Thursday, 30 June 2016

کون تھے مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ؟

ایس اے ساگر

ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر ایک پوسٹ زبردست مقبولیت حاصل کررہی ہے. اس پوسٹ میں مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ فرمارہے  ہیں کہ دنیا کی تمام الجھنیں ختم ہوسکتی ہیں اگر جاہل خاموش رہے اور علما حق بولنے لگیں. تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ مولانا کی داستان زندگی کسی الف لیلیٰ سے کم نہیں ہے انکے کمالات بے شمار ہیں اور ان کی شخصیت طلسماتی ٢٨ مارچ ١٩٧٢ کو ایک سکھ گھرانے میں جنم لیا لیکن ہدایت آپ کے نصیب میں رب کائنات نے لکھ رکھی تھی اور ایک سکھ بچے سے دین اسلام کی ایک بڑی خدمت کا لیا جانا مقدر ہو چکا تھا. مڈل کی تعلیم کے دوران مولانا عبید الله پائلی کی کتاب 'تحفتہ الہند' پڑھی اور ان کے کے قلب میں ایمان کی شمع روشن ہوئی رہی سہی کسر شاہ اسمعیل شہید رحمہ کی 'تقویت الایمان' نے پوری کردی ..
آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام اس کتاب کے مولف کے نام پر رکھنا مناسب سمجھا کہ جن کی کتاب پڑھ کر آپ کے دل میں ایمان نے گھر کیا تھا. مولانا سندھی کی تحریکی زندگی کا اصل رخ اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب دیوبند میں آپ کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمہ اللہ کی صحبت حاصل ہوئی. مولانا سندھی کا شمار تحریک ریشمی رومال کے مجاہدین اول میں سے ہوتا ہے. آپ کے ذمے شیخ الہند رحمہ کی جانب سے محاز افغانستان لگایا گیا تھا. ١٩١٥ میں آپ شیخ الہند رحمہ کے کہنے پر ہجرت کرکے افغانستان چلے گئے امیر امان اللہ خان کو انگریزوں کے خلاف جہاد کیلئے تیار کرنے کا سہرا مولانا سندھی رحمہ کے سر ہے.افغانستان سے آپ نے روس نقل مکانی کی اور پھر وہاں سے ترکی کی جانب مسافرت اختیار کی .

مولانا سندھی رحمہ کی عظیم ترین خدمات میں سے

١. جہاد افغانستان کی آبیاری .

٢. جمیعت الانصار کا قیام .

٣.علوم قرآنی کی ترویج

٤. فکر ولی الہی کا احیاء

شامل ہیں. مولانا سندھی کے تلامذہ میں موسیٰ جار الله اور مولانا احمد علی لاہوری رحمہ جیسی عظیم شخصیات کا نام شامل ہے .  ٢٢ اگست ١٩٤٤ کو آپ نے دین پور میں رحلت فرمائی اور آپ کا جسد خاکی وہیں مدفون ہے . حوالہ کیلئے اکابر علماء دیوبند رحمہم اللہ ، ١٢٧/١٢٦، ادارہ اسلامیات لاہور ، حافظ محمد اکبر شاہ بخاری سے رجوع کیا جاسکتا ہے.

مولانا کی تفسیر 'الہام الرحمان' کا منہج اصلی

مولانا سندھی رحمہ فرماتے ہیں " قرآنی معارف و مطالب میں مجھے شاہ ولی اللہ دھلوی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی اور حکیم کے افکار سے مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑی- میں نے قرآن سے جو کچھ اخذ کیا ہے اور جو بھی معانی مضامین قرآن سے مستنبط کیے ہیں مجھے انکی تعین اور تائید کیلیے شاہ صاحب کی حکمت سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی .
(شاہ ولی الله اور انکا فلسفہ ، مولانا سندھی ، ٢٢ )

گو کہ مولانا سندھی رحمہ کی 'الہام الرحمان' مکمل تفسیر نہیں اور یہ سورہ فاتحہ سے سورہ بقرہ تک کل ٣٢٠ صفحات پر محیط ہے لیکن اس کے کمالات بے شمار ہیں.

١. تفسیر کا اسلوب اہل علم کے معیار کے مطابق ہے .

٢. تصوف کا رنگ واضح دکھائی دیتا ہے .

٣. ربط آیات کا خاص خیال رکھا گیا ہے

٤.تقابل ادیان کے حوالے سے کچھ مباحث ملتے ہیں

٥.اصول ولی الہی اپنی پوری شان کے ساتھ نمایاں ہے .

مولانا سندھی رحمہ اللہ کی تفسیر پر تنقید :

حیات مسیح علیہ سلام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے اور یہ قرآن و سنت کی براہ راست تعلیمات سے مستنبط ہے لیکن مولانا سندھی رحمہ اللہ کی اس تفسیر میں اس حوالے سے مختلف نکات ملتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ان پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے اور ' احمدی' گروہ اس سے اپنے موقف کی تائید میں استدلال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے.
مولانا سندھی اور نزول مسیح کے حوالے سے ایک تحقیق :
حضرت صوفی عبد الحمید خان سواتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
’’مولانا عبید اللہ سندھی کی طرف منسوب اکثر تحریریں وہ ہیں وہ ہیں جو املائی شکل میں ان کے تلامذہ نے جمع کی ہیں ۔مولانا کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریرات اور بعض کتب نہایت دقیق و عمیق اور فکر انگیز ہیں اور وہ مستند بھی ہیں۔ لیکن املائی تحریروں پر پورا اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ اور بعض باتیں ان میں غلط بھی ہیں جن کو ہم املا کرنے والوں کی غلطی پر محمول کرتے ہیں مولانا کی طرف ان کی نسبت درست نہ ہوگی‘‘۔
(مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص ۷۸)

حضرت سواتی رحمہ اللہ  مزید لکھتے ہیں کہ:
’’پوری کتاب من و عن مولانا سندھی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنا بڑی زیادتی ہوگی۔ اور اس کو اگر علمی خیانت کہا جائے تو بجا ہوگا کچھ باتیں اس کی مشتبہ اور غلط بھی ہیں جن کے مولانا سندھی رحمہ اللہ قائل نہیں تھے۔ اور نہ وہ باتیں فلسفہ ولی اللہی سے مطابقت رکھتی ہیں‘‘۔
(عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص۶۸)
۔حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’حیات مسیح کے بارے میں مولانا عبید اللہ سندھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو دوسرے علماء دیوبند کا ہے ۔ مگر افسوس کہ موسی جار اللہ اپنی بات مولانا سندھی کے نام سے کہہ کر لوگوں کو مغالطہ دے رہا ہے۔ مولانا سندھی کے نظریات و عقائد وہی ہیں جو میں نے حاشیہ قرآن میں لکھ دئے ہیں‘‘۔
(خدام الدین کا احمد علی لاہوری ؒ نمبر :ص ۲۰۶)

اس حاشیہ تفسیر کا کیا مقام ہے علامہ خالد محمود صاحب کی زبانی سنئے :

’’مولانا احمد علی صاحب ؒ نے حضرت شاہ ولی اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی کی تعلیمات کی روشنی میں قرآن پاک کا ایک مختصر اور جامع حاشیہ تحریر فرمایا آپ نے اس میں سورت سورت اور رکوع رکوع کے عنوان خلاصے اور مقاصد نہایت ایجاز اور سادہ زبان میں ترتیب دئے جہاں جہاں مضمون ایک موضوع پر جمع دکھائے دئے ان کو موضوع دار اور طویل اور مفصل فہرست اپنے حاشیہ قرآن سے بطور مقدمہ شامل فرمائی عصری تقاضہ تھا کہ اختلاف سے ہر ممکن پرہیز کیا جائے اس لئے آپ نے ترجمہ قرآن پر ہر مسلک کے علماء کی تائید حاصل کی آپ کی پوری کوشش تھی کہ قرآن پاک کا ایک مجموعہ حاصل قوم کے سامنے رکھ سکیں۔ آپ جب یہ مسودے تیار کرچکے تو انہیں لیکر دیوبند پہنچے۔دیوبند میں ان دنوں محدث کبیر حضرت مولانا سید انور شاہ شیخ التفسیر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اورشیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا دور دورہ تھا۔آپ نے یہ سب مسودات ان حضرات کے سامنے رکھ دئے اور بتایا کہ انہوں نے یہ قرآنی محنت مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ  کی تعلیمات کی روشنی میں سر انجام دی ہے مولانا سندھی رحمہ اللہ پرچونکہ سیاسی افکار غالب تھے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ خالص دینی نقطہ نظر سے بھی اس قرآنی خدمت کا جائزہ لیا جائے اگر اکابر دیوبنداس کی تصدیق فرمادیں تو وہ اسے شائع کردیں گے وگرنہ وہ یہ مسودات یہی چھو ڑ جائیں گے پھر ان کی انہیں کوئی حاجت نہیں ہوگی۔
اکابر نے ان کی تصدیق کی اور حضرت شیخ التفسیر مرکز دیوبند سے تصدیق لے کر لاہور واپس ہوئے اس ترجمے اور تحشئے کی نہ صرف اشاعت کی بلکہ درس و تدریس میں بھی قرآن کریم کا ذوق ہزاروں مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتاردیا‘‘۔
(خدام الدین کاشیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری نمبر :ص ۲۰۶)

حیات عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت سندھی رحمہ اللہ کی اپنی تصریح:
’’فائدہ دوم!امام ولی اللہ دہلوی ’تفہیمات الٰہیہ‘ میں فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالی نے بذریعہ الہام سمجھایا ہے کہ تجھ پر دو جامع اسموں کا نور منعکس ہوا ہے ۔اسم مصطفوی اور اسم عیسوی علیہما الصلوت والتسلیمات تو عنقریب کمال کے افق کا سردا ربن جائے گا اور قرب الٰہی کی اقلیم پر حاوی ہوجائے گا۔ تیرے بعد کوئی مقرب الٰہی ایسا نہیں ہوسکتا جس کی ظاہری و باطنی تربیت میں تیرا ہاتھ نہ ہو۔یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں‘‘۔
(رسالہ عبیدیہ اردو ترجمہ محمودیہ:ص۲۷)

یہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے واضح طور پر نزول عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ لکھا. یہ تالیف ان کے آخری ایام ۱۳۳۹ھ کی ہے، لہٰذا ان کی اپنی اس تحریر کے ہوتے ہوئے کسی غیر معتبر املائی تفسیر کی کوئی حیثیت نہیں۔

سیاسی اور سماجی پس منظر :

مولانا عبیدالله سندهی رحمہ کے بارے میں تاثرات نظر سے گزرے کہ،
"مولوی فضل ربی کے واسطے میرے تعلقات علماء دیوبند کے ساتهہ بنے. دیوبند مدرسے میں اکثریت پشتون طالبان کی تهی تو ہم جب بهی دیوبند جاتے تو پشتون طالبان سے ملنے کے بہانے مدرسے جاتے. ہمارے زیادہ تر صلاح و مشورے دیوبند کے مهتمم مولانا محمودالحسن صاحب اور مولانا عبیدالله سندهی کے ساتهہ ہوتے. ان دنوں انگریزوں کی سی آئی ڈی کا بہت زیادہ رعب اور دبدبہ تها اور لوگوں کے دلوں میں ایک خوف سا ہوتا کیونکہ ان کے مخبروں کا پورے ملک میں ایک جال بچها ہوا تها. دیو بند جاتے ہوئے ہم یہ احتیاط کرتے کہ سیدهے دیوبند نہیں جاتے بلکہ ایک اسٹیشن آگے ریل سے اتر کر پیدل جاتے تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے. اسی طرح مولانا عبیدالله سندهی صاحب سے ملنے جاتے تو پہلے فتحپوری کی جامع مسجد میں نماز ادا کرتے وہیں سندهی صاحب سے ملاقات ہوتی، اس کے بعد وہ چائے کے بہانے ہم کو اپنی جگہ لے جاتے. مولانا سندهی صاحب نے دہلی میں فتحپوری کے جامع مسجد کے قریب ایک جگہ خریدی تهی اور وہاں نوجوانوں کو قرآن مجید کی درس دیتے تهے اور جو نوجوان بی اے پاس ہوتے ان کو ماہانہ پچاس روپے وظیفہ بهی دیتے. اس وقت پچاس روپے بہت زیادہ رقم تهی. سندهی صاحب کا خیال تها کہ وہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں قرآن شریف کے درس کی وجہ سے ان میں حریت اور خدمت کا جذبہ پیدا کر لیں گے لیکن سندهی صاحب اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے. سندهی صاحب صاحب صحیح معنوں میں ایک بڑے عالم تهے ان کی طرح قرآن شریف کو نہ کوئی سمجهتا تها اور نہ ان کی طرح کوئی درس دے سکتاتها لیکن مسلمانوں میں جدوجهد کا مادہ باقی نہیں رہاتها. ورنہ انگریزوں کے اسکولوں میں هندو اور مسلم اکهٹے پڑهتے اور اس تعلیم کا  هندووں پر ایک طرح کا اثر ہوتا اور مسلمانوں پر دوسری طرح کا اثر ہوتا. هندووں میں وطن کیلئے قوم پرستی اور خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا اور مسلمان پیار اور خدمت تو دور کی بات اپنے قوم اور ملک تک کو نہیں پہچان سکے. سندهی صاحب کے شاگردوں میں رشید نامی شاگرد جس پر سندهی صاحب کا بہت زیادہ اعتماد اور بهروسہ تها جو بی اے پاس تها اور قرآن شریف کا ترجمہ بهی سندهی صاحب سے پڑھ چکے تهے باوجود ان سب باتوں کے انگریزوں کا مخبر نکلا جو روزانہ سندهی صاحب کے دوستوں ،شاگردوں اور تمام حالات کی ڈائری حکومت کودیتا. جب سندهی صاحب کے شاگرد رشید کا یہ حال ہو تو باقی لوگوں کا کیا کریں گے."
ان سطور کا راقم کون ہے،  اس کا علم نہیں البتہ مذکورہ تحریر سے نہ صرف مولانا سندھی رحمہ اللہ کے حالات سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ اس دور کے سیاسی اور معاشرتی ماحول کا بھی ادراک ہوتا ہے.

Wednesday, 29 June 2016

مسلمان نہ لاوارث ہیں اور نہ ہی مجرم، ہم بے قصوروں کا دفاع کرتے ہیں

جمعیۃ علماء مہاراشئر(ارشدمدنی)کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزاراعظمی سے ابوندیم کی بات چیت

گلزاراحمداعظمی     جمعیۃعلماء مہاراشٹر(ارشدمدنی)کی قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ پھر ایک لمبی 

قانونی لڑائی لڑنےکے لیے تیار ہیں۔یہ لڑائی وہ ان بے قصوروں کی طرف سے لڑیں گے جنہیں طویل عرصے

 تک بغیر کسی ثبوت کے جیل کی سلاخوں کے پیچھےرکھاگیا۔جنہیں جھوٹےاورفرضی مقدمات میں ملوث کیاگیا...

اور اس طرح ان کی زندگیوں کے بیش قیمت سال برباد کردئیےگئے....یہ جنگ ان پولس والوں کے

خلاف ہے جنہوں نے مسلم نوجوانوں کےخلاف جھوٹےکیس بنائے اورشہادتیں گڑھیں....یہ ہرجانے کی

 جنگ ہے۔یہ بے قصوروں کی عزت اورمرتبے کی بحالی کی جنگ ہے۔یہ خاطیوں کو سزا دلانے کی جنگ ہے۔

س:سال 2015اور2016جمعیۃ علماء کی قانونی سرگرمیوں کے لیے ملاجلا رہا‘خوشیاں زیادہ مگر کچھ غم بھی۔عدالتوں کے کئی حوصلہ افزاء فیصلے آئےمگر چند مقدموں میں فیصلہ توقع کے خلاف رہا۔کیا کہناچاہیں گے آپ ؟

ج:یہ صحیح ہے کہ سالِ گذشتہ اورموجودہ سال میں کئی اہم عدالتی فیصلے آئے ۔اورجہاں ہمیں ناکامی ہوئی اس میں ہم سمجھتے ہیں کہ نچلی عدالتوں نے ہمارے وکلاء کے دلائل وشواہد کومعلوم نہیں کیوں رد کردیا۔لیکن ہمیں اُمید ہے کہ جب ان فیصلوں کو عدالتِ عالیہ میں لے کر جائیں گے توانشاء اللہ وہاں ہمارے حق میں فیصلہ کیا جائےگا‘ہمیں کامیابی ملے گی۔

س:دوفیصلوں پر خاص طور پر توجہ دلانامقصود ہے۔ٹرین بم بلاسٹ 7/11اوردوسرا جے پوربم بلاسٹ ۔ٹرین بم بلاسٹ کے مقدمے کے لڑنے میں کیاکوئی خامی رہ گئی ہے؟نیزجے پور کے مقدمے کے چندملزمین بری ہوئے دوسرے کیوں بری ہونے سے رہ گئے‘بالخصوص جلیس انصاری؟

ج:جہاں تک 7/11مقدمے کاتعلق ہے ہمارے وکلاء نے نہایت ایمانداری اورلگن کے ساتھ اس مقدمے کو لڑا اورگواہانِ استغاثہ سے جرح کرکے عدالت کے سامنے یہ ثابت کردیا کہ یہ استغاثہ کےمستقل گواہ ہیں اوریہ بھی ثابت کیاکہ گواہان نے جوگواہی دی ہے وہ کس بنیاد پر جھوٹی اورغلط ہے۔اسی لیے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہم جب عدالت عالیہ میں جائیں گےتوہمیں کامیابی حاصل ہوگی۔رہ گئی بات اجمیربلاسٹ کیس کی تو اس سلسلے میں دومقدمات تھے۔ایک مقدمہ میں جلیس انصاری ،حافظ ابررحمت ،جمال علوی وغیرہ شامل تھے جنہیں نچلی عدالت اورجے پورہائی کورٹ نے ۲۰؍۲۰؍سال کی سزا دی تھی الحمد للہ اس میں کامیابی حاصل ہوئی اورچار کے چار سپریم کورٹ سے با عزت بری ہوگئے۔جے پور کے ہی سیرئیل بم بلاسٹ کےسلسلے میں ۱۵؍لوگوں میں سے گیارہ لوگوں کی ۲۰؍سال کی سزا کو عدالت نےبرقرار رکھا۔دونوں کیس ایک ہی جیسے تھے‘دونوں مقدموں میں کچھ لوگ مشترکہ طور پرماخوذتھے لیکن یہاں تمام ملزمین کے حق میں پہلےجیسا فیصلہ نہیں آیا۔اس فیصلے کے خلاف ہمارااگلاقدم یہ ہے کہ ہم گیارہ لوگوں کی جانب سے ری ویوپٹیشن داخل کر رہے ہیں،ساتھ ہی ساتھ ہم سی بی آئی اورراجستھان گورنمنٹ سےرجوع ہو رہے ہیں کہ ان کی سزا عدالتِ عالیہ صرف عمر قیدنے دی تھی اورعام طور پرایسی سزا کو زیادہ سے زیادہ ۲۰؍سال ماناجاتاہے۔ان لوگوں نےجیل میں ۲۳سال گذارے ہیں اس لیے ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں رہا کردیاجائے۔اگر سی بی آئی اورراجستھان گورنمنٹ نے اس پر خاطر خواہ عمل نہیں کیاتوپھر ہم سپریم کورٹ جائیں گے اورہمیں اُمید ہےکہ ہمیں انشاء اللہ ضرورکامیابی ملے گی۔

س:کیا سی بی آئی اورراجستھان کی بی جے پی سرکار سے آپ کوبھلے کی اُمید ہے؟

ج:ہمیں کوئی اُمیدنہیں ہے.....       

س:لیکن بی جے پی اب کچھ  بدلتی نظرآرہی ہے۔مرکزی وزیرقانون سدانندگوڑا نے یہ اعتراف کیا ہے کہ مسلمان بےقصورگرفتارکیے جارہے ہیں،انہوں نے تشویش کا اظہار کیاہے،کیا یہ ممکن نہیں کہ بی جے پی ماخوذین پر کچھ نظرعنایت کرے؟

ج:وزیر قانون کامذکورہ بیان آنے کے بعدکچھ امید کی  کرن دکھائی تو دے رہی ہے اوراس بیان کی روشنی میں ہم نےوزیر قانون کو مبارکباد دیتےہوئے ان سے کہا ہےکہ آپ اگر اس بات کومحسوس کر رہےہیں کہ دہشت گردی کے الزام میں بے گناہ مسلمانوں کو گرفتار کرکے ان پرظلم کیا جارہا ہے توآپ کا یہ احساس اس وقت واقعتاًقابلِ پذیرائی ہوگاجب آپ ان بے گناہوں کوجیل کی سلاخوں سے نکال کر آزاد ہوا میں سانس لینے کاموقع فراہم کریں گے۔میں یہاں یہ بات بھی ذکر کردوں کہ جے پوربم بلاسٹ کے ہی ملزم نثار الدین کی ۲۳؍سال کےطویل عرصے بعدقیدسے رہائی ہوئی‘اوراس کے بعدالیکٹرانک میڈیا اورپرنٹ میڈیا نے اس کی جس آپ بیتی کولوگوں کے سامنے پیش کیا‘اس نے واقعی باضمیر انسانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیااورغالباًوزیرقانون کابیان بھی اسی روشنی میں سامنے آیاہے۔جمعیۃ علماء(ارشدمدنی)کی قانونی امدادکمیٹی نے اول روز سے ہی اس بات کا اعلان کیاکہ یہ مسلمان بے گناہ ہیں،ان کے مقدموں کی پیروی کی اوراس کےنتیجے میں نثار الدین باعزت بری ہوا۔

س:نثار الدین کی رہائی ۲۳؍برس کے بعدہوئی،یہ ایک المیہ ہے۔کیاآپ اس کے ہرجانے کے لیےاورخاطی افسران کو سزادلوانے کے لیے قانونی کارروائی کریں گے؟

ج:میں نے نثار الدین کے بھائی ظہیر الدین سے آج ہی بات کی ہے اورمیں نے ان سے کہا ہے کہ اگرآپ لوگ تیارہوں توجمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی ظالم افسر ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی اورحکومتِ راجستھان کے خلاف ہرجانے کے لیے مقدمہ کرنے کو تیار ہے۔ظہیر الدین نےمجھ سے کہا ہےکہ ہم اس پرضرور غور کریں گے۔

س:ایسے ہی دومقدمےہر جانے کے آپ لڑرہے ہیں‘اکشردھام مندرحملہ اورلکھنؤبلاسٹ کا مقدمہ‘یہ مقدمے کس موڑ پر ہیں؟

ج:ابھی سپریم کورٹ کی تعطیلات کےبعداکشردھام کامقدمہ انشاء اللہ بہت جلد سماعت کے لیے بورڈ پرآجائے گا‘اسی طرح لکھنؤوالا مقدمہ بھی ہائی کورٹ میں سناجائے گا۔باالفاظ دیگر اب تک ہم صرف ملزمین کے مقدمے لڑتےرہے ہیں اوراب ان پولس والوں کے خلاف بھی مقدمے لڑے جارہے ہیں جو بے گناہ مسلمانوں کو فرضی مقدمات میں ملوث کرتے ہیں۔

س:جہاں ایک جانب وزیر قانون نے تشویش کااظہار کیا ہے وہیں دوسری جانب اسی حکومت کی این آئی اے ان ملزمین کو جن کے گناہ طشت ازبام ہیں بچانے کے لیے کوشاں ہیں،مثلاًسادھوی پرگیہ کوکلین چٹ دے دی گئی ہے اورکرنل پروہت واسیمانند کو بھی جلدہی کلین چٹ دی جاسکتی یاچھوڑا جاسکتاہے‘اس پرکیاکہیں گے؟

ج:یہ صحیح ہے کہ این آئی اے کے رویے میں تبدیلی آئی ہے۔لیکن انہیں عدالت میں کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ جمعیۃ علماء بھی متاثرین کی جانب سے عدالت میں فریق ہے۔سادھوی پرگیہ کی ضمانت کی درخواست کو ہم چیلنج کریں گے اورانشاء اللہ اسے ضمانت نہیں مل سکے گی۔اس کے خلاف آنجہانی ہیمنت کرکرے نے اپنی تیارہ کردہ چارج شیٹ میں جوشواہد پیش کیے ہیں وہ اس کی ضمانت کے لیے بہت بڑی روکاوٹ ثابت ہونگے۔

س:پروہت پرسے مکوکا کاہٹایاجانا کیامقدے کوکمزورنہیں کرےگا؟

ج:جہاں تک مکوکاقانون کے اطلاق کا تعلق ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ گرفتار ملزمین کے گروپ میں سے کسی ایک پر بھی تین چارج شیٹ عدالت میں پیش کی گئی ہو ںجب کہ مالیگاؤں بم بلاسٹ 2008میں کسی ملزم پر بھی پہلے تین چارج شیٹ داخل نہیں تھی،یہ اس مقدمے کی ایک تکنیکی خامی تھی،لیکن تعزیرات ہند کی دفعہ 302اوریواے پی اے ایکٹ کے تحت انہیں نہ ضمانت مل سکتی ہے اورنہ یہ سزا سے بچ سکتے ہیں۔

س:جمعیۃ علماء مہاراشٹرکے مقدمات کے بارےمیں کچھ تفصیل سے بتائیں‘کتنے مقدمے ہیں،نیز یہ بھی بتائیں کہ مقدمے لڑنے کی وہ بھی پولس والوں کے خلاف مقدمے لڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ج:مقدمے لڑنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں  کو دہشت گردی کے معاملات میں بے قصورپھنسایاگیا۔ہم نے پولس کے خلاف مقدمے کی شروعات وڈالا سے کی تھی جہاں ایک لڑکے کوبری طرح سے ماراپیٹاگیا اوراس کے پاخانے کے مقام پر مسواک ڈال دی گئی تھی،ان پولس والوں کے خلاف مقدمہ قائم کیاگیا۔اب تک27مقدمات میں 108بے قصوروں کو باعزت رہائی ملی ہے ،6 مقدمات میں25؍افراد ضمانت پر رہا ہوئے ہیں اور52مقدمات میں 570ملزمین کاٹرائل جاری ہے۔ہمیں اللہ رب العزت کی ذات پاک پر یقین ہے کہ وہ ہمیں ان مقدمات میں کامیاب کرے گا۔

س:یہ سوال اکثراٹھتاہے کہ جمعیۃ علماء کیوں دہشت گردوں کے مقدمے لڑتی ہے؟

ج:یہ مسلمان دہشت گردنہیں بلکہ یہ دہشت گردغلط طور پر قرار دئیے گئے ہیں۔صاف الفاظ میں کہہ دوں کہ جمعیۃ علماء مجرموں کانہیں بے قصوروں کادفاع کرتی ہے۔مسلم نوجوانوں کوپھنسانے والے فرقہ پرست اصلی مجرم ہیں۔یہ فرقہ پرست جوہیں وہ اصلی مجرم بلکہ دہشت گرد ہیں اورآج کل ان ہی فرقہ پرستوں کی حکومت ہے۔ایسا نہیں کہ پہلے کی حکومتوں میں مسلمانوں کےخلاف سازش نہیں ہوتی تھی،سازشیں توپہلے کی حکومتوں میں بھی ہوتی تھیں،فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کولوٹا پیٹااورماراکاٹاجاتاتھا‘فسادات کم ہوئے توبیجاگرفتاریاں شروع کردی گئیں،پوری کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کی توجہ تعلیم اومعیشت سے ہٹا دی جائے۔اگربیجاگرفتاریاں نہ ہوں اورمسلمانوں پر فرقہ وارانہ تشدد نہ تھوپاجائے تووہ تعلیمی میدان میں بھی اورمعاشی میدان میں بھی بہت آگے بڑھ سکتے ہیں۔فرقہ پرست یہی نہیں چاہتے۔یہ وہ حالات ہیں جن پرجمعیۃ کی نظرہمیشہ رہی ہے۔یہ سچ ہےکہ ہم مقدمات میں گھِرکر رہ گئے ہیں لیکن مسلمانوں کومایوسی کے حصار سے باہر نکالنے کایہ ایک کارگرطریقہ ہے۔ہم بے قصورمسلمانوں اوران کے اہل خانہ کو قانونی امداد فراہم کرکےحکومت میں بیٹھے فرقہ پرستوں اورمتعصب پولس والوں کو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ اس ملک کےمسلمان لاوارث نہیں ہیں۔ہمیں صدرجمعیۃ علماء ہندجانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدارشدمدنی دامت برکاتہم کی پوری مدد اورحمایت حاصل ہے بلکہ یہ کام ان ہی کی قیادت میں ہو رہاہے۔ہمیں حضرت نے یہ ہدایت دی تھی کہ بے قصورمسلمانوں کےمقدمے لڑےجائیں اورہم اسی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں۔

س:کیاآپ اپنے کام سے مطمئن ہیں؟

ج:یہ اطمینان توہے کہ جمعیۃ علماء کی کوششوں کواللہ نے قبول کیا اورکئی نوجوان جنہیں پھانسی کی سزاسنائی گئی تھی وہ پھانسی سے بچے اورکئی جنہیں عمر قید دی گئی تھی عمر قید سے بچے۔مکمل اطمینان تو اسی وقت ہوگا جب یہ گرفتاریاں بند ہوجائیں گی اورخاطی پولس والے سلاخوں کے پیچھے نظرآئیں گے۔

س:جمعیۃ مزید کیا کام کرتی ہے؟

ج:رفاہی کاموں میں جمعیۃ پیش پیش رہتی ہے۔مظفرنگر کے فسادزدگان کی بازآبادکاری پر جمعیۃ نے کروڑوں روپئے خرچ کیے۔ہم ہر سال تعلیمی وظائف تقسیم کرتے ہیں۔گذشتہ برس 67؍لاکھ روپئے اس مد میں خرچ کیے گئے،امسال انشاء اللہ ہم اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کریں گے۔ان بچوں کوجو اعلیٰ تعلیم حاصل کرناچاہتے ہیں مگرغریب ہیں ہم آگے بڑھاتے ہیں۔نچلی کلاسوں کے بھی غریب بچوں کو تعلیمی امداد دی جاتی ہے۔ساتھ ہی ارضی وسماوی آفات پر ہم ریلیف ورک کرتے ہیں۔

س:یہ کام ممکن کیسے ہوتاہے؟

ج:اگرآپ جمعیۃ کی ٹیم کےتعلق سے سوال کر رہے ہیں توہم بتادیں کہ ہمارے پاس محنتی افراد کی ٹیم ہے۔قانونی پینل ہے جس میں محنتی وکلاء شامل ہیں۔تعلیمی ماہرین کی ہم مدد لیتے ہیں۔اوراگرسوال روپئے سے متعلق ہے توبتادوں کہ ہمارے خیرخواہان ہیں،مخیرحضرات ہیں،یہ ہماری مدد کرتے ہیں بالخصوص رمضان المبارک میں،اورانشاء اللہ اس رمضان میں بھی ان کی مدد ہمیں حاصل رہےگی۔لوگوں کی طرف سے مدد اس لیے ضروری ہے کہ مقدمات لڑنے کااورلوگوں کی فلاح وبہبود کاکام تن تنہاجمعیۃ کے بس کانہیں ہے،اسے لوگوں کی حمایت درکار ہے۔