Friday, 22 August 2025

علم تجوید میں حروف کی صفات کا بیان

علم تجوید میں حروف کی صفات کا بیان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفات کی اہمیت
             جس طرح بغیر مخرج کے حرف ادا نہیں ہوسکتا اسی طرح بغیرصفات کے حرف کامل ادا نہیں ہوسکتا۔ جس طرح حُرُوف کے مخارج الگ الگ ہیں، اسی طرح ہر حرف میں پائی جانے والی صفات بھی جُدا جُدا ہیں۔ صفات کے ساتھ حرف کو ادا کرنے سے ایک ہی مخرج کے کئی حُرُوف آپس میں جُدا اور مُمتاز ہوجاتے ہیں۔ صفات ، صفت کی جمع ہے۔
صفت کا لغوی معنی: صفت کا لغوی معنی ٰ ہے ’’مَا قَا مَ بِشَیْ ئٍ‘‘ جو کسی شے کے ساتھ قائم ہو۔

 صفت کا اصطلاحی معنی: اصطلاح تجوید میں ’’صفت‘‘ حرف کی اس حالت یا کیفیّت کو کہتے ہیں جس سے ایک ہی مخرج کے کئی حُروف آپس میں جُدا اور ممتاز ہوجاتے ہیں۔ مثلاً حرف کا پُر یا باریک ہونا آواز کا بلند یا پست ہونا ، قوی یا ضعیف ہونا، نرم یا سخت ہونا وغیرہ جیسے ’’ص‘‘ اور’’س‘‘ اِن کا مخرج توایک ہے مگر ’’ص‘‘ صفتِ استعلاء اور اطباق کی وجہ سے پُر اور ’’س‘‘ صفتِ استفال اور انفتاح کی وجہ سے باریک پڑھا جاتا ہے۔

 صفات کی اقسام

            صفات کی دوقسمیں ہیں: {۱} صفاتِ لازمہ {۲} صفاتِ عارضہ ۔

 صفاتِ لازمہ کی تعریف: حرف کی وہ صفات جو حرف کے لئے ہروقت ضروری ہوں اور ان کے بغیر حرف ادا نہ ہوسکے یا حرف ناقص ادا ہو۔ مثلاً ’’ظ‘‘ میں صفتِ استعلاء اور اطباق ادانہ کی جائے توحرف ’’ظ‘‘ ادا ہی نہیں ہوگا ۔ حرف کو صفات لازمہ کے ساتھ ادا نہ کرنے سے لحن جلی واقع ہوتی ہے۔ (لمعاتِ شمسیہ حاشیہ فوائد مکیہ، ص۲۱، بتصرف)

 صفاتِ عارضہ کی تعریف: حرف کی وہ صفات جو حرف کے لئے کبھی ہوں اور کبھی نہ ہوں ان کے ادانہ کرنے سے حرف اد اہوجاتاہے لیکن حرف کی تحسین باقی نہیں رہتی ۔ مثلاًرا مفتوحہ کو باریک پڑھنا وغیرہ ۔ یہ صفات آٹھ حُرُوف میں پائی جاتی ہیں جن کا مجموعہ ’’اَوْ یَرْ مُلَانِ‘‘ ہے۔ صفاتِ عارضہ کی غلطی کو ’’لحنِ خفی‘‘ کہتے ہیں ۔ لیکن لحنِ خفی کو چھوٹی اور معمولی غلطی سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کرنا بڑی غلطی ہے۔

صفاتِ لازمہ کی اقسام: صفاتِ لازمہ کی دو قسمیں ہیں:
(1) صفاتِ لازمہ متضادہ     (2) صفاتِ لاز مہ غیرِ مُتَضادہ   
صفاتِ لازمہ مُتَضادہ کی تعریف:
        صفاتِ لازمہ متضادہ وہ صفات ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کی ضدہوں جیسے ’’ہمس‘‘ کی ضد ’’جہر‘‘ اور’’شدّت‘‘ کی ضد ’’ رخاوت‘‘ ہے۔
صفاتِ لازمہ مُتضادہ
صفاتِ لازمہ مُتَضادہ دس۱۰  ہیں۔ جن میں سے پانچ ، پانچ کی ضد ہیں۔
 {1}… ہمس                        {2} … جہر
{3}…شدّت                    {4} … رخاوت
{5}… استعلاء                   {6} … استفال
{7}… اطباق                    {8} … انفتاح
{9}… اذلاق                   {10}… اصمات
 
تفصیل
(1)…ہمس:
          لغوی معنی: ’’پستی‘‘ ۔ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجویدمیں ’’ضعف کی وجہ سے آواز کے پست ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مہموسہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ دس۱۰ ہیں جن کا مجموعہ ’’فَحَثَّہ شَخْصٌ سَکَتْ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُروفِ مہموسہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اس قدر ضعف یعنی کمزوری سے ٹھہرتی ہے کہ سانس جاری رہتا ہے اور آواز پست ہو جاتی ہے۔
(2)…جہر:
         یہ صفت ہمس کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’بلندی‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجویدمیں ’’قُوّت کی وجہ سے آواز کے بلند ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مجہورہ‘‘ کہتے ہیں۔ حروف مہموسہ کے علاوہ باقی انیس ۱۹ حروف مجہورہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ مجہورہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اس قدر قُوّت سے ٹھہرتی ہے کہ اس کے اثر سے سانس کا جاری ہونا موقوف ہوجاتاہے اور آواز بلند ہوجاتی ہے۔
 
(3)…شدّ ت:
        لغوی معنی: ’’سختی‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’قُوّت کی وجہ سے آواز کے سخت ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ شدیدہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ آٹھ۸ ہیں جن کا مجموعہ ’’أَجِدُ قَطٍ بَکَتْ‘‘ ہے ۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ شدیدہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اتنی قُوّت سے ٹھہرتی ہے کہ فوراً بند ہوجاتی ہے اورسخت ہوجاتی ہے۔
(4)…رخاوت:
        یہ صفت’’شدّت ‘‘کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’نرمی‘‘، اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجویدمیں ’’ضعف کی وجہ سے آواز کے نرم ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ رخوہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ سولہ ۱۶ ہیں۔ جو حُرُوفِ شدیدہ اور حُرُوفِ مُتَوسّطہ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ رخوہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اتنے ضعف سے ٹھہرتی ہے جس کی وجہ سے آواز جاری رہتی ہے اور نرم ہوجاتی ہے۔
٭…(توسط): لغوی معنی: ’’درمیان‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’شدّت اور رخاوت کی درمیانی حالت کے ساتھ پڑھنے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُتَوَسّطِہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ پانچ ہیں جن کا مجموعہ ’’لِنْ عُمَرْ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ متوسطہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں نہ تو مکمل بند ہوتی ہے کہ شدّت پیدا ہوجائے اور نہ ہی مکمل جاری رہتی ہے کہ رخاوت پیدا ہوجائے بلکہ اس کی درمیانی حالت رہتی ہے۔
(5)…استعلاء :
           لغوی معنی: ’’بلندی چاہنا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجویدمیں ’’زبا ن کی جڑ کے تالو کی جانب بلند ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُسْتَعْلِیَہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ سات ۷ ہیں جن کا مجموعہ ’’خُصَّ ضَغْطٍ قِظْ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ مستعلیہ کو ادا کرتے وقت زبان کی جڑ تالو کی جانب بلند ہوتی ہے جس کی وجہ سے حُرُوف پُر پڑھے جاتے ہیں ۔
(6)…استفال:
        یہ صفت’’ استعلاء ‘‘ کی ضد ہے ۔ لغوی معنی: ’’نیچائی چاہنا‘‘اصطلاحی معنی : اصطلاحِ تجویدمیں ’’ زبان کی جڑکے تالو کی جانب بلند نہ ہونے ‘‘ کو کہتے ہیں ۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُسْتَفِلَہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ بائیس ۲۲ ہیں جو ’’حُرُوفِ مستعلیہ‘‘ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُروفِ مستفلہ کو ادا کرتے وقت زبان کی جڑ تالو کی جانب بلند نہیں ہوتی بلکہ نیچے رہتی ہے اس لئے یہ حُرُوف باریک پڑھے جاتے ہیں۔
(7)… اطباق:
          لغوی معنی: ’’مل جانا یا ڈھانپ لینا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں  ’’زبان کے پھیل کر تالو سے مل جانے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُطْبَقہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ چار ۴ ہیں جن کا مجموعہ ’’صطظض‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُروفِ مطبقہ کو ادا کرتے وقت زبان تالو سے مل جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ حُرُوف بَہُت ہی پُر پڑھے جاتے ہیں۔
(8)…انفتاح:
        یہ صفت ’’اِطباق‘‘ کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’جُدا رہنا یا کھلا رہنا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’زبان کے تالو سے جُدا رہنے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُنفَتِحَہْ‘‘ کہتے ہیں اور یہ پچیس ۲۵  ہیں جو حُروفِ مطبقہ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ منفتحہ کو ادا کرتے وقت زبان تالو سے جُدا رہتی ہے۔
(9)…اذلاق:
          لغوی معنی: ’’کنارہ‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’حُرُوف کے ہونٹوں، دانتوں اور زبان کے کناروں سے پِھسل کربسہولت ادا ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُذلَقَہ‘‘ کہتے ہیں اوریہ چھ ۶ ہیں جن کا مجموعہ ’’فَرَّ مِنْ لُّبٍّ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ مذلقہ اپنے مخارج سے پِھسل کر بسہولت ادا ہوتے ہیں۔
(10)…اِصمات:
            یہ صفت ’’اِذلاق‘‘ کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’روکنا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’حُرُوف کے مضبوطی اور جماؤ کے ساتھ ادا ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوف مُصْمَتَہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ تیئس ۲۳ ہیں جو کہ حُرُوفِ مذلقہ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ مصمتہ اپنے مخارج سے مضبوطی کے ساتھ جم کر ادا ہوتے ہیں ۔
صفاتِ لازمہ مُتضادہ کے حامل حروف کامجموعہ
نمبر شمار            حُروف                            تعداد                        مجموعہ
 ۱                  حُرُوفِ مہموسہ                     10                         فَحَثَّہ‘ شَخْصٌ سَکَتْ
۲                  حُرُوفِ مجہورہ                       19                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۳                  حُرُوفِ شدیدہ                      8                           أَجِدُ قَطٍ بَکَتْ
۴                  حُرُوفِ رخوہ                       16                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
- -                حُرُوفِ مُتَوَسّطِہ                    5                           لِنْ عُمَر
۵                  حُرُوفِ مُسْتَعْلِیَہ                    7                           خُصَّ ضَغْطٍ قِظْ
۶                  حُرُوفِ مُسْتَفِلَہ                     22                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۷                  حُرُوفِ مُطْبَقَہ                      4                           صطظض
۸                  حُرُوفِ مُنْفَتِحَہْ                     25                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۹                  حُرُوفِ مُذْلَقَہْ                       6                           فَرَّ مِنْ لُّب
۱۰                 حُرُوفِْ مُصْمَتَہْ                     23                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
(منقول) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_22.html

Thursday, 21 August 2025

حینِ حیات ہی محبت اور قدر کا چراغ جلائیں

حینِ حیات ہی محبت اور قدر کا چراغ جلائیں!
-------------------------------
-------------------------------
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
"إِذَا أَحَبَّ الرَّجُلُ أَخَاهُ، فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ" 
(سنن ابی داؤد، حدیث: 5124)
یعنی جب کوئی شخص اپنے بھائی سے محبت کرے تو لازم ہے کہ وہ اسے اس محبت کی خبر دے۔
یہ چراغِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ روشنی عطا کرتا ہے کہ  کسی کی محبت اور قدر کا اعتراف واظہار ہمیشہ اُس کی زندگی میں ہی کرنا چاہیے، افسوس کہ ہم اکثر اس نور کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور موت کے بعد اس کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔ مرحوم کے محاسن بیان کرنا یقیناً ایک نیک عمل ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ پس مرگ الفاظ کی ستائش صرف گنبد کی بازگشت بن کر رہ جاتی ہے، نہ کانوں تک پہنچتے ہیں، نہ دلوں تک رسائی نصیب ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں یہ ایک عام رجحان ہے کہ اہلِ کمال کی خوبیوں اور نیک سیرت کا اعتراف زندگی میں کم ہی کیا جاتا ہے۔ غفلت وبے اعتنائی، حسد و رقابت و معاصرت، اور سماجی رسم و رواج کا جمود ان چراغوں کو موہوم کردیتا ہے، اور نتیجۃً انسان کی عظمت وکمالات کا تذکرہ اُس وقت کیا جاتا ہے جب وہ خاک کی آغوش میں جاچکا ہو اور سننے کی طاقت سے محروم ہو۔
حالانکہ عقل و دانش یہی بتاتی ہے کہ سب سے بیش بہا وقت اعتراف و تعریف کا وہ ہے جب انسان زندہ ہو۔ اس وقت محبت کے الفاظ نہ صرف کانوں تک پہنچتے ہیں بلکہ دل میں اتر کر روح کو تازگی بخشتے ہیں۔ یہ اعتراف کسی کو مایوسی سے نکال کر حوصلہ عطا کرتا ہے اور نیکی و بھلائی کے سفر میں اس کے قدموں کو مزید استقامت بخشتا ہے۔ لوگوں کو ان کی شخصیت سے قریب کرتا ہے اور ان سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
بعد از مرگ کی گئی تعریف محض یادوں کے سائے رہ جاتے ہیں، جو لواحقین کے لیے تسلی کا سبب تو بن سکتی ہے مگر مرحوم کے لیے بے اثر ہے۔ لیکن زندگی میں کی جانے والی تعریف اور محبت ایک زندہ حقیقت ہے؛ یہ الفاظ زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، دلوں کو جوڑتے ہیں، رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں اور انسانیت کے چراغ کو منور کرتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اہلِ علم ہوں یا اہلِ فضل، دوست ہوں یا رشتہ دار، ہم ان کی نیکیوں اور خوبیوں کو پہچانیں، ان کی عظمت اور محاسن وکمالات کا اعتراف کریں اور وقت پر خراجِ تحسین پیش کریں۔ یہی حقیقی خیرخواہی ہے، اور یہی وہ نور ہے جو قلوب کو گرماتا اور معاشرے کو خوشبوؤں سے معمور کرتا ہے۔
(جمعرات 26 صفرالمظفر 1447ھ 21 اگست 2025ء
21 اگست، 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_21.html

Wednesday, 20 August 2025

مختلف قہوہ جات اور ان کے طبی فوائد کیا ہیں؟

مختلف قہوہ جات اور ان کے طبی فوائد کیا ہیں؟
آج کل چائے کا استعمال حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ چائے صحت کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے، خاص طور پر جب اس میں ملاوٹ شدہ پتی، چینی اور ناقص دودھ استعمال کیا جائے۔ اس کے برعکس قہوہ جات قدرتی جڑی بوٹیوں سے تیار ہوتے ہیں اور صحت کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں چند مفید قہوہ جات اور ان کے طبی فوائد:
☕ لونگ، دارچینی قہوہ:
اینٹی سیپٹک، بلغم ختم کرے، بھوک بڑھائے، جگر کو طاقت دے، جسم کی فالتو چربی کم کرے، پتھری میں مفید۔
☕ ادرک قہوہ:
ہاضمہ بہتر، بھوک میں اضافہ، ریاح خارج کرے، رنگت نکھارے۔
☕ تیز پات قہوہ:
دل، دماغ اور معدے کے لئے طاقتور، سردرد میں مفید۔
☕ اجوائن قہوہ:
ریاح کا خاتمہ، بخار میں فائدہ مند، گرمی کے امراض میں مفید۔
☕ گل بنفشہ قہوہ:
کھانسی، نزلہ، گلے کی خراش، سانس کی بندش میں شفاء۔
☕ گورکھ پان قہوہ:
خون کی صفائی، خارش کا خاتمہ، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول میں کمی۔
☕ ادرک + شہد قہوہ:
سردی، کھانسی، بند ناک اور موسمی اثرات سے تحفظ۔
☕ انجبار قہوہ:
دست بند کرے، آنتوں کو مضبوط بنائے، ٹانگوں کے درد میں مفید۔
☕ ڈاڑھی بوڑھ قہوہ:
فالج، لقوہ اور مردانہ/زنانہ کمزوریوں میں مفید۔
☕ گل سرخ قہوہ:
بلغم ختم، قبض دور، جسم کو نرم اور ہلکا رکھے۔
☕ کالی پتی قہوہ:
کمزوری ختم، پسینہ لائے، خون کی روانی تیز، سردی میں طاقتور۔
☕ لیمن گراس قہوہ:
بلغم، نزلہ، اسہال، لو بلڈ پریشر میں مفید۔
☕ زیرہ سفید + الائچی قہوہ:
معدے کی تیزابیت، بواسیر، بھوک بڑھانے اور ہاضمے کے لئے بہترین۔
☕ سونف قہوہ:
ریاح، کھانسی، معدے کی جلن، ہاضمے اور بھوک کے لئے مفید۔
☕ بادیان خطائی + دارچینی + الائچی قہوہ:
قوت ہاضمہ اور بھوک میں اضافہ، چائے کی عادت سے نجات۔
☕ بنفشہ + ملیٹھی قہوہ:
سینے کی جلن، کھانسی، قبض اور گلے کی خراش کا مؤثر علاج۔
☕ بہی دانہ + بنفشہ قہوہ:
نزلہ، دل اور گردے کے درد، پیشاب کی جلن، قبض میں فائدہ مند۔
☕ بنفشی قہوہ:
دائمی کھانسی، کیرا، ریشہ، نزلہ اور ہر موسم کے لئے مؤثر۔
🍵 مختصر یہ کہ چائے کی جگہ قہوہ اپنائیں، صحتمند زندگی پائیں! (منقول)
نوٹ: مزاجوں میں اختلاف کے سبب کسی بھی نسخے پر عمل پیرا ہونے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ ضرور کرلیں۔ ( #ایس_اے_ساگر ) 
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_20.html
#fypシ゚viralシfyp #LifeCare #like #share #comment #followme

Tuesday, 19 August 2025

علومِ شرعیہ کے حصول میں محنت و مشقت کی حقیقت

علومِ شرعیہ کے حصول میں محنت و مشقت کی حقیقت

-------------------------------
-------------------------------
سوال: حضرت مفتی صاحب، ویڈیو میں سختی سے متعلق‌ وحی سے جو استدلال کررہے‌ ہیں اس کے بارے میں آپ کی قیمتی آراء واطمینان بخش استدلال کا انتظار ہے۔
اعجاز احمد القاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
علومِ شرعیہ کا حصول پھولوں کی سیج نہیں، بلکہ صبر و ثبات،ریاضت، محنت و مشقت اور جہدِ مسلسل کا متقاضی ہے۔ علم کا نور اسی وقت میسر آتا ہے جب طالبِ علم اپنی راحت قربان کرے، اپنے نفس کو تھکائے اور مشقت کو گلے لگائے۔ جس طرح شمع اپنی روشنی کے لیے خود کو پگھلا دیتی ہے، اسی طرح علم کے متلاشی کو بھی اپنی ذات کو محنت کی بھٹی میں ڈالنا پڑتا ہے۔

ابتدائے وحی کے واقعے میں بھی یہی حقیقت جھلکتی ہے۔ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو سیدِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے ثقل اور شدت کو برداشت کرنا پڑا۔ حدیثِ پاک کے الفاظ "حَتّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ" اس بات کی شہادت ہیں کہ وحی کا تحمل آسان نہ تھا۔ یہ کیفیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے کے لیے قطعی نہ تھی، بلکہ اس امر کی علامت تھی کہ وحی کا بار گراں ہے اور اسے اٹھانے کے لیے غیر معمولی صبر، حوصلے اور استقامت کی ضرورت ہے۔

میری رائے میں اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے خطیبِ محترم سے تعبیر میں کچھ لغزش ہوئی ہے۔ اہلِ علم کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ حدیث بدءِ وحی کا تعلق تعلیم و تربیتِ اطفال سے نہیں ہے۔ یہ تو جبریل امین اور حضور سید انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے۔ نہ جبریل انسانی معلم تھے اور نہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچے تھے۔اس بنیاد پر اگر کوئی بچوں کو مارنے، تکلیف دینے یا ان کی تادیب پر اس حدیث سے استدلال کرے تو یہ علمی اصول استدلال کے خلاف ہے۔ اس باب میں استدلال اُن صحیح نصوص سے کیا جائے گا جو براہِ راست تربیتِ اطفال پر وارد ہوئی ہیں، جیسے نماز کی تعلیم اور دس برس کی عمر میں تادیب سے متعلق احادیث۔ یہی طرز علمی دیانت اور اصولِ استنباط کے مطابق ہے۔

باب بدء الوحي - باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله 

…..عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا، قَالَتْ: "أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ، فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي لْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: "اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2 } اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ {3} " سورة العلق آية 1-3، فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ …الحديث (صحيح البخاري 3,4) 

 لہٰذا جبریلِ امین اور سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین وحی کی ابتدائی کیفیت کو بچوں کی تعلیم و تربیت یا انہیں اذیت پہنچانے پر منطبق کرنا محلِ نظر ہے، بلکہ علمی قواعد کے منافی ہے۔ اس واقعے کا من جملہ پیغام یہ ہے کہ دین کے علم کا حصول قربانی، صبر اور محنت کے بغیر ممکن نہیں۔

البتہ حصولِ علم کی راہ میں تحملِ مشقت کے لیے اس واقعے سے فی الجملہ استدلال کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اسے بچوں کو تکلیف دینے یا مارنے پر دلیل بنانا کسی طور درست نہیں۔

واللہ أعلم بالصواب

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com

مركز البحوث الإسلامية العالمي 

(منگل 24 صفرالمظفر 1447ھ 19 اگست 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_17.html



 




دین کی مددگار جماعت

 دین کی مددگار جماعت 

ہمارے فضلاء تبلیغ پر برسنے کے لئے بہانے اچکتے ہیں، یہ رویہ اذیت ناک ہے، ہر کس وناکس جست لگاتا ہے، ہم تبلیغ کے رہین احسان ہیں، محسن کے تسامح اور تجاوز کی اصلاح مثبت رنگ میں کی جاتی ہے، ان کی عیب جوئی احسان فراموشی ہے، یہ حروف تبلیغی جماعت کے احسان مند ہیں، والد گرامی تاجر تھے، ان کو معاون درکار تھے، چچا جان امیر جماعت تھے، انھوں نے مدرسہ دکھایا، تبلیغیوں نے جان کی بازی لگا کر مسجدیں ہمارے لئے فتح کیں، میرے گردونواح میں چھ مساجد ہیں، ایک چھوٹی مسجد کے علاوہ سب دیوبندی ہیں، جماعتیوں نے مار کھائی اور یہ مسجدیں جیت کر دیوبند کو تفویض کیں، چھ مساجد کے علاوہ تین مصلے ہیں، سب تبلیغیوں نے قائم کیے ہیں۔
اسلام کے دامن میں مجددین کی کمی نہیں؛ مگر کام اور محنت کے رنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ مجدد کا نام مولانا الیاس علیہ الرحمہ ہے، ان کی تیار کردہ جماعت ایمان وعمل کی میزان میں صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی سب سے بڑی مثال ہے، ان دعوؤں کی تردید آسان نہیں، جہنم کی گرم بازاری کے دور میں حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ کا نمود ہوا اور انھوں نے اپنی فنائیت اور فدائیت سے جنت کو گرم بازار اور جہنم کو کساد بازار بنا دیا۔
تبلیغیوں سے تصادم کا حل اپنائیت کے رنگ میں تلاش کریں، راقم نے محلہ بڑ ضیاء الحق دیوبند میں قیام کے دوران مسجد عالی شان میں دس سال تفسیر بیان کی، ابتدا میں عشا کے بعد والا وقت میری ترجیح تھی، تبلیغی بھائیوں نے مشورے وغیرہ کا عذر رکھا، ان کے نکات اہم نہیں تھے؛ مگر میں نے ان کی بات رکھ لی اور فجر بعد کا وقت منتخب کیا، دس سالہ میعاد میں پچیس پاروں کی تفسیر ہوئی، تبلیغ کے تمام احباب پابندی سے شریک رہتے، کبھی کوئی ناگواری پیش نہیں آئی، دارالمدرسین کی تعمیر کے بعد ادھر منتقل ہوا تو سلسلہ موقوف ہوا، فجر کی نماز میں وہاں پہنچنا مشکل تھا۔
تبلیغ ایک مستقل راہ ہے، خود مدارس با ہم شاکی ہیں؛ جب کہ مدارس کا طریق ایک ہے، میں یک مشربی مدارس کی مثال دے رہا ہوں، دوریاں غیر معمولی ہیں؛ لیکن ہم سکوت اختیار کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ مخالف بھی منہ میں زبان رکھتا ہے، ہاں تبلیغی بے زبان ملے، اصلاح کا گرز ان پر بے رحمانہ چلتا ہے، یہ اپنے ہیں، ان کی گرفت دوستانہ ہو، دو مدرسے متفق نہیں، تبلیغ تو پھر جداگانہ منہج ہے۔
نظریاتی کام کی فطرت یہ ہے کہ وہ غلو اور مبالغے کے بغیر قائم نہیں ہوتا؛ حالاں کہ غلو ممنوع ہے، یہ اعتراض سب پر وارد ہے، قدیم محدثین پر بالخصوص، ان کے احوال محفوظ ہیں، جس سرگذشت کو ہم قربانی کہتے ہیں اس پر سنجیدہ شرعی اشکال ہیں، حقوق متاثر ہوے، جس حد تک وہ گئے وہ صریح تجاوز ہے؛ لیکن اسی مبالغے نے دین زندہ کیا، کام ایسے ہی ہوتا ہے، کوئی اہم مضمون پورا کرنا ہو تو رات کالی ہوتی ہے، یہ بھی شرعا منع ہے، حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ تو تبلیغ کے ماسوا گفتگو سننے کے متحمل نہیں رہ گئے تھے، بیمار ہو جاتے تھے۔
جس طرح دو مدرسوں کے تعصب اور تحزب سے فرقے نہیں بنتے؛ اسی طرح اہل حق کی جماعتوں کے جداگانہ رنگ وآہنگ سے فرقہ وجود میں نہیں آتا، ہاں وہ اپنے کام کی افضلیت پر مصر ہوتے ہیں اور یہ دعوی سب جگہ ہے، میں ایک تنظیم سے اگر وابستہ ہوں تو الگ سے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میرے نزدیک وہی تنظیم سب سے افضل ہے، فنائیت اور فدائیت کے بغیر کوئی نقش وجود میں نہیں آیا، وہ عمل میں آگے نکل گئے ہیں، آپ پیچھے رہیں گے تو الزام تو آئے گا، پھر آپ بے تکی باتیں کرتے ہیں، ایک تبلیغی بھائی نے بتایا کہ فلاں مسجد کے امام صاحب بر سر منبر کہہ رہے تھے کہ میرا سونا تمھاری رات بھر عبادت سے افضل ہے، تبلیغی کارکنان ہدف تھے۔
تبلیغی سادہ لوح ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ اعراب کہلاتے تھے، آپ ان کی سادگی کے قدردان تھے، لا ازید ولا انقص کو قبول کر لیتے تھے، جب کہ یہ واجب التاویل ہے، ان کی تعبیرات میں تحقیق وتنقیح ممکن نہیں، یہ علما کی شان ہے، بیشتر گرفت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی بات کہہ نہیں پاتے، یہ جواب دہی بھی اہل علم کی ہے، وہ اس تنقیح کے اہل نہیں کہ ہر میدان کی اہمیت ہے اور ہر میدان کے رجال کار ہیں، وہ مینڈک ہیں اور ماورا سے بے خبر اور بے نیاز ہیں؛ مگر آپ فرق کے اہل ہیں، آپ کی بے جا عیب جوئی لائق عذر نہیں۔
کل ہماری مسجد کی جماعت کمیٹی نے طلبہ یعنی عصری اداروں کے اسٹوڈنٹس کا جوڑ رکھا تھا، از عصر تا عشا مسجد میں ایمان کی باد بہار دیدنی تھی، رمضان کا سماں رہا، اس فرق کے ساتھ کہ رمضان میں ہر عمر کے نمازی ہوتے ہیں، کل بیشتر مجمع نو عمر تھا، تبلیغ کی کراؤڈ پلنگ طاقت منفرد ہے، ہمارے اشتہار بھی کم پڑ جاتے ہیں اور ان کا خفیہ نیٹ ورک اجتماع گاہ بھر دیتا ہے، حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ کی کرامت دیکھی کہ ماڈرن ماحول کے نوجوان کرتے پائے جامے اور جبے میں تھے، ان کا دم گرم ہے کہ جدید طبقہ باریش ہوجاتا ہے، ڈاڑھی، نماز، لباس، پردہ، بچوں کی مذہبی تعلیم اور دین کے تمام مظاہر میں ان کی سبقت بانی تبلیغ کے اعمال نامے کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
میں 1997 اور 1998 میں دو مرتبہ چلے کی جماعت میں گیا تھا، یہ طلبۂ دارالعلوم کی تعطیل کلاں والی جماعت تھی، زندگی کا بہترین روحانی تجربہ ثابت ہوا، جماعت کی سرگرمیوں کے جلو میں انفرادی ترقی ہوئی تھی، تہجد کی پابندی عام تھی، یاد ہے کہ رونا بھی نصیب ہوتا تھا، میرے یہ دو چلے ازدواج میں کام آئے، سسرال کٹر تبلیغی ہے، نانا سسر سینئر ترین ذمے دار تھے، نوے سال کی عمر میں جماعت ہی میں اللہ کو پیارے ہوئے، جمعے کا دن تھا، عصر کی سنتوں کے بعد فرض کے منتظر تھے بے توازن ہوگئے، سسر صاحب فنا فی التبلیغ ہیں، اس نسبت سے براعظموں کے راہ نورد ہیں، میرے رشتے کے وقت ایک سال کی بحث اٹھی تھی؛ مگر میری خصوصیات کے پیش نظر دو چلے کافی مان لئے گئے، میری بچی تبلیغ میں چلنے کا مزہ دیکھ نظم چلا کر میرے قریب کردیتی ہے، یہ سب غلو ہے؛ مگر میں انجوائے کرتا ہوں، یہ اپنے ہیں اور اپنے کام کی دعوت دیتے ہیں۔
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری 
23 صفر 1447ھ 18 اگست 2025ء ( #ایس_اے_ساگر )


Saturday, 2 August 2025

دعوت دینے والے کی روحانی طاقت پانچ چیزوں میں

دعوت دینے والے کی روحانی طاقت پانچ چیزوں میں
حضرت مولانا یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:
دعوت دینے والے کی روحانی طاقت پانچ چیزوں میں ہے:
1. مسواک کا استعمال – جو منہ کی صفائی کے ساتھ دل کی روشنی بھی لاتا ہے۔  
2. قرآنِ کریم کی تلاوت مصحف سے – کہ آنکھوں سے الفاظ دیکھ کر پڑھنا دل پر اثر ڈالتا ہے۔  
3. ہمیشہ باوضو رہنا – طہارت دل و دماغ کو پاکیزگی دیتی ہے۔  
4. نمازِتہجد کا اہتمام – جو بندے کو رات کے سکوت میں اللہ سے جوڑتی ہے۔  
5. نگاہوں کی حفاظت – جو دل کو گناہوں سے بچاتی ہے اور ایمان میں نور بھرتی ہے۔
مولانا رحمت اللہ علیہ فرماتے:  
جس نے اپنی نظر کو قابو میں رکھا، وہ ایمان کی مٹھاس چکھے گا اور اس کے دل میں نور پیدا ہوگا۔
اور اگر نظر کی حفاظت نہ کی تو یہ پانچ بڑے نقصان ہوں گے:
1. نماز کی تکبیر اُولیٰ سے محرومی۔
2. نمازِ تہجد کی توفیق چھن جانا۔
3. رزق سے برکت کا ختم ہونا۔
4. قرآن اور دعائیں بھول جانا۔
5. ایمان کی حالت میں موت کا خطرہ زیادہ ہونا ( #ایس_اے_ساگر )

Monday, 28 July 2025

یہ معصوم مر رہے ہیں… تم کہاں ہو؟

 یہ معصوم مر رہے ہیں… تم کہاں ہو؟

-------------------------------

غزہ جل رہا ہے، آسمان خاک آلود ہے، زمین لہو سے لالہ زار!

ماں کی گود میں تڑپتے معصوم، بھوک کی چٹان سے ٹکرا کر دم توڑ رہے ہیں،

مائیں اپنی چھاتیوں سے خون چوسوانے پر مجبور ہیں،

اور امتِ مسلمہ کے ایوانوں میں بے حسی کا جنازہ اٹھ چکا ہے!

عالم اسلام کے سپہ سالار، حکمران اور جرنیل

سہولتوں کے قلعوں میں بیٹھے،

چائے کی چسکیوں میں شریعت اور حمیت کا خون پی رہے ہیں!


اے عاصم خالی!

اے پاکستان کے نام نہاد فولادی لشکر کے سپہ سالار!

تو نے لا الٰہ الا اللہ کا ورد پڑھ کر عہد کیا تھا کہ “جہاں ظلم ہوگا، وہاں تیغ اٹھے گی”

تو نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ “ہم اسلام کے محافظ ہیں”

تو پھر آج تیرے توپ خانے پر موت کا سکوت کیوں طاری ہے؟

کیا تیرے میزائل غزہ کی سمت اُڑنے سے انکاری ہیں؟

کیا تیرے ڈرون صرف افغان بچوں کے لیے رہ گئے ہیں؟

کیا تیری گولیاں صرف اپنی قوم کے مظلوموں پر برسنے کے لیے بنائی گئی ہیں؟


تو کہاں ہے، جنرل؟

کیا تیری وردی کا وقار صرف تقریروں، پریڈوں اور ٹی وی اشتہاروں تک محدود رہ گیا؟

کیا غزہ کے خون آلود بستروں پر سسکتے نوزائیدہ تیرے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں؟

کیا وہ معصوم بچی، جو اپنے شہید باپ کے سینے سے لپٹ کر دم توڑ گئی —

تیرے آہنی دل کو نہیں چیر سکی؟


اے وردی پوش!

یہ وردی عزت ہے یا زنجیر؟

یہ ستارے کیا صرف یونیفارم کی زیبائش ہیں؟

یا پھر شہداء کے لہو کی قسمیں، جنہیں تم نے بھلا دیا؟

تاریخ نہ تمہیں تمغوں سے یاد رکھے گی، نہ تمہاری پریس کانفرنسوں سے —

بلکہ وہ تمہیں پکارے گی:

“یہ وہ سالار تھا،

جو کعبہ کی سمت چلنے کے بجائے

اپنے اقتدار کے بت کو سجدہ کرتا رہا!”


اب سن لے، جنرل!

 جب غزہ کے بچے بھوک سے مر رہے تھے، تو تم میٹنگ میں تھے!

جب بیت المقدس کی ماؤں نے چیخ کر مدد مانگی، تو تم پروٹوکول کی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے!

 جب تاریخ نے امت کے محافظ کو پکارا، تو تم خاموشی کی پناہ میں چھپ گئے!

 جب تمہارے میزائل غزہ کے لیے نکلنے چاہیے تھے، تو وہ مظاہروں کو کچلنے میں استعمال ہو رہے تھے!


اے نام نہاد سالارو!

یاد رکھو —

غزہ کے ایک بچے کی آہ، تمہاری پوری فوج کی بنیادیں ہلا سکتی ہے!

ایک شہید ماں کی سسکی، تمہارے توپ خانے کو راکھ میں بدل سکتی ہے!

اور ایک زخمی باپ کی فریاد، تمہارے تمام میڈلز کو خاک میں ملا سکتی ہے!


اٹھو! اگر ایمان باقی ہے

تو راکٹوں کی زبان میں جواب دو —

ورنہ اپنی وردی اتار کر

کسی مصلحت کے قبرستان میں دفن ہو جاؤ!


اور اب آو، نظر دوڑاؤ “خادمِ حرمین” کے ایوانوں کی طرف—

جہاں سونے کے محلوں میں رقصِ شیطانی کی محفلیں سجی ہیں،

جہاں بن سلمان کی محافل میں موسیقی کی لے پر کعبہ کی سمت پیٹھ کر کے، دنیاوی تاج کے لیے سجدے کیے جا رہے ہیں!


اے  بن سلمان!

تو نے اپنے باپ دادا کی غیرت بیچ دی!

تو نے حرمین کی عظمت کے بدلے ہالی ووڈ کا گلیمر خریدا!

تو نے ان ہاتھوں کو تھاما جن کے خون میں معصوم فلسطینی بچوں کی چیخیں بسی ہیں!

تو نے اسرائیلی قاتلوں کو اپنی سرزمین کی چاندنی بخش دی،

اور اپنے فلسطینی بھائیوں کو بھوک، بارود اور بے کسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا!


تو عیاش شہزادہ!

تُو ساحلوں پر فیشن شو کروا کر سمجھتا ہے کہ یہ ترقی ہے؟

تُو سمجھتا ہے کہ بیت المقدس کے سودے پر تیرے محلات مضبوط ہو جائیں گے؟

یاد رکھ —

جب حطین کا سلطان ایوبی پلٹ کر آئے گا،

تو نہ تیری آرائش بچے گی، نہ تیری بادشاہی!


تُو “خادمِ حرمین” کہلاتا ہے —

لیکن تیرے دربار میں یروشلم کے غاصب سفیروں کے لیے قالین بچھتے ہیں،

جبکہ مسجد اقصیٰ کے نمازیوں پر گولیوں کی بارش ہوتی ہے!

تُو کس امت کا خادم ہے؟

جس کے دشمنوں کے ساتھ رقص کرتا ہے؟

جس کی مظلوم بیٹیوں کی چیخوں پر تیری موسیقی تیز ہو جاتی ہے؟


بن سلمان سن لے!

تُو کعبہ کا سایہ لے کر، تل ابیب کے خواب دیکھتا ہے؟

تُو حرم کی مٹی میں غداروں کے قدم بساتا ہے؟


تُو محمد ﷺ کے نام پر حکومت کرتا ہے، مگر یہود کا جھنڈا بلند کرتا ہے؟


یاد رکھ!

خانہ کعبہ کے طواف کرنے والے عرب،

ایک دن تیری بادشاہی کا طواف ختم کر دیں گے!

اور فلسطین کی ماؤں کے آنسو،

تیرے تیل سے بھی زیادہ جلانے والی آگ بن جائیں گے ان شاء اللہ !


اور وہ باقی عیاش حکمران!


ذرا قاہرہ کی گلیوں کی طرف دیکھو —

جہاں ایک جنرل، جس نے اپنے ہی عوام کا خون بہایا،

اب اسرائیلی خوشنودی کے عوض فلسطین کی لاشوں پر خاموش ہے!

نہ زبان کھلتی ہے، نہ سر اٹھتا ہے —

بس کرسی ہے، اقتدار ہے، اور امریکہ کا سایہ ہے!


اور ابوظہبی کے شہزادے!

جنہوں نے اپنے محلات کو اسرائیلی پرچموں سے آراستہ کیا،

جن کی راتیں تماشوں میں گزرتی ہیں،

اور جنہوں نے القدس کے سودے کو “امن” کا نام دے کر پوری امت کو فریب دیا!


یہ سب نئے فرعون ہیں —

جن کی تلواریں صرف اپنی عوام کے خلاف چلتی ہیں،

جن کے دل امت کے درد سے خالی،

اور جن کی زبانیں صیہونی ظلم کے سامنے گونگی ہیں!


یاد رکھو!

فلسطین کے بچوں کا لہو، نہ تمہیں چھوڑے گا، نہ تمہارے محلات کو!

جب تاریخ جاگے گی —

تو نہ تمہارا تیل بچے گا، نہ تمہاری تخت گاہیں!

بس باقی رہ جائے گا…

اللہ، مظلوم، اور شہید کا لہو!

(۳۰ محرم ۱۴۴۷ ہجری)