Thursday, 4 September 2025

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں
بقلم: شکیل منصور القاسمی
مدارسِ اسلامیہ صدیوں سے دین کی حفاظت، علم کی اشاعت اور ایمان کی آبیاری کے قلعے کے طور پر امت کا سرمایۂ افتخار رہے ہیں۔ ان کے اساتذہ و فضلا نے صبر و قناعت کی زندگی اختیار کی، عسرتوں پر مسکرائے، اور اپنی تنگ دستی کو امت کی سعادتوں میں ڈھال دیا۔ یہی برصغیر کے اکابر علماء کا طرۂ امتیاز تھا؛ مگر آج ایک نئی آندھی اٹھی ہے، جو ان چراغوں کی لو کو مدھم کرنے لگی ہے۔ پرکشش سرکاری نوکریوں کی چمک نے مدارس کے بہت سے تازہ دم سپاہیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جو قافلہ کل دین کی پاسبانی کے لئے صف بستہ کھڑا تھا، آج وہ سرکاری اسکولوں و مکاتب کی راہوں کا مسافر بن رہا ہے۔ یہ صورت حال مدارس کے قابل اساتذہ کے وجود اور ان کے مستقبل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
طبقۂ علماء کے لئے سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ معاش کی فکر میں اس قدر الجھ جائیں کہ علم و دین کی اصل خدمت پس منظر میں چلی جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے اکابر نے سادہ زیست کو زینت بنایا، عسرتوں کو خندہ پیشانی سے جھیلا، مگر علمِ دین کی شمع بجھنے نہ دی۔ ان کی زندگیاں مسلسل جدوجہد، بے پناہ ایثار اور دین کی خاطر جاں فشانی سے عبارت ہیں۔
طالبِ علمانہ دور میں ایک جواں سال طالبِ علم معمولی وسائل کے ساتھ، شب و روز کی مشقت سہہ کر، محض ذوق و شوق کے سہارے علمی پیاس بجھاتا ہے۔ یہی قربانی اس کے مستقبل کی برکتوں کی ضمانت بنتی ہے۔ اگر یہی جذبہ تدریسی دور میں بھی چند سال برقرار رہے، اور وہ گنتی کے کچھ عرصۂِ عسرت کو مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کر لے، تو اللہ تعالیٰ آسائشوں کے ایسے ایسے دروازے کھول دیتے ہیں جن کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ جنہوں نے صبر کیا، قناعت کو اوڑھنا بچھونا بنایا، اور معمولی وسائل پر سادہ زیست اختیار کی، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسی فتوحات کے در کھولے کہ شاہانِ وقت ان کے قدموں میں جھکنے لگے۔ انہی کے ذریعے امت کو علمی، فکری اور روحانی فتوحات نصیب ہوئیں۔
افسوس کہ آج کے دور میں ایک نیا طوفان اٹھا ہے۔ یوپی بورڈ اور بہار مدرسہ بورڈ، اور پھر بی پی ایس سی وغیرہ کے امتحانات نے جب نوکریوں کی راہیں کھولیں تو ہزاروں باصلاحیت مدرسین اور کہنہ مشق اساتذۂ حدیث مدارس سے رخ موڑ کر سرکاری بحالیوں کی طرف لپک پڑے۔ یہ ایسا عمومی انحراف ہے جس نے مدارس کی علمی و روحانی فضا کو بری طرح مجروح کردیا ہے۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی حکومتی منظم سازش کا شاخسانہ ہے یا طبقۂ علماء کی محض وقتی مجبوریوں کا اثر؟؛ مگر اتنا طے ہے کہ مدارس کے لئے یہ منظر نہایت تشویشناک ہے۔ 
اس سے مجالِ انکار نہیں کہ زندگی کی اس مادّی دنیا میں رزق کا مسئلہ ایک تسلیم شدہ ہمہ گیر حقیقت ہے، جس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ انسان خواہ کتنی ہی روحانی بلندیوں کو چھو لے، اس کے وجود کی زمینی ضرورتیں اُسے دستک دیتی رہتی ہیں۔ بھوک، پیاس، لباس اور سر چھپانے کی جگہ، یہ سب تقاضے انسان کو اس حقیقت کی یاد دلاتے ہیں کہ آمدنی کے بغیر زیست کا بار اٹھانا تقریباً ناممکن ہے۔
اسلام نے اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا ؛ بلکہ اسے دین کے دائرے میں شامل کیا۔ عبادات اور ایمانی فرائض کے بعد، معاش کی جدوجہد کو ایک مستقل ذمہ داری قرار دے کر دوسرا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ:
"حلال روزی کی تلاش وجستجو، فرض عبادات کے بعد ایک اور فریضہ ہے۔" (مرقاۃ المفاتیح، كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، ج: 5، ص:1904، ط: دارالفكر)
اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے کہ کسبِ حلال محض ایک دنیاوی ضرورت نہیں؛ بلکہ دینی تقاضہ بھی ہے۔
انبیاء کے وارثوں کے لئے بالخصوص یہ امر نہایت اہم ہے کہ وہ ایسے ذرائعِ آمدنی اختیار کریں جن سے اُن کی خودداری محفوظ رہے۔ اُس کی پیشانی علم کی روشنی سے روشن ہو، نہ کہ سوال کی زنجیر سے جھکی ہوئی۔ محتاجی کا داغ اُس کے شایانِ شان نہیں۔
تاریخِ انبیاء پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ہاتھ سے محنت کئے بغیر زندگی بسر نہ کی۔ کسی نے لکڑی تراشی، کسی نے کھیتی باڑی کی، کسی نے جانور چَرائے، اور کسی نے تجارت کی۔ اور جانِ کائنات، سرورِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اجیاد کے پہاڑوں پر اجرت پر لوگوں کی بکریاں چَرائیں، قافلۂ تجارت کے ساتھ ملک شام کا سفر کئے، اور مدینہ کے نواح (مقام جُرُف) میں کھیتی باڑی میں ہاتھ ڈالا۔ گویا عرش کے فرستادہ بھی زمین پر اپنے ہاتھ سے کماتے تھے، تاکہ امت کو یہ سبق دیں کہ عزّت محنت میں ہے، ذلت سوال میں اور حلال روزی کی طلب ہر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم میں جلوہ گر ہے۔
اسی تناظر میں علماء و اہلِ تدریس وتعلیم کے لئے موزوں یہی ہے کہ تدریس کو محور بنائے رکھتے ہوئے اور اس کے نظام کو متاثر کئے بغیر، بوقت ضرورت، خارج اوقات میں تجارت، مضاربت، حرفت، یا کوئی اور جائز ذریعہ اختیار کریں۔ یوں علم بھی محفوظ رہے گا، عزّت بھی سلامت رہے گی اور ضروریاتِ حیات بھی پوری ہوں گی۔ اس کے برعکس اگر محض ذریعہ معاش کی تلاش میں کتاب وسنت کے درس و تدریس سے کٹ کر دوسری راہوں کا رخ کیا جائے تو نہ یہ دانشمندی ہے اور نہ ہی پائیدار حل!
فوج در فوج تدریس کے سپاہی اگر مدارس چھوڑ کر عصری اسکولوں کی نوکریوں میں کھو جائیں، تو یہ طرزِ عمل مدارس کے وجود کے لئے سم قاتل ہے۔
مدارس کا اصل سرمایہ ان کے مخلص، ایثار پیشہ اور قناعت شعار اساتذہ ہیں۔ اگر یہی قافلہ منتشر ہو گیا تو مدارس محض اینٹوں کی عمارتیں اور نصاب کی کتابیں بن کر رہ جائیں گے، ان کی روح پرواز کر جائے گی۔ آج سب سے بڑھ کر ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ علم اپنی اصل حیثیت کو پہچانیں، اپنے اکابر کے روشن نقوش پر چلتے ہوئے دین کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصدِ اعلیٰ بنائیں۔ چند سال کی ریاضت اور صبر وتحمل کے بعد دنیا بھی آپ کے قدموں میں آئے گی، عزت بھی رفیق ہوگی اور شہرت ووقار بھی! 
یہی وہ چراغ ہے جس کی روشنی سے امت کا مستقبل منور ہوتا ہے:
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لیجئے!
شکیل منصور القاسمی 
مرکز البحوث الإسلامية العالمي (بدھ10؍ربیع الاوّل 1447ھ3؍ ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )

شب جمعہ کے بعض اعمال کی فضیلت

شب جمعہ کے بعض اعمال کی فضیلت
سوال: محترم مفتی صاحب! درج ذیل پوسٹ میں نقل شدہ احادیث کی تحقیق درکار ہے، براہ مہربانی وضاحت فرمادیں.
نوٹ: پوسٹ میں لکھے ہوئے فائدے طوالت کی وجہ سے حذف کئے گئے ہیں.
وعظ و نصیحت قسط 51 اعمالِ شبِ جمعہ
١ . سورۃ الکہف کی تلاوت:
عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ الْعَتِيقِ. (سنن دارمی، باب فی فضل سورۃ الکہف، حدیث نمبر:3470)
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص شب جمعہ میں سورۃ الکہف کی تلاوت کرےگا تو اس شخص کے لئے اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نور روشن ہوگا۔
٢ . سورۃ یٰسٓ کی تلاوت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَرَأَ سُورَةَ يٰسٓ فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ غُفِرَ لَهُ. (الترغیب والترھیب للاصبهانی، حدیث نمبر:948(
ترجمہ: حضرت ابوهریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے شخص کی مغفرت کردی جاتی ہے جو شب جمعہ میں سورۃ یٰسٓ کی تلاوت کرے۔
٣. سورۃ الدخان کی تلاوت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَرَأَ حم الدُّخَانَ فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ غُفِرَ لَهُ۔ جامع الترمذی، باب ما جاء فی فضل حمٓ دخان، حدیث نمبر:2814
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے شخص کی مغفرت کردی جاتی ہے جو شب جمعہ میں سورۃحمٓ دخان کی تلاوت کرے.
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَرَأَ حم الدُّخَانَ فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ أَوْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ بَنَى اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ. (مجمع الزوائد، باب ما یقرا لیلة الجمعة ويوم الجمعة، حدیث نمبر:3017(
ترجمہ:حضرت أبوأمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سورۃ دخان کو شب جمعہ میں یا جمعة المبارک والے دن تلاوت کرےگا اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل بناتے ہیں۔ 
٤. درود پاک کی کثرت:
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَال:َ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَكْثِرُوا الصَّلاَةَ عَلَىَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَمَنْ صَلَّى عَلَىَّ صَلاَةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا۔ (سنن الکبریٰ للبیهقی، باب ما یؤمر فی لیلة الجمعة، حدیث نمبر:620(
ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر جمعہ والے دن اور شب جمعہ میں کثرت کے ساتھ درود بھیجا کرو، جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمت نازل فرماتے ہیں۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى عَلَيَّ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةِ الْجُمُعَةِ قَضَى اللهُ لَهُ مِائَةَ حَاجَةٍ، سَبْعِينَ مِنْ حَوَائِجِ الْآخِرَةِ وَثَلَاثِينَ مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْيَا. (فضائل الاوقات للبیهقی، باب فضل لیلةالجمعة، حدیث نمبر:276(
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جمعہ والے دن اور شب جمعہ میں مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو(١٠٠) ضروریات پوری فرمائینگے جن میں سے ستر(٧٠) آخرت میں جبکہ تیس(٣٠) دنیا میں پوری فرمائی جائینگی.
٥. قبولیت دعا کا وقت:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: خَمْسُ لَيَالٍ لَا يُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءُ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَتَا الْعِيدِ۔ (فضائل الاوقات للبیهقی، باب فی فضل العید، حدیث نمبر:149(
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں مانگی جانے والی دعاؤں کو رد نہیں کیا جاتا۔ شبِ جمعہ، رجب کی پہلی رات، شبِ برات (پندرہویں شعبان کی رات) اور عیدین (عید الفطر اور عیدالاضحیٰ) کی راتیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا… فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا الْحَسَن! إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَقُومَ فِي ثُلُثِ اللَّيْلِ الْآخِرِ، فَإِنَّهَا سَاعَةٌ مَشْهُودَةٌ،وَالدُّعَاءُ فِيهَا مُسْتَجَابٌ. (مستدرك علی الصحیحین، حدیث نمبر:1190(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک طویل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان منقول ہے: اے علی! جب شب جمعہ ہو تو رات کے آخری تہائی حصے میں ہمت کرکے اٹھ جاؤ کیونکہ یہ مقبول گھڑی ہے اور اس میں دعا قبول کی جاتی ہے۔
٦. عذاب قبر سے حفاظت:
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ۔ (جامع الترمذی، باب ما جاء فیمن مات یوم الجمعة، حدیث نمبر:994(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان جمعةالمبارک کے دن یا شبِ جمعہ کو فوت ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبر کے فتنے (عذاب) سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔ 
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ (مرکز اھل السنة والجماعة) … سرگودھا
جمعرات 4 جنوری 2018
الجواب باسمه تعالی
١. پہلی روایت:سورۃ کہف کی تلاوت
یہ روایت صحیح سند سے ثابت ہے.
٢ . دوسری روایت : سورۃ یس کی شب جمعہ میں تلاوت
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “من قرأ سورة يس في ليلة الجمعة غفر له.”
٣ . تیسری روایت :سورۃ دخان کی تلاوت
عن ابی ھریرة رضی اللہ عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: “من قرأَ حم الدخان فی ليلة الجمعةِ غفر له”.
 -ضعيف جدا.
 – أخرجه ابن السني في “عمل اليوم والليلة”
 – والبيهقي في “الشعب” (2476، 2477
 – والترمذي 2889
یہ دونوں روایات فضائل کی مشہور کتب میں منقول ہیں، مثلا: ترمذی، بیہقی، ابن سنی وغیرہ.
لیکن ان دونوں روایات کی سند میں تین راوی متکلم فیہ ہیں.
١ . هشام ابوالمقدام.
٢ . سلام بن سلیم.
٣ . ہارون بن کثیر.
١ . ابوالمقدام ہشام بن زیاد:
اس راوی کے بارے میں محدثین کی رائے کافی شدید ہے.
   ابن حبان کہتے ہیں یہ ثقہ راویوں سے من گھڑت روایات نقل کرتا ہے، لہذا اس کی روایت حجت نہیں.
أبوالمقدام هشام بن زياد: اتفقت كلمة المحدثين على تضعيفه، حتى قال ابن حبان: “يروى الموضوعات عن الثقات، لا يجوز الاحتجاج به. انظر: “تهذيب التهذيب” 11/39.
   ابن جوزی نے اس روایت کو اپنی موضوعات میں اسی ہشام کی بنیاد پر ذکر کیا.
لذلك ضعفه ابن الجوزي في “الموضوعات” 1/247.
٢ . اس روایت کی سند میں سلام بن سلیم جو سلام طویل کے نام سے مشہور ہے یہ راوی بھی متہم بالکذب ہے.
روى الواحدي في “تفسيره” (4/46): حديثا عن أبي بن كعب بنحو الحديث السابق، إلا أن في سنده سلام بن سليم متهم بالكذب.
٣ . اس روایت کی سند میں ہارون بن کثیر مجہول راوی ہے.
ورواه أيضا عن أبي بن كعب أحمد بن منيع في مسنده (كما في “إتحاف الخيرة المهرة” للبوصيري (6/89) ثم قال: هذا إسناد ضعيف لجهالة هارون بن كثير.
ان تین راویوں کی بنیاد پر یہ دونوں روایات انتہائی ضعیف ناقابل بیان ہوگئی ہیں.
٤ . چوتھی روایت : درود پاک کی کثرت
جمعے کے دن کثرت سے درود شریف پڑھنا صحیح روایات سے ثابت ہے.
جو شخص جمعہ کے دن یا جمعے کی رات کو درود شریف پڑھےگا اللہ تعالٰی اس کی سو حاجتیں پوری فرمائیں گے، ستر آخرت میں اور تیس دنیا میں.
یہ روایت دو صحابہ کرام سے منقول ہے: انس بن مالک اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما، اور دونوں طرق کی سند قابل اعتبار نہیں.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت:
اس روایت کی سند میں دو راوی متکلم فیہ ہیں.
   عثمان بن دینار اور اس کی بیٹی حکامہ:
عثمان کے بارے میں محدثین کی رائے مختلف ہے، بعض محدثین نے ان کو شدید ضعیف جبکہ ابن حبان نے اس راوی کو ثقہ قرار دیا ہے، جبکہ اس کی بیٹی حکامہ کے بارے میں ابن حجر نے امام عقیلی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ اپنے باپ سے باطل روایات نقل کرتی ہے جس کی کوئی اصل نہیں ہوتی.
١ -عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “إن أقربكم مني يوم القيامة في كل موطن أكثركم عليَّ صلاة في الدنيا، من صلى عليَّ في يوم الجمعة وليلة الجمعة مائة مرة قضى الله له مائة حاجة، سبعين من حوائج الآخرة، وثلاثين من حوائج الدنيا، ثم يوكل الله بذلك ملكا يدخله في قبري كما يدخل عليكم الهدايا، يخبرني من صلى علي باسمه ونسبه إلى عشيرته، فأثبته عندي في صحيفة بيضاء”.
– رواه ابن منده في “الفوائد” ص:82،
 – والبيهقي في “شعب الإيمان” (3/111)، و”حياة الأنبياء” 29
 – ومن طريق البيقهي: ابن عساكر في “تاريخ دمشق” 54/301
 – وعزاه السيوطي في “الحاوي” (2/140) للأصبهاني في “الترغيب”.
 – جاء في “لسان الميزان” (4/140): عثمان بن دينار، أخومالك بن دينار البصري، والد حكامة: لا شيء، والخبر كذب بين.
وعنه بنته حكامة، وهي لا شيء. قلت (أي الحافظ ابن حجر): ولفظ العقيلي، روت عنه ابنته أحاديث بواطيل ليس لها أصل.
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی سند:
قال ابن مندة الحافظ: حدثنا عبدالصمد العاصمي، أخبرنا إبراهيم بن أحمد المستملي، حدثنا محمد بن درستويه، حدثنا سهل بن متويه، حدثنا محمد بن عبيد، حدثنا عباس بن بكار، حدثنا أبوبكر الهذلي، حدثنا محمد بن المنكدر، عن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “مَن صلَّى علَيَّ في كل يوم مائة مرة الخ
اس سند میں ابوبکر الھذلی انتہائی کمزور راوی ہے.
اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال:
أبوبكر الهذلي البصري:
 قال النسائي: متروك الحديث. 
 وقال علي بن المديني: ضعيف ليس بشيء.
   قال یحیی: أبوبكر الھذلی لیس بشئ.
   قال یحیی بن معین: وسئل عن ابی بکر الھذلی فقال: کان غندر یقول: کان أمامنا؛ وكان یکذب، لیس بشئ.
   حدثنا مزاحم بن زفر قال: قلت لشعبة: ما تقول فی أبی بکر الھذلی؟ فقال: دعنی لا أقئ.
   واتفقت كلمة أهل العلم على تضعيفه.
انظر: “تهذيب التهذيب” (12/46) وتاریخ بغداد ت بشار
حضرت جابر رضي الله عنه کی روایت کی ایک اور سند:
عن جابر بن عبدالله رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “من صلى عليَّ مائة صلاة حين يصلي الصبح قبل أن يتكلم قضى الله له مائة حاجة، عجل له منها ثلاثين حاجة، وأخر له سبعين”. 
اس سند میں ابراہیم بن الاشعث خادم فضیل بن عياض ہیں، جن پر علمائےکرام کے شدید اقوال موجود ہیں.
   إبراهيم بن الأشعث: منكر الحديث. لسان الميزان:1/32
   إبراهيم بن الأشعث، خادم الفضيل: تكلم فيه أبوحاتم بكلام شديد.
لہذا یہ روایت اپنے دونوں طرق سے انتہائی ضعیف ہے.
٥ . پانچویں روایت : قبولیت دعا کی پانچ راتیں
یہ روایت صحابہ کرام کی نسبت سے ثابت ہے جیسا کہ پوسٹ میں اس کی نسبت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف کی گئی ہے، البتہ بعض لوگ اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرتے ہیں جو درست نہیں.
خمسُ ليالٍ لا تُرَدُّ فيهنَّ الدعوةُ: أولُ ليلةٍ من رجبٍ وليلةُ النِّصفِ من شعبانَ وليلةُ الجمعةِ وليلةُ الفطرِ وليلةُ النَّحرِ.
 – الراوي: أبوأمامة الباهلي.
 – المحدث: ابن عساكر.
 – المصدر: تاريخ دمشق.
 – الجزء أو الصفحة: 10/408.
 – حكم المحدث: [فيه] بندار بن عمر الروياني.
 -قال النخشبي: كذاب.
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی کہ پانچ راتوں میں دعائیں قبول ہوتی ہیں….
وقال الإمام الشافعي رحمه الله: بلغنا أنه كان يقال: إن الدعاء يُستجاب في خمس ليال: في ليلة الجمعة، وليلة الأضحى، وليلة الفطر، وأول ليلة من رجب، وليلة النصف من شعبان….. وأنا أستحب كل ما حكيت في هذه الليالي من غير أن يكون فرضاً. (“الأم”:1/264(. 
شب جمعہ میں رات کو اٹھنے کی فضیلت:
یہ روایت اگرچہ مستدرک حاکم میں منقول ہے لیکن اس روایت پر امام ذہبی، ابن جوزی اور ابن کثیر نے وضع کا حکم لگایا ہے.
أجل يارسولَ اللهِ. قالَ: إذا بتَّ ليلةَ الجمعةِ، فإنِ استَطعتَ أن تقومَ في ثُلُثِ اللَّيلِ الآخرِ، فإنَّها ساعةٌ مشهودةٌ والدُّعاءُ فيها مستجابٌ.
 – الراوي: عبدالله بن عباس.
 – المحدث: الذهبي.
 – المصدر: سير أعلام النبلاء.
 – الصفحة أو الرقم: 9/217.
 – خلاصة حكم المحدث: موضوع.
 – الراوي: عبدالله بن عباس.
 – المحدث: ابن الجوزي.
 – المصدر: موضوعات ابن الجوزي.
 – الصفحة أو الرقم: 2/460.
 – خلاصة حكم المحدث: لا أتهم به إلا النقاش شيخ الدارقطني.
 -قال طلحة بن محمد بن جعفر: كان النقاش يكذب.
 – الراوي: عبدالله بن عباس.
– المحدث: ابن كثير.
 – المصدر: فضائل القرآن.
 – الصفحة أو الرقم: 290.
 – خلاصة حكم المحدث: بين غرابته بل نكارته.
٦ . چھٹی روایت : عذاب قبر سے حفاظت
أما حديث عبدالله بن عمرو: فأخرجه الإمام أحمد في (المسند 2/169)، والترمذي في (الجامع: 1074) والطحاوي في (شرح مشكل الآثار ص:277)، وابن منده في (تعزية المسلم ص:108) من طريق هشام بن سعد، عن سعيد ابن أبي هلال، عن ربيعة بن سيف، عن عبدالله بن عمرو؛ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما من مسلم يموت يوم الجمعة أو ليلةالجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر۔"
یہ روایت اگرچہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہے لیکن یہ ضعف اس قدر شدید نہیں کہ اس روایت کو ناقابل بیان قرار دیا جائے کیونکہ اس روایت پر وضع کا حکم نہیں لگایا گیا ہے
خلاصہ کلام:
محدثین کرام کے ہاں یہ بات متفق علیہ ہے کہ فضائل میں ضعیف روایت پر عمل کرنا درست ہے بشرطیکہ وہ روایات شدید ضعیف نہ ہوں، لیکن اگر شدید ضعف ہے تو پھر اس روایت کو بیان کرنا اور پھیلانا درست نہیں.
لہذا اس پوسٹ میں ذکر کردہ کچھ روایات ہماری تحقیق کے مطابق شدید ضعیف ہیں جن کا بیان کرنا اور پھیلانا درست معلوم نہیں ہوتا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
المرسل محمد اطہر ( #ایس_اے_ساگر )

Monday, 1 September 2025

شمائلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، جلوہ ہائے حسن و کمال: قسط (4)

شمائلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، جلوہ ہائے حسن و کمال: قسط (4)
-------------------------------
-------------------------------
9: چہرۂ نبویؐ — جس کے نور و دلکشی سے چاند بھی شرما جائے:
چہرۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام خصوصیات میں نور و جمال کا کامل نمونہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی خوبصورتی، چمک دمک، نورانیت اور صفائی سورج اور چاند کی مانند تھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین کوئی چیز نہیں دیکھی، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے سورج آپ کے چہرے میں چمک رہا ہو۔" (ترمذی 3648)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاندنی رات میں ایک سرخ جوڑا زیبِ تن کئے ہوئے دیکھا۔ میں آپ کے چہرۂ انور اور چاند کو دیکھنے لگا، تو میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے بھی زیادہ حسین تھے۔" (ترمذی 2811)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حسین چہرے والے اور بہترین اخلاق والے تھے۔" (بخاری 3356، مسلم 2337)
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "جب آپ خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ اس قدر روشن ہوجاتا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہو۔" (بخاری 3363، مسلم 2769)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: "کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چہرہ تلوار کی مانند تھا؟"
تو انہوں نے فرمایا: "نہیں، بلکہ وہ سورج اور چاند کی مانند تھا اور گول تھا۔" (مسلم 2344)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "حضور ایک روز اس حال میں آئے کہ آپ کے چہرۂ مبارک کے نقوش سے نور پھوٹ رہا تھا۔" (بخاری 3362)
10: پیشانیِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی درخشانی:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اپنے جمال اور نورانیت میں بے مثال تھی، جس کی سفیدی اور چمک نے اسے ایک خاص شان عطا کی۔ روایت میں ہے: "گویا سورج آپ کی پیشانی میں چمک رہا ہو۔" (مسند احمد 8604)
یہ مقدس پیشانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد فی سبیل اللہ کے دوران بھی زخمی ہوئی، جیسا کہ ترمذی کی روایت میں ذکر ہے: "آپ کے چہرے پر زخم آیا اور پیشانی پر چوٹ لگی۔" (ترمذی 3002)
یہی نور سے مزین پیشانی تھی، جب وحی کے نزول کا وقت آتا تو پسینے سے بھرجاتی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "سردیوں کی شدت میں بھی جب وحی نازل ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پسینے سے تر ہوجاتی۔" (بخاری 2، مسلم 2333)
11: چشمائے مقدسہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آنکھیں نہایت حسین، سیاہ، کشادہ، بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں۔ جب کبھی سرمہ استعمال فرماتے تو یہ حسن مزید دوبالا ہوجاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پلکیں گھنی اور دراز اور بھنویں باریک اور گتھی ہوئی تھیں۔
آنکھوں میں سرخ رنگ کے ڈورے بھی تھے جو آنکھوں کی انتہائی خوبصورتی کی علامت ہوتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ یک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے، دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔ (زرقانی، شرح المواهب 5/642، مسلم 2339، دلائل النبوہ بیہقی 1/212، مسند احمد 684)
📖 کتابِ جاناں ﷺ، صفحہ 231 … جاری
پیر، 8 ربیع الاوّل 1447ھ، یکم ستمبر 2025ء ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/09/4.html