وضو میں حد وجہ کہاں تک ہے؟
-------------------------------
--------------------------------
دیکھنے والے کے لئے ظاہر ہونے والے حصے کو لغوی اعتبار سے "وجہ" کہتے ہیں، شرعاً واصطلاحاً فقہاء کرام نے اس کی حدود بیان کردی ہیں جس پر تقریباً ائمہ مجتہدین کا اتفاق ہے:
"والوَجْهُ مستقبَلُ كُلِّ شَيءٍ" انتهى (المحيط في اللغة" (1/314) – "كتاب العين" (4/66)
قرطبی کی احکام القرآن میں ہے:
"الوجه في اللغة مأخوذ من المواجهة، وهو عضو مشتمل على أعضاء وله طول وعرض ؛ فحده في الطول من مبتدأ سطح الجبهة إلى منتهى اللحيين، ومن الأذن إلى الأذن في العرض" "والعرب لا تسمي وجها إلا ما وقعت به المواجهة" انتهى .(الجامع لأحكام القرآن" (6/83)
مجمع بحار الانوار میں ہے:
حد الوجه مادون منابت الشعر معتاداً الی الاذنين واللحيين والذقن واحترز بالمعتاد عن الصلع وادخل به الفم، واللحيان والذقن واحد فهو تاکيد انتهیٰ» (مجمع بحار الأنوار 22/5)
یعنی چہرے کی حد عادتاً بالوں کی اُگنے کی جگہ سے دونوں کانوں تک اور نیچے کے جبڑے اور ٹھوڑی تک اور عادتاً کی قید سے پیشانی کے اڑے ہوئے بال نکل گئے اور اس کے ساتھ منہ کو داخل کیا اور نیچے کا جبڑہ اور ٹھوڑی (سے مراد اس محل میں) ایک ہی ہے پس وہ تاکید ہے۔)
امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
"حَدُّ الوجه عند الفقهاء: ما بين منابت شعر الرأس - ولا اعتبار بالصَّلع ولا بالغَمَم - إلى منتهى اللحيين والذقن طولا ومن الأذن إلى الأذن عرضا" (تفسير ابن كثير 3/47)
لغوی اطلاق کو بنیاد بناکر فقہاء کرام نے وجہ کی اصطلاحی وشرعی تعریف کی ہے، تقریباً ائمہ کا اتفاق ہے کہ پیشانی کے بال اگنے کی جگہ سے لیکر ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو، چہرے کی تعریف میں شامل ہے اور یہاں تک دھونا وضو میں فرض ہے۔
ہدایہ اور فتح القدیر میں ہے:
وَحَدُّ الْوَجْهِ مِنْ قِصَاصِ الشَّعْرِ إلَى أَسْفَلِ الذَّقَنِ وَإِلَى شَحْمَتَيْ الْأُذُنِ; لِأَنَّ الْمُوَاجَهَةَ تَقَعُ بِهَذِهِ الْجُمْلَةِ وَهُوَ مُشْتَقٌّ مِنْهَا (ہدایہ)
(قَوْلُهُ مِنْ قِصَاصِ الشَّعْرِ) خَرَجَ مَخْرَجَ الْعَادَةِ، وَإِنَّمَا طُولُهُ مِنْ مَبْدَإِ سَطْحِ الْجَبْهَةِ إلَى أَسْفَلِ اللَّحْيَيْنِ حَتَّى لَوْ كَانَ أَصْلَعَ لَا يَجِبُ مِنْ قِصَاصِهِ، وَيُجْزِئُ الْمَسْحُ عَلَى الصَّلْعَةِ فِي الْأَصَحِّ وَالْقِصَاصُ مُثَلَّثٌ الْقَافِ (فتح القدير مع الهداية ١٢/١) (المبسوط) للسرخسي (1/10)، (بدائع الصنائع) للكاساني (1/3)، (مواهب الجليل) للحطاب (1/266)، (الفواكه الدواني) للنفراوي (1/388)، (المجموع) للنووي (1/371)، (المغني) لابن قدامة (1/85)، (الإنصاف) للمرداوي (1/154)، (المحلى)) لابن حزم (1/295)
علامہ کاسانی کا خیال ہے کہ چہرے کی یہ حد بندی فقہ حنفی کی ظاہر روایہ میں نہیں کی گئی ہے، حدود اربعہ کی یہ حدبندی غیر ظاہر روایہ میں ہوئی ہے:
"وَلَمْ يَذْكُرْ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ حَدَّ الْوَجْهِ , وَذَكَرَ فِي غَيْرِ رِوَايَةِ الْأُصُولِ أَنَّهُ مِنْ قِصَاصِ الشَّعْرِ إلَى أَسْفَلِ الذَّقَنِ , وَإِلَى شَحْمَتَيْ الْأُذُنَيْنِ, وَهَذَا تَحْدِيدٌ صَحِيحٌ; لِأَنَّهُ تَحْدِيدُ الشَّيْءِ بِمَا يُنْبِئُ عَنْهُ اللَّفْظُ لُغَةً; لِأَنَّ الْوَجْهَ اسْمٌ لِمَا يُوَاجِهُ الْإِنْسَانَ, أَوْ مَا يُوَاجَهُ إلَيْهِ فِي الْعَادَةِ. وَالْمُوَاجَهَةُ تَقَعُ بِهَذَا الْمَحْدُودِ" انتهى. "بدائع الصنائع" (1/3)
اسفل ذقن سے کیا مراد ہے؟
نچلے ہونٹ ولب کے نیچے چہرے کا آخری حصہ جہاں دو نوں جبڑے ملتے ہیں اسے ذقن کہتے، باتفاق فقہاء یہ چہرے کا حصہ ہے؛ کیونکہ آمنا سامنا (مواجہہ) ہونے کے وقت یہ بھی نظر آتا ہے:
والذقن من الوجه، وهو مجمع اللحيين، وهما العظمان اللذان تنبت عليهما الأسنان السفلية، اتفق الفقهاء على أن الذقن من الوجه. (الموسوعة الفقهية. الذقن)
ذقن یعنی ٹھوڑی کا ایک حصہ وکنارہ تو بالکل سامنے نظر آتا ہے، اسے "حِدّة" یعنی ٹھوڑی کا کنارہ کہتے ہیں، ہمارے کچھ فقہاء احناف ذقن سے مراد یہی لیتے ہیں، جبکہ اس ہڈی کا جو نچلا حصہ ہے جسے ”اقصی الذقن“ کہتے ہیں، مواجہہ کے وقت وہ نیچے والی ہڈی بھی نظر آتی ہے، اسے ”منتہائے ذقن“ یا ”اسفل ذقن“ کہتے ہیں۔کان کی لو، اور ”قصاص شعر“ بھی چہرے کے حدود ہیں،
ان حدود میں ”قصاص شعر“ اور ”شحمۃ اذن“ وظیفہ غسل میں داخل نہیں ہیں، لیکن ان حدود کے برعکس ذقن میں اکثر فقہاء احناف کا خیال ہے کہ منتہائے ذقن بھی (ٹھوڑی سمیت) حدِ وجہ میں داخل ہے؛ لہذا ٹھوڑی سمیت وضو میں دھونا ضروری ہے.
جن فقہی کتابوں میں ”اسفل ذقن“ چہرے کی حد طول بیان ہوئی ہے تو اسفل ذقن سے وہاں یہی منتہائے ذقن مراد ہے۔ ”ياايها الذين اٰمنوا اذا قمتم“ کے ذیل میں قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
«الوجه اسم لعضو معلوم مشتق من المواجهة وحده من منابت الشعر الیٰ < منتهیٰ الذقن > طولا وما بین الاذنین عرضا فمن ترک غسل ما بین اللحیة والاذن لم یجز وضوءه عندالائمة الثلاثة خلافا لمالک ویجب ایصال الماء الیٰ ماتحت الحاجبین واهداب العینین والشارب واما ما تحت اللحیة فان کانت خفیة یری ماتحتها یجب غسله و انکانت کثیفة لا یری البشرة من تحتها یسقط غسل البشرة فی الوضوء کما یسقط مسح الرأس بالشعر النابت علیه والدلیل علیه اجماع الامة وفعل الرسول صلی الله علیه وآله وسلم إلخ
تفسیر خازن میں بھی اسفل ذقن کی تعبیر کی بجائے منتہائے ذقن ہی استعمال کیا گیا ہے:
«واما حد الوجه فمن منابت شعر الراس الیٰ منتهیٰ الذقن طولا ومن الاذن عرضا لانه ماخوذ من المواجهة فيجب غسل جميع الوجه فی الوضوء ويجب ايصال الماء الی ماتحت الحاجبين واهداب العينين والعذارين والشارب والعنفقة وان کانت کثة۔ واما اللحية فان کانت کثة لا تری البشرة من تحتها لا يجب غسل ما تحتها ويجب غسل ما تحت اللحية الخفيفة الخ ۔۔۔
علامہ قہستانی کی مختصر الوقایہ کی شرح جامع رموز الروایہ اور اس پہ علامہ ابراہیم آفندی کی شرح سے اس جانب تھوڑی رہنمائی ملتی ہے:
وأسفل الذقن بفتحتين مجتمع اللحيين، والمراد حدته عند البعض وأقصى مايبدو للمواجهة عند الأكثرين، فأسفله في الوجهين غير داخل في الوجه۔ وفي شرحه: وفي حاشية المولوي عصام الدين لشرح الوقاية قيل: ينبغي أن يفسر أسفل الذقن بما هو خارج من الوجه كقصاص الشعر وشحمة الأذن خارجين من الوجه لئلا يكون تحديد الوجه تارة بما هو داخل وتارة بما هو خارج فيفوت التناسب، فعند البعض نهاية الوجه حدة الذقن، وعند الأكثرين بما يبدو للمواجهة، فينبغي أن يفسر أسفل الذقن بما يتصل بأحد هذين الأمرين، لا بأحدهما، وهذا كلام حسن۔ (جامع رموز الرواية في شرح مختصر الوقاية مع شرح غواص البحرين في ميزان الشرحين 116۔۔119/1)
آگے تحریر فرماتے ہیں:
ولا يدخل الحد أي الشعر وأسفل الذقن في الوجه المحدود ص 119)
ان تصریحات سے مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ منتہائے ذقن (اسفل ذقن) محدود ومغیا سے کچھ فقہاء کے یہاں خارج ہے، جیسے کان کی لو اور پیشانی کے بال خارج ہیں، اکثر کے یہاں یہ بھی شامل وجہ ہے، کیونکہ مواجہہ کے وقت یہ بھی نظر آتا ہے، چہرے کی حد بندی میں چونکہ لغوی اطلاق کو ہی بنیاد بنایا گیا ہے اس لئے ٹھوڑی (اسفل ذقن) بھی داخل وجہ ہوگی اور اسے دھونا ضروری ہوگا۔ ٹھوڑی سے نیچے ذقن کی کوئی حد ہے ہی نہیں
اس کے نیچے سے حلق تک کے درمیانی حصے کو ”تحت الذقن“ کہا جاتا ہے؛ اسفل ذقن نہیں، ماتحت الذقن حصہ، حدِ وجہ میں کسی کے یہاں بھی شامل نہیں ہے. ہاں! استیعاب وضو اور استیعاب غَسلِ وجہ کے ذیل میں بیشتر فقہاء کا خیال ہے کہ حدود وجہ سے متصل دیگر اجزاءِ راس و حلق تک بھی، ”واجب مقاصد نہیں“؛ بلکہ ”واجب وسائل“ کے بطور احتیاطاً دھولے، جیسے ”اتمو الصیام الی اللیل“ میں رات کے ایک معمولی حصہ تک امساک کرنے کا حکم ہے، اسی طرح ”فاغسلوا وجو ھکم“ میں امر استیعاب کا تحقق اسی وقت ہوگا جبکہ چہرے سے متصل تمام اعضا یعنی اوپر سر کے بال، دائیں بائیں کان کی لو اور نیچے حلق تک کے حصوں کو بھی دھوئے۔ اسے دھوئے بغیر استیعاب غسل کے وجوب کا تحقق نہیں ہوگا، اور حسب ضابطہ ”مالا يتم الواجب إلا به فهو واجب“ کے تحت منتہائے ذقن سے حلق تک کے درمیانی حصے کو بھی دھونا اسی واجب لغیرہ کے بطور بر بنائے احتیاط واجب ہے ۔دیکھئے:
(أحكام القرآن لابن العربي ٥٤/٢، مواهب الجليل ١٨٧/١، المستصفى ص ٦٦، المجموع ٤١٦/١)
حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ اپنے درج ذیل فتاوی میں:
1: "فصل فی فرائض الوضو" چہرہ کی حد کہاں سے کہاں تک ہے اور داڑھی کے غسل کا حکم
سوال: حد چہرہ کہاں سے کہاں تک ہے، حد چہرہ کس کو کہتے ہیں، ٹھوڑی کے نیچے اور حلق کے درمیان میں جو عضو ہے، وہ حد چہرہ ہے یاخارج ہے، وضو میں گھنی ڈاڑھی کی جڑوں کا کس قدر خشک رہنا معاف ہے، گھنی ڈاڑھی کی جڑوں کا اور بالوں کا دھونا فرض ہے یا واجب یا سنت ہے کیا ہے، گھنی داڑھی سے چند بال خشک رہ گئے تو وضو درست ہوگا یا نہیں بالوں کا کس قدر خشک رہنا معاف ہے، داڑھی بھگونے کے لئے چلو میں پانی لے کر خوب بھگوئے یا صرف جس پانی سے منہ دھویا جائے وہی پانی کافی ہے؟
الجواب: چہرے کی حد عرض میں ایک کان سے دوسرے کان تک ہے اور لمبائی میں سر کے بالوں سے لے کر ٹھوڑی تک نیچے حلق تک ہے، گھنی داڑھی کے بالوں کی جڑوں کا ترکرنا فرض نہیں ہے، بلکہ اوپر اوپر کے بالوں کا دھونا فرض ہے، ٹھوڑی کے نیچے اور حلق کے درمیان جو عضو ہے وہ بھی چہرہ میں داخل ہے، جو پانی چہرہ پر ڈالا جاتا ہے اگر اس سے داڑھی کے اوپر کے بال خوب تر ہوجائیں تو علیحدہ چلو لینے کی ضرورت نہیں، گھنی داڑھی کے بیچ میں بال خشک رہیں تو حرج نہیں، اوپر کے بال تر ہوجانا چاہئے، واللہ اعلم، ۸ رجب ۴۱ ھ (امدادالاحکام ج۱ ص ٣٦٤. يونيكوڈ)
2: وضو میں چہرہ کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟
سوال: وضو میں حد چہرہ کس کو کہتے ہیں، حد چہرہ کہاں سے کہاں تک ہے،ٹھوڑی کے نیچے اور حلق کے درمیان جو عضو ہے وہ چہرہ میں ہے یا خارج ہے؟
الجواب: قال فی مراقی الفلاح وحدہ ای جملۃ الوجہ طولا من مبدأ سطح الجبھۃ سواء کان بہ شعرام لا والجبھۃ مااکتنفہ جبینان، الیٰ اسفل الذقن وھی مجموع لحیتہ واللحی منبت اللحیۃ فوق عظم الاسنان لمن لیست لہ لحیتة کثیفة وفی حقہ الی مالاقی البشرۃ من الوجہ . وحدہ عرضاما بین شحمتی الاذنین ویدخل فی الغایتین جزءا منھما لاتصالہ بالفرض . والبیاض الذی بین العذاروالاذن علی الصحیح اھ ملخصاً، ص ۳۴، چہرہ کی حد طول میں سر کے بالوں کی جڑ سے لے کرٹھوڑی کے نیچے تک ہے، اور عرضاًایک کان کی لو سے لے کردوسرے کان کی لو تک ہے ٹھوڑی کے نیچے حلق کے درمیان میں جو عضو ہے وہ بھی چہرہ میں داخل ہے اس کا دھونا بھی فرض ہے۔ (امدادالاحکام ج ۱ ص ٣٦٦، یونیکوڈ)
__________________________
ٹھوڑی اور حلق کے درمیانی حصے کو بھی جو وضو میں دھونا ضروری قرار دے رہے ہیں تو یہاں تک تو بات معقول ہے دیگر فقہاء کے یہاں بھی یہ بات ملتی ہے. لیکن اس حصے کو بھی حد وجہ میں شامل ہونے کی بات مجھ طالب علم کی سمجھ میں نہ آئی:
ولا يدخل الحد أي الشعر وأسفل الذقن في الوجه المحدود، جامع الرموز ص 119)
شاید اسفل ذقن کی تعبیر سے حضرت نے یہ استنباط کیا ہو؛ کیونکہ جس مراقی الفلاح کی عبارت پیش کی گئی ہے وہاں اسفل ذقن کے علاوہ اس زائد عضو کے حد وجہ میں شمولیت اور اس کے وجوب غسل جیسی کوئی بات نہیں ہے اور نہ ہی کسی فقہی کتاب میں میری ناقص تلاش کی حد تک ایسا کچھ موجود ہے، ممکن ہے میری تلاش ناقص ہو، لیکن حضرت کی عظمت شان اور جلالت علمی کے اعتراف کے علی الرغم لگتا ہے کہ صرف اس ایک جزئیے میں حضرت سے ذہول ہوگیا ہے، مسافران علم وتحقیق اس بابت کسی تشفی بخش مستند مصدر ومرجع تک پہونچیں تو اس طالب علم کو مطلع فرماکر اس کی اصلاح فرمادیں، هذا ما عندي والصواب عند الله .