حضرت جی مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی منتخب نصیحتیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(1) فرمایا:
حضرت شاہ مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے کہ راتوں کو قرآن کے اندر ہڈیوں کو پگھلانے والے غوروفکر اور دنوں کو اس کے حلال وحرام کے پھیلانے میں جان توڑ کوشش نے ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بڑھایا ہے۔
(2) فرمایا:
کہ جب تک تمہاری راتیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی راتوں کے مشابہ ہوکر اس کے ساتھ ضم نہ ہوں تمہارا دنوں کا پھرنا رنگ نہیں لائے گا۔
فرمایا کہ مذہب پر چلنا اسباب کی خاصیتوں کو بدل دیتا ہے۔
(3) فرمایا:
کہ لا الہ الا اللہ کے اقرار کا مطلب یہ ہے کہ اغراض کے ماتحت کس چیز میں نہیں لگیں گے اور امر کے تحت جان اور عزت کی پروا نہ کریں گے۔
(4) فرمایا:
کہ اغراض پروری رزق تک پہنچاتی ہے دین پروری رزاق تک پہنچاتی ہے یہ کہنا ضعیف الایمانی کی بات ہے کہ یہ کام تو ٹھیک ہے مگر ہمیں یہ کام ہے وہ کام ہے۔
(5) فرمایا:
امارت کی برکتیں احاطہ سے باہر ہیں ہمیں حکم ہے کہ اگر دو بھی باہر نکلیں تو ایک کو امیر بنالو۔
(6) فرمایا:
چوبیس گھنٹے میں ذکر اور علم کے لئے وقت متعین کرو اس کو خاص مناسبت ہے اس کام سے۔
(7) فرمایا:
جان قربان ہوجائے دین زندہ ہوجائے یہ جہاد ہے۔
(8) فرمایا:
اس گاڑی کے دو پہئے ہیں اپنی برائی اور دوسروں کی خوبی تلاش کرو شکایت کادروازہ بند کردو نہ افراد کی نہ امت کی۔
(9) فرمایا:
تنہائیوں میں اپنے گھٹ میں بٹھانے کی نیت سے ذکر اور مجمع میں اس کی پکائی کے واسطے تقریر کرو۔
(10) فرمایا:
اخلاق سے اور عبودیت سے تبلیغ کرو حکومت کے طور سے مت کہو بلکہ مشورہ کے طور سے کہا کرو۔
(11) فرمایا:
تعلیم کے لئے صبح کا آدھ گھنٹہ گھر گھر میں ہوجاوے گویا ہر ایک گھر ایک حجرہ ہے اورتمام گاؤں ایک مدرسہ ہے۔
(12) فرمایا:
خدا اور خدا کے حکموں کو اونچاکرو جسکا ذکر ہوگا اس کا اثر ہوگا ہر وقت تبلیغ کا ذکر اور مشورے کرو۔
(13) فرمایا بغیر ذکر کے عبادت دشوار ہیں اور بے لذت اس واسطے سب سے اول ذکر کی مقدار زیادہ کرنی چاہیے کیونکہ جب محبوب کا ذکر کیا جاوے گاتب ہی اس کو مانا جاوے گا اس واسطے اللہ تعالٰی کا ذکر معہ فکر کے کثرت سے کرنا چاہئے۔
(14) فرمایا:
مہا عمل تو تبلیغ ہے اس سے بچے ہوئے وقتوں میں علم وذکر میں مشغول رہو کام کرنے کے بعد اسی پر نظر رکھو اسی سے مانگو نہ ملنے پر روؤ۔
(15) فرمایا:
مسلمانوں میں اول تو کسل ہے اور پھر اٹھنے کے بعد خودرائی ہے اپنے بڑوں کے فرمودہ کے مطابق چلنا چاہیے خود رائی سے چلنے میں محنت زیادہ منافع تھوڑا ماتحتی میں چلنے میں محنت کم منافع بے شمار۔
(16) فرمایا:
جو شخص اپنے دین کے بڑوں کے پیچھے نہیں چلتا وہ کفار کے بڑوں کے پاؤں کے تلے اور پنجے میں دے دیا جاتا ہے۔
(17) فرمایا:
زبان کو میٹھا کرنے کی کوشش کیجیو یہ بڑی سے بڑی عبادت سے بہتر ہے یہ وہ زندگی ہے جو اسوہ حسنہ ہے یہ وہ زندگی ہے جو بلاؤں کا علاج ہے یہ وہ زندگی ہے جو اللہ کے خوش کرنے کاسب سے بڑا ذریعہ ہے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی روح پاک کو خوش کرنا ہے۔
(18) فرمایا:
خدا کے ساتھ تقوے کا برتاوا رکھے مخلوق کے ساتھ شفقت ومحبت کا برتاوا رکھے
اور اپنے نفس کے ساتھ
تہمت کا برتاوا رکھے۔
(19) فرمایا:
اس کام کا مزاج اپنوں اور غیروں کی جھیلنا ہے۔
(20) فرمایا:
کہ ہم غلطی کے نہ ہوتے ہوئے بھی اعتراف کرلیں یہ کام اس مزاج کو چاہتا ہے۔
(21) فرمایا:
چھوٹوں سے بڑوں کی عزت ہے اور بڑوں سے چھوٹوں کی ترقی وتربیت چھوٹے جتنے بڑوں کے محتاج ہیں اس سے زیادہ بڑے چھوٹوں کے محتاج ہیں۔
(22) فرمایا:
جماعت ہمیشہ ایک جگہ ٹھیرے امیر بنالو جو وہ کہے اس پر عمل کرو امیر کو بدلتے رہو آج یہ ہے کل وہ ہو امیر مامور ہونے کے احکامات کو خوب حفظ اپنے دل میں رکھیں اپنے منصب کو ملحوظ رکھیں مامور ہونے کے وقت اطاعت کو معہ حقوق مشورے کے امیر اپنی جماعت کے طبائع سے واقف رہے اگر واقف نہ ہو تو مشورے کے بعد ہر تجویز کو تجویز کرے جن لوگوں کے خلاف طبع ہو اول ان کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کرے ورنہ مراعات دلداری سے انہیں بدل کرتا رہے بوقت امیر ہو نے کے جس سے مشورہ مناسب سمجھے مشورہ لیوے اور بوقت مامور ہونے کے جب امیر مشورہ لیوے تو کھل کر مشورہ دیوے۔
(23) فرمایا:
مشورہ سے الفتیں محبتیں پیدا ہوتی ہیں مشورہ کو رواج دینا ہے مشورہ ایک مستقل چیز ہے۔
(24) فرمایا:
تبلیغ میں مومن کی زیارت آنکھ کا ذکر ہے چلنا پیر کاذکر۔
(25) فرمایا:
جب مسلمانوں کی طرف نگاہ کیا کروتو اس کی طرف وقار کے ساتھ نظر کیا کرو کہ یہ خدا پر ایمان لایا ہوا ہے میرا خدا اس کو پیار کرتا ہے پھر میں کیوں اس کو غیر نظر سے دیکھوں۔
(26) فرمایا:
نفس کو مومن کے سامنے ذلیل یعنی اس کی بات نیچی کرنےکی گھات میں لگا رہے۔
(27) فرمایا:
جب تک انسان اپنے کو مخلوق کا خادم اور چھوٹا سمجھتا رہے گا اس وقت تک اللہ تعالٰی کے یہاں مقرب اور محبوب رہے گا.
(28) فرمایا:
ہدیہ کا ثواب صدقہ سے بہت اونچا ہے ۔
(29) فرمایا:
غیبت کرنے والوں کا اللہ ارادہ کرلیتے ہیں کہ ان کو بغیر ذلیل کئے ہوئے نہیں رکھوں گا۔
(30) فرمایا:
بر اور تقوی کا معاون ہونا فرض ہے تمام روئے زمین کے مسلمانوں پر۔
(31) فرمایا:
چلوں کے لئے نکلو سالوں کا ارادہ رکھو عمریں صرف کرنے کے لئے دعائیں مانگو۔
(32) فرمایا؛
کام کرنے کے بعد شکر کرے ندامت سے سر جھکائے اس سے نفس مرجائےگا۔
(33) فرمایا:
تبلیغ کا کام کرتے ہوئے تمہاری دنیا بھی دین ہوجاوے گی برخلاف اس کے اگر اس کو نہ کیا تو تمہارا دین بھی دنیا ہوکر برباد ہوتا چلا جاوے گا۔
(34) فرمایا:
اللہ کا حکم سمجھ کر، بے چینی کے ساتھ کرنا یہ ہے تبلیغ کا خلاصہ۔
(35) فرمایا:
جہل اور معصیت اللہ کی اذیت کی چیزیں ہیں اس لئے اپنی اذیت کے مقابلے میں اللہ کی اذیت دور کرنا سب پر فرض ہے۔
(36) فرمایا:
میرے رب کا حکم ہے اس نیت سے مشقیں کرو جس وقت جی نہ چاہتا ہو اس وقت زیادہ کرو۔
(37) فرمایا:
دین کا کام جی لگنے کیوجہ سے کرنا دنیا ہے۔
(38) فرمایا :
دین کا کام چھوڑنا خیانت ہے۔
(39) فرمایا:
دین کے پھیلانے کے لئے ترک وطن سنت طریقہ ہے۔
(40) فرمایا:
مذہب کی رونق سے تمہاری رونق ہوگی۔
(41) فرمایا:
ایمان روح ہے اور اسلام اس کا وجود۔
(42) فرمایا:
جو اعلی مرتبہ چاہتا ہے رات کی بیداری اختیار کرے۔
(43) فرمایا:
قرآن پڑھنے میں خدا کی آواز سنائی دینے لگے ایسا پڑھو۔
44) فرمایا:
کلمہ کے نور سے دل کو تنہائیوں میں روشن کرو تو نفس کے عیب معلوم ہوتے رہیں گے اور دین میں ترقی کرتے رہوگے۔
(45) فرمایا:
جب تک چوبیس گھنٹے میں کوئی وقت ذکر کا مقرر نہیں کروگے یہ تبلیغ جڑ نہیں پکڑسکتی۔
(46) فرمایا:
زندگی اللہ کی یاد سے ہے
اللہ اللہ کرنے میں چین آنے لگے اس کا نام حیات طیبہ ہے۔
(47) فرمایا:
عمل اور علم کی پونجی کو چور چرا کر لے جاوے گا جب تک ذکر کے چراغ سے اس کو محفوظ نہ رکھاجاوے ورنہ شیطان چور لایعنی کی آندھی سے اس کو بجھاکر
(48) فرمایا:
ذکر کو لے کر جاؤگے تو ہر فاسق وفاجر سے نفع اٹھاؤگے اور اگر اغراض لے کر جاؤگے تو کفر لے کر آؤ گے۔
(49) فرمایا:
اغراض کو قربان نہیں کیا تو علماء کا علم بھی جہنم میں لے جائے گا۔
(50) فرمایا:
علم ہو اور نفس قابو میں ہو یہ باعث رحمت ہے ورنہ وہ علم شیطان ہے۔
(51) فرمایا:
دن میں ظاہر کی تبلیغ ہے اور راتوں میں باطن کی تبلیغ ہے دونوں قسموں کے ماہرین کا ادب کرنا اور ان کی صحبت اختیار کرنا۔
(52) فرمایا:
عمل بلا صحبت اور صحبت بلاعمل خطرے سے خالی نہیں۔
(53) فرمایا:
علم ماتحت ہو فکر کے۔
(54) فرمایا:
علم بذریعہ دل کے عمل بذریعہ جوارح کے دھیان بذریعہ دماغ کے جہد مشترک سب کے ذریعہ سے۔
(55 ) فرمایا:
مراقبہ اور قوت فکریہ سے کام میں مضبوطی ہوتی ہے۔
(56) فرمایا جیسے دنیاوی مشاغل بھلارہے ہیں دین کو اسی طرح دینی مشاغل کی طاقت ایسی ہوجاوے کہ دنیاوی مشاغل کو بھلانے لگیں۔
(57) فرمایا:
اکرام مسلم کے لئے تین باتوں کی ضرورت ہے توقیر کے ذریعہ یا تعظیم کے یا ترحم کے ان تینوں میں سے ہر موقہ کے مناسب مسلم کا اکرام کرنا۔
(58) فرمایا:
ان باتوں سے دین آوےگا قرآن نماز تبلیغ قرآن میں اللہ تعالٰی نے اپنی صفات جمالیہ وجلالیہ کا نور بھر دیا ہے
اورنماز کے زریعہ سے انسان میں چونکہ نور لینے کا مادہ رکھ دیا ہے اور کسی مخلوق میں یہ بات نہیں رکھی نماز کے ذریعہ نور آوے گا ہر ہر عضو میں اور تبلیغ سے اس کی صیقل ہوگی۔
(59) فرمایا:
سب سے بڑا ذکر اللہ کی باتوں کا تذکرہ مجمعوں میں کرنا ہے گھروں سے نکل نکل کر۔
(60) فرمایا:
تبلیغ کرنے میں تھوڑی نفع میں بڑی مگر یہ تبھی معلوم ہوسکتا ہے کہ یا تو گرہ کی عقل رکھتا ہو یا دوسروں پر اعتماد کرے یہ میرا دعوٰی ہے کہ اس کے کرنے میں 99 حصہ نفع ہے۔
(61) فرمایا:
یہ تحریک ہے قدم اٹھانے کی جس قدر اس میں قدم اٹھے اسی قدر اس میں رحمت برکت اور نفع ہے۔
(62) فرمایا:
تبلیغ کی منفعت یہ ہے کہ ہر کام اتنے حصے بڑھ جاوے گا کہ جتنا صاحب تبلیغ دوسروں کو اس کام پر لگاوے گا۔
(63) فرمایا:
تبلیغ کی جڑ اللہ کے خوف اور جنت کی طمع میں ذکر کی کثرت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے شوق میں اور پھیلانے کا چاؤ ہے اس چاؤ سے جب تبلیغ کی جاوے تو بڑی برکت ہوگی۔
(64) فرمایا:
مسلمانوں کی عادت ہوجاوے کہ پیٹھ پیچھے مسلمانوں کی تعریف کریں بس یہ ہزاروں عبادتوں سے اللہ کے نزدیک بہتر ہے اور وہ شخص اللہ کا محبوب ہے فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔
(65) فرمایا:
حکم کے پہنچانے میں یہ دیکھے کہ کس کا حکم ہے
اور میں کس ادب سے اس کو پہنچاؤں۔
(66) فرمایا:
کوئی جماعت یا کوئی شخص زوروں کی کوشش کے علاوہ ذرا بھی وقت نہ گزارے اس کوشش میں بڑی سے بڑی مشقّت بھی اٹھانی پڑے تو اس مشقّت سے نہ گھبراویں۔
(67) فرمایا:
اسلام کی ایک ایک چیز میں اللہ تعالٰی نے اپنی رضا بھردی ہے اب جس جس قدر کی جو چیز ہے اتنی ہی قدر کی اس میں رضا ہے خیال کرنے کی بات ہے کہ یہ تبلیغ کتنے بڑے درجہ کی چیز ہے۔
(68) فرمایا:
ہمارے بزرگ تو یہ فرمایا کرتےتھے کہ جب نیک کام کرنے سے خوشی اور گناہ کرنے سے ندامت ہوجاوے امتی کی یہی ولایت ہے۔
(69) فرمایا:
ملنے کے وقت نری خوبیوں کو دیکھو ورنہ اس کے بر عکس خدا تعالٰی ہمارے عیوب دیکھیں گے۔
(70) فرمایا:
اصل یہ ہے کہ بصیرت ایسی ہوجاوے کہ دوسروں کے عیوب نظر سے غائب ہوجاویں اور دوسروں کی صفات اور خوبیاں نظر آنے لگیں اور ان کی خدمت کے لئے دل خوشی خوشی اللہ کی رضا کے لئے جس میں اغراض شامل نہ ہوں آمادہ ہو
یہ خدمت خلق انبیاء علیہم السلام کا پیشہ ہے۔
(71)فرمایا:
ذکر نفلى کی یہ خوبی ہے اللہ کہتا ہے میں اس بندے کا کان ہوجاتا ہوں ہاتھ ہوجاتا ہوں اور جب فرض ذکر کیا جاوے گا تو اللہ کی دین کا کیا کچھ ٹھکانہ فرق مراتب نہ کنی زندیق شوی
لازم سے متعدی کی قیمت زیادہ ہے پھر متعدی میں فرق اعلی وادنی کا اعمال کو ماننےکے بعد ترتیب ضروری ہے۔
(72) فرمایا:
ہمارے کلام سے جی نہ لگاؤ جی توخدا کے کلام سے لگاؤ اس میں لگنے کی وجہ سے اس کو معاونت کے درجہ میں سمجھو۔
(73) فرمایا:
اللہ تعالٰی کے امر کو زندہ کرنے میں جان دے دو ورنہ اغراض کی وجہ سے روٹیوں کی خاطر مخلوق جان دے رہی ہے۔
(74) فرمایا:
جہلا کو علماء سے ملاؤ جہلاء ان کی تعظیم کریں
اور علماء انپر پیار کریں یہ گر کی بات ہے۔ بجائے خود کرنے کے علماء کو لگادو علماء میں جہلاء اپنی جہالت کے حالات سنادیں ان کو ان پر رحم آوےگا یہ ان کی خوشامد کریں گے تاکہ علوم سے آشنا کریں دراصل کام بنے گا علماء ہی سے۔
(75) فرمایا:
حق تعالٰی سے لگاؤ کا رواج مٹ گیا علم کا ڈھنگ غلط تقوی کا ڈھنگ غلط یہ طلب علم نہیں علم کی لذت سے ناواقف ہوچکے ہیں اصل اللہ کے امروں کی قدردانی ہے۔
(76) فرمایا:
کلمہ کی دعوت کے ذریعے سے اپنے کلمے کو نورانی کرو پھر نماز میں نور آوےگا اورپھر نماز دیگر اعمال میں نور لاوے گی۔
(77) فرمایا:
اللہ کے امر کی بنا پر چلنا یہ ایمان کی خوبی ہے اسباب اسباب کے درجے میں ہیں جو مخلوق ہیں مخلوق سے جی نہیں لگایا کرتے۔
(78) فرمایا:
مجھے دو خطرے ہیں ایک یہ اسباب ہوتے ہوئے اسباب پر نظر نہ ہو یہ مشکل ہے مجھے اپنے اوپر بھی خطرہ ہے اسباب پر نظر ہوجانے سے اللہ کی نصرت ختم ہوجاتی ہے استدلال میں لقدنصرکم اللہ فی مواطن کثیرة. کو پیش کیا. اسباب نعم ہیں اسباب کا تلبس استعمال نعمت کے درجے میں ہو نہ کہ ان پر نظر جم کر خالق کی بجائے ان سے جی لگ جائے دوسرا خطرہ یہ ہے کہ ہم کام نہ کررہے ہوں اور سمجھیں کہ کررہے ہیں کام کے اثرات کو کام سمجھیں کام تو چھ نمبروں کی پابندی ہے۔
(79) فرمایا:
اسباب ختم ہونے کے بعد یاس نہ آنے پائے اللہ سے مایوس نہ ہونا چاہئے بس اس وقت اللہ تعالٰی سے مانگو اضطراری حالت کی دعاء مقبول ہے۔
(80) فرمایا:
اسباب کی کمی پر نظر ڈال کر مایوس ہوجانا اس بات کی نشانی ہے کہ تم اسباب پرست ہو اور اللہ کے وعدوں اور اس کی غیبی طاقتوں پر تمہارا یقین بہت کم ہے اللہ پر اعتماد کرکے اور ہمت کرکے اٹھو تو اللہ ہی اسباب مہیا کردیتا ہے ورنہ آدمی خود کیا کرسکتا ہے مگر ہمت اور
استطاعت بھر جہد شرط ہے۔
(81) فرمایا:
دہریت کیا ہے مال روپے پیسے پر بھروسہ کرنا اس واسطے قوت یقین کو اللہ نے جو اپنے اوامر کے ذریعہ بتلایا ہے اس کو مضبوط کرنا اسباب کو اوامر کے ماتحت برتو نہ کہ اسباب کو یقین کا درجہ دےدو۔
(82) فرمایا:
آج کل مخلوق اسباب پر نظر جماکر سارے کاموں کی ترقی کا باعث سمجھ رہی ہے حالانکہ اسباب اوامر کے بعد مرتب ہوتے ہیں اللہ تعالٰی نے کن کہا تب زمین وآسمان بنے یہ فرق اسباب و اوامر کا ہے۔
(83) فرمایا:
مخلوق سے امید باندھنا
اللہ کو جتنا غضب میں لاتا ہے اسی طرح اللہ سے امید نہ باندھنا غضب میں لاتا ہے۔
(84) فرمایا:
یقین اور وہم کا فرق یہ ہے یقین تویہ ہے کہ یہ ہوگا اور پھر ہوگا اور وہم یہ ہے کہ شاید ہوجاوے گا اور نہ ہونے پر ڈگ جانا۔
(85) فرمایا:
اصل یقین یہ ہے کہ ایسا یقین ہو کہ اسباب کے خراب ہوتے ہوئے یقین کو ترقی دینا اور اللہ کے فرمودہ کی قدر اور وقعت کرنا اور اس پر جمے رہنا۔
(86) فرمایا:
اعمال کو اللہ کی رضا کے لئے کرنا یہ درجہ اول ہے
اور طمع وخوف کے ذریعہ کرنا یہ درجہ دوم ہے۔
(87) فرمایا:
یہ تحریک دیگر اعمال کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کودیگرمخلوق پر فضیلت ہے. حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سایہ تلے ہر شخص محفوظ رہ سکتا ہے اسی طرح یہ عمل دیگر اعمال کے مقابلے میں ایساہی ہے اس کے سایہ بغیر کسی عمل میں پرورش اوربقانہیں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اور موسی علیہ السلام آویں تو ان کو بھی میری اتباع بغیر چارہ نہیں
اسی طرح دیگراعمال بغیر اس عمل کے بے رونق ہیں۔
(88) فرمایا:
اللہ تعالٰی نے اس زمانے میں یہ نعمت عجیبہ عنایت فرمائی ہے اس کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ ہر نعمت شکریہ پر ہے اس نعمت کا شکریہ مسلمانوں مؤمنوں کے سامنے تواضع ہے۔
(89) فرمایا:
صفت عبدیت بڑھائے یہاں تک کہ اپنے آپ کو راستہ کی خاک سے بھی کم سمجھے جیساکہ وہ پیروں میں روندی جاتی ہے اسی طرح دین کے کاموں کے کارن مخلوق کے پیروں میں رندنے کو فخر سمجھنا۔
(90) فرمایا:
دین کے کارن جوانسان کو تکالیف آتی ہیں وہ اللہ کو بہت پسند ہیں۔
(91) فرمایا:
تبلیغ ایک فن ہے جس کو تھوڑا سا کرنے سے انسان بہت کچھ کماسکتا ہے۔
(92) فرمایا:
راتوں کو ذکر سے اور دن میں تبلیغ سے اور باقی وقت ضروریات سے فارغ ہوتے ہوئے علوم کے سیکھنے میں اپنے آپ کو مشغول رکھے. کچھ وقت ان علوم میں صرف کرے جس سے جذبات پیدا ہوں اور باقی کو مسائل وغیرہ کے سیکھنے میں خرچ کرے۔
(93) فرمایا:
صحبت بڑی چیز ہے جو علوم صحبت کے ذریعہ سے آویں گے وہ ہرگز کتابوں کے ذریعہ نہیں آویں گے۔
(94) فرمایا:
جب تک علاقہ نائبان رسول سے نہ ہوگا گویا اس نے رسالت کا اقرار نہیں کیا اور وہ شیطان کے پنجے میں آجاوے گا۔
(95) فرمایا:
زمانہ تبلیغ میں خدمت گزاری اور حفظان صحت کے بعد تبلیغ تعلیم اور تذکیر ہے۔
(96) فرمایا:
طبعیت مایوسی کی طرف زیادہ چلتی ہے کیونکہ مایوس ہوجانے کے بعد آدمی اپنے کو ذمہ دار نہیں سمجھتا اور پھر اسے کچھ کرنا نہیں پڑتا خوب سمجھ لو یہ نفس اور شیطان کا بڑا کید ہے۔
(97) فرمایا :
حضرت گنگوہی رحمۃاللہ علیہ اس دور کے قطب ارشاد اور مجدد تھے لیکن مجدد کے لئے ضروری نہیں ہے کہ سارا تجدیدی کام اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہو بلکہ اس کے آدمیوں کے ذریعہ جو کام ہو وہ سب بھی بالواسطہ اسی کا ہے جس طرح خلفائے راشدین بالخصوص حضرات شیخین کا کام فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا کام ہے۔
(98) فرمایا:
حضرت گنگوہی کے گھروالوں کو
کہ مجھے دین کی نعمت آپ کے گھرانے سے ملی ہے میں آپ کے گھر کا غلام ہوں غلام کے پاس اگر کوئی چیز اچھی آجائے تو اسے چاہیے کہ تحفہ میں اپنے آقا کے سامنے پیش کردے مجھ غلام کے پاس آپ ہی کے گھر سے حاصل کیا ہوا وراثت نبوت کا تحفہ ہے اس کے سوا اور اس سے بہتر میرے پاس کوئی سوغات نہیں ہے جسے میں پیش کرسکوں۔
(99) فرمایا:
اس طریقہ سے چند روز میں وہ بات حاصل ہوسکتی ہے جو دوسرے طریقوں سے پچیس سال میں بھی حاصل نہیں ہوتی۔
(100) فرمایا:
میں مستورات سے کہتا ہوں کہ دینی کام میں تم اپنے گھر والوں کی مددگار بن جاؤ انہیں اطمینان کے ساتھ دین کے کاموں میں لگنے کا موقع دے دو اور گھریلو کاموں میں ان کا بوجھ ہلکا کردو تاکہ وہ بےفکر ہوکر دین کا کام کریں اگر مستورات ایسا نہ کریں گی تو حبالةالشیطان ہوجائیں گی یعنی شیطان کاپھندہ۔
(101) فرمایا:
میں اب تک اس کو پسند نہیں کرتا تھا کہ اس تبلیغی کام کے سلسلہ میں کچھ زیادہ لکھا پڑھا جائے اور تحریر کے ذریعہ اس کی دعوت دی جائے بلکہ میں اس کو منع کرتا رہا لیکن اب میں کہتاہوں کہ لکھا جائے اور تم بھی لکھو...اب ان حالات ميں بھی
کس مپرسی والے ابتدائی زمانہ ہی کے طریقہ کار کے ہرہرجز جزپر جمے رہنا ٹھیک نہیں ہے اس لئے میں کہتا ہوں کہ تحریر کے ذریعہ بھی دعوت دینی چاہئے۔
(102) فرمایا:
اب یہ کہنا چھوڑدو کہ تین دن دو یا پانچ دن دو یا سات دن دو بس یہ کہو کہ راستہ یہ ہے جو جتنا کرےگا اتنا پاوے گا اس کی کوئی حد اور کوئی سرا نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کام سب نبیوں سے آگے ہے اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی ایک رات اور ایک دن کے کام کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں پاسکے پھر اس کی غایت ہی کیاہے یہ تو سونے چاندی کی کان ہے جتنا کھودوگے اتنا نکالوگے۔
(103) فرمایا:
دین کی نعمت جن وسائط سے ہم تک پہنچی ہے ان کا شکر و اعتراف اور ان کی محبت نہ کرنا محرومی ہے
من لم یشکرالناس لم یشکراللہ
اور اسی طرح ان ہی کو اصل کی جگہ سمجھ لینا بھی شرک اور مردودیت کا سبب ہے وہ تفریط ہے اور یہ افراط ہے اور صراط مستقیم ان دونوں کے درمیان ہے۔
(104) فرمایا:
یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے جن بڑوں سے ہم دینی فیوض اخذ کریں ان سے اپنا تعلق صرف اللہ کی جانب کا رکھیں اور صرف اسی لائن کے ان اقوال وافعال اور احوال سے سروکار رکھیں باقی دوسری لائنوں کی ان کی ذاتی اور خانگی باتوں سے بے تعلق بلکہ بے خبر رہنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ ان کا اپنا بشری حصہ ہے لامحالہ اس میں کچھ کدورتیں ہوں گی اور جب آدمی اپنی توجہ ان کی طرف چلاوےگاتو وہ اس کے اندر بھی آئیں گی نیز بسا اوقات اعتراض پیدا ہوگا جو بعد اور محرومی کا باعث ہوجائے گا اسی لئے مشائخ کی کتابوں میں سالک کو شیخ کے خانگی احوال پر نظر نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
(105) فرمایا:
مسجدیں مسجد نبوی کی بیٹیاں ہیں اس لئے ان میں وہ سب کام ہونے چاہئیں جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد میں ہوتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز کے علاوہ تعلیم و تربیت کا کام بھی ہوتا تھا اور دین کی دعوت کے سلسلہ کے سب کام بھی مسجد ہی سے ہوتے تھے دین کی تبلیغ یا تعلیم کے لئے وفود کی روانگی بھی مسجد ہی سے ہوتی تھی یہاں تک کہ عساکر کا نظم بھی مسجد ہی سے ہوتا تھا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری مسجدوں میں بھی اس طریقہ پر یہ سب کام ہونے لگیں۔
اس کام پر جب بھی کوئی خطرہ یا رکاوٹ آئے گی وہ کام کرنے والوں کی غلطی سے آئے گی۔ اس میں جماعتی عصبیت، غرور اور افتراق زہر کے مانند ہے۔
تمام طبقات کا جوڑ خصوصا علماء کرام اور دینی طبقات سے اس کام کی روح ہے۔
تمت بحمدالله ومنه
اللھم الف بين قلوبنا وأصلح ذات بيننا واهدناسبل السلام ونجنامن الظلمات إلى النور وجنبناالفواحش ما ظهر منها ومابطن
وبارك لنا فى اسماعنا وابصارنا وازواجنا وذرياتنا وتب علينا انك انت التواب الرحيم واجعلناشاكرين لنعمتك مثنين بها قابليها واتمها علينا.
امين يارب العلمين
http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_21.html?m=1