Monday, 27 May 2024

پروفیسر سید محمد طارق حسن رحمہ اللہ جوار رحمت میں

پروفیسر سید محمد طارق حسن رحمہ اللہ جوار رحمت میں
یہ خبر علمی و دینی، ملی اور سماجی حلقوں میں بڑے رنج و افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ کے مؤقر مہتمم، تواضع، سادگی اور خاکساری کے پیکر شریف الطبع اور کریم النفس انسان، امام شھر امروھہ اور سابق صدر شعبہ فارسی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سید محمد طارق حسن صاحب نوراللہ مرقدہ گذشتہ شب راہی ملک بقاء ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ہمارے مہتمم صاحب گرچہ پچھلے کئی سال سے علیل چل رہے تھے۔ عمر کے ساتھ ساتھ ضعف بھی بڑھتا جارہا تھا جس کی بناء پر زیادہ وقت علی گڑھ ھی میں گزرتا تھا امروہہ آنا بھی بہت کم ہوگیا تھا لیکن ان کا وجود، سرپرستی اور دعائیں برابر کارفرما تھیں جس کے اثرات مدرسہ کے ماحول میں عیاں تھے مگر افسوس آج ہم سب پدرانہ شفقت کا مظاھرہ کرنے والے مہتمم صاحب کی سرپرستی اور دعاؤں سے محروم ہوگئے۔
باری تعالٰی مرحوم کی مغفرت تامہ فرمائیں، درجات بلند فرمائیں ، پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل سے نوازیں اور مدرسہ کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائیں۔
آپ کی تاریخ ولادت 20 اپریل 1943 ہے۔ پرائمری پنجم اور ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ میں حاصل کی، بعد ازاں امام المدارس انٹر کالج امروہہ سے پہلے ہائی اسکول پھر انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد رام پور رضاء ڈگری کالج سے بی اے پاس کرکے 1965 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی میں فرسٹ پوزیشن سےایم اے کیا اور گولڈ میڈل اعزاز کے مستحق قرار دئے گئے ، پھر آپ نے ملک کے معروف فارسی اسکالر پروفیسر نذیر احمد کے زیر نگرانی ھندوستان میں لکھی جانے والی ساتویں فارسی لغت " شرف نامہ احمد منیری " کی تصحیح و تدوین کے موضوع پر اپنا پی ایچ ڈی مقالہ لکھا جس پر 1970 میں آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ھوئی ، اسی سال آپ شعبہ فارسی میں لکچرار مقرر ھوئے چھ سات سال عارضی طور پر کام کرنے کے بعد 1977 میں  مستقل طور پر لکچرار مقرر ھوگئے پھر ترقی کرکے 1984 میں ریڈر اور 1991 میں پروفیسر مقرر ھوئے ، 1996 میں آپ کو صدر شعبہ فارسی بنایا گیا پھر 2005 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ملازمت سے سبکدوش ھوئے ۔
2009 میں فارسی زبان و ادب کی وسیع تر خدمات کے تناظر میں آپ کو صدر جمہوریہ ھند ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ، بعد ازاں 2015 میں حکومت راجستھان کی جانب سے بھی آپ کو ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔
مختلف موضوعات پر علمی و تحقیقی مقالات کے ساتھ ساتھ آٹھ سے زائد کتابیں آپ کے گہربار قلم سے منصہ شہود پر آئی پیں، نثر نگاری کے ساتھ اردو و فارسی شعر گوئی کا ستھرا ذوق بھی آپ رکھتے تھے۔
مہتمم صاحب رحمہ اللہ سادات امروھہ کے اس معروف خانوادے سے تعلق رکھتے ھیں جس کا علم و فضل سے گہرا رشتہ رھا ھے ، آپ کے جد بزرگوار عارف باللہ حضرت حافظ سید زاھد حسن صاحب رحمہ اللہ  سید الطائفہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ کے مجاز و خلیفہ اور خاص تربیت یافتہ لوگوں میں تھے ، حج کے سفر پر گئے تو تقریبا ڈیڑھ برس مکہ مکرمہ میں حاجی صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں رھے اور آپ سے مثنوی مولانا روم درسا پڑھی، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ سے بھی آپ بڑی قربت اور گہری عقیدت رکھتے تھے۔ امروہہ میں شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے میزبان آپ ہی ہوا کرتے تھے، مہتمم صاحب کے والد گرامی حضرت مولانا سید حامد حسن صاحب علیہ الرحمہ بھی صاحب علم ھونے کے ساتھ اعلی درجہ کے منتظم اور  روایات اکابر کے امین تھے ، عرصہ دراز تک مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروھہ کے منصب اھتمام پر آپ فائز رہے۔
مہتمم صاحب رحمہ اللہ واقعتا نمونہ اسلاف اور اپنے بزرگوں کی زندگی کے آئینہ دار تھے۔ آپ کی زندگی کا طویل عرصہ اگرچہ کالجوں اور یونیورسٹی میں گزرا لیکن خاندانی شرافت و دینداری، اعلی ظرفی اور اخلاق و کردار کی بلندی اسی طرح روایات اکابر کی پاسداری آپ کی ذات میں نمایاں رہی۔
اپریل 2007 میں آپ کے برادرخورد حضرت مولانا مفتی سید محمد قاسم صاحب نوراللہ مرقدہ کے اچانک انتقال کے بعد مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ کے اھتمام کی ذمےداری آپ کے کاندھوں پر آگئی۔
اس میدان کا تجربہ نہ ھونے اور مختلف نزاکتوں کی وجہ سے آپ نے اس اہم ذمے داری کو قبول کرنے کے سلسلہ میں سختی کے ساتھ اظھار معذرت کی لیکن اراکین شوری کے اصرار پر اس بار گراں کو آپ نے قبول کیا اور پھر جس خوش اسلوبی کے ساتھ امور مدرسہ کو انجام دیا اس کا ھر شخص معترف و قائل ہے، بلاشبہ آپ کا دور اہتمام مدرسہ کی تاریخ میں روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے، تعلیمی اور تعمیری ھر اعتبار سے مدرسہ نے اس دوران جن بلندیوں کو چھوا ہے۔ اس میں مہتمم صاحب کے خلوص و للہیت اور آہ سحر گاھی کا بڑا دخل ہے۔
مدرسین و ملازمین اور طلبہ عزیز کے ساتھ آپ کا معاملہ بڑا کریمانہ و مشفقانہ تھا ، کسی بھی موقعہ پر اور کبھی بھی اساتذہ کرام کو مخاطب کرتے ھوئے آپ کے لہجہ میں تلخی ، ترشی ، اظہار برتری اور تعلی محسوس نہیں کی گئی ، لینت اور نرم مزاجی آپ کا شیوہ تھا ، انتظامی اور تدریسی معاملات میں گفتگو کرتے وقت بارہا اشکبار ھوجاتے جس کا ھر ساتھی کے دل پر گہرا اثر ھوتا تھا، اساتذہ کرام کے لئے تنخواہوں میں اضافے اور ان کو مختلف مراعات دینے کے لئے آپ خود کوشاں رھتے اور مجلس شوری میں اساتذہ کی جانب سے بحیثیت وکیل گفتگو فرماتے۔
*مدرسہ میں معیار تعلیم کو بلند کرنے کی غرض سے مختلف لوازمات کو مہیا کرنے ، طلبہ کی تعداد میں اضافے اور ان کو خاطر خواہ سہولیات فراہم کرنے اور حسب ضرورت تعمیری کاموں کو انجام دینے کے حوالے سے آپ ھمیشہ کشادہ قلبی کا معاملہ فرماتے رھے ، کبھی بجٹ کی پرواہ نہیں کی بلکہ فرماتے تھے ھماری نیت اگر درست ھوگی تو اللہ پاک اسباب و وسائل ضرور پیدا کریں گے جو کچھ ھورھا ھے وہ بھی انہیں کے کرم سے ھے اور جو آئندہ ھوگا وہ بھی فضل الہی کا نتیجہ ہوگا۔ آپ تو اردہ کرکے نیک نیتی کے ساتھ قدم بڑھائیں اللہ پاک کی نصرت شامل حال ہوگی۔
بندے کے ساتھ روز اول سے آپ نے جس خورد نوازی ، کرم فرمائی اور اپنائیت کا معاملہ فرمایا وہ بے مثال ھے ، جزاھم اللہ احسن الجزاء ۔
جمعیت علماء ھند اور اس کی تحریکوں سے آپ کو خاصی دلچسپی رھی ، کئی ٹرم امروھہ یونٹ کے صدر رھے اور جمعیت علماء صوبہ یوپی کے نائب صدر و رکن عاملہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رھے۔
دکھ کی اس گھڑی میں ھم مہتمم صاحب کے جملہ اھل خانہ بالخصوص اھلیہ محترمہ، برادرگرامی پروفیسر سید محمد ہاشم، فرزند محترم پروفیسر سید نعمان طارق اور چاروں بیٹوں کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعاگو ھیں کہ اللہ رب العزت و الجلال مرحوم کو اپنی رضا و رضوان سے نوازیں اور خدمات جلیلہ کا بہترین بدلہ عنایت فرمائیں۔
(بقلم: محمد عفان منصورپوری۔ مدرس مدرسہ اسلامیہ عربیہ۔ جامع مسجد امروہہ۔ 18 ذیقعدہ 1445۔ 27 مئی 2024) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/05/blog-post_27.html




Sunday, 19 May 2024

نیت کیساتھ ارادہ اور عملی قدم

نیت کیساتھ ارادہ اور عملی قدم
مفتی تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ ان کی ایک بہن جوانی میں فوت ہوگئی تھیں۔ ان کو حج کا بڑا شوق تھا مگر وہ بے حد غریب تھیں۔ ایک بار ان کے والد حج کرکے تشریف لائے تو کہنے لگیں: ابا جان! میرے لئے بھی دعا کریں. میں بھی حج کروں. 
ان کے والد نے پوچھا: کیا نیت بھی ہے تمہاری حج کی۔ 
بولیں: جی نیت تو ہے۔ 
اور پوچھا: ارادہ؟
تو بولیں: وہ بھی ہے۔ 
تو والد صاحب بولے: بیٹا تم نے کیا جمع کیا ہے؟
بولیں: ابا جان! گزارہ اتنی مشکل سے ہوتا ہے کہاں سے جمع کروں؟
کہنے لگے: پھر تو نہ نیت ہے نہ ہی ارادہ.
پھر بولے: کیا ایک آنہ بھی نہیں نکال سکتیں؟
بولیں: ابا جان ایک آنے سے کیا حج ہوجائے گا؟
 تو بولے: بیٹا! تم ارداہ کرو اور ایک آنہ ہی سہی جمع کرتی رہو۔ ان شآءاللہ تم حج کروگی۔
اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ ان کی فوتگی ہوگئی۔ ۳۶ سال کی عمر تھی اور جب ان کا سامان وغیرہ نکالا گیا تو ایک تھیلی نکلی جس پر لکھا تھا حج کے لئے۔ اور وہ کل ۶۵ روپے تھے۔ ان کے والد نے کہا: مجھے یقین ہے کہ اللہ نے میری بیٹی کا حج قبول کرلیا ہوگا۔
پھر فرماتے ہیں کہ اگلے سال جب ان کے والد حج کو گئے تو دیکھا ان کی وہی بیٹی جبل رحمت پر چڑھتی ہوئی جارہی ہے۔
حاصل سبق یہ ہے کہ خواہش کو حقیقت بنانے کے لئے قدم بھی اٹھانے ہوتے ہیں۔ صرف دعا اور وظیفہ نہیں۔ اچھی نیت اور پھر عملی اقدام بھی ضروری ہے۔ اور پھر آدمی اللہ پر مکمل توکل اور یقین کے ساتھ معاملہ سپرد کردے۔ ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/05/blog-post_19.html

Tuesday, 14 May 2024

ستر ہزار افراد کیلئے جنت کا وعدہ

"میرے رب (سبحانہ و تعالیٰ) نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزارافراد کو جنت میں داخل کرے گا"
سنن ابن ماجهكِتَابُ الزُّهْدِ (بَابُ صِفَةِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ) حکم: صحیح (الألباني) 4286حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيُّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَعَدَنِي رَبِّي سُبْحَانَهُ أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَثَلَاثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے رب (سبحانہ و تعالیٰ) نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد کو جنت میں داخل کرے گا، جن سے نہ کوئی حساب لیا جائے گا اور نہ انھیں کوئی عذاب دیا جائے گا۔ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے اور (مزید) میرے رب عزوجل کی تین مٹھی بھر۔‘‘
Abu Umamah Al-Bahili said: “I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘My Lord has promised me that seventy thousand of my nation will enter Paradise without being brought to account or punished. With every thousand will be (another) seventy thousand, and three handfuls of my Lord, the Glorified.’” 
Ibn e Majah Hadith No. 4286