ایس اے ساگر
اس وقت دنیا کے لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان ائمہ اربعہ یعنی امام اعظم ، امام شافعی ، امام مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ میں سے کسی ایک کی تقلید یعنی پیروی کر رہے ہیں۔ وہ از خود قرآن سے ہر مسئلے کو پڑھ کر سمجھ کر عمل نہیں کرتے بلکہ ان کے بیان کردہ طریقے پر نماز ، روزہ ،حج، زکوة اور دیگر احکام پر عمل کر رہے ہیں لیکن اس کا کیا کیجئے کہ امت میں ایک گروہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو تقلید کا قائل نہیں ہے۔ اصول فقہ کی بہترین کتاب ’نورالانوار‘میں وارد ہے کہ ”کسی شخص کا اپنے علاوہ شخص کے قول یا فعل کی دلیل میں بغیر نظر کئے اس لئے اطاعت کرنا کہ یہ محقق ہے تقلید کہلاتا ہے۔“ آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ کسی مجتہد کے قول و فعل کو اپنے اوپر اس طرح لازم و ضروری سمجھنا کہ اس مجتہد کا قول میرے لئے شرعی حجت ہے کیوں کہ اس کی قرآن و حدیث میں نظر دقیق ہے اور قرآن و حدیث کے رموز و اسرار سے واقف ہے۔ تاہم علما محققین و مجتہدین نے تقلید کی دوقسمیں تقلید شرعی اور تقلید غیرشرعی بیان کی ہیں۔ تقلید شرعی سے مراد شرعی احکام میں کسی مجتہد کی پیروی کرنا ہے، جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰة، وضو، نکاح، طلاق کے مسائل کہ ان میں مجتہدین ائمہ دین کی اطاعت کی جاتی ہے۔ جبکہ تقلید غیرشرعی اس سے مراد دنیاوی معاملات میں کسی شخص کی اطاعت کرنا ہے، جیسے علم طب میں طبیب حضرات بوعلی سینا کی پیروی کرتے ہیں اور علم نحو میں امام سیبویہ اور امام خلیل کی پیروی کی جاتی ہے۔ان امور کو غیر شرعی کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ گناہگار ہوں گے ، یہ شریعت نہیں بلکہ دنیاوہی امور ہیں۔ لیکن یہ بات یہاں بھی ضروری ہے کہ تقلید غیرشرعی اگر شریعت سے ٹکرا رہی ہو تویہ تقلید کرنا حرام ہے اور اگر شریعت کے خلاف نہیں تو جائز و مباح ہے۔قرآن پاک کے پارہ 17،سورة الانبیاء، آیت نمبر7میں ہے کہ تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔ اس آیت پاک میں ربّ تعالیٰ خود ارشاد فرما رہے ہیں کہ وہ مسائل جن کو سمجھنے یا قرآن سے اخذ کرنے کی تمہارے اندر طاقت نہیں اہل علم و مجتہدین سے پوچھو کیونکہ عام آدمی میں اتنی استعداد نہیں ہوتی کہ وہ ہر مسئلہ قرآن و حدیث سے آسانی کے ساتھ مستنبط کرسکے لہٰذا اسے چاہے کہ وہ کسی قرآن و حدیث کے اندر کامل مہارت رکھنے والے کلام الٰہی اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رموز و اسرار سے واقفیت رکھنے والے مجتہد کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ان کی اتباع و پیروی کرے اور اسی کا نام تقلید ہے۔بعض اہل علم کے مطابق اس آیت سے تقلید کا وجود ثابت ہوا کیونکہ جو چیز معلوم نہ ہو وہ جاننے والے سے پوچھنا لازم ہے۔ لہٰذا غیرمجتہد کو اجتہادی مسائل مجتہدین سے پوچھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے انہیں خود اجتہاد کرنا حرام ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں اہل مکہ کا طریقہ ملتا ہے کہ اہل مکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تقلید کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب مکہ میں قیام فرمایا:
تو کثیر مسائل میں آپ نے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اختلاف کیا اور اہل مکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو ترجیح دیتے تھے یعنی اہل مکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تقلید کرتے تھے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ اہل مدینہ حضرت زید کی تقلید کرتے تھے جیسا کہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ دورانِ طواف اگر عورت کو حیض آجائے تو کیا حکم ہے یعنی وہ طواف چھوڑ کر جاسکتی ہے؟
تو آپ نے جواب دیا کہ ہاں وہ طواف چھوڑ کر جاسکتی ہے تو اہل مدینہ نے کہا کہ ہم آپ کے قول یعنی فتویٰ پر عمل نہیں کریں گے بلکہ حضرت زید رضی اللہ عنہ (جو کہ مدینہ کے مفتی تھے)کے قول پر عمل کریں گے۔
گویاکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں تقلید کا عام رواج تھا اور عام لوگ اپنے معتمد فقیہ صحابی کے قول کو دوسرے صحابی کے قول پر ترجیح دے کر اس کی اطاعت و پیروی کرتے اور اسی کا دوسرا نام تقلید ہے۔
تفسیر صاوی میں امام فخرالدین رازی کا نظریہ بیان کیا گیا ہے کہ چاروں مذاہب کے علاوہ کسی کی تقلید جائز نہیں ہے چاہے وہ قول صحابہ اور احادیث صحیحہ اور آیت کے موافق ہو پس جو شخص ان چاروں مذاہب سے خارج ہے وہ خود بھی گمراہ اور دوسرو ں کو بھی گمراہ کرنے والا ہے اس لئے کہ قرآن و حدیث کے ظاہر سے کوئی مسئلہ اخذ کرنا کفر کے اصولوں میں سے ہے۔
اربعین نووی میں امام نووی رحمة اللہ علیہ کا نظریہ بیان کیا گیا ہے کہ امام مسلم کی حدیث جو تقلید کے جواز پر دلالت کرتی ہے ، ان ائمہ کرام کو بھی شامل ہے جو دین کے علما ہیں ان کی وہ حدیثیں جو انہوں نے روایت کیں تو قبول کرنا اور احکام میں ان کی تقلید کرنا اور ان کے ساتھ اچھا گمان کرنا ان کے لئے لازم و ضروری ہے۔ صاحب شرح ہدایہ کا تو یہ کہنا ہے کہ جب مفتی کے اندر یہ صفات ہوں (یعنی وہ مجتہد ہو) تو عام لوگوں پر ضروری ہے کہ اس کی تقلید کریں اگرچہ مفتی کو اس مسئلہ میں خطا ہی کیوں نہ ہوجائے اور اس کے علاوہ کا کوئی اعتبار نہیں۔
اور امام طحاوی کا یہ فرمانا قابل غور ہے کہ فی زمانہ جو آدمی چاروں مذاہب سے خارج ہو تو وہ اہل بدعت اور اہل نار میں سے ہے۔جبکہ امام جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ کا نظریہ بھی واضح ہے کہ جو شخص مرتبہ اجتہاد تک نہ پہنچا ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ مجتہدین کے مذاہب میں سے کسی مذہب کو لازم پکڑے۔سعلامہ ابن حجر مکی رحمة اللہ علیہ کا نظریہ ہے کہ ہمارے ائمہ کرام فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔
تقلید کی تعریف اور اس کی تائید میں 1400 سال کی اسلامی تاریخ میں ہر صدی کے مشہور علماء ، فقہاء اور محدثین کے اقوال
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تقلید کی لغوی تعریف
تقلید کے لفظ کا مادہ "قلادہ" ہے۔ جب انسان کے گلے میں ڈالا جائے تو "ہار" کہلاتا ہے اور جب جانور کے گلے میں ڈالا جائے تو "پٹہ" کہلاتا ہے۔
تقلید کا مادہ "قلادہ" ہے، باب تفعیل سے "قلد قلادۃ" کے معنی ہار پہننے کے ہیں؛ چنانچہ خود حدیث میں بھی "قلادہ" کا لفظ "ہار" کے معنی میں استعمال ہوا ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: "اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً"۔
(بخاری، كِتَاب النِّكَاحِ،بَاب اسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا،حدیث نمبر:۴۷۶۶، شامله، موقع الإسلام)
ترجمہ:انہوں نے حضرت اسماءؓ سے ہار عاریۃً لیا تھا۔
غیرمقلدین کے ہاں یہاں اس کا معنی پٹا ہوگا۔ معاذ اللہ کیونکہ ان کے ہاں تقلید کا بس یہی ایک معنی ہے۔
نوٹ: ہم جہاں بھی لفظ اہل حدیث ، فرقہ اہلحدیث ، لامذہب یا غیرمقلدین کا لفظ استعمال کریں تو اس سے انگریز کے دور میں وجود میں آنے والا فرقہ مراد ہو گا۔ جیسا کہ ان کے ایک بڑے بزرگ ہیں ان کی شہادت ہے ، چنانچہ فرماتے ہیں:
”کچھ عرصہ سے ہندستان میں ایک ایسے غیر مانوس مذہب کے لوگ دیکھنے میں آ رہے ہیں جس سے لوگ بالکل ناآشنا ہیں پچھے زمانہ میں شاذ و نادر اس خیال کے لوگ کہیں تو ہوں مگر اس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے بلکہ ان کا نام بھی ابھی تھوڑے ہی دنوں میں سنا ہے۔ اپنے آپ کو اہلحدیث یا محمدی یا موحد کہتے ہیں مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے“۔(الارشاد الی سبیل الرشاد ص 13)
جناب مولانا محمد حسن صاحب غیرمقلد بٹالوی جنہوں نے اپنے فرقہ کا نام انگریز سے اہلحدیث الارٹ کرویا تھا خود فرماتے ہیں: "اے حضرات یہ مذہب سے آزادی اور خود سری و خود اجتہادی کی تیز ر ہوا یورپ سے چلی ہے اور ہندستان کے شہر و بستی و کوچہ و گلی میں پھیل گئ ہے۔ جس نے غالباَ َ ہندوؤں کو ہندو اور مسلمانوں کو مسلمان نہیں رہنے دیا۔ حنفی اور شافعی مذہب کا تو پوچھنا ہی کیا" (اشاعت السنۃ ص٢٥٥)
اس غیرمقلدیت کی سرپرستی کے لئے ایک زمنی ریاست بھوپال ان کو دی گئی۔
چنانچہ نواب بھوپال صدیق حسن صاحب تحریر فرماتے ہیں: "فرمان روایاں بھوپال کو ہمیشہ آزادگی مذہب (غیرمقلدیت) میں کوشش رہی ہے جو خاص منشاء گورنمنٹ انڈیا کا ہے" (ترجمان وہابیہ ص ٣)
پھر فرماتے ہیں : یہ آزادگی مذہب جدید (حنفی شافعی وغیرہ ) سے عین مراد انگلشیہ سے ہے" (ص ٥)۔
یہ لوگ (غیرمقلدین) اپنے دین میں وہی آزادگی برتتے ہیں جس کا اشتہار بار بار انگریزی سرکار سے جاری ہوا۔ خصوصاََ دربار دہلی سے جو سب درباروں کا سردار ہے۔
ترجمان وہابیہ ص32))
اس کے علاوہ بھی بہت سے دلائل موجود ہیں دیکھئے تجلیات صفدر جلد 5 فلحال اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
غیرمقلدین کے نزدیک تقلید کی تعریف
غیرمقلدین کے نزدیک تقلید کی بس یہی تعریف ہے کسی کی بے دلیل بات کو ماننا یا پھر کسی کی بات کو ماننا جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو ۔
یہی تعریف ان کے شیخ الحدیث اور اس کی ”تقلید“ میں ان کا ایک عام ان پڑ جاہل کرتا پھرتا ہے۔
اتباع اطاعت پیروی اور تقلید چونکہ ایک ہی معنی میں آتے ہیں جس طرح اتباع و اطاعت کے دونوں معنی ہیں اسی طرح اہل لغت نے تقلید کے بھی دونوں معنی کئے ہیں بے دلیل کسی کی پیروی کو بھی تقلید کہتے ہیں اور با دلیل بات کو بلا مطالبہ دلیل مانے کو بھی تقلید کہتے ہیں ۔
کون سی تقلید صحیح (محمود) ہے اور کون سی صحیح نہیں (مذموم ) ہے اس کا فرق تب معلوم ہوتا ہے جب دیکھا جائے کہ جس کی اتباع کی جارہی ہے وہ کیا ہے کافر ہے تو مذموم اور اس کی تقلید حرام مومن ہے مجتہد ہے فقیہ ہے تو محمود اور اس کی تقلید لازم کیونکہ فروعی غیر منصوص مسائل میں اجتہاد ایک ضرورت جب اجتہاد ضرورت ہے تو جو اجتہاد نہیں جانتا تو اسکے لئے مجتہد کی پیروی بھی ضروری ہو گی اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم دونوں باتوں کو اپنی اپنی جگہ صحیح مانتے ہیں جبکہ غیرمقلدین اہل لغت و اصولین سے اپنی خواہش کے مطابق صرف ایک بات کا انتخاب کرتے ہیں دوسری کو پرے پھینک دیتے ہیں۔
غیرمقلدین تقلید کی تعریفات سے میں اپنی خواہش کے مطابق ایک تعریف کو لینا اور دوسری کو پھینک دینا اصولین ، اہل لغت وغیرہ کے ساتھ خیانت نہیں تو اور کیا ہے؟
اتباع بھی اسی طرح ہو تی ہے بے دلیل کسی کے پیچھے چلنے کو بھی اتباع ہی کہا جائے گا اور با دلیل کسی کے پیچھے چلنے کو بھی اتباع ہی کہا جائے گا بے دلیل کسی کے پیچھے چلنے سے اتباع کا مطلب نہیں بدل جاتا۔
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں :
وَ مَنۡ یَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ
”جو شخص شیطان کی اتباع کرتا ہے تو اچھی طرح جان لے کہ شیطان بے حیائی اور نا معقول کام کرنے کا حکم دیتا ہے“۔
(النور 21)
اللہ تعالٰی نے بھی یہاں شیطان کے پیچھے چلنے والوں کے لئے اتباع کا ہی لفظ استعمال کیا۔ (سوال)شیطان کی بات با دلیل ہوتے ہیں یا بے دلیل ؟
ایک اور آیت میں آتا ہے :
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلۡفَیۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ
” ہم تو اسی طریقے کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اگرچہ ان کے باپ دادے کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور نہ جانتے ہوں سیدھی راہ “۔
(البقرۃ 170)
قرآن پاک نے بے عقل اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے باپ داداؤں کے پیچھے چلنے سے منع فرمایا ہے اور ان کے پیچھے چلنے کا ہم بھی نہیں کہتے ۔
اللہ تعالٰی نے ان کفار کی بات کو ذکر کیا تو لفظ تقلید نہیں بلکہ اتباع ہی لایا۔
معلوم ہوا کہ اتباع بھی بلا دلیل ہوتی ہے۔
غیرمقلدین بتائیں کیا قرآن کی یہ آیت اس بات کی دلیل کیلئے کافی نہیں کہ اتباع بھی بلا دلیل ہو سکتی ہے؟ پھر آج سے شروع ہو جائیں یہ کہنا اتباع بھی علی الاطلاق حرام ہے۔
لطیفہ : جاھل اہل حدیث حضرات بھی یہاں اپنے گڑھے اصولوں کو بھلا کر اتباع کا معنی تقلید ہی لیتے ہیں جس سے ان کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جاتا ہے جو یہ کہا کرتے ہیں کہ اتباع با دلیل ہی ہوتی ہے بلا دلیل کو اتباع نہیں کہا جاتا۔
اگر غیرمقلدین کے نزدیک تقلید کا بیان قرآن کریم میں موجود ہے تو پھر وہیں سے پہلے تقلید کا لفظ دکھائیں پھر وہیں سے اس کی معنی کریں پھر اسکے بعد اس کا حکم دکھائیں کیونکہ تقلید کے وجوب کو ثابت کرنے کیلئے آپ لوگ یہی پیمانہ بناتے ہیں۔
غیرمقلدین جواب دیں ان کے باپ داداؤں کی بات با دلیل تھی یا بے دلیل اگر بے دلیل بات کو اتباع نہیں کہا جاتا تو اللہ تعالٰی نے اسے اتباع کیوں قرار دیا ہے تقلید کیوں نہیں ؟
معلوم ہوا کہ اتباع بھی بے دلیل ہوتی ہے دلیل کا ہونا ضروری نہیں۔
لیکن لغت سے جاھل غیرمقلدین تقلید کا معنی اپنی خوائش کے مطابق ہی تعین کرتے ہیں۔
کبھی کہتے ہیں تقلید کا معنی بے دلیل بات کی پیروی کرنے کو ہی کہا جاتا ہے۔ اور ان کے عالم کہلانے والے جاہل یہاں تک بھی لکھتے ہیں کہ
”قرآن و سنت کے خلاف بات ماننے کو تقلید کہتے ہیں“
(احکام و مسائل ج 1 ص 158 عبد المنان نورپوری)
تقلید کا یہ معنی تعین کرنے کی حاجت انکی مجبوری کے سوا کچھ نہیں اگر یہ انصاف سے جو معنی اس کا ہے وہی لیں اور خود سے ایک ہی طرف کا معنی تعین نہ کریں تو ان کا مذہب خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مذہب صرف غلط بنیاد پر کھڑا ہے۔
بہر حال ہم انہیں منہ مانگی موت دیتے ہیں ان شاء اللہ
★اگر تقلید بلا دلیل بات ماننے کو کہتے ہیں تو
اللہ کے نبی کے پیارے صحابی حضرت عثمانی غنی ؓ نے اپنے دور خلافت میں جمعہ کی نماز کیلئے ایک اذان زائد فرمائی(صحیح بخاری ج1 ح 879)
جس کا ثبوت نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں محض رائے سے ہے۔ سب مہاجرین و انصار نے بلا مطالبہ دلیل اس کو قبول فرما لیا
اگر تقلید کا یہی معنی ہے تو پس تقلید شخصی صحابہ کرام کے پاک زمانے سے ثابت ہوئی ۔
★اگر تقلید قرآن حدیث کے خلاف کسی کی بات ماننے کو کہتے ہیں تو
بقول غیرمقلدین اکھٹی تین طلاق کو تین حضرت عمرؓ نے قرار دیا ہے اور غیرمقلدین کے ہاں اکھٹی تین طلاق کو تین شمار کرنا قرآن و حدیث کے خلاف ہے اب اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ معاذ اللہ حضرت عمرؓ نےپہلے قرآن و حدیث کی مخالفت کی اور پھر بقیہ تمام صحابہ نے ان کی تقلید کرکے قرآن حدیث کی مخالفت کی اور یوں تمام صحابہ قرآن و حدیث کے منکر اور مخالف ہو گئے ۔معاذ اللہ
اصولین کے نزدیک تقلید کی اصطلاحی تعریف:
1۔ التقليد اتّباع الإنسان غيره فيما يقول أو يفعل معتقدا للحقية من غير نظر إلى الدليل، كأنّ هذا المتّبع جعل قول الغير أو فعله قلادة في عنقه من غير مطالبة دليل۔
(کشف الاصطلاحات الفنون والعلوم صفحہ ۵۰۰)
ترجمہ:۔”تقلید (کے اصلاحی معنی یہ ہیں کہ) کسی آدمی کا دوسرے کے قول یا فعل کی اتباع کرنا محض حسن عقیدت سے کہ جس میں (مجتہد کی ) دلیل پر غور نہ کرے۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا بلا دلیل طلب کرنے کے۔“
2۔ وهو عبارۃ عن اتباعه في قولهاو فعله منقدا للحقية تامل في الدليل
(شرح منار مصری ص 252)
”دلیل میں غور و فکر کئے بغیر کسی کو حق سمجھتے ہوئے قول یا فعل میں اس کی پیروی کرنا“۔
3۔ التقليد اتباع الغير علي ظن انه محق بلا نظر في الدليل
(النامي شرح حسامي : 19)
”دلیل میں غور و خوص کئے بغیر کسی کی اتباع کرنا یہ گمان رکھتے ہوئے کہ وہ حق پر ہے“۔
تقلید کی تعریف میں اہل لغت نے لفظ اتباع کو ذکر کیا ہے جیسا کہ تعریفات سے ظاہر ہے ، اگر تقلید اور اتباع میں فرق ہوتا تو اہل لغت تقلید کی تعریف اتباع سے نہ کرتے۔
دوسرا یہ کہ (تقلید محمود میں) جس کی تقلید کی جاتی ہے اس کی بات با دلیل ہوتی جس کو محض حسن ظن پر بغیر مطالبہ دلیل تسلیم کر لیا جاتا ہے اور ایسا کرنا نہ حرام ہے نا کفر ہے نہ شرک وہ بھی جب مجتہد کی تقلید کی جارہی ہو تو پھر کس طرح بندہ کہے کہ مجتہد سے دلیل لازم ہئ کیونکہ اس پر اعتماد نہیں شاید وہ غلط بات بتا رہا ہو اور پھر اگر مجتہد دلیل پیش بھی کردے جس بنا پر اس نے اجتہاد کیا ہے تو کیا غیرمقلد (لایجتہد ولایقلد) کے اندر کوئی اہلیت موجود ہے اس کے اجتہاد کو سمجھ بھی سکے؟ اور سمجھ نہ آئے تو انکار کر دے؟
اور اگر اتنا ہی سمجھ سکتا ہے تو پھر نہ علماء کی ضرورت باقی رہی نہ مفتیان کرام کی نہ فقہاء کی نہ مجتہدین کی سب لوگ خود سے اجتہاد کرلو اور اور یہ جدید غیرمقلدین بھی اسی کی کوشش کررہے ہیں نہ کوئی عالم رہے نہ کوئی مفتی رہے نہ کوئی فقیہ سب برابر ہو جائیں۔
جیسا فرقہ اہل حدیث کے نام نہاد محدث زبیر علی زئی سائل کو مختصر جواب دے کر کہتے ہیں ”باقی امور میں خود اجتہاد کر لیں “ (فتاویٰ علمیہ ص 198)
اس کی اجازت نہ قرآن میں ہے نا ہی حدیث میں بلکہ یہ اصول فرقہ اہل حدیث کیلئے انگریز برطانیہ سے لایا تھا۔
چنانچہ نواب بھوپال صدیق حسن صاحب غیرمقلد تحریر فرماتے ہیں:
"فرمان روایاں بھوپال کو ہمیشہ آزادگی مذہب (غیرمقلدیت) میں کوشش رہی ہے جو خاص منشاء گورنمنٹ انڈیا کا ہے" (ترجمان وہابیہ ص ٣)
پھر فرماتے ہیں :
یہ آزادگی مذہب جدید (حنفی شافعی وغیرہ ) سے عین مراد انگلشیہ سے ہے" (ص ٥)۔
یہ لوگ (غیرمقلدین) اپنے دین میں وہی آزادگی برتتے ہیں جس کا اشتہار بار بار انگریزی سرکار سے جاری ہوا۔ خصوصاً دربار دہلی سے جو سب درباروں کا سردار ہے۔(ترجمان وہابیہ ص ٣٢)
غیرمقلدین حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ سے تقلید کے متعلق ایک قول نقل کرتے ہیں
جبکہ مولانا تھانویؒ کی بات سمجھنے یہ بلکل جاہل ہیں کیونکہ بقول ان کے ایک مولوی صاحب
جماعت اہلحدیث کیلئے علمی اور گہری باتیں بسا اوقات پریشانی کا باعث ہو تی ہیں (قافلہ حدیث ص 80)
اور جو قول غیرمقلدین حضرت کا پیش کرتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں لفظ اتباع کو نبیﷺ کے ساتھ اور تقلید کو مجتہد کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جیسے حمد کا معنی بھی تعریف ہوتا ہے اور نعت کا معنی بھی تعریف ہوتا لیکن نبیؐ کی تعرف حمد کی بجائے نعت کہلاتی ہے اور اللہ کی تعریف نعت نہیں بلکہ حمد کہلاتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی کہے کہ نعت کا معنی اب تعریف نہیں رہا یا حمد کا معنی تعریف نہیں رہا۔
اور مولانا تھانویؒ خود بھی فرماتے ہیں :
تقلید کہتے ہیں اتباع کو
(شان صحابہ ص 296)
غیرمقلدین تقلید کی تعریف کے سلسلے میں مسلم الثبوت وغیرہ کتب کے حوالہ سے تقلید کی تعریف ”التقليد اخذ قول الغير من غير حجة “ سے دلیل پکڑتے ہیں۔
جبکہ غیرمقلدین حضرات مسلم الثبوت کی پوری عبارت نقل نہیں کرتے ورنہ کسی صاحب فہم کو شبہ باقی نہ رہے غالباً اسی میں وہ اپنے لئے خیر سمجھتے ہیں۔ عبارت یہ ہے
فصل التقليد العلم بقول الغير من غير حجة کاخذ العامی والمجتهد من مثله فالرجوع الي النبي علیه الصلوٰة والسلام اولٰی الاجماع ليس منه وکذا العامي الٰي المفتي والقاضي الٰی العدول لايجاب النص ذالك عليها
ترجمہ : تقلید غیر کے قول پر بغیر حجت کے عمل کرنے کا نام ہے جیسا کہ عامی اور مجتہد کا اپنے جیسے عامی اور مجتہد کے قول کو لینا پس آنحضرتﷺ اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے اور اسی طرح عامی کا مفتی اور قاضی کا عادلوں کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ ان پر ایسا کرنے کو نص واجب قرار دیتی ہے “۔
تقلید کی اس تعریف کے بعد آخر میں یہ بات لکھی ہےلكن العرف علٰي ان العامي مقلد للمجتهد قال الامام وعليه معظم الاصولين۔
(مسلم الثبوت ص 289)
”مگر عرف اسی پر ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے (امام الحرمینؒ) فرماتے ہیں کہ اسی پر اکثر اصولین ہیں۔
معلوم ہوا کہ ایک مجتہد ہوتا ہے اور جو مجتہد نہیں ہوتا اس مجتہد کی پیروی کرتا ہے وہ اس کا مقلد ہوتا ہے عرف عام یہی ہے۔ اور یہ وہ بات ہے جو غیرمقلدین نقل نہیں کرتے۔
اب ہم تقلید کی اس تعریف کی تائید میں 1400 سال کی اسلامی تاریخ میں ہر صدی کے مشہور علماء فقہاء اور محدثین کے اقوال نقل کریں گے جو یہ بات ثابت کرنے کی لئے کافی ہیں کہ اہل علم کے نزدیک تقلید (محمود) بے دلیل بات کی پیری کا نام نہیں بلکہ ان کے نزدیک بھی تقلید (محمود) کا وہی معنی ہے جو ہم نے اوپرکیا۔
پہلی اور دوسری صدی ہجری
1:۔
امام اعظم ابو حنیفہؒ (وفات 150ھ) ، محمد بن الحسن شیبانیؒ (وفات 189ھ)، قاضی ابو یوسفؒ (وفات 182ھ)
فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب الهداية مع شرح الكفاية میں لکھا ہے:
واذا کان المفتي علي ھذه الصفة فعلي العامي تقليده وان کان المفتي اخطأ في ذالك ولا متبحر بغيره ھكذا ”روی“ الحسن عن ابي حنيفة ورستم عن محمد و بشیر عن ابي یوسف
ترجمہ:
”عامی شخص پر مفتی کی تقلید واجب ہے اگرچہ مفتی سے خطا ہو جائے اسے ایک اجر ملے گا“۔ یہ قول ہے امام ابو حنیفہؒ، قاضی ابو یوسفؒ ، محمد بن الحسن شیبانیؒ ، محمد بن بشیرؒ کا“۔
(الهداية مع شرح الكفاية كتاب الصوم ج 1 ص 598)
تیسری صدی ہجری
2:۔
حضرت امام احمد بن حنبلؒ (وفات 241 ھ) فرماتے ہیں:
ومن زعم أنه لا يرى التقليد ولا يقلد دينه أحدًا فهو قول فاسق عند اللَّه ورسول - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إنما يريد بذلك إبطال الأثر تطيل العلم والسنة والتفرد بالرأي والكلام والبدعة والخلاف
[ طبقات الحنابلة (ص/31)]
” جو شخص یہ گمان رکھے کہ تقلید کوئی چیز نہیں ہے تو یہ قول اللہ و رسول کے نزدیک ایک فاسق کا قول ہے، وہ شخص اپنے اس قول کے ذریعہ سے اثر (یعنی اقوال و احادث صحابہ و تابعین) کو باطل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور علم و سنت کو معطل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور اپنی رائے سے تفرد ،کلام ، بدعت اور مخالفت کرنا چاہتا ہے“۔
کیا امام احمد بن حنبلؒ کسی بے دلیل بات کی پیروی کا اثبات کر رہے ہیں؟ کیا امام احمد کو تقلید کا معنی معلوم نہیں تھا ؟
چوتھی صدی ہجری
3:۔
ابو بكر جصاص ؒ (وفات 370ھ) فرماتے ہیں:
أَنَّ الْعَامِّيَّ عَلَيْهِ تَقْلِيدُ الْعُلَمَاءِ فِي أَحْكَامِ الْحَوَادِثِ
ترجمہ:
”اور نئے پیش آمدہ مسائل پر عامی پر علما کی تقلید واجب ہے“۔
(أحكام القرآن ج 3 ص 183)
گویا کہ امام ابو بکر جصاصؒ فرما رہے ہیں نئے پیش آمدہ مسائل میں علماء بے دلیل بات کیا کرتے ہیں اور عامی آدمی کیلئے اس بے دلیل بات کی پیروی ضروری ہے؟
پانچھویں صدی ہجری
4:۔
امام ابراہیم سرخسی ؒ (وفات 483ھ) فرماتے ہیں:
و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة
ترجمہ:
یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔
(الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)
کیا یہ لوگوں کو بے دلیل بات کی پیری کرنے کا حکم دے رہے ہیں ؟
5:۔
خطیب بغدادی ؒ (المتوفی 463ھ )لکھتے ہیں:
لومنعنا التقلید فی ہذہ المسائل التی ہی من فروع الدین لاحتاج کل احد ان یتعلم ذالک وفی ایجاب ذالک قطع عن المعایش وہلاک الحرث والماشیۃ فوجب ان یسقط۔
ترجمہ:
اگر ہم ان فروعی مسائل میں عوام کو تقلید سے روکیں تو پھر ہر کسی پر پورے دین کی تعلیم ضروری ہوجائےگی اسےہر کسی کے لیے ضروری ٹھہرانے میں دیگر امور معاش ،کھیتی باڑی اور مال مواشی سب برباد ہوجائیں گے۔
گویا کہ خطیب بغدادیؒ کو بھی تقلید کا معنی معلوم نہیں تھا اور عوام کو بے دلیل بات کی پیروی کرنے سے روکنے سے منع کر رہے ہیں۔
6: ۔
حافظ ابن عبد البرؒ (وفات 463 ھ)فرماتے ہیں:
ولم يختلف العلماء أن العامة عليها تقليد علمائها
”علماء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ عامی آدمی پر علماء کی تقلید لازم ہے“۔
(جامع بيان العلم ص390)
گویا کہ ابن عبد البرؒ کے نزدیک بھی تقلید کا معنی بے دلیل بات کی پیروی نہیں تھا ورنہ کیا وہ علماء کی بے دلیل بات کی پیروی کرنے کو لازم کہتے ؟ معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی تقلید بے دلیل بات کی پیروی نہیں بلکہ با دلیل بات کو بلا مطالبہ دلیل کا نام تقلید ہے جسے انہوں نے لازم قرار دیا ہے۔
7:۔
حضرت امام غزالی (وفات 505ھ) فرماتے ہیں:
مسألة تقليد العامي للعلماء
العامي يجب عليه الاستفتاء واتباع العلماء وقال قوم من القدرية يلزمهم النظر في الدليل واتباع الإمام المعصوم وهذا باطل بمسلكين أحدهما إجماع الصحابة فإنهم كانوا يفتون العوام ولا يأمرونهم بنيل درجة الاجتهاد وذلك معلوم على الضرورة والتواتر من علمائهم وعوامهم فإن قال قائل من الإمامية كان الواجب عليهم اتباع على لعصمته
ترجمہ: ”عامی کیلئے اہل علم کی تقلید کا مسئلہ، عامی پر واجب ہے کہ پوچھے اور اتباع کرنا علماء کی اور بعض قدریہ (گمراہ فرقہ) لازم ٹھہراتے ہیں دلیل معلوم کرنے کو مگر یہ باطل ہے۔ دوم مسلکوں سے پہلا مسلک اجماع صحابہ کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم خود اجتہاد کرو اور یہ بات انکے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل ضرورت دین سے ثابت ہے“۔
(المستصنی ص 389)
الحمدللہ تقلید کا معنی بھی سورج کی روشنی کی طرح واضح ہو گیا اور غیرمقلدیت کی کمر بھی ٹوٹ گئی جو یہ کہا کرتے ہیں کہ دلیل پوچھنی لازم ہے۔
چھٹی صدی ہجری
8:۔
محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمي الرازي (وفات 606ھ) فرماتے ہیں:
أَنَّ الْعَامِّيَّ عَلَيْهِ تَقْلِيدُ الْعُلَمَاءِ فِي أَحْكَامِ الْحَوَادِثِ
ترجمہ:
”اور نئے پیش آمدہ مسائل پر عامی پر علما کی تقلید واجب ہے“۔
(تفسیر کبیر ج 3 ص 372)
کیا غیر عالم (عامی) پر امام رازیؒ علماء کی بے دلیل بات کی پیروی کو واجب قرار دے رہے ہیں ؟
جب عامی آدمی پر علماء کی تقلید واجب ہے تو مجتہد جو کہ عالم سے بڑا ہے اس کی تقلید تو بطریق اولٰی ثابت ہوئی۔
نوٹ : غیر عالم ن مسائل علماء سے لیتا ہے اور وہ علماء (غیرمجتہدین) اپنے مجتہد امام سے مسئلہ لیتے ہیں اگر نیا مسئلہ ہو تو اپنے مجتہد امام کے قواعد سے مسئلہ اخذ کر لیتے ہیں اسلئے مسائل لینے میں عالم اور غیر عالم دونوں مجتہد کے مقلد ہوتے ہیں مگر غیر عالم اس عالم سے اس کے حسن ظن پر مسئلہ لیتا ہے اسلئے غیر عالم عالم کی بھی پیروی کرتا ہے۔ اور اسی کا نام تقلید ہے۔
9:۔
علامہ عبد الکریم بن ابي بكر احمد الشهرستانيؒ (وفات 548ھ) فرماتے ہیں:
”اہل فروع کہتے ہیں کہ جب مجتہد کو یہ علم و معارف حاصل ہو جائیں تو اس کیلئے اجتہاد کرنا جائز ہے۔ اور وہ حکم جس کی جانب اس کے اجتہاد نے رہنمائی کی ، شریعت میں جائز ہوگا۔ عامی پر اس کی تقلید واجب ہو گی اور اس کے فتویٰ پر عمل کرنا ضروری ہو گا“۔
(ترجمہ کتاب الملل والنحل طبع ثانی ص 294)
10:۔
شیخ عبد القادر جیلانیؒ (وفات 561ھ) امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں فرماتے ہیں:
” اللہ تعالٰی ہمیں اصول و فروع میں انہی کے مذہب پر موت عطا کرے“۔
(ترجمه غنية الطالبين ص 529)
غیرمقلدین کے ایک عالم فیض عالم صدیقی صاحب فرماتے ہیں:
”حضرت عبد القادر جیلانی فقہ حنبلی کے مقلد تھے“۔
(اختلاف امت کا المیہ ص 330)
الحمدللہ ثابت ہو گیا کہ اتنے بڑے بزرگ بھی خود اجتہاد کے داعی نہیں بلکہ اپنے مجتہد امام کی فقہ کے مقلد تھے۔
اگر تقلید کا معنی بس یہی ہوتا ہے کہ بے دلیل غیر حجت بات کو مان لینا ہے تو کیا شیخ صاحب ساری عمر بے دلیل اور غیر حجت بات کو ماننے کے قائل تھے؟
فرقہ اہلحدیث کے مشہور عالم اور مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں:
”مقلد مذہب خاص وہ چار گروہ ہیں حنفی، شافعی ، مالکی ، حنبلی“۔
(ترجمان وہابیہ ص 52)
گویا کہ حنفی شافعی مالکی حنبلی مقلدین ہیں اور
طبقات حنفیہ نامی کتاب میں حنفی طبقات شافعی میں شافعی طبقات مالکیہ میں مالکی اور طبقات حنبلیہ میں حنبلی ہزاروں کی تعداد میں یہ حنفی شافعی مالکی اور حنبلی علماء فقہا اور محدثین موجود ہیں جو کہ سب کے سب یا تو حنفی تھے یا شافعی تھے یا مالکی تھی یا حنبلی تھے کوئی ایک بھی غیرمقلد نہیں تھا جو نہ خود اجتہاد جانتا ہو نہ کسی مجتھد کا مقلد ہوا اسلئے فرقہ اہلحدیث کوئی قدیم فرقہ نہیں بلکہ یہ ایک جدید بدعتی فرقہ ہے جس کا اسلاف اہلسنت میں آٹے میں نمک کے برابر بھی وجود نہیں ملتا۔
ساتویں صدی ہجری
11:۔
شارح صحیح مسلم محيي الدين يحيى بن شرف النووي (وفات 676ھ )فرماتے ہیں:
لوجاز اتباع ای مذہب شاء لافضی الی ان یلتقط رخص المذاہب متبعا ہواہ۔۔۔۔۔ فعلی ہذا یلزمہ ان یجتہد فی اختیار مذہب یقلدہ علی التعین ۔
ترجمہ:
اگر یہ جائز ہو کہ انسان جس فقہ کی چاہے پیروی کرے تو بات یہاں تک پہنچے گی کہ وہ اپنی نفسانی خواہش کے مطابق تمام مذاہب کی آسانیاں چنےگا۔ اس لیے ہرشخص پرلازم ہے کہ ایک معین مذہب چن لے اور اس کی تقلیدکرے۔
(المجموع شرح المہذب ج 1 ص 91)
کیا امام نوویؒ بے دلیل بات کی پیروی کا لازم قرار دے رہے ہیں؟
12:۔
امام شمس الدين القرطبي (وفات 671هـ) فرماتے ہیں
تَعَلَّقَ قَوْمٌ بِهَذِهِ الْآيَةِ فِي ذَمِّ التَّقْلِيدِ لِذَمِّ اللَّهِ تَعَالَى الْكُفَّارَ بِاتِّبَاعِهِمْ لِآبَائِهِمْ فِي الْبَاطِلِ، وَاقْتِدَائِهِمْ بِهِمْ فِي الْكُفْرِ وَالْمَعْصِيَةِ. وَهَذَا فِي الْبَاطِلِ صَحِيحٌ، أَمَّا التَّقْلِيدُ فِي الْحَقِّ فَأَصْلٌ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ
ترجمہ :
”کچھ لوگوں نے اس آیت کو تقلید کی مذمت میں پیش کیا ہے اور یہ باطل کے معاملہ میں تو صحیح ہے لیکن حق کے معاملہ میں تقلید سے اس کا کوئی تعلق نہیں حق میں تقلید کرنا تو دین کے اصولوں میں سے ہے“۔
(تفسير القرطبي ج2 ص 211)
کیا امام قرطبی بے دلیل بات کی پیروی کرنے کو دین کا اصول قرار دے رہے ہیں ؟
13:۔
علامہ ابن قدامہؒ (وفات 620ھ) فرماتے ہیں:
حكم التقليد في الفروع ، بالنسبة للعامة وقد وقع الاتفاق علي انه صحیح
ترجمہ:
”عامی (غیرمجتہد) کیلئے فروع میں تقلید با اتفاق صحیح ہے“۔
(شرح مختصر روضة الناظر ج 2 ص 682)
کیا ابن قدامہؒ کسی کی بے دلیل بات کی پیروی کرنے کو صحیح فرما رہے ہیں ؟
آٹھویں صدی ہجری
14:۔
امام الجرح والتعدیل حضرت امام شمس الدین ذہبیؒ (وفات 748ھ)فرماتے ہیں:
نعم من بلغ رتبة الاجتهاد وشهد له بذلك عدة من الأئمة لم يسغ له أن يقلد كما أن الفقيه المبتدئ والعامي الذي يحفظ القرآن أو كثيرا منه لا يسوغ له الاجتهاد أبدا فكيف يجتهد وما الذي يقول؟ وعلام يبني؟ وكيف يطير ولما يريش؟
ترجمہ:
” جو شخص اجتہاد کے مرتبہ پر فائذ ہو بلکہ اس کی شہادت متعد آئمہ دیں اس کیلئے تقلید کی گنجائش نہیں ہے مگر مبتدی قسم کا فقیہ کا عامی درجے کا آدمی جو قرآن کا یا اسکے اکثر حصے کا حافظ ہو اس کیلئے اجتہاد جائز نہیں، وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟ کیا کہے گا کس چیز پر اپنے اجتہاد کی امارت قائم کرے گا؟ کیسے اڑھے گا ابھی اسکے پر بھی نہیں نکلے؟“۔
(سير أعلام النبلاء ج 13 ص 337)
معلوم ہوا کہ امام ذہبیؒ کے نزدیک بھی یا تو بندہ اجتہاد کی اہلیت رکھ کر اجتہاد کرے گا اور جو نہیں کر سکتا وہ تقلید کرے اور اس سے معلوم ہوا کہ مجتہد کی تقلید بے دلیل بات کی پیروی کا نام نہیں بلکہ غیر مجتہد کا مجتہد کی پیروی کرنے کا نام ہے۔
گویا کہ اتنے بڑے امام بھی اہلحدیث نہیں تھے اگر تھے تو پھر آج کے غیرمقلد اہلحدیث نہ ہوئے؟ کیونکہ انہوں نے صاف طور پر غیرمجتہد کیلئے اجتہاد کا رد کر دیا ہے۔ اور مجتہد کیلئے تقلید کا انکار کر دیا ہے اور یہی ہمارا بھی موقف ہے الحمدللہ
امام ذہبیؒ کا ایک اور فرمان جس سے ساری غیرمقلدیت کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔
چنانچہ ایک سوال نقل کرتے ہیں اور پھر اس کا جواب دیتے ہیں:
وَالأَخْذُ بِالحَدِيْثِ أَوْلَى مِنَ الأَخْذِ بِقَولِ الشَّافِعِيِّ وَأَبِي حَنِيْفَةَ) .
قُلْتُ: هَذَا جَيِّدٌ، لَكِنْ بِشَرْطِ أَنْ يَكُونَ قَدْ قَالَ بِذَلِكَ الحَدِيْثِ إِمَامٌ مِنْ نُظَرَاءِ الإِمَامَيْنِ مِثْلُ مَالِكٍ، أَوْ سُفْيَانَ، أَوِ الأَوْزَاعِيِّ
ترجمہ :
” حدیث پر عمل کرنا امام ابو حنیفہ یا امام شافعی کے قول پر عمل کرنے سے بہتر ہی“۔
اس پر رد کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں:۔
”میں کہتا ہوں یہ عمدہ بات ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ حدیث پر عمل کا قائل ان دونوں اماموں امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے ہمسر کوئی امام بھی ہو جیسے امام مالکؒ یا امام سفیانؒ یا امام اوزاعیؒ“
(سير أعلام النبلاء ج 16 ص 405)
15:۔
علامہ ابن تیمیہؒ ( وفات 728 ھ) لکھتے ہیں
"ولا یخلو امر الداعی من امرین: الاول ان یکون مجتھداً او مقلداً فالمجتھد ینظرفی تصانیف المتقدمین من القرون الثلاثۃ ثم یرجع ما ینبغی ترجیحہ، الثانی: المقلد یقلد السلف: اذ القرون المتقدمۃ افضل مما بعدھا'
" ”دین کا داعی دو حال سے خالی نہیں، مجتہد ہو گا یا مقلد، مجتہد قرون ثلاثہ کے متقدمین کی تصانیف سے مستفید ہو کر راجح قول کر ترجیح دیتا ہے اور مقلد سلف کی تقلید کرتا ہے ، کیونکہ ابتدائی صدیاں بعد والوں سے افضل ہیں"۔ (مجموعۃ الفتاویٰ جلد 20صفحہ 9)۔
معلوم ہوا کہ حافظ ابن تیمیہ کے نزدیک غیرمقلدین (لایجتہد ولایقلد) دین کے داعی نہیں۔
ایک اور جگہ حافظ ابن تیمیہؒ تقلید شخصی کا اثبات کرتے ہوئے لکھتے ہیں
یکونون فی وقت یقلدون من یفسدہ وفی وقت یقلدون من یصححہ بحسب الغرض والہویٰ ومثل لایجوز باتفاق الائمۃ۔
ترجمہ:
لوگ غرض وخواہش کی خاطر کسی وقت ایک امام کی تقلید کریں جو ایک عمل کو فاسد قرار دیتاہو اور کسی وقت دوسرے امام کی تقلید کریں جو اسے صحیح قرار دیتاہو یہ باتفاق ائمہ جائز نہیں۔
(فتاویٰ کبری ج 2 ص 285)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
والذي علیه جماهير الامة ان الاجتهاد جائز في الجملة والتقليد جائز في الجملة
ترجمہ:
” امت کی عظیم ترین اکثریت اس کی قائل ہے کہ اجتہاد بھی جائز ہے اور تقلید بھی جائز ہے“۔
گویا کہ ابن تیمیہ بے دلیل بات کی پیروی کو جائز قرار دے رہے ہیں ؟ کیا ابن تیمیہ کو تقلید کی تعریف معلوم نہیں تھی اگر تھی تو
علم سے کورے جاہل نام نہاد اہل حدیث حضرات کے جاہل علماء اور ان کی جاہل عوام کو اب تک تقلید کی تعریف ہی سمجھ نہیں آئی۔
16:۔
حافظ ابن قیمؒ (وفات 751ھ) اس کے متعلق فرماتے ہیں
فَالْجَوَابُ أَنَّهُ سُبْحَانَهُ ذَمَّ مَنْ أَعْرَضَ عَمَّا أَنْزَلَهُ إلَى تَقْلِيدِ الْآبَاءِ، وَهَذَا الْقَدْرُ مِنْ التَّقْلِيدِ هُوَ مِمَّا اتَّفَقَ السَّلَفُ وَالْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ عَلَى ذَمِّهِ وَتَحْرِيمِهِ، وَأَمَّا تَقْلِيدُ مَنْ بَذَلَ جَهْدَهُ فِي اتِّبَاعِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَخَفِيَ عَلَيْهِ بَعْضُهُ فَقَلَّدَ فِيهِ مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْهُ فَهَذَا مَحْمُودٌ غَيْرُ مَذْمُومٍ، وَمَأْجُورٌ غَيْرُ مَأْزُورٍ، كَمَا سَيَأْتِي بَيَانُهُ عِنْدَ ذِكْرِ التَّقْلِيدِ الْوَاجِبِ وَالسَّائِغِ إنْ شَاءَ اللَّهُ.
[ إعلام الموقعين (ج:2ص:130)]
” تو جواب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو اس کی نازل کردہ سے اعراض رکھے اور اپنے آبا و اجداد کی تقلید کرے ایسی تقلید کی حرمت اور مذمت پر ائمہ اربعہؒ اور سلف صالحین کا اتفاق ہے ۔ اور ایسے شخص کی تقلید جو کوشش کرکے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ کی اتباع کرے اور جو بظاہر چیزیں اس پر مخفی(چھپی) رہ جاتی ہیں ان میں وہ اپنے سے زیادہ علم والے کی تقلید کرتا ہے تو یہ ”محمود “ ہے ”مذموم“ نہیں اس میں وہ ماجور ہے(یعنی اگر مسئلہ غلط ہوا تو خطاپر بھی اجر ملے گا) اس پر کوئی وبال نہیں اور اس کا بیان تقلید واجب اور جائز میں آئے گا ان شاء اللہ تعالٰی“۔
کیا ابن قیم بے دلیل بات کی پیروی کو جواب اور جائز قرار دے رہے ہیں؟
اس سے تقلید محمود اور تقلید مذموم کو فرق بھی واضح ہو گیا الحمدللہ اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ لفظ تقلید کا معنی کیا ہے اور
اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آج کل جو فرقہ اہل حدیث تقلید کے رد میں دلائل دیتا ہے وہ تقلید محمود نہیں بلکہ تقلید مذموم کے رد میں دلائل دیتا ہے جس کا کوئی بھی قائل نہیں، اور تقلید محمود کے واجب ہونے کے دلائل ہیں حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔
نوٹ: حافظ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد حافظ ابن قیمؒ نے بعد میں ایک اجماعی مسئلہ طلاق ثلاثہ کا انکار کیا تھا (اللہ انہیں معاف فرمائے) جس پر انہیں سخت ترین سزائیں بھی ملیں تھی اور اس کا رد انہی کے مذہب والے حنابلہ نے بھی کیا ہے اس لئے بعد میں ان کے مزاج میں کافی شدت تھے۔ فرقہ اہل حدیث کی معتبر ترین فتاوی کی کتاب جسے خود فرقہ اہل حدیث ایک بڑے عالم بریصغیر کی اہم فتویٰ کی کتب میں شمار کرتے ہیں ( دیکھئے فتاوی ثنائیہ مدنیہ ج 1 ص 10 ) میں اس بات کا اقرار کیا گیا ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ ج 2 ص 219)
بہرحال ہمیں تقلید کا معنی معلوم کرنا تھا جو کہ ہم نے معلوم کر لیا اگر تقلید صرف بے دلیل بات کی پیروی کا نام ہوتا تو کیا یہ یہاں اسلئے استعمال کرتے؟
17:۔
مشہور مؤرخ اسلام علامہ عبدالرحمٰن بن محمد المغربیؒ (وفات ۸۰۸ھ) لکھتے ہیں
ومدعی الاجتہاد لھذا العھد مردود علٰی عقبہ مهجود تقلید ہ وقد صار اھل الاسلام الیوم علٰی تقلید ھؤ لا الائمه الاربعهؒ
ترجمہ:” اس زمانے میں اجتہاد کا دعویٰ کرنے والا الٹی چال چلتا ہے اور اس کی تقلید متروک ہے اس لیے کہ اب اہل اسلام حضرات ائمہ اربعہؒ کی تقلید پر ہی کار بند ہیں۔ “۔
(مقدمہ ابن خلدون ص۴۴۸)
گویا کہ اہلحدیث الاٹی کے نزدیک لوگ ائمہ اربعہ کی بے دلیل بات پر کار بندہ ہیں۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
ولما عاق عن الوصول الی رتبۃ الاجتہاد ولما خشی من اسناد ذالک الی غیر اہلہ ومن لایوثق برایہ ولابدینہ فصرحوا بالعجز والاعراز وردوا الناس الی تقلید ہولاء کل من اختص بہ من المقلدین وحظروا ان یتداول تقلید ہم لما فیہ من التلاعب ولم یبق الا نقل مذاہبہم۔
ترجمہ:
جب مرتبہ اجتہاد تک پہنچنا رک گیا اور اس کا بھی خطرہ تھا کہ اجتہاد نا اہلوں اور ان لوگوں کے قبضہ میں چلاجائےگا جن کی رائے اور دین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بڑے بڑے علماء نے اجتہاد سے عجز اور درماندگی کا اعلان کردیا اور لوگوں کو ان چاروں ائمہ کی تقلید پر لگادیا ہر شخص جس کی وہ تقلیدکرتاہے اس کے ساتھ رہے۔
اور لوگوں کو اس سے خبردار کیا کہ وہ ائمہ کی تقلید بدل بدل کر نہ کریں یہ تو دین سے کھیلنا ہوجائے گا اس کے سواکوئی صورت ہی نہیں کہ انہی ائمہ اربعہ کے مذاہب آگے نقل کیے جائیں۔
(مقدمہ ابن خلدون باب 6 فصل 7 ص 448 مصر)
اہلحدیث الاٹیوں کیلئے مشورہ ہے جو انگریز سے آپ نے اپنا نام اہل حدیث الارٹ کروایا ہے وہ اسے واپس کر دیں کیونکہ آپ لوگ اس کے قطعاً کوئی اہل نہیں صرف اس کی بدنامی کر رہے ہیں۔
18:۔
امام برہان الدین ابراہیم بن علی المالکیؒ (وفات 799ھ) فرماتے ہیں:
وقع اجماع الناس علي تقليد هم مع الاختلاف في اعيانهم واتفاق العلماء علي اتباعهم والا قتداء بمبذاهبهم ودرس كتبهم والتفقه علي مأ خذهم والبناء علي ماخذهم والنباء علي قواعدهم والتفريع علي اصولهم دون غير هم
ترجمہ:
”(ائمہؒ کی) تقلید پر اب اجماع ہے اور سب علماء کا اتفاق ہے کہ ان کی پیروی اور ان کے مذاہب کی اقتداء کی جائے اورر ان کی کتابیں پڑھی پڑھائی جائیں اور ان کے دلائل پر فقہ کی بنیاد رکھی جائے ار ان کے قواعد کو مبنیٰ قرار دیا جائے اور صرف انہی کے اصول پر تفریعات کی جائیں نہ کہ دوسروں کے اصول ہر“۔
(الدیباج المذاہب ص 13)
الحمدللہ اسلاف تو ہمارے ساتھ ہیں۔
19:۔
علامہ شاطبیؒ (وفات 790ھ) فرماتے ہیں:
ومتي خيرنا المقلدين في مذاهب الائمة لينقوا منها اطيها عندهم لم ببق مرجع الا الشهرات في الاختيار ، وهذا مناقض لمقصدوضع الشريعة
ترجمہ:
” اگر مقلدین کو یہ اختیار ملتا کہ آئمہ کے مذاہب میں سے جس کو چاہیں اختیار کر سکتے ہیں تو اس کا حاصل سوائے نفس و خواہشات کی پیروی کے کچھ نہ ہوتا اور یہ مقاصد شرع کے خلاف ہے“۔
(الموافقات ج 4 ص 82)
20:۔
حافظ ابن رجب الحنبلیؒ (وفات 795ھ)
نے ایک مستقل رسالہ بنام الرد علي من اتبع المذاهب الاربعة (یعنی ان لوگوں پر رد جومذاہب اربعہ کے علاوه کسی کی تقلید کرے ) لکھا ہے وہاں ایک سوال نکل کرتے ہیں پھر اس کا جواب دیتے ہیں:
فإن قيل: نحن نسلِّم منع عموم الناس من سلوك طريق الاجتهاد؛ لما يفضي ذلك إلى أعظم الفساد. لكن لا نسلم منع تقليد إمام متبع من أئمة المجتهدين غير هؤلاء الأئمة المشهورين. ؟؟
اگریہ سوال کیا جائے کہ ہم یہ بات تو تسلیم کرتے ہیں کہ عوام الناس کو اجتہاد کے راستے پرچلنے سے منع کرنا ضروری ہے ( کیونکہ اگرعوام کواجتهاد کی راه پرلگا دیا جائے ) تو اس میں بہت بڑا فساد وقوع پذیر ہوگا ،لیکن ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ عوام کو صرف ائمہ اربعہ کی تقلید کرنی ہے کسی اور امام مجتہد کی نہیں؟ .
قيل: قد نبهنا على علة المنع من ذلك، وهو أن مذاهب غير هؤلاءلم تشتهر ولم تنضبط، فربما نسب إليهم ما لم يقولوه أو فهم عنهم ما لم يريدوه، وليس لمذاهبهم من يذب عنها وينبه على ما يقع من الخلل فيها بخلاف هذه المذاهب المشهورة.اهـ
جواب = عوام کو ائمہ اربعہ کی تقلید کے علاوه کسی دوسرے امام مجتہد کی تقلید سے منع کرنے کی وجہ اورعلت پرہم نے تنبیہ کردی اور وه یہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے علاوه کسی اور امام مجتہد کا مذہب مشہور ومنضبط نہیں ہوا ، پس بہت دفعہ ان کی طرف وه بات منسوب کی جائے گی جوانهوں نے نہیں کہی ، یا ان سے کسی بات کو سمجھا جائے جوان کی مراد نہ ہوگی ، اور ان کی مذاہب کا دفاع کرنے والا بھی کوئی نہ رہا جو ان کے مذاہب میں واقع ہونے والے خلل ونقص پرتنبیہ کرے ، بخلاف ان مذاہب اربعہ مذاہب مشہوره کے( کہ ان کے تمام مسائل بسند صحیح جمع ومنضبط ہیں اور ان کے علماء بھی برابر چلے آرہے ہیں ) ۔
(الرد علي من اتبع المذاهب الاربعة ص 33)
نویں صدی ہجری
21:۔
امام ابن ہمام (وفات 861ھ ) فرماتے ہیں:
وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔
ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔
(التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)
الحمدللہ تقلید کا معنی بصرت رکھنے والے شخص کیلئے واضح ہو جاتا ہے۔
دسویں صدی ہجری
22:۔
امام جلال الدین سیوطیؒ (وفات 911 ھ ) فرماتے ہیں:
لان العوام يجوز لهم التقليد بالاجماع
ترجمہ:
عوام کو تقلید سے روکنا ممکن نہیں اسلئے کہ عوام کیلئے تقلید کے جائز ہونے پر اجماع ہو چکا ہے۔
(کتاب الرد علی من اخلد الی الارض ص 3)
کیا عوام کیلئے کسی کی بے دلیل بات کی پیروی کرنے پر اجماع ہوا ہے؟
ایک اور جگہ فرماتے ہیں
يجب علي العامي وغيره ممن لم يبلغ مرتبة الاجتهاد التزام مذهب معين من مذاهب المجتهدين
ترجمہ :
”عام لوگ اور وہ حضرات جو اجتہاد کے درجہ کو نہ پہنچیں ان پر مذاہب مجتہدین میں سے کسی ایک معین (امام کی) تقلید واجب ہے“۔
( حاشية العطار ج 2 ص 440) ، (شرح جامع الجوامع بحوالہ خیر التنقید ص 175)
کیا تقلید کا وہی معنی ہے جو نام نہاد اہلحدیث حضرات کے جہلا نے تعین کر رکھا ہے؟ اگر ہے تو یہاں پربھی کوئی کرکے دکھائے۔
الحمدللہ اہلسنت کا موقف واضح ہوا
((اعلم أن اختلاف المذاهب في هذه الملّة نعمة كبيرة وفضيلة عظيمة، وله سرٌّ لطيف أدركه العالِمون، وعَمِي عنه الجاهلون، حتى سمعت بعض الجهال يقول: النبي صلى الله عليه وسلم جاء بشرع واحد، فمن أين مذاهب أربعة))كما في
ترجمہ:
خوب جان لو کہ اختلاف المذاهب مِلت اسلام میں بہت بڑی نعمت اورعظیم فضیلت ہے ، اوراس میں ایک لطیف راز ہے جس کو علماء هی جانتےهیں ، اورجاهل لوگ اس راز سے غافل وبے خبرهیں ، حتی کہ میں نے بعض جاهل لوگوں کویہ کہتے ہوئے سنا کہ نبي صلى الله عليه وسلم توایک شریعت لے کرآئے یہ مذاهب اربعہ کہاں سے آگئیں ؟
(أدب الاختلاف، ص25)
23:۔
علامہ ابن حجر الهيتمي مکیؒ (وفات 973 ھ) فرماتے ہیں
أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین
یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں۔
(فتح المبین ۱۶۶)
سبحان اللہ ابن حجر مکیؒ اور ان کے مشائخؒ کو بھی تقلید کا معنی نہیں آتا تھا اور انگریز کے دور میں فرقہ اہل حدیث کو تقلید کا معنی سمجھ آگیا؟
فرقہ نام نہاد اہل حدیث کا یہ بھی دعوی ہوتا ہے کہ انگریز کے دو سے پہلے سب اہل حدیث تھے اب کیا یہ اہل حدیث تھے اگر یہ اہل حدیث تھے تو آج کے نام نہاد غیرمقلدین تو اہل حدیث نہ ہوئے ؟
24:۔
حضرت امام شعرانی ؒ (وفات 973 ھ)فرماتے ہیں:
فَإِنْ قُلْت فَهَلْ يَجِبُ عَلَى الْمَحْجُوبِ عَنْ الِاطِّلَاعِ عَلَى الْعَيْنِ الْأُولَى التَّقَيُّدُ بِمَذْهَبٍ مُعَيَّنٍ . فَالْجَوَابُ نَعَمْ يَجِبُ عَلَيْهِ ذَلِكَ لِئَلَّا يَضِلَّ فِي نَفْسِهِ وَيُضِلَّ غَيْرَهُ
ترجمہ:
” اگر تم یہ سوال کرو کہ کیا شریعت کے اصل سر چشمہ کی اطلاع سے محروم شخص کیلئے تقلید معین واجب ہے تو جواب یہی ہے کہ ہاں لازم ہے اور یہ اسلئے تاکہ وہ نہ خود گمراہ ہو نہ کسی کو گمراہ کر سکے“۔
(فتح العلي المالك ص 104)
گیارہویں صدی ہجری
25:۔
محدث کبیر شارح الجامع الصغیر علامہ مناوي القاهري (وفات1031ھ)فرماتے ہیں
ويجب علينا أن نعتقد أن الأئمة الأربعة والسفيانين والأوزاعي وداود الظاهري وإسحاق بن راهويه وسائر الأئمة على هدى۔۔۔ وعلى غير المجتهد أن يقلد مذهبا معينا۔۔۔ لكن لا يجوز تقليد الصحابة وكذا التابعين كما قاله إمام الحرمين من كل من لم يدون مذهبه فيمتنع تقليد غير الأربعة في القضاء والافتاء لأن المذاهب الأربعة انتشرت وتحررت حتى ظهر تقييد مطلقها وتخصيص عامها بخلاف غيرهم لانقراض اتباعهم وقد نقل الإمام الرازي رحمه الله تعالى إجماع المحققين على منع العوام من تقليد أعيان الصحابة وأكابرهم۔
(فيض القدير شرح الجامع الصغير (ص/201)
”ہم پر یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ آئمہ اربعہؒ ، سفیان ثوریؒ و سفیانؒ بن عیینہ ؒ، امام اوزاعیؒ، داؤد ظاہریؒ، اسحٰق بن راہویہ ؒاور تمام آئمہ راہ راست پر تھے۔۔۔اور غیر مجتہد پر لازم ہے کہ کسی معین مذہب کی تقلید کرے۔۔۔ لیکن صحابہؓ کی تقلید جائز نہیں ، اسی طرح تابعینؒ کی تقلید بھی جیسا کہ امام الحرمین ؒکی تحقیق سے واضح ہے کہ جس امام کا مذہب مدون نہ ہو اس کی تقلید جائز نہیں ۔ لہذا قضا ء و افتاء میں آئمہ اربعہؒ کے علاوہ کسی اور کی تقلید جائز نہیں۔ کیونکہ مذاہب اربعہ اس حد تک مشہور اور پھیل گئے کہ ان میں مطلق کی قیودات عموم کی تخصیصات بھی واضح ہیں، برخلاف دیگر مذاہب کے کہ ان میں یہ چیز نہیں کیونکہ ان کے پیروکار جلد ہی ختم ہو گئے تھے۔ امام رازیؒ نے اجماع نقل کیا ہے کہ عموام کو اکابر صحابہ کی تقلید سے منع کیا جائے گا “۔
گویا کہ محدث مناویؒ بھی یہ کہہ رہے ہیں غیر مجتہد پر مجتہد کی بے دلیل بات کی پیروی لازم ہے؟
محدث مناویؒ کے قول کی وضاحت کہ وہ کیوں دیگر مجتہدین کی تقلید سے منع کر رہے ہیں
محدث کبیر شارح صحیح مسلم علامہ نوويؒ (المتوفى: 676ھ) فرماتے ہیں
وليس له التذهب بِمَذْهَبِ أَحَدٍ مِنْ أَئِمَّةِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَغَيْرِهِمْ مِنْ الْأَوَّلِينَ وَإِنْ كَانُوا أَعْلَمَ وأعلا دَرَجَةٍ مِمَّنْ بَعْدَهُمْ لِأَنَّهُمْ لَمْ يَتَفَرَّغُوا لِتَدْوِينِ الْعِلْمِ وَضَبْطِ أُصُولِهِ وَفُرُوعِهِ فَلَيْسَ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ مَذْهَبٌ مُهَذَّبٌ مُحَرَّرٌ مُقَرَّرٌ وَإِنَّمَا قَامَ بِذَلِكَ مَنْ جَاءَ بَعْدَهُمْ مِنْ الْأَئِمَّةِ النَّاحِلِينَ لِمَذَاهِبِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ الْقَائِمِينَ بِتَمْهِيدِ أَحْكَامِ الْوَقَائِعِ قَبْلَ وُقُوعِهَا النَّاهِضِينَ بِإِيضَاحِ أُصُولِهَا وَفُرُوعِهَا كَمَالِكٍ وَأَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِمَا.
”اکابر ین صحابہ وغیرہ اگر چہ بعد والوں سے علم و عمل میں بہت آگے ہیں لیکن پھر بھی کسی کیلئے جائز نہیں کہ صحابہ کے مذہب کو اپنائے ، کیونکہ صحابہ کرام کو اتنا موقع نہیں ملا کہ وہ اپنے مذہب کو مدون کرتے اور اس کے اصول و فروع کو محفوظ کرتے، اسی وجہ سے صحابہ میں سے کسی بھی صحابی کا مذہب مدون و منقح نہیں ، ہاں بعد میں آنے والے آئمہ امام مالکؒ، اما م ابو حنیفہؒ وغیرہ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور باقاعدہ مذاہب مدون کرکے ان کے اصول و فروع کو محفوظ کیا اور مسائل کے وقوع سے پہلے ان کا حل تلاش کیا“۔
(المجموع شرح المهذب ص/55)
26:۔
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ (وفات 1052ھ) فرماتے ہیں:
” امام ابو حنیفہؒ کے پیرونکو حنفی اور مالکؒ کے مقلدوں کو مالکی اور شافعی کے ماننے والونکو شافعی اور احمد بن حنبلؒ کے تابعدارونکو حنبلی کہتے ہیں اور ان مسائل میں انکی پیروی کا نام تقلید ہے اور یہ تقلید ضروری ہے“۔ (عقائد اسلام ص 121)
الحمدللہ ہر باشعور آدمی سمجھ سکتا ہے کہ تقلید کا معنی اہل علم کے نزدیک کیا ہے۔
باروں صدی ہجری
27:۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (وفات 1176ھ) فرماتے ہیں۔
لان الناس لم یز الوا من زمن اصحابة الٰی ان ظہرت المذاھب الاربعة یقلدون من
اتفق من العلما ء من غیر نکیر یعتبر
”حضرت صحابہ کرام ؓ کے زمانہ سے لے کر مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگ علماء کرام میں سے جس کا بھی اتفاق ہوتا برابر تقلید کرتے رہے اور بغیر کسی قابل اعتبار انکار کے یہ کاروائی ہوتی رہی اگر تقلید باطل ہوتی تو وہ حضرات ضرور اس کا انکار کرتے“۔
(عقید الجید ص29)
ایک وقت پہلے حضرت شاہ صاحبؒ کو اہلحدیث الاٹی لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے اپنی طرف کھینچا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ ہمارے ہیں اور آج کل ان سے نظریں چرا کر بھاگتے ہیں۔
اگر تقلید کا بس یہی معنی ہے جو اہحدیث الاٹی نے سمجھا ہے تو کیا معاذ اللہ حضرت شاہؒ یہ فرما رہے ہیں کہ حضرات صحابہ کرامؓ کے زمانہ سے آج تک لوگ بے دلیل باتوں کی پیروی میں لگے ہیں ؟
اس سے ایک وکٹورین اہلحدیثوں کا ایک اور جھوٹ بھی بے نقاب ہو گیا جو یہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کی طرف یہ جھوٹی بات منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ تقلید چوتھی صدی سے شروع ہوئی کیونکہ جاہل نام نہاد اہلحدیث حضرات شاہ صاحبؒ کی بات سمجھنے سے آج تک عاجز ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ ہم قرآن حدیث زیادہ سمجھتے ہیں۔
ایک اور جگہ حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں
وجب علیہ ان یقلد لمذہب ابی حنیفۃ ویحرم علیہ ان یخرج من مذہبہ۔
ترجمہ:
ْ(ہندوستان اور ماوراء النہر میں رہنے والوں کے لیے) واجب ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کریں اور ان پر حرام ہے کہ آپ کے مذہب کی پروی سے نکلیں ۔
(الانصاف ص 53)
الحمدللہ اہل حق کا موقف واضح ہوا۔
28:۔
حضرت علامہ عبد العلي محمد بن نظام الدين محمد السهالوي الأنصاري اللكنوي (وفات 1225ھ) فرماتے ہیں:
وليه البناء ابن الصلاح منع التقليد غير الائمة الاربعة
ترجمہ :
”اور اسی بنا پر ابن الصالحؒ نے ائمہ اربعہ کے سوا دوسروں کی تقلید سے منع کیا ہے“۔
(فواتح الرحموت ص 269)
29:۔
محمد بن عبد الوہابؒ (وفات 1206ھ) اپنے اوپر لگے کچھ بہتانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اني مبطل كتب المذاهب الاربعة ۔ ۔ ۔ ۔ واني ادعي الاجتهاد ؛ واني خارج عن التقليد
ترجمہ:
”مجھ پر یہ کھلے بہتان ہیں کہ میں اجتہاد کا دعوی کرتا ہوں اور تقلید سے اپنے آپ کو خارج سمجھتا ہوں“
(الدررالسنية ص 34)
محمد بن عبد الوہابؒ کو بھی چند غیرمقلدین اپنے طرف کھینچتے پھرتے ہیں جبکہ خود ان کے ایک بڑے عالم مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں
”محمد بن عبد الوہاب جو کہ حنبلی مذہب کے مقلد تھے“۔ (تاریخ اہل حدیث ص 171)
گویا کہ یہ بھی مقلد تھے اور بے دلیل بات کی پیروی کرتے تھے؟
30:۔
القاضي عبد النبي بن عبد الرسول الأحمد نكري ؒ (وفات 1173ھ) فرماتے ہیں:
التَّقْلِيد: إتباع الْإِنْسَان غَيره فِيمَا يَقُول بقول أَو بِفعل مُعْتَقدًا للْحَقِيقَة فِيهِ من غير نظر وَتَأمل فِي الدَّلِيل ۔۔۔۔۔۔۔ثمَّ اعْلَم أَن التَّقْلِيد على ضَرْبَيْنِ صَحِيح وفاسد
”تقلید کہتے ہیں کہ انسان کسی کو حق پر سمجھتے ہوئے دلیل میں غور و خوص کئے بغیر قولاً و فعلاً اس کی پیروی کرے“۔ ” جاننا چاہئے کہ تقلید کی دو قسمیں ہیں تقلید صحیح اور تقلید فاسد“۔
تیرہویں صدی ہجری
31: ۔
علامہ آلوسی بغدادیؒ(وفات 1270ھ) فرماتے ہیں:
اتباع الغير في الدين بعد العلم بدليل ما أنه محق فاتباع في الحقيقة لما أنزل الله تعالى- وليس من التقليد المذموم في شي
ترجمہ:
”دینی معاملات میں کسی کا اتباع کرنا جب کہ اس کے حق پر ہونے کا علم بھی ہو درحقیقت اللہ کے احکامات کی پیروی کرنا ہے، تقلید مذموم کا اس سے کوئی ربط و جوڑ نہیں“۔
( روح المعاني ج 1 ص 438)
علامہ آلوسیؒ اپنے تفسیر میں علامہ جلال الدین سیوطیؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
على جواز تقليد العام في الفروع
”عامی (غیرمجتہد) پر فروع میں تقلید جائز ہے“۔
(روح المعانی ج 7 ص 387)
32:۔
مفسر قرآن حضرت امام صاویؒ (وفات 1241ھ) فرماتے ہیں:
ولا يجوز تقليد ماعد المذاهب الاربعة ولو وافق قول الصحابة والحديث الصحيح والاية فالخارج عن المذاہب الاربعة ضال مضل وربما اداہ ذالك للكفر لان الاخذ بظواهر الكتاب والسنة من اصول الكفر
ترجمہ:
”چار مذہبوں کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اگرچہ وہ صحابہ کے قول اور صحیح حدیث اور آیت کے موافق ہی ہو۔ جو ان چار مذاہبوں سے خارج ہے وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے۔ کیونکہ قرآن و حدیث کے محض ظاہری معنی لینا کفر کی جڑ ہے“۔
(تفسير صاوي ج 3 ص 9)
33:۔
شاہ اسماعیل شہیدؒ (وفات 1246ھ) فرماتے ہیں:
”علم احکام شرعیہ جو دو طریقوں سے حاصل ہوتا ہے ایک تقلید سے دوسرے تحقیق سے پھر تحقیق کے دو طریقے ہیں پہلا اجتہاد بشرطیکہ معقول طور سے ذوی العقول کو ہو دوسرا الہام بشرطیکہ مداخلت نفسانی سے محفوظ ہو“۔
(منصب امامت ص 83-84)
شاہ اسماعیل شہیدؒ کی بات بھی بلکل واضح ہے دعا ہے کہ اہل حدیث الارٹی اتنا تو سمجھ ہی سکتے ہوں۔
شاہ صاحبؒ کو بھی ایک وقت تک جدید اہلحدیث اپنے طرف کھینچا کرتے تھے اور لوگوں کو جھوٹ بول کر دھوکہ دیا کرتے تھے کہ یہ ہمارے ہیں اور آج کل جب عوام کو یہ کتب بآسانی میسر ہیں تو ان سے جان چھڑاتے پھرتے ہیں۔
34:۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ (وفات 1239ھ) قرآن پاک کی ایک آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۰ الملک﴾
اور کہیں گے (دوزخ والے) اگر ہم ہوتے سنتے یا سمجھتے تو نہ ہوتے دوزخ والوں میں
”بعض حضرات مفسرین کرامؒ نے نسمع کو تقلید پر اور نعقل کو تحقیق و اجتہاد پر محمول کیا ہے ۔ ان دونوں لفظوں سے یہی مراد ہے کہ یہ دونوں نجات کے ذریعہ ہیں“۔(تفسیر عزیزی اردو ج 3 ص 23)
الحمدللہ نجات کے دو ہی ذریعے ہیں یا تقلید یا اجتہاد جو مجتہد ہے وہ اجتہاد کرتا ہے اور غیر مجتہد ہے وہ مجتہد کی تقلید کرتا ہے تیسرا کوئی ذریعہ نہیں۔
حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ کی بات نہ ماننے والے کو میاں نذیر حسین دہلوی جو کہ فرقہ اہل حدیث کے ہاں بڑے اونچے درجے کے محدث شمار ہوتے ہیں وہ اسے مردود قرار دیتے ہیں ۔
چنانچہ فرماتے ہیں:
”مردود ! کیا یہ حضرات گھس گٹے تھے ایسی ہی اڑان گھائی اڑاتے تھے؟“
(الحیات بعد الممات ص 166)
35:۔
علامہ عبد العزیز فرہارویؒ (وفات 1239ھ) فرماتے ہیں:
ثم من لم يكن مجتهدا وجب عليه اتباع المجتهدا لقوله تعالٰي : فاسالو اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون ولا جماع السلف علي ذلك وهذا الاتباع يسميٰ تقليدا۔
ترجمہ:
” جو مجتہد نہیں ہے اس پر مجتہد کی اتباع کرنا واجب ہے، اسلئے کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم خود نہیں جانتے۔ نیز اس لئے بھی واجب ہے کہ اس پر سلف صالحین کا اجماع ہے اور اسی اتباع کا نام تقلید ہے“۔
(نبراس شرح العقائد ص 72)
سبحان اللہ العظیم
چودہویں صدی ہجری
36:۔
شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ(وفات 1421ھ) فرماتے ہیں:
والتقليد في الواقع حاصلٌ من عهد الصحابة رضي الله عنهم فإن الله تعالى يقول (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ) ولا شك أن من الناس في عهد الصحابة رضي الله عنهم وإلى عهدنا هذا من لا يستطيع الوصول إلى الحكم بنفسه لجهله وقصوره ووظيفة هذا أن يسأل أهل العلم وسؤال أهل العلم يستلزم الأخذ بما قالوا والأخذ بما قالوا هو التقليد
[ فتاوى نور على الدرب (ج/6)(ص/2)]
””حقیقت یہ ہے کہ تقلید صحابہ ؓ کے دور سے موجود ہے ۔۔۔ کوئی شک نہیں کیا جاسکتا کہ صحابہ کے دور میں لوگوں کی ایک تعداد ایسی تھی کہ جو خود حکم شرعی تک نہیں پہنچ سکتی تھی، اسلئے کہ وہ علم نہیں رکھتے تھے ایسے لوگوں کا فریضہ یہی تھا کہ اہل علم سے پوچھ کر مسئلہ پر عمل کریں اور یہی تقلید ہے“۔
الحمدللہ پہلے تو تقلید کا معنی واضح ہو گیا پھر یہ بھی ثابت ہو گیا کہ تقلید کا وجود صحابہ کرامؓ کے مبارک دور سے ہے۔
37:۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ (وفات 1362ھ) فرماتے ہیں:
اس وقت ائمہ اربعہ ؒکے مذاہب ہی میں تقلید منحصر ہے اور تقلید شخصی واجب ہے1 اور تلفیق (خواہشات نفس کی وجہ سے کبھی کسی امام کے قول کو لینا اور کبھی کسی امام کے قول کو لینا) باطل ہے۔
(ہدایہ اہل حدیث ص 26)
تذکرۃ الرشید کی ایک عبارت پر اعتراض کا جواب
مشکل وقت میں یہ عبارت غیرمقلدین کے کام آتی ہے کیونکہ قرآن حدیث میں تو کوئی ایک بھی دلیل موجود نہیں جس میں اللہ نے اولی الامر (فقیہ) اہل استنباط کی تقلید سے منع کیا ہو جیسا اس نے کافروں منافقوں بے عقلوں کی تقلید سے منع کیا ہے۔
بہرحال یہ بھی ان کے کسی کام نہیں آسکتی۔
تذکرۃ الرشید کےایک حوالہ سے وکٹورین اہل حدیث حضرا ت کچھ باتیں اپنے حق میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں ایک یہ بات بھی ہے کہ مولانا تھانویؒ یہ کہتے ہیں کہ تقلید شخصی پر کبھی اجماع نہیں جب کہ مولانا ؒ فرماتے ہیں وہ میں نے بطور تحقیق اور رائے کے نہیں لکھا بلکہ (اپنے شیخ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ)،، کو بطور اشکال کے پیش کیا ہے۔(امداد الفتاویٰ جلد4 ص 383)
مولانا تھانویؒ نے خود اپنی اس بات کا اقرار بھی کیا ہے کہ اہلسنت والجماعت مذہب اربعہ میں منحصر ہونے پر اجماع ہے۔ (اجتہاد و تقلید آخری فیصلہ ص 51)اوراس سے خروج ممنوع ہے۔(ص 52)
خود غیرمقلدین کے ایک مولوی صاحب اس بات کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : کچھ عرصہ سے ہندستان میں ایک ایسے غیر مانوس مذہبب کے لوگ دیکھنے میں آرہے ہیں جس سے لوگ بالکل نا آشنا ہیں،پچھلے زمانہ میں شاذ و نادر اس خیال کے لوگ کہیں تو ہوں مگر اس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے، بلکہ ان کا نام ابھی تھوڑے ہی دنوں میں سنا ہے۔ اپنے آپ کو اہل حدیث یا محمدی یا موحد کہتے ہیں مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے۔
الارشاد الی سبیل الرشاد صفحہ 13))
اس کے علاوہ ایک جگہ ان کے مولوی صاحب لکھتے ہیں ” بریصغیر میں علمائے اہل حدیث کا سلسلہ میاں نذیر حسین دہلوی صاحب سے شروع ہوتا ہے“۔
چالیس علمائے اہل حدیث صفحہ 28))
اس سے پہلے تمام امت بغیر تلقین کے اپنے ہی مجتہد امام کی تقلید پر متفق تھی کیونکہ عمل زیادہ معنی رکھتا ہے الفاظ سے عین ممکن ہے مولانا صاحب نے یہ اس وقت لکھا تھا جب کہ تقلید شخصی کا لفظ اصطلاح میں پہلی صورت کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔ اور آج کے دور میں تقلید شخصی بغیر تلقین اور بغیر دوسرے مجتہدین کو باطل قرار دیتے ہوئے اپنے مجتہد امام کی تقلید کا پابند ہونے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، چونکہ اہلسنت کے تمام مذاہب اپنے اپنے مجتہد کے مسائل و قواعد کے پابند رہتے آئے ہیں تو اس پر بلا شبہ اجماع ثابت ہوتا ہے۔
اب ذرہ غیرمقلدین پر نظر ڈالتے ہیں
غیرمقلدین کے شیخ الکل صاحب لکھتے ہیں:
صحابہ اور تمام مومنین کا قرون اولی میں اس پر اجماع ثابت ہوا کہ (وہ) کبھی ایک مجتہد کی تقلید کرتے اور کبھی دوسرے مجتہد کی۔
) (میاں نذیر حسین دہلوی غیرمقلد معیار الحق ص۱۴۳
اب فرقہ اہل حدیث کے جہلا کی تسلی کیلئے ان کے گھر کی وزنی شہادتیں ان کے بڑے بڑے علماء کرام سے جو بڑے زور و شور سے تقلید مجتہد کے خلاف اٹھے تھے مگر اس مسئلہ میں اپنی عاجزی کا اقرار کر گے۔
1: ۔
فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث حضرات کے مایہ ناز محدث ناصر الدین البانی صاحب لکھتے ہیں:
”تقلید کی حرمت کی دلیل مجھے معلوم نہیں البتہ جس کے پاس علم نہیں ہے اس کا تقلید کے بغیر کوئی چارہ نہیں“۔ (فتاوی البانیہ ص 124)
گویا کہ جس کے پاس علم نہیں اس کیلئے کسی کی بے دلیل بات ماننے کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
ایک اور جگہ لکھتے :
”اپنے سے زیادہ علم والے کی تقلید اس بندے کیلئے واجب ہے“۔ (فتاوی البانیہ ص 126)
گویا کہ اپنے سے زیادہ علم والے کی بے دلیل بات ماننا واجب ہے؟
2: ۔
فرقہ اہل حدیث کے بانی اور اس کے شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب دہلوی فرماتے ہیں:
” پس جب کہ کل صحابہ اور تمام مومننین کا قرون اولی میں اسس پر اجماع ثابت ہوا کہ کبھی ایک مجتہد کی تقلید کرتے اور کبھی دوسرے مجتہد کی “ ۔
(معیار الحق ص 143)
گویا کہ صحابہ اور تمام مومنین کا اس پر اجماع ہوا کہ کبھی وہ ایک مجتہد کی بے دلیل بات کی پیروی کرتے تو کبھی دوسرے مجتہد کی ؟
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
” رہی تقلید وقت لا علمی سو یہ چار قسم ہے قسم اول واجب“۔ (معیار الحق ص 80)
گویا کہ لاعلمی کے وقت کسی کی بے دلیل بات ماننے واجب ہو جاتی ہے ؟ کیونکہ آج کل کے جاہل اہلحدیث حضرات کے نزدیک یہی ایک معنی ہے تقلید کا۔
یا آج کے یہ جاہل اہلحدیث حضرات تقلید کے معنی سمجھنے سے جاہل ہیں یا ان کے بڑے شیخ الکل میاں نذیر حسن دہلوی صاحب تقلید کا معنی سمجھنے سے جاہل تھے۔
3: ۔
فرقہ اہلحدیث کے ایک اور مشہور عالم مولانا ابراہیم صاحب سیالکوٹی لکھتے ہیں:
” ہمارے حنفی بھائی ہم اہلحدیثوں کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہم تقلید مطلقاً انکار کرتے ہیں“۔ (تاریخ اہل حدیث 146)
” ہمارے بے نزاع اور بے نظیر پیشوا شخینا و شیخ الکل شمس العلماء حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے اپنی مایہ ناز کتاب معیار الحق میں اس مسئلہ کو نہایت تفصیل سے بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ باقی رہی تقلید وقت لا علمی س یہ چار قسم ہے قسم اول واجب ہے اور وہ مطلق تقلید ہے“۔ (تاریخ اہل حدیث 147 )
گویا کہ لاعلمی میں کسی کی بے دلیل بات ماننی واجب ہوتی ہے؟
4: ۔
فرقہ اہل حدیث کے ایک اور مشہور عالم داؤد غزنوی صاحب کے سوانح میں لکھتے ہیں:
”وہ تقلید کو بعض حالتوں میں واجب قرار دیتے تھے اور بعض میں جائز سمجھتے تھے“۔
گویا کہ بے دلیل بات ماننی بعض حالتوں میں واجب اور بعض میں جائز ہوتی ہے؟
اگے فرماتے ہیں:
” ائمہ اہل سنت میں سے کسی ایک امام کی تقلید کو جو بغیر تعین کے ہو واجب قرار دیتے تھے“۔
(داؤد غزنوی ص 375)
ماشاء اللہ یہ اہلسنت احناف کی شاندار فتح ہے جو ان کے بڑے بڑے آخر کار مسئلہ تقلید میں اپنے مسلک کو کمزور اور بے کس سمجھ کر کسی حد اپنی شکست کو تسلیم کر گے۔
5: ۔
فرقہ اہل حدیث ایک اور مشہور عالم اور محدث یحیی گوندلوی صاحب فرماتے ہیں:
”بعض دفع تقلید جائز اور بعض دفع واجب ہوتی ہے“۔
(الاصلاح ج 1 ص 159)
گویا کہ بعض دفع کسی کی بے دلیل بات ماننی واجب ہوتی اور بعض دفع جائز ؟
6: ۔
وکیل اہلحدیث مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی جس نے اپنے فرقہ کیلئے انگریز سے اہل حدیث نام الارٹ کروایا فرماتے ہیں:
”پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر کا اسلام کو سلام کر بیٹھتے ہیں ان میں سے بعض عیسائی ہو جاتے ہیں بعض لامذہب“۔ (رسالہ اشاعۃ السنہ نمبر 5 ج 23 ص 154)
سبحان اللہ العظیم
اگر ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
7: ۔
فرقہ اہل حدیث کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
” (تقلید مطلق ) جو اہل حدیث کا مذہب ہے“۔ (فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 254)
ماشاء اللہ ہر ایک ہی بے دلیل بات کی پیروی کرنے کو ثناء اللہ امرتسری صاحب نے اہلحدیث کا مذہب قرار دیا ہے۔
8: ۔
فرقہ اہل حدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
والتقليد لا يجوز الا لغير المجتهد
”تقلید جائز نہیں مگر غیر مجتہد کو“۔ (التاج المکلل ص 457)
گویا کہ نواب صدیق حسن خان صاحب غیر مجتہد کیلئے تقلید کو جائز سمجھتے تھے اور مجتہد کیلئے تقلید کو ناجائز سمجھتے تھے۔
9:۔
فرقہ اہلحدیث کے ایک مشہور عالم اور محدث نواب وحید الزمان صاحب جسے خود فرقہ اہل حدیث نے امام اہلحدیث قرار دیا ہے دیکھئے (سلفیہ تحقیق جائزہ ص 625) لکھتے ہیں:
” عامی کیلئے مجتہد یا مفتی کی تقلید لازمی ہے“ ۔ (نزل الابرار ج 1 ص 7)
گویا کہ مجتہد یا مفتی کے بے دلیل بات عامی کیلئے ماننی لازم ہے؟
کیا فرقہ نام نہاد اہلحدیث کے ان اکابر علما ء کے گلے میں مطلق تقلید کا پٹہ پڑا ہوا تھا ؟ یہ سوال اب ہم جماعت اہلحدیث پر چھوڑتے ہیں۔
تقلید مجتہد کے متعلق اسلاف کی شہادتیں
فقہ حنفی اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک تقلید مجتہد واجب ہے۔