Wednesday, 28 June 2023
مسلم پرسنل لا بورڈ کے وفد نےشیوسینا UBT کے پرمکھ ادھو ٹھاکرے سے ملاقات کی ـ یونیفارم سول کوڈ اور دیگر مسائل پر گفتگو
Tuesday, 27 June 2023
بچوں کو خوبصورت بنانے ٹوٹکے جو خطرناک ہوسکتے ہیں
Monday, 26 June 2023
منی میں حاجیوں کا برا حال
Tuesday, 20 June 2023
محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟
محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟
20 جون 712 عیسوی کو محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو شکست دے کرسندھ فتح کیا تھا۔ اس موقع کی مناسبت سے یہ تحریر آج دوبارہ شائع کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سندھ کے حکمران راجہ ڈاہر کو جب اموی سالار محمد بن قاسم کے ہاتھوں شکست ہوگئی تو ان کی دو بیٹیوں سوریا اور پریمل کو محمد بن قاسم نے راجہ کی ہلاکت کے بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پاس دارالخلافہ بغداد روانہ کردیا۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب بڑی بیٹی سوریا سے خلوت کا ارادہ کیا تو سوریا نے چال چلی اور خلیفہ سے کہا کہ محمد بن قاسم پہلے ہی ان کے ساتھ خلوت اختیار کر چکا ہے چنانچہ وہ اب خلیفہ کے شایانِ شان نہیں رہیں۔ غصے میں خلیفہ کو تحقیق کا ہوش نہیں رہا اور انھوں نے اسی وقت محمد بن قاسم کے نام پروانہ جاری کیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں خود کو کچی کھال میں سلوا کر دارالخلافہ کو واپس ہوں۔ محمد بن قاسم نے ایسا ہی کیا اور دارالخلافہ کے راستے میں ہی دو دن بعد ان کی موت ہوگئی۔ یہ کہانی کتاب فتح نامہ سندھ عرف چچ نامہ میں بیان کی گئی ہے۔ روایت کے مطابق اس کے بعد راجہ ڈاہر کی بیٹی کا ایک طویل خطاب ہے جس میں وہ محمد بن قاسم کی عادل حکمرانی کی گواہی دیتی ہیں مگر ان کی ہلاکت کی سازش رچنے کو اپنے والد کا بدلہ قرار دیتی ہیں۔اسی خطاب میں وہ محمد بن قاسم کے بارے میں بھی کہتی ہیں کہ انھیں فرمانبرداری میں بھی عقل سے کام لینا چاہئے تھا اور خلیفہ کو بھی کہتی ہیں کہ اسے بھی سنی سنائی بات پر اتنا سخت حکم جاری کرنے سے قبل تحقیق کر لینی چاہئے تھی۔ چچ نامہ کے مطابق راجہ ڈاہر کی بیٹی نے کہا: دانا بادشاہِ وقت پر واجب ہے کہ جو کچھ بھی دوست یا دشمن سے سنے، اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھے اور دل کے فیصلوں سے اس کا موازنہ کرے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ پاک دامنی کے اعتبار سے محمد بن قاسم ہمارے لیے باپ اور بھائی جیسا تھا اور ہم کنیزوں پر اس نے کوئی دست درازی نہیں کی۔ لیکن چونکہ اس نے ہند اور سندھ کے بادشاہ (راجہ داہر) کو برباد کیا تھا اس لیے ہم نے انتقاماً خلیفہ کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔ اس پر خلیفہ نے غضبناک ہوکر دونوں بہنوں کو دیوار میں چن دینے کا حکم دیا۔ بنوامیہ کے دور میں سندھ فتح کرنے والے نوجوان سالار محمد بن قاسم اور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور کی ’مبینہ‘ کنیز انار کلی کی موت کی کہانیوں میں خواتین کے دیوار میں چ±نوائے جانے کی قدر مشترک ہے۔ انار کلی کے بارے میں کہانی یہ منسوب ہے کہ اکبر بادشاہ نے انھیں شہزادہ نور الدین محمد سلیم (بعد میں جہانگیر) سے معاشقے کی وجہ سے دیوار میں چنواکر ہلاک کروا دیا تھا۔ مگر انارکلی کے وجود کے بارے میں ہی مؤرخین کو شبہ ہے اور ان کے بارے میں تاریخی ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔ چنانچہ ان کی موت کی کہانی تو دور کی بات ہے۔ اور محمد بن قاسم اور راجہ داہر کی بیٹیوں کی ہلاکت سے متعلق اس پوری کہانی پر بھی مؤرخین کو اعتراضات ہیں۔
تو پھر محمد بن قاسم کی موت واقعتاً کیسے ہوئی اور مندرجہ بالا واقعے کی تاریخی حقیقت کیا ہے، اس پر بات کریں گے لیکن اس سے پہلے کچھ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد اور فتوحات کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر یہ دیکھیں گے کہ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟ اگر آپ کراچی سے گوادر جانا چاہتے ہیں تو آپ پہلے تو آر سی ڈی ہائی وے پر کوئی دو گھنٹے کی ڈرائیو کریں گے جس کے بعد بائیں جانب مکران کوسٹل ہائی وے کا آغاز ہوتا ہے جو اپنے آپ میں حیرتوں سے بھرپور سڑک ہے۔ یہیں پر تھوڑا آگے جا کر بائیں جانب ایک پتھر کی تختی پر لکھا ہے کہ یہاں فاتحِ سندھ محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی قبریں موجود ہیں۔ نامور مصنف و محقق سلمان رشید کے مطابق یہ قبریں محمد بن قاسم کے ساتھیوں کی نہیں ہیں کیونکہ آٹھویں صدی میں عرب سندھ کے چوکنڈی قبرستان جیسی نقش و نگار سے مزیّن قبریں نہیں بنایا کرتے تھے، اور ویسے بھی قبروں کا یہ طرزِ تعمیر تقریباً سولہویں صدی کا قرار دیا جاتا ہے۔ایک اور تحقیق کے مطابق یہ قبریں اٹھارہویں صدی کے وسط سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کا تذکرہ منان احمد آصف نے اپنی کتاب ’اے بک آف کونکوئسٹ‘ میں بھی کیا ہے۔ مگر پاکستان میں محمد بن قاسم سے متعلق متنازع باتوں میں سے یہ صرف ایک بات ہے۔ مطالعہ پاکستان کی درسی کتب میں اکثر و بیشتر یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسی دن پڑگئی تھی جس دن محمد بن قاسم نے سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ محمد بن قاسم اموی دورِحکومت کے وہ سالار تھے جنھوں نے 712 سنِ عیسوی میں سندھ پر حملہ کیا اور یہاں کے راجہ ڈاہر کو شکست دی۔بعض مورخین کے نزدیک محمد بن قاسم کے آنے سے جنوبی ایشیا میں اسلامی دور کا آغاز ہوا، سندھ فتح ہوا اور یوں واقعات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔
مگر مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل بھی عرب تاجر برِصغیر میں رہائش پذیر تھے اور کچھ کے نزدیک یہاں کی مقامی خواتین سے شادیاں تک کر رہے تھے۔کتاب ’دی گریٹ مغلز اینڈ دیئر انڈیا‘ میں مصنف ڈرک کولیئر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ انڈیا کے جنوب مغرب میں مالابار کے ساحلی علاقے (موجودہ کرناٹک اور کیرالہ) میں عرب تاجر یہاں پہلے سے مقیم تھے اور جب خطہ عرب میں اسلام آیا تو ممکنہ طور پر ان عربوں نے بھی اسلام قبول کیا ہوگا۔ اپنی کتاب کے ابتدائیے میں انھوں نے خطہ برِصغیر میں اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے متعدد نظریات کا ذکر کیا ہے جس میں ہجرت، تلوار، خوف، صوفیا کے عمل اور تبلیغ، سماجی رتبے کے حصول اور پرامن روابط مثلاً تجارت اور باہمی شادیاں شامل ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے (چند) واقعات کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا، تاہم کئی دیگر علاقوں مثلاً مالابار کے ساحلوں میں اسلام کی کامیابی کا تعلق جبر یا مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی برتری سے نہیں تھا۔اس کے علاوہ ان کے نزدیک نئے مذہب کے مضبوط اور مساوات پر مبنی پیغام کا اثر بالخصوص نچلی ذات کے افراد پر ضرور ہوا ہو گا۔چنانچہ وہ اس علاقے میں پہلے سے عربوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے 712 عیسوی میں محمد بن قاسم کی آمد سے کہیں قبل برِصغیر میں اسلام کی آمد کا عرصہ متعین کرتے ہیں۔لہٰذا پاکستان کی درسی ک±تب میں عام طور پر پڑھائے جانے والے بیانیے کے برعکس تاریخی بیانیے بھی موجود ہیں۔
کتاب فتوح البلدان نوویں صدی عیسوی میں عباسی دورِ حکومت میں تحریر کی گئی اور اسے اسلامی فتوحات کی تاریخ کی اہم ترین اور مستند کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں مصنف احمد بن یحییٰ البلاذری نے محمد بن قاسم کی ہلاکت کے بعد کے واقعات خصوصی تفصیل سے بیان کیے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے بہت سے مفتوحہ علاقے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلے، واپس فتح ہوئے، کسی نے واپس اپنا پچھلا مذہب اختیار کر لیا تو کسی نے مسلمانوں سے اپنا معاہدہ توڑ لیا۔پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محمد بن قاسم سے پہلے کوئی مسلمان مہم سندھ میں آئی تھی یا نہیں؟بلاذری کے مطابق خلیفہ دوم عمر بن الخطاب کے دور میں 15 ہجری میں انھوں نے عثمان بن ابوالعاص الثقفی کو بحرین اور عمان پر گورنر مقرر کیا، تو عثمان نے ایک فوج تھانہ (یا تانہ) کی جانب بھیجی۔ اس کے علاوہ اسی کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ عثمان کے بھائی الحکم نے اپنے بھائی المغیرہ ابن ابوالعاصی کو خلیجِ دیبل کی جانب بھیجا جہاں انھوں نے دشمن پر فتح پائی۔فتوح البلدان کا اردو ترجمہ سید ابوالخیر مودودی نے کیا ہے جس میں انھوں نے دیبل کو تو دریائے سندھ کے قریب واقع ایک بڑا تجارتی شہر قرار دیا ہے مگر تھانہ کا تذکرہ نہیں کیا کہ یہ کون سا شہر ہے۔
اس کا تذکرہ ہمیں ابنِ بطوطہ کے سفرنامے میں ملتا ہے جب ا±نھوں نے یمن کی بندرگاہِ عدن کے بارے میں بتایا ہے کہ یہاں انڈیا کے کئی شہروں بشمول ’تھانہ‘ سے بھی جہاز آتے ہیں۔چنانچہ یہ شہر ’تانہ‘ انڈین ریاست مہاراشٹر کا شہر تھانے یا تھانہ ہے جو ممبئی کا پڑوسی شہر ہے اور یہاں تک وسائی کھاڑی (ندی) کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے جو اس شہر کو ساحل سے کافی دور ہونے کے باوجود بحیرہ عرب سے ملا دیتی ہے۔
خطہ سندھ اور بلوچستان میں اوّلین اسلامی مہمات
موجودہ پاکستان کے دیگر خطوں میں محمد بن قاسم سے پہلے مسلمانوں کی آمد کے بارے میں ایک اور روایت فتوح البلدان سے ہی ملتی ہے جس کے مطابق سنہ 38 یا سنہ 39 ہجری میں حضرت علی کے دور میں اور پھر سنہ 44 ہجری میں امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں قیقان (موجودہ قلات) اور بنہ (موجودہ بنوں) پر حملے کیے گئے۔اگر محمد بن قاسم کی سندھ پر لشکر کشی پہلی فوجی مہم نہیں تھی اور اس سے قبل بھی اس علاقے پر حملے کیے جاتے رہے تھے تو پھر اس واقعے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جس کے مطابق عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے ایک مظلوم عورت کی پکار پر محمد بن قاسم کو سندھ کی جانب بھیجا؟یہ کہانی بھی چچ نامہ میں کافی تفصیل سے موجود ہے۔چچ نامہ یا فتح نامہ سندھ، خطہ سندھ کی فتح پر لکھی گئی پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے کیونکہ اس سے قبل مو¿رخین نے سندھ اور ہند کی فتح پر باب تو باندھے ہیں لیکن مکمل کتابی صورت میں صرف چچ نامہ ہی ملتی ہے۔
چچ نامہ تیرہویں صدی میں علی کوفی کی فارسی میں ترجمہ کردہ کتاب ہے جو ان کے مطابق انھوں نے ایک عربی کتاب سے فارسی میں منتقل کی، تاہم وہ عربی کتاب اب تک باقاعدہ دریافت نہیں ہو سکی ہے نہ ہی اس حوالے سے معلومات ہیں کہ وہ کس کی تصنیف تھی۔ تاہم اس کتاب میں موجود روایات اور تاریخی حوالوں کو محققین پرکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ چچ نامہ میں بیان کئے گئے دیگر واقعات کے برعکس مسلمان قیدیوں کے بارے میں تحریر اس واقعے کی شروعات میں اس کی سند موجود نہیں ہے۔مایہ ناز مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی اور محقق و مصنف منان احمد آصف کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ درست نہیں ہے۔اس کے علاوہ تاریخ ابنِ خلدون میں بھی دیبل کی فتح کے باب میں اس واقعے کا تذکرہ نہیں ہے۔مذکورہ واقعے کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ حجاج کے گورنر محمد بن ہارون بن ذراع النمری کے دور میں پیش آیا تاہم بلاذری اور چچ نامہ، دونوں ہی نے وہ سال نہیں لکھا جب یہ واقعہ پیش آیا۔محمد بن ہارون النمری کا تقرر چچ نامہ کے مطابق سنہ 86 ہجری میں ہوا اور محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ 93 ہجری یا 712 عیسوی میں ہوا۔ اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تو کس سال میں ہوا اور یہ کہ اس واقعے کے کتنے عرصے بعد محمد بن قاسم نے سندھ پر لشکر کشی کی۔اس کے علاوہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے لے کر ولید بن عبدالملک کے دور تک کا جائزہ لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ سندھ پر محمد بن قاسم کی لشکر کشی کئی دہائیوں طویل سلسلے میں تازہ ترین کوشش تھی جس میں انھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ پھر تاریخ کی کتب میں یہ بھی تذکرہ ہے کہ اس وقت علافی یا علوی گروہ کے کئی لوگ مکران میں آ بسے تھے۔ ا±ن میں سے ایک کو حجاج کے عملدار سعید بن اسلم کلابی نے قتل کیا تھا، چنانچہ بدلے میں علافیوں نے بھی سعید بن اسلم کو قتل کردیا، جس پر حجاج بن یوسف نے علافیوں کی سرکوبی کا فیصلہ کیا تھا۔
جب خلافتِ اموی کی طرف سے مکران میں بسے ان علافیوں کیخلاف بار بار مہمات کی گئیں تو یہ لوگ سندھ میں راجہ ڈاہر کے پاس چلے گئے چنانچہ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ خود حجاج بن یوسف کے دور میں مکران اور سندھ کی طرف بنو ا±میہ کے مخالفین موجود تھے۔اس کے علاوہ سندھ کی فتح کی اس مہم پر بلاذری کے مطابق چھ کروڑ درہم خرچ ہوئے اور اس کے بدلے میں 12 کروڑ درہم کا مالِ غنیمت حاصل ہوا۔چنانچہ منان احمد آصف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’جب السند (سندھ) پر حملہ ہوا تو اس کا تعلق بنو امیہ کی شاخِ مروان کے مالیاتی امور یا باغیوں کیخلاف سرحدی خطے پر قبضے سے تھا، نہ کہ قزاقوں کی کسی رومانوی داستان سے۔‘چچ نامہ میں کہا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی ہلاکت راجہ ڈاہر کی دو بیٹیوں کی سازش کی وجہ سے ہوئی مگر اس حوالے سے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کا دعویٰ ہے کہ یہ کہانی من گھڑت اور افسانوی ہے۔سندھ کے معروف محقق اور دانشور ڈاکٹر نبی بخش خان (این اے) بلوچ نے چچ نامہ کی صحت اور اس میں موجود تاریخی حوالوں کے بارے میں جرح کی ہے۔ڈاکٹر این اے بلوچ کا چچ نامہ پر تحریر کیا گیا مقدمہ بھی اپنے آپ میں ایک پوری کتاب ہے جس میں ا±نھوں نے محمد بن قاسم کی ہلاکت اور پھر راجہ ڈاہر کی بیٹیوں کے بغداد کی کسی دیوار میں چ±ن دیے جانے کی کہانی کو کہانی ہی قرار دیا ہے، حقیقت نہیں۔سب سے پہلے تو اس کہانی کے مطابق خلیفہ نے محمد بن قاسم کو دارالخلافہ بغداد بلوایا۔ حالانکہ ا±س زمانے میں بغداد کا وجود نہیں تھا، بلکہ دارالخلافہ دمشق تھا۔اس کے بعد اس میں لکھا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی موت خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم پر ہوئی تاہم بلاذری اور دیگر مؤرخین کے مطابق یہ واقعہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں پیش آیا۔
بلاذری کے مطابق ولید بن عبدالملک کی موت کے بعد سلیمان بن عبدالملک حکمران ہوئے تو انھوں نے صالح بن عبدالرحمان کو عراق کا والی اور یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا عملدار مقرر کیا۔یزید نے محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے صالح کے پاس عراق بھیج دیا جہاں انھیں حجاج بن یوسف کے سابقہ انتظامی ہیڈکوارٹر واسط کے ایک عقوبت خانے میں قید کرکے ایذا رسانیاں کی گئیں اور وہ ہلاک ہوگئے۔ اسی بیان کی تصدیق تاریخ ابنِ خلدون سے بھی ہوتی ہے۔ فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ جب محمد بن قاسم قید میں تھے تو انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر یہ اشعار کہے:
ہر چند کہ میں واسط میں بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہوں
مگر کبھی میں نے ایران کے کتنے ہی شہ سوار زیر کئے
اور اپنے جیسے کتنے ہی پہلوانوں کو پچھاڑا ہے
ایک اور شعر جو محمد بن قاسم سے منسوب کیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے:
انھوں نے مجھے ضائع کردیا، جوان بھی ایسا کہ مردِنبرد اور سرحد کا محافظ تھا۔
چنانچہ محمد بن قاسم کی معزولی اور ہلاکت سے اس دور میں ہونے والی سیاسی سازشیں اور آپسی دشمنیاں بھرپور انداز میں عیاں ہوجاتی ہیں۔
(بقلم:بلال کریم مغل) (#ایس_اے_ساگر)
محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی ’مبینہ‘ قبریں بلوچستان میں
Monday, 19 June 2023
کیا آپ کا فون بھی پھٹ سکتا ہے؟
کیا آپ کا فون بھی پھٹ سکتا ہے؟
اس کا مختصر جواب "ہاں" ہے، کیونکہ فون پھٹنے کے بہت سے واقعات ہیں، وہ کون سی وجوہات ہیں جو آپ کے فون کو پھٹنے پر مجبور کرسکتے ہیں. مثال کے طور پر:
• ہارڈ ویئر کے مسائل: سب سے اہم وجوہات جو فون کو پھٹا سکتی ہیں وہ ہیں فون کے اندرونی ہارڈ ویئر خصوصا the بیٹری کے مسائل ، اور یہ پریشانی عام طور پر مینوفیکچرنگ پریشانیوں یا غلط استعمال کی ہوتی ہیں۔
• فون سے زیادہ گرمی: ایپل نے نوٹ کیا آئی فون کا درجہ حرارت کسی بھی صورت میں 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اس طرح سے زیادہ درجہ حرارت ایسی چیز ہے جو فون کے اندرونی ساخت کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور اس طرح اسے جلاسکتے ہیں لیکن فون اس معاملے میں آپ کو الرٹ ونڈو دکھائے گا۔ اس کے علاوہ، اگر آپ گرم آب و ہوا میں رہتے ہیں تو مناسب مواد سے تیار کردہ کور کو ضرور استعمال کریں جس سے فون کو ہوا گردش کرنے کا موقع مل سکے۔
• سستے لوازمات استعمال کریں. سستے یا کم معیار کے لوازمات کا استعمال کرنا یا یہاں تک کہ وہ فون کے لئے براہ راست ارادہ نہیں رکھتے ہیں جو عام طور پر فون کی کارکردگی کو خراب کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے ، لیکن ایسی عادت فون کے پھٹنے یا جلانے میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ ....
فون گرم کیوں ہوتا ہے اور اسے ٹھنڈا کیسے رکھا جائے؟
آپ اپنے لنچ بریک پر باہر بیٹھے ہیں اور آپ کا فون پر آپ کو اوور ہیٹ یا گرم ہونے اور صحیح طریقے سے کام نہ کر سکنے کا پیغام ملتا ہے۔ ایسے میں آپ ٹک ٹاک یا اپنے دوستوں سے بات کرنے کے لئے فون کیسے استعمال کریں گے؟
برطانیہ سمیت دنیا بھر میں جاری حالیہ ہیٹ ویو نہ صرف انسانوں بلکہ ان کے الیکٹرونک آلات کو بھی متاثر کررہی ہے۔
انسانوں کے برعکس، فونز کو پسینہ نہیں آتا۔ یہ انھیں ہاتھ میں پکڑنے والوں کے لئے اچھا ہے لیکن ہمارے ہینڈ سیٹس کے لئے اچھا نہیں ہے۔ تو ہمارے الیکٹرونکس آلات گرمی میں کیوں گرم ہوجاتے ہیں اور ہم اس بارے میں کیا کرسکتے ہیں؟
جیسے ہی فون گرم ہوتا ہے اس کا پروسیسر سست پڑجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم شدید گرمی میں ایک ہی رفتار سے کام کرنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں، فون کے پروسیسر کے لیے بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہو سکتا ہے۔
فون پروسیسر دراصل فون میں موجود ایک چپ ہے جو اس کے اہم فنکشنز کے لیے ذمہ دار ہے۔
لیڈز بیکٹ یونیورسٹی میں الیکٹرانک اور الیکٹریکل انجینئرنگ کی ایک سینئر لیکچرر ڈاکٹر روز وائٹ ملنگٹن کہتی ہیں کہ ’اندرونی چیزیں جو حقیقت میں یہ سب کام کرتی ہیں، بدقسمتی سے، وہ خود اپنے کام کرنے کے طریقے سے حرارت پیدا کرتی ہیں۔‘
’اور جیسے جیسے یہ ڈیوائسز فونز کے لیے زیادہ گرم ہوتی جاتی ہیں، پروسیسر خود کو زیادہ گرم ہونے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں سب کچھ سست ہو جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر روز کا کہنا ہے کہ الیکٹرانکس کو عام طور پر 35 سینٹی گریڈ تک کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بیٹریاں توانائی ذخیرہ کرتی ہیں اور انھیں مخصوص درجہ حرارت پر کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
’وہ جتنی گرم ہوتی ہیں، ان کے لئے کام کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے اور وہ اتنی ہی زیادہ توانائی استعمال کرتی ہیں۔‘
جس کا مطلب ہے کہ بیٹری زیادہ تیزی سے ختم ہو گی کیونکہ اسے ٹھنڈا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر روز کہتی ہیں کہ جب ہم باہر دھوپ میں ہوتے ہیں تو ہم اکثر سکرین کی روشنی کو بڑھا دیتے ہیں، اس کا اثر بھی بیٹری جلد ختم ہونے پر ہوسکتا ہے۔
’وہ اپنی حالت کی نگرانی کے لئے بھی توانائی کا استعمال کرتی ہیں اور اس لیے بنیادی طور پر انھیں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔
اگر آپ نے اپنے فون کی سکرین پر کوئی معمولی سے تبدیلی محسوس کی ہے تو ایسا گرمی کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر روز کہتی ہیں کہ ’اگر یہ پرانا فون ہے اور اگر اس میں کوئی معمولی خرابی ہے، تو گرمی اس کو بڑھا دے گی۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ اسکرین پروٹیکٹر اکثر اپنے اندر زیادہ گرمی رکھ سکتے ہیں، جو کہ گرم حالات میں اچھا نہیں ہوتا۔
فون کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟
ڈاکٹر روز کہتی ہیں کہ ’جب آپ اپنی بیٹری چارج کررہے ہوتے ہیں تو ایسے میں اگر واقعی گرمی ہے تو آپ مزید حرارت پیدا کررہے ہوتے ہیں۔ جب آپ کا فون چارج ہوتا ہے تو یہ زیادہ گرم ہوجاتا ہے۔‘
اسے دھیان سے رکھیں:
وہ کہتی ہیں کہ ’اسے براہ راست سورج کی روشنی سے دور رکھنے سے مدد مل سکتی ہے۔ اسے اپنی کار میں مت چھوڑیں، جتنا ہوسکے تو سائے میں رکھیں۔ اگر ہوسکے تو اسے پنکھے کے سامنے رکھیں۔‘
اسے ہلکا رکھیں:
یہ بات یہ فون کے اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر لاگو ہوتی ہے۔ اگر آپ نے اسے کسی کیس میں رکھا ہے تو اس سے باہر نکالیں اور ان تمام فنکشنز کو بند کر دیں جن کی آپ کو ضرورت نہیں ہے۔
ڈکٹر روز کہتی ہیں کہ ’اگر آپ جی پی ایس استعمال نہیں کررہے ہیں، اگر آپ چیزیں استعمال نہیں کررہے ہیں، تو اسے بند کردیں۔ کیونکہ آپ جتنی کم چیزیں استعمال کریں گے، آپ جتنی کم توانائی استعمال کریں گے، اتنی ہی کم گرمی پیدا ہو گی۔‘
کم پاور موڈ
آپ جتنی کم پاور استعمال کریں گے، آپ کا فون اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ’کبھی کبھی اگر آپ کا فون واقعی مشکل میں ہے تو اسے چند منٹ کے لیے بند کر دیں اور اسے ٹھنڈا ہونے دیں اور پھر اسے دوبارہ آن کریں۔‘
لیکن اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے فریج یا فریزر کا استعمال نہ کریں۔۔۔ ’اسے برف کے تھیلے میں نہ رکھیں، کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘
درجہ حرارت میں تیزی سے تبدیلیاں فون کے لئے واقعی خراب ثابت ہوسکتی ہیں اور برف سے اس میں پانی کے گھس جانے کا باعث بن سکتی ہے۔
ڈاکٹر روز کا کہنا ہے کہ فون میں زیادہ گرمی کے میکانزم بنائے گئے ہیں تاکہ انھیں ’خود کو تباہ کرنے سے روکا جا سکے، جو کہ واقعی گرمی میں ہو سکتا ہے۔‘
(بشکریہ: منیش پانڈے) (عہدہ بی بی سی نیوز بیٹ)
(18 جون 2023) ( اضافہ و تدوین: #ایس_اے_ساگر )
Wednesday, 14 June 2023
موبائل فون کے آداب و احکام
بوڑھی راہباؤں کے پیشاب سے بنی دوا، جس سے سینکڑوں بانجھ افراد نے اولاد پائی
بوڑھی
راہباؤں کے پیشاب سے بنی دوا،
جس سے سینکڑوں بانجھ افراد نے اولاد پائی
کہا جاتا ہے کہ پچھلے پچاس ساٹھ سال میں دنیا بھر میں لاکھوں گودیں اٹلی کی بوڑھی راہباؤں کے باعث ہری ہو چکی ہیں، ان کی دعا سے، ان کے پیشاب سے بننے والی دوا سے۔ دعا تو راہبائیں کرتی ہی ہیں لیکن دوا کی کہانی کیا ہے، جاننے کے لیے چلتے ہیں 1940 کی دہائی میں۔ ان برسوں میں اطالوی سائنس دان پایرو ڈونینی نے یہ دریافت کیا کہ مختصر طور پر ’ایل ایچ‘ اور ’ایف ایس ایچ‘ کہلانے والے دو ہارمون خواتین کی بیضہ دانی یا اووری سے انڈوں کو نکلنے اور یوں ان کے حاملہ ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ سنہ 1940 کی دہائی میں انھوں نے ان ہی دو ہارمونز کے لئے سینکڑوں خواتین کے پیشاب کی جانچ کی اور جانا کہ یہ ایسی خواتین میں زیادہ تھے جن کی ماہواری رُک چکی تھی۔
ماہواری رکنے یا مینوپاز کے بعد، جب بیضہ دانی انڈے پیدا کرنا بند کردیتی ہے، تو ایل ایچ اور ایف ایس ایچ بڑھ جاتے ہیں کیونکہ جسم ان کی پیداوار کو متحرک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے ڈونینی نے یہ طے کیا کہ ایسی خواتین سے ان ہارمونز کا حصول کہ جن کی ماہواری رک چکی ہو، بانجھ خواتین کے لئے مددگار ہوسکتا ہے۔
اس تولیدی حقیقت کا پتہ کیسے چلا؟
ڈونینی نے پیشاب کے کچھ ایسے نمونوں سے ہارمونز الگ کر کے بنائی ترکیب کو ’پرگونال‘ کا نام دیا۔ اطالوی زبان میں اس کا مطلب ہے ’گوناڈز میں سے‘ (گوناڈز بیضہ دانی اور خصیے ہیں)۔
ڈونینی کے پاس دوا کا نسخہ تو تھا اور انھیں یقین بھی تھا کہ پرگونال حمل میں مددگار ہوگی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اسے بڑی مقدار میں تیار کہاں کیا جائے اور ہارمونز الگ کرنے کے لئے درکار پیشاب کی اتنی زیادہ مقدار کہاں سے حاصل کی جائے۔ اسی الجھن میں کم و بیش دس سال گزرگئے۔ اولیور سٹیلے کی تحقیق ہے کہ ایک دہائی بعد بانجھ پن پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے ڈونینی کے کام کے بارے میں سنا۔ سنہ 1996 میں شائع ہونے والی کتاب ’اے ٹیل آف ٹو ہارمونز‘ کے مطابق اس دریافت کا پتہ دیتا ان کا مقالہ اس پیشرفت تک گمنامی ہی میں تھا۔ سٹیلے نے لکھا ہے کہ ’ڈونینی سے جنیوا میں کام کرنے والے میڈیکل کے طالب علم برونو لونن فیلڈ نے رابطہ کیا جو حمل کو متحرک کرنے کے لئے انسانی ہارمونز کے استعمال پر تحقیق کر رہے تھے۔ آسٹریا کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھنے والے لونن فیلڈ، ہولوکاسٹ میں یہودیوں کی آبادی بہت کم ہونے کے بعد ان میں شرح پیدائش بڑھانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
’لونن فیلڈ نے کلینیکل ٹرائل کے لئے کافی مقدار میں دوا تیار کرنے کے لئے دواساز کمپنی سیرونو کے ایگزیکٹوز کے سامنے اپنا کیس پیش کیا لیکن اس دوا کے لئے مینوپاز والی خواتین سے ہزاروں گیلن پیشاب کی ضرورت تھی۔ نوجوان لونن فیلڈ دوا کے لئے لابی کرنے سیرونو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے ملے۔‘
لونن فیلڈ نے بعد میں اسرائیلی اخبار ہارٹز کو بتایا کہ ’میں ان کے سامنے ایک بچہ ہی تو تھا۔ میں نے اس دریافت کے بارے میں بات کرنے کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز سے درخواست کی کہ وہ روزانہ اپنا پیشاب جمع کرنے پر راضی مینوپاز والی چار سوخواتین کی تلاش میں مدد کریں۔ میں نے اپنی بات ختم کی، سب نے شائستگی سے تالیاں بجائیں اور پھر بورڈ کے چیئرمین کھڑے ہوئے اور کہا کہ بہت اچھا، لیکن ہم دوا کی فیکٹری ہیں، نہ کہ پیشاب کی فیکٹری۔ میں روتے ہوئے باہر بھاگا۔‘
تاہم سیرونوکے ایک ایگزیکٹو نے انھیں اطالوی اشرافیہ اور پوپ پیوس کے بھتیجے گیولیو پیسیلی سے متعارف کرایا۔ پیسلی سیرونو بورڈ کے رکن بھی تھے۔ پیسیلی نے لونن فیلڈ کے کام میں دلچسپی لی اور بہت سی ملاقاتوں کے بعد، لونن فیلڈ کے ساتھ بورڈ آف ڈائریکٹرز سے بات کرنے پہنچے۔
’پیسیلی نے بالکل وہی تقریر کی جو میں نے 10 دن پہلےکی تھی لیکن آخر میں انھوں نے ایک جملے کا اضافہ کیا: میرے چچا پوپ پیوس نے ہماری مدد کرتے ہوئے اولڈ ایج ہومز میں راہباؤں کو اس مقدس مقصد کے لئے روزانہ پیشاب جمع کرنے کے لئے کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یقیناً اس جملے نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو فوری طور پر پیسے اور وسائل کے ساتھ ہمارے تحقیقی منصوبے کی مدد کے لئے قائل کیا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ ویٹیکن کے پاس سیرونو کے 25 فیصد حصص ہیں۔‘
دس راہبائیں، دس دن ،ایک علاج:
جلد ہی ٹینکر ٹرک اٹلی بھر میں کیتھولک ریٹائرمنٹ ہومز سے سیکڑوں راہباؤں کا پیشاب روم میں سیرونو کے ہیڈ کوارٹر لے جانے لگے۔ ایک علاج کے لئے کافی پیشاب پیدا کرنے میں تقریباً دس راہباؤں کو دس دن لگتے۔
سنہ 1962 میں تل ابیب میں پرگونال کے علاج سے ایک خاتون نے ایک بچی کو جنم دیا۔ پرگونل کی خوراک پٹھوں میں ٹیکے کے ذریعہ دی جاتی۔ یہ اس علاج سے پیدا ہونے والا پہلا بچہ تھا۔ دو سال کے اندر اندر، پرگونال کےعلاج سے مزید 20 حمل ٹھہرے۔ یکم اکتوبر 1964 کو نیویارک ٹائمز کی خبر تھی کہ پرگونال کی امریکی تقسیم کار لیبارٹریز نے ایک انتباہ جاری کیا ہے کہ پرگونل صرف تحقیقی استعمال کے لئے ہے۔ اسی خبر میں تھا کہ کوئینز اور سویڈن میں دوا کے استعمال کے بعد چار چار بچوں کی پیدائش ہوئی۔ ستر کی دہائی کے آغاز سے امریکی خواتین بھی باقاعدگی سے یہ دوا استعمال کرنے لگیں۔ ٹائمز ہی کی ایک اور خبر کے مطابق کچھ ہی عرصے میں امریکہ میں سالانہ تقریباً دو لاکھ خواتین حمل کی دوا لے رہی تھیں۔ ان میں سے تقریباً 9,000 ایسی تھیں جن کا علاج پرگونال سے ہورہا تھا، جس پر ڈاکٹروں کی فیس اور کلینک کے اخراجات سمیت تقریباً 10,000 ڈالر خرچ ہوتے تھے۔
مردوں کے لئے دوا کی منظوری:
ٹائمز ہی کی 21 جنوری 1982 کی خبر تھی کہ بانجھ خواتین کی مدد کے لئے 10 سال سے استعمال ہونے والی ہارمونل دوا پرگونال کو گذشتہ روز فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے زرخیزی کے مسائل والے مردوں کے استعمال کے لیے بھی منظور کرلیا ہے۔ 'اس حالت میں مبتلا مردوں میں پٹیوٹری غدود یا گلینڈ کے دو ضروری ہارمونز، ایل ایچ یا ایف ایس ایچ، یا دونوں میں سے کسی ایک کے اخراج میں ناکامی سے اسپرم کی پیداوار رک جاتی ہے۔‘
’فارماسیوٹیکل ریسرچ فار اسیرونو کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رسل ڈبلیو پیلہم کا اندازہ ہے کہ 10,000 سے 50,000 مرد اس دوا کے علاج کے امیدوار ہیں۔‘اخبار نے لکھا کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈویلپمینٹ کے سینیئر تحقیق کار ڈاکٹر رچرڈ شیرنس نے 12 سال تک مردوں پر پرگونل کے اثرات کا مطالعہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ مریضوں میں چھ سے نو ماہ کے اندر اس کا اثر ہوتا ہے جبکہ کچھ کو کئی سال تک علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
’اٹھارہ دیگر ممالک پہلے ہی مردوں کے لئے پرگونل کے استعمال کی منظوری دے چکے ہیں اور اسے کم از کم سات مزید ممالک میں مرد استعمال کرتے ہیں۔‘ ڈاکٹر پیلہم کے مطابق مردوں کے علاج سے زیادہ تعداد میں بچوں کی پیدائش کا واقعہ نہیں ہوا اور نہ ہی مضر اثرات سامنے آئے۔ سنہ 1980 کی دہائی کے وسط تک مانگ اتنی بڑھ گئی کہ سیرونو کو دوا کی کافی مقدار بنانے کے لئے ایک دن میں 30،000 لیٹر پیشاب کی ضرورت پڑتی۔
ایک بار میں کئی بچے:
پرگونال نے ایک وقت میں ایک سے زیادہ بچوں کی پیدائش کے لئے بھی شہرت پائی۔ مئی 1985 میں کیلیفورنیا میں ایک جوڑے کے ہاں سات بچے پیدا ہوئے تو انھوں نے فرٹیلٹی کلینک کے خلاف یہ کہہ کر مقدمہ دائر کر دیا کہ انھوں نے دوا کے استعمال کو صحیح مانیٹر نہیں کیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق بچوں کے والد سیموئیل فرسٹاسی نے کہا کہ ’ہم کوئی ریکارڈ بنانے نہیں نکلے تھے۔‘ پھر تحقیق اور دوا کا استعمال بہتر ہونے سے ایک سے زیادہ پیدائشوں میں کمی آتی گئی۔ ٹائمز سے بات کرتے ہوئے سیرونو لیبارٹریز کے صدر ڈاکٹر جیرالڈ ای سٹائلز کا کہنا تھا کہ ’پرگونال لینے والی خواتین میں سے 80 فیصد کے ہاں ایک ایک بچہ پیدا ہوا اور 15 فیصد کے ہاں جڑواں بچے۔‘ سنہ 1991 میں اسی جوڑے کے ہاں اسی دوا کی مدد سے جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ پیدائش کا اعلان ان کے وکیل براؤن گرین نے کیا۔ گرین وہی وکیل ہیں جنھوں نے سات بچوں کی پیدائش پر اس جوڑے کا 2.7 ملین ڈالر ہرجانے کا مقدمہ لڑا اور جیتا تھا تاہم سنہ 1990 میں جولائی میں تصفیہ کے اعلان کے فوراً بعد یہ معلوم ہوا کہ پیٹی فرسٹاسی نے دوبارہ حاملہ ہونے کے لیے پرگونال کا استعمال کیا۔ چھ سال پہلے قبل از وقت پیدا ہونے والے چار لڑکوں اور تین لڑکیوں میں صرف تین بچے ہی زندہ بچ سکے تھے اور ہر ایک کو طبی اور نشوونما کے مسائل کا سامنا تھا۔ لیکن گرین نے جڑواں بچوں کے بارے میں بتایا کہ ’وہ صحت مند ہیں۔ انھوں نے لڑکے کا نام بھی میرے نام پر رکھا ہے، جو اعزاز کی بات ہے۔‘ دوا کی ضرورت کے مقابلے میں پیشاب کی مقدار کے ناکافی ہونے پر کمپنی نے لیبارٹری میں ہارمونز بنانا شروع کر دیے۔ اس کے نتیجے میں تیار ہونے والا علاج، گونال-ایف کے نام سے پہلی بار 1995 میں منظور کیا گیا۔ سیرونو کو مرک نے سنہ 2007 میں خرید لیا۔ یہ آج بھی اس دوا کی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہے تاہم چونکہ ہارمونز اب لیبارٹری میں تیار کرلئے جاتے ہیں اس لیے دوا بنانے کے لیے بوڑھی راہباؤں کے پیشاب کی ضرورت نہیں رہی۔
(مصنف: وقار مصطفیٰ. عہدہ, صحافی، محقق. 14 جون 2023) ( #ایس_اے_ساگر )
Tuesday, 13 June 2023
قرآن و حدیث سے فرائض غسل کی دلیل
قرآن و حدیث سے فرائض غسل کی دلیل
محمد مدثر مونگیری
الجواب وباللہ التوفیق:
و فرض الغسل، المضمضة، والاستنشاق، وغسل سائرالبدن) وعندالشافعی ھماسنتان فیہ،لقولہ علیہ السلام:عشرمن الفطرة،ای من السنةوذکرمنھا المضمضة، و الاستنشاق، و لھذا کانا سنتین فی الوضوئ۔ (الھدایہ مع الدرایہ صفحہ 30)
حدیث میں ہے عن علی قال ان رسول اللہ ۖ قال من ترک موضع شعرہ من جنابة لم یغسلھافعل بھا کذا کذا من النار(ابو داؤد شریف، باب فی الغسل من الجنابة ص ٣٨ نمبر ٢٤٩)
معلوم ہوا کہ ایک بال برابر بھی غسل میں خشک رہ جائے تو غسل نہیں ہوگا اسی لئے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے۔ عن ابی ھریرة ان النبی ۖ جعل المضمضة والاستنشاق للجنب ثلاثا فریضة (سنن دار قطنی، باب ما روی فی مضمضة والاستنشاق فی غسل الجنابة ج اول ص ١٢١ نمبر ٤٠٣)
اس حدیث میں ہے کہ جنبی پر کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض ہے.
٢: ولنا قولہ تعالیٰ و ان کنتم جنباً فاطھروا امر بالاطھار وھو تطھیرجمیع البدن الا ان ما تعذر ایصال الماء الیہ خارج ٣ بخلاف الوضوء لان الواجب فیہ غسل الوجہ، و المواجھة فیھما منعدمة
٤ والمراد بما روی حالة الحدث بدلیل قولہ علیہ السلام انھما فرضان فی الجنابة سنتان فی الوضوئ۔
ترجمہ: ٢ اور ہماری دلیل اللہ تعالی کا قول ہے:
وان کنتم جنباً فاطّھروا۔ (آیت ٦ سورة المائدة ٥) میں خوب خوب پاک کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ اسی صور ت میں ہو سکتا ہے کہ تمام بدن کو پاک کرے مگر جہاں پانی پہنچانا مشکل ہو وہ جگہ اس سے خارج ہے.
تشریح: آیت میں، فاطھّروا، تشدید کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے کہ خو ب خوب پاک کرو یعنی جہاں جہاں انگلی پہنچ سکتی ہووہاں تک دھوؤ اور ناک اور منہ میں آسانی سے پانی جاسکتا ہے اسلئے ان دونوں کوبھی ا یت کی بناء پر دھونا فرض ہوگا۔ البتہ جہاں پانی پہنچانا مشکل ہے جیسے ناک کے نرمے سے بھی اوپر، یا کان کے سوراخ کے اندرونی حصے میں تو وہاں پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ تکلیف مالا یطاق ہے. اور آیت میں ہے.
"لا یکلف اللہ نفسا ً الا وسعھا" (آیت ٢٨٦ سورة البقرة ٢)
کہ وسعت سے زیادہ اللہ تکلیف نہیں دیتے۔ احناف کے نزدیک نام اور منہ ظاہر بدن میں شامل ہے لہذا "فاطھروا" کے عموم میں وہ بھی داخل ہونگے اور ان کا دھونا بھی غسل جنابت میں فرض ہوگا۔اس کی تائید مختلف حدیثوں سے بھی ہوتی ہے۔ یہی مذھب مالکیہ اور حنابلہ کا بھی ہے۔ صرف سیدنا الامام الشافعی کا اس میں اختلاف یے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی ( #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2023/06/blog-post_13.html