ایس اے ساگر
ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر ایک پوسٹ زبردست مقبولیت حاصل کررہی ہے. اس پوسٹ میں مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ فرمارہے ہیں کہ دنیا کی تمام الجھنیں ختم ہوسکتی ہیں اگر جاہل خاموش رہے اور علما حق بولنے لگیں. تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ مولانا کی داستان زندگی کسی الف لیلیٰ سے کم نہیں ہے انکے کمالات بے شمار ہیں اور ان کی شخصیت طلسماتی ٢٨ مارچ ١٩٧٢ کو ایک سکھ گھرانے میں جنم لیا لیکن ہدایت آپ کے نصیب میں رب کائنات نے لکھ رکھی تھی اور ایک سکھ بچے سے دین اسلام کی ایک بڑی خدمت کا لیا جانا مقدر ہو چکا تھا. مڈل کی تعلیم کے دوران مولانا عبید الله پائلی کی کتاب 'تحفتہ الہند' پڑھی اور ان کے کے قلب میں ایمان کی شمع روشن ہوئی رہی سہی کسر شاہ اسمعیل شہید رحمہ کی 'تقویت الایمان' نے پوری کردی ..
آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام اس کتاب کے مولف کے نام پر رکھنا مناسب سمجھا کہ جن کی کتاب پڑھ کر آپ کے دل میں ایمان نے گھر کیا تھا. مولانا سندھی کی تحریکی زندگی کا اصل رخ اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب دیوبند میں آپ کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمہ اللہ کی صحبت حاصل ہوئی. مولانا سندھی کا شمار تحریک ریشمی رومال کے مجاہدین اول میں سے ہوتا ہے. آپ کے ذمے شیخ الہند رحمہ کی جانب سے محاز افغانستان لگایا گیا تھا. ١٩١٥ میں آپ شیخ الہند رحمہ کے کہنے پر ہجرت کرکے افغانستان چلے گئے امیر امان اللہ خان کو انگریزوں کے خلاف جہاد کیلئے تیار کرنے کا سہرا مولانا سندھی رحمہ کے سر ہے.افغانستان سے آپ نے روس نقل مکانی کی اور پھر وہاں سے ترکی کی جانب مسافرت اختیار کی .
مولانا سندھی رحمہ کی عظیم ترین خدمات میں سے
١. جہاد افغانستان کی آبیاری .
٢. جمیعت الانصار کا قیام .
٣.علوم قرآنی کی ترویج
٤. فکر ولی الہی کا احیاء
شامل ہیں. مولانا سندھی کے تلامذہ میں موسیٰ جار الله اور مولانا احمد علی لاہوری رحمہ جیسی عظیم شخصیات کا نام شامل ہے . ٢٢ اگست ١٩٤٤ کو آپ نے دین پور میں رحلت فرمائی اور آپ کا جسد خاکی وہیں مدفون ہے . حوالہ کیلئے اکابر علماء دیوبند رحمہم اللہ ، ١٢٧/١٢٦، ادارہ اسلامیات لاہور ، حافظ محمد اکبر شاہ بخاری سے رجوع کیا جاسکتا ہے.
مولانا کی تفسیر 'الہام الرحمان' کا منہج اصلی
مولانا سندھی رحمہ فرماتے ہیں " قرآنی معارف و مطالب میں مجھے شاہ ولی اللہ دھلوی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی اور حکیم کے افکار سے مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑی- میں نے قرآن سے جو کچھ اخذ کیا ہے اور جو بھی معانی مضامین قرآن سے مستنبط کیے ہیں مجھے انکی تعین اور تائید کیلیے شاہ صاحب کی حکمت سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی .
(شاہ ولی الله اور انکا فلسفہ ، مولانا سندھی ، ٢٢ )
گو کہ مولانا سندھی رحمہ کی 'الہام الرحمان' مکمل تفسیر نہیں اور یہ سورہ فاتحہ سے سورہ بقرہ تک کل ٣٢٠ صفحات پر محیط ہے لیکن اس کے کمالات بے شمار ہیں.
١. تفسیر کا اسلوب اہل علم کے معیار کے مطابق ہے .
٢. تصوف کا رنگ واضح دکھائی دیتا ہے .
٣. ربط آیات کا خاص خیال رکھا گیا ہے
٤.تقابل ادیان کے حوالے سے کچھ مباحث ملتے ہیں
٥.اصول ولی الہی اپنی پوری شان کے ساتھ نمایاں ہے .
مولانا سندھی رحمہ اللہ کی تفسیر پر تنقید :
حیات مسیح علیہ سلام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے اور یہ قرآن و سنت کی براہ راست تعلیمات سے مستنبط ہے لیکن مولانا سندھی رحمہ اللہ کی اس تفسیر میں اس حوالے سے مختلف نکات ملتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ان پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے اور ' احمدی' گروہ اس سے اپنے موقف کی تائید میں استدلال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے.
مولانا سندھی اور نزول مسیح کے حوالے سے ایک تحقیق :
حضرت صوفی عبد الحمید خان سواتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
’’مولانا عبید اللہ سندھی کی طرف منسوب اکثر تحریریں وہ ہیں وہ ہیں جو املائی شکل میں ان کے تلامذہ نے جمع کی ہیں ۔مولانا کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریرات اور بعض کتب نہایت دقیق و عمیق اور فکر انگیز ہیں اور وہ مستند بھی ہیں۔ لیکن املائی تحریروں پر پورا اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ اور بعض باتیں ان میں غلط بھی ہیں جن کو ہم املا کرنے والوں کی غلطی پر محمول کرتے ہیں مولانا کی طرف ان کی نسبت درست نہ ہوگی‘‘۔
(مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص ۷۸)
حضرت سواتی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں کہ:
’’پوری کتاب من و عن مولانا سندھی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنا بڑی زیادتی ہوگی۔ اور اس کو اگر علمی خیانت کہا جائے تو بجا ہوگا کچھ باتیں اس کی مشتبہ اور غلط بھی ہیں جن کے مولانا سندھی رحمہ اللہ قائل نہیں تھے۔ اور نہ وہ باتیں فلسفہ ولی اللہی سے مطابقت رکھتی ہیں‘‘۔
(عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص۶۸)
۔حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’حیات مسیح کے بارے میں مولانا عبید اللہ سندھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو دوسرے علماء دیوبند کا ہے ۔ مگر افسوس کہ موسی جار اللہ اپنی بات مولانا سندھی کے نام سے کہہ کر لوگوں کو مغالطہ دے رہا ہے۔ مولانا سندھی کے نظریات و عقائد وہی ہیں جو میں نے حاشیہ قرآن میں لکھ دئے ہیں‘‘۔
(خدام الدین کا احمد علی لاہوری ؒ نمبر :ص ۲۰۶)
اس حاشیہ تفسیر کا کیا مقام ہے علامہ خالد محمود صاحب کی زبانی سنئے :
’’مولانا احمد علی صاحب ؒ نے حضرت شاہ ولی اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی کی تعلیمات کی روشنی میں قرآن پاک کا ایک مختصر اور جامع حاشیہ تحریر فرمایا آپ نے اس میں سورت سورت اور رکوع رکوع کے عنوان خلاصے اور مقاصد نہایت ایجاز اور سادہ زبان میں ترتیب دئے جہاں جہاں مضمون ایک موضوع پر جمع دکھائے دئے ان کو موضوع دار اور طویل اور مفصل فہرست اپنے حاشیہ قرآن سے بطور مقدمہ شامل فرمائی عصری تقاضہ تھا کہ اختلاف سے ہر ممکن پرہیز کیا جائے اس لئے آپ نے ترجمہ قرآن پر ہر مسلک کے علماء کی تائید حاصل کی آپ کی پوری کوشش تھی کہ قرآن پاک کا ایک مجموعہ حاصل قوم کے سامنے رکھ سکیں۔ آپ جب یہ مسودے تیار کرچکے تو انہیں لیکر دیوبند پہنچے۔دیوبند میں ان دنوں محدث کبیر حضرت مولانا سید انور شاہ شیخ التفسیر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اورشیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا دور دورہ تھا۔آپ نے یہ سب مسودات ان حضرات کے سامنے رکھ دئے اور بتایا کہ انہوں نے یہ قرآنی محنت مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ کی تعلیمات کی روشنی میں سر انجام دی ہے مولانا سندھی رحمہ اللہ پرچونکہ سیاسی افکار غالب تھے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ خالص دینی نقطہ نظر سے بھی اس قرآنی خدمت کا جائزہ لیا جائے اگر اکابر دیوبنداس کی تصدیق فرمادیں تو وہ اسے شائع کردیں گے وگرنہ وہ یہ مسودات یہی چھو ڑ جائیں گے پھر ان کی انہیں کوئی حاجت نہیں ہوگی۔
اکابر نے ان کی تصدیق کی اور حضرت شیخ التفسیر مرکز دیوبند سے تصدیق لے کر لاہور واپس ہوئے اس ترجمے اور تحشئے کی نہ صرف اشاعت کی بلکہ درس و تدریس میں بھی قرآن کریم کا ذوق ہزاروں مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتاردیا‘‘۔
(خدام الدین کاشیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری نمبر :ص ۲۰۶)
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت سندھی رحمہ اللہ کی اپنی تصریح:
’’فائدہ دوم!امام ولی اللہ دہلوی ’تفہیمات الٰہیہ‘ میں فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالی نے بذریعہ الہام سمجھایا ہے کہ تجھ پر دو جامع اسموں کا نور منعکس ہوا ہے ۔اسم مصطفوی اور اسم عیسوی علیہما الصلوت والتسلیمات تو عنقریب کمال کے افق کا سردا ربن جائے گا اور قرب الٰہی کی اقلیم پر حاوی ہوجائے گا۔ تیرے بعد کوئی مقرب الٰہی ایسا نہیں ہوسکتا جس کی ظاہری و باطنی تربیت میں تیرا ہاتھ نہ ہو۔یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں‘‘۔
(رسالہ عبیدیہ اردو ترجمہ محمودیہ:ص۲۷)
یہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے واضح طور پر نزول عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ لکھا. یہ تالیف ان کے آخری ایام ۱۳۳۹ھ کی ہے، لہٰذا ان کی اپنی اس تحریر کے ہوتے ہوئے کسی غیر معتبر املائی تفسیر کی کوئی حیثیت نہیں۔
سیاسی اور سماجی پس منظر :
مولانا عبیدالله سندهی رحمہ کے بارے میں تاثرات نظر سے گزرے کہ،
"مولوی فضل ربی کے واسطے میرے تعلقات علماء دیوبند کے ساتهہ بنے. دیوبند مدرسے میں اکثریت پشتون طالبان کی تهی تو ہم جب بهی دیوبند جاتے تو پشتون طالبان سے ملنے کے بہانے مدرسے جاتے. ہمارے زیادہ تر صلاح و مشورے دیوبند کے مهتمم مولانا محمودالحسن صاحب اور مولانا عبیدالله سندهی کے ساتهہ ہوتے. ان دنوں انگریزوں کی سی آئی ڈی کا بہت زیادہ رعب اور دبدبہ تها اور لوگوں کے دلوں میں ایک خوف سا ہوتا کیونکہ ان کے مخبروں کا پورے ملک میں ایک جال بچها ہوا تها. دیو بند جاتے ہوئے ہم یہ احتیاط کرتے کہ سیدهے دیوبند نہیں جاتے بلکہ ایک اسٹیشن آگے ریل سے اتر کر پیدل جاتے تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے. اسی طرح مولانا عبیدالله سندهی صاحب سے ملنے جاتے تو پہلے فتحپوری کی جامع مسجد میں نماز ادا کرتے وہیں سندهی صاحب سے ملاقات ہوتی، اس کے بعد وہ چائے کے بہانے ہم کو اپنی جگہ لے جاتے. مولانا سندهی صاحب نے دہلی میں فتحپوری کے جامع مسجد کے قریب ایک جگہ خریدی تهی اور وہاں نوجوانوں کو قرآن مجید کی درس دیتے تهے اور جو نوجوان بی اے پاس ہوتے ان کو ماہانہ پچاس روپے وظیفہ بهی دیتے. اس وقت پچاس روپے بہت زیادہ رقم تهی. سندهی صاحب کا خیال تها کہ وہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں قرآن شریف کے درس کی وجہ سے ان میں حریت اور خدمت کا جذبہ پیدا کر لیں گے لیکن سندهی صاحب اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے. سندهی صاحب صاحب صحیح معنوں میں ایک بڑے عالم تهے ان کی طرح قرآن شریف کو نہ کوئی سمجهتا تها اور نہ ان کی طرح کوئی درس دے سکتاتها لیکن مسلمانوں میں جدوجهد کا مادہ باقی نہیں رہاتها. ورنہ انگریزوں کے اسکولوں میں هندو اور مسلم اکهٹے پڑهتے اور اس تعلیم کا هندووں پر ایک طرح کا اثر ہوتا اور مسلمانوں پر دوسری طرح کا اثر ہوتا. هندووں میں وطن کیلئے قوم پرستی اور خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا اور مسلمان پیار اور خدمت تو دور کی بات اپنے قوم اور ملک تک کو نہیں پہچان سکے. سندهی صاحب کے شاگردوں میں رشید نامی شاگرد جس پر سندهی صاحب کا بہت زیادہ اعتماد اور بهروسہ تها جو بی اے پاس تها اور قرآن شریف کا ترجمہ بهی سندهی صاحب سے پڑھ چکے تهے باوجود ان سب باتوں کے انگریزوں کا مخبر نکلا جو روزانہ سندهی صاحب کے دوستوں ،شاگردوں اور تمام حالات کی ڈائری حکومت کودیتا. جب سندهی صاحب کے شاگرد رشید کا یہ حال ہو تو باقی لوگوں کا کیا کریں گے."
ان سطور کا راقم کون ہے، اس کا علم نہیں البتہ مذکورہ تحریر سے نہ صرف مولانا سندھی رحمہ اللہ کے حالات سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ اس دور کے سیاسی اور معاشرتی ماحول کا بھی ادراک ہوتا ہے.