Sunday, 16 February 2025
حاجت مندوں کے لئے مجرب عمل
Thursday, 13 February 2025
شب برات اور زیارت قبور کے آداب و احکام
شب برات اور زیارت قبور کے آداب و احکام
سترہ قائم کرنے کی شرعی حیثیت، اس کی حکمت ومقصد اور اس کی شرعی مقدار؟
سترہ قائم کرنے کی شرعی حیثیت، اس کی حکمت ومقصد اور اس کی شرعی مقدار؟
----------------------------------
حضرات مفتیان عظام سے سوال یہ ہے کہ نمازی نماز ادا کررہا ہوتا ہے اس کے آگے کی صف میں بیٹھا ہوا شخص اپنا ہاتھ چوڑائی میں بطور سترہ کے رکھ لیتا ہے پھر لوگ اس کے آگے سے گزرجاتے ہیں تو کیا اس طرح رکھا ہاتھ سترہ کے قائم مقام ہوجائے گا یا نہیں؟ مدلل جواب مطلوب ہے. دارالافتاء دارالعلوم دیوبند اور بنوری ٹائون کا احقر کے سامنے ہے سوال کا مقصد مزید تنقیح و تحقیق ہے بطور خاص مفتی شکیل منصور قاسمی دامت برکاتہم سے توجہ کی درخواست ہے. حضرت ہاتھ کا کہنی تک کا حصہ سیدھا کھڑا کرکے سترہ بنایا تو اوصاف و شرائط سترہ کے وجود کے سبب اس کے کافی ہونے میں شک نہیں لیکن یہاں سوال چوڑائی میں ٹیڑھا رکھنے کے بارے میں ہے.
الجواب وباللہ التوفیق:
امام اور منفرد کے لئے اتخاذ سترہ سنت ہے. حنفیہ کے یہاں اگر کسی کے گزرنے کا مظنہ نہ ہو تو ترک سترہ کی بھی گنجائش ہے؛ ورنہ مکروہ تنزیہی ہے. سترہ قائم کرنے کی سنیت یا استحباب کا مقصد نمازی کو ذہنی انتشار سے محفوظ رکھنا ہے ۔ جب نفس عمل کی حیثیت سنیت کی ہے تو اس کی تحدید وتنصیب بھی سنیت سے متجاوز نہیں ہوسکتی. سترہ کی اقل مقدار کے بارے میں حدیث میں "مِثْلُ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ" آیا ہے، اور مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ (کجاوے کا پچھلا حصہ) کماً مختلف ہوتا تھا. اس لئے ائمہ میں اس کی تحدید مقدار میں اختلاف ہوا. ائمہ ثلاثہ کے یہاں اس کی کم سے کم مقدار لمبائی میں ایک ہاتھ اور چورائی میں انگلی کے برابر ہونا مسنون ہے جبکہ حنابلہ کے یہاں بالشت بھر ہونے سے بھی کام چل جائے گا. یہ بھی مسنون ہے کہ اس کیفیت کا حامل سترہ کھڑا ہو. لیکن جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں عرضاً رکھ دینے سے بھی سنیت ادا ہوجائے گی. سترہ قائم کرنا بھی سنت ہے. اور اسے لمبائی میں کھڑا کرنا بھی سنت ہے. جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں ہاتھ بھر لمبی جس چیز سے بھی پردہ کردیا جائے اور نمازی کی توجہ منتشر ہونے سے بچ جائے؛ خواہ قیاماً ہو یا نصباً وہ سترہ کے قائم مقام ہوجائے گی. بعض ائمہ کے یہاں خط کھینچ دینا بھی کافی ہے جس سے مسئلے میں عموم وتوسع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے. اس تفصیل سے اب مسئولہ جزئیہ کا جواب بھی واضح ہے کہ چوڑائی میں ہاتھ رکھنے سے بھی سترہ کی سنیت ادا ہوجائے گی۔ واللہ اعلم
Saturday, 1 February 2025
تیری رضا جو ہو سو ہو
تیری رضا جو ہو سو ہو
----------------------------------
خلّاقِ اکبر نے انسان کی طبعیت میں ناپائیدار خواہشات ومتضاد خوابوں کا تعاقب کرنا شامل کردیا ہے، وہ دنیاوی حسن، جمال، دولت، شہرت، مادی آسائش وآرام پاکر بھی مضطرب وبے چین ہی رہتا ہے، انسانی زندگی کی حقیقی خوشی، مسرت وطمانینت اور معنویت دنیاوی آسائشوں ، کامیابیوں اور حصولیابیوں میں نہیں؛ بلکہ روحانی تعلقات کی استواری اور "تسلیم ورضاء" میں مضمر ہے۔ انسان عموماً اپنی ایک حالت پر راضی نہیں ہوتا، بلکہ ہمیشہ اس چیز کی خواہش کرتا ہے جو اسے نصیب نہیں ہوئی ہوتی، اور وہ نعمت جو اللہ نے اسے عطا کر رکھی ہوتی ہے، اس کی قدر نہیں کرتا۔ اسلام نے بندہ مومن کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ صبر وتوکل کا پیکر بنا رہے اور رنج وراحت میں بھی اس کا شعار “الحمد للہ” ہونا چاہیے۔ غم ہوکہ خوشی، آسانی وفتوحات کا زمانہ ہو یا ابتلاء وآزمائش اور مشکلات کی گھڑی، وہ ہر دو حالتوں میں اپنے رب کی عطاء ونوازش اور اس کے فیصلے پر راضی رہ کر "الحمدللہ" کہنے کا مزاج بنائے، اس سے حقیقی بندگی کا مزہ پائے گا اور یہی وہ بلند مقام ہے جس تک پہنچنا انسان کے لئے بہ ظاہر مشکل ہوتا ہے؛ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس میں بھی اس کے لیے کوئی بھلائی چھپا رکھی ہوتی ہے۔ انسانی فطرت کی بے قراری، خواہشات کی نہ ختم ہونے والی دوڑ اور زندگی کی ناپائیداری کو ایک عربی شاعر عباس محمود العقاد نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ انتہائی مؤثر اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے، اشعار اس قابل ہیں کہ انہیں سرمہ بصیرت بنایا جائے اور لوح قلب پہ ثبت کرلیا جائے:
۱: صغيرٌ يطب الكبرَا —-وشيخٌ ودَّ لو صغرا
(چھوٹا بچہ بڑا بننے کی خواہش رکھتا ہے، اور بوڑھا شخص چاہتا ہے کہ کاش وہ پھر سے جوان ہوجاتا) یعنی چھوٹا بچہ بڑا ہونا چاہتا ہے تاکہ خود مختار ہوسکے، اپنی امیدوں اور خوابوں کو پورا کر سکے۔جبکہ بوڑھا شخص حسرت کرتا ہے کہ کاش وقت پیچھے پلٹ جائے تاکہ وہ ان تمناؤں کو پورا کر لے جنہیں وہ حاصل نہ کرسکا۔ (جیسا کہ کہا گیا: ألا ليت الشباب يعود يوماً.. فأخبره بما فعل المشيب. "اے کاش! جوانی ایک دن لوٹ آتی، تاکہ میں اسے بتا سکتا کہ بڑھاپے نے میرے ساتھ کیا کیا!")
۲: وخالٍ يشتهي عملًا —-وذو عمل به ضجرا
(بے روزگار شخص کام کی تمنا کرتا ہے، اور جو کام میں لگا ہوا ہے، وہ اس سے بیزار ہے) یعنی بے روزگار شخص چاہتا ہے کہ اسے کوئی مصروفیت ملے، جبکہ جو شخص مصروف کارگہِ حیات ہے، وہ تھکن اور بوجھ سے تنگ آ چکا ہوتا اور کام سے فراغت کی تمنا کرتا ہے)۔
۳: ورب المال في تعب —-وفي تعب من افتقرا
(مالدار شخص بھی پریشان ہے[چاہے اس کے پاس کوئی اس کا کاروبار سنبھالنے والا ہو، پھر بھی وہ فکرمند اور بے چین ہے] اور جو غریب ہے، وہ بھی تکلیف میں ہے [کیونکہ اس کے پاس ضروریات زندگی کے وسائل نہیں ہیں].
۴: وذو الأولاد مهمومٌ —-وطالبهم قد انفطرا
(جس کے پاس اولاد ہے، وہ ان کے حال اور مستقبل کی فکر میں مبتلا ہے۔
اور جو اولاد کے لیے ترستا ہے، وہ بھی بے چین ہے)
۵: ويشقى المرءُ منهزمًا ولا يرتاحُ منتصرا
( انسان شکست کھا کر افسردہ ہو جاتا ہے، اور جیت کر بھی سکون نہیں پاتا۔( بلکہ ہفت اقلیم کے حصول کے لئے سرگرداں ( حیران وسرگرداں) رہتا ہے)
۶: ومن فقد الجمال شكي —-وقد يشكو الذي بُهِرا
(جسے حسن نہیں ملا، وہ شکوہ کرتا ہے (آئینہ میں شکل دیکھ کر خوش نہیں ہوتا) چاہے وہ اپنی ذات کے بارے میں ہو یا اپنی بیوی کے بارے میں) اور جسے حسن ملا، وہ بھی شکایت کرتا ہے(اسے دوسروں کی حسد اور جلن کا سامنا کرنا پڑتا ہے) چاہے وہ خود کا ہو یا اپنی بیوی کا۔
۷: ويبغي المجد في لهفٍ فإن يظفر به فترا
(وہ عظمت اور کامیابی کی شدید خواہش رکھتا ہے، لیکن جب اسے حاصل کر لیتا ہے تو اس سے بیزار ہوجاتا ہے (ناقدری شروع کردیتا اور اپنے کام کی تحقیر شروع کردیتا ہے)
۸: شكاة ما لها حَكمٌ —-سوى الخصمين إن حضرا
(یہ تمام شکایتیں ایسی ہیں جن کا کوئی منصف نہیں، سوائے اس کے کہ دونوں فریق خود موجود ہوں)
۹: فهل حاروا مع الأقدا ر—- أو هم حيَّروا القدرا؟
(تو کیا یہ لوگ تقدیر سے پریشان ہیں، یا انہوں نے خود تقدیر کو حیران کردیا ہے؟)
حیاتِ انسانی مستقل "تغیّر" کا نام ہے، یہاں احوال کو نہیں؛ صرف "تغیرات" کو دوام واستقلال ہے۔ رات کی تاریکیوں سے نورسحر پھوٹتا اور آفتاب عالم تاب کی ضوفشانیوں کے بعد گُھپ اندھیری رات ڈیرہ ڈال دیتی ہے، غم ہو یا خوشی عسر ہو یا یسر! سارے احوال فانی ہیں، بندہ مومن کو اس فلسفہ تغیرات کو سمجھتے ہوئے اچھی وبُری ہر حالت میں تسلیم وتوکل کے ساتھ مستانہ وار یہ گنگناتے رہنا چاہیے:
درپہ ہوں تیرے آکھڑا
کیا کہوں بس خاموش ہوں
شاہ بنا گدا بنا
تیری رضا جو ہو سو ہو
(ہفتہ 2؍ شعبان المعظم 1446ھ یکم ؍ فروری 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/blog-post.html
اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق (قسط نمبر 2)
اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق (قسط نمبر 2)
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ [النساء: 36].
اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، ساتھ بیٹھے (یا ساتھ کھڑے) ہوئے شخص اور راہ گیر کے ساتھ (اچھا برتاؤ رکھو)
معزز قارئین، اس آیت مبارکہ میں والدین اقرباء اور رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے بھی مستقل حقوق بیان کیے گئے ہیں- ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر ہمارا پڑوسی بھوکا ہے تو ہم اسے اپنے کھانے میں شریک کریں، اگر وہ بیمار ہے تو اس کی عیادت و تیمارداری کریں، اگر وہ کسی آفت و مصیبت کا شکار ہے یا کسی رنج و غم میں مبتلا ہے تو ہم اس کا دست و بازو بن کر اس کے رنج وغم کا مداوا کریں لیکن آج ہمارا مسلم معاشرہ اس اسلامی معاشرہ کے سبق سے اتنا غافل ہوچکا ہے کہ ایک طرف تو ایک مسلمان بھائی پوری فیملی کے ساتھ بھوکا سونے پر مجبور ہے کیونکہ گھر پر ایک روٹی کے آٹے تک بندوست نہیں ہے- دوسری طرف پورا محلہ اور گاؤں روایتی بے سود جلسوں اور پروگراموں اور مہنگی شادیوں میں مگن ہے. جی. یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حال ہی میں گھٹی ایک سچی گھٹنا ہے. اسی طرح کچھ عرصہ قبل ایک عالم دین کی ویڈیو کال آئ جو حالات اور تنگدستی سے پریشان ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور تھا- ان سطور کے قلم بند کرنے کا واحد مقصد امت کے اہل خیر حضرات کی توجہ اس پہلو کی طرف مبذول کرنا ہے جس کی امر کی واضح تعلیمات آپ علیہ السلام بار بار امت کے سامنے بیان فرمائی- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں ہمسایہ اور پڑوسی کے حقوق کی اہمیت اس طرح فرمائی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پڑوسیوں کے یہاں تک حقوق بیان کئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے- (مسنداحمد: 20350)
پڑوسی کی اقسام:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پڑوسی کی تین اقسام ہیں: (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے (2 ) وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں (3) وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں۔بعد ازاں خود نبی کریم ﷺ نے ان تینوں اقسام کے حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:مسلمان رشتہ دار پڑوسی کے تین حق ہیں:حقِ پڑوس، حقِ اسلام اور رشتہ داری کا حق۔مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں: حقِ پڑوس اور حقِ اسلام۔ مشرک پڑوسی کا صرف ایک حق ہے: اورہ وہ ہے حقِ پڑوس۔(شعب الایمان، باب فی اکرام الجار: 9113)
پڑوسی کے حقوق کی اختصار کے ساتھ تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ بیمار ہو تو تم اس کی عیادت کرو، اگر وہ مرجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، اگر وہ تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو، اگر وہ بدحال ہو تو اس کی پردہ پوشی کرو، اگر اس کو کوئی اچھائی پہنچے تو اس کو مبارکباد دو، اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کرو، اپنے گھر کی عمارت اس کی عمارت سے بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے۔ (المعجم الکبیر: ج 19، ص 419)
اُم المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی:میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے ایک میرے دروازے کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا کچھ دور، بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی، لہٰذا ان دونوں میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے- (صحیح بخاری: 2595)۔
حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب تم میں سے کوئی شخص سالن پکائے تو اس میں شوربہ زیادہ کرے، پھر اپنے پڑوسی کو بھی اس میں سے دے (المعجم الاوسط: 3615)۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص پیٹ بھرکر رات گزارے اور اس کو علم ہو کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے اس کا مجھ پر ایمان نہیں ہے. (المعجم الکبیر: 751) ۔
جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے. (صحیح مسلم: 165)
اللہ تعالیٰ ہم کو اس بھولے سبق پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے
آمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن يارب العالمیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــن
مُحَمَّد عَارِف دَهٗلَوِى٘ (02/02/25) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/02/2.html
Friday, 31 January 2025
اسلامی معاشرہ کا ایک بھولا سبق
Thursday, 30 January 2025
محبت کا معیار
محبت کا معیار
مرد کو اپنی بیوی سے اور عورت کو اپنے شوہر سے کتنی محبت ہونی چاہئے- الله تعالی نے انسان کو انسانی صفات، عادات و اخلاق پر ڈھالا ہے۔ جس کو جبلت و فطرت بھی کہتے ہیں، جس پر انسان کو ڈھالا جائے اس میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا، کہاوت ہے:
"جبل گردد جبلت نگردد"
ان صفات و عادات میں سے ایک "محبت" ہے۔ الله تعالی نے محبت کرنے کا جذبہ، صلاحیت، استعداد ہر انسان کے دل میں رکھی ہے۔ وہ اپنے دل کا کھچاؤ ضرور کسی کی طرف محسوس کرتا ہے۔
محبت گناہ نہیں:
اور محبت کرنا گناہ نہیں ہیں، ہاں اسباب گناہ ہوسکتے ہیں۔ طور طریق گناہ ہوسکتا ہے لیکن کسی پر دل آجانا برا نہیں، کسی کے حسن و جمال، کمال و منال پر فریفتہ ہونا گناہ نہیں۔ "ولو اعجبک حسنھن" ہم نے اپنے بڑوں سے یہ شعر سنا ہے:
گر سمجھو تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
محبت میں انسان مجبور ہے
پھر محبت اضطراری ہے کہ یہ تو دل کا کام ہے،
"بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے"
اور دل پر کس کا زور چلتا ہے؟ نہ چاہتے ہوئے بھی دل کسی پر مر مٹتا ہے، کسی پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتا ہے، دل کا سودا کرکے سودائی ہوجاتا ہے۔ اس سودائی سے کوئی پوچھے کہ تم یہ کر کیا رہے ہو؟ کس پیچ و تاب میں ہو ؟تو جواب اس کا یہی ہوتا ہے:
محبت ہو تو جاتی ہے محبت کی نہیں جاتی
یہ شعلہ خود بھڑک اٹھتا ہے بھڑکا یا نہیں جاتا
محبت کسے کہتے ہیں:
بعض چیزیں دقیق و غامض ہوتی ہی اس لیے ان کی تعریف دشوار ہوجاتی ہیں، بعض چیری عیاں، روشن واضح ترین بلکہ ابدہ البدیہیات ہوتی ہیں اس وجہ سے ان کی تعریف دشوار ہوجاتی ہے۔ علم کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں آپ پڑھتے پڑھتے تھک جائیں گے۔ حتی کہ بعضوں نے تو اسے ناقابل تعریف قرار دے دیا۔ محبت بھی اسی قسم میں سے ہے۔ کسی نے کہا:
"میل القلب الی الشیئ لتصور کمال فیہ" [العینی]
یعنی دل کا کسی چیز پر آجانا اس کے اندر موجود کسی کمال کی وجہ سے۔
المیل الی مایوافق المحب [النووی]
محبوب کے موافق و پسندیدہ چیز کی طرف میلان کا نام محبت ہے، کسی نے کہا: بھلی، خوشگوار لگنے والی چیز کی طرف دل کا جھکاؤ۔ کسی نے کہا: محض محبوب کی خواہش کے پیش نظر اپنی خواہش کو پیروں تلے روند دینا۔ تقی صاحب فرماتے ہیں:
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہوجانا
کسی نے کچھ کہا ہے اور کسی نے کچھ۔ اس مقام کے مناسب، سپر ڈال دینا ہے، یہ ایک بدیہی چیز ہے، جیسے انسان پیٹ میں بھوک محسوس کرتا ہے، وہ اپنے دل میں محبت بھی محسوس کرتا ہے اس کو تعریف کرکے سمجھایا نہیں جاسکتا۔ بقول شاعر:
محبت اصل میں "مخمورؔ" وہ رازِ حقیقت ہے
سمجھ میں آگیا ہے پھر بھی سمجھایا نہیں جاتا
محبت کی کئی قسمیں کی گئی ہیں؛ لغوی عرفی اختیاری اضطراری عشقی ایمانی، حقیقی مجازی ہوسکتا ہے تعریف میں اس اعتبار سے فرق ہو، یا ہوسکتا ہے ابتداءو انتہاء کا فرق ہو،
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا
جیسے انتہاء پر پہچنے کے بعد کوئی عاشق کہہ اٹھتا ہے " بخدا میرا سر قلم ہونے سے بچ جائے اور حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کو ایک کانٹا بھی چبھے مجھے یہ بھی گوارا نہیں"
کسی شاعر نے کہا ہے:
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری [امیر خسرو دہلوی]
میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔ نبی کی چاہت میں یہی مطلوب ہے کہ انسان ہر چیز/ ہر شخص کی محبت پر نبی کی محبت کو بڑھا دے والد اور اولاد کی محبت سے بھی حتی کہ اپنے آپ سے بھی زیادہ نبی کی محبت ہو۔ [بخآری]
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ اور ان جیسے دوسرے عاشقان رسول نے ایسا کرکے بتایا وہ ایک جان دو قالب تھے، ان کی وہی خواہشات، جذبات و پسند نا پسند تھیں جو نبی کی تھی۔
أَنا مَن أَهوى وَمَن أَهوى أَنا
نَحنُ روحانِ حَلَنا بَدَنا
میاں بیوی کی محبت:
آج کل جب محبت، پیار، عشق بولا جاتا ہے تو عورت کی مرد سے اور مرد کی عورت سے عشق ہی مراد لیا جاتا ہے، معاشرے میں اسے بہت بڑا درجہ دے دیا گیا ہے جو نہ سرحدیں دیکھتا ہے نہ حدیں، نہ رنگ و نسل دیکھتا ہے نہ تہذیب و کلچر، نہ دھرم دیکھتا ہے نہ مذہب، کہا جاتا ہے محبت اور پیار سب سے اوپر ہے، پیار اندھا ہوتا ہے، محبت کا کوئی مذہب نہیں یہ مذہب سے بالاتر ہے. [العیاذ بالله]
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے جب یہ کہا تھا کہ میری محبت سب سے زیادہ ہونی چاہیے تو فرمایا تھا والدین سے ["والد" بمعنی من له الولد]، اولاد سے بھی اور تمام لوگوں سے زیادہ ہونی چاہیے۔ "زوجہ" کا ذکر صراحتا نہیں کیا بلکہ اسے "والناس اجمعین" کے ضمن میں بیان کیا۔ اور سورۂ توبہ میں الله تعالی ارشاد فرماتے ہیں (اے رسول !) آپ کہہ دیجئے، اگر تمہارے باپ دادا۔ تمہاری اولاد، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان، مال و اسباب جن کو تم نے حاصل کیا ہے، (تمہاری) تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تمہیں ڈر لگارہتا ہے اور وہ رہائش گاہیں جنھیں تم پسند کرتے ہو، اگر تمہیں اللہ، اس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہوں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ جاری کردیں، اور اللہ نافرمانی کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتے۔ اس فرمان میں بھی بیوی کی محبت کو باپ دادا، اولاد اور بھائیوں کے بعد رکھا ہے۔ میرا مقصود بیوی سے محبت کی نفی نہیں ہے بس درجات کا تعین ہے، آخر زمانے میں لوگ بیوی کی محبت میں بیوی کو ماں سے زیادہ ترجیح دینے لگے گیں، مقصد اس کی روک تھام ہے، غلو سے اور اس سلسلے میں ہونے والی خطاووں سے محافظت ہے۔ فی نفسہ میاں بیوی کی محبت تو ان کی فطرت اور گٹھی میں ہے، الله تعالی ارشاد فرماتے ہیں: اسی کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے جوڑے (بیویاں) بنادیئے؛ تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان پائیدار محبت اور ہمدردی پیدا کردی. [سورۂ روم: ۲۰]
الله تعالی نے انسانوں کے فائدے کے لیے بیویاں بنائی، سوچو اگر اس دنیا میں صرف مرد ہی مرد ہوتے عورتوں کا نام و نشان نہ ہوتا تو دنیا کتنی بے رونق ہوتی، دنیا کی سرسبز و شادابی اور خوش نمائی بے رنگ ہوجاتی، زندگی بدمزہ بے ڈھنگ ہوتی۔ اور وہ فائدہ یہ ہے کہ مرد عورت کے پاس جاکر بیٹھے اس سے باتیں کرے اس سے لذت حاصل کرے اور سکون پائے، سکون پانے کے لیے آسانی ہو اس لیے ان دونوں میں پائیدار محبت اور ایک دوسرے کی طرف جھکاؤ و میلان رکھا اور شفقت و ہمدردی بھی۔ اگر محبت نہ ہو تو آدمی اس سے بچے ہونے کی وجہ سے یا اس کی ضرورت ہونے کی وجہ یا اس کے ساتھ کافی عرصہ ساتھ گزارنے کی وجہ سے اس سے مہربانی کا معاملہ کرتا ہے۔ اس وجہ سے ہمدردی بھی رکھی گئی۔ یہ محبت میاں بیوی کی عموما "نکاح" سے وجود میں آتی ہے، الله تعالی نے نکاح کو بنایا ہی ایسی چیز ہے کہ ایک لفظ ہی سے دو پرائے اشخاص ایک دوسرے کے لیے شیر وشکر ہوجاتے ہیں۔ حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"لم تر للمتحابين مثل النكاح۔"
"تم دو محبت کرنے والوں کے لئے نکاح کی طرح کوئی چیز نہیں پاؤگے۔" مطلب یہ ہے کہ نکاح کے ذریعہ جس طرح خاوند اور بیوی کے درمیان بغیر کسی قرابت کے بے پناہ محبت والفت پیدا ہو جاتی ہے، اس طرح کا کوئی تعلق ایسا نہیں ہے جو دو شخصوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہوں، اس درجہ کی محبت والفت پیدا کردے۔ یا مطلب یہ ہے کہ مرد کسی پر فریفتہ ہوگیا تو اس فریفتگی اور محبت کا بقا نکاح سے بہتر کسی چیز میں نہیں۔ رسول اللہ صلی الله تعالی علیہ وسلم کی سیرت ہمارے لیے بہترین مشعلِ راہ ہے، آں حضرت صلی الله تعالی علیہ وسلم اپنی ازواجِ مطہرات اور خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہایت محبت رکھتے تھے اور یہ تمام صحابہ کو معلوم تھا، چنانچہ لوگ قصدًا اسی روز ہدیے اور تحفے بھیجتے تھے جس روز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں قیام کی باری ہوتی۔ [بخآری]
اسی محبت کی وجہ سے آپ اپنے زندگی کے ایام حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالی عنھا کے پاس گزارنا چاہتے تھے، اسی وجہ سے آپ ان کی عزت افزائی کرتے اور کبھی "یاموفقہ" فرماتے کبھی فرماتے "جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر فضیلت ہے اسی طرح عائشہ کو تمام عورتوں پر فضیلت ہے [شمائل ترمذی] کبھی فرماتے:
"أنا لك كأبي زرع لأم زرع"
میں تمہارے لیے ایسا ہوں جیسے ابو زرع ام زرع کے لیے۔ کبھی بیوی کی محبت یا شوہر کی محبت حد سے بڑھ جاتی ہے جو اس کے لیے دینی یا دنیاوی ذمہ داریوں میں مخل ہوتی ہے یا مضر ہوتی ہے ایسی محبت نہیں ہونے چاہیے، کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائے یا یہ محبت سے برے یا غلط کام پر آمادہ کرے۔ ایسی خبریں بسا اوقات کانوں سے ٹکراتی ہیں کہ کسی مرد/عورت کو اس کے محبوب نے چھوڑ دیا تو وہ دماغی مریض ہوگیا یا نشےکی لت اختیار کرلی یا کام کاج سے بیٹھ کر دین و دنیا سے بے گانا ہوگیا یا خود کشی کرلی بلکہ بعض ناسمجھ بچیوں کادین تک چھوڑنے کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ کسی کی محبت کو اتنا غالب نہیں ہونے دینا چاہیے کہ وہ اپنا یا اپنے دین کا ہی نقصان کر بیٹھے۔ ہمارے اکابر اگر یہ دیکھتے کہ وہ بیوی کی محبت کی وجہ سے دینی کاموں میں عبادت و ریاضت میں کوتاہی کررہا ہے تو اسے طلاق دینے کا حکم دیتے۔ حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کا واقعہ آپ کو معلوم ہوگا، نہایت حکیم اور مدبر شخص تھے جب انھوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا عبدالله (رضی الله تعالی عنہ) نکاح کے بعد اپنی بیوی سے اس قدر لگاؤ کر رکھا ہے کہ عبادت و مجاہدت میں مخل ہوگا تو انھوں نے طلاق دینے کا حکم دیا- حضرت عبدالله رضی الله تعالی عنہ بھی پریشان کہ کیا کریں۔ انھوں نے نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے الله کے رسول! ابا تو طلاق دینے کا کہہ رہے ہیں؟ کیا کروں؟ تو آپ صلی الله تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ابا کا کہا مانو۔ پھر جب دوسری مرتبہ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ طلاق دینے کہا تو فورا طلاق دے دی، بعد میں بیٹے نے کہا کہ وہ تو فی الحال حائضہ ہے (میں نے اس لیے پہلے نہیں کہا کہ کہیں آپ اسے طلاق نہ دینے کا بہانا نہ سمجھ لیں) ابا نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے استفسار کیا، آپ نے رجوع کرکے پھر ایسے طہر میں طلاق دینے کہا جس میں بیٹے نے بہو سے ہم بستری نہ کی ہو، اور چاہو تو نکاح میں روک بھی سکتے ہو، آپ نے اختیار بھی دیا۔ بہرحال انھوں نے رجوع کیا پھر طلاق نہیں دی کیوں کہ ایک مرتبہ طلاق دینے کے بعد اب پہلے جیسی شدید محبت باقی نہیں رہی تھی۔
مطالبہ حقوق کا ہے محبت کا نہیں:
جیسا کہ آپ حضرات جان چکے ہیں، دل پر کسی کا زور نہیں چلتا- دل بے قابو ہیں، محبت غیر اختیاری ہوتی ہے۔ اس وجہ سے مردوں سے بھی مطالبہ ادایئگئ حقوق کا ہے اور عورتوں سے بھی، آپ قرآن و حدیث پڑھو گے اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ بیوی سے محبت کرو، محبت پر دائم رہو یا محبت بڑھاؤ بلکہ دونوں کو کہا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو، اس لیے کہ اگر کوئی مرد کہے کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے، آپ کے بنا جینا ادھورا ہے، زندگی فضول ہے، زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے اور حقوق ادا نہیں کرتا نہ اخراجات پورے دیتا ہے نہ خبر گیری کرتا ہے تو یہ زبانی جمع خرچی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عورت یہ کہے آپ میرے سرتاج ہو جان ہی نہیں جان جہاں ہو، تمہارے بنا میں جی تو کجا مر بھی نہیں سکتی، میرے رگ و ریشہ تمہاری محبت میں سرشار ہے لیکن شوہر کے حقوق ادا نہیں کرتی نہ اطاعت کرتی ہے نہ تعظیم تو یہ صرف زبانی ڈھکوسلے اور دغا بازی ہے۔ شاعر کہتا ہے:
لو كان حبك صادقـاً لأطعتـه
إن المحب لمن يحب مطيـع
اگر تو محبت میں سچی ہوتی تو میری اطاعت کرتی، اس لئے کہ محب جس سے محبت کرتا ہے اس کی اطاعت ضرور کرتا ہے۔
(محمد یحیی بن عبدالحفیظ)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_30.html