اللہ سبحانہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے محبوب کیسے بنیں؟
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کو میں انجام دوں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے اور لوگ بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا سے بے رغبتی رکھو، اللہ تم کو محبوب رکھے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے نیاز ہوجاؤ، تو لوگ تم سے محبت کریں گے‘‘۔
عن سهل بن سعد الساعدي -رضي الله عنه- قال: جاء رجل إلى النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- فقال: يا رسول الله، دُلَّنِي على عمل إذا عملته أحبني الله وأحبني الناس؟ «فقال ازهد في الدنيا يحبك الله، وازهد فيما عند الناس يحبك الناس».
شرح الحديث: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کی وجہ سے اسے اللہ تعالیٰ اور لوگوں کی محبت حاصل ہوسکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ایک ایسے جامع عمل کی طرف رہنمائی فرمائی جو اس کے لئے اللہ اور لوگوں کی محبت کا باعث بنے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: دنیا سے بے رغبتی رکھو۔ یعنی صرف اسی قدر دنیا کو حاصل کرو جتنی ضرورت ہو اور زائد از ضرورت اور اس چیز کو چھوڑ دو جو آخرت کے اعتبار سے فائدہ مند نہ ہو اور ایسی اشیاء سے پرہیز کرو جس میں تمہارے دین کا کوئی نقصان ہو۔ اور اس دنیا سے بھی بے پروائی کرو جس میں لوگوں کے مابین لین دین ہوتا ہے اور جب تمہارے اور کسی دوسرے کے درمیان کوئی حق ہو یا کوئی معاہدہ طے پائے تو ایسا رویہ اختیار کرو جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ: "اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جو جب بیچتا ہے تو کشادگی سے معاملہ کرتا ہے اور جب خریدتا ہے تو کشادگی سے معاملہ کرتا ہے اور جب ادائیگی کرتا ہے تو کشادگی سے کرتا ہے اور جب ادائیگی کا تقاضا کرتا ہے تو تب بھی کشادگی اپناتا ہے۔" اس رویے کو اپنانے کا حکم اس لئے دیا گیا تاکہ تم لوگوں کے ہاں ہردلعزیز ہوسکو اور اللہ کے ہاں تم پر رحم ہو۔
عَنْ أَبي العَباس سَھلِ بنِ سَعدٍ السَّاعِدي رضي الله عنه قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النبي صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: يَا رَسُول الله: دُلَّني عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمَلتُهُ أَحَبَّني اللهُ، وَأَحبَّني النَاسُ؟ فَقَالَ: (ازهَد في الدُّنيَا يُحِبُّكَ اللهُ، وازهَد فيمَا عِندَ النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ) أخرجه ابن ماجۃ – كتاب: الزهد، باب: الزهد في الدنيا، (4102)
ترجمہ: حضرت ابوالعباس سھل بن سعدالساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے عمل کی رہنمائی فرمادیجئے جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرنے لگے اور لوگ بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں زہد اختیار کرلو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا، اور لوگوں کے ہاتھوں میں جومال ومتاع ہے اس سے بھی زہد اختیار کرلو تو لوگ بھی تم سے محبت کرنے لگیں گے۔ اس حدیث کے راوی معروف صحابی سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ ہیں، ان کا تعلق انصارِمدینہ سے تھا، حضرت ابوالعباس کنیت کے ساتھ معروف تھے، امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت ان کی عمر ۱۵ سال تھی، سن ۹۱ ہجری میں مدینہ منورہ میں فوت ہوئے، اس وقت ان کی عمر ۱۰۰ سال تھی، مدینہ منورہ میں فوت ہونے والے یہ آخری صحابی تھے۔ (الاصابۃ: 2/87)
اس حدیث میں ایک سائل کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا ذکر ہے، اس سائل کا نام معلوم نہیں، اگرکسی شخص کا نام معلوم نہ ہو، تو نام تلاش کرنے کے تکلف کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی؛ کیونکہ نام کے تعین یا ابہام کا مضمونِ حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم کے مرتبہ پر فائز ہونے کی بڑی قوی دلیل ہے، کیونکہ سائل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوانتہائی عظیم حاجتوں کی بابت سوال کیاتھا، ان دونوں حاجتوں میں بظاہر تناقض سا پایا جاتا ہے، کیونکہ اللہ رب العزت کی محبت کے تقاضے کچھ اور ہیں اور انسانوں کی محبت کے تقاضے کچھ اور۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں محبتوں کے حصول کو ایک ہی جملہ میں جمع فرمادیا اور اس کے لئے ایک ہی عمل کی نشاندہی فرمادی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (اعطیت جوامع الکلم) کی صداقت اور حقانیت کی انتہائی واضح دلیل ہے۔ یہ عظیم نکتہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، اہمیت اور ضرورت کی زبردست دلیل بھی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک پر اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم جاری فرماکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ صلاحیت عطا فرمادی کہ بعض اوقات ایک ہی جملے میں جنت کا پورا پروگرام واضح فرماسکتے تھے، لہذا جس شخص کا بھی صدقِ دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ کے ساتھ تعلق جڑگیا وہ یقیناً ایسی احادیث تک رسائی حاصل کرسکے گا جن میں انتہائی جامعیت اور اختصار کے ساتھ حصولِ جنت کا پروگرام موجود ہو۔
(ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء)
اس حدیث سے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طلبِ خیر کی حرص ثابت ہوتی ہے، یہ نفوسِ قدسیہ کس قدر ہر خیر کے حریص ہوا کرتے تھے، اور کس قدر امورِ خیر کی طرف سبقت لے جانے کا سوچا کرتے تھے، چنانچہ یہ صحابی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سائل کی حیثیت سے آیا اور اپنے تمام تر فقر اور تنگیٔ معیشت کے باوجود نہ تو دنیا کی حرص ظاہر کی نہ طلبِ دنیا کا سوال کیا، اسے نہ کسی عہدے کی حرص تھی نہ ہی دنیوی فخر اور ریاء کی تمنا تھی۔ اس کی طلب تھی تو یہ تھی کہ دنیا میں، میں کیسے لوگوں کا محبوب بن جاؤں اور جب قیامت قائم ہو تو اللہ رب العزت کا محبوب بن چکا ہوں۔ اللہ رب العزت کی محبت ہی سب سے اعلیٰ مقصد اور سب سے عمدہ غایت ہے، یہی نکتہ اس عظیم صحابی کی سوچ کا محور تھا، کتنے عرصہ سے یہ فکر اس کے دامن گیر رہی ہوگی، کتنے دن رات ان سوچوں میں گم رہا ہوگا، بالآخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضری کی سعادت حاصل ہوگئی اور اپنی یہ قیمتی خواہش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دی، ’’يَا رَسُول الله: دُلَّني عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمَلتُهُ أَحَبَّني اللهُ، وَأَحبَّني النَاسُ؟‘‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے عمل کی رہنمائی فرمادیجئے جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرنے لگے اور لوگ بھی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جواب عنایت فرمایا وہ واقعۃً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم کی خوبی سے متصف ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کے لئے ارشاد فرمایا:
ازهَد في الدُّنيَا يُحِبَّكَ اللهُ.
یعنی: دنیا میں زہد اختیار کرلو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ زہد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: والزهد في الدنيا الرغبة عنها، وأن لا يتناول الإنسان منها إلا ما ينفعه في الآخرة، وهو أعلى من الورع، لأن الورع: ترك ما يضر من أمور الدنيا، والزهد: ترك مالا ينفع في الآخرة. یعنی: دنیا میں زہد اختیار کرنے کا معنی یہ ہے کہ اس سے مکمل بے رغبتی اختیار کرلے،اور دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں ان میں سے صرف وہ چیزیں لے لےجو آخرت میں نفع دیں۔ (زہد) کا مقام (ورع) سے بہت اونچا ہے؛کیونکہ ورع سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی ہر وہ چیز چھوڑدینا جو نقصان دہ ہو، جبکہ زہد کا معنی یہ ہے کہ دنیا کی ہر وہ شیٔ ترک کردینا جس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ نفع سے خالی چیز کو چھوڑ دینے کا درجہ، نقصان دینے والی چیز کو چھوڑ دینے سے زیادہ ارفع واعلیٰ ہے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی ذکرکردہ اس تعریف کی تائید شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام سے بھی ہوتی ہے، وہ فرماتے ہیں: الزہد المشروع ھو ترک الرغبۃ فیما لاینفع فی الدار الآخرۃ. یعنی: زہدِ مشروع کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی جو چیزآخرت میں نفع بخش نہ ہو اس کی رغبت و خواہش ہی دل سے نکل جائے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ: 10/21)
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الزہد سفر القلب من وطن الدنیا وأخذہ فی منازل الآخرۃ. یعنی: زہد یہ ہے کہ دل دنیا کے وطن سے نکلنے کا سفر اختیار کرکے، منازلِ آخرت میں پہنچ جائے۔ (مختصر منہاج القاصدین: 324)
حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ نے زہد کے تعلق سے معروف عالم اور زاہد ابوسلیمان الدارانی رحمہ اللہ کا بڑا نفیس کلام نقل فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں: عراق میں لوگوں نے حقیقتِ زہد کے بارے میں مختلف آراء پیش کیں، کچھ نے کہا: زہد یہ ہے کہ لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دو، کچھ نے کہ زہد ترکِ شہوات کا نام ہے، کچھ نےکہا: زہد پیٹ بھر کے کھانا نہ کھانے کا نام ہے، یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ حقیقتِ زہد یہ ہے کہ ہر وہ چیز چھوڑدو جو آپ کو اللہ تعالیٰ سے غافل کردے۔ (جامع العلوم والحکم 2/186)
امام اہل السنۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے دنیا کے ساتھ کم سے کم امیدیں وابستہ کرنے کو زہد کہا ہے، ان کے اس قول سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زہد اس چیز کا نام نہیں کہ دنیا کو اوراس کی تمام تر لذات کو یکسر خیرباد کہہ دیا جائے اور مکمل بے رغبتی اختیارکرلی جائے، بلکہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے دنیا کے ساتھ ایک واجبی تعلق قائم رکھنا اور تمام تر ربط آخرت کے ساتھ استوار کرلینا، حقیقتِ زہد کے منافی نہیں ہے، لیکن دنیا کے ساتھ ایسا اشتغال اور انہماک جو دین سے دوری اور آخرت سے غفلت کا باعث بنے، زہد کے منافی بھی ہے اور انتہائی مذموم عمل بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر تدبر کرنے سے یہ نکتہ عیاں ہوتا ہے کہ فقیرانہ زندگی یا تنگیٔ معیشت ایک انتہائی پسندیدہ پہلوہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبرِجمیل کی توفیق ودیعت ہوجائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض فرامین پر غور کرلیتے ہیں:
(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے (تاکہ پوری توجہ سے آپ کی یہ بات سن لیں)فرمایا: (کن فی الدنیا کأنک غریب أو عابر سبیل) یعنی: دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو یا کوئی راستہ عبور کرنے والے ہو) (بخاری: 6416)
اس حدیث کے پیش نظر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: جب شام ہوجائے تو صبح کا انتظار نہ کرو، اور صبح کرلو تو شام کا انتظار نہ کرو، اور اپنی صحت میں سے اپنے مرض کے لئے کچھ حاصل کرلو، اور اپنی حیات میں سے اپنی موت کے لئے کچھ لے لو۔
(۲) جنگِ احزاب کے موقع پر جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پیٹوں پر پتھر باندھے خندق کھودنے میں مصروف تھے ،ان کی زبانوں پر یہ شعر جاری تھا:
نحن الذین بایعوا محمدا
علی الجھاد مابقینا ابدا
یعنی: ہم نے محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر جب تک زندہ ہیں جہاد کرتےرہنے کی بیعت کرلی ہے۔ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:
اللھم لاعیش الا عیش الآخرۃ
فاغفر للأنصار والمھاجرۃ
یعنی: اے اللہ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، پس تو انصار ومہاجرین کو معاف فرمادے۔ (بخاری: 2834، صحیح مسلم: 1805)
(۳) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عوالیٔ مدینہ کے ایک بازار سے گزر رہے تھے، اور آپ کے دونوں جانب صحابہ کرام بھی چل رہے تھے، ایک چھوٹے قد کی مردہ بکری کے پاس سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کان پکڑکر فرمایا: کون ہے جو یہ بکری ایک درہم میں خرید لے؟ صحابہ نے عرض کیا: ہم تو اسے مفت میں لینے کے لئے بھی تیار نہیں، اور آخر ہم اس کا کیا کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: کیا تم یہ چاہتے ہوکہ یہ بکری تمہاری ہوجائے؟ عرض کیا: اگر یہ زندہ ہوتی تو پھر بھی عیب دارہوتی؛ کیونکہ یہ چھوٹے قد کی کن کٹی بکری ہے، یہ تو مردہ ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (فواللہ للدنیا أھون علی اللہ من ہذا علیکم) یعنی:اللہ کی قسم! پوری دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مردہ بکری سے بھی زیادہ حقیر وذلیل ہے۔ (صحیح مسلم: 2957)
(۴) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اطلعت فی الجنۃ فرأیت أکثر أھلھا الفقراء واطلعت فی النار فرأیت أکثر أھلھاالنساء) (صحیح بخاری: 6449 صحیح مسلم: 2737)
یعنی: میں نے جنت میں جھانکاتودیکھاکہ جنت میں فقراء زیادہ ہیں، اور جہنم میں جھانکاتودیکھاکہ جہنم میں عورتیں زیادہ ہیں۔
(۵)حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں بھیج کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیا کرتے ہو، پس دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو، بنی اسرائیل کا (پہلا) فتنہ عورتوں کے تعلق سے ہی تھا۔ (صحیح مسلم: 2742)
(۶) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس تین افراد آئے اور کہا: اے ابومحمد! ہمارے پاس نہ تو نان نفقہ ہے، نہ ہی سواری اور نہ دیگر سامان، فرمایا: تم جس طرح چاہو کرلو، یا تو ہمارے پاس دوبارہ آؤ تو ہم تمہیں جو آسانی سے دے سکے دے دیں، ہا پھر تمہارا معاملہ امیرالمؤمنین سے ذکر کردیں اور یا پھر تم صبر سے کام لے لو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے: فقراء مہاجرین قیامت کے دن مالداروں کی بنسبت چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ سن کر ان لوگوں نے کہا: ہم کچھ نہیں مانگتے اور صبر کرلیتے ہیں۔ (صحیح مسلم: 2979)
(۷) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درہم ودینار اور کپڑے لٹے کے پجاری کو تبارہ وبرباد ہونے کی بددعا دی ہے، جس کا کردار یہ ہوتا ہے کہ دنیا کا مال دیا جائے تو خوش رہتا ہے اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجاتا ہے۔ (صحیح بخاری:6435)
(۸) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر) یعنی: دنیا مؤمن کا قیدخانہ اور کافر کی جنت ہے۔ (صحیح مسلم: 2956)
(۹) حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (لوکان الدنیا تعدل عنداللہ جناح بعوضۃ ماسقی کافرا منھا شربۃ ماء) یعنی: اگر یہ ساری دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا۔ (ترمذی: 2320)
(۱۰) ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی حقیقت واضح کرتے ہوئے قیامت کا ایک قصہ بیان فرمایا: قیامت کے دن دنیا کے سب سے بڑے نعمتوں سے پروردہ شخص کو لایا جائے گا اور اسے جہنم کا ایک غوطہ دیا جائے گا، پھر پوچھا جائے گا: اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی خیر دیکھی ہے؟ کیا تیرے قریب سے کوئی نعمت گزری ہے؟ کہے گا: اللہ کی قسم! نہیں۔ پھر ایک دنیا کے سب سے بڑے تکلیف زدہ شخص کو لایا جائے گا، اسے جنت کا ایک غوطہ دیا جائے گا، پھر پوچھا جائے گا: اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف چکھی ہے؟ کیا تیرے پاس سے کسی تکلیف کا گزر ہوا ہے؟ کہے گا: اللہ کی قسم! نہیں، نہ تو میں نے کوئی مصیبت جھیلی ہے نہ ہی میرے قریب سے کسی تکلیف کا گزرہوا ہے۔ (صحیح مسلم: 2807)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں زہد کی جھلکیاں
(۱) حضرت نعمان بن بشیر فرمایاکرتے تھے: آج تمہیں ہر کھانا اور پینا میسر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتو پیٹ بھر کر ردی کھجوریں بھی نصیب نہیں ہوتی تھیں۔ (صحیح مسلم: 2977)
(۲) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ ایک قوم کے پاس سے گزرے جو بھنی ہوئی بکری کا گوشت کھارہے تھے،انہوں نے ابوھریرہ کو کھانے کی دعوت دی، حضرت ابوہریرہ نے انکار کردیا اورفرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے گزر گئے اور کبھی جوکی روٹی سے پیٹ بھرکے کھانانصیب نہیں ہوا۔ (صحیح بخاری: 5414)
(۳) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کیا کرتےتھے: (اللھم اجعل رزق آل محمد قوتا) (صحیح بخاری: 2460 صحیح مسلم: 1055)
یعنی: اے اللہ! اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کفایت بھر روزی عطافرما۔ (یعنی: زیادہ اور اسراف والی روزی سے بچا کر رکھنا)
(۴) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے، پورا پورا مہینہ ایسا گزر جاتا کہ ہمارے گھروں میں چولھا نہیں جلتا تھا، کھجوروں اور پانی سے گزر بسرہوتی تھی۔ (صحیح بخاری: 6458 صحیح مسلم: 2972)
ایک حدیث میں متواتر تین تین چاند اسی حالت میں گزر جانے کا ذکر ہے۔ (صحیح بخاری: 2567)
(۵) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاہی سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر چمڑے کا تھا جس کے اندر کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ (صحیح بخاری: 6456 صحیح مسلم: 2082)
(۶) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: اگر میرے پاس احدپہاڑ کے برابر سونا ہوتو مجھے کوئی خوشی نہ ہو، اگر ایسا ہوجائے تو میں تین دن کے اندر سب کچھ تقسیم کردوں الا یہ کہ اگر میرے کسی صحابی پر ایک دینار قرض ہو تو اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے میں ایک دینار روک کے رکھ لوں۔ (صحیح بخاری: 6444) (جاری ہے) (صححہ: #ایس_اے_ساگر) https://saagartimes.blogspot.com/2022/02/blog-post_13.html