Sagar Times
Friday, 22 August 2025
علم تجوید میں حروف کی صفات کا بیان
Thursday, 21 August 2025
حینِ حیات ہی محبت اور قدر کا چراغ جلائیں
Wednesday, 20 August 2025
مختلف قہوہ جات اور ان کے طبی فوائد کیا ہیں؟
Tuesday, 19 August 2025
علومِ شرعیہ کے حصول میں محنت و مشقت کی حقیقت
علومِ شرعیہ کے حصول میں محنت و مشقت کی حقیقت
--------------------------------------------------------------سوال: حضرت مفتی صاحب، ویڈیو میں سختی سے متعلق وحی سے جو استدلال کررہے ہیں اس کے بارے میں آپ کی قیمتی آراء واطمینان بخش استدلال کا انتظار ہے۔اعجاز احمد القاسمیالجواب وباللہ التوفیق:علومِ شرعیہ کا حصول پھولوں کی سیج نہیں، بلکہ صبر و ثبات،ریاضت، محنت و مشقت اور جہدِ مسلسل کا متقاضی ہے۔ علم کا نور اسی وقت میسر آتا ہے جب طالبِ علم اپنی راحت قربان کرے، اپنے نفس کو تھکائے اور مشقت کو گلے لگائے۔ جس طرح شمع اپنی روشنی کے لیے خود کو پگھلا دیتی ہے، اسی طرح علم کے متلاشی کو بھی اپنی ذات کو محنت کی بھٹی میں ڈالنا پڑتا ہے۔ابتدائے وحی کے واقعے میں بھی یہی حقیقت جھلکتی ہے۔ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو سیدِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے ثقل اور شدت کو برداشت کرنا پڑا۔ حدیثِ پاک کے الفاظ "حَتّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ" اس بات کی شہادت ہیں کہ وحی کا تحمل آسان نہ تھا۔ یہ کیفیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے کے لیے قطعی نہ تھی، بلکہ اس امر کی علامت تھی کہ وحی کا بار گراں ہے اور اسے اٹھانے کے لیے غیر معمولی صبر، حوصلے اور استقامت کی ضرورت ہے۔
میری رائے میں اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے خطیبِ محترم سے تعبیر میں کچھ لغزش ہوئی ہے۔ اہلِ علم کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ حدیث بدءِ وحی کا تعلق تعلیم و تربیتِ اطفال سے نہیں ہے۔ یہ تو جبریل امین اور حضور سید انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے۔ نہ جبریل انسانی معلم تھے اور نہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچے تھے۔اس بنیاد پر اگر کوئی بچوں کو مارنے، تکلیف دینے یا ان کی تادیب پر اس حدیث سے استدلال کرے تو یہ علمی اصول استدلال کے خلاف ہے۔ اس باب میں استدلال اُن صحیح نصوص سے کیا جائے گا جو براہِ راست تربیتِ اطفال پر وارد ہوئی ہیں، جیسے نماز کی تعلیم اور دس برس کی عمر میں تادیب سے متعلق احادیث۔ یہی طرز علمی دیانت اور اصولِ استنباط کے مطابق ہے۔
باب بدء الوحي - باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله
…..عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا، قَالَتْ: "أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ، فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي لْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: "اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2 } اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ {3} " سورة العلق آية 1-3، فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ …الحديث (صحيح البخاري 3,4)
لہٰذا جبریلِ امین اور سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین وحی کی ابتدائی کیفیت کو بچوں کی تعلیم و تربیت یا انہیں اذیت پہنچانے پر منطبق کرنا محلِ نظر ہے، بلکہ علمی قواعد کے منافی ہے۔ اس واقعے کا من جملہ پیغام یہ ہے کہ دین کے علم کا حصول قربانی، صبر اور محنت کے بغیر ممکن نہیں۔
البتہ حصولِ علم کی راہ میں تحملِ مشقت کے لیے اس واقعے سے فی الجملہ استدلال کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اسے بچوں کو تکلیف دینے یا مارنے پر دلیل بنانا کسی طور درست نہیں۔
واللہ أعلم بالصواب
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com(منگل 24 صفرالمظفر 1447ھ 19 اگست 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_17.html
دین کی مددگار جماعت
دین کی مددگار جماعت
ہمارے فضلاء تبلیغ پر برسنے کے لئے بہانے اچکتے ہیں، یہ رویہ اذیت ناک ہے، ہر کس وناکس جست لگاتا ہے، ہم تبلیغ کے رہین احسان ہیں، محسن کے تسامح اور تجاوز کی اصلاح مثبت رنگ میں کی جاتی ہے، ان کی عیب جوئی احسان فراموشی ہے، یہ حروف تبلیغی جماعت کے احسان مند ہیں، والد گرامی تاجر تھے، ان کو معاون درکار تھے، چچا جان امیر جماعت تھے، انھوں نے مدرسہ دکھایا، تبلیغیوں نے جان کی بازی لگا کر مسجدیں ہمارے لئے فتح کیں، میرے گردونواح میں چھ مساجد ہیں، ایک چھوٹی مسجد کے علاوہ سب دیوبندی ہیں، جماعتیوں نے مار کھائی اور یہ مسجدیں جیت کر دیوبند کو تفویض کیں، چھ مساجد کے علاوہ تین مصلے ہیں، سب تبلیغیوں نے قائم کیے ہیں۔
اسلام کے دامن میں مجددین کی کمی نہیں؛ مگر کام اور محنت کے رنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ مجدد کا نام مولانا الیاس علیہ الرحمہ ہے، ان کی تیار کردہ جماعت ایمان وعمل کی میزان میں صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی سب سے بڑی مثال ہے، ان دعوؤں کی تردید آسان نہیں، جہنم کی گرم بازاری کے دور میں حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ کا نمود ہوا اور انھوں نے اپنی فنائیت اور فدائیت سے جنت کو گرم بازار اور جہنم کو کساد بازار بنا دیا۔
تبلیغیوں سے تصادم کا حل اپنائیت کے رنگ میں تلاش کریں، راقم نے محلہ بڑ ضیاء الحق دیوبند میں قیام کے دوران مسجد عالی شان میں دس سال تفسیر بیان کی، ابتدا میں عشا کے بعد والا وقت میری ترجیح تھی، تبلیغی بھائیوں نے مشورے وغیرہ کا عذر رکھا، ان کے نکات اہم نہیں تھے؛ مگر میں نے ان کی بات رکھ لی اور فجر بعد کا وقت منتخب کیا، دس سالہ میعاد میں پچیس پاروں کی تفسیر ہوئی، تبلیغ کے تمام احباب پابندی سے شریک رہتے، کبھی کوئی ناگواری پیش نہیں آئی، دارالمدرسین کی تعمیر کے بعد ادھر منتقل ہوا تو سلسلہ موقوف ہوا، فجر کی نماز میں وہاں پہنچنا مشکل تھا۔
تبلیغ ایک مستقل راہ ہے، خود مدارس با ہم شاکی ہیں؛ جب کہ مدارس کا طریق ایک ہے، میں یک مشربی مدارس کی مثال دے رہا ہوں، دوریاں غیر معمولی ہیں؛ لیکن ہم سکوت اختیار کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ مخالف بھی منہ میں زبان رکھتا ہے، ہاں تبلیغی بے زبان ملے، اصلاح کا گرز ان پر بے رحمانہ چلتا ہے، یہ اپنے ہیں، ان کی گرفت دوستانہ ہو، دو مدرسے متفق نہیں، تبلیغ تو پھر جداگانہ منہج ہے۔
نظریاتی کام کی فطرت یہ ہے کہ وہ غلو اور مبالغے کے بغیر قائم نہیں ہوتا؛ حالاں کہ غلو ممنوع ہے، یہ اعتراض سب پر وارد ہے، قدیم محدثین پر بالخصوص، ان کے احوال محفوظ ہیں، جس سرگذشت کو ہم قربانی کہتے ہیں اس پر سنجیدہ شرعی اشکال ہیں، حقوق متاثر ہوے، جس حد تک وہ گئے وہ صریح تجاوز ہے؛ لیکن اسی مبالغے نے دین زندہ کیا، کام ایسے ہی ہوتا ہے، کوئی اہم مضمون پورا کرنا ہو تو رات کالی ہوتی ہے، یہ بھی شرعا منع ہے، حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ تو تبلیغ کے ماسوا گفتگو سننے کے متحمل نہیں رہ گئے تھے، بیمار ہو جاتے تھے۔
جس طرح دو مدرسوں کے تعصب اور تحزب سے فرقے نہیں بنتے؛ اسی طرح اہل حق کی جماعتوں کے جداگانہ رنگ وآہنگ سے فرقہ وجود میں نہیں آتا، ہاں وہ اپنے کام کی افضلیت پر مصر ہوتے ہیں اور یہ دعوی سب جگہ ہے، میں ایک تنظیم سے اگر وابستہ ہوں تو الگ سے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میرے نزدیک وہی تنظیم سب سے افضل ہے، فنائیت اور فدائیت کے بغیر کوئی نقش وجود میں نہیں آیا، وہ عمل میں آگے نکل گئے ہیں، آپ پیچھے رہیں گے تو الزام تو آئے گا، پھر آپ بے تکی باتیں کرتے ہیں، ایک تبلیغی بھائی نے بتایا کہ فلاں مسجد کے امام صاحب بر سر منبر کہہ رہے تھے کہ میرا سونا تمھاری رات بھر عبادت سے افضل ہے، تبلیغی کارکنان ہدف تھے۔
تبلیغی سادہ لوح ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ اعراب کہلاتے تھے، آپ ان کی سادگی کے قدردان تھے، لا ازید ولا انقص کو قبول کر لیتے تھے، جب کہ یہ واجب التاویل ہے، ان کی تعبیرات میں تحقیق وتنقیح ممکن نہیں، یہ علما کی شان ہے، بیشتر گرفت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی بات کہہ نہیں پاتے، یہ جواب دہی بھی اہل علم کی ہے، وہ اس تنقیح کے اہل نہیں کہ ہر میدان کی اہمیت ہے اور ہر میدان کے رجال کار ہیں، وہ مینڈک ہیں اور ماورا سے بے خبر اور بے نیاز ہیں؛ مگر آپ فرق کے اہل ہیں، آپ کی بے جا عیب جوئی لائق عذر نہیں۔
کل ہماری مسجد کی جماعت کمیٹی نے طلبہ یعنی عصری اداروں کے اسٹوڈنٹس کا جوڑ رکھا تھا، از عصر تا عشا مسجد میں ایمان کی باد بہار دیدنی تھی، رمضان کا سماں رہا، اس فرق کے ساتھ کہ رمضان میں ہر عمر کے نمازی ہوتے ہیں، کل بیشتر مجمع نو عمر تھا، تبلیغ کی کراؤڈ پلنگ طاقت منفرد ہے، ہمارے اشتہار بھی کم پڑ جاتے ہیں اور ان کا خفیہ نیٹ ورک اجتماع گاہ بھر دیتا ہے، حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ کی کرامت دیکھی کہ ماڈرن ماحول کے نوجوان کرتے پائے جامے اور جبے میں تھے، ان کا دم گرم ہے کہ جدید طبقہ باریش ہوجاتا ہے، ڈاڑھی، نماز، لباس، پردہ، بچوں کی مذہبی تعلیم اور دین کے تمام مظاہر میں ان کی سبقت بانی تبلیغ کے اعمال نامے کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔میں 1997 اور 1998 میں دو مرتبہ چلے کی جماعت میں گیا تھا، یہ طلبۂ دارالعلوم کی تعطیل کلاں والی جماعت تھی، زندگی کا بہترین روحانی تجربہ ثابت ہوا، جماعت کی سرگرمیوں کے جلو میں انفرادی ترقی ہوئی تھی، تہجد کی پابندی عام تھی، یاد ہے کہ رونا بھی نصیب ہوتا تھا، میرے یہ دو چلے ازدواج میں کام آئے، سسرال کٹر تبلیغی ہے، نانا سسر سینئر ترین ذمے دار تھے، نوے سال کی عمر میں جماعت ہی میں اللہ کو پیارے ہوئے، جمعے کا دن تھا، عصر کی سنتوں کے بعد فرض کے منتظر تھے بے توازن ہوگئے، سسر صاحب فنا فی التبلیغ ہیں، اس نسبت سے براعظموں کے راہ نورد ہیں، میرے رشتے کے وقت ایک سال کی بحث اٹھی تھی؛ مگر میری خصوصیات کے پیش نظر دو چلے کافی مان لئے گئے، میری بچی تبلیغ میں چلنے کا مزہ دیکھ نظم چلا کر میرے قریب کردیتی ہے، یہ سب غلو ہے؛ مگر میں انجوائے کرتا ہوں، یہ اپنے ہیں اور اپنے کام کی دعوت دیتے ہیں۔از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری23 صفر 1447ھ 18 اگست 2025ء ( #ایس_اے_ساگر )
Saturday, 2 August 2025
دعوت دینے والے کی روحانی طاقت پانچ چیزوں میں
Monday, 28 July 2025
یہ معصوم مر رہے ہیں… تم کہاں ہو؟
یہ معصوم مر رہے ہیں… تم کہاں ہو؟
غزہ جل رہا ہے، آسمان خاک آلود ہے، زمین لہو سے لالہ زار!
ماں کی گود میں تڑپتے معصوم، بھوک کی چٹان سے ٹکرا کر دم توڑ رہے ہیں،
مائیں اپنی چھاتیوں سے خون چوسوانے پر مجبور ہیں،
اور امتِ مسلمہ کے ایوانوں میں بے حسی کا جنازہ اٹھ چکا ہے!
عالم اسلام کے سپہ سالار، حکمران اور جرنیل
سہولتوں کے قلعوں میں بیٹھے،
چائے کی چسکیوں میں شریعت اور حمیت کا خون پی رہے ہیں!
اے عاصم خالی!
اے پاکستان کے نام نہاد فولادی لشکر کے سپہ سالار!
تو نے لا الٰہ الا اللہ کا ورد پڑھ کر عہد کیا تھا کہ “جہاں ظلم ہوگا، وہاں تیغ اٹھے گی”
تو نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ “ہم اسلام کے محافظ ہیں”
تو پھر آج تیرے توپ خانے پر موت کا سکوت کیوں طاری ہے؟
کیا تیرے میزائل غزہ کی سمت اُڑنے سے انکاری ہیں؟
کیا تیرے ڈرون صرف افغان بچوں کے لیے رہ گئے ہیں؟
کیا تیری گولیاں صرف اپنی قوم کے مظلوموں پر برسنے کے لیے بنائی گئی ہیں؟
تو کہاں ہے، جنرل؟
کیا تیری وردی کا وقار صرف تقریروں، پریڈوں اور ٹی وی اشتہاروں تک محدود رہ گیا؟
کیا غزہ کے خون آلود بستروں پر سسکتے نوزائیدہ تیرے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں؟
کیا وہ معصوم بچی، جو اپنے شہید باپ کے سینے سے لپٹ کر دم توڑ گئی —
تیرے آہنی دل کو نہیں چیر سکی؟
اے وردی پوش!
یہ وردی عزت ہے یا زنجیر؟
یہ ستارے کیا صرف یونیفارم کی زیبائش ہیں؟
یا پھر شہداء کے لہو کی قسمیں، جنہیں تم نے بھلا دیا؟
تاریخ نہ تمہیں تمغوں سے یاد رکھے گی، نہ تمہاری پریس کانفرنسوں سے —
بلکہ وہ تمہیں پکارے گی:
“یہ وہ سالار تھا،
جو کعبہ کی سمت چلنے کے بجائے
اپنے اقتدار کے بت کو سجدہ کرتا رہا!”
اب سن لے، جنرل!
جب غزہ کے بچے بھوک سے مر رہے تھے، تو تم میٹنگ میں تھے!
جب بیت المقدس کی ماؤں نے چیخ کر مدد مانگی، تو تم پروٹوکول کی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے!
جب تاریخ نے امت کے محافظ کو پکارا، تو تم خاموشی کی پناہ میں چھپ گئے!
جب تمہارے میزائل غزہ کے لیے نکلنے چاہیے تھے، تو وہ مظاہروں کو کچلنے میں استعمال ہو رہے تھے!
اے نام نہاد سالارو!
یاد رکھو —
غزہ کے ایک بچے کی آہ، تمہاری پوری فوج کی بنیادیں ہلا سکتی ہے!
ایک شہید ماں کی سسکی، تمہارے توپ خانے کو راکھ میں بدل سکتی ہے!
اور ایک زخمی باپ کی فریاد، تمہارے تمام میڈلز کو خاک میں ملا سکتی ہے!
اٹھو! اگر ایمان باقی ہے
تو راکٹوں کی زبان میں جواب دو —
ورنہ اپنی وردی اتار کر
کسی مصلحت کے قبرستان میں دفن ہو جاؤ!
اور اب آو، نظر دوڑاؤ “خادمِ حرمین” کے ایوانوں کی طرف—
جہاں سونے کے محلوں میں رقصِ شیطانی کی محفلیں سجی ہیں،
جہاں بن سلمان کی محافل میں موسیقی کی لے پر کعبہ کی سمت پیٹھ کر کے، دنیاوی تاج کے لیے سجدے کیے جا رہے ہیں!
اے بن سلمان!
تو نے اپنے باپ دادا کی غیرت بیچ دی!
تو نے حرمین کی عظمت کے بدلے ہالی ووڈ کا گلیمر خریدا!
تو نے ان ہاتھوں کو تھاما جن کے خون میں معصوم فلسطینی بچوں کی چیخیں بسی ہیں!
تو نے اسرائیلی قاتلوں کو اپنی سرزمین کی چاندنی بخش دی،
اور اپنے فلسطینی بھائیوں کو بھوک، بارود اور بے کسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا!
تو عیاش شہزادہ!
تُو ساحلوں پر فیشن شو کروا کر سمجھتا ہے کہ یہ ترقی ہے؟
تُو سمجھتا ہے کہ بیت المقدس کے سودے پر تیرے محلات مضبوط ہو جائیں گے؟
یاد رکھ —
جب حطین کا سلطان ایوبی پلٹ کر آئے گا،
تو نہ تیری آرائش بچے گی، نہ تیری بادشاہی!
تُو “خادمِ حرمین” کہلاتا ہے —
لیکن تیرے دربار میں یروشلم کے غاصب سفیروں کے لیے قالین بچھتے ہیں،
جبکہ مسجد اقصیٰ کے نمازیوں پر گولیوں کی بارش ہوتی ہے!
تُو کس امت کا خادم ہے؟
جس کے دشمنوں کے ساتھ رقص کرتا ہے؟
جس کی مظلوم بیٹیوں کی چیخوں پر تیری موسیقی تیز ہو جاتی ہے؟
بن سلمان سن لے!
تُو کعبہ کا سایہ لے کر، تل ابیب کے خواب دیکھتا ہے؟
تُو حرم کی مٹی میں غداروں کے قدم بساتا ہے؟
تُو محمد ﷺ کے نام پر حکومت کرتا ہے، مگر یہود کا جھنڈا بلند کرتا ہے؟
یاد رکھ!
خانہ کعبہ کے طواف کرنے والے عرب،
ایک دن تیری بادشاہی کا طواف ختم کر دیں گے!
اور فلسطین کی ماؤں کے آنسو،
تیرے تیل سے بھی زیادہ جلانے والی آگ بن جائیں گے ان شاء اللہ !
اور وہ باقی عیاش حکمران!
ذرا قاہرہ کی گلیوں کی طرف دیکھو —
جہاں ایک جنرل، جس نے اپنے ہی عوام کا خون بہایا،
اب اسرائیلی خوشنودی کے عوض فلسطین کی لاشوں پر خاموش ہے!
نہ زبان کھلتی ہے، نہ سر اٹھتا ہے —
بس کرسی ہے، اقتدار ہے، اور امریکہ کا سایہ ہے!
اور ابوظہبی کے شہزادے!
جنہوں نے اپنے محلات کو اسرائیلی پرچموں سے آراستہ کیا،
جن کی راتیں تماشوں میں گزرتی ہیں،
اور جنہوں نے القدس کے سودے کو “امن” کا نام دے کر پوری امت کو فریب دیا!
یہ سب نئے فرعون ہیں —
جن کی تلواریں صرف اپنی عوام کے خلاف چلتی ہیں،
جن کے دل امت کے درد سے خالی،
اور جن کی زبانیں صیہونی ظلم کے سامنے گونگی ہیں!
یاد رکھو!
فلسطین کے بچوں کا لہو، نہ تمہیں چھوڑے گا، نہ تمہارے محلات کو!
جب تاریخ جاگے گی —
تو نہ تمہارا تیل بچے گا، نہ تمہاری تخت گاہیں!
بس باقی رہ جائے گا…
اللہ، مظلوم، اور شہید کا لہو!
(۳۰ محرم ۱۴۴۷ ہجری)