اھل بدعت کی گیارہ باتیں (سوالات، اعتراضات) اور اُن کے جوابات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لیجئے ہر ایک بات (سوال، اعتراض) کا جواب حاضر ہے!
✍ حافظ محمود احمد عرف عبدالباری محمود
حامداً و مصلّیاً و مسلّماً:
محترم قارئین! کسی نامعلوم شخص نے میلاد النبی ﷺ کو جشن کا دن ثابت کرنے کے لئے ایک تصویری پوسٹ شیئر کیا ہے، جس کا عنوان ہے ”گیارہ باتیں جن کا جواب کسی مفتی کے پاس نہیں!“
اس نے اپنی اس تصویری پوسٹ میں گیارہ باتیں (اعتراضات، سوالات) پیش کئے ہیں جن کا جواب مسلک اہل السنّۃ والجماعۃ احناف دیوبند کا ایک ادنیٰ خادم (جوکہ مفتی اور مولانا نہیں ہے) حافظ محمود احمد عرف عبدالباری محمود بفضلہٖ تعالیٰ بالترتیب دے رہا ہے ملاحظہ کریں۔
نوٹ: قارئینِ کرام! جواب سے قبل ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ پہلے بدعت کی تعریف نقل کردیں تاکہ بات پوری طرح واضح رہے۔
بدعت کی تعریف میں علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«البدعة: طريقة في الدين مخترعة، تضاهي الشرعية، يقصد بالسلوك عليها ما يقصد بالطريقة الشرعية» (الاعتصام للشاطبي: ص 43)
”بدعت: دین میں ایک نو ایجاد طریقہ ہے جو شریعت کے مشابہ ہو، اور جو شرعی طریقہ پر چلنے کا مقصد ہوتا ہے وہی مقصد اس کا ہو۔“
فائدہ: قارئینِ محترم! علامہ شاطبی رحمہ اللہ کی اس تعریف سے واضح ہوگیا کہ شریعت میں بدعت کا اطلاق ان نو ایجاد امور پر کیا جاتا ہے جسکو شریعت کا حصہ یا دین سمجھ کر اختیار کیا جائے اس سے ثابت ہوا کہ جن محدثات کو دین یا شریعت نہ سمجھ کر اختیار کیا جائے اس پر شرعی بدعت کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ بدعت کی تعریف میں شامل ہیں۔ اب آئیے اس نامعلوم شخص کے پوسٹر میں درج باتوں (سوالات، اعتراضات) کی طرف جن کو یہ بزعمِ خویش سمجھتے ہیں کہ انکا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔
پوسٹ میکر صاحب کی باتیں اور ان کا جواب
بات (سوال، اعتراض) نمبر1:
”ہر سال جشن سعودیہ منایا جاتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“
جواب:
پوسٹ میکر صاحب! سعودیہ کا، یا کسی ملک کا، یا اپنے ملک کے بننے کا، یا ملک سے متعلق کسی اور معاملے کا جشن منانا بدعت کی تعریف میں داخل نہیں ہے کیونکہ یہ امور دین میں سے نہیں بلکہ دُنیاوی معاملات میں سے ہے۔ فرقۂ بریلویت کے بانی و مجدد اعظم احمد رضاخان صاحب تمباکو کو حلال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ”رہا اس کا بدعت ہونا یہ کچھ باعث ضرر نہیں کہ یہ بدعت کھانے پینے میں ہے نہ کہ امور دین میں، تو اس کی حرمت ثابت کرنا ایک دشوار کام ہے۔“ (احکام شریعت: حصہ سوم، مسئلہ نمبر 37)
اسی طرح جشنِ سعودیہ امور دنیا سے ہے نہ کہ امور دین سے۔ اور نہ ہی کوئی اس کو فرض، واجب سنت کا درجہ دیتا ہے۔ جب یہ امور دین سے نہیں تو شرعی بدعت کا اطلاق اس پر ہوتا نہیں، اس لیے اِسے بدعت نہیں کہا جاتا ہے۔
بات (سوال، اعتراض) نمبر 2:
”ہر سال غسلِ کعبہ ہوتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“
جواب:
غسلِ کعبہ کی اصل قرآن کریم میں مذکور حضرات إِبراہیم و إِسماعیل علیہما السلام کو دیا گیا یہ حکم مبارک ہے کہ: «وَ عَهِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰهٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَهِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡعٰکِفِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ» (سُورۃ البقرہ: آیت 125)
”اور ہم نے إِبراہیم اور إِسماعیل کو پابند کیا کہ تم دونوں میرے گھر (کعبہ) کو پاکیزہ کرو، طواف کرنے والوں کے لیے اور قیام کرنے والوں کے لیے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے۔“
اور صِرف حضرت إِبراہیم علیہ السلام کے ذِکر کے ساتھ یہ فرمایا کہ:
«وَّطَهِّرۡ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡقَآئِمِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ» (سُورۃ الحج: آیت 26)
”اور میرے گھر (کعبہ) کو پاکیزہ کرو، طواف کرنے والوں کے لیے، اور قیام کرنے والوں کے لیے، اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے۔“
فائدہ: ان آیات سے کعبہ شریفہ کو حسی، اور معنوی ہر قسم کی ناپاکی، گندگی وغیرہ سے صاف کرنا، پانی کے ساتھ دھونا ثابت ہوتا ہے؛ کیونکہ پاکیزہ کرنے میں یہ سب چیزیں شامل ہیں۔
اور حدیث میں ہے:
«عن أسامة بن زيد قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الكعبة فرأى صُورًا فدَعَا بدَلوٍ مِن ماءٍ فأتيته به فضَربَ بهِ الصُّورِ ويقول قاتل الله قوماً يُصوِرون ما لا يَخلقُون» (سلسلة الاحادیث الصحیحة: رقم الحدیث 996)
”حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا: میں (فتح مکہ کے موقع پر) کعبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس داخل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویریں دیکھیں تو پانی کا برتن (بالٹی ، ڈول وغیرہ) لانے کا حکم فرمایا، میں لے کر حاضر ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو اُن تصاویر پر ڈال کر اُنہیں مٹایا، اور فرمایا: اللہ اُن لوگوں کو ھلاک کرے جو اُن چیزوں کی تصویریں بناتے ہیں جو چیزیں ان لوگوں نے تخلیق (ہی) نہیں کِیں۔“
مختصر طور پر یہ واقعہ ”اخبار مکة في قديم الدهر وحديثه للفاکھی: [ج5، ص234] / ذكر الْأُمُور الَّتِي صنعها رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكَعْبَة“ میں بھی مروی ہے۔
فائدہ: اس حدیث پاک سے واضح ہوا کہ کعبہ شریفہ کو حسی ، اور معنوی ہر قسم کی ناپاکی، گندگی وغیرہ سے صاف کرنا، پانی کے ساتھ دھونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
مزید گواہی کے طور پر یہ بھی ملاحظہ فرمایئے:
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
«ثُمَّ أَمَرَ بِلاَلاً، فَرَقَيَ عَلَى ظَهْرِ الْكَعْبَةِ، فَأَذَّنَ بِالصَّلاَةِ، وَقَامَ الْمُسْلِمُونَ فَتَجَرَّدُوا فِي الأُزُرِ، وَأَخَذُوا الدِّلاَءَ، وَارْتَجَزُوا عَلَى زَمْزَمَ يَغْسِلُونَ الْكَعْبَةَ، ظَهْرَهَا وَبَطْنَهَا، فَلَمْ يَدَعُوا أَثَرًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِلاَّ مَحَوْهُ، أَوْ غَسَلُوهُ» (المصنف لإبن أبي شیبة: کتاب المغازی، باب 34، رقم الحدیث 38074/ بتحقیق علامہ محمد عوامة)
”پھر (فتح مکہ کے دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دِیا (کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر نماز کے لیے اذان کہیں) تو حضرت بلال کعبہ کی چھت پر) چڑھے اور نماز کے لیے اذان دی، تو مُسلمانوں نے اپنے تہہ بند میں ملبوس رہ کر، پانی کے برتن لے کر زمزم پر ٹوٹ پڑے اور (زمزم لا لا کر) کعبہ کو باہر اور اندر سے دھویا، اور مشرکین کے اثرات میں کوئی ایسا اثر نہیں چھوڑا جسے مِٹا نہ دِیا، دھو نہ دِیا ہو۔“
یہ روایت مختصر سے فرق کے ساتھ ”اخبار مکة في قديم الدهر وحديثه للفاکھی: [ج5، ص221] / ذِكْرُ أذان بلال بن رباح على الكعبة، ورقية فوقها يوم الفتح للأذان“ میں بھی مذکور ہے۔
پوسٹ میکر صاحب! آپ کو یہ بات تو معلوم ہو گی ہی کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا ہو، اور اُس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہ فرمایا ہو تو وہ کام سو فیصد جائز اور دُرُست ہوتا ہے، سُنّت شریفہ میں قُبولیت یافتہ ہوتا ہے۔ لگے ہاتھوںکعبہ شریفہ کو خُوشبُو لگانے کا ثبوت بھی پیش کردیتے ہیں:
«عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، فَقَامَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَحَكَّتْهَا وَجَعَلَتْ مَكَانَهَا خَلُوقًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَحْسَنَ هَذَا» (سنن النسائي، كتاب المساجد، باب تخليق المساجد، رقم الحديث 728)
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو غضبناک ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ (مبارک) سرخ ہوگیا، انصار کی ایک عورت نے اٹھ کر اسے کھرچ کر صاف کر دیا، اور اس جگہ پر خلوق خوشبو مل دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے کیا ہی اچھا کیا۔“
«عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ» (سنن الترمذي : أبواب السفر، باب ما ذكر في تطييب المساجد، رقم الحديث 594. سنن أبي داود: كتاب الصلاة ، باب اتخاذ المساجد في الدور، رقم الحديث 455)
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے، انہیں صاف رکھنے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا ہے۔“
«عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَرَ بِالْمَسَاجِدِ أَنْ تُبْنَى فِي الدُّورِ، وَأَنْ تُطَهَّرَ وَتُطَيَّبَ» (سنن ابن ماجه : كتاب المساجد والجماعات ، باب تطهير المساجد وتطييبها، رقم الحديث 758)
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور انہیں پاک صاف رکھا جائے، اور خوشبو لگائی جائے۔“
«عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُتَّخَذَ الْمَسَاجِدُ فِي الدُّورِ، وَأَنْ تُطَهَّرَ وَتُطَيَّبَ» (سنن ابن ماجه : كتاب المساجد والجماعات ، باب تطهير المساجد وتطييبها، رقم الحديث 759)
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور انہیں پاک صاف رکھا جائے، اور خوشبو لگائی جائے۔“
فائدہ: ان احادیثِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مساجد کی صفائی اور اِن میں خوشبو کا اہتمام کیا جانا چاہیے کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کو خوشبو سے معطر کرنے کا حکم دیا ہے اور ایک انصاری خاتون نے اس پر عمل بھی کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر اس عمل کی تحسین کی، نکیر نہیں فرمائی۔ اور چونکہ مساجد میں مسجد حرام یعنی بیت اللہ شریف یعنی کعبہ شریفہ بھی شامل ہے اس لئے اس کو خوشبو لگانا بھی ثابت ہوتا ہے۔ الحمدللہ!
اور إمام محمد بن عبداللہ الازرقی رحمہُ اللہ (متوفی 250 ہجری) نے اپنی کتاب ”اخبار مکة: باب ذِكْرُ كِسْوَةِ الْكَعْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَطِيبِهَا وَخَدَمِهَا وَأَوَّلِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ“ میں کعبہ شریفہ کو خوشبودار کرنے کی کئی روایتیں نقل کی ہیں جوکہ وہ سب سنداً سخت ضعیف ہیں پر اس میں ایک روایت ایسی بھی ہے جو سخت ضعیف نہیں ہے۔ وہ روایت أمیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے جسے ہم بطور تائید نقل کر رہے ہیں۔
«كَانَ مُعَاوِيَةُ أَوَّلَ مَنْ طَيِّبَ الْكَعْبَةَ بِالْخَلُوقِ وَالْمُجْمَرِ، وَأَجْرَى الزَّيْتَ لِقَنَادِيلِ الْمَسْجِدِ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ» (اخبار مکة لعبدالله الأزرقی: [ص358] / ذِكْرُ كِسْوَةِ الْكَعْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَطِيبِهَا وَخَدَمِهَا وَأَوَّلِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ. إسناده ضعيف)
”أمیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے خَلوق (زعفران اور دیگر خُوشبُو دار چیزوں کے مجموعے) اور (دیگر) سلگائی جانے والی خُوشبُو کے ذریعے کعبہ کو خُوشُبو دار کیا، اور مسجد (الحرام) کی قندیلوں کے لیے بیت المال میں سے تیل جاری کیا۔“
فائدہ: اس سے بھی معلوم ہواکہ کعبہ شریفہ کو خُوشبُو لگانا بھی درست ہے۔
یہ لیجیے‼
الحمد للہ، کعبہ شریفہ کو غُسل دینا، قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی ثابت ہے۔ اور کعبہ شریفہ کو غسل دینے کے علاوہ خوشبو لگانا بھی ثابت ہے۔ اور اِس میں سال میں ایک، دو، یا دس بار کی کوئیا قید نہیں، جسے اللہ تعالیٰ یہ شرف جتنا چاہے عطاء فرمائے۔ پس جو کوئی کعبہ شریفہ کو غسل دینے کو قرآن و حدیث میں ثبوت کے بغیر کہتا ہے وہ یا تو جاھل ہے، یا پھر ایسا دروغ گو متعصب جو اپنے مذھب و مسلک کی تائید میں غلط بیانی کرتا ہے۔
بات (سوال، اعتراض) نمبر 3:
”ہر سال غلافِ کعبہ تبدیل کیا جاتاہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“
جواب:
اس بات (سوال، اعتراض) کا معاملہ بھی اس سے پہلی والی بات (سوال، اعتراض) کی طرح ہی ہے ، یعنی یہ بات (سوال، اعتراض) یا تو جہالت پر مبنی ہے یا جانتے بوجھتے ہوئے گمراہی پھیلانے اور اپنی بنائی اور پھیلائی ہوئی بدعت کو تحفظ دینے کی مذموم کوشش ہے؛ اس لئے کہ کعبہ شریفہ پر غلاف چڑھانا، کعبہ شریفہ کو کپڑوں سے ڈھانپنا، قبل از اسلام سے چلتا آرہا تھا، اور بعد از اِسلام، فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِس روایت کو برقرار رکھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خُلفاءِ راشدینؓ، اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی اِس پر عمل جاری رکھا۔
کعبہ شریفہ پر غِلاف چڑھانے کی چند روایات ملاحظہ ہوں:
(1) فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
«وَلَكِنْ هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الْكَعْبَةَ ، وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الْكَعْبَةُ» (صحیح البخاری: کتاب المغازی، باب أَيْنَ رَكَزَ النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم الرَّايَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ، رقم الحديث 4280)
”یہ وہ دِن ہے جِس میں اللہ کعبہ کی عظمت کو بڑھاتا ہے اور وہ دِن ہے جس میں کعبہ کو لباس (غلاف) پہنایا جاتا ہے۔“
(2) حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
«كَسَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ فِي حَجَّتِهِ الْحُبُرَاتِ» (مسند الحارث: کتاب الحج، باب کسوۃ الکعبة، رقم الحدیث 391)
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج میں (اللہ کے) گھر (کعبہ شریفہ) کو حُبرات کا لباس پہنایا۔“
(3) حضرت لیث بن ابی سلیم رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ:
«كَانَ كِسْوَةَ الْكَعْبَةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الْأَقْطَاعُ وَالْمُسُوحُ» (المصنف لإبن أبي شیبة: کتاب الحج، باب فِي الْبَيْتِ مَا كَانَتْ كِسْوَتُهُ، رقم 16067/ بتحقيق محمد عوامة)
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں کعبہ کا غِلاف أقطاع اور مسوح کا ہوا کرتا تھا۔“
فائدہ: أقطاع، اور مسوح دو مختلف کپڑوں کے نام ہیں:
(4) حضرت نافع رحمہُ اللہ مولیٰ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
«كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَكْسُو بُدْنَهُ - إِذَا أَرَادَ أَنْ يُحْرِمَ - الْقَبَاطِيَّ وَالْحِبَرَة الجيدة، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ أَلْبَسَهَا إِيَّاهَا، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ نَزَعَهَا، ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا إِلَى شَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ فَنَاطَهَا عَلَى الْكَعْبَةِ» (اخبار مکة للأزرقی: [ص356]/ ذِكْرُ كِسْوَةِ الْكَعْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَطِيبِهَا وَخَدَمِهَا وَ أَوَّلِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ. ”اخبار مکة في قديم الدهر وحديثه للفاکھی: [ج5، ص232] / ذِكْرُ ما يجوز ان تكسى به الكعبة من الثياب“)
”جب حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما (حج کے) احرام کا اِرداہ کرتے تو اپنے قربانی کے جانور پر قباطی اور حِبرہ (نامی کپڑے) لگا دیتے، اور عرفات والے دِن وہ کپڑے اُسے پہنا دیتے، اور قربانی والے دِن وہ کپڑے اتار دیتے اور پھر شیبہ بن عثمان رضی اللہ عنہ (جو کہ کعبہ شریفہ کے منتظمین تھے) کو وہ کپڑے بھیج دیتے تو شیبہ بن عثمان رضی اللہ عنہ وہ کپڑے کعبہ پر لٹکا دیتے۔“
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «وَسَتَرْتُمْ بُيُوتَكُمْ كَمَا تُسْتَرُ الْكَعْبَةُ» (سنن الترمذی: ابواب صفة القیامة، رقم الحدیث 2476۔ بتحقیق امام ترمذی حسن غریب) ”تم اپنے گھروں کو ایسے ڈھانکو گے جیسے کعبہ ڈھانکا جاتا ہے۔“
فائدہ: اس روایت سے معلوم ہوا کہ کسی عمارت کو یا تو زیب و زینت کی خاطر ڈھانکا جاتا ہے۔ (جیسے گھروں میں پردے لٹکانا) یا ادب و احترام کی خاطر (جیسے کعبۃ اللہ پر غلاف چڑھایا جاتا ہے)
جب گھروں کو زیب و زینت کے خیال سے ڈھانکنا بھی شرعاً پسند نہیں کیا گیا تو پھر دیگر عمارت کو کسی ادب و احترام کی خاطر ڈھانکنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس سے کعبۃ اللہ کے امتیاز و تشخص کا مجروح ہونا اور اس کی خصوصیات میں دوسری عمارتوں کا شریک ہونا لازم آتا ہے۔
بفضلہ تعالیٰ یہ جواب بھی پورا ہوا، اور واضح ہوا کہ کعبہ شریفہ کو لباس پہنانا ، غِلاف چڑھانا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی سُنّت شریفہ میں موجود ہے، پس جو کوئی اِس کام کو سُنّت کے مُطابق نہیں جانتا، نہیں سمجھتا، تو جیسا کہ پہلے کہا، وہ شخص یا تو جاھل ہے یا پھر اپنے مذھب و مسلک کی تائید میں حق پوشی کر رہا ہے۔
بات (سوال، اعتراض) نمبر 4:
”غلافِ کعبہ پر آیات لکھی جاتی ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“
جواب:
اِس کام کے بارے میں عُلماء کا اختلاف ہے جِس میں سے صحیح یہ ہے کہ کعبہ شریفہ کے غِلاف پر آیاتِ مُبارکہ لکھنا جائز ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے:
«وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ» (سُورۃ الحج: آیت 32)
”اور جو کوئی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو ایسا کرنا یقیناً دِلوں کے تقویٰ سے ہے۔“
فائده: کعبہ شریفہ، شعائر اللہ میں سے ایک ہے، پس اُس کی تعظیم کرتے ہوئے اُس کے غِلاف پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہی کلام، یعنی قرآن کریم کی آیاتِ شریفہ لکھی جانا دُرست ہے، بشرطیکہ اُنہیں لکھنے میں کوئی اسراف، یعنی فضول خرچی نہ کی جائے، لہٰذا اسے لکھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔
بات (سوال، اعتراض) نمبر 5:
”مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تہجد کی اذان ہوتی ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“
جواب:
یہاں غالباً فجر کی پہلی اذان کو تہجد کی اذان کہا گیا ہے، اور یہی اذان مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور سعودی عرب کے کئی دیگر شہروں میں دی جاتی ہے، اور فجر کی اِس پہلی اذان کا ثبوت احادیث میں موجود ہے۔ ملاحظہ فرمایئے:
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لاَ يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ - أَوْ أَحَدًا مِنْكُمْ - أَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سَحُورِهِ ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ أَوْ يُنَادِى بِلَيْلٍ ، لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَلِيُنَبِّهَ نَائِمَكُمْ» (صحیح البخاری: کتاب الأذان، باب الأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ، رقم الحديث621)
”تم میں سے کوئی بلال کی اذان پر اپنی سحری کو نہ روکے، کیوں کہ وہ (فجر کے وقت سے پہلے) رات میں اذان دیتے ہیں، (یا فرمایا) پکار لگاتے ہیں۔ تاکہ تم لوگوں میں جو قیام (اللیل) کرنے والے ہیں (سحری) کی طرف لوٹ جائیں۔ اور جو سوئے ہوئے ہیں وہ بیدار ہوجائیں۔“
اور امی جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ» (صحیح البخاری: کتاب الأذان، باب الأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ، رقم الحدیث 623)
”بلال (فجر کے وقت سے پہلے) رات میں اذان دیتے ہیں، تو تم لوگ (سحری) کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ (عبداللہ) ابن أُم مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دے دیں۔“
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا: «قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ نِدَاءُ بِلَالٍ، أَوْ قَالَ: أَذَانُهُ مِنْ سَحُورِهِ ، فَإِنَّمَا يُنَادِي، أَوْ قَالَ: يُؤَذِّنُ لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ۔۔۔» (صحیح البخاری: كتاب الطلاق ، باب الإشارة في الطلاق والأمور، رقم الحدیث 4993)
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی پکار، یا آپ نے فرمایا کہ "ان کی اذان" تم میں سے کسی کو اپنی سحری کرنے سے نہ روکے، کیونکہ وہ پکارتے ہیں، یا فرمایا، اذان دیتے ہیں تاکہ تم لوگوں میں جو قیام (اللیل) کرنے والے ہیں وہ (سحری کے لئے) لوٹ جائیں۔“
ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا: «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سَحُورِهِ فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ، أَوْ قَالَ: يُنَادِي لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَيُنَبِّهَ نَائِمَكُمْ۔۔۔» (صحیح البخاری: كتاب أخبار الآحاد، باب ما جاء في إجازة خبر الواحد، رقم الحدیث 6820)
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں کسی کو بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سحری کھانے سے نہ روکے کیونکہ وہ اس لیے اذان دیتے ہیں یا نداء کرتے ہیں تاکہ تم میں جو قیام (اللیل) کرنے والے ہیں وہ (سحری کے لئے) لوٹ جائیں۔ اور جو سوئے ہوئے ہیں وہ بیدار ہو جائیں۔۔۔“
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا ہے: «اِنَّ بِلاَلاً یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ ۔ قَالَ: وَکَانَ رَجُلاً اَعْمٰی لاَ یُنَادِیْ حَتّٰی یُقَالَ لَه: اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ» (صحيح البخاري : كتاب الأذان، باب أذان الأعمى إذا كان له من يخبره، رقم الحديث 592)
’’بلاشبہ رات کو بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے ہیں کہ پس تم کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ وہ اتنی دیر تک اذان نہ کہتے تھے جب تک کہ یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ تو نے صبح کی ہے تو نے صبح کی ہے۔‘‘
فائدہ: ان روایتوں سے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک اذان فجر سے پہلے ہوتی تھی جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیتے تھے اور دوسری اذان طلوع فجر کے ساتھ ہوتی تھی جو حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دیتے تھے۔ دونوں اذانیں بامقصد تھیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سحری کھانے اور نمازِ تہجد کے وقت کے لیے ایک اعلان کی حیثیت رکھتی تھی جبکہ حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان کا مقصد طلوعِ فجر کی اطلاع دینا تھا۔
لیجئے الحمد للہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مُبارک میں، اور یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے فجر کی دو اذانوں کا ثبوت مہیا ہے، اب اگر کوئی شخص اِن احادیث کا عِلم ہی نہیں رکھتا اور بلا عِلم سوال و اعتراض کرتا ہے تو اِس کا وبال اُسی پر ہے ، اور اگر اُسے اِس کا علم ہے ، اور جانتے بوجھتے ہوئے فجر کی پہلی اذان کو تہجد کی اذان کا نام دے کربات کو بدلنے کی، حق چھپانے کی کوشش میں ہے، تو یہ لا عِلمی میں کی گئی کوشش سے بُرا اور بڑا وبال ہے۔
تنبیہ: احناف کے نزدیک یہ پہلی اذان فجر ابتداءِ اسلام میں تھی جو بعد میں منسوخ ہوگئی۔ (دیکھیں: الجامعۃ البنوریۃ العالمیۃ کا فتویٰ ’’فقہ حنفی میں تہجد کی اذان کی کیا حیثیت ہے۔۔۔؟‘‘) اگر سعودی والے کرتے ہیں تو اسے منسوخ نہیں سمجھتے اور وہاں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے فتویٰ پر عمل ہوتا ہے؛ اس لئے یہ بات (سوال یا اعتراض) فضول ہے۔
بات (سوال، اعتراض) نمبر 6:
”مدارس میں ختم بخاری شریف ہوتا ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“
جواب:
پہلی بات، جناب والا کو ایسی بات (سوال یا اعتراض) کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے تھا کہ صحیح بخاری قرآن کریم کے نزول، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کتنے سال بعد لکھی گئی تھی؟؟؟
تو اِس کتاب کی تعلیم سے متعلق کسی معاملے، یا کسی محفل کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں سے کہاں ملے گا؟
اور یہ بھی کہ اِس بات (سوال یا اعتراض) میں صحیح بخاری کا ذِکر ہی کیوں، مدرسوں اور اُن کے نظام اور ان کے تعلیمی نصاب سب ہی کچھ اِس کی زد میں آتے ہیں، بہرحال اِس مذکور بالا بات (سوال یا اعتراض) میں بات ( یا سوال یا اعتراض) کرنے والے کی ختم بخاری شریف سے کیا مُراد ہے؟ اِس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے؟؟؟
اگر اِس سے مُراد مدارس میں تدریسی نصاب میں سے صحیح بخاری کی تعلیم مکمل ہونے پر اُس تعلیم سے متعلق کوئی محفل منعقد کرنا ہے تو اُس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ اسی دینی تعلیم سے متعلق ہے۔
ایک اور بات مدارس میں بخاری شریف کے اختتام پر اجتماع، اس کے علاوہ مدارس میں جو ختم بخاری شریف ہوتا ہے تو وہ علماء کے ہاں نہ تو واجب ہے اور نہ ہی فرض بلکہ لزوم کے اعتقاد کے بغیر بخاری شریف کی آخری حدیث کے موقع پر اجتماع منعقد کیا جاتا ہے جس میں علماء و طلباء کے علاوہ عوام شرکت کرتے ہیں مشائخ کے بیانات کے بعد آخر میں دعا سے اجتماع ختم ہوجاتا ہے اور اس اجتماع کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تجربہ شاہد ہے کہ ختم بخاری پر دعائیں قبول ہوتی ہیں لہٰذا ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ اس تقریب سعید میں شامل ہوجائے۔
بات (سوال، اعتراض) نمبر 7:
”سیرت النبی ﷺ کے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“
جواب:
سیرت النبی صلی ﷺ کے اجتماعات کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بیان کرنا ہے جس کے لئے کسی دن کی کوئی قید نہیں اور اس میں تو کسی مسلمان کو اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں ہاں اگر کوئی بدعتی اپنی بدعت کے جواز کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر اعتراض کرتا ہو تو اس سے بڑا گستاخ کوئی نہیں۔ فرقۂ بریلویت کے شیخ الحدیث عبدالرزاق بھترالوی صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’آجکل مختلف عنوانات سے ربیع الاول میں جلسے ہورہے ہیں، کسی کا نام پیغمبر انقلاب کانفرنس، کسی کا نام ذکر ولادت صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس اور کسی کا نام سیرت النبی ﷺ، کسی کا نام حسن قرأت و حمد و نعت کانفرنس۔۔۔ راقم نے کبھی کسی عنوان پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ خیال یہ ہوتا ہے کہ میرے پیارے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتا رہے خواہ کسی نام سے بھی ہوتا رہے۔“ (میلاد مصطفی ﷺ: ص4، مکتبہ امام احمد رضا) معلوم ہوا کہ ہمارے جلسوں پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں اور آپ بھی اسے درست سمجھتے ہیں تو جب ہمارے جلسے متفق علیہ ہیں اور آپ کے نزدیک بھی جائز تو اس جائز کام پر کسی بدعت کو کس طرح قیاس کیا جاسکتا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد بدعت ہے۔
دیوبندی عالم ساجد خان صاحب نقشبندی اس طرح کے اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں کہ: دوسری بات یہ کہ مطلق وعظ و نصیحت تعلیم و تعلم سیرت رسول ﷺ کے بیان کیلئے جلسے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا اور متواتر چلا آرہا ہے جس کا انکار بدیہات کا انکار ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کی موجودگی میں کھڑے ہوکر وعظ و تذکیر کیا کرتے، دینی امور کی تعلیم دیتے، آداب و اخلاق سکھائے جاتے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینکڑوں صحابہ کرام سے سینکڑوں احادیث کا منقول ہونا اسی جلسوں کی غمازی کرتا ہے۔ پھر صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بیان کیا اور آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر جو ضخیم کتابیں ہیں، یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ ہر دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مجمعوں میں بیان ہوتے، حدیث کی کتابوں میں آپ کو یہ الفاظ مل جائیں گے: «سمعت عمر علی منبر النبیﷺ ۔۔۔» «سمعت عثمان بن عفان خطیبا علی منبر رسول اللّٰهِ ﷺ۔۔۔» «قام موسی النبی خطیبا فی بن اسرائیل»
خود عبدالرزاق بھترالوی صاحب کہتے ہیں کہ:
’’اس وقت جلسے دو قسم کے ہوتے تھے ایک وہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان ہوتے تھے وہ جلسہ اللہ نے منعقد فرمایا انبیاء کرام نے آپ کے اوصاف بیان کئے صحابۂ کرام نے آپ کے اوصاف کا تذکرہ کیا۔“ (میلاد مصطفی ﷺ: ص 6)
لہٰذا اتنا تو ثابت ہے کہ مطلق جلسہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت ہے. اب رہا ان کیلئے کوئی دن یا وقت طے کردینا تو دیکھیں ایک ہوتا ہے تعین شرعی اور ایک ہوتا ہے تعین عرفی شریعت سے دونوں ثابت ہیں مثلاً تعین شرعی جیسے نماز کیلئے وقت، حج کیلئے جگہ، زکوۃ کا نصاب وغیرہا۔ اور تعین عرفی بھی جائز ہے جسے کسی کام کیلئے کوئی وقت انسان کی سہولت کیلئے مقرر کردیا کہ جی فلاں کا نکاح فلاں دن وقت میں ہوگا اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بھی ثابت ہے کہ جب ایک عورت آپ کے پاس آئیں اور گزارش کی کہ کچھ احادیث ہم سے بھی بیان ہوجائیں تو آپ نے ان کو کہا کہ فلاں وقت میں فلاں جگہ جمع ہوجانا ۔۔
«جاءت امراۃ الی رسول الله ﷺ فقالت یا رسول الله ذھب الرجال بحدیثک فاجعل لنا من نفسک یوما ناتیک فیه تعلمنا مما علمك الله تعالی فقال اجتمعن فی یوم کذا و کذا و فی مکان کذا و کذا فاجتمعن» (بخاری ج 2، ص1087)
ظاہر ہے کہ یہ مکان و جگہ کی تعین عرفی ہی تھی کہ تاکہ وہاں جمع ہونے میں آسانی ہو مسئلہ تب بنتا ہے کہ جب ان دونوں تعینات کو ان کے مقام سے ہٹا دیا جائے یعنی تعین عرفی کو شرعی قرار دے دیا جائے کہ اگر فلاں وقت میں فلاں کام نہ ہوا تو تم وہابی گستاخ ہوجاؤ گے یا تعین شرعی کو معاذاللہ عرفی قرار دے دیا جائے۔ ہمارا ان جلسوں کیلئے وقت یا جگہ مقرر کردینا تعین عرفی کے طور پر ہے کہ لوگ اس تاریخ سے پہلے جلسے میں شرکت کیلئے تیار رہیں اور جگہ تک پہنچنے میں آسانی ہو ہم سے کسی نے آج تک ان تعینات کو شرعی درجہ قرار نہیں دیا اور اس میں رد و بدل بھی ہوتا رہتا ہے اسی طرح ہم نے ان جلسوں کو کبھی ان کے مقام سے نہیں ہٹایا ان کا مقام ابھی بھی وہی تصور کیا جاتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یا بعد کے زمانوں میں ہوتا تھا مگر دوسری طرف جشن عید میلاد النبی ﷺ کو دین کا ایک مستقل حصہ تسلیم کرلیا گیا ہے اس کیلئے 12 ربیع الاول کے علاوہ کسی اور دن کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور کسی وجہ سے کسی وقت ان جلسوں جلوسوں کو بند کرنے کا کہہ دیا جائے تو قتل و قتال تک کی دھمکیاں دے دی جاتی ہیں خود رضاخانیوں نے اس بات اعتراف کیا ہے کہ ہمارے ہاں جمعہ کی نماز کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی اس جشن کو پھر یہ جشن جن خرافات کا آج مجموعہ بن چکا ہے وہ اس پر متضاد تو کس طرح اس کا جائز قرار دے دیا جائے؟۔ فی الحال ہماری طرف سے اتنی تفصیل کافی ہے اگرچہ ہم کچھ اور بھی کہنے کا ارادہ کرتے ہیں اگر مخالفین کی طرف سے کوئی جواب آیا تو ان شآءاللہ مزید وضاحت پیش کی جائے گی۔“ (بریلویوں کی کرسمس (میلاد) پر دلائل کے جوابات۔ از مولانا ساجد خان نقشبندی)
بات (سوال، اعتراض) نمبر 8:
”ہر سال تبلیغی اجتماع ہوتا ہے اور چلے لگائے جاتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“
جواب:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے وعظ ونصحیت کے لئے دن کا مقرر کیا جانا ثابت ہے؛ لہٰذا اس ثابت شدہ امر کو ایسے امور سے خلط کرنا کہ جو ثابت نہیں، لایعنی ہے۔
ایک حدیث میں ہے:
«عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الأَيَّامِ، كَرَاهَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا» (صحیح البخاری: كِتَابُ العِلْمِ، باب مَا كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَتَخَوَّلُهُمْ بِالْمَوْعِظَةِ وَالْعِلْمِ كَىْ لاَ يَنْفِرُوا، رقم الحدیث 68)
”حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت کرنے کےلیے کچھ دن مقرر فرما رکھے تھے تاکہ ہم اکتا نہ جائیں۔“
ایک دوسری حدیث میں ہے:
«عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ قَالَتِ النِّسَاءُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: غَلَبَنَا عَلَيْكَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِكَ، فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ، فَكَانَ فِيمَا قَالَ لَهُنَّ: مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ ثَلاَثَةً مِنْ وَلَدِهَا، إِلَّا كَانَ لَهَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ: وَاثْنَتَيْنِ؟ فَقَالَ: وَاثْنَتَيْنِ» (صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ، بَابٌ هَلْ يُجْعَلُ لِلنِّسَاءِ يَوْمٌ عَلَى حِدَةٍ فِي العِلْمِ؟ رقم الحدیث 101)
”حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورتوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فائدہ اٹھانے میں ) مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے (وعظ کے) لیے (بھی) کوئی دن خاص فرما دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرما لیا۔ اس دن عورتوں سے آپ نے ملاقات کی اور انہیں وعظ فرمایا اور ( شریعت کے) احکام بتائے۔“
ایک اور حدیث میں ہے:
«عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ الرِّجَالُ بِحَدِيثِكَ ، فَاجْعَلْ لَنَا مِنْ نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ تُعَلِّمُنَا مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ، فَقَالَ: اجْتَمِعْنَ، فِي يَوْمِ كَذَا وَكَذَا فِي مَكَانِ كَذَا وَكَذَا، فَاجْتَمَعْنَ، فَأَتَاهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَلَّمَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَهُ اللَّهُ۔۔۔» (صحیح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة ، باب تعليم النبي صلى الله عليه وسلم أمته من الرجال والنساء مما علمه الله ليس برأي ولا تمثيل، رقم الحدیث 7310)
”ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کی حدیث مرد لے گئے، ہمارے لیے آپ کوئی دن اپنی طرف سے مخصوص کر دیں جس میں ہم آپ کے پاس آئیں اور آپ ہمیں وہ تعلیمات دیں جو اللہ نے آپ کو سکھائی ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: فلاں فلاں دن فلاں فلاں جگہ جمع ہوجاؤ۔ چنانچہ عورتیں جمع ہوئیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور انہیں اس کی تعلیم دی جو اللہ نے انکو سکھایا تھا۔“
اور صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق روایت میں ہے:
«عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ. قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَتَخَوَّلُنَا بِهَا، مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا» (صحیح البخاری: كِتَابُ العِلْمِ، باب مَنْ جَعَلَ لأَهْلِ الْعِلْمِ أَيَّامًا مَعْلُومَةً، رقم الحدیث 70)
”حضرت ابو وائل سے روایت ہے، فرمایا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لوگوں کو ہر جمعرات میں نصیحت کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں روزانہ نصیحت کیا کریں۔ اُنھوں نے فرمایا: میں یہ اِس لیے نہیں کرتا کہ کہیں تم لوگوں کے لیے یہ بھاری نہ ہو جائے۔ میں بھی اُسی طرح ناغہ کر کے تمہیں نصیحت کرتا ہوں، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ناغہ کر کے نصیحت کیا کرتے تھے تا کہ ہم بے زار نہ ہو جائیں۔“
لہٰذا معلوم ہوا کہ وعظ ونصیحت، تعلیم وتبلیغ کے لئے انتظامی امور کی خاطر عورتوں کے لئے بھی خاص دن مقرر کیا جانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح چلہ کی شرعی حیثیت
«عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى لِلَّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى، كُتِبَتْ لَهُ بَرَاءَتَانِ، بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ، وَبَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ (سنن الترمذي: كتاب الصلاة، باب ما جاء في فضل التكبيرة الأولى، رقم الحدیث 241 / بتحقیق علامہ البانی حسن)
”حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ اللہ کے لئے باجماعت نماز پڑھی اس کے لئے دو نجات لکھ دی جاتی ہے۔ جہنم سے نجات اور نفاق سے نجات۔“
اس سے معلوم ہوا کہ چلہ کو حالات کے بدلنے میں خاص اجر ہے۔
اسی طرح سالانہ اجتماع ہے اور اس کے لئے ہر سال کسی دن کی کوئی قید بھی نہیں اور اس میں بھی نصیحت ہوتی ہے دین پر عمل کرنے کی ترغیب اور یہ آپ کی بدعات کی طرح نہیں ہوتیں۔ لہٰذا آپ کی بات (سوال یا اعتراض) فضول ہے۔
بات (سوال، اعتراض) نمبر 9:
”صحابہ کرام علیہم الرضوان کے وصال کے ایام منائے جاتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“
جواب
جناب والا! ہم صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے ایام کو بھی خاص نہیں کرتے کہ یہی دن فرض و واجب ہے باقی دن نہیں ہے۔
اصل بات یہ ہے رافضی لوگ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے خلاف تبرا کرتے ہیں تو ان کے مقابلے میں اگر صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے ایام اس طرح منایا جائے کہ ان کی دینی خدمات اور سیرت کو بیان کیا جائے تاکہ ان کے حالات اور معمولات لوگوں کے سامنے آئیں جس سے لوگوں میں دین کی رغبت اور شوق پیدا ہو تو یہ عمل جائز و مستحسن ہے تاکہ رافضیت اپنے مقصد میں ناکام ہوجائے۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں ہم صرف اس دن کا التزام و اہتمام نہیں کرتے بلکہ صحابۂ کرام کا تذکرہ بھی کسی دن کے ساتھ خاص نہیں سمجھتے بلکہ ان کا تذکرہ بھی ہر وقت کرنے کو پسند کرتے ہیں۔
بات (سوال، اعتراض) نمبر 10:
”جشن دیو بند و اہلحدیث منایا جاتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“
جواب
جشنِ دیوبند بدعت کی تعریف میں داخل نہیں کیونکہ یہ امور دین میں سے نہیں۔ فرقۂ بریلویت کے بانی و مجدد اعظم احمد رضاخان صاحب تمباکو کو حلال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ”رہا اس کا بدعت ہونا یہ کچھ باعث ضرر نہیں کہ یہ بدعت کھانے پینے میں ہے نہ کہ امور دین میں، تو اس کی حرمت ثابت کرنا ایک دشوار کام ہے۔“ (احکام شریعت: حصہ سوم، مسئلہ 37)
اسی طرح جشنِ دیوبند امور دنیا سے ہے نہ کہ امور دین سے۔ اور نہ ہی کوئی اس کو فرض، واجب سنت کا درجہ دیتا ہے۔ جب یہ امور دین سے نہیں تو شرعی بدعت کا اطلاق اس پر ہوتا نہیں۔
بات (سوال، اعتراض) نمبر 11:
”ذکر میلاد مصطفے ﷺ منانے کا کسی صحابی، ائمہ یا محدث نے منع کیا ہو اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔ لیکن‼ جیسے ہی میلاد النبی ﷺ منانے کی بات آ جائے تو سارے نام نہاد دِین کے ٹھیکیدار مفتے کھڑے ہو جاتے ہیں اور شرک و بدعت کا شور آلاپنا شروع کردیتے ہیں۔ آخر کیوں؟“
جواب:
کیا ہی بھونڈی، بے تکی بات ہے، ارے صاحب منع تو تب کرتے جب اُن کے زمانے میں یہ مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد ہوتی، یہ بات، یا سوال، یا اعتراض تو اُلٹا جشنِ میلاد منانے والوں پر حُجَّت ہے۔ اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، أئمہ محدثین و فقہا کرام رحمہم اللّٰہ جمعیاً کے زمانوں میں بھی یہ مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد نہیں ہوتی تھی، پس ہمارے نزدیک مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد بدعت ہے۔ ہم سیرتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے منکر نہیں جو ہم سے اس کے منع کی دلیل صحابیؓ، ائمہؒ یا محدثؒ سے مانگی جارہی ہے۔ دلیل تو اس مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد منانے کے قائلین کے ذمے ہے کہ وہ اپنے اس مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد کے اثبات کی دلیل کسی صحابیؓ، ائمہؒ یا محدثؒ سے پیش کریں۔
تنبیہ: گیارہویں بات (سوال یا اعتراض) کے آخر میں بھی بات (سوال یا اعتراض) کرنے والے نے بالکل غلط بات کہی ہے۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منع کرنے والے مُفتے نہیں ہیں بلکہ مُفتے تو وہ ہیں جو میلاد کے نام پر لوگوں کے پیسے بٹورتے ہیں اور اپنے پیٹ ، جیبیں اور گھر بھرتے ہیں، اور اپنے نام و القابات کی نمود کے لیے لوگوں کا مال استعمال کرتے ہیں ، اور اپنے ساتھ ساتھ لوگوں کی آخرت تباہ کرتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
✍ خاک پائے اکابرِ اہل السنّۃ والجماعۃ علمائے دیوبند:
حافظ محمود احمد عرف عبدالباری محمود (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
-------------------------------------------
(ان امور میں سے کسی بھی امر کو انجام دینے والے لوگ ان امور کو واجب اور فرض کا درجہ نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی ان امور کے انجام نہ دینے والوں پر بلاوجہ نکیر اور سبّ و شتم کرتے ہیں، ان امور کو انجام دینے والے لوگ وہ التزام نہیں کرتے،جس طرح کا التزام اہل بدعت کا جشن عید میلاد پر ہوتا ہے، اور ساری عبادات میں افضل العبادات اسی جشن کو قرار دیا جاتا ہے، اور جو منکرات اس موقع پر انجام دئیے جاتے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں، جشن نہ منانے والوں کو گستاخ رسول اور وہابی اور نہ جانے کیسے کیسے بُرے القابات کا تمغہ دے دیا جاتا ہے، اور اس کو دین کا جزو لا ینفک قرار دیا جاتا ہے، ایسی بے شمار خرابیاں جشن منانے والوں میں پائی جاتی ہیں جو لا تُعَدُّ وَلَا تُحْصٰی ہیں، اور ایک بہت افسوسناک خرابی تو آج کل ان جشن منانے والوں کے اندر یہ پیدا ہوگئی ہے کہ اب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے نام پر کیک بھی کاٹے جاتے ہیں، اور حضور کے نام پر 'برتھ ڈے' کا گیت بھی گایا جاتا ہے، جو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) عبادات میں بھی اہلِ کفر و شرک کی مشابہت برداشت نہیں کرتا، آج اس نبی کے نام لیوا اس نبی کے نام پر اہلِ کفر و شرک کی عادات و اطوار کو زندہ کررہے ہیں، یہ کون سا عشق رسول ہے؟ ذرا غور کرکے دیکھیے کہ کیا جشن منانے والوں کو زیب دیتا ہے وہ ان امور بالا پر اعتراض کرنے کی جسارت کریں ؟؟ یہ سراسر ان کی دغا بازی اور خود فریبی ہے ، اور آخر میں ایک بزرگ کا مقولہ نقل کرتا ہوں جو ایسے موقع پر زبردست فِٹ ہوتا ہے کہ جب حضور پیدا ہوئے تو ابولہب نے خوشیاں منائیں اور جشن منایا، لیکن جب حضور نے اپنی بعثت کا کا مقصد اور مشن بیان فرمایا تو یہی ابولہب سب سے پہلے آگے بڑھ کر حضور کو جھٹلانے والوں میں سے بنا،تو دوسری طرف ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس مشن کو اپنے سینے سے لگا کر اس مشن کو پورا کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنایا "أينقص الدين وأنا حيٌّ" کا نعرۂ وفا بلند کیا، تو جن لوگوں کو بُولَہَبِی نسبت سے واسطہ ہوتا ہے وہ جشن منایا کرتے ہیں اور جن لوگوں کو نسبتِ صدیقی سے سے حظِّ وافر نصیب ہوتا ہے وہ جشنِ نبی نہیں بلکہ مشنِ نبی کو پورا کرنا اپنا مقصدِ حیات سمجھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے۔۔۔ آمین) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2020/10/blog-post_99.html