہے اور کبھی چند سطری خط پڑھنے تک کی زحمت نہ فرمائی۔ مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ دیوبند کے رہائشی ہونے کے باوجود دیوبند کی سڑکوں تک سے مکمل واقف نہ تھے۔ "احاطہ مولسری" اور "آستانہ شیخ الہند" کے سوا ساری چیزوں سے بیگانہ تھے۔ ہمارے اکابر علماء دین واسلاف کرام اسی امتیازی شان کے ساتھ علوم نبویہ کی تحصیل میں لگے اور پھر ان حضرات کی شکل میں ایسے محقق، محدث، مفسر، متکلم، قاضی، مفتی اور مصنف ومؤلف، امت کو ملے جن کی فکر آفاقی، نگاہ افلاکی اورپرواز لولاکی تھی۔ علوم ومعرفت کے بحر ناپیدا کنار، غور وتدبر، استنباط واستخراج کی صلاحیتوں سے مالا مال۔ عشق مقصد میں کمالِ جنون کا یہ عالم کہ "پانے کا خمار ہو نہ کھونے کا آزار" شوق کمال نہ خوف زوال۔
وہ  ایسے تھے جن کی جوتیوں میں سلاطین ونواب وقت "گنج گرانمایہ" نچھاور کردینے کو فخر سمجھیں۔جن کی تحقیق وتدقیق اور تلاش وجستجو ایسی کہ "قطرے میں دجلہ اور ذرے میں صحراء" کا گمان ہوچلے۔ پَر شومیِ قسمت اور حالات کی ستم ظریفی کہ اب سوز عشق اور جستجوئے پیہم سے عاری طلبہ کی بعض ایسی ٹیم (افراد کی بات ہے۔ کلیات کی نہیں) "ارزاں وفراواں" نظر آتی ہے جو علم وتحقیق کو "حرز جاں" اور "ورد زبان" بنانے کی بجائے حدیث وفقہ پڑھنے والی تپائیوں کے اوٹ میں ہی فیس بک، ٹوئیٹر، وہاٹس ایپ اور دیگر سماجی روابط کی سائٹس کے پیچھے  "مثل شمع" پگھل رہے ہیں۔ درسیات میں پختگی، خوب سے "خوب تر کی تلاش" صلاحیت ولیاقت میں استحکام اور مطالعہ وکتب بینی میں شب گزاری کی جگہ فیس بک پہ تبصرے، ٹوئیٹر پہ چٹ پٹے اور چٹخارے ٹوئٹ اور ٹرینڈ چلانے پہ ساری توانائیاں صرف ہورہی ہیں۔۔اپنے درجہ میں  امتیازی نمبر اور مقام حاصل کرنے کی جستجو کی بجائے  سوشلستان میں تعارف اور تشہیر کا خطرناک رجحان پنپ رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب بعض اوقات  "بونے اور کوتاہ قامت" ایسے فضلاء سے ملاقات ہوجاتی ہے جو فراغت کے بعد  "روشن خیالی" کا سارا نزلہ اچانک "ڈاڑھی اور ٹوپی" ہی پہ اتارڈالتے ہیں! اسمارٹ موبائل کے پرستار طلبہ دین میں سوشلستان کی سیر (سیر جہاں) کا جنون، کافی تشویشناک بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔ ضرورت کو ضرورت کے دائرے میں رکھتے ہوئے استفادہ کی راہ تلاش کی جانی چاہئے۔ طلبہ جن علمائے دیوبند سے انتساب کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے دور طالب علمی میں "بیعت" تک سے منع کردیا۔ انہی کے نام لیوا آج فیس بک اور ٹوئیٹر پہ ہمہ وقت متحرک وفعال رہ کے علمی کمال کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ کیا اس صورت حال میں کبھی "اوجز"اعلاء السنن" بذل المجہود جیسا کارنامہ انجام پاسکتا ہے؟؟ ہر کام کے لئے آدمی ہے۔ اور ہر آدمی کے لئے کام ہے۔ خدارا اس تقسیم کو سمجھتے ہوئے اپنا قبلہ درست کیجئے! وہاٹس ایپ، ٹیلی گرام وغیرہ ایسے پلیٹ فارم ہیں جن میں شخصیات کی کماحقہ شناخت ہوتی نہیں ہے؛ اس لئے ان سماجی روابط کی سائٹوں کے دبیز پردے کے پیچھے، خود ساختہ مفکروں، محققوں ،زعماء و مصلحین کی بہار آئی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل مادر علمی کی طرف سے ملٹی میڈیا موبائل پہ پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ فیصلہ بڑا ہی خوش آئند اور دور رس نتائج کا حامل اقدام تھا۔ اسی طرح دارالعلوم کے طلبہ کی بیرون احاطہ ہاسٹلوں میں رہائش وقیام پر بھی سخت پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے، بیرون کی رہائش، شہری طلبہ سے آزادانہ میل جول سارے فتنوں اور تخریبی سرگرمیوں کی بنیاد ہے۔ اس پر بھی قدغن لگانے کی سخت ضرورت ہے۔ ارباب مدارس کو اس جانب گہرے غور وفکر اور اس نئے فتنہ کے تدارک اور سد باب کی جانب موثر لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ 
واللہ اعلم 
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_13.html