Wednesday, 31 July 2019

ایک ہی شادی کرنے والے صحابہ

ایک ہی شادی کرنے والے صحابہ

‎کسی نے پوچھا کہ ایسے کسی صحابی کا نام بتائیں جنہوں نے زندگی میں صرف ایک شادی کی ہو؟ تو تلاش بسیار کے باوجود دماغ کے گوگل سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ مجبورا کتبِ سیرِ صحابہ کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ مگر وہاں بھی ورق گردانی کا سلسلہ طویل تر ہوتا چلا گیا، لیکن کسی ایک بھی ایسے صحابی کا نام سامنے نہیں آیا، جس نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد طویل زندگی پائی ہو اور ایک ہی شادی پر اکتفا کیا ہو۔ البتہ ایسے کئی اصحابِ مصطفی ص کے نام نظر سے گزرے، جنہوں نے پہلی شادی کی اور کچھ عرصے بعد راہِ خدا میں شہید ہوگئے یا قبل از نکاح ہی وہ جام شہادت نوش کر گئے۔ پھر کافی جستجو کے بعد "طویل زندگی پانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے صرف ایک ہستی ایسی ملی، جن کی صرف ایک بیوی ہونے پر مورخین نے اتفاق کیا ہے اور وہ ہیں اِس امت کے درویش حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ۔ (نام: جندب بن جنادہ) جن کی وفات تک حضرت ام ذر رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی بیوی نہیں تھی۔" ان کا مسلک ہی جمہور صحابہ کرام سے نرالا اور فقر و زہد اور ترکِ دنیا پر مبنی تھا۔ تاہم "بعض مورخین نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی لکھاکہ انہوں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی خاتون سے شادی نہیں کی تھی۔
‎(البدایہ والنہایہ۔ اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ)
‎ان دو حضرات کے علاوہ ایسے کسی اور صحابی کا نام آپ کو معلوم ہو تو مطلع فرمایئے گا۔ جزاکم اللہ
‎آج بھی عرب ممالک میں ایک بیوی پر اکتفاء کرنے والوں کو تعجب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہاں آج بھی دو تین شادیاں معمول کا حصہ ہے۔ غالبا برصغیر کے مسلمانوں میں ایک سے زائد بیوی کو رکھنے کی سوچ ہنود سے آئی ہے۔

فرمان مظاہری

Monday, 29 July 2019

کیا ایک لاکھ نماز کے ثواب کی بشارت پوری حدود حرم کو عام ہے؟

کیا ایک لاکھ نماز کے ثواب کی بشارت پوری حدود حرم کو عام ہے؟

سوال
جی مفتی صاحب السلام علیکم
میں علاقہ پالن پور سے افضل
حضرت ان دو مسئلوں کے جواب مطلوب تھے.
۱  کیا عزیزیہ کا حصہ حرم میں داخل ہے؟ عزیزیہ کی مسجد میں نماز کا ثواب مسجد حرام میں ثواب کے برابر ہوگا؟
۲  اور کیا کنکریاں ابھی سے کوئی جمع کرلے تو کوئی حرج لازم آئے گا؟
——————————-
الجواب وباللہ التوفیق:
محلہ عزیز یہ حدود حرم سے باہر ہے
ایک لاکھ ثواب ملنے کی جو روایت ہے:
صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَهِ صَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ وَصَلَاهٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ.
جو اپنے گھر میں نماز پڑھے اسے ایک نماز کا جو محلہ کی مسجد میں نماز پڑھے اسے پچیس نمازوں کا، جو جامع مسجد میں پڑھے اسے پانچ سو نمازوں کا، جو مسجد اقصیٰ اور میری مسجد میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزا رکا اور جو مسجد حرام میں نماز پڑھے اسے ایک لاکھ نماز کا ثواب ملتا ہے۔
(ابن ماجہ، السنن، 1: 453، رقم: 1413، بيروت: دار الفکر)
تو راجح قول کے مطابق یہ بشارت مسجد حرام کی نماز کے ساتھ مختص ہے پورے حدود حرم کو عام نہیں
اگرچہ بعض علماء کا موقف عموم کا بھی ہے ! اس بابت دارالعلوم دیوبند کا ایک فتوی ملاحظہ ہو:
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1406-1403/N=2/1438
(۱، ۲): حضرت عبد اللہ بن الزیبر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مسجد حرام میں (فرض) نماز پڑھنے کی جو فضیلت آئی ہے، اس میں مسجد حرام کی مراد میں علمائے کرام کا اختلاف ہوا ہے، جمہور احناف کے نزدیک صحیح وراجح یہ ہے کہ اس فضیلت میں مسجد حرام سے مراد اس کا وہ حصہ ہے جو مسجد شرعی ہے، اس میں نماز با جماعت ہوتی ہے اور جنبی اور حائضہ وغیرہ کے لئے اس میں داخلہ شرعاً ممنوع ہے،اور مسجد بھرجانے کی صورت میں اسی کے حکم میں وہ حصہ بھی ہوگا جہاں تک لوگوں کی صفیں ہوں، اس فضیلت میں پورا حدود حرم شامل نہیں ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص مسجد حرام کے علاوہ مکہ مکرمہ کی کسی اور مسجد میں یا گھر میں فرض نماز با جماعت پڑھتا ہے تو اس کا ثواب مسجد حرام کی نماز کے برابر نہ ہوگا، البتہ بعض روایات کی بنا پر نماز کی تخصیص کے بغیر مطلق نیکی کا ثواب حدود حرم میں ایک لاکھ کے برابر ہوتا ہے (غنیة الناسک قدیم ص ۷۶) ،اور محب الدین طبری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مسجد حرام میں نماز کا ثواب عام نیکیوں سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے (البحر العمیق ص ۱۵۲)۔ اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے علامہ بیری کی شرح اشباہ کے حوالے سے جو قول نقل فرمایا ہے وہ جمہور احناف کے نزدیک محض مشہور ہے ، صحیح وراجح اور محقق قول نہیں ہے؛ اسی لیے صاحب غنیة الناسک نے اس کی تردید فرمائی ہے، چناں چہ فرماتے ہیں: فما في رد المحتار :”وذکر البیري في شرح الأشباہ أن المشھور من أصحابنا أن التضعیف یعم جمیع مکة بل جمیع حرمھا الذي یحرم صیدہ کما صححہ النووي“ لیس کما ینبغي، نعم مضاعفة الحسنة مطلقاً بمائة ألف تعم الحرم کلہ الخ(غنیة الناسک قدیم ص ۷۶)، مزید تفصیل کے لیے اس سلسلہ میں دار العلوم دیوبند کا ایک مفصل ومدلل فتوی (۰۵ ۱۴/ن، ۱۴۰۲/آ ۱۴۳۷ھ) منسلک ہے، اسے ملاحظہ فرمالیں۔
(محرر : مفتی محمد نعمان سیتا پوری)
-----------------
کنکریاں چننے کی کوئی جگہ مخصوص نہیں ہے ، جمرات کا اطراف چھوڑ کے منی مزدلفہ مکہ اور عرفات کہیں سے بھی چن سکتے ہیں اور کبھی بھی چن سکتے ہیں ۔ دس گیارہ بارہ ذی الحجہ تین دنوں کی رمی کے لئے ہر حاجی کو انچاس کنکریاں مارنا ضروری ہے
تیرہ ذی الحجہ کو اکیس کنکریاں مارنا واجب نہیں ؛ بلکہ اختیاری ہے
ہاں یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کے لئے مزدلفہ یا اس کے راستے سے سات کنکریاں چننا مستحب ہے:
ویجوز أخذہا من کل موضع أي بلا کراہۃ إلا من عند الجمرۃ ، أي فإنہ مکروہ لأن جمراتہا الموجودۃ علامۃ أنہا المردودۃ ، فإن المقبولۃ منہا ترفع لتثقیل میزان صاحبہا ، إلا أنہ لو فعل ذلک جاز وکرہ ۔۔۔۔۔ والمسجد أي مسجد الخیف وغیرہ فإن حصی المسجد صار محترمًا یکرہ إخراجہ خصوصًا بقصد ابتذالہ ومکان نجس فإن فعل جاز وکرہ ، شرح لباب المناسک ص/۲۴۵، فصل في رفع الحصی ، ط؛ بیروت ، غنیۃ الناسک :ص/۹۰، فصل في إضافۃ من المشعر ودفع الحصی من مزدلفۃ)
في ’’نور الإیضاح‘‘: ویستحب أخذ الجمار من المزدلفۃ أو من الطریق ، ویکرہ من الذي عند الجمرۃ ۔ (ص/۱۷۷، فصل في کیفیۃ ترکیب أفعال الحج)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

Sunday, 28 July 2019

کثرت طواف افضل ہے یا کثرت عمرہ؟

کثرت طواف افضل ہے یا کثرت عمرہ؟
——————————
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
امیدکہ بخیرہوں گے
پوچھنایہ ہےکہ:
کیاحرم میں داخل ہونے کے بعد کسی کی جانب سےطواف کرنے سے طواف تحیہ ادا ہوجائے گا یا الگ سےطواف تحیہ کرنا پڑے گا؟
حج تمتع کرنے والے کیلئے بھی طواف قدوم ہے؟ یا عمرہ کا طواف ہی طواف قدوم کے قائم مقام ہوجائے گا
براہ مہربانی ایک جزئیہ اور دیکھ لیجئے گا:
کثرت طواف بہتر ہے یاکثرت عمرہ یا دونوں؟
جواب کا منتظر:
عقیل الرحمان سیتامڑھی
حال مقیم حرم مکی
28/7/2019
—————————-
الجواب وباللہ التوفیق:
طواف قدوم صرف مفرد اور قارن کے لئے مسنون ہے
متمتع یا صرف عمرہ کرنے والے کے لئے طواف قدوم مسنون نہیں ہے
طواف تحیہ مسجد حرام میں داخل ہونے والے کے لیے مستحب ہے، لیکن اگر کوئی دوسرا طواف کرلیا تو وہ اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔علیحدہ سے اب طواف تحیہ کی ضرورت نہیں ، تداخل ہوجائے گا
زیادہ طواف کرنا زیادہ عمرہ سے افضل ہے مگر شرط یہ ہے کہ عمرہ کرنے پر جتنا وقت خرچ ہوتا ہے اتنا وقت یا اس سے زیادہ طواف پر خرچ کرے ورنہ عمرہ کی جگہ ایک دو طواف کرلینے کو افضل نہیں کہا جاسکتا۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند)
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی

Saturday, 27 July 2019

گشت کے آداب

گشت کے آداب

ایک موقع پر ﺍﻧﻌﺎﻡ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﺑﮍﮮ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﯽ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﻟﻴﺎﺱ رحمت ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮨﻢ ﮐﻮ ﮔﺸﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺟﺎﺗﺎ، ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﻧﺼﯿﺤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ! ﺗﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﮨﻮ! ﺗﻮ ﻧﯿﺖ ﮐﺮﻟﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻧﯿﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ! ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺧﻮﺑﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﺎﻥ ﮨﮯ!
ﺍﺏ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻧﯿﺖ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﯾﺎ، ﺗﻮ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺗﻢ ﻓﻘﯿﺮ ﻭ ﺑﮭﮑﺎﺭﯼ ﭨﮭﮩﺮﮮ۔ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺅ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﻨﺎ ﮨﮯ!
ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺗﻢ ﺧﯿﺮ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺑﮭﮑﺎﺭﯼ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ ، ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﺩﮮ ، ﯾﺎ ﺩﮬﺘﮑﺎﺭ ﺩے!
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺍﺱ ﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻋﺬﺍﺏ ﺍﻟﮩﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﺎ!
ﺧﺪﺍﻧﺨﻮﺍﺳﺘﮧ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺩﺍﻋﯽ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺟﺎﺗﮯ ، ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﺍﻋﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺪ ﺳﻠﻮﮐﯽ ﮐﺮﺗﺎ ، ﺗﻮ ﮨﻼﮎ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ! ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮨﻼﮐﺖ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺗﻢ ﮨﻮﺋﮯ!
ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻓﯿﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ! ﺗﻢ ﺩﺍﻋﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﻔﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﮔﯿﺎ!
ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺩﺍﻋﯽ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻧﮧ ﺟﺎﺅ! ﺑﮭﮑﺎﺭﯼ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺟﺎﺅ!
ﺯﻭﺭ ﻭ ﻃﺎﻗﺖ ﺳﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ! ﺁﮦ ﻭﺯﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﻗﻠﻮﺏ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮭﻮﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ!
ﺩﺍﻋﯽ ﮐﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮨﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻭﺭﺍﻥِ ﺑﯿﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ! ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﺎ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮭﯽ!
ﻭﺍﻋﻆ ﮐﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﯿﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻭ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻨﺎﺩ ﻭ ﺩﻻﺋﻞ ﭘﺮ ﻟﮕﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ!
ﻭﺍﻋﻆ ﮐﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺩﺍﻋﯽ ﮐﺎ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ!
ﺟﻮ ﺩﺍﻋﯽ ﺗﮩﺠﺪ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﻟﯿﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻭﮦ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮍﺍ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮐﺮﮮ ، ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﻠﻮﺏ ﮐﻮ ﭼﯿﺮﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﺗﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ!
ﺟﻮ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺴﺘﯽ ﮐﺎ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮐﺮﮮ ، ﺍﻭﺭ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﮈﻧﮑﺎ ﭘﯿﭩﮯ ، ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﯽ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ!

احتساب

احتساب:-
احتساب کا لغوی معنی:
احتساب (ح․ س․ ب) سے ماخوذ ہے جس کا معنی شمار کرنا اور گننا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے: حسبت الشی احسبہ اذا اعددتہ۔​
اصطلاحی معنی:
امام ماوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”أن ینصح الانسان فی شاکلة‘وضاھاہ وان کان مذموماً استدرکہ ان امکن وانتھی عن مثلہ فی المستقبل“۔
ترجمہ: انسان دن کے اجالے میں اور رات کے اندھیرے میں اس سے صادر ہونے والے اعمال کا جائزہ لے۔ اگر وہ اعمال اچھے ہوں تو انہیں جاری رکھے اور ان جیسے اعمال مزید کرے، اگر اعمال برے ہو ں تو ان کی جانچ پڑتال کرے اور ان سے اور ان جیسے دیگر اعمال و افعال سے رک جائے اور آئندہ کبھی نہ کرے۔ (ادب الدنیا والدین: ص342)
نفس کا معنی یہ ہے کہ وہ روح ، جسم اور خون کا ایک ایسا لطیف مادہ ہے جو کہ ان تینوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے اگر کوئی ایک بھی باقی نہ رہیں تو کسی کی حیات و زندگی باقی نہ رہے گی۔
نفس کی تین قسمیں ہیں:
(1) نفس امّارہ: جو انسان کو شہوات و ملذات کی طرف راغب کرتا ہے اور دل کو پستی اور برے اخلاق و عادات کی طرف کھینچتا ہے۔
(2) نفس لوامہ: وہ نفس ہے کہ جب بتقاضائے بشریت انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر ندامت کے آنسو بہاتا ہے۔
(3) نفس مطمئنہ: وہ نفس ہے جو گندی عادات و صفات سے پاک و صاف ہوتا ہے اور عمدہ اخلاق و کردار سے متصف ہوتا ہے۔
واضح ہو کہ آخرت کی کامیابی کے حصول کے لیے نفس کو تمام گناہوں سے پاک و صاف کرنا ضروری ہے اس کے بغیر جنت کا حصول نا ممکن ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: (سورة الشمس 7 تا 10)ترجمہ : ”قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی ۔ پھر سمجھ دی اس کو برائی اور بچ کر نکلنے کی۔ جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملادیا وہ ناکام ہوا“۔
نبی اللہﷺ اپنے نفس کے لیے دعائیں مانگتے رہتے تھے آپﷺ کی یہ دُعا منقول ہے: ”اللھم آتِ نفسی ھواھا انت خیر من زکاہا انت ولیھا ومولاھا“ اے اللہ میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اسے پاک کردے اس لیے کہ تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے بلاشبہ تو ہی اس کا والی اور مولیٰ ہے۔( ٍصخيح مسلم )

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو قیامت کے دن کے احتساب سے بار بار ڈرایا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(الحشر19 - 18 )ترجمہ: ” اے ایمان والو !اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ لے کہ کل( قیامت) کے واسطے اس نے اعمال کا (کیا) ذخیرہ بھیجا ہے۔ اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنھوں نے اللہ کے (احکامات) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انھیں اپنی جانوں سے غافل کردیا ۔ اور ایسے ہی لوگ نافرمان( فاسق) ہوتے ہیں۔

علامہ ابن القیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: یدل علی محاسبة النفس قولہ تعالی﴿یا ایھا الذین آمنوا…الخ﴾ فیقول سبحانہ وتعالی لینظر احدکم ماقدم لیوم القیامة من الأعمال: ام من الصالحات التی تنجیہ ام من السےئات التی توبقہ۔( اغاثة اللفھان لابن القیم: ج۱/۱۵۱)
یہ آیت محاسبہ نفس کے وجود پر دلالت کرتی ہے لہٰذا ہر شخص کو غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس نے روز قیامت کے لیے کون سے اعمال بھیجے ہیں۔ کیا نیک اعمال جو اسے دوزخ سے نجات دیں گے یا برے اعمال جو اسے تباہ و برباد کردیں گے۔

بروز قیامت انسان کے سارے اعمال اس کے سامنے پیش کردےئے جائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ اب تم اپنا حساب دیکھ لو اور خود ہی بتاو کہ تم کس قابل ہو جنت یا جہنم کے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: (بنی اسرائیل14 - 13) ترجمہ : ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہٴ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے (اوپر) کھلا ہوا پائے گا، لے خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے آج تو تو خود ہی حساب لینے کو کافی ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا محاسبہٴ نفس:
حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری ملاقات ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ہوئی تو انھوں نے فرمایاحنظلہ کیسے ہو؟ میں نے کہا :حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے۔ ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو؟ حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم نبی اکرمﷺ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت و جہنم کی یا د دلاتے ہیں تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ گویا ہم اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں اور بیوی بچوں اور جائداد وغیرہ میں مشغول ہوجاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم اس جیسی کیفیت ہماری بھی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ میں اور ابوبکر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) چل پڑے اورآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ حنظلہ منافق ہوگیا ہے آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ جنت و جہنم کی یاد دلاتے ہو تو کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ گویا ہم انھیں دیکھ رہے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے جدا ہوجاتے ہیں اور معاشی امور میں مشغول ہوجاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ہمیشہ اس حال پر رہ جاوٴ جس حال میں میرے پاس اور ذکر میں ہوتے تو فرشتے تمہارے بستروں اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ ایک گھڑی دوسری گھڑی سے مختلف ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 2750)
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک باغ میں گئے۔ جب وہ ذرا مجھ سے دور ہوگئے اور میرے اور ان کے درمیان دیوار حائل ہوگئی تو اپنے نفس کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔ عمر بن خطاب(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تو اپنے آپ کو امیرالمومنین سمجھتا ہے۔ اللہ کی قسم یا تو تو اللہ سے ڈرنے والا بن جا یا پھر عذاب بھگتنے کے لیے تیار ہوجا۔ (محاسبة النفس لا بن ابی الدنیا ص 23 )

مشہور صحابی رسولﷺ عمروبن العاص کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ اپنے چہرے کو دیوار کی طرف کرکے خوب روئے۔ اس حالت میں ان کے فرزند ان سے کہنے لگے کہ ابا جان کیا رسول اللہﷺ نے آپ کو فلاں فلاں خوشخبریاں نہیں دیں ہیں انھوں نے ان کی طرف منھ پھیر کر کہا کہ تمام اعمال میں سب سے افضل ترین عمل شہادتین کا اقرار ہے۔ میری زندگی تین مختلف ادوارپر مشتمل ہے ایک دور وہ تھا کہ نبی اکرمﷺ سے دشمنی رکھنے والا مجھ سے زیادہ کوئی اور نہ تھا۔ اس دور میں اگر میں آپ پر قابو پالیتا اور معاذاللہ آپ کو قتل کر دیتا اور اگر اسی حالت میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔دوسرا دور جب اللہ نے میرے دل میں ایمان ڈال دی میں آپﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ(ﷺ) اپنا داہنا ہاتھ لاےئے تاکہ میں اسلام پر بیعت کروں، آپﷺ نے داہنا ہاتھ پھیلایا، میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپﷺ نے فرمایا عمرو یہ کیا معاملہ ہے ؟میں نے عرض کیا: کہ میرے کچھ شرائط ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا :وہ شرائط کیا ہیں؟میں نے کہا :کہ میرے سابقہ گناہ معاف کر دےئے جائیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: کہ تمھیں نہیں معلوم کہ اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اسی طرح ہجرت ماقبل ہجرت کے سارے گناہ ختم کردیتی ہے اور حج بھی پہلے ہونے والے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔ اس دو ر میں رسول اللہﷺ سے زیادہ محبوب میرے دل میں اور کوئی شخصیت نہ تھی اور میں بطور تعظیم رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھ بھی نہیں سکاہوں۔ اگر کوئی مجھ سے آپﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرنے کی فرمائش کرے تو میں بیان نہیں کرسکتا اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھا بھی نہیں۔ اگر اس دور میں میری وفات ہوتی تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا۔
تیسرا وہ دور آیا کہ ہم سے کئی کام ایسے ہوئے کہ میں نہیں جانتا کہ اس میں میرا کیا حال ہوگا۔ جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ وماتم کرنے والی نہ آئے اور مجھے دفن کردو تو آہستہ آہستہ مجھ پر مٹی ڈالو، میرے قبر پر اتنی دیر تک(میرے لیے دُعا و استغفار میں) کھڑے رہو جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جا تا ہے تاکہ میں (تمہاری دعا و استغفار سے)انس حاصل کروں اور دیکھوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔( مسلم /حدیث نمبر121)

پہلے اپنا محاسبہ:
ایک مسلمان کے لیے کہ وہ اپنے نفس کا بذات خود محاسبہ کرے اور اس بات کا اندازہ لگائے کہ قیامت کے دن کے لیے کون سا توشہ روانہ کیا ہے۔
چنانچہ میمون بن مھران رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”لایکون الرجل لقیتا حتی یکون لنفسہ اشد محاسبة من الشریک لشریکہ“(اغاثة اللفھان:95)
کوئی شخص اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ اس سے زیادہ نہ کرے جیسا کہ ایک شریک اپنے دوسرے شریک اور پارٹنر سے کرتا ہے۔ حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ”لاتلقی المومن الا یعاتب نفسہ“ موٴمن تمہیں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہوا ہی ملے گا(اغاثة اللفھان:96)
افسوس کہ آج ایسے افراد کی بہت کمی ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کی جنھیں تلاش رہتی ہے کہ کوئی ان کی کوتاہیوں کی خبر دے۔ عوام سے لے کر اہل علم تک سب دوسروں کے عیوب کی تلاش میں سرگرداں ہیں ان کو اپنے اندر جھانکنے کی فرصت ہی نہیں۔ احتساب و محاسبہ تودرکنار اب ہر جگہ تملق و چاپلوسی کا دور دورہ ہے۔ جو جتنا بڑا چاپلوس ہے اس کی اتنی ہی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ اور دربار میں اعلیٰ مقام ملتا ہے۔ تملق و چاپلوسی ایک بیماری کا روپ اختیار کرچکی ہے۔
کمینہ صفت انسانوں نے اسے عروج و بلندی پانے کا ایک آسان ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ سچ ہے #
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دنیا میں جسے دیکھو خوشامد کا ہے بندہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو محاسبہ نفس کی توفیق عطا فرمائیں( آمین )
مولانا محمد ساجد رشیدی

Tuesday, 9 July 2019

عورت کیلئے ایک ہی شادی کا حکم کیوں؟

عورت کیلئے ایک ہی شادی کا حکم کیوں؟

سائنس کے دائرے میں قرآنی معجزات کی ایک جھلک

عورت کو اللہ تعالی نے بہت سی رعائیتیں دے رکھی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک عورت کا صرف ایک ہی شوہر ہوسکتا ہے، یعنی اس پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نسب مرد کی طرف سے ثابت ہوتا ہے یعنی بچہ مرد کے ذمہ ہوتا ہے۔ جب ایک عورت ہو اور چار شوہر ہوں تو پھر یہ معلوم نہیں ہوگا کہ بچہ کس کا ہے؟ یہ فطرت سے بھی بغاوت ہے۔ میڈیکل سائنس بھی یہ ثابت کرچکی ہے کہ ایک عورت جو مختلف مردوں سے زنا کرواتی ہے اس سے خطرناک قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک ماہرِ جنین یہودی (جو دینی عالم بھی تھا) کھلے طور پر کہتا ہے کہ روئے زمین پر مسلم خاتون سے زیادہ پاک باز اور صاف ستھری کسی بھی مذھب کی خاتون نہیں ہے
پورا واقعہ یوں ہے کہ الپرٹ اینسٹاین انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ایک ماہرِ جنین یہودی پیشوا روبرٹ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا جس کا واحد سبب بنا قرآن میں مذکور مطلقہ کی عدت کے حکم سے واقفیت اور عدت کیلئے تین مہینے کی تحدید کے پیچھے کارفرما حکمت سے شناسائی
اللہ کا فرمان ہے
والمطلقات یتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء
[البقرة:228]

"مطلقات اپنے آپکو تین حیض تک روکے رکھیں"
اس آیت نے ایک حیرت انگیز جدید علم ڈی این اے کے انکشاف کی راہ ہموار کی اور یہ پتہ چلا کہ مرد کی منی میں پروٹین دوسرے مرد کے بالمقابل 62 فیصد مختلف ہوا کرتی ہے
اور عورت کا جسم ایک کمپیوٹر کی مانند ہے جب کوئی مرد ہم بستری کرتا ہے تو عورت کا جسم مرد کی تمام بیکٹریاں جذب ومحفوظ کرلیتا ہے. اس لئے طلاق کے فورا بعد اگر عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرلے یا پھر بیک وقت کئی لوگوں سے جسمانی تعلقات استوار کرلے تو اس کے بدن میں کئی ڈی این اے جمع ہو جاتے ہیں جو خطرناک وائرس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور جسم کے اندر جان لیوا امراض پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں
سائنس نے پتہ لگایا کہ طلاق کے بعد ایک حیض گزرنے سے 32 سے 35 فیصد تک پروٹین ختم ہوجاتی ہے
اور دوسرے حیض آنے سے 67 سے 72 تک آدمی کا ڈی این اے زائل ہوجاتا ہے.
اور تیسرے حیض میں 99.9% کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور پھر رحم سابقہ ڈی این اے سے پاک ہوجاتا ہے
اور بغیر کسی سائڈ افیکٹ و نقصان کے نئے ڈی این اے قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے
ایک طوائف کئی لوگوں سے تعلقات بناتی ہے جس کے سبب اس کے رحم مختلف مردوں کی منی چلی جاتی ہیں اور جسم مختلف ڈی این اے جمع ہوجاتے ہٰیں
اور اس کے نتیجے میں وہ مہلک امراض کا شکار بن جاتی ہے.
اور رہی بات متوفی عنہا کی عدت تو اس کی عدت طلاق شدہ عورت سے زیادہ ہے کیونکہ غم و حزن کے بنا پر سابقہ ڈی این اے جلدی ختم نہیں ہوتا اور اسے ختم ہونے کے لئے پہلے سے زیادہ وقت درکار ہے اور اسی کی رعایت کرتے ہوئے ایسی عورتوں کےلئے چار مہینے اور دس دن کی عدت رکھی گئی ہے
فر مان الہی ہے:
والذين يتوفون منكم و يذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر و عشرا
[البقرة:٢٣٤]

”اور تم میں سے جس کی وفات ہو جائے اور اپنی بیویاں چھوڑے تو چاہئے کہ وہ چار مہینے اور دس دن اپنے آپ کو روکے رکھیں.“
اس حقیقت سے راہ پاکر ایک ماہر ڈاکٹر نے امریکہ کے دو مختلف محلے میں تحقیق کیا
ایک محلہ جہاں افریقن نژاد مسلم رھتے ہیں وہاں کی تمام عورتوں کے جنین میں صرف ایک شوہر ہی کا ڈی این اے پایا گیا.
جبکہ دوسرا محلہ جہاں اصل امریکن آزاد عورتیں رھتی ہیں ان کے جنین میں ایک سے زائد دو تین لوگوں تک کے ڈی این اے پائے گئے.
جب ڈاکٹر نے خود اپنی بیوی کا خون ٹیسٹ کیا تو چونکا دینے والی حقیقت سامنے آئی کہ اس کی بیوی میں تین الگ الگ لوگوں کے ڈی ان اے پائے گئے جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کی بیوی اسے دھوکہ دے رہی تھی. اور یہ کہ اس کے تین بچوں میں سے صرف ایک اس کا اپنا بچہ ہے. اس کے بعد ڈاکٹر پوری طرح قائل ہوگیا کہ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جو عورتوں کی حفاظت اور سماج کی ہم آہنگی کی ضمانت دیتا ہے اور اس بات کی بھی کہ مسلم عورتیں دنیا کی سب سے صاف ستھری پاک دامن وپاک باز ہوتی ہیں.
-------------------------------


مطالعے کی عادت کیسے ڈالیں؟ چودہ معاون طریقے

مطالعے کی عادت کیسے ڈالیں؟ چودہ معاون طریقے

”مطالعے کی عادت بنانا اپنے لیے زندگی کی تمام مشکلات اور غم وفکر سے دور ایک محفوظ پناہ گاہ تعمیر کرنا ہے“۔ (سمرسٹ ماہم)
معمول کی زندگی میں بہت سے لوگ آئے دن اپنے لئے کوئی نہ کوئی ہدف مقرر کرتے رہتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ اس ہدف کے تئیں کتنے سنجیدہ ہوتے اور اگر سنجیدہ ہوتے ہیں، تو وہاں تک پہنچ پاتے ہیں یا نہیں۔ دیگر اہداف کی طرح بہت سے لوگ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے کا بھی ہدف بناتے ہیں اور یہ ایک سچائی ہے کہ ایک بہترین کتاب بڑی حد تک اطمینان بخش ہوسکتی ہے، وہ آپ کو آپ کی روزمرہ پہنچ سے بہت دور کی باتیں اور چیزیں سکھاسکتی ہے، آپ کے سامنے ماضی قریب یا بعید کی ایسی شخصیات کو لاکھڑا کرسکتی ہے، جنھیں آپ اپنے پاس، اپنے قریب محسوس کریں گے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ اگرآپ کے پاس کوئی اچھی کتاب (جو آپ کو بھی اچھی لگتی ہو) دستیاب ہے، تو اسے پڑھنے کا عمل نہایت ہی لطف انگیز اور مزے دار ہوتا ہے؛ لیکن اگر آپ کوئی بیکار سی، بورنگ یا بہت مشکل کتاب لے کر بیٹھے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بس ایک معمول پورا کررہے ہیں۔ اگر لگاتار کئی دن تک آپ کو اسی قسم کی صورتِ حال کا سامنا رہتا ہے، تو بہتر یہ ہے کہ آپ کتاب بینی کا چکر چھوڑیں اور کسی ایسے کام میں لگیں، جو آپ واقعی کرنا چاہتے ہیں اور آپ کو اس کام سے محبت ہے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہے، تو پھر آپ اپنے اندر مطالعے کی عادت کو راسخ اور پختہ کرنے کے لئے درجِ ذیل طریقوں پر عمل کریں:
1- وقت متعین کریں:
آپ کے پاس روزانہ مختلف اوقات میں کم سے کم ایسے پانچ یا دس منٹ ہونے چاہئیں،جن میں آپ مطالعہ کرسکیں۔ آپ کو اس متعینہ وقت میں روزانہ ہرحال میں مطالعہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر آپ اگر اکیلے کھانا کھارہے ہوں، تو ناشتے، دن کے کھانے یا رات کے کھانے کے دوران مطالعے کا معمول بنالیں، اسی طرح اگر آپ سفر کے دوران یا سونے سے پہلے بھی  پڑھنے کا معمول بنالیں، تو اس طرح آپ کے پاس مطالعے کے لئے دن بھر میں چالیس یا پچاس منٹ ہوں گے۔ اس طرح ایک بہترین شروعات ہوسکتی ہے، پھر روز بروز خود ہی اس میں تیزی بھی آتی جائے گی، مگر آپ اس سے بھی زیادہ کرسکتے ہیں۔
2- ہمیشہ اپنے ساتھ ایک کتاب رکھیں:
آپ جہاں بھی جائیں، اپنے ساتھ ایک کتاب ضرور رکھیں۔ میں جب بھی گھر سے نکلتا ہوں، تو یہ اچھی طرح چیک کرتا ہوں کہ میرے پاس میرا ڈرائیونگ لائسنس، چابی اور کم سے کم ایک کتاب ہے یا نہیں۔ کارمیں بھی کتاب میرے ساتھ رہتی ہے، آفس میں بھی، کسی سے ملنے جاؤں تو بھی؛ بلکہ جہاں بھی جاتا ہوں تو کتاب ضرور ساتھ لے جاتا ہوں، الا یہ کہ ایسی جگہ جاؤں، جہاں کتاب پڑھنا قطعی مشکل ہوتا ہے۔ اگر آپ کہیں گئے اور وہاں کسی کا انتظار کرنا پڑرہا ہے، تو آپ کے پاس وقت ہے، اتنے وقت میں آپ کتاب نکالیں اور پڑھنا شروع کردیں، یہ انتظار کے لمحات گزارنے کا سب سے بہتر طریقہ ہے۔
3- کتابوں کی ایک فہرست بنالیں:
آپ جن کتابوں کو پڑھنا چاہتے ہیں، ان کی ایک فہرست بنالیں۔ اس فہرست کو آپ کسی میگزین، ڈائری، موبائل، ٹیبلیٹ یا لیپ ٹاپ وغیرہ کے ہوم پیج پر رکھ سکتے ہیں۔ پھر جب بھی آپ کو کسی اچھی کتاب کے بارے میں پتا لگے، تو اس کانام بھی اپنی فہرست میں شامل کرلیجئے، فہرست رکنی نہیں چاہئے، جب اس میں سے کوئی کتاب پڑھ لیں، تو اسے نشان زد کردیں۔
4- ٹکنالوجی کا استعمال:
اپنی کتابوں کی فہرست کے لئے جی میل کا استعمال کریں اور جب بھی کسی اچھی کتاب کے بارے میں سنیں، تو اس کا ایڈریس میل کردیں۔ اب آپ کا ای میل ہی آپ کی ریڈنگ لسٹ ہوگا۔ جب آپ ان میں سے کوئی کتاب پڑھ لیں، تو اسے Done کردیں، اگر آپ چاہیں تو متعلقہ کتاب کے تعلق سے اپنا تبصرہ بھی اسی میسج کو رپلائے کرسکتے ہیں، اس طرح آپ کا جی میل اکاؤنٹ آپ کا مطالعہ رجسٹر بھی ہوجائے گا۔
5- پرسکون جگہ تلاش کریں:
گھر میں کوئی ایسی جگہ تلاش کریں، جہاں آپ اطمینان کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر بغیر کسی کی دخل اندازی کے کتاب کا مطالعہ کرسکیں۔ عام حالات میں لیٹ کر نہیں پڑھنا چاہئے، الایہ کہ آپ سونے جارہے ہوں۔ آپ کے آس پاس ٹی وی یا کمپیوٹر نہ ہوکہ آپ کی توجہ بٹ جائے، گانے کی آواز، گھر کے لوگوں یارفقاے کمرہ کا شوروشغب بھی نہ ہو۔ اگر آپ کو ایسی جگہ میسر نہ ہو، تو پڑھنے کے لئے ایسی جگہ بنانے کی تدبیر کیجئے۔
6- ٹی وی /انٹرنیٹ کا استعمال کم کریں:
اگر آپ واقعی زیادہ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، تو ٹی وی اور انٹرنیٹ کا استعمال کم کردیجئے، یہ بہت سے لوگوں کے لئے مشکل ہوسکتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر وہ منٹ جو آپ ٹی وی یا انٹر نیٹ سے بچائیں گے، وہ پڑھنے میں استعمال ہوسکتا اور اس طرح آپ کے مطالعے کا مجموعی دورانیہ کئی گھنٹے بڑھ سکتا ہے۔
7- بچے کے سامنے پڑھیں:
اگر آپ صاحبِ اولاد ہیں، تو آپ کو ضرور بالضرور ان کے سامنے پڑھنا چاہئے۔ اگر آپ بچوں میں ابھی سے پڑھنے کی عادت ڈالیں گے، تو یقینی طورپر وہ بڑے ہوکر پڑھنے والے بنیں گے اور یہ عادت ان کی کامیاب زندگی کا سبب بنے گی۔ بچوں سے متعلق کچھ اچھی کتابیں منتخب کریں اور انھیں پڑھ کر سنائیں۔ اس طرح آپ خود اپنی مطالعے کی عادت کو بھی بہتر بنائیں گے اور اپنے بچوں کے ساتھ کچھ بہتر وقت بھی گزار سکیں گے۔
8- ایک رجسٹر رکھیں:
کتابوں کی فہرست کی طرح آپ کے پاس ایک رجسٹر بھی ہونا چاہئے، جس میں صرف کتاب اور مصنف کا نام نہ ہو؛ بلکہ آپ نے کب مطالعہ شروع کیا اور کب ختم کیا، وہ تاریخ بھی اس رجسٹر میں درج کرنے کی کوشش کریں۔ بہتر یہ بھی ہے کہ ہر کتاب کو پڑھنے کے بعد اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے، وہ بھی اس رجسٹر میں لکھیں۔ اگر ایسا کرتے ہیں، تو چند ماہ بعد جب آپ اس رجسٹر کو دیکھیں گے اور اس میں مذکور مطالعہ کردہ کتابوں، مصنفوں کے نام اور ان کتابوں سے متعلق اپنے تاثرات دیکھیں گے، تو ذہنی و قلبی طور پر آپ کو ایک مخصوص قسم کی خوشی و مسرت حاصل ہوگی۔
9- مستعمل کتابوں کی دکان پر جائیں:
میری سب سے پسندیدہ وہ جگہ ہے، جہاں رعایت کے ساتھ کتابیں ملتی ہیں، میں اپنی پرانی کتابیں وہاں چھوڑ دیتا ہوں اور وہاں سے بہت ہی کم قیمت پر بہت سی کتابیں حاصل کرلیتا ہوں۔ میں ایک درجن یا اس سے زیادہ کتابوں پر عموماً صرف ایک ڈالر خرچ کرتا ہوں، اس طرح کم خرچ میں زیادہ کتابیں پڑھ لیتا ہوں۔ وہاں بعض دفعہ خیرات کی ہوئی نئی کتابیں بھی مل جاتی ہیں، پھر مزا آجاتا ہے؛ لہذا آپ کو مستعمل کتابوں کے اسٹور کا چکر پابندی سے لگانا چاہئے۔
10- ہفتے میں کم سے کم ایک دن لائبریری جائیں:
مستعمل کتابوں کی دکان پر جانے سے بھی سستا سودا یہ ہے کہ آپ ہفتے میں ایک دن لائبریری کا چکر لگالیں۔
11- مطالعے کو پرلطف بنائیں:
پڑھنے کے لئے آپ دن بھر کا اپنا سب سے پسندیدہ وقت مختص کریں، مطالعے کے دوران چائے یا کافی یا کوئی اور ہلکی پھلکی کھانے پینے کی چیز ساتھ رکھیں۔ اطمینان سے کرسی پر بیٹھ کر پڑھیں۔ طلوعِ آفتاب یا غروبِ آفتاب کے وقت یا ساحل سمندر پربیٹھ کر پڑھنے کا الگ ہی مزا ہے۔
12- بلاگ لکھیں:
آج کل کسی بھی کام کی عادت بنانے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے اپنے بلاگ پر درج کریں۔ اگر آپ کے پاس بلاگ نہیں ہے، تو بنائیں، مفت میں بن جاتا ہے۔ آپ کے جاننے والے یا فیملی میں کتابوں سے دلچسپی رکھنے والے لوگ بھی اسے دیکھیں گے اور آپ کو کتابوں کے سلسلے میں اچھا مشورہ بھی دے سکتے ہیں۔ اس طرح آپ کے اندر اپنے مقصد کے تئیں احساسِ ذمے داری پیدا ہوجائے گا۔
13- ایک اعلیٰ  ہدف بنائیں:
اپنے دل میں سوچ لیں کہ سال بھر میں اتنی (مثلاً پچاس یا سو) کتابیں پڑھنی ہیں، پھر اس ٹارگیٹ تک پہنچنے کی تدبیر کریں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ پڑھنے میں آپ کو ذہنی سکون مل رہا ہو اور مزا آرہا ہو، بوجھ یا روٹین سمجھ کر مطالعہ کرنا لاحاصل ہے۔
14- ایک دن یا ایک گھنٹہ برائے مطالعہ مختص کریں:
اگر آپ شام کے وقت ٹی وی یا انٹرنیٹ کو آف کردیں، تو آپ کے پاس کم سے کم ایک گھنٹہ ایسا ضرور ہوگا، جس میں آپ؛ بلکہ آپ کے تمام گھر والے ہر رات مطالعہ کرسکتے ہیں۔ آپ ہفتے میں کسی ایک دن کو بھی عملی طور پر صرف پڑھنے کے لئے خاص کرسکتے ہیں، یہ نہایت ہی مزے دار عمل ہوگا۔
تحریر: Leo Babauta
(مضمون نگارانگریزی کے معروف بلاگراورZen Habits کے بانی ہیں)
ترجمہ: نایاب حسن قاسمی


14 Ways to Cultivate a Lifetime Reading Habit

Founder of Zen Habits and expert in habits building and goals achieving. 

“To acquire the habit of reading is to construct for yourself a refuge from almost all the miseries of life.” — W. Somerset Maugham
Somewhere after “lose weight”, “stop procrastinating”, and “fall in love”, “read more” is one of the top goals that many people set for themselves. And rightly so: A good book can be hugely satisfying, can teach you about things beyond your daily horizons, and can create characters so vivid you feel as if you really know them.

If reading is a habit you’d like to get into, there are a number of ways to cultivate it.

Oh and before I continue with the article, I don't want you to miss this FREE guide, which can help you overcome any challenges you're facing now:

This guide will help you break your limits and overcome any challenges you have in order to live your best life.

First, realize that reading is highly enjoyable, if you have a good book. If you have a lousy book (or an extremely difficult one) and you are forcing yourself through it, it will seem like a chore. If this happens for several days in a row, consider abandoning the book and finding one that you’ll really love.

Other than that, try these tips to cultivate a lifetime reading habit:

Set times. You should have a few set times during every day when you’ll read for at least 5-10 minutes. These are times that you will read no matter what — triggers that happen each day. For example, make it a habit to read during breakfast and lunch (and even dinner if you eat alone). And if you also read every time you’re sitting on the can, and when you go to bed, you now have four times a day when you read for 10 minutes each — or 40 minutes a day. That’s a great start, and by itself would be an excellent daily reading habit. But there’s more you can do.
Always carry a book. Wherever you go, take a book with you. When I leave the house, I always make sure to have my drivers license, my keys and my book, at a minimum. The book stays with me in the car, and I take it into the office and to appointments and pretty much everywhere I go, unless I know I definitely won’t be reading (like at a movie). If there is a time when you have to wait (like at a doctor’s office or at the DMV), whip out your book and read. Great way to pass the time.
Make a list. Keep a list of all the great books you want to read. You can keep this in your journal, in a pocket notebook, on your personal home page, on your personal wiki, wherever. Be sure to add to it whenever you hear about a good book, online or in person. Keep a running list, and cross out the ones you read. Tech trick: create a Gmail account for your book list, and email the address every time you hear about a good book. Now your inbox will be your reading list. When you’ve read a book, file it under “Done”. If you want, you can even reply to the message (to the same address) with notes about the book, and those will be in the same conversation thread, so now your Gmail account is your reading log too.
Find a quiet place. Find a place in your home where you can sit in a comfortable chair (don’t lay down unless you’re going to sleep) and curl up with a good book without interruptions. There should be no television or computer near the chair to minimize distractions, and no music or noisy family members/roommates. If you don’t have a place like this, create one.
Reduce television/Internet. If you really want to read more, try cutting back on TV or Internet consumption. This may be difficult for many people. Still, every minute you reduce of Internet/TV, you could use for reading. This could create hours of book reading time.
Read to your kid. If you have children, you must, must read to them. Creating the reading habit in your kids is the best way to ensure they’ll be readers when they grow up … and it will help them to be successful in life as well. Find some great children’s books, and read to them. At the same time, you’re developing the reading habit in yourself … and spending some quality time with your child as well.
Keep a log. Similar to the reading list, this log should have not only the title and author of the books you read, but the dates you start and finish them if possible. Even better, put a note next to each with your thoughts about the book. It is extremely satisfying to go back over the log after a couple of months to see all the great books you’ve read.
Go to used book shops. My favorite place to go is a discount book store where I drop off all my old books (I usually take a couple of boxes of books) and get a big discount on used books I find in the store. I typically spend only a couple of dollars for a dozen or more books, so although I read a lot, books aren’t a major expense. And it is very fun to browse through the new books people have donated. Make your trip to a used book store a regular thing.
Have a library day. Even cheaper than a used book shop is a library, of course. Make it a weekly trip.
Read fun and compelling books. Find books that really grip you and keep you going. Even if they aren’t literary masterpieces, they make you want to read — and that’s the goal here. After you have cultivated the reading habit, you can move on to more difficult stuff, but for now, go for the fun, gripping stuff. Stephen King, John Grisham, Tom Clancy, Robert Ludlum, Nora Roberts, Sue Grafton, Dan Brown … all those popular authors are popular for a reason — they tell great stories. Other stuff you might like: Vonnegut, William Gibson, Douglas Adams, Nick Hornby, Trevanian, Ann Patchett, Terry Pratchett, Terry McMillan, F. Scott Fitzgerald. All excellent storytellers.
Make it pleasurable. Make your reading time your favorite time of day. Have some good tea or coffee while you read, or another kind of treat. Get into a comfortable chair with a good blanket. Read during sunrise or sunset, or at the beach.
Blog it. One of the best ways to form a habit is to put it on your blog. If you don’t have one, create one. It’s free. Have your family go there and give you book suggestions and comment on the ones you’re reading. It keeps you accountable for your goals.
Set a high goal. Tell yourself that you want to read 50 books this year (or some other number like that). Then set about trying to accomplish it. Just be sure you’re still enjoying the reading though — don’t make it a rushed chore.
Have a reading hour or reading day. If you turn off the TV or Internet in the evening, you could have a set hour (perhaps just after dinner) when you and maybe all the members of your family read each night. Or you could do a reading day, when you (and again, your other family members if you can get them to join you) read for practically the whole day. It’s super fun.

Leo Babauta
--------------------------------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2019/07/blog-post_67.html