مسنون دعاؤں کے الفاظ وحروف میں کمی زیادتی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: شکیل منصور القاسمی
از: شکیل منصور القاسمی
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسنون دعاؤں کے واحد متکلم کے ضمیروں کو اجتماعی دعاؤں کے موقع پر جمع متکلم کی ضمیروں سے بدلنا چاہئے یا واحد کے ہی ضمیروں کے ساتھ دعا مانگنا چاہئے براہ کرم واضح فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
قرآن وحدیث کی دعائیں وحی من اللہ ہوتی ہیں ۔متلو وغیر متلو کا فرق ضرور سہی! لیکن دعاؤں کے سارے کلمات، حروف وصیغے بزبان رسالت، اللہ کی جانب سے دل میں القاء کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ قبولیت دعا یا جزاء وبدلہ انہی صیغے وکلمات کے ساتھ خاص ہوتے ہیں؛
اس لئے علماء محققین کی تحقیق اس خصوص میں یہ ہے کہ دعاء ماثورہ ومسنونہ کے کلمات وحروف توقیفے ہوتے ہیں، اس میں کسی قسم کا ردوبدل جائز نہیں ہے۔ جن صیغوں کے ساتھ دعائیں وارد ہوئی ہیں انہی شکل وصورت کے ساتھ پڑھنا ضروری ومتعین ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کے رد وبدل سے منع فرمایا ہے۔
ایک صحابی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعاء سکھلائی، جس میں "نبیک" کا لفظ تھا۔ بعد میں یاد کرتے ہوئے اس صحابی نے نبیک کی بجائے "رسولک" پڑھا۔
ظاہر ہے نبی اور رسول میں عموم خصوص کے علاوہ کوئی بین فرق تو ہے نہیں؛ لیکن اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تبدیلی کو منع فرمایا۔ اس سے پتہ چلا کہ دعاؤں کے کلمات توقیفی ہوتے ہیں۔ جس شکل میں وارد ہے اسی طرح پڑھنا متعین وضروری ہے۔
مسلم شریف میں ہے:
بَاب مَا يَقُولُ عِنْدَ النَّوْمِ وَأَخْذِ الْمَضْجَعِ
2710 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِعُثْمَانَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا وَقَالَ عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ [ص: 2082] ثُمَّ قُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ وَاجْعَلْهُنَّ مِنْ آخِرِ كَلَامِكَ فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ مُتَّ وَأَنْتَ عَلَى الْفِطْرَةِ قَالَ فَرَدَّدْتُهُنَّ لِأَسْتَذْكِرَهُنَّ فَقُلْتُ آمَنْتُ بِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ قَالَ قُلْ آمَنْتُ بِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ إِدْرِيسَ قَالَ سَمِعْتُ حُصَيْنًا عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ أَنَّ مَنْصُورًا أَتَمُّ حَدِيثًا وَزَادَ فِي حَدِيثِ حُصَيْنٍ وَإِنْ أَصْبَحَ أَصَابَ خَيْرًا
صحيح مسلم. كتاب الذكر والدعاء
(فرددتهن لأستذكرهن، فقلت: آمنت برسولك الذي أرسلت، قال: قل آمنت بنبيك الذي أرسلت) اختلف العلماء في سبب إنكاره صلى الله عليه وسلم ورده اللفظ، فقيل: إنما رده لأن قوله: (آمنت برسولك) يحتمل غير النبي صلى الله عليه وسلم من حيث اللفظ، واختار المازري وغيره أن سبب الإنكار أن هذا ذكر ودعاء، فينبغي فيه الاقتصار على اللفظ الوارد بحروفه، وقد يتعلق الجزاء بتلك الحروف، ولعله أوحي إليه صلى الله عليه وسلم بهذه الكلمات، فيتعين أداؤها بحروفها ، وهذا القول حسن۔ (شرح النبوي على صحيح مسلم)
ترمذی میں ہے:
3574 حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ ثُمَّ قُلْ اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ فَإِنْ مُتَّ فِي لَيْلَتِكَ مُتَّ عَلَى الْفِطْرَةِ قَالَ فَرَدَدْتُهُنَّ لِأَسْتَذْكِرَهُ فَقُلْتُ آمَنْتُ بِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ فَقَالَ قُلْ آمَنْتُ بِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ قَالَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْبَرَاءِ وَلَا نَعْلَمُ فِي شَيْءٍ مِنْ الرِّوَايَاتِ ذِكْرَ الْوُضُوءِ إِلَّا فِي هَذَا الْحَدِيثِ
(سنن الترمذي. كتاب الدعوات باب في انتظار الفرج)
قال الحافظ: وأولى ما قيل: في الحكمة في رده -صلى الله عليه وسلم- على من قال الرسول بدل النبي أن ألفاظ الأذكار توقيفية ولها خصائص وأسرار لا يدخلها القياس فتجب المحافظة على اللفظ الذي وردت به. وهذا اختيار المازري قال: فيقتصر فيه على اللفظ الوارد بحروفه وقد يتعلق الجزاء بتلك الحروف ولعله أوحي إليه بهذه الكلمات فيتعين أداؤها بحروفها،
(تحفة الأحوذي)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
سوال
—-
السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔۔۔
آپ نے اپنے مذکورہ فتویٰ میں یہ رقم کیا ہے کہ۔
قبولیت دعا یا جزاء وبدلہ انہی صیغے وکلمات کے ساتھ خاص ہوتے ہیں؛
اس لئے علماء محققین کی تحقیق اس خصوص میں یہ ہے کہ دعاء ماثورہ ومسنونہ کے کلمات وحروف توقیفے ہوتے ہیں، اس میں کسی قسم کا ردوبدل جائز نہیں ہے۔ جن صیغوں کے ساتھ دعائیں وارد ہوئی ہیں انہی شکل وصورت کے ساتھ پڑھنا ضروری ومتعین ہے۔
جب کہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کے ذیل کے فتوی میں کچھ یوں لکھا ہے:
سوال
(۱) کیا قرآنی آیت میں جو دعا ہے واحد کے صیغہ کو جمع صیغہ میں بدل سکتے ہیں؟مثال کے طوسرپر ” رب زدنی سے زدنا“۔
(۲) کیادعا میں بھی تجوید کی عایت رکھنا ضروری ہے؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 727-581/D=7/1436-U
(۱) قرآنی آیات میں جو دعائیں بصیغہٴ واحد وارد ہوئی ہیں انھیں دعا کے طور پر جمع کے صیغے کے ساتھ پڑھنا جائز ہے، بالخصوص مواقع اجتماع میں قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: عَمِّم في دعائک فإن بین الدعاء الخاص والعام کما بین السماء والأرض․ (ردالمحتار: ۲/۲۳۵، ط زکریا)
(۲) تجوید یعنی حروف کو ان کے مخارج اصلیہ اور صفاتِ لازمہ کے ساتھ ادا کرنا قرآن کریم پڑھنے کے لیے ضروری ہے، باقی قرآن وحدیث پر مشتمل دعاوٴں میں بھی تجوید کی رعایت رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :59116
تاریخ اجراء :May 5, 2015
اس کا حل کیا ہوگا؟
دوسری چیز آپ نے یہ لکھی ہے کہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کے رد وبدل سے منع فرمایا ہے۔
اس سے متعلق کوئی نص آپ نے ذکر نہیں فرمائی۔
ہاں نبی اور رسول والی نص موجود ہے لیکن کیا اس میں ہر قسم کی تبدیلی داخل ہے؟
از راہ تلطف، نظر فرمائیں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
دعاء بذات خود عبادت بلکہ افضل ترین عبادت اور مغز عبادت ہے ، عبادات کی بنیاد اتباع (توقیف) پہ ہوتی ہے، 'ابتداع' پہ نہیں! اسی کو علماء فرماتے ہیں کہ دعاء بھی دیگر عبادات کی طرح توقیفی ہے۔ داعی کے لئے اپنی دعا میں شرعی حدود کی پابندی اور اس میں حد اعتدال سے تجاوز سے گریز لابدی ہے، دعا میں حد اعتدال سے تجاوز کرنے کی ممانعت حدیث میں آئی ہے. بعض دعائیں قرآنی ہیں جبکہ بعض دعائیں ماثورہ: یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں یا آپ نے انہیں پڑھایا یا پڑھنے کا حکم دیا، ثانی الذکر کو دعاء ماثورہ ومسنونہ کہتے ہیں
قرآنی دعاء کے صیغوں میں رد وبدل کی بات میرے مضمون میں ہے ہی نہیں، یہ ایک مستقل موضوع بحث ہے.
کاش! میری تحریر کے عنوان پہ غور کرلیا جاتا تو یہ خلط مبحث نہیں ہوتا
خیر! بات چل پڑی ہے تو تفصیل میں جائے بغیر اجمالاً عرض کیے دیتا ہوں
قرآنی دعاؤں کے صیغوں میں افراد، تثنیہ وجمع کا رد وبدل کرنا جائز ہے یا نہیں؟
عرب وعجم کے علماء کے اس میں مختلف نقطہائے نظر ہیں. بعضوں نے رد وبدل کو بالکل ناجائز کہا ہے جبکہ دیگر بعض نے یہ کہکر گنجائش دی ہے کہ اگر امام اجتماعی عمومی دعا کروا رہا ہو، مقتدی اس کی دعا پر آمین بھی کہہ رہے ہوں تو امام اب قرآنی دعا کے صیغوں میں رد وبدل مثلاً 'إني كنتُ من الظالمين' کی جگہ 'إنا كنّا من الظالمين' کرسکتا ہے، اور صیغوں کی یہ تبدیلی تلاوت کی نیت سے نہیں؛ بلکہ دعا کی نیت سے ہوگی جو تحریف قرآن کے زمرے میں نہیں آئے گی۔ اگر امام اپنی مخصوص دعا میں ہو اور مقتدی اپنی دعاؤں میں، تو اب ان کے یہاں بھی ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے.
جواز کے قائلین نے اپنے موقف پہ متعدد دلائل دیئے ہیں، تمام دلائل کا استیعاب اور جائزہ لینے کا یہ وقت نہیں ہے، یہاں صرف اس دلیل پہ غور کیا جارہا ہے جو دارالعلوم دیوبند کے اس فتوی میں ذکر کی گئی ہے. قرآنی آیت کے صیغوں میں امام کا اپنی طرف سے رد وبدل کے جواز پہ فتاوی شامی میں اس مبینہ روایت کو پیش کیا گیا ہے:
عمم في دعائك، فإن بين الدعاء الخاص والعام كما بين السماء والأرض الخ
جہاں تک اس اثر کی اصلیت کی بات ہے تو اس روایت کا کسی بھی حدیث کی کتاب میں دور دور تک مجھے اس کا وجود نہیں مل سکا،
الفروع لابن مفلح الحنبلي (1/405)، كشاف القناع (1/367) ، ردالمحتار على الدر المختار لابن عابدين (1/350) اور حاشية الجمل في باب صفة الصلاة (2/101)
جیسی فقہی کتابوں میں اس کا ذکر ضرور ملتا ہے. یہ اثر ابن ذي الخويصرة صحابی کا ہے جنہوں نے اپنی دیہاتی سادگی کے باعث یہ دعا مانگی تھی: اللهم ارحمني وارحم محمداً ولا تُشْرك معنا أحداً، اور 'أدخلني الله تعالى وإياك الجنة ولا أدخلها غيرنا' کہا تھا، ان کے کندھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنی دعا میں عموم پیدا کرو!
"ويلك، احتظرت واسعاً"!
"عمّم دعاءك" کا معنی یہ ہرگز نہیں ہے کہ قرآنی دعا کے کلمات میں اپنی طرف سے رد وبدل کرو، جس شامی کی عبارت سے ناقص استدلال کیا گیا ہے کم ازکم اوپر نیچے کی عبارت بھی پڑھ لی جاتی تو یہ مغالطہ نہ ہوتا، شامی کی پوری عبارت نقل کررہا ہوں، پڑھئے! اور دیکھئے کہ عبارت کا مفاد کیا ہے؟ اور استدلال کیا کیا جارہا ہے؟
'وكان ينبغي أن يزيد ولجميع المؤمنين والمؤمنات كما فعل في المنية لأن السنة التعميم ، لقوله تعالى { واستغفر لذنبك وللمؤمنين والمؤمنات} وللحديث {من صلى صلاة لم يدع فيها للمؤمنين والمؤمنات فهي خداج}، كما في البحر، ولخبر المستغفري {ما من دعاء أحب إلى الله من قول العبد: اللهم اغفر لأمة محمد مغفرة عامة}
وفي رواية {أنه صلى الله عليه وسلم سمع رجلا يقول: اللهم اغفر لي، فقال: ويحك لو عممت لاستجيب لك} وفي أخرى {أنه ضرب منكب من قال اغفر لي وارحمني ، ثم قال له: عمم في دعائك، فإن بين الدعاء الخاص والعام كما بين السماء والأرض} وفي البحر عن الحاوي القدسي: من سنن القعدة الأخيرة الدعاء بما شاء من صلاح الدين والدنيا لنفسه ولوالديه [ص: 522]
(رد المحتار على الدر المختار لابن عابدين (1/350)
عبارت کا ماحصل یہی ہے کہ ایک مومن کو اپنی دعا میں پوری امت مسلمہ کو شامل کرنا چاہیے. اللہ کی نظر میں یہ سب سے محبوب بندے کا عمل ہے:
{ما من دعاء أحب إلى الله من قول العبد: اللهم اغفر لأمة محمد مغفرة عامة}
کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی المالکی ۳۵۰/۲
اسی مفہوم کو یمن کے اعرابی صحابی ذو الخویصرہ کے اثر میں
(عمم في دعائك، فإن بين الدعاء الخاص والعام كما بين السماء والأرض}
کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے، اس کا مسئلہ مبحوث عنہا سے کوئی تعلق نہیں ہے
پھر یہ اثر میری تلاش کی حد تک کسی حدیث کی کتاب میں دستیاب بھی نہیں ہے
یہ کہنا کہ تلاوت نہیں؛ بلکہ دعا کی نیت سے قرآنی کلمات میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے بجائے خود قابل غور ہے
کتاب اللہ کی تلاوت ہی دعا ہے
اور دعا ہی تلاوت ہے
دونوں میں تلازم ہے
کیا صرف دعا کی نیت کرلینے سے کوئی آیت ، قرآن ہونے سے نکل سکتی ہے؟
اگر صرف نیت کرلینے سے ہی آیت کا قرآن ہونے سے خروج ہوتا رہے تو پہر قرآن کیا بچا؟؟ محرر مفتی صاحب کا یہ اپنا خیال ہے. مدعا پہ کوئی مضبوط دلیل بھی پیش نہیں کی گئی ہے. بنا بریں مجھے اس فتوی اور اس کے مشمولات سے قطعی اتفاق نہیں. دلیل کے ساتھ اختلاف رائے کا حق ہر اہل علم کے لئے محفوظ ہے، یہ کسی کی جلالت علمی اور عظمت شان کے منافی نہیں. تو میرا جواب دعا ماثورہ میں رد وبدل سے متعلق تھا. آپ نے آیت قرآنی کے صیغوں میں رد وبدل والا ایسا فتوی پیش کردیا جس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں. یہ 'خلط مبحث' ہے
جہاں تک دعاء ماثورہ کے صیغوں میں اپنی طرف سے ردوبدل کی بات ہے تو جیساکہ عرض کیا کہ عبادتوں کی بنیاد 'اتّباع' پہ ہوتی ہے 'ابتداع' پہ نہیں
داعی کے لئے ضروری ہے کہ نماز وروزہ اور دیگر عبادتوں میں شرعی ہدایات کی پیروی کی طرح دعاؤں میں بھی شرعی ہدایات کی اتباع کرے. اپنی طرف سے کمی بیشی کرکے حد اعتدال سے تجاوز کرنے کی ممانعت حدیث میں آئی ہے
علماء نے دعاء ماثورہ کی بنیادی طور پہ دو قسمیں کی ہیں
1. ایک وہ دعا ہے جو دین و دنیا کی بھلائی سے متعلق مطلق واد ہوئی ہے، زمان ومکان کی قید سے آزاد ہے
2. دوسری وہ دعا ہے جو خاص اوقات وازمنہ میں پڑھنے کے لئے وارد ہوئی ہیں
یا جن کے الفاظ وکلمات کی حفاظت شریعت مطہرہ کو مقصود ہو
جیسے اذان واقامت وغیرہ
یا جیسے کھانا کھانے، سونے، اٹھنے، چھینکنے وغیرہ کے وقت کی دعائیں وغیرہ
قسم اوّل کی دعا میں کمی بیشی اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مبادیات واصول اسلام کے معارض نہ ہو یا حداعتدال سے تجاوز نہ کیا گیا ہو. دعا کی یہ قسم 'توقیفی' نہیں ہوتی ہے. قسم ثانی کی دعاء میں احناف اور حنابلہ کے یہاں جواز تو ہے لیکن بہتر پھر بھی نہیں. امام مالک کے یہاں اور امام شافعی کے ایک قول کے مطابق ماثور دعائوں خواہ اندرون نماز ہو یا بیرون نماز نقص واضافہ جائز نہیں ہے
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے جوامع الکلم عطا کئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں نورانیت ہوتی ہے وہ قبولیت خداوندی کے زیادہ مستحق ہیں. دین و دنیا کی ہر بھلائی کو مستجمع ہوتی ہیں. اب اپنی طرف سے صیغے بدلنا
اعلی کو ادنی سے بدلنا یعنی ریشم میں ٹاٹ کی پیوند لگانے کے مرادف ہے. اللہ اور اس کے رسول کی مدح وتوصیف میں مبالغہ آمیز باتیں کرکے یا ماثور دعاؤں میں رد وبدل کرکے معانی ومفاہیم میں غلو اور افراط وتفریط کرنا یا کتاب وسنت کی ثابت شدہ دعاؤں کے بالمقابل من گھڑت اوراد ووظائف پہ اعتماد کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے. آپ نے ممانعت پوچھی تھی. یہ لیجئے ممانعت!
روى أحمد (16354) وابن ماجة (3864) عَنْ أَبِي نَعَامَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ سَمِعَ ابْنَهُ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْقَصْرَ الْأَبْيَضَ عَنْ يَمِينِ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلْتُهَا. فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ سَلْ اللَّهَ الْجَنَّةَ وَعُذْ بِهِ مِنْ النَّارِ؛ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: (سَيَكُونُ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ)
(أحمد (16354) وابن ماجة (3864)
والحديث صحيح)
"یعنی میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دعا کرتے وقت حد اعتدال سے تجاوز کریں گے۔"
پہلے جواب میں مسلم شریف کے حوالے سے یہ روایت ذکر کرچکا ہوں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوتے وقت کی ایک دعا سکھائی جس میں یہ الفاظ تھے۔ وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.
انھوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا یاد کرکے سنائی تو:
"وَرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ" یعنی انھوں نے 'نَبِيِّكَ' کی بجائے"رَسُولِكَ" پڑھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ" کے الفاظ ہی یاد کرو۔"
اس سے بھی پتہ چلتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا میں ترمیم کو قبول نہیں کیا. نیز مصنف ابن ابی شبیہ کی ایک روایت نمبر 3012 میں ہے کہ حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ نے ایک اعرابی کو تشہد سکھایا: "أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله"
اعرابی نے تشہد سناتے ہوئے ساتھ میں 'ومغفرته' کا اضافہ کردیا، حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ نے اس اضافے پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا کہ "هكذا عُلِّمنا" یعنی اس زیادتی کے بغیر ہم لوگ سیکھے ہیں، (لہذا تم بھی بعینہ پڑھو)۔
جواز اضافہ کے قائلین فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ کے کلمات پڑھے تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں اضافہ کرکے
"لبيك وسعديك والخير بين يديك والرغباء إليك والعمل"
کا اضافہ فرمادیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ماثور دعا میں زیادتی کی جاسکتی ہے
میں کہتا ہوں کہ یہ کلمات وصیغے کی زیادتی نہیں ہے بلکہ حمد وثناء خداوندی کا مستقل اضافہ ہے جہاں سکوت نبوی سے اس کی گنجائش نکلتی ہے وہیں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار اضافے کے علی الرغم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہی کلمات کا تکرار یہ بھی بتاتا ہے کہ اضافہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چنداں محبوب نہیں تھا؛ ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سہ بارہ اس اضافہ کے ساتھ پڑھتے!
یہ سرسری ذکر ہے ورنہ مجوزین اور مانعین کے اپنے اپنے نقطہائے نظر پہ اور بھی متعدد دلائل ہیں. ایک ایسے وقت میں جبکہ عوام الناس میں عبادت کی طرح دعاؤں میں بھی نئی نئی مجربات در آئی ہیں. حل مشکلات کے لیے ماثور ومنقول دعاؤں میں دلچسپی کی بجائے مجربات شیخ اور خواب ومنام پہ بھروسہ کرنے کا رجحان عام ہورہا ہے. ضرورت ہے کہ کتاب وسنت کی ادعیہ ماثورہ کو اپنی شکلوں اور الفاظ میں محفوظ کرنے اور پڑھنے کا عمومی مزاج پیدا کیا جائے
انسان کا نفس بڑا ہی سہولت پسند واقع ہوا ہے. کلمات وصیغے میں رد وبدل کی گنجائش سے معاملہ بہت دور تک نہ چلا جائے. اس لئے میں اس بابت نرمی کا قائل نہیں. میرے اوپر کے جواب میں عدم جواز کی بات قسم دوم کی دعاؤں سے متعلق ہے-
قسم اوّل کی دعاؤں میں جہاں الفاظ وکلمات کا تحفظ یا وقت وزمانے کا اختصاص مقصد شرع نہیں ہوتا بلکہ مطلق دین ودنیا کی بھلائی کی دعا کی جاتی ہے. جیسے "اللهم اغفرلي وارحمني" وغیرہ. وہاں معاملے میں وسعت ہے. داعی حسب حال وتقاضہ کلمات میں اضافے کا مجاز ہے. دعا کی یہ قسم توقیفی نہیں لیکن دوسری قسم توقیفی ہے. اس میں توسع کے ہم قائل نہیں. الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا کو "الحمد لله على الإطعام" يا "اللهم بك أصبحنا وبك أمسينا" کو "اللهم بك أصبحتُ وبك أمسيتُ" کہنے کو ہم جائز نہیں سمجھتے. هذا مقام التفصيل وذاك كان مقام الإجمال .
والله اعلم
شكيل منصور القاسمي
https://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_72.html
سوال
—-
السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔۔۔
آپ نے اپنے مذکورہ فتویٰ میں یہ رقم کیا ہے کہ۔
قبولیت دعا یا جزاء وبدلہ انہی صیغے وکلمات کے ساتھ خاص ہوتے ہیں؛
اس لئے علماء محققین کی تحقیق اس خصوص میں یہ ہے کہ دعاء ماثورہ ومسنونہ کے کلمات وحروف توقیفے ہوتے ہیں، اس میں کسی قسم کا ردوبدل جائز نہیں ہے۔ جن صیغوں کے ساتھ دعائیں وارد ہوئی ہیں انہی شکل وصورت کے ساتھ پڑھنا ضروری ومتعین ہے۔
جب کہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کے ذیل کے فتوی میں کچھ یوں لکھا ہے:
سوال
(۱) کیا قرآنی آیت میں جو دعا ہے واحد کے صیغہ کو جمع صیغہ میں بدل سکتے ہیں؟مثال کے طوسرپر ” رب زدنی سے زدنا“۔
(۲) کیادعا میں بھی تجوید کی عایت رکھنا ضروری ہے؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 727-581/D=7/1436-U
(۱) قرآنی آیات میں جو دعائیں بصیغہٴ واحد وارد ہوئی ہیں انھیں دعا کے طور پر جمع کے صیغے کے ساتھ پڑھنا جائز ہے، بالخصوص مواقع اجتماع میں قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: عَمِّم في دعائک فإن بین الدعاء الخاص والعام کما بین السماء والأرض․ (ردالمحتار: ۲/۲۳۵، ط زکریا)
(۲) تجوید یعنی حروف کو ان کے مخارج اصلیہ اور صفاتِ لازمہ کے ساتھ ادا کرنا قرآن کریم پڑھنے کے لیے ضروری ہے، باقی قرآن وحدیث پر مشتمل دعاوٴں میں بھی تجوید کی رعایت رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :59116
تاریخ اجراء :May 5, 2015
اس کا حل کیا ہوگا؟
دوسری چیز آپ نے یہ لکھی ہے کہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کے رد وبدل سے منع فرمایا ہے۔
اس سے متعلق کوئی نص آپ نے ذکر نہیں فرمائی۔
ہاں نبی اور رسول والی نص موجود ہے لیکن کیا اس میں ہر قسم کی تبدیلی داخل ہے؟
از راہ تلطف، نظر فرمائیں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
دعاء بذات خود عبادت بلکہ افضل ترین عبادت اور مغز عبادت ہے ، عبادات کی بنیاد اتباع (توقیف) پہ ہوتی ہے، 'ابتداع' پہ نہیں! اسی کو علماء فرماتے ہیں کہ دعاء بھی دیگر عبادات کی طرح توقیفی ہے۔ داعی کے لئے اپنی دعا میں شرعی حدود کی پابندی اور اس میں حد اعتدال سے تجاوز سے گریز لابدی ہے، دعا میں حد اعتدال سے تجاوز کرنے کی ممانعت حدیث میں آئی ہے. بعض دعائیں قرآنی ہیں جبکہ بعض دعائیں ماثورہ: یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں یا آپ نے انہیں پڑھایا یا پڑھنے کا حکم دیا، ثانی الذکر کو دعاء ماثورہ ومسنونہ کہتے ہیں
قرآنی دعاء کے صیغوں میں رد وبدل کی بات میرے مضمون میں ہے ہی نہیں، یہ ایک مستقل موضوع بحث ہے.
کاش! میری تحریر کے عنوان پہ غور کرلیا جاتا تو یہ خلط مبحث نہیں ہوتا
خیر! بات چل پڑی ہے تو تفصیل میں جائے بغیر اجمالاً عرض کیے دیتا ہوں
قرآنی دعاؤں کے صیغوں میں افراد، تثنیہ وجمع کا رد وبدل کرنا جائز ہے یا نہیں؟
عرب وعجم کے علماء کے اس میں مختلف نقطہائے نظر ہیں. بعضوں نے رد وبدل کو بالکل ناجائز کہا ہے جبکہ دیگر بعض نے یہ کہکر گنجائش دی ہے کہ اگر امام اجتماعی عمومی دعا کروا رہا ہو، مقتدی اس کی دعا پر آمین بھی کہہ رہے ہوں تو امام اب قرآنی دعا کے صیغوں میں رد وبدل مثلاً 'إني كنتُ من الظالمين' کی جگہ 'إنا كنّا من الظالمين' کرسکتا ہے، اور صیغوں کی یہ تبدیلی تلاوت کی نیت سے نہیں؛ بلکہ دعا کی نیت سے ہوگی جو تحریف قرآن کے زمرے میں نہیں آئے گی۔ اگر امام اپنی مخصوص دعا میں ہو اور مقتدی اپنی دعاؤں میں، تو اب ان کے یہاں بھی ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے.
جواز کے قائلین نے اپنے موقف پہ متعدد دلائل دیئے ہیں، تمام دلائل کا استیعاب اور جائزہ لینے کا یہ وقت نہیں ہے، یہاں صرف اس دلیل پہ غور کیا جارہا ہے جو دارالعلوم دیوبند کے اس فتوی میں ذکر کی گئی ہے. قرآنی آیت کے صیغوں میں امام کا اپنی طرف سے رد وبدل کے جواز پہ فتاوی شامی میں اس مبینہ روایت کو پیش کیا گیا ہے:
عمم في دعائك، فإن بين الدعاء الخاص والعام كما بين السماء والأرض الخ
جہاں تک اس اثر کی اصلیت کی بات ہے تو اس روایت کا کسی بھی حدیث کی کتاب میں دور دور تک مجھے اس کا وجود نہیں مل سکا،
الفروع لابن مفلح الحنبلي (1/405)، كشاف القناع (1/367) ، ردالمحتار على الدر المختار لابن عابدين (1/350) اور حاشية الجمل في باب صفة الصلاة (2/101)
جیسی فقہی کتابوں میں اس کا ذکر ضرور ملتا ہے. یہ اثر ابن ذي الخويصرة صحابی کا ہے جنہوں نے اپنی دیہاتی سادگی کے باعث یہ دعا مانگی تھی: اللهم ارحمني وارحم محمداً ولا تُشْرك معنا أحداً، اور 'أدخلني الله تعالى وإياك الجنة ولا أدخلها غيرنا' کہا تھا، ان کے کندھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنی دعا میں عموم پیدا کرو!
"ويلك، احتظرت واسعاً"!
"عمّم دعاءك" کا معنی یہ ہرگز نہیں ہے کہ قرآنی دعا کے کلمات میں اپنی طرف سے رد وبدل کرو، جس شامی کی عبارت سے ناقص استدلال کیا گیا ہے کم ازکم اوپر نیچے کی عبارت بھی پڑھ لی جاتی تو یہ مغالطہ نہ ہوتا، شامی کی پوری عبارت نقل کررہا ہوں، پڑھئے! اور دیکھئے کہ عبارت کا مفاد کیا ہے؟ اور استدلال کیا کیا جارہا ہے؟
'وكان ينبغي أن يزيد ولجميع المؤمنين والمؤمنات كما فعل في المنية لأن السنة التعميم ، لقوله تعالى { واستغفر لذنبك وللمؤمنين والمؤمنات} وللحديث {من صلى صلاة لم يدع فيها للمؤمنين والمؤمنات فهي خداج}، كما في البحر، ولخبر المستغفري {ما من دعاء أحب إلى الله من قول العبد: اللهم اغفر لأمة محمد مغفرة عامة}
وفي رواية {أنه صلى الله عليه وسلم سمع رجلا يقول: اللهم اغفر لي، فقال: ويحك لو عممت لاستجيب لك} وفي أخرى {أنه ضرب منكب من قال اغفر لي وارحمني ، ثم قال له: عمم في دعائك، فإن بين الدعاء الخاص والعام كما بين السماء والأرض} وفي البحر عن الحاوي القدسي: من سنن القعدة الأخيرة الدعاء بما شاء من صلاح الدين والدنيا لنفسه ولوالديه [ص: 522]
(رد المحتار على الدر المختار لابن عابدين (1/350)
عبارت کا ماحصل یہی ہے کہ ایک مومن کو اپنی دعا میں پوری امت مسلمہ کو شامل کرنا چاہیے. اللہ کی نظر میں یہ سب سے محبوب بندے کا عمل ہے:
{ما من دعاء أحب إلى الله من قول العبد: اللهم اغفر لأمة محمد مغفرة عامة}
کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی المالکی ۳۵۰/۲
اسی مفہوم کو یمن کے اعرابی صحابی ذو الخویصرہ کے اثر میں
(عمم في دعائك، فإن بين الدعاء الخاص والعام كما بين السماء والأرض}
کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے، اس کا مسئلہ مبحوث عنہا سے کوئی تعلق نہیں ہے
پھر یہ اثر میری تلاش کی حد تک کسی حدیث کی کتاب میں دستیاب بھی نہیں ہے
یہ کہنا کہ تلاوت نہیں؛ بلکہ دعا کی نیت سے قرآنی کلمات میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے بجائے خود قابل غور ہے
کتاب اللہ کی تلاوت ہی دعا ہے
اور دعا ہی تلاوت ہے
دونوں میں تلازم ہے
کیا صرف دعا کی نیت کرلینے سے کوئی آیت ، قرآن ہونے سے نکل سکتی ہے؟
اگر صرف نیت کرلینے سے ہی آیت کا قرآن ہونے سے خروج ہوتا رہے تو پہر قرآن کیا بچا؟؟ محرر مفتی صاحب کا یہ اپنا خیال ہے. مدعا پہ کوئی مضبوط دلیل بھی پیش نہیں کی گئی ہے. بنا بریں مجھے اس فتوی اور اس کے مشمولات سے قطعی اتفاق نہیں. دلیل کے ساتھ اختلاف رائے کا حق ہر اہل علم کے لئے محفوظ ہے، یہ کسی کی جلالت علمی اور عظمت شان کے منافی نہیں. تو میرا جواب دعا ماثورہ میں رد وبدل سے متعلق تھا. آپ نے آیت قرآنی کے صیغوں میں رد وبدل والا ایسا فتوی پیش کردیا جس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں. یہ 'خلط مبحث' ہے
جہاں تک دعاء ماثورہ کے صیغوں میں اپنی طرف سے ردوبدل کی بات ہے تو جیساکہ عرض کیا کہ عبادتوں کی بنیاد 'اتّباع' پہ ہوتی ہے 'ابتداع' پہ نہیں
داعی کے لئے ضروری ہے کہ نماز وروزہ اور دیگر عبادتوں میں شرعی ہدایات کی پیروی کی طرح دعاؤں میں بھی شرعی ہدایات کی اتباع کرے. اپنی طرف سے کمی بیشی کرکے حد اعتدال سے تجاوز کرنے کی ممانعت حدیث میں آئی ہے
علماء نے دعاء ماثورہ کی بنیادی طور پہ دو قسمیں کی ہیں
1. ایک وہ دعا ہے جو دین و دنیا کی بھلائی سے متعلق مطلق واد ہوئی ہے، زمان ومکان کی قید سے آزاد ہے
2. دوسری وہ دعا ہے جو خاص اوقات وازمنہ میں پڑھنے کے لئے وارد ہوئی ہیں
یا جن کے الفاظ وکلمات کی حفاظت شریعت مطہرہ کو مقصود ہو
جیسے اذان واقامت وغیرہ
یا جیسے کھانا کھانے، سونے، اٹھنے، چھینکنے وغیرہ کے وقت کی دعائیں وغیرہ
قسم اوّل کی دعا میں کمی بیشی اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مبادیات واصول اسلام کے معارض نہ ہو یا حداعتدال سے تجاوز نہ کیا گیا ہو. دعا کی یہ قسم 'توقیفی' نہیں ہوتی ہے. قسم ثانی کی دعاء میں احناف اور حنابلہ کے یہاں جواز تو ہے لیکن بہتر پھر بھی نہیں. امام مالک کے یہاں اور امام شافعی کے ایک قول کے مطابق ماثور دعائوں خواہ اندرون نماز ہو یا بیرون نماز نقص واضافہ جائز نہیں ہے
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے جوامع الکلم عطا کئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں نورانیت ہوتی ہے وہ قبولیت خداوندی کے زیادہ مستحق ہیں. دین و دنیا کی ہر بھلائی کو مستجمع ہوتی ہیں. اب اپنی طرف سے صیغے بدلنا
اعلی کو ادنی سے بدلنا یعنی ریشم میں ٹاٹ کی پیوند لگانے کے مرادف ہے. اللہ اور اس کے رسول کی مدح وتوصیف میں مبالغہ آمیز باتیں کرکے یا ماثور دعاؤں میں رد وبدل کرکے معانی ومفاہیم میں غلو اور افراط وتفریط کرنا یا کتاب وسنت کی ثابت شدہ دعاؤں کے بالمقابل من گھڑت اوراد ووظائف پہ اعتماد کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے. آپ نے ممانعت پوچھی تھی. یہ لیجئے ممانعت!
روى أحمد (16354) وابن ماجة (3864) عَنْ أَبِي نَعَامَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ سَمِعَ ابْنَهُ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْقَصْرَ الْأَبْيَضَ عَنْ يَمِينِ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلْتُهَا. فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ سَلْ اللَّهَ الْجَنَّةَ وَعُذْ بِهِ مِنْ النَّارِ؛ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: (سَيَكُونُ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ)
(أحمد (16354) وابن ماجة (3864)
والحديث صحيح)
"یعنی میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دعا کرتے وقت حد اعتدال سے تجاوز کریں گے۔"
پہلے جواب میں مسلم شریف کے حوالے سے یہ روایت ذکر کرچکا ہوں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوتے وقت کی ایک دعا سکھائی جس میں یہ الفاظ تھے۔ وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.
انھوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا یاد کرکے سنائی تو:
"وَرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ" یعنی انھوں نے 'نَبِيِّكَ' کی بجائے"رَسُولِكَ" پڑھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ" کے الفاظ ہی یاد کرو۔"
اس سے بھی پتہ چلتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا میں ترمیم کو قبول نہیں کیا. نیز مصنف ابن ابی شبیہ کی ایک روایت نمبر 3012 میں ہے کہ حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ نے ایک اعرابی کو تشہد سکھایا: "أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله"
اعرابی نے تشہد سناتے ہوئے ساتھ میں 'ومغفرته' کا اضافہ کردیا، حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ نے اس اضافے پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا کہ "هكذا عُلِّمنا" یعنی اس زیادتی کے بغیر ہم لوگ سیکھے ہیں، (لہذا تم بھی بعینہ پڑھو)۔
جواز اضافہ کے قائلین فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ کے کلمات پڑھے تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں اضافہ کرکے
"لبيك وسعديك والخير بين يديك والرغباء إليك والعمل"
کا اضافہ فرمادیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ماثور دعا میں زیادتی کی جاسکتی ہے
میں کہتا ہوں کہ یہ کلمات وصیغے کی زیادتی نہیں ہے بلکہ حمد وثناء خداوندی کا مستقل اضافہ ہے جہاں سکوت نبوی سے اس کی گنجائش نکلتی ہے وہیں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار اضافے کے علی الرغم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہی کلمات کا تکرار یہ بھی بتاتا ہے کہ اضافہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چنداں محبوب نہیں تھا؛ ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سہ بارہ اس اضافہ کے ساتھ پڑھتے!
یہ سرسری ذکر ہے ورنہ مجوزین اور مانعین کے اپنے اپنے نقطہائے نظر پہ اور بھی متعدد دلائل ہیں. ایک ایسے وقت میں جبکہ عوام الناس میں عبادت کی طرح دعاؤں میں بھی نئی نئی مجربات در آئی ہیں. حل مشکلات کے لیے ماثور ومنقول دعاؤں میں دلچسپی کی بجائے مجربات شیخ اور خواب ومنام پہ بھروسہ کرنے کا رجحان عام ہورہا ہے. ضرورت ہے کہ کتاب وسنت کی ادعیہ ماثورہ کو اپنی شکلوں اور الفاظ میں محفوظ کرنے اور پڑھنے کا عمومی مزاج پیدا کیا جائے
انسان کا نفس بڑا ہی سہولت پسند واقع ہوا ہے. کلمات وصیغے میں رد وبدل کی گنجائش سے معاملہ بہت دور تک نہ چلا جائے. اس لئے میں اس بابت نرمی کا قائل نہیں. میرے اوپر کے جواب میں عدم جواز کی بات قسم دوم کی دعاؤں سے متعلق ہے-
قسم اوّل کی دعاؤں میں جہاں الفاظ وکلمات کا تحفظ یا وقت وزمانے کا اختصاص مقصد شرع نہیں ہوتا بلکہ مطلق دین ودنیا کی بھلائی کی دعا کی جاتی ہے. جیسے "اللهم اغفرلي وارحمني" وغیرہ. وہاں معاملے میں وسعت ہے. داعی حسب حال وتقاضہ کلمات میں اضافے کا مجاز ہے. دعا کی یہ قسم توقیفی نہیں لیکن دوسری قسم توقیفی ہے. اس میں توسع کے ہم قائل نہیں. الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا کو "الحمد لله على الإطعام" يا "اللهم بك أصبحنا وبك أمسينا" کو "اللهم بك أصبحتُ وبك أمسيتُ" کہنے کو ہم جائز نہیں سمجھتے. هذا مقام التفصيل وذاك كان مقام الإجمال .
والله اعلم
شكيل منصور القاسمي
https://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_72.html