Saturday, 24 October 2020

اھل بدعت کی گیارہ باتیں (سوالات ، اعتراضات) اور اُن کے جوابات

 اھل بدعت کی گیارہ باتیں (سوالات، اعتراضات) اور اُن کے جوابات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

لیجئے ہر ایک بات (سوال، اعتراض) کا جواب حاضر ہے!

✍ حافظ محمود احمد عرف عبدالباری محمود

حامداً و مصلّیاً و مسلّماً:

محترم قارئین! کسی نامعلوم شخص نے میلاد النبی ﷺ کو جشن کا دن ثابت کرنے کے لئے ایک تصویری پوسٹ شیئر کیا ہے، جس کا عنوان ہے ”گیارہ باتیں جن کا جواب کسی مفتی کے پاس نہیں!“

اس نے اپنی اس تصویری پوسٹ میں گیارہ باتیں (اعتراضات، سوالات) پیش کئے ہیں جن کا جواب مسلک اہل السنّۃ والجماعۃ احناف دیوبند کا ایک ادنیٰ خادم (جوکہ مفتی اور مولانا نہیں ہے) حافظ محمود احمد عرف عبدالباری محمود بفضلہٖ تعالیٰ بالترتیب دے رہا ہے ملاحظہ کریں۔

نوٹ: قارئینِ کرام! جواب سے قبل ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ پہلے بدعت کی تعریف نقل کردیں تاکہ بات پوری طرح واضح رہے۔

بدعت کی تعریف میں علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

«البدعة: طريقة في الدين مخترعة، تضاهي الشرعية، يقصد بالسلوك عليها ما يقصد بالطريقة الشرعية» (الاعتصام للشاطبي: ص 43)

”بدعت: دین میں ایک نو ایجاد طریقہ ہے جو شریعت کے مشابہ ہو، اور جو شرعی طریقہ پر چلنے کا مقصد ہوتا ہے وہی مقصد اس کا ہو۔“

فائدہ: قارئینِ محترم! علامہ شاطبی رحمہ اللہ کی اس تعریف سے واضح ہوگیا کہ شریعت میں بدعت کا اطلاق ان نو ایجاد امور پر کیا جاتا ہے جسکو شریعت کا حصہ یا دین سمجھ کر اختیار کیا جائے اس سے ثابت ہوا کہ جن محدثات کو دین یا شریعت نہ سمجھ کر اختیار کیا جائے اس پر شرعی بدعت کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ بدعت کی تعریف میں شامل ہیں۔ اب آئیے اس نامعلوم شخص کے پوسٹر میں درج باتوں (سوالات، اعتراضات) کی طرف جن کو یہ بزعمِ خویش سمجھتے ہیں کہ انکا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔

پوسٹ میکر صاحب کی باتیں اور ان کا جواب

بات (سوال، اعتراض) نمبر1:

”ہر سال جشن سعودیہ منایا جاتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“

جواب:

پوسٹ میکر صاحب! سعودیہ کا، یا کسی ملک کا، یا اپنے ملک کے بننے کا، یا ملک سے متعلق کسی اور معاملے کا جشن منانا بدعت کی تعریف میں داخل نہیں ہے کیونکہ یہ امور دین میں سے نہیں بلکہ دُنیاوی معاملات میں سے ہے۔‌ فرقۂ بریلویت کے بانی و مجدد اعظم احمد رضاخان صاحب تمباکو کو حلال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ”رہا اس کا بدعت ہونا یہ کچھ باعث ضرر نہیں کہ یہ بدعت کھانے پینے میں ہے نہ کہ امور دین میں، تو اس کی حرمت ثابت کرنا ایک دشوار کام ہے۔“ (احکام شریعت: حصہ سوم، مسئلہ نمبر 37)

اسی طرح جشنِ سعودیہ امور دنیا سے ہے نہ کہ امور دین سے۔ اور نہ ہی کوئی اس کو فرض، واجب سنت کا درجہ دیتا ہے۔ جب یہ امور دین سے نہیں تو شرعی بدعت کا اطلاق اس پر ہوتا نہیں، اس لیے اِسے بدعت نہیں کہا جاتا ہے‌۔

بات (سوال، اعتراض) نمبر 2:

”ہر سال غسلِ کعبہ ہوتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“

جواب:

غسلِ کعبہ کی اصل قرآن کریم میں مذکور حضرات إِبراہیم و إِسماعیل علیہما السلام کو دیا گیا یہ حکم مبارک ہے کہ: «وَ عَهِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰهٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَهِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡعٰکِفِیۡنَ وَالرُّکَّعِ  السُّجُوۡدِ» (سُورۃ البقرہ: آیت 125)

”اور ہم نے إِبراہیم اور إِسماعیل کو پابند کیا کہ تم دونوں میرے گھر (کعبہ) کو پاکیزہ کرو، طواف کرنے والوں کے لیے اور قیام کرنے والوں کے لیے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے۔“

اور صِرف حضرت إِبراہیم علیہ السلام کے ذِکر کے ساتھ یہ فرمایا کہ:

«وَّطَهِّرۡ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡقَآئِمِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ» (سُورۃ الحج: آیت 26)

”اور میرے گھر (کعبہ) کو پاکیزہ کرو، طواف کرنے والوں کے لیے، اور قیام کرنے والوں کے لیے، اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے۔“

فائدہ: ان آیات سے کعبہ شریفہ کو حسی، اور معنوی ہر قسم کی ناپاکی، گندگی وغیرہ سے صاف کرنا، پانی کے ساتھ دھونا ثابت ہوتا ہے؛ کیونکہ پاکیزہ کرنے میں یہ سب چیزیں شامل ہیں۔

اور حدیث میں ہے:

«عن أسامة بن زيد قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الكعبة فرأى صُورًا فدَعَا بدَلوٍ مِن ماءٍ فأتيته به فضَربَ بهِ الصُّورِ ويقول قاتل الله قوماً يُصوِرون ما لا يَخلقُون» (سلسلة الاحادیث الصحیحة: رقم الحدیث 996)

”حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا: میں (فتح مکہ کے موقع پر) کعبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس داخل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویریں دیکھیں تو پانی کا برتن (بالٹی ، ڈول وغیرہ) لانے کا حکم فرمایا، میں لے کر حاضر ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو اُن تصاویر پر ڈال کر اُنہیں مٹایا، اور فرمایا: اللہ اُن لوگوں کو ھلاک کرے جو اُن چیزوں کی تصویریں بناتے ہیں جو چیزیں ان لوگوں نے تخلیق (ہی) نہیں کِیں۔“

مختصر طور پر یہ واقعہ ”اخبار مکة في قديم الدهر وحديثه للفاکھی: [ج5، ص234] / ذكر الْأُمُور الَّتِي صنعها رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكَعْبَة“ میں بھی مروی ہے۔

فائدہ: اس حدیث پاک سے واضح ہوا کہ کعبہ شریفہ کو حسی ، اور معنوی ہر قسم کی ناپاکی، گندگی وغیرہ سے صاف کرنا، پانی کے ساتھ دھونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

مزید گواہی کے طور پر یہ بھی ملاحظہ فرمایئے:

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:

«ثُمَّ أَمَرَ بِلاَلاً، فَرَقَيَ عَلَى ظَهْرِ الْكَعْبَةِ، فَأَذَّنَ بِالصَّلاَةِ، وَقَامَ الْمُسْلِمُونَ فَتَجَرَّدُوا فِي الأُزُرِ، وَأَخَذُوا الدِّلاَءَ، وَارْتَجَزُوا عَلَى زَمْزَمَ يَغْسِلُونَ الْكَعْبَةَ، ظَهْرَهَا وَبَطْنَهَا، فَلَمْ يَدَعُوا أَثَرًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِلاَّ مَحَوْهُ، أَوْ غَسَلُوهُ» (المصنف لإبن أبي شیبة: کتاب المغازی، باب 34، رقم الحدیث 38074/ بتحقیق علامہ محمد عوامة)

”پھر (فتح مکہ کے دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دِیا (کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر  نماز کے لیے اذان کہیں) تو حضرت بلال کعبہ کی چھت پر) چڑھے اور نماز کے لیے اذان دی، تو مُسلمانوں نے اپنے تہہ بند میں ملبوس رہ کر، پانی کے برتن لے کر زمزم پر ٹوٹ پڑے اور (زمزم لا لا کر) کعبہ کو باہر اور اندر سے دھویا، اور مشرکین کے اثرات میں کوئی ایسا اثر نہیں چھوڑا جسے مِٹا نہ دِیا، دھو نہ دِیا ہو۔“

یہ روایت مختصر سے فرق کے ساتھ ”اخبار مکة في قديم الدهر وحديثه للفاکھی: [ج5، ص221] / ذِكْرُ أذان بلال بن رباح على الكعبة، ورقية فوقها يوم الفتح للأذان“ میں بھی مذکور ہے۔

پوسٹ میکر صاحب! آپ کو یہ بات تو معلوم ہو گی ہی کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا ہو، اور اُس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہ فرمایا ہو تو وہ کام سو فیصد جائز اور دُرُست ہوتا ہے، سُنّت شریفہ میں قُبولیت یافتہ ہوتا ہے۔ لگے ہاتھوں‌کعبہ شریفہ کو خُوشبُو لگانے کا ثبوت بھی پیش کردیتے ہیں:

«عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَحَكَّتْهَا وَجَعَلَتْ مَكَانَهَا خَلُوقًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  مَا أَحْسَنَ هَذَا» (سنن النسائي، كتاب المساجد، باب تخليق المساجد، رقم الحديث 728)

”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو غضبناک ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ (مبارک) سرخ ہوگیا، انصار کی ایک عورت نے اٹھ کر اسے کھرچ کر صاف کر دیا، اور اس جگہ پر خلوق خوشبو مل دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے کیا ہی اچھا کیا۔“

«عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ» (سنن الترمذي : أبواب السفر، باب ما ذكر في تطييب المساجد، رقم الحديث 594. سنن أبي داود: كتاب الصلاة ، باب اتخاذ المساجد في الدور، رقم الحديث 455)

”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے، انہیں صاف رکھنے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا ہے۔“

«عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَمَرَ بِالْمَسَاجِدِ أَنْ تُبْنَى فِي الدُّورِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ تُطَهَّرَ وَتُطَيَّبَ» (سنن ابن ماجه : كتاب المساجد والجماعات ، باب تطهير المساجد وتطييبها، رقم الحديث 758)

”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور انہیں پاک صاف رکھا جائے، اور خوشبو لگائی جائے۔“

«عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُتَّخَذَ الْمَسَاجِدُ فِي الدُّورِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ تُطَهَّرَ وَتُطَيَّبَ» (سنن ابن ماجه : كتاب المساجد والجماعات ، باب تطهير المساجد وتطييبها، رقم الحديث 759)

”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور انہیں پاک صاف رکھا جائے، اور خوشبو لگائی جائے۔“

فائدہ: ان احادیثِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مساجد کی صفائی اور اِن میں خوشبو کا اہتمام کیا جانا چاہیے کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کو خوشبو سے معطر کرنے کا حکم دیا ہے اور ایک انصاری خاتون نے اس پر عمل بھی کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر اس عمل کی تحسین کی، نکیر نہیں فرمائی۔ اور چونکہ مساجد میں مسجد حرام یعنی بیت اللہ شریف یعنی کعبہ شریفہ بھی شامل ہے اس لئے اس کو خوشبو لگانا بھی ثابت ہوتا ہے۔ الحمدللہ!

اور إمام محمد بن عبداللہ الازرقی رحمہُ اللہ (متوفی 250 ہجری) نے اپنی کتاب  ”اخبار مکة: باب ذِكْرُ كِسْوَةِ الْكَعْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَطِيبِهَا وَخَدَمِهَا وَأَوَّلِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ“ میں کعبہ شریفہ کو خوشبودار کرنے کی کئی روایتیں نقل کی ہیں جوکہ وہ سب سنداً سخت ضعیف ہیں پر اس میں ایک روایت ایسی بھی ہے جو سخت ضعیف نہیں ہے۔ وہ روایت أمیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے جسے ہم بطور تائید نقل کر رہے ہیں۔

«كَانَ مُعَاوِيَةُ أَوَّلَ مَنْ طَيِّبَ الْكَعْبَةَ بِالْخَلُوقِ وَالْمُجْمَرِ، وَأَجْرَى الزَّيْتَ لِقَنَادِيلِ الْمَسْجِدِ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ» (اخبار مکة لعبدالله الأزرقی: [ص358] / ذِكْرُ كِسْوَةِ الْكَعْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَطِيبِهَا وَخَدَمِهَا وَأَوَّلِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ. إسناده ضعيف)

”أمیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے خَلوق (زعفران اور دیگر خُوشبُو دار چیزوں کے مجموعے) اور (دیگر) سلگائی جانے والی خُوشبُو کے ذریعے کعبہ کو خُوشُبو دار کیا، اور مسجد (الحرام) کی قندیلوں کے لیے بیت المال میں سے تیل جاری کیا۔“

فائدہ: اس سے بھی معلوم ہواکہ کعبہ شریفہ کو خُوشبُو لگانا بھی درست ہے۔

یہ لیجیے‼

الحمد للہ، کعبہ شریفہ کو غُسل دینا، قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی ثابت ہے۔ اور کعبہ شریفہ کو غسل دینے کے علاوہ خوشبو لگانا بھی  ثابت ہے۔ اور اِس میں سال میں ایک، دو، یا دس بار کی کوئیا قید نہیں، جسے اللہ تعالیٰ یہ شرف جتنا چاہے عطاء فرمائے۔ پس جو کوئی کعبہ شریفہ کو غسل دینے کو قرآن و حدیث میں ثبوت کے بغیر کہتا ہے وہ یا تو جاھل ہے، یا پھر ایسا دروغ گو متعصب جو اپنے مذھب و مسلک کی تائید میں غلط بیانی کرتا ہے۔

بات (سوال، اعتراض) نمبر 3:

”ہر سال غلافِ کعبہ تبدیل کیا جاتاہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“

جواب:

اس بات (سوال، اعتراض) کا معاملہ بھی اس سے پہلی والی بات (سوال، اعتراض) کی طرح ہی ہے ، یعنی یہ بات (سوال، اعتراض) یا تو جہالت پر مبنی ہے یا جانتے بوجھتے ہوئے گمراہی پھیلانے اور اپنی بنائی اور پھیلائی ہوئی بدعت کو تحفظ دینے کی مذموم کوشش ہے؛ اس لئے کہ کعبہ شریفہ پر غلاف چڑھانا، کعبہ شریفہ کو کپڑوں سے ڈھانپنا، قبل از اسلام سے چلتا آرہا تھا، اور بعد از اِسلام، فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِس روایت کو برقرار رکھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خُلفاءِ راشدینؓ، اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے  بھی اِس پر عمل جاری رکھا۔

کعبہ شریفہ پر غِلاف چڑھانے کی چند روایات ملاحظہ ہوں:

(1) فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:

«وَلَكِنْ هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الْكَعْبَةَ ، وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الْكَعْبَةُ» (صحیح البخاری: کتاب المغازی، باب أَيْنَ رَكَزَ النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم الرَّايَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ، رقم الحديث 4280)

”یہ وہ دِن ہے جِس میں اللہ کعبہ کی  عظمت کو بڑھاتا ہے اور وہ دِن ہے جس میں کعبہ کو لباس (غلاف) پہنایا جاتا ہے۔“

(2) حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

«كَسَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ فِي حَجَّتِهِ الْحُبُرَاتِ» (مسند الحارث: کتاب الحج، باب کسوۃ الکعبة، رقم الحدیث 391)

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج میں (اللہ کے) گھر (کعبہ شریفہ)  کو حُبرات کا لباس پہنایا۔“

(3) حضرت لیث بن ابی سلیم رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ:

«كَانَ كِسْوَةَ الْكَعْبَةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الْأَقْطَاعُ وَالْمُسُوحُ» (المصنف لإبن أبي شیبة: کتاب الحج، باب فِي الْبَيْتِ مَا كَانَتْ كِسْوَتُهُ، رقم 16067/ بتحقيق محمد عوامة)

”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں کعبہ کا غِلاف أقطاع اور مسوح کا ہوا کرتا تھا۔“

فائدہ: أقطاع، اور مسوح دو مختلف کپڑوں کے نام ہیں:

(4) حضرت نافع رحمہُ اللہ مولیٰ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

«كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَكْسُو بُدْنَهُ - إِذَا أَرَادَ أَنْ يُحْرِمَ - الْقَبَاطِيَّ وَالْحِبَرَة الجيدة، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ أَلْبَسَهَا إِيَّاهَا، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ نَزَعَهَا، ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا إِلَى شَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ فَنَاطَهَا عَلَى الْكَعْبَةِ» (اخبار مکة للأزرقی: [ص356]/ ذِكْرُ كِسْوَةِ الْكَعْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَطِيبِهَا وَخَدَمِهَا وَ أَوَّلِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ. ”اخبار مکة في قديم الدهر وحديثه للفاکھی: [ج5، ص232] / ذِكْرُ ما يجوز ان تكسى به الكعبة من الثياب“)

”جب حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما (حج کے) احرام کا اِرداہ کرتے تو اپنے قربانی کے جانور پر قباطی اور حِبرہ (نامی کپڑے) لگا دیتے، اور عرفات والے دِن وہ کپڑے اُسے پہنا دیتے، اور قربانی والے دِن وہ کپڑے اتار دیتے اور پھر شیبہ بن عثمان رضی اللہ عنہ (جو کہ کعبہ شریفہ کے منتظمین تھے) کو وہ کپڑے بھیج دیتے تو شیبہ بن عثمان رضی اللہ عنہ وہ کپڑے کعبہ پر لٹکا دیتے۔“

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «وَسَتَرْتُمْ بُيُوتَكُمْ كَمَا تُسْتَرُ الْكَعْبَةُ» (سنن الترمذی: ابواب صفة القیامة، رقم الحدیث 2476۔ بتحقیق امام ترمذی حسن غریب) ”تم اپنے گھروں کو ایسے ڈھانکو گے جیسے کعبہ ڈھانکا جاتا ہے۔“

فائدہ: اس روایت سے معلوم ہوا کہ کسی عمارت کو یا تو زیب و زینت کی خاطر ڈھانکا جاتا ہے۔ (جیسے گھروں میں پردے لٹکانا) یا ادب و احترام کی خاطر (جیسے کعبۃ اللہ پر غلاف چڑھایا جاتا ہے)

جب گھروں کو زیب و زینت کے خیال سے ڈھانکنا بھی شرعاً پسند نہیں کیا گیا تو پھر دیگر عمارت کو کسی ادب و احترام کی خاطر ڈھانکنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس سے کعبۃ اللہ کے امتیاز و تشخص کا مجروح ہونا اور اس کی خصوصیات میں دوسری عمارتوں کا شریک ہونا لازم آتا ہے۔

بفضلہ تعالیٰ یہ جواب بھی پورا ہوا، اور واضح ہوا کہ کعبہ شریفہ کو لباس پہنانا ، غِلاف چڑھانا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی سُنّت شریفہ میں موجود ہے، پس جو کوئی اِس کام کو سُنّت کے مُطابق نہیں جانتا، نہیں سمجھتا، تو جیسا کہ پہلے کہا، وہ شخص یا تو جاھل ہے یا پھر اپنے مذھب و مسلک کی تائید میں حق پوشی کر رہا ہے۔

بات (سوال، اعتراض) نمبر 4:

”غلافِ کعبہ پر آیات لکھی جاتی ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“

جواب:

اِس کام کے بارے میں عُلماء کا اختلاف ہے جِس میں سے صحیح یہ ہے کہ کعبہ شریفہ کے غِلاف پر آیاتِ مُبارکہ لکھنا جائز ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے:

«وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنۡ تَقۡوَی  الۡقُلُوۡبِ» (سُورۃ الحج: آیت 32)

”اور جو کوئی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو ایسا کرنا یقیناً دِلوں کے تقویٰ سے ہے۔“

فائده: کعبہ شریفہ، شعائر اللہ میں سے ایک ہے، پس اُس کی تعظیم کرتے ہوئے اُس کے غِلاف پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہی کلام، یعنی قرآن کریم کی آیاتِ شریفہ لکھی جانا دُرست ہے، بشرطیکہ اُنہیں لکھنے میں کوئی اسراف، یعنی فضول خرچی نہ کی جائے، لہٰذا اسے لکھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔

بات (سوال، اعتراض) نمبر 5:

”مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تہجد کی اذان ہوتی ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“

جواب:

یہاں غالباً فجر کی پہلی اذان کو تہجد کی اذان کہا گیا ہے، اور یہی اذان مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور سعودی عرب کے کئی دیگر شہروں میں دی جاتی ہے، اور فجر کی اِس پہلی اذان کا ثبوت احادیث میں موجود ہے۔ ملاحظہ فرمایئے:

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ  عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لاَ يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ - أَوْ أَحَدًا مِنْكُمْ - أَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سَحُورِهِ ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ أَوْ يُنَادِى بِلَيْلٍ ، لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَلِيُنَبِّهَ نَائِمَكُمْ» (صحیح البخاری: کتاب الأذان، باب الأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ، رقم الحديث621)

”تم میں سے کوئی بلال کی اذان پر اپنی سحری کو نہ روکے، کیوں کہ وہ (فجر کے وقت سے پہلے) رات میں اذان دیتے ہیں، (یا فرمایا) پکار لگاتے ہیں۔ تاکہ تم لوگوں میں جو قیام (اللیل) کرنے والے ہیں (سحری) کی طرف لوٹ جائیں۔ اور جو سوئے ہوئے ہیں وہ بیدار ہوجائیں۔“

اور امی جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ» (صحیح البخاری: کتاب الأذان، باب الأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ، رقم الحدیث 623)

”بلال (فجر کے وقت سے پہلے) رات میں اذان دیتے ہیں، تو تم لوگ (سحری) کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ (عبداللہ) ابن أُم مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دے دیں۔“

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا: «قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ نِدَاءُ بِلَالٍ، أَوْ قَالَ: أَذَانُهُ مِنْ سَحُورِهِ ، فَإِنَّمَا يُنَادِي، أَوْ قَالَ: يُؤَذِّنُ لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ۔۔۔» (صحیح البخاری: كتاب الطلاق ، باب الإشارة في الطلاق والأمور، رقم الحدیث 4993)

”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی پکار، یا آپ نے فرمایا کہ "ان کی اذان" تم میں سے کسی کو اپنی سحری کرنے سے نہ روکے، کیونکہ وہ پکارتے ہیں، یا فرمایا، اذان دیتے ہیں تاکہ تم لوگوں میں جو قیام (اللیل) کرنے والے ہیں وہ (سحری کے لئے) لوٹ جائیں۔“

ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا: «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سَحُورِهِ فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ، أَوْ قَالَ: يُنَادِي لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَيُنَبِّهَ نَائِمَكُمْ۔۔۔» (صحیح البخاری: كتاب أخبار الآحاد، باب ما جاء في إجازة خبر الواحد، رقم الحدیث 6820)

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں کسی کو بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سحری کھانے سے نہ روکے کیونکہ وہ اس لیے اذان دیتے ہیں یا نداء کرتے ہیں تاکہ تم میں جو قیام (اللیل) کرنے والے ہیں وہ (سحری کے لئے) لوٹ جائیں۔ اور جو سوئے ہوئے ہیں وہ بیدار ہو جائیں۔۔۔“

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا ہے: «اِنَّ بِلاَلاً یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ ۔ قَالَ: وَکَانَ رَجُلاً اَعْمٰی لاَ یُنَادِیْ حَتّٰی یُقَالَ لَه: اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ» (صحيح البخاري : كتاب الأذان، باب أذان الأعمى إذا كان له من يخبره، رقم الحديث 592)

’’بلاشبہ رات کو بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے ہیں کہ پس تم کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ وہ اتنی دیر تک اذان نہ کہتے تھے جب تک کہ یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ تو نے صبح کی ہے تو نے صبح کی ہے۔‘‘

فائدہ: ان روایتوں سے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک اذان فجر سے پہلے ہوتی تھی جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیتے تھے اور دوسری اذان طلوع فجر کے ساتھ ہوتی تھی جو حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دیتے تھے۔ دونوں اذانیں بامقصد تھیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سحری کھانے اور نمازِ تہجد کے وقت کے لیے ایک اعلان کی حیثیت رکھتی تھی جبکہ حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان کا مقصد طلوعِ فجر کی اطلاع دینا تھا۔

لیجئے الحمد للہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مُبارک میں، اور یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے فجر کی دو اذانوں کا ثبوت مہیا ہے، اب اگر کوئی شخص اِن احادیث کا عِلم ہی نہیں رکھتا اور بلا عِلم سوال و اعتراض کرتا ہے تو اِس کا وبال اُسی پر ہے ، اور اگر اُسے اِس کا  علم ہے ، اور جانتے بوجھتے ہوئے فجر کی پہلی اذان کو تہجد کی اذان کا نام دے کربات کو بدلنے کی، حق چھپانے کی کوشش میں ہے، تو یہ لا عِلمی میں کی گئی کوشش سے بُرا اور بڑا وبال ہے۔

تنبیہ: احناف کے نزدیک یہ پہلی اذان فجر ابتداءِ اسلام میں تھی جو بعد میں منسوخ ہوگئی۔ (دیکھیں: الجامعۃ البنوریۃ العالمیۃ کا فتویٰ ’’فقہ حنفی میں تہجد کی اذان کی کیا حیثیت ہے۔۔۔؟‘‘) اگر سعودی والے کرتے ہیں تو اسے منسوخ نہیں سمجھتے اور وہاں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے فتویٰ پر عمل ہوتا ہے؛ اس لئے یہ بات (سوال یا اعتراض) فضول ہے۔

بات (سوال، اعتراض) نمبر 6:

”مدارس میں ختم بخاری شریف ہوتا ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“

جواب:

پہلی بات، جناب والا کو ایسی بات (سوال یا اعتراض) کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے تھا کہ صحیح بخاری قرآن کریم کے نزول، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کتنے سال بعد لکھی گئی تھی؟؟؟

تو اِس کتاب کی تعلیم سے متعلق کسی معاملے، یا کسی محفل کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں سے کہاں ملے گا؟

اور یہ بھی کہ اِس بات (سوال یا اعتراض) میں صحیح بخاری کا ذِکر ہی کیوں، مدرسوں اور اُن کے نظام اور ان کے تعلیمی نصاب سب ہی کچھ اِس کی زد میں آتے ہیں، بہرحال اِس مذکور بالا بات (سوال یا اعتراض) میں بات ( یا سوال یا اعتراض) کرنے والے کی ختم بخاری شریف سے کیا مُراد ہے؟ اِس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے؟؟؟

اگر اِس سے مُراد مدارس میں تدریسی نصاب میں سے صحیح بخاری کی تعلیم مکمل ہونے پر اُس تعلیم سے متعلق کوئی محفل منعقد کرنا ہے تو اُس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ اسی دینی تعلیم سے متعلق ہے۔

ایک اور بات مدارس میں بخاری شریف کے اختتام پر اجتماع، اس کے علاوہ مدارس میں جو ختم بخاری شریف ہوتا ہے تو وہ علماء کے ہاں نہ تو واجب ہے اور نہ ہی فرض بلکہ لزوم کے اعتقاد کے بغیر بخاری شریف کی آخری حدیث کے موقع پر اجتماع منعقد کیا جاتا ہے جس میں علماء و طلباء کے علاوہ عوام شرکت کرتے ہیں مشائخ کے بیانات کے بعد آخر میں دعا سے اجتماع ختم ہوجاتا ہے اور اس اجتماع کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تجربہ شاہد ہے کہ ختم بخاری پر دعائیں قبول ہوتی ہیں لہٰذا ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ اس تقریب سعید میں شامل ہوجائے۔

بات (سوال، اعتراض) نمبر 7:

”سیرت النبی ﷺ کے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“

جواب:

سیرت النبی صلی ﷺ کے اجتماعات کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بیان کرنا ہے جس کے لئے کسی دن کی کوئی قید نہیں اور اس میں تو کسی مسلمان کو اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں ہاں اگر کوئی بدعتی اپنی بدعت کے جواز کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر اعتراض کرتا ہو تو اس سے بڑا گستاخ کوئی نہیں۔ فرقۂ بریلویت کے شیخ الحدیث عبدالرزاق بھترالوی صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’آجکل مختلف عنوانات سے ربیع الاول میں جلسے ہورہے ہیں، کسی کا نام پیغمبر انقلاب کانفرنس، کسی کا نام ذکر ولادت صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس اور کسی کا نام سیرت النبی ﷺ، کسی کا نام حسن قرأت و حمد و نعت کانفرنس۔۔۔ راقم نے کبھی کسی عنوان پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ خیال یہ ہوتا ہے کہ میرے پیارے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتا رہے خواہ کسی نام سے بھی ہوتا رہے۔“ (میلاد‌ مصطفی ﷺ: ص4، مکتبہ امام احمد رضا) معلوم ہوا کہ ہمارے جلسوں پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں اور آپ بھی اسے درست سمجھتے ہیں تو جب ہمارے جلسے متفق علیہ ہیں اور آپ کے نزدیک بھی جائز‌ تو اس جائز کام پر کسی بدعت کو کس طرح قیاس کیا جاسکتا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد بدعت ہے۔

دیوبندی عالم ساجد خان صاحب نقشبندی اس طرح کے اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں کہ: دوسری بات یہ کہ مطلق وعظ و نصیحت تعلیم و تعلم سیرت رسول ﷺ کے بیان کیلئے جلسے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا اور متواتر چلا آرہا ہے جس کا انکار بدیہات کا انکار ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کی موجودگی میں کھڑے ہوکر وعظ و تذکیر کیا کرتے، دینی امور کی تعلیم دیتے، آداب و اخلاق سکھائے جاتے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینکڑوں صحابہ کرام سے سینکڑوں احادیث کا منقول ہونا اسی جلسوں کی غمازی کرتا ہے۔ پھر صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بیان کیا اور آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر جو ضخیم کتابیں ہیں، یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ ہر دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مجمعوں میں بیان ہوتے، حدیث کی کتابوں میں آپ کو یہ الفاظ مل جائیں گے: «سمعت عمر علی منبر النبیﷺ ۔۔۔» «سمعت عثمان بن عفان خطیبا علی منبر رسول اللّٰهِ ﷺ۔۔۔» «قام موسی النبی خطیبا فی بن اسرائیل»

خود عبدالرزاق بھترالوی صاحب کہتے ہیں کہ:

’’اس وقت جلسے دو قسم کے ہوتے تھے ایک وہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان ہوتے تھے وہ جلسہ اللہ نے منعقد فرمایا انبیاء کرام نے آپ کے اوصاف بیان کئے صحابۂ کرام نے آپ کے اوصاف کا تذکرہ کیا۔“ (میلاد مصطفی ﷺ: ص 6)

لہٰذا اتنا تو ثابت ہے کہ مطلق جلسہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت ہے. اب رہا ان کیلئے کوئی دن یا وقت طے کردینا تو دیکھیں ایک ہوتا ہے تعین شرعی اور ایک ہوتا ہے تعین عرفی شریعت سے دونوں ثابت ہیں مثلاً تعین شرعی جیسے نماز کیلئے وقت، حج کیلئے جگہ، زکوۃ کا نصاب وغیرہا۔ اور تعین عرفی بھی جائز ہے جسے کسی کام کیلئے کوئی وقت انسان کی سہولت کیلئے مقرر کردیا کہ جی فلاں کا نکاح فلاں دن وقت میں ہوگا اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بھی ثابت ہے کہ جب ایک عورت آپ کے پاس آئیں اور گزارش کی کہ کچھ احادیث ہم سے بھی بیان ہوجائیں تو آپ نے ان کو کہا کہ فلاں وقت میں فلاں جگہ جمع ہوجانا ۔۔

«جاءت امراۃ الی رسول الله ﷺ فقالت یا رسول الله ذھب الرجال بحدیثک فاجعل لنا من نفسک یوما ناتیک فیه تعلمنا مما علمك الله تعالی فقال اجتمعن فی یوم کذا و کذا و فی مکان کذا و کذا فاجتمعن» (بخاری ج 2، ص1087)

ظاہر ہے کہ یہ مکان و جگہ کی تعین عرفی ہی تھی کہ تاکہ وہاں جمع ہونے میں آسانی ہو مسئلہ تب بنتا ہے کہ جب ان دونوں تعینات کو ان کے مقام سے ہٹا دیا جائے یعنی تعین عرفی کو شرعی قرار دے دیا جائے کہ اگر فلاں وقت میں فلاں کام نہ ہوا تو تم وہابی گستاخ ہوجاؤ گے یا تعین شرعی کو معاذاللہ عرفی قرار دے دیا جائے۔ ہمارا ان جلسوں کیلئے وقت یا جگہ مقرر کردینا تعین عرفی کے طور پر ہے کہ لوگ اس تاریخ سے پہلے جلسے میں شرکت کیلئے تیار رہیں اور جگہ تک پہنچنے میں آسانی ہو  ہم سے کسی نے آج تک ان تعینات کو شرعی درجہ قرار نہیں دیا اور اس میں رد و بدل بھی ہوتا رہتا ہے اسی طرح ہم نے ان جلسوں کو کبھی ان کے مقام سے نہیں ہٹایا ان کا مقام ابھی بھی وہی تصور کیا جاتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یا بعد کے زمانوں میں ہوتا تھا مگر دوسری طرف جشن عید میلاد النبی ﷺ کو دین کا ایک مستقل حصہ تسلیم کرلیا گیا ہے اس کیلئے 12 ربیع الاول کے علاوہ کسی اور دن کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور کسی وجہ سے کسی وقت ان جلسوں جلوسوں کو بند کرنے کا کہہ دیا جائے تو قتل و قتال تک کی دھمکیاں دے دی جاتی ہیں خود رضاخانیوں نے اس بات اعتراف کیا ہے کہ ہمارے ہاں جمعہ کی نماز کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی اس جشن کو پھر یہ جشن جن خرافات کا آج مجموعہ بن چکا ہے وہ اس پر متضاد تو کس طرح اس کا جائز قرار دے دیا جائے؟۔ فی الحال ہماری طرف سے اتنی تفصیل کافی ہے اگرچہ ہم کچھ اور بھی کہنے کا ارادہ کرتے ہیں اگر مخالفین کی طرف سے کوئی جواب آیا تو ان شآءاللہ مزید وضاحت پیش کی جائے گی۔“ (بریلویوں کی کرسمس (میلاد) پر دلائل کے جوابات۔ از مولانا ساجد خان نقشبندی)

بات (سوال، اعتراض) نمبر 8:

”ہر سال تبلیغی اجتماع ہوتا ہے اور چلے لگائے جاتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“

جواب:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے وعظ ونصحیت کے لئے دن کا مقرر کیا جانا ثابت ہے؛ لہٰذا اس ثابت شدہ امر کو ایسے امور سے خلط کرنا کہ جو ثابت نہیں، لایعنی ہے۔

ایک حدیث میں ہے: 

«عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الأَيَّامِ، كَرَاهَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا» (صحیح البخاری: كِتَابُ العِلْمِ، باب مَا كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَتَخَوَّلُهُمْ بِالْمَوْعِظَةِ وَالْعِلْمِ كَىْ لاَ يَنْفِرُوا، رقم الحدیث 68)

”حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت کرنے کےلیے کچھ دن مقرر فرما رکھے تھے تاکہ ہم اکتا نہ جائیں۔“

ایک دوسری حدیث میں ہے:

«عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ قَالَتِ النِّسَاءُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: غَلَبَنَا عَلَيْكَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِكَ، فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ، فَكَانَ فِيمَا قَالَ لَهُنَّ: مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ ثَلاَثَةً مِنْ وَلَدِهَا، إِلَّا كَانَ لَهَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ: وَاثْنَتَيْنِ؟ فَقَالَ: وَاثْنَتَيْنِ» (صحيح البخاري:‌ كِتَابُ العِلْمِ، بَابٌ هَلْ يُجْعَلُ لِلنِّسَاءِ يَوْمٌ عَلَى حِدَةٍ فِي العِلْمِ؟ رقم الحدیث 101)

”حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورتوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فائدہ اٹھانے میں ) مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے (وعظ کے) لیے (بھی) کوئی دن خاص فرما دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرما لیا۔ اس دن عورتوں سے آپ نے ملاقات کی اور انہیں وعظ فرمایا اور ( شریعت کے) احکام بتائے۔“

ایک اور حدیث میں ہے:

«عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ الرِّجَالُ بِحَدِيثِكَ ، فَاجْعَلْ لَنَا مِنْ نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ تُعَلِّمُنَا مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ، فَقَالَ: اجْتَمِعْنَ، فِي يَوْمِ كَذَا وَكَذَا فِي مَكَانِ كَذَا وَكَذَا، فَاجْتَمَعْنَ، فَأَتَاهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَلَّمَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَهُ اللَّهُ۔۔۔» (صحیح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة ، باب تعليم النبي صلى الله عليه وسلم أمته من الرجال والنساء مما علمه الله ليس برأي ولا تمثيل، رقم الحدیث 7310)

”ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کی حدیث مرد لے گئے، ہمارے لیے آپ کوئی دن اپنی طرف سے مخصوص کر دیں جس میں ہم آپ کے پاس آئیں اور آپ ہمیں وہ تعلیمات دیں جو اللہ نے آپ کو سکھائی ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: فلاں فلاں دن فلاں فلاں جگہ جمع ہوجاؤ۔ چنانچہ عورتیں جمع ہوئیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور انہیں اس کی تعلیم دی جو اللہ نے انکو سکھایا تھا۔“

اور صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق روایت میں ہے:

«عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ‏.‏ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَتَخَوَّلُنَا بِهَا، مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا» (صحیح البخاری: كِتَابُ العِلْمِ، باب مَنْ جَعَلَ لأَهْلِ الْعِلْمِ أَيَّامًا مَعْلُومَةً، رقم الحدیث 70)

”حضرت ابو وائل سے روایت ہے، فرمایا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لوگوں کو ہر جمعرات میں نصیحت کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں روزانہ نصیحت کیا کریں۔ اُنھوں نے فرمایا: میں یہ اِس لیے نہیں کرتا کہ کہیں تم لوگوں کے لیے یہ بھاری نہ ہو جائے۔ میں بھی اُسی طرح ناغہ کر کے تمہیں نصیحت کرتا ہوں، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ناغہ کر کے نصیحت کیا کرتے تھے تا کہ ہم بے زار نہ ہو جائیں۔“

لہٰذا معلوم ہوا کہ وعظ ونصیحت، تعلیم وتبلیغ کے لئے انتظامی امور کی خاطر عورتوں کے لئے بھی خاص دن مقرر کیا جانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں۔

اسی طرح چلہ کی شرعی حیثیت

«عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ صَلَّى لِلَّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى، ‏‏‏‏‏‏كُتِبَتْ لَهُ بَرَاءَتَانِ، ‏‏‏‏‏‏بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ (سنن الترمذي: كتاب الصلاة، باب ما جاء في فضل التكبيرة الأولى، رقم الحدیث 241 / بتحقیق علامہ البانی حسن)

”حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ اللہ کے لئے باجماعت نماز پڑھی اس کے لئے دو نجات لکھ دی جاتی ہے۔ جہنم سے نجات اور نفاق سے نجات۔“

اس سے معلوم ہوا کہ چلہ کو حالات کے بدلنے میں خاص اجر ہے۔

اسی طرح سالانہ اجتماع ہے اور اس کے لئے ہر سال کسی دن کی کوئی قید بھی نہیں اور اس میں بھی نصیحت ہوتی ہے دین پر عمل کرنے کی ترغیب اور یہ آپ کی بدعات کی طرح نہیں ہوتیں۔ لہٰذا آپ کی بات (سوال یا اعتراض) فضول ہے۔

بات (سوال، اعتراض) نمبر 9:

”صحابہ کرام علیہم الرضوان کے وصال کے ایام منائے جاتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“

جواب

جناب والا! ہم صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے ایام کو بھی خاص نہیں کرتے کہ یہی دن فرض و واجب ہے باقی دن نہیں ہے۔

اصل بات یہ ہے رافضی لوگ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے خلاف تبرا کرتے ہیں تو ان کے مقابلے میں اگر صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے ایام اس طرح منایا جائے کہ ان کی دینی خدمات اور سیرت کو بیان کیا جائے تاکہ ان کے حالات اور معمولات لوگوں کے سامنے آئیں جس سے لوگوں میں دین کی رغبت اور شوق پیدا ہو تو یہ عمل جائز و مستحسن ہے تاکہ رافضیت اپنے مقصد میں ناکام ہوجائے۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں ہم صرف اس دن کا التزام و اہتمام نہیں کرتے بلکہ صحابۂ کرام کا تذکرہ بھی کسی دن کے ساتھ خاص نہیں سمجھتے بلکہ ان کا تذکرہ بھی ہر وقت کرنے کو پسند کرتے ہیں۔

بات (سوال، اعتراض) نمبر 10:

”جشن دیو بند و اہلحدیث منایا جاتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔“

جواب

جشنِ دیوبند بدعت کی تعریف میں داخل نہیں کیونکہ یہ امور دین میں سے نہیں۔ فرقۂ بریلویت کے بانی و مجدد اعظم احمد رضاخان صاحب تمباکو کو حلال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ”رہا اس کا بدعت ہونا یہ کچھ باعث ضرر نہیں کہ یہ بدعت کھانے پینے میں ہے نہ کہ امور دین میں، تو اس کی حرمت ثابت کرنا ایک دشوار کام ہے۔“ (احکام شریعت: حصہ سوم، مسئلہ 37)

اسی طرح جشنِ دیوبند امور دنیا سے ہے نہ کہ امور دین سے۔ اور نہ ہی کوئی اس کو فرض، واجب سنت کا درجہ دیتا ہے۔ جب یہ امور دین سے نہیں تو شرعی بدعت کا اطلاق اس پر ہوتا نہیں۔

بات (سوال، اعتراض) نمبر 11:

”ذکر میلاد مصطفے ﷺ منانے کا کسی صحابی، ائمہ یا محدث نے منع کیا ہو اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔ لیکن‼ جیسے ہی میلاد النبی ﷺ منانے کی بات آ جائے تو سارے نام نہاد دِین کے ٹھیکیدار مفتے کھڑے ہو جاتے ہیں اور شرک و بدعت کا شور آلاپنا شروع کردیتے ہیں۔ آخر کیوں؟“

جواب:

کیا ہی بھونڈی، بے تکی بات ہے، ارے صاحب منع تو تب کرتے جب اُن کے زمانے میں یہ مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد ہوتی، یہ بات، یا سوال، یا اعتراض تو اُلٹا جشنِ میلاد منانے والوں پر حُجَّت ہے۔ اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، أئمہ محدثین و فقہا کرام رحمہم اللّٰہ جمعیاً کے زمانوں میں بھی یہ مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد نہیں ہوتی تھی، پس ہمارے نزدیک مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد بدعت ہے۔ ہم سیرتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے منکر نہیں جو ہم سے اس کے منع کی دلیل صحابیؓ، ائمہؒ یا محدثؒ سے مانگی جارہی ہے۔ دلیل تو اس مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد منانے کے قائلین کے ذمے ہے کہ وہ اپنے اس مُرَوَّجَہْ جشنِ میلاد کے اثبات کی دلیل کسی صحابیؓ، ائمہؒ یا محدثؒ سے پیش کریں۔

تنبیہ: گیارہویں بات (سوال یا اعتراض) کے آخر میں بھی بات (سوال یا اعتراض) کرنے والے نے بالکل غلط بات کہی ہے۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منع کرنے والے مُفتے نہیں ہیں بلکہ مُفتے تو وہ ہیں جو میلاد کے نام پر لوگوں کے پیسے بٹورتے ہیں اور اپنے پیٹ ، جیبیں اور گھر بھرتے ہیں، اور اپنے نام  و القابات کی نمود کے لیے لوگوں کا مال استعمال کرتے ہیں ، اور  اپنے ساتھ ساتھ لوگوں کی آخرت تباہ کرتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

✍ خاک پائے اکابرِ اہل السنّۃ والجماعۃ علمائے دیوبند:

حافظ محمود احمد عرف عبدالباری محمود (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

-------------------------------------------

(ان امور میں سے کسی بھی امر کو انجام دینے والے لوگ ان امور کو واجب اور فرض کا درجہ نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی ان امور کے انجام نہ دینے والوں پر بلاوجہ نکیر اور سبّ و شتم  کرتے ہیں، ان امور کو انجام دینے والے لوگ وہ التزام نہیں کرتے،جس طرح کا التزام  اہل بدعت کا جشن عید میلاد پر ہوتا ہے، اور ساری عبادات میں افضل العبادات اسی جشن کو قرار دیا جاتا ہے، اور جو منکرات اس موقع پر انجام دئیے جاتے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں، جشن نہ منانے والوں کو گستاخ رسول اور وہابی اور نہ جانے کیسے کیسے بُرے القابات کا تمغہ دے دیا جاتا ہے، اور اس کو دین کا جزو لا ینفک قرار دیا جاتا ہے، ایسی بے شمار خرابیاں جشن منانے والوں میں پائی جاتی ہیں جو لا تُعَدُّ وَلَا تُحْصٰی ہیں، اور ایک بہت افسوسناک خرابی تو  آج کل  ان جشن منانے والوں کے اندر یہ پیدا ہوگئی ہے کہ اب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے نام پر کیک بھی کاٹے جاتے ہیں، اور حضور کے نام پر 'برتھ ڈے' کا گیت  بھی گایا جاتا ہے، جو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) عبادات میں بھی  اہلِ کفر و شرک کی مشابہت برداشت نہیں کرتا، آج اس نبی کے نام لیوا اس نبی کے نام پر اہلِ کفر و شرک کی عادات و اطوار کو زندہ کررہے ہیں، یہ کون سا عشق رسول ہے؟ ذرا غور کرکے دیکھیے کہ کیا جشن منانے والوں کو زیب دیتا ہے وہ ان  امور بالا پر اعتراض کرنے کی جسارت کریں ؟؟ یہ سراسر ان کی دغا بازی اور خود فریبی ہے ، اور آخر میں  ایک بزرگ کا مقولہ نقل کرتا ہوں جو ایسے موقع پر زبردست فِٹ ہوتا ہے کہ جب حضور پیدا ہوئے تو ابولہب نے خوشیاں منائیں اور جشن منایا، لیکن جب حضور نے اپنی بعثت کا کا مقصد اور مشن بیان فرمایا تو یہی ابولہب سب سے پہلے آگے بڑھ کر حضور کو جھٹلانے والوں میں سے بنا،تو دوسری طرف ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس مشن کو اپنے سینے سے لگا کر اس مشن کو پورا کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنایا "أينقص الدين وأنا حيٌّ" کا نعرۂ وفا بلند کیا، تو جن لوگوں کو بُولَہَبِی نسبت سے واسطہ ہوتا ہے وہ جشن منایا کرتے ہیں اور جن لوگوں کو نسبتِ صدیقی سے سے حظِّ وافر نصیب ہوتا ہے وہ جشنِ نبی نہیں بلکہ مشنِ نبی کو پورا کرنا اپنا مقصدِ حیات سمجھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے۔۔۔ آمین) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2020/10/blog-post_99.html

بھارت کے نوجوانوں کے نام کھلا خط: اپنے آپ کو اسمارٹ فون کی لت سے باہر نکالیے، یہ آپ کو تباہ کردے گی


بھارت کے نوجوانوں کے نام کھلا خط: اپنے آپ کو اسمارٹ فون کی لت سے باہر نکالیے، یہ آپ کو تباہ کردے گی

حالاں کہ چیتن بھگت ہندوتو سوچ سے متاثر ہیں لیکن ان کو بھی محسوس ہورہا ہے کہ یہ نظریہ انسانی سماج کو نہ تو زیادہ اوپر اٹھاسکتا ہے نہ خیراعلی کی طرف لے جاسکتا ہے، ہم نے ان کی بہت سی چیزیں پڑھی ہیں، ایک ناقص طرزفکر، کامل دنیا کی تعمیر نہیں کرسکتا ہے، اس کا راستہ رسول پاک صل اللہ علیہ و سلم کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتا ہے،

 24/10 /2020 عبدالحمید نعمانی،

---------------

بھارت کے نوجوانوں کے نام کھلا خط:

اپنے آپ کو اسمارٹ فون کی لت سے باہر نکالیے،

یہ آپ کو تباہ کردے گی

عزیز دوستو!

مجھے نہیں معلوم کہ ایک بڑے اخبار میں شائع ہونے کے باوجود یہ خط آپ تک پہنچے گا بھی یا نہیں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ اپنے فون میں مشغول ہوں گے، ویڈیو دیکھ رہے ہوں گے، ویڈیو گیم کھیل رہے ہوں گے، اپنے دوستوں کے ساتھ چیٹ کررہے ہوں گے، سوشل میڈیا پر کمینٹ کررہے ہوں گے یا خوب صورت سلیبرٹیز کی پروفائلز کو سکرول کررہے ہوں گے،ایسے میں ایک مضمون پڑھنا یقیناً آپ کی ترجیحات کی لسٹ میں سب سے نیچے ہوگا۔

پھر بھی اگر اس تحریر پر آپ کی نظر پڑے،تو آپ اسے ضرور پڑھیں۔ یہ اہم مضمون ہے اور اس کا راست تعلق آپ کی زندگی سے ہے۔ آپ فون پر اپنی زندگی برباد کررہےہیں۔ ہاں! آپ ہندوستان کی پہلی نوجوان نسل ہیں، جسے اسمارٹ فونز اور سستا انٹرنیٹ ڈاٹا ملا ہوا ہے اور آپ اس پر روزانہ  گھنٹوں صرف کرتے ہیں۔

موبائل فون کے اسکرین پر صرف کیے جانے والے وقت کا جائزہ لیں، تو روزانہ کے حساب سے پانچ سات گھنٹے بنتے ہیں۔ جو لوگ ریٹائر ہیں یا اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں، وہ موبائل فون پر گھنٹوں صرف کرسکتے ہیں، مگر ایک نوجوان، جسے ابھی اپنی زندگی بنانی ہے، وہ ایسا نہیں کرسکتا۔

پانچ گھنٹے آپ کی حالتِ بیداری کا ایک تہائی اہم  حصہ ہے یا یہ کہیں کہ آپ کی زندگی کا ایک تہائی حصہ ہے۔ سگریٹ یا دوسری منشیات کی طرح یہ فون کی لت بھی آپ کی زندگی کے ایک حصے کو کھاتی جارہی ہے، اگر ایسا ہی چلتا رہا، تو آپ کی پوری نسل ایک4Gotten (فراموش شدہ) نسل بن کر رہ جائے گی، ایک ایسی نسل جسے  4G کی لت لگی ہوئی ہے، جس کا زندگی میں کوئی ہدف نہیں اور جو اپنی قوم و ملک کی ضروریات کے تئیں جاہلِ مطلق ہے۔

فون کی لت کے درج ذیل تین  بنیادی منفی اثرات ہیں:

سب سے پہلا تو یہ کہ یہ وقت کی بربادی کا باعث ہے، جسے کسی دوسرے نفع بخش کام میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آپ تصور کیجیے کہ اگر روزانہ فون پر استعمال ہونے والے تین گھنٹے آپ بچاتے ہیں اور انھیں کسی دوسرے کام مثلاً ورزش، کوئی ہنر سیکھنے، مطالعہ کرنے، کوئی اچھی جاب تلاش کرنے، کوئی کاروبار شروع کرنے میں استعمال کرتے ہیں، تو اس سے آپ کو کتنا فائدہ ہوسکتا ہے اور آپ کہاں سے کہاں پہنچ سکتے ہیں!

دوسرا یہ کہ فون پر بیکار چیزیں دیکھنے سے آپ کی قوتِ مدرکہ متاثر ہوتی  ہے۔ ہمارے دماغ کے دو حصے ہیں: ایک جذباتی اور دوسرا ادراکی یا علمی۔ تندرست اور صحیح سالم  دماغ وہ ہے جس کے دونوں حصے کام کرتے ہوں۔ جب آپ بیکار چیزیں دیکھتے ہیں، تو آپ کے دماغ کے علمی حصے پر منفی اثر پڑتا ہے اور اس کی قوتِ کار کم ہوتی جاتی ہے۔ پھر بتدریج آپ کی قوتِ فکر،قوتِ استدلال ختم ہونے لگتی ہے۔ آپ کے اندر مختلف نقطہ ہاے نگاہ کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رہتی، مختلف حالات کو سمجھنے اور برتنے کی قوت نہیں رہتی، مثبت و منفی احوال کی درست تشخیص اور اس کے مطابق فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں رہتی۔

جب آپ کے دماغ کی قوتِ مدرکہ کام کرنا بند کردیتی ہے، تو پھر آپ صرف اس کے جذباتی حصے سے کام لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر برپا ہونے والے تنازعات، پولرائزیشن، سلیبرٹیز یا سیاست دانوں کے تئیں بہت زیادہ محبت یا نفرت کا اظہار، کسی خاص ٹی وی اینکر کا مشہور ہونا یہ سب وہ مقامات ہیں، جہاں دماغ کے جذباتی حصے سے کام لیا جاتا ہے اور علمی و منطقی حصے سے کام نہیں لیا جاتا۔

جو لوگ محض جذباتی سوچ سے کام لیتے ہیں وہ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوپاتے۔ اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اپنے دماغ کو بیکار چھوڑنے کی بجاے اسے زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز امور میں استعمال کیجیے۔

تیسرا یہ ہے کہ مسلسل گھنٹے اسکرین پر گزارنے سے آپ کا حوصلہ اور انرجی کم ہوتی جائے گی۔ زندگی میں کامیابی تب ملتی ہے، جب کوئی ہدف مقرر کیا جائے، اس کے تئیں پر امید رہا جائے اور اس کے حصول کے لیے جاں توڑ کوشش کی جائے۔ جبکہ مستقل موبائل اسکرین سے چپکے رہنا آپ کو سست بناتا ہے۔ آپ کی شخصیت کے اَعماق میں خوف کی نفسیات پیدا کردیتا ہے، پھر آپ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے گھبرانے لگتے ہیں، آپ کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ کام آپ کے بس کا ہے۔

آپ اپنی اس نفسیات پر قابو پانے کی بجاے خارج میں اپنی ناکامی کے اسباب کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ اپنے دشمن تلاش کرتے ہیں مثلاً موجودہ برے سیاست دان، گذشتہ سیاست دان، مسلمان، بالی ووڈ میں چل رہی اقربا پروری، مال دار لوگ، مشہور افراد یا کوئی بھی ایسی وجہ جسے آپ اپنی ناکام زندگی کا ذمے دار ٹھہراسکیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ملک کا سسٹم خراب اور ناموافق ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر بیٹھ کر اپنا وقت برباد کرنے سے آپ کو کچھ نہیں ملنا، ہاں اگر آپ اپنی ذات پر محنت کریں، تو اس سے فائدہ ہوگا۔

دوسروں کی شکایت کرتے رہنے کی عادت چھوڑیئے، اپنی دنیا خود بنائیے، اپنے لیے ایک بہتر زندگی بنائیے اور اپنے آپ کو ایک بہتر شخصیت بنائیے۔ سوچئے کہ کیا آپ زیادہ سے زیادہ وہ کام کررہے ہیں، جس کی آپ کے اندر صلاحیت ہے؟ کیا آپ اتنی محنت کررہے ہیں، جتنی کہ کرسکتے ہیں؟ جب تک اپنی زندگی میں کچھ کر نہ لیں، اس وقت تک کے لئے فون میں گھسے رہنے کی لت کو چھوڑ دیجئے۔ ہر کامیاب انسان نامناسب ماحول میں ہی اپنے لیے مناسب ماحول پیدا کرتا ہے، آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔

بہت زیادہ نشہ آور ادویہ کے برخلاف فورجی فون رکھنے، استعمال کرنے کو قانونی جواز حاصل ہے۔ بچے بھی اپنی جیبوں میں فون رکھ سکتے ہیں۔ فون کے بے شمار فائدے بھی ہیں، اس کے ذریعے آپ اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں، آن لائن شاپنگ کرسکتے ہیں، آج کل آن لائن کلاسوں کا چلن بھی بڑھ رہا ہے۔ شخصیت کی نشوو نما اور سیکھنے کے لئے بھی اس سے مدد لی جاسکتی ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ ایک نوجوان؛بلکہ ایک پوری نئی نسل کو برباد کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔

یہ ہمارے ملک کے نوجوانوں پر ہے کہ وہ اس ملک کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ ذرا آپ اس ہندوستانی نسل کا تصور کیجئے، جس کے ہاتھوں ہمارے ملک کو آزادی نصیب ہوئی۔ وہ کتنی سنجیدہ تھی۔ اس نے اپنے آپ کو ملک کی آزادی کے لئے وقف کردیا تھا، تب ہمیں آزادی ملی تھی۔ مجھے منڈل کمیشن اور ۲۰۱۱ کی انا ہزارے تحریک اب بھی یاد ہے۔ تب نوجوانوں کو اپنے ملک کی فکر تھی۔ مگر آج کیا ہمارے نوجوانوں کو واقعی ملکی مسائل و معاملات سے کوئی دلچسپی ہے؟ یا کیا وہ کسی خبر پر اس اعتبار سے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ کتنی سنسنی خیز، تفریحی یا عجیب و غریب ہے؟

ابھی ہمارے ملک کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ ہم پھر سے معاشی ترقی کیسے حاصل کریں۔ چین ہم سے پانچ گنا زیادہ مالدار ہے۔ آپ گوگل پر موجود چینی شہروں کی تصویریں دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وہاں تک پہنچنے کے لئے ہمیں بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر کیا ہم ایسا کریں گے؟ یا ہم ایسے بے ضرر اشتہارات پر جھنجھلاتے رہیں گے، جن میں بین مذاہب شادی کے مناظر دکھائے جارہے ہیں؟ آپ لوگ اپنے کریئر پر دھیان دیں گے یا نہ ختم ہونے والے ہندو مسلم جھگڑوں پر اپنا وقت اور انرجی برباد کریں گے؟ آپ اپنی زندگی بہتر بنانا چاہتے ہیں یا بالی ووڈ کے معاملات و مسائل سلجھانا چاہتے ہیں؟

آپ کو، یعنی آج کے نوجوانوں کو خود ان سوالوں کے جواب طے کرنا ہوں گے۔ کوئی لیڈر، کوئی اداکار یا کوئی ہیرو ہیروئن ان سوالوں کا جواب نہیں دے گا۔ آپ اپنے آپ کو اور اس ملک کو جہاں لے جانا چاہتے ہیں، لے جائیں، مگر آپ کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہندوستان کو غریب، مگر بے جا اکڑفوں دکھانے والا ملک بنانا ہے، آپ کا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ ہندوستان کو ایک مالدار اور منکسرالطبع ملک بنانا ہے۔ فون کی لت سے چھٹکارا حاصل کیجئے ،اپنے آپ کو مفید کاموں میں مصروف کیجئے اور اپنی زندگی و ملک کے لئے کچھ اچھا کیجیے۔

آپ ایسی نسل بنیے جو ہندوستان کو آگے لے کر جائے گی، ایسی نسل مت بنیے، جو فور جی کے چکروں میں 4Gotten بن جائے۔

بہت پیار!

تحریر: چیتن بھگت ترجمہ: نایاب حسن

(اصل انگریزی مضمون آج کے ٹائمس آف انڈیا میں شائع ہوا ہے)


The 4Gotten generation: 

An open letter to India’s youth: 

Get off that smartphone. It can destroy you

Dear friends,

I don’t know if this letter will even reach you, despite being published in a big newspaper. Many of you are so busy with your phones, watching videos, playing video games, chatting with your friends, commenting on social media, or just scrolling through the feeds of beautiful celebrities, reading an article falls way down on the priority list.

However, if you do happen to chance on this, please read this fully. This is important and this is about your life. You are wasting your life on your phone. Yes, you are the first young generation in India’s history that has access to smartphones and cheap data, and you are spending hours on it, every day.

Check your screen time, which often averages 5-7 hours a day for young people. Retired or established people can spend so many hours on their devices. A young person, who has to build his/ her life, just can’t.

Five hours is one-third of your productive waking hours, or one-third of your life. Like cigarettes or other drugs, this phone addiction is eating away a part of your life. It’s damaging your career prospects and messing up your brain. If it stays this way, your entire generation will become a 4Gotten generation, an entire generation addicted to 4G, aimless in their life and clueless about the nation.

These are the top three negative effects of this phone addiction.

Number one, of course, is the absolute waste of time, which could be utilised on more productive things in life. Imagine saving three hours a day from your phone, and spending it on anything – fitness, learning a skill, studying more, a more intense job search, opening a business. Imagine if you did this consistently, where it would take you.

Two, watching mindless stuff dulls your cognitive brain. Our brain has two areas – cognitive and emotional. A good mind is where both work well. When you watch junk, the cognitive brain disengages and is used less. You soon lack the ability to think, reason or argue something logically. You can no longer see different points of view, process multiple scenarios, evaluate pros and cons or make the right decisions.

You function with your emotional brain alone as your cognitive brain is numb. The constant anger on social media, the polarisation, the intense fandom and intense hate for celebrities or politicians, the popularity of certain screaming TV anchors all point to a generation where the emotional brain is in control, and the reasoning mind is not engaged.

People who work only with an emotional brain don’t do well in life. The only way out – stop numbing your brain and engage your mind in more productive things.

Three, constant hours on the screen kill your motivation and energy. Success in life comes from setting goals, staying motivated and working hard towards your goals. However, watching a screen makes us lazy. Deep down, a fear of failure sets in as you’re not sure if you can put in the work anymore.

To cope, you try to find a reason why you can’t find success in life. You try to find an enemy – bad current politicians, bad past politicians, Muslims, Bollywood nepotism, rich people, famous people, any villain to be made responsible for your life not being what it could be. Yes, the system is unfair and rigged. However, wasting time venting on social media won’t help you. Working on yourself will.

Stop complaining. Start creating. Create a better life for yourself, and create a better person. Are you doing your maximum? Are you working as hard as you possibly can? Keep that wretched phone away until you make something of your life. Winners find a way out of the unfairness. You can too.

Unlike hard drugs, 4G phones are legal. Kids can keep one in their pocket. The phone is also immensely useful – for information, shopping or online classes. It can be used to grow and learn. But it can also literally destroy a young person’s life, and even an entire generation.

For it’s up to the youth to take India where they want to take it. Imagine the generation that got us Independence. How cool were they? They were out there, fighting to make India free. I still remember the Mandal Commission protests, or the 2011 Anna protests. The youth cared about national issues. Today, does the youth actually care about what truly impacts us? Or do they emotionally react to news based on how sensational, entertaining or crazy it is?

The super important, urgent priority is to make our economy grow again. China is five times richer than us. Google pictures of Chinese cities on the Internet. We have to do so much to get there. Should we focus on that? Or should we outrage over harmless ads that show an inter-religious couple? Should you focus on your career, or should you waste your time on never ending historical Hindu-Muslim issues? You want to build a good life or solve Bollywood conspiracies?

You, the youth of today, will decide the answers to these questions. No leader, no actor, no celebrity will do it for you. Take yourself and this country where you want it to go. Don’t aim to make India poor and proud. Aim to make India and yourself rich and humble. Get off that stupid phone, engage your mind in productive and creative things and make something of your life and country.

Be the generation that 4Ges India ahead. Don’t end up as the 4Gotten generation.

Love,

Chetan Bhagat

(نقلہ: #ایساےساگر)



Monday, 12 October 2020

شیطان کا اصلی نام کیا تھا اور ان کے بیوی بچوں کے نام کیا ہے؟

شیطان کا اصلی نام کیا تھا اور ان کے بیوی بچوں کے نام کیا ہے؟
====================================
رحمت الہٰی سے ملعون ہونے سے پہلے شیطان کا نام عزازیل تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے اور حکم الہٰی کی خلاف ورزی کی پاداش میں اس کا نام ابلیس تجویز کردیا گیا۔ شیطان بھی اسی ابلیس کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے آگ کے شعلوں سے ایک جن کو پیدا کیا تھا ۔ اس کے بعد اس کے لئے ایک بیوی پیدا کی، اسی جوڑے سے تمام جنات کی نسل دنیا میں پھیلی ۔

حدیث میں ہے کہ جب اللہ نے ابلیس کی نسل اور اس کی زوجہ پیدا کرنا چاہی تو شیطان پر غصہ کا القا کیا ۔ غصہ کی وجہ سے آگ کی ایک چنگاری پیدا کی، اس چنگاری سے حق تعالٰی نے ابلیس کی بیوی پیدا کردی۔

جتنے انسان پیدا ہوتے ہیں اتنے ہی جنات بھی پیدا ہوتے ہیں 
===============
روایت ہے کہ حق تعالٰی نے ابلیس سے فرمایا تھا کہ جتنی اولاد آدم کی پیدا کروں گا، اتنی ہی اولاد تیری بھی پیدا کروں گا ۔ چنانچہ دوسری حدیث میں مذکور ہے کہ ہر انسان کے ساتھ حق تعالٰی جن بھی پیدا کرتا ہے جو اس کو بُرائی پر اُکساتا رہتا ہے۔

جنات مذکر بھی ہوتے ہیں اور موءنث بھی
=============
جنات کی ایک قسم انسان جیسی ہے ۔ وہ انسانوں کی طرح مذکر اور موءنث ہوتے ہیں ۔ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں ۔ اور ان کے اولاد بھی پیدا ہوتی ہے۔

شیطان ہر روز دس انڈے دیتا ہے
============
حیٰوۃ الحیوان میں شیطان کی افزائش نسل کے بارے میں مذکور ہے:
"اللہ تعالٰی نے ابلیس کی داہنی ران میں مرد کی شرمگاہ اور بائیں میں عورت کی شرمگاہ پیدا کی ہے جس سے ہر روز دس انڈے نکلتے ہیں اور ہر انڈے سے شیطان اور شیطانیاں پیدا ہوتی ہیں ۔

شیطان کی بیوی اور بچوں کے نام
====================
شیطان نے اپنی بعض اولاد کو بعض مخصوص کاموں پرلگا رکھا ہے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق ان کے نام اور کام یہ ہیں:__

طرطبہ__: شیطان کی بیوی کا نام طرطبہ ہے۔

لاقیس و لہان__: یہ دونوں وضو اور نماز پر مامور ہیں، لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔

ہفاف__: یہ لڑکا صحرا پر مامور ہے، صحرا میں شیطینیت پھیلاتا ہے۔

زلنبور__: یہ بازاروں پر مامور ہے، جھوٹی تعریف اور جھوٹی قَسموں پر لوگوں کو اُکساتا ہے۔ ناپ تول میں کمی اور دوسری بُرائیوں میں لوگوں کو مبتلا کرتا ہے۔

بثر__: مصیبت زدہ لوگوں کو جہالت کے کام نوحہ، ماتم، گریبان چاک کرنا، چہرے کو نوچنے، منہ پر چانٹے مارنے کی ترغیب دیتا ہے۔

ابیض__: یہ انبیاء علیھم السلام کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے پر مامور ہے۔

اعور__: یہ شیطان زنا پر مامور ہے۔ زنا کے وقت مرد و عورت کی شرم گاہوں پر سوار رہتا ہے۔ لوگوں کو زنا کی ترغیب دے کر زنا میں مبتلا کرتا ہے۔

واسم__: اس شیطان کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے گھر میں بغیر سلام کئے یا بغیر اللہ کا نام لئے داخل ہوتا ہے، تو وہ گھر والوں میں فساد کرانے کا سبب بنتا ہے۔ گھر والوں میں پھوٹ ڈلواکر ایک کو دوسرے کا دشمن بنادے ۔

مطوس__: یہ شیطان غلط اور بے بنیاد افواہیں لوگوں میں پھیلاتا ہے۔

بھوت پریت کیڑے مکوڑے جنات شیطان کے انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک بار شیطان نے 30 انڈے دیئے تھے ۔ دس مشرق میں، دس مغرب میں اور دس وسط ارض میں ۔ ان انڈوں سے دنیا میں شیاطین کی مختلف قسمیں بھوت پریت کیڑے مکوڑے وغیرہ پیدا ہوکر دنیا میں پھیل گئے۔

محمد بن کعب القرظی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ جن اور شیاطین اصل کے اعتبار سے ایک ہیں، مگر ایماندار 'جن' کے نام سے اور کفار شیاطین کے نام سے موسوم ہیں ۔

جنات سانپ کی شکل میں گھروں میں بھی رہتے ہیں 
================
بخاری مسلم اور ابوداود میں ابو لبابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے، مگر جس سانپ کی پشت پر دو سفید خط ہوں، یا وہ سانپ جس کی دُم بہت چھوٹی ہو، اس کو فورََا مار ڈالنا چاہیئے ۔ یہ دونوں قسم کے سانپ بہت ہی خطرناک ہیں۔

دل میں داخل ہونے کے چور دروازے، جن سے شیطان کے لشکر اولاد آدم پر حملہ آور ہوتا ہے۔
==============
شیطان کے لشکر چونکہ 24 گھنٹے انسان کو گمراہ اور اغوا کرنے کی تاک میں لگے رہتے ہیں ۔ اس لئے شیاطین کی مدافعت سے ایک آن بھی غفلت انتہائی مضر ہے ۔ پھر چونکہ شیطان کا حملہ انسان پر ظاہری دشمن کی طرح کھلم کھلا نہیں ہوتا، اس لئے سب سے پہلے ان دروازوں اور راستوں سے واقفیت ضروری ہے جہاں سے وہ حملہ اور ہوکر کائنات قلب کو تاخت وتاراج کردیتا ہے۔ 
یوں تو انسان کے دل میں شیطان کے لئے بہت سے دروازے ہیں، پھر بھی ان میں چند بڑوں بڑوں کا ذکر حسب ذیل ہے۔

حسد اور حرص
=========
حسد اور حرص میں انسان اندھا اور بہرا ہوجاتا ہے ۔ شیطان جب ان دونوں میں سے کسی ایک یا دونوں کا احساس کسی قلب میں پاتا ہے تو اس کو دل کو تباہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے - اور وہ انسان کے دل کو گناہوں کے میدان میں لڑھکاتا پھرتا ہے۔ جس وقت نوح علیہ السلام کشتی میں سوار ہوئے تو شیطان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دنیا میں لوگ پانچ باتوں سے ہلاک ہوئے ہیں میں تین باتیں اپ کو بتائے دیتا ہوں ۔ فورََا وحی آئی کہ شیطان سے دو باتیں تو پوچھ لو، باقی تین باتیں آپ سے غیر متعلق ہیں ۔ شیطان نے کہا ان میں سے ایک تو حسد ہے ، حسد کی وجہ سے میں بارگاہ الہٰی سے مردود و ملعون ہوا، اور دوسری چیز حرص ہے، اگر آدم [علیہ السلام] جنت میں ہمیشہ رہنے کی حرص نہ کرتے تو ان کو جنت سے نہ نکالا جاتا۔

غضب اور شہوت
==========
یہ دونوں چیزیں بھی قلب بنی آدم سے شیطان کے داخلے کے اہم دروازے ہیں ۔ غضب اور غصہ کی وجہ سے انسان کی عقل کمزور ہوجاتی ہے ۔ شیطان نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہا کہ جب انسان غصہ ہوتا ہے تو میں اس کے جسم میں دوڑا دوڑا پھرتا ہوں۔

بسیار خوری
=======
شکم سیر ہوکر کھانا بھی شیطانی آفتوں میں سے ایک آفت ہے۔ کیونکہ شکم سیری سے شہوت پہدا ہوتی ہے، شہوت شیطان کا ایک خاص ہتھیار ہے۔ ابلیس یحیٰی علیہ السلام کے پاس متشکل ہوکر آیا اور اس نے بیان کیا، کہ میں شہوت کے ذریعہ سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کیا کرتا ہوں ۔ 
علماء باطن نے بسیار خوری کے نقصانات تحریر کئے ہیں [1]دل سے خدا کا خوف نکل جاتا ہے [2]دل میں مخلوق پر رحمت نہیں رہتی کیونکہ وہ دوسروں کو اپنی طرح شکم سیر سمجھنے لگتا ہے [3]شکم سیری سے نماز و عبادت گراں محسوس ہوتی ہے [4]حکمت کا کلام سُن کر دل پر رقّت طاری نہیں ہوتی [5]ایسی حالت میں اگر وہ کسی کو نصیحت کرتا ہے تو لوگوں کے دلوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا [6]بسیار خوری سے جسمانی امراض پیدا ہوتے ہیں۔

سامان زیب و زینت
===========
اگر شیطان کسی کے دل میں مکان لباس اور گھر کے سازوسامان کی محبت دیکھتا ہے تو وہ انسان کے دل میں ان چیزوں کی محبت کے انڈے دے دیتا ہے، ان انڈوں سے جب بچے نکل آتے ہیں تو مکان کی تعمیر کرنے مکان کی آرائش کی دھن میں لگ جاتا ہے، یہاں تک کہ اس حالت میں اسے موت آکر پکڑ لیتی ہے ۔

شیطان کا دل پر تسلط اور اس کا دفعیہ

وسوسہ اور الہام کا فرق
========
انسان سے نیک یا بد اعمال کی صدور نوعیت یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے دل میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے ۔ خیال کے بعد اس کام کی رغبت پیدا ہوتی ہے ۔ رغبت عزم اور ہمت کو کام میں لاتی ہے ۔ آخر نیت اعضاء کو حرکت میں لا کر اس فعل کا وقوع عمل میں لاتی ہے ۔ پھر جس طرح اعمال خیر اور شر کی نوعیت مختلف ہے، اسی طرح انسان کے دل میں کسی کام کا خیال جو اولََا پیدا ہوتا ہے، وہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہے ۔ اگر وہ خیال کسی اچھے کام کا ہے تو اصطلاح شرح میں اس کا نام ""الہام"" ہے ۔ اور اگر وہ بُرے کام سے متعلق ہے، تو اس کو ""وسوسہ"" کہا جاتا ہے۔

الہام یا وسوسہ کا باعث کیا ہے؟
===========
انسان کے دل میں شروع شروع میں جو خطرات یا خیالات پیدا ہوتے ہیں، ان کے محرک قدرت نے جدا جدا پیدا کئے ہیں، حدیث شریف میں ہے__:

"دل میں دو قسم کے وسوسہ پائے جاتے ہیں فرشتوں کی طرف سے بھی اور شیطان کی طرف سے بھی ۔ فرشتے کے وسوسہ سے خیر کی رغبت ہوتی ہے اور شیطان کے وسوسہ سے بُرائی کی ۔ پس جس وقت شیطانی وسوسہ محسوس ہو تو اعوذ با اللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا چاہیئے"۔

چونکہ دونوں قوتیں مساوی حیثیت سے قلب انسانی پر اثرانداز رہتی ہیں، اس لئے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کی انسان قدرتی طور پر اسی کھینچاتانی میں مبتلا ہے ۔ حدیث شریف میں اسی کھینچاتانی کی طرف اشارہ ہے__:
"موءمن کا دل اللہ تعالٰی کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان رہتا ہے"۔

پیدائشی طور پر چونکہ قلب انسانی میں آثار روحانی و شیطانی قبول کرنے کی صلاحیت و استعداد مساوی طور پر ہے، کسی ایک جانب کو دوسرے پر ترجیح نہیں ۔ اس لئے اتباع شہوات یا مخالفت کے اعتبار سے ہی ایک جہت کو غالب یا مغلوب کہا جاسکتا ہے ۔ پس اگر کوئی غضب و شہوت کے اقتضا سے کسی کام کا مرتکب ہوگا، تو شیطان خواہش نفسانی کی راہ سے انسان پر غالب آجائے گا ۔ اس صورت میں قلب شیطان کا ملجا و مسکن بن جائے گا ۔ اور اگر شہوت کو مغلوب کرکے فرشتوں کے اخلاق اختیار کرےگا، تو اس صورت میں انسان کا دل فرشتوں کی منزل اور مستقر ہوگا ۔ مگر قلب میں چونکہ صفات بشریہ [یعنی شہوت، غضب، حرص، طمع وغیرہ جو خواہش نفسانی کی فروعات میں سے ہیں] موجود ہیں اس لئے ضروری اور لازمی طور پر قلب شیطانی وسوسہ کی گزرگاہ ضرور بنے گا ۔ حضور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے__:

"ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے" ۔ عرض کیا گیا، حضور کے ساتھ بھی ہے؟ فرمایا، "ہاں لیکن وہ خدا کی مدد سے مقہور ہے وہ ہمیشہ اچھی بات کی ترغیب دیتا ہے"۔

شیطان اسی وقت دل میں وسوسہ ڈالتا ہے، جب وہ ذکر الٰہی سے غافل ہو ۔ اگر قلب ذکر اللہ کی طرف راغب ہے، تو شیطان کو وسوسہ ڈالنے کا موقع نہیں ملتا وہاں سے چل دیتا ہے۔ اس وقت فرشتہ مداخلت کرتا ہے ۔ غرض شیاطین اور فرشتوں کے لشکروں میں ہر وقت کش مکش رہتی ہے ۔ قلب بہرصورت کسی نہ کسی ایک کا مطیع و منقاد ہوجاتا ہے ۔ یا تو فرشتے ہی اس کو مفتوح و مسخّر کر لیتے ہیں، یا شیاطین ہی اس کے مالک بن بیٹھتے ہیں ۔ جن لوگوں کے دلوں کا مالک شیطان بن جاتا ہے، ایسے لوگوں کے دل ہر وقت وسوسوں سے پُر رہتے ہیں، اس قسم کے لوگ ہمیشہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ۔ ایسی حالت میں جب تک شیطان کے زور کو گھٹایا نہ جائے، قلب کی اصلاح دُشوار ہے ۔ البتہ جو لوگ شہوات کو اپنے اُوپر غالب نہیں آنے دیتے بلکہ اس کو مغلوب کرکے رکھتے ہیں، ان لوگوں پر شیطان کا داو چلنا دُشوار ہے ۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ایسے ہی بندوں کے متعلق ہے__:

"جو میرے بندے ہیں، ان پر تیرا کوئی زور نہیں"

وسوسہ دور کرنے کا طریقہ
=========
ظاہر ہے کہ دل میں شیطانی وسوسہ ہر وقت آتا رہتا ہے ۔ جب اس وسوسہ کے سوا دل میں کوئی دوسری بات نہ ہو، کیونکہ جب ایک بات کا گزر دل میں ہوتا ہے، تو اس سے پہلے کی بات دل سے نکل جایا کرتی ہے، اسی لئے شیطانی وسوسہ دور کرنے کی ایک تدبیر یہ ہے کہ جب کسی شخص کے دل میں کسی بُری بات کا گزر ہو، تو وہ دل کو کسی دوسری طرف متوجہ کرے، یہ ترکیب اگرچہ دفعیہ وسوسہ کے لئے سہل ہے مگر بھر بھی یہ اندیشہ ہے کہ اس دوسری بات کا بھی وہی انجام نہ ہو جو پہلی بات کا ہوا ہے ۔ اس لئے یہ صورت دفعیہ وسوسہ کے لئے سو فیصد کامیاب نہیں، البتہ ذکر الہٰی ایک چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے شیطان کی مجال نہیں کہ دل کے قریب قدم رکھ سکے ۔ خدا تعالٰی نے بھی دفعیہ وسوسہ کی یہی تدبیر بتائی ہے__:

"خدا سے ڈرنے والے لوگوں کو اگر شیطان مس کرلیتا ہے تو وہ خدا کا ذکر کرتے ہی صاحب بصیرت بن جاتے ہیں"۔

شیطان انسان کے دل پر چاروں طرف سے چھایا رہتا ہے ، جب قلب ذکر الہٰی کرتا ہے تو شیطان سکڑ کر دبک جاتا ہے ۔ ذکر اللہ اور وسوسہ میں دن اور رات یا روشنی اور اندھیرے کا سا تضاد ہے ۔ ذکر الہٰی کے سامنے شیطان ٹک نہیں سکتا ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت عمرو بن العاص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ شیطان نماز اور قراءت قران میں وسوسہ ڈالتا ہے مجھ میں اور میری نماز میں حائل ہوجاتا ہے، توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شیطان کو خنزب کہتے ہیں جب وہ تجھے معلوم ہو، تو اعوذ با اللہ من الشیطان الرجیم پڑھ، اور اپنی بائیں طرف 3 دفعہ تھوک دے ۔ حضرت عمر بن عاص کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ ہدایت پر عمل کیا تو وہ بات جاتی رہی ۔

حدیث میں وارد ہے "وضو میں بہکانے والا بھی ایک شیطان ہے، اس کا نام ولہان ہے، اس سے خدا تعالٰی کی پناہ چاہو"٫
خطرات قلب
======
انسان کے قلب پر جو خطرات گزر چکے ہیں وہ 3 قسم کے ہوتے ہیں 
[1] ایک وہ جو انسان کو نیکی پر آمادہ کرے۔ ایسے خطرات یقینََا الہام من جانب الہٰی ہوتے ہیں۔ 
[2]دوسرے وہ جو انسان کو بُرائی پر اُکسائیں، ایسے خطرات یقینََا وساوس شیطانی ہوتے ہیں ۔
[3]تیسری قسم وہ خطرات ہیں جن کے متعلق یہ معلوم نہ ہو سکے کہ وہ فرشتہ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے۔ ایسے خطرات میں انسان کو بڑا دھوکہ ہوتا ہے ۔ ان خطرات میں نیک و بد کی تمیز دشوار ہے، اس لئے کہ نیک بندوں کو تو صاف طور پر شیطان ورغلا نہیں سکتا البتہ شر کو خیر کی صورت میں لاکر ان کے سامنے کردیتا ہے ۔ اور یہ شیطان کا بہت بڑا فریب ہے جس سے اکثر لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں ۔

مثلََا شیطان کسی عالم کو عوام کی غفلت و جہالت کا حال سُنا کر وعظ گوئی پر آمادہ کرتا ہے پھر اس کے دل میں ڈالتا ہے کہ اگر عمدہ کپڑے پہن کر اور خاص لب و لہجہ بنا کر تقریر نہ کروگے تو عوام تمہاری تقریر سے متاثر نہ ہوں گے ۔ چنانچہ عالم انہی باتوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔ ان باتوں میں مبتلا ہونے کے بعد اس کو اپنی تعظیم کا شوق، خدام اور معتقدین کی کثرت اور اپنے علم و مرتبہ پر غرور، اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا مرض پیدا ہوجاتا ہے ۔ عالم صاحب کی تمام کری کرائی محنت ریا و نمود و تکبر کی نذر ہوجاتی ہے ۔ غرض علماء عباد زہاد کو فریب میں مبتلا کرنے کے شیطان کے دھنگ اور ہی ہیں ۔

شیطان کے دفعیہ کی تدبیر کیا ہے؟
==========
شیطان کے شر سے دل کو بچانے کی ترکیب یہی ہے کہ دل میں شیطان کے داخلہ کے تمام دروازے بند کردیئے جائیں ۔ اور دل کو تمام مذموم صفات سے پاک کرلیا جائے ، اس مختصر میں اتنی گنجائش نہیں کہ ان کا تذکرہ پیش کیا جائے ، بہرحال اس موقع پر اتنا جاننا ضروری ہے کہ جب دل ان تمام مذموم صفات سے پاک و صاف ہو جائے گا تو پھر شیطان دل میں جم کر نہیں بیٹھ سکے گا ۔ چونکہ اللہ کا ذکر شیطان کو قریب آنے سے روکتا ہے، اس لئے شیطان ہیرا پھیری کرتا ہی نظر آئے گا ۔ 
بہرحال جہاں شیطان کا دفعیہ لاحول ولا قوۃ الا با اللہ العلی العظیم - یا- اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم سے ہوجاتا ہے وہاں اور بھی دعائیں اس بارے میں مذکور ہیں ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ ایک شیطان حضور سرورعالم کے سامنے نماز کی حالت میں آگ کی مشعل لے کر کھڑا ہوا کرتا تھا ، اور قراءت و استغفار سے نہ جاتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا، آپ یہ دعا پڑہیئے __:

اعوذ بکلمات اللہ التامات التی لا یجاوز ھن یرو لا فا جو من من شر ما یلج فی الارض وما یخرج منھا وما ینزل من السماء وما یعرج فیھا و من فتن الیل و النھار و من طروق الیل والنھار الا طارق یطرق بخیر یا رحمٰن ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دُعا کو پڑھا ، اس مردُود کی شمع گُل ہوگئی اور وہ اوندھے منہ گِر پڑا۔

شیطان کے مکرو فریب کے جال
========
قرآن پاک میں اللہ تعالٰی نے ابلیس کا قول نقل کیا ہے__:
فبما اغویتنی لا قعدون لهم صراطك المستقيم ثم لا تلينهم من بين ايديهم و من خلفهم وعن شمائلهم ولا تجدو اكثرهم شاكرين ۔
"تو جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بیٹھوں گا ان کی ناک میں تیری سیدھی راہ پر، پھر ان پر آوں گا آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اور نہ پائے گا تو ان میں سے اکثر کو شکرگزار"۔

اس آیت میں "من بین ایدھم" کی تفسیر میں مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ اس سے عرض یہ ہے کہ، میں ایسی طرف سے آوں گا جہاں سے لوگ اسے دیکھ نہ سکیں ۔

اور "من خلفھم" سے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی کی تفسیر کے مطابق شیطان کی غرض یہ ہے کہ، میں دنیا کو آراستہ پیراستہ کرکے ان کے سامنے پیش کرکے ان کو رغبت دلاوں گا ۔ مزید فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ، میں آخرت کے بارے میں ان کے دلوں میں شک ڈالوں گا اور ان کو آخرت سے دُور کردوں گا ۔

اور "عن ایمانھم" کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ، شیطان کی غرض یہ ہے کہ، ان پر ان کا دین مشتبہ کردوں گا، اور ابو صالح کے قول کے مطابق حق بات میں ان کو شک میں ڈالوں گا ۔

اور "عن شمائلھم" کے معنی یہ ہیں کہ باطل کی ترغیب دے کر ان میں باطل کو رائج کردوں گا ۔ زمخشری کہتے ہیں کہ شیطان کی غرض یہ ہے کہ، میں سب طرف سے آکر تم کو فریب دوں گا۔

[] شیطان کا ایک مکر یہ ہے کہ وہ انسان کو ایسی جگہ لا کھڑا کردیتا ہے جن میں انہیں سمجھا دیتا ہے کہ تیرا نفع انہی میں ہے، پھر انجام کار ایسے ٹھکانوں پر پہنچا دیتا ہے، جہاں اس کی تباہی ہو، اور آپ اس سے کنارہ کش ہوجاتا ہے اور اس کو پھنسا کر کھڑا ان کے رنج سے خوش ہوتا ہے ۔ اور ان سے تمسخر کرتا ہے، مثلََا ان کو چوری ، زنا ، قتل کا حکم دیتا ہے ، پھر ان کو رُسوا کرتا ہے ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے__:

"اور جس وقت سنوارنے لگا شیطان ان کی نظر میں ان کے کام، اور بولا کوئی غالب نہ ہوگا تم پر آج کے دن، اور میں رفیق ہوں تمہارا، پھر جب سامنے ہوئیں تو دونوں جماعتیں الٹا پھرا اپنی ایڑیوں پر، اور بولا میں تمہارے ساتھ نہیں، میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں ڈرتا ہوں اللہ سے، اور اللہ کا عذاب سخت ہے"۔

[] شیطان کا مکر یہ ہے کہ وہ انسان پر اس قسم کا جادو کردیتا ہے کہ اس کو سب سے بڑی مضر چیز نافع ترین نظر آنے لگتی ہے ۔ شیطان امر باطل کو اس طرح چکنا چپڑا کرکے خوبصورت شکل میں پیدا کرتا ہے کہ، حق بات خلاف واقعہ نظر آنے لگتی ہے ۔ عقلوں کو اس درجہ مسخ کردیتا ہے کہ، حق بات سمجھائی نہیں دیتی ہے ۔ 
اسی ابلیس نے آدم وحوا کو جنت سے نکلوایا، اور قابیل کے ہاتھوں ہابیل کو قتل کروایا، حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو غرق کرایا، قوم عاد کو تیز آندھی سے تباہ کرایا، حضرت صالح علیہ السلام کی قوم چیخ سے ہلاک ہوئی، حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو زمین میں دھنسادیا، اور ان پر سنگباری کرائی، فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرادیا ۔ یہی ملعون سب کا ساتھی تھا اور غزوہ بدر میں مشرکین کا یار تھا۔

[] ایک مکر شیطان کا یہ ہے، کہ وہ انسان کے خون میں داخل ہوکر نفس کے ساتھ مل جاتا ہے اور جس چیز کی رغبت اور محبت نفس میں پاتا ہے اس کو معلوم کرکے اسی راہ سے داخل ہوتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ آدم و حوا علیھم السلام کی یہ خواہش تو نہ تھی کہ جنت میں فرشتہ بن کر رہیں، لیکن یہ خواہش ضرور تھی کی ان کو بادشاہی عطا ہوجائے، شیطان ان دونوں کے پاس اسی راستہ سے اکر ان کو جنت سے نکلوانے میں کامیاب ہوا تھا ۔ شیطان نے ان سے کہا تھا، "کیا میں تم کو بتادوں درخت ہمیشہ زندہ رہنے کا، اور بادشاہی کا جو پرانی نہ ہو"۔ شیطان کے اس فعل سے اس کے پیرو کاروں نے یہ سیکھا ہے کہ انہوں نے بعض حرام چیزوں کے ایسے نام تجویز کئے ہیں جن کے معانی نفس کو بہت ہی خوشنما معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلََا شراب کا نام ""ام الافراح"" [خوشیوں کی جڑ]، سُود کا نام ""معاملہ""، محصول کا نام ""حقوق شاہی""، فسق کی مجلسوں کانام ""مجلس نشاط"" وغیرہ ۔

[] شیطان کا ایک عجیب مکر یہ ہے کہ وہ نفس کی قوتوں میں پیش قدمی اور بلند ہمتی غالب دیکھتا ہے، تو جس چیز کا حکم الہٰی ہوتا ہے،اس کو اس کی اہمیت کے سامنے حقیر اور قلیل کردیتا ہے، اور آدمی کو یہ وہم دلاتا ہے کہ اس قدر کافی نہیں ہے ، اس میں کچھ زیادتی ہونی چاہیئے ۔ اور اگر نفس پر سرکشی غالب دیکھتا ہے، تو ہمت کو مقدور مامور سے کاہل اور سست کردیتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ اس کو بالکل ہی چھوڑ بیٹھتا ہے، یا اس میں کوتاہی کرنے لگتا ہے۔

یعنی کبھی شیطان کسی قوم کو اس درجہ تسفل میں گرادیتا ہے کہ وہ پیغمبر کو قتل کردینا معمولی بات خیال کرتے ہیں اور کبھی اس قدر اونچا کردیتا ہے کہ وہ خدا تعالٰی کے بجائے انبیاء کی پرستش کرنے لگتے ہیں۔ 
یہودیوں کو ابلیس نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں اس درجہ گرایا کہ انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو جھٹلایا اور ان کی والدہ پر تہمت لگائی ۔ اور نصاریٰ کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں اس درجہ بڑھایا کہ انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو [نعوذباللہ] خدا کا درجہ دے دیا ہے۔

[] کبھی شیطان ایسا کرتا ہے کہ لوگون کے دلوں میں نکمے خیالات ڈال دیتا ہے ۔ وہ خدا کی باتوں کو تو یقین کا درجہ نہیں دیتے، خدا کے احکام کے مقابلہ میں امور عقلی اور حکمت کو زیادہ یقینی سمجھتے ہیں ۔ "فانوسِ قرآن" سے روشنی حاصل کرنے کی بجائے منطق و فلسفہ یونانی کی روشنی حاصل کرنے کی طرف لوگوں کو لگادیتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ، وہ دین و ایمان سے اس طرح عاری ہوجاتے ہیں جس طرح گندھے ہوئے آٹے میں بال صاف نکل اتا ہے۔

[] ایک مکر شیطان کا یہ بھی ہے کہ، شیطان آدمی کو ایسے لوگوں سے خوش خلقی، خندہ روئی، اور خوش گفتاری کو کہتا ہے جن کی بدی سے بچنا بجز ترش روئی اور روگردانی کے ممکن نہیں ۔ اس خوش خلقی اور خندہ روئی کے بعد آدمی کو ان کی بدی سے بچنا مشکل ہوجاتا ہے ۔

[] ایک مکر شیطان کا یہ بھی ہے کہ شیطان انسان کو اپنے نفس کی عزت و حفاظت کا حکم دیتا ہے، جہاں پروردگار کی خوشی نفس کی ذلت و اہانت میں ہے ۔ مثلََا کفار یا منافقوں سے جنگ، یا بدکاروں اور ظالموں کو امربالمعروف و نہی عن المنکر ہیں، شیطان یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ ان باتوں سے تو اپنے نفس کو ذلت میں ڈال کر دشمنوں کو اپنے اوپر غالب کرنا چاہتاہے، ان کے طعنے اپنے اوپر لینا چاہتا ہے، اس کا انجام یہ ہوگا کہ تیری عزت جاتی رہے گی، اس کے بعد نہ کوئی تیری بات مانے گا نہ تیری سُنے گا۔

اور جس جگہ نفس کی بہتری عزت و حفاظت میں ہوتی ہے، وہاں اپنے نفس کو ذلیل و خوار کرنے کو کہتا ہے۔ مثلََا آدمی کو کہتا ہےکہ رئیسوں کے سامنے ذلیل بنا رہ، اور دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ اس امر کے اختیار کرنے سے تیرے نفس کی عزت ہوگی۔

[] شیطان کا ایک مکر یہ بھی ہے کہ اس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے پانسے مقرر کئے ہیں ۔ شریعت اسلام کی رو سے پانسے پھینکنا حرام ہے ۔

[] شیطان کے مکرو فریب میں سے وہ حیلے اور فریب بھی ہیں جو خدا تعالٰی کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرنے یا فرضوں کو ساقط کرنے اور امرونہی کے خلاف کرنے پر شامل ہیں ۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو حیلے مسلمان کے حق کو باطل کرتے ہوں، ان میں سے کوئی بھی درست نہیں۔

[] قرآن مجید میں اصحاب سبت کا حال مذکور ہے۔ یہودیوں کو ہفتہ کے دن شکار کھیلنے کی ممانعت تھی۔ انہوں نے اللہ کے حرام کی ہوئی چیز کو حیلہ کی راہ سے مباح کرلیا ۔ وہ ہفتہ کے روز جال لگا کر چھوڑ دیتے تھے ۔ جو مچھلیاں جال میں پھنس جاتی تھیں ان کو اتوار کےدن صبح کو پکڑ لیتے ۔ اس جرم کی پاداش میں حق تعالٰی نے ان کو بندر بنا دیا ۔ اور کچھ عرصہ عذاب میں رہنے کے بعد سب کے سب مر گئے ۔

[] شیطان نے ہی آتش پرستی، بت پرستی کو رواج دیا ۔ اپنے مکر اور حیلوں بہانوں کے ذریعہ لوگوں کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیا ۔

[] ایک سبب بت پرستی کا یہ بھی ہے کہ شیطان بتوں کے پیٹ میں گھس کر لوگوں سے گفتگو کرتا ہے، غیب یا آئندہ کے حالات جھوٹی سچی اطلاع دیتا ہے ، عوام سمجھتے ہیں کہ بت بات چیت کرتے ہیں ۔ سمجھدار بت پرست اس قسم کی باتوں کو اجرام علویہ کی روحانیات بتاتے ہیں ۔ [اللہ داسی خبائث نه زمونگه حفاظت اُوفرمائیلے کی]
اسی طرح شیطٰن نے بعض مشرکین کو پانی پر پرستش پر لگا دیا ہے ۔ جبکہ بعض مشرکین کو گائے اور دوسرے جانورں کی پُوجا پر لگا رکھا ہے ۔ شیطان مشرکوں سے درختوں کی پُوجا کراتا ہے، جنات کی بھی پُوجا کراتا ہے ۔ طلوع و غروب اور استواء کے وقت آفتاب کو مشرکین سے سجدہ کرواتا ہے، چونکہ ان اوقات میں شیطان سورج سے ملا ہوا ہوتا ہے، اس لئے وہ سجدہ درحقیقت شیطان ہی کو ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حضور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔

[] ایک مکر شیطان کا یہ ہے کہ وہ لوگوں کو عشق مجازی میں مبتلا کرکے خدا تعالٰی کے عشق حقیقی سے محروم کردیتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے دل معشوق مجازی کی محبت میں مبتلا ہوکر معشوق حقیقی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔

[حق تبارک و تعالٰی نےقرآن مجید میں فرمایا ہے__: "شیطان تمہارا دشمن ہے اس کو دشمن ہی سمجھو شیطان کی جماعت تمہیں اپنی طرف لا کر تم کو دوزخی بنانا چاہتی ہے".
شیطان کے مکرو فریب کے جال اتنے وسیع ہیں کہ اس مختصر سی جگہ میں ان کا بیان کردینا مشکل ہے، آگاہی کے لئے نمونہ کے طور پر مندرجہ بالا پوری تفصیل کا لب لباب آپ کی خدمت میں پیش کردیا ۔ اب تو آپ پر روشن ہوگیا ہوگا کہ ابلیس بنی نوع آدم کا بد ترین دشمن ہے. امید ہے آپ اپنی دعاوں میں ضرور یاد فرمائیں گے اور شیطان کی مضرتوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالٰی کے ہاں ہمارے لئے بھی پناہ مانگ لیجئے۔ شکریہ! بکھرے موتی] (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/10/blog-post_12.html?m=1

Saturday, 10 October 2020

"كلتايديه يمين" اور "يطوي السماء بشماله" کے درمیان تطبیق

"كلتايديه يمين" اور "يطوي السماء بشماله" کے درمیان تطبیق

مفتی صاحب پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک حدیث میں ھے کلتا یدیہ یمین 

اور مسلم باب صفت یوم القیمہ والجنت والنار میں ایک حدیث ھے 

جس میں یہ ھے کہ یطوی السماء بشمالہ تو ان دونوں حدیثوں میں تعارض ھے 

ممنون ومشکور فرمائے اور با حوالہ جواب چاھئے 

اجرکم علی اللہ

الجواب وباللہ التوفیق:

ترمذی کی روایت میں اللہ تعالیٰ کے سلسلے میں یہ آیا ہے کہ ان کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔ اولا تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ متشابہات میں سے ہے۔ اور متشابہات میں کھود کرید درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما نے یہ لکھا ہے کہ اللہ کی صفات متشابہات میں صفات کا تو یقین کرنا ہے لیکن کیفیات کی چھان پھٹک نہیں کرنی ہے۔ اس سے بہت سی خرابیوں کے دروازے وا ہوجاتے ہیں۔

بہرحال حدیث پاک میں دونوں ہاتھ داہنے ہیں سے مراد یہ ہے کہ جس طرح عام انسانوں کے ہاتھ کی تعیین شریعت نے مختلف اعمال کے اعتبار سے کی ہے؛ کھانا کھانے کے لیے داہنے کا استعمال کیا جائے، استنجا وغیرہ کے لیے بائیں ہاتھ کا وغیرہ، یہ تعیین انسان کے ہاتھ کے بابرکت ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے ہے۔ یہی صورت حال ہر عمل میں ہے جس میں دائیں اور بائیں کی تعیین کی گئی ہے۔

حدیث شریف میں اسی تقسیم کی نفی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ بابرکت ہیں۔ اس میں تقسیم نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ مخلوقات کے بائیں ہاتھ قوت و طاقت کے اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں۔ جب کہ اللہ کے دونوں ہاتھ پرزور اور قوت میں برابر ہیں۔ اس اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ یمین ہوئے۔

تیسری تاویل یہ کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ عبارت سے اللہ تعالیٰ کے جود و سخا اور انعام و اکرام کی صفات کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کرنا ہے۔ چناں چہ اہل عرب جب کسی کی دریا دلی کو بیان کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں ملتا یدیہ یمین۔

جہاں تک مسلم شریف کا حوالہ دیا ہے تو وہ ہمیں شمال کے لفظ کے ساتھ نہیں ملا۔ بخاری میں بھی یمین کا لفظ ہے، اور مسلم میں بھی یمین ہی کا لفظ ہے۔ لہذا کوئی اشکال باقی نہیں رہنا چاہیے۔

2787 (23) حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَقْبِضُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْأَرْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَيَطْوِي السَّمَاءَ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ؟".

اگر پھر بھی شمال کا لفظ کہیں پر ملتا ہے تو اس سے مراد صرف اتنا ہوسکتا ہے کہ وہاں پر حکایت حال مقصود ہوگی اور کچھ نہیں۔ 

فقط واللہ اعلم باالصواب

سعد مذکر 

——————————

بائیں ہاتھ والی ابن عمر کی روایت صحیح مسلم میں موجود ہے:

يَطْوِي اللَّهُ عزَّ وجلَّ السَّمَواتِ يَومَ القِيامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بيَدِهِ اليُمْنَى، ثُمَّ يقولُ: أنا المَلِكُ، أيْنَ الجَبَّارُونَ؟ أيْنَ المُتَكَبِّرُونَ. ثُمَّ يَطْوِي الأرَضِينَ بشِمالِهِ، ثُمَّ يقولُ: أنا المَلِكُ أيْنَ الجَبَّارُونَ؟ أيْنَ المُتَكَبِّرُونَ؟ : عن عبدالله بن عمر. صحيح مسلم. 2788.

اس ذیل میں ایک پسندیدہ توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ناموں کے اعتبار سے یقیناً یمین و شمال ہیں جیساکہ صحیح و مرفوع روایت سے دونوں ثابت ہے البتہ معنی، مفہوم اور شرف وفضل کے لحاظ سے دونوں "یمین" ہیں۔ "كلتا يديه يمين" والی روایت کے یہی معنی ہیں ۔

تو نام کے لحاظ سے یمین و شمال کی تقسیم ہے اور شرف وفضل اور یمن وبرکت کے لحاظ سے دونوں "یمین" ہیں 

فلا اشکال! 

شکیل منصور القاسمی

https://saagartimes.blogspot.com/2020/10/blog-post_10.html