خودکشی کے اس واقعہ نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا
بقلم: محمد قمر الزماں ندوی
گزشتہ روز یعنی 27 (ستائیس) اگست 2022 کو مرادآباد ریلوے اسٹیشن پر مولوی صادق سنبھلی نے ٹرین کے آگے کود کر خودکشی کرلی، اس خبر کے عام ہوتے ہی سوشل میڈیا پر طوفان مچ گیا، چہ جائیکہ اس عمل کی شناعت بیان کی جاتی، اسباب و عوامل پر غور کیا جاتا، اصل واقعہ کے تہہ تک پہنچا جاتا، ساری ہمدری صرف مولوی صادق مرحوم کے ساتھ دکھانا شروع کردیا اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جانے لگی کہ مدرسہ اور مسجد کے ناگفتہ حالات اور معاش سے تنگ آکر اس بیچارے نے اپنی جان گنوا دی، اس میں اس کا کیا قصور ہے؟ خود کشی کی شناعت اور اس فعل کے حرام ہونے کا ذکر ہی نہیں کیا۔۔۔۔۔۔
سارا الزام اور قصور مدرسہ اور مسجد کے ذمہ داران پر تھوپنا شروع کردیا اور منتظمین مدرسہ کو اس واقعہ کا ذمہ دار اور وجہ قرار دیا گیا، یقینا مدارس کے نظام میں کمیاں اور خامیاں ہیں، اساتذہ کی تنخواہیں اس ہوش ربا گرانی میں بہت کم ہیں، ان کے مسائل کے انبار ہیں، (اس پر مستزاد یہ کہ کچھ ذمہ داران مدارس کے آس پاس بعض ایسے گھاگ قسم کے اساتذہ ہالہ بنائیں رہتے ہیں، جو ساری عنایات و توجہات اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور دوسروں کو ہمیشہ محروم کئے رہتے ہیں، اساتذہ کے عزل و نصب میں یہ بری طرح دخیل ہوتے ہیں، بعض جگہ اساتذہ کو اتنا بدلا اور ہٹایا جاتا ہے، جیسے عرب کے لوگ باندی بدلتے رہتے تھے)
یقیناً مدارس کے اساتذہ کیلئے دقتیں اور پریشانیاں ہیں،ان کی خواہشات تو دور کی بات ہے، ان کی بنیادی ضرورتیں بھی اس تنخواہ سے پوری نہیں ہوپاتیں، اس لئے ذمہ داران مدارس کو عمارتوں کی تعمیرات سے زیادہ اساتذہ کے مسائل اور ان کی ضروریات پر توجہ دینی چاہئے۔ لیکن اساتذہ کی بھی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ اپنے اندر صبر، شکر پیدا کریں۔ اعتماد، بھروسہ، ہمت، حوصلہ اپنے اندر پیدا کریں، اور خدا کی ذات پر توکل اور یقین رکھیں، بے صبری، بے اعتمادی اور حالات سے بہت جلد متاثر اور مرعوب اور گھبرا کر ایسا کوئی فیصلہ نہ کریں جو شریعت کی نگاہ میں سنگین گناہ اور بہت بڑا جرم ہے اور جس کی معافی بھی نہیں ہے۔
کل کے اس اندوہناک واقعہ کے تمام پہلو پر نظر ڈالنے اور غور و فکر کے بعد راقم اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اس واقعہ میں ادارہ کے ذمہ داران اور مسجد کے متولی اور مصلیان کو موردالزام ٹہرانا درست نہیں ہے، مولوی صاحب ذہنی و اعصابی کشیدگی اور یاسیت کے شکار تھے، مالی دشواری اور دقت و پریشانی اس واقعہ کا سبب کم ہے، مسجد اور مدرسہ اور دیگر ذرائع سے اس کی ماہنامہ آمدنی بائیس سے چوبیس ہزار تھی، جس سے ایک متوسط فیملی کا گزربسر آسانی سے ہوسکتا ہے، معتبر ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرحوم کے برادران بنسبت ان کے زیادہ خوشحال اور متمول تھے، وہ لوگ بھی ان کی دامے درمے تعاون کرتے رہتے تھے۔ لیکن خواہشات کی تو کوئی انتہا نہیں ہے، اگر لاکھوں تنخواہ مل جائے اور خرچ میں توازن اور اعتدال نہ ہو تو نصف مہینہ نہیں گزر پائے گا کہ اس کا ہاتھ خالی ہوجائے گا اور ادھار اور قرض کی نوبت آجائے گی، لیکن شعور اور سوجھ بوجھ سے انسان کام لیتا ہے، تو قلیل آمدنی میں بھی مہینہ کا خرچ پورا ہوجاتا ہے اور وقت ضرورت کے لئے کچھ بچا بھی لیتا ہے، اس لیے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اسراف اور فضول خرچی سے بچو، آمدنی کے اندر خرچ کرو اور اخراجات و خرچ کا ایک نظام اور ترتیب قائم کرو۔
راقم الحروف کی تقرری مدرسہ نورالاسلام کنڈہ میں ۱۹۹۷ء یا ۱۹۹۶ء کے اختتام میں تیرہ سو روپے پر ہوئی اور آج پچیس چھبیس سال گزرنے کے بعد بھی تنخواہ پندرہ ہزار تک نہیں پہنچی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس مدرسہ میں اساتذہ کو بعض سہولیات اور رعایتیں ایسی ہیں، جو دوسرے مدرسوں میں کم ہیں، لیکن الحمدللہ تحدیث نعمت کے طور پر اس کا ذکر کرتا ہوں کہ کبھی کسی کے سامنے بے چینی، بے کسی، بے بسی، بے کلی اور پریشانی کا اظہار نہیں کیا اور نہ کبھی کسی کی دولت پیسے اور عہدے اور منصب سے متاثر اور مرعوب ہوا، جہاں اور جس ماحول میں گیا اپنے عالمانہ وقار اور طمطراق سے گیا، پوری جرأت اور ہمت سے اپنی بات کو رکھا۔ اس کی گواہی وہ سارے لوگ دیں گے جو مجھ سے آشنا اور واقف ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ کتابوں سے اور قلمی کاوشوں سے بھی سالانہ کچھ نا کچھ آمدنی ہوتی ہے، بعض احباب اور رفقاء بھی میری محنتوں سے خوش ہوکر کبھی کبھی اکرامیہ سے نواز دیتے ہیں۔ ایک رقم والدہ محترمہ کی طرف سے سالانہ ملتی ہے، جس سے عیدالفطر بقرعید کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں، یہ اسی خدمت کا معاوضہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ضروری خواہش بھی پوری ہوجاتی ہے۔
طالب علمی کے زمانے میں ہی ارادہ کرلیا تھا کہ فراغت کے بعد مدرسہ میں رہ کر دین کی خدمت کروں گا اور درس و تدریس کو ہی اپنی زندگی کا حصہ بناؤں گا، یہ میری ذاتی پسند اور چوائس تھی، سرکاری نوکری بھی مل رہی تھی، بلکہ زور دیا جارہا تھا کہ بورڈ مدرسہ میں رہو اور یہیں سے علم کی روشنی پھیلاؤ۔ لیکن میں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔۔
والد صاحب مرحوم سرکاری ٹیچر تھے. ان کہنا تھا کہ آگے جہاں تک پڑھو میری طرف سے اجازت ہے، علی گڑھ چلے جاؤ، جامعہ ملیہ میں داخلہ لے لو۔ لیکن ہم نے اس میدان کو ترجیح دی۔ مجھے اپنے اس انتخاب پر کبھی پچھتاوا نہیں ہوا اور یک بگیر محکم بگیر کے محاورے پر عمل کرتے ہوئے، ستائیس سال سے اس مدرسہ میں خدمت انجام دے رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس راہ کا انتخاب وہی کرے جو حالات و مسائل کو جھیل اور برداشت کرسکتا ہو، دقتوں کا سامنا کرسکتا ہو، ورنہ صحیح تو یہ ہے کہ جس کو جان و دل عزیز وہ اس گلی میں آئے کیوں؟
(S_A_Sagar#)
http://saagartimes.blogspot.com/2022/08/blog-post_68.html