Saturday, 30 October 2021

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولاتِ زندگی کیا تھے؟

نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم
کے معمولاتِ زندگی کیا تھے؟

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ’شمائل ترمذی‘ میں سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے۔ انہوں نے سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روز مرہ کے معمولات اور شب و روز کی مصروفیات کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے اپنے سوال کو تین حصوں میں تقسیم کیا:
گھر کے اندر جناب رسول اللہؐ جو وقت گزارتے تھے اس کی ترتیب کیا تھی؟
گھر سے باہر کے معمولات اور انداز کیا تھا؟
مجلسی زندگی کے آداب اور انداز کیا تھا؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے اوقات اور معمولات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ وقت کا ایک حصہ اپنے ذاتی کاموں پر صرف کرتے تھے، دوسرا حصہ گھر والوں کے لئے مخصوص ہوتا تھا، اور تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہوتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ذاتی کاموں کے لئے مخصوص وقت میں ان خواص کے ساتھ ملاقات بھی کرتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گھر میں حاضر ہوتے تھے اور آپؐ کی مخصوص مجلس میں شریک ہوتے تھے۔ یہ مجلس روزانہ ہوتی تھی، کوئی ضرورت مند ہوتا تو وہ اپنا سوال لے کر آتا اور حضورؐ حسب موقع اس کی ضرورت پوری فرما دیتے تھے۔ آپؐ اس مجلس کے شرکاء کے ساتھ امت کے اجتماعی مسائل پر گفتگو فرماتے اور عام لوگوں کے معاملات میں ہدایات دیتے تھے۔ آپؐ نے مجلس میں خاص طور پر دو باتوں کی تلقین فرما رکھی تھی کہ مسلمانوں کے عمومی مفاد اور مصلحت کی کوئی بات ہو تو اسے دیگر لوگوں تک پہنچاؤ، اور یہ کہ کوئی شخص اپنی ضرورت اور حاجت کو حضورؐ تک براہ راست پہنچانے میں کوئی دقت یا حجاب محسوس کرتا ہو تو اس کا مسئلہ آپؐ تک پہنچایا جائے۔ اس سلسلہ میں نبی اکرمؐ یہ بھی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اپنی ضرورت اور مسئلہ متعلقہ حکام تک پہنچانے کا موقع نہیں پاتا، اس کا مسئلہ متعلقہ حکام تک پہنچانے والے مسلمان کو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ثابت قدمی عطا فرمائیں گے۔ مجلس میں آنے والے جو لوگ سوالی ہو کر آتے تھے حضورؐ کے گھر سے کوئی چیز چکھے بغیر واپس نہیں جاتے تھے۔ اس مجلس میں جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ شریک ہونے والے بہترین افراد ہوتے تھے جو مجلس سے باہر کے لوگوں کے لیے رہنما کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ مجلس اسی قسم کی باتوں پر مشتمل ہوتی تھی اور ان سے ہٹ کر کوئی بات کہنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔
گھر سے باہر کی عمومی مجالس کی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ جناب نبی اکرمؐ مجلس کا آغاز بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ کرتے تھے اور مجلس کا اختتام بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر پر ہوتا تھا۔ حضورؐ جب کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تو جہاں تک مجلس پہنچ چکی ہوتی وہیں بیٹھ جاتے اور اس بات کی تلقین بھی فرماتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ حضورؐ جس جگہ بیٹھ جاتے وہی جگہ مجلس کا صدر مقام بن جاتی تھی۔ ہر صاحب مجلس کو حضورؐ اس کا حصہ دیتے تھے اور کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ اسے دوسرے اصحاب مجلس سے کم توجہ مل رہی ہے۔ حضورؐ کے سامنے کوئی شخص اپنا مسئلہ پیش کرتا یا کسی مسئلے پر بات کرتا تو آپؐ اس کی پوری بات سنتے تھے اور جب تک وہ اپنی بات مکمل نہ کر لیتا اس سے رخ نہیں پھیرتے تھے۔ کوئی شخص حضورؐ کے سامنے اپنی ضرورت کا اظہار کرتا تو آپ اس کی ضرورت پوری کرتے یا نرمی کے ساتھ تسلی کی کوئی بات فرما دیتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس علم کی مجلس ہوتی تھی، حیا کی مجلس ہوتی تھی، کسی پر الزام تراشی نہیں ہوتی تھی، کسی پر تہمت نہیں لگائی جاتی تھی، کسی کی غلطی کو اچھالا نہیں جاتا تھا، اور آپؐ اپنے ساتھیوں کے لیے باپ جیسے شفیق ہوتے تھے۔
مجلس سے ہٹ کر جناب نبی اکرمؐ کا عمومی انداز اور طرز عمل یہ ہوتا تھا کہ بے مقصد باتوں سے اپنی زبان کو بچاتے تھے اور وہی بات فرماتے تھے جس کی ضرورت ہوتی تھی۔ لوگوں کو قریب کرنے کی بات کرتے تھے، دور کرنے والی باتوں سے گریز کرتے تھے۔ کسی قوم کا بڑا آپ کے پاس آتا تو اس کا اکرام کرتے تھے اور اس کے ساتھ اسی سطح کا معاملہ فرماتے تھے۔ لوگوں کو اللہ کا خوف دلاتے رہتے تھے۔ لوگوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بے تکلف نہیں ہوتے تھے مگر کسی کو بے رخی کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے تھے۔ اپنے ساتھیوں کے حالات معلوم کرتے تھے اور اگر کوئی غیر حاضر ہوتا تو اس کی تحسین فرماتے اور اسے تقویت دیتے۔ آپؐ اگر کوئی قبیح معاملہ دیکھتے تو اس کی قباحت کا ذکر کرتے اور حوصلہ شکنی کرتے تھے۔
حضورؐ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ لوگ خیر کے معاملات سے غافل نہ ہو جائیں اور اس بات کا بھی اہتمام کرتے تھے کہ وہ اکتا نہ جائیں۔ ہر قسم کے معاملے کا آپ کے پاس حل تیار ہوتا تھا اور ہر صورتحال کے لیے مستعد ہوتے تھے۔ آپؐ حق بات کہنے سے نہیں کتراتے تھے اور ضرورت سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ لوگوں میں سے آپؐ سے زیادہ قریب وہی حضرات ہوتے تھے جو اچھے لوگ ہوتے تھے۔ جناب نبی اکرمؐ کے ہاں سب سے زیادہ قابل احترام وہی شخص ہوتا تھا جو لوگوں کے ساتھ نصیحت اور خیر خواہی کا جذبہ رکھتا ہو اور آپؐ کے ہاں اس شخص کو زیادہ قدر حاصل ہوتی تھی جو عام لوگوں کے ساتھ غم خواری اور مدد میں پیش پیش ہوتا تھا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روز مرہ معمولات اور طرز عمل کے بارے میں یہ ارشادات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہیں۔ جبکہ بخاری شریف کی ایک راویت کے مطابق ایک بار چند نوجوان صحابہ کرامؓ نے باہمی مشورہ کر کے حضورؐ کے گھر کے اندر کے معمولات معلوم کرنا چاہے تاکہ وہ بھی ان معمولات کی پیروی کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے امہات المومنینؓ کی خدمت میں باری باری حاضری دی اور دریافت کیا کہ آنحضرتؐ جب گھر کے اندر تشریف لاتے ہیں تو آپؐ کے معمولات کیا ہوتے ہیں؟ ازواج مطہراتؓ میں سے ہر ایک کا جواب یہ تھا کہ گھر کے اندر آپؐ کے معمولات کم و بیش وہی ہوتے ہیں جو ہر گھر کے سربراہ کے ہوتے ہیں۔ آپؐ آرام فرماتے ہیں، بیوی بچوں کو وقت دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، آنے جانے والوں کے حالات دریافت کرتے ہیں، گھر کا کوئی کام کاج ہو تو اس میں ازواج مطہراتؓ کا ہاتھ بٹاتے ہیں، حتیٰ کہ جوتا گانٹھ لیتے ہیں، چارپائی کی مرمت کرلیتے ہیں اور اس طرح کے ضرورت کے کام آپؐ خود کرلیا کرتے ہیں۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_47.html

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز کی حقیقت کیا ہے؟

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز کی حقیقت کیا ہے؟

بقلم: مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی 

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العز ت نے چار صاحبزادیاں عطا فرمائی تھیں، ان میں سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہیں، جن کی شادی مکہ میں حضرت خدیحہ رضی اللہ عنہا کے خالہ کے لڑکے ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ ہوئی، دوسری صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہوا، ان شادیوں کے جو تذکرے کتابوں میں ملتے ہیں، اس سے پتہ چلتاہے کہ ان صاحبزادیوں کو نکا ح کے بعد ان کے شوہروں کے گھر پہنچادیا گیا، کسی بھی حدیث اور سیر وتاریخ کی کتاب سے یہ پتہ نہیںچلتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صاحبزادیوں کو کچھ جہیز کے طور پر دیا۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں، جب آپ کچھ بڑی ہوئیں تو حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، آپ فداہ ابی وامی نے کم عمری کا عذر کیا اور بات ختم ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ شرماتے ہوئے دراقدس پر حاضر ہوئے اور جھجکتے ہوئے اپنا پیغام دیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے لڑکے تھے، عمر میں کم وبیش حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھ سال بڑے تھے، رہنے سہنے کا انتظام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچیرے بھائی اور سرپرست تھے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہا کے اس پیغام کا تذکرہ پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کیا، جب وہ شرم کی وجہ سے خاموش رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم سے اس رشتہ کو قبول کرلیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دینے کے لئے کچھ ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جوا ب دیا: جنگ بدر میں جو زرہ ہاتھ آئی تھی، وہ ہے، اور ایک گھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑا تمہارے کام کا ہے، البتہ زرہ بیچ دو، چنانچہ یہ زرہ چار سو اسّی درہم میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے خرید لی، حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ رقم لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی میں سے کچھ رقم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دی کہ وہ خوشبو خرید کر لائیں۔ اور بقیہ رقم حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دی کہ وہ حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کا انتظام کریں۔ خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ جاکر حضرت ابوبکر، حضرت عمر، عثمان، طلحہ، زبیر اور انصاری صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کو بلا لاؤ، یہ سب لوگ حاضر ہوگئے تو آپ نے مختصر سا خطبہ پڑھ کر نکاح کردیا، اور چھوارے تقسیم کروادیئے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ہمراہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر بھیج دیا جوپہلے سے کرایہ پر حاصل کرلیا گیا تھا، بعد میں حضرت حارثہؓ بن نعمان نے اپنا مکان دے دیا تو حضرت فاطمہؓ مسجد نبوی کے قریب اس مکان میں منتقل ہوگئیں۔

حضرت ام سلیمؓ نے حضرت علیؓ کی زرہ والی رقم سے حضرت فاطمہؓ کی رخصتی کا جوسامان لیاتھا، وہ بھی حضرت فاطمہؓ کے ساتھ ان کے گھر بھیجودایا، تذکروں میں ملتا ہے کہ یہ معمولی قسم کے گھریلو سامان تھے،جس میں دوچادریں، کچھ اوڑھنے بچھانے کامختصر سامان، دوبازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ، ایک گھڑا اوربعض روایتوں میں ایک پلنگ کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔

یہ ہے حضرت فاطمہؓ کے نکاح کی پوری تفصیل جو کتب احادیث سیر وتاریخ میں عام طور پردیکھا جاسکتا ہے، اسے ایک بار پھر پڑھ لیں اورغورکریں تو تین باتیں بہت صاف طور پر آپ کے سمجھ میں آئیں گی:

۱۔ حضرت علیؓ بچپن سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، ان کی علیحدہ کوئی مستقل سکونت نہیں تھی، اورنہ ہی الگ سے کوئی گھریلو سامان تھا، اس طرح آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سرپرست تھے، مربی اور ولی تھے۔

۲۔ بحیثیت ولی اورسرپرست آپ کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ شادی کے بعد حضرت علیؓ کے گھردر کا انتظام کرتے، تاکہ حضرت علیؓ کی سکونت ورہائش جب آپ سے الگ ہو تو کسی قسم کی دقت روزمرہ کی زندگی میں پیش نہ آئے، اسی خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ضروری سامان حضرت علیؓ کے لیے مہیا کرایا،گویا ان چیزوں کی فراہمی آپؐ نے حضرت علیؓ کے لیے بحیثیت سسر نہیں، بلکہ سرپرست ہونے کے ناطے کیا۔

۳۔ یہ سامان کی فراہمی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رقم سے نہیں، بلکہ حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر جو رقم حاصل ہوئی تھی اس رقم سے کیا۔

یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پرعلماء امت نے بہت واضح اور صاف طور پرلکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ  کو دیے گئے سامان سے جہیز کے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا استدلال صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی لکھتے ہیں:

’’جہیز کے موجودہ طریقہ کے سنت نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ گھریلو سامان جو حضرت فاطمہؓ کو آپؐ نے بوقت رخصتی (یا اس کے بعد) دیا تھا، جسے عوام جہیز دینا کہتے ہیں، وہ خود حضرت علیؓ کی طرف سے فراہم کردہ رقم سے خریدکردیا تھا، جس کی صراحت اہل سیر نے کی ہے‘‘۔

حافظ محمد سعد اللہ صاحب لاہوری نے تو صاف لفظوں میں اسے خلاف شرع اور خلاف قرآن وسنت قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:

’’اس کو حضرت فاطمہ زہرہؓ کی پاک ذات کی طرف منسوب کرکے جو ایک مذہبی تقدس دی جاتا ہے، اور اس مذہبی تقدس کی آڑ میں جو نمود ونمائش اور اظہار دولت کیا جاتا ہے، اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور برتری حاصل کرنے کی جو سعی نامشکور کی جاتی ہے وہ بہرکیف غلط، ممنوع خلاف شرع اور قرآن وسنت ہے‘‘۔

حضرت مفتی شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:

’’ہمارے زمانہ میں جہیز کو جس طرح نکاح کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے، جس طرح اس کے بغیر لڑکی کی شادی کو ناک کٹوانے کا مرادف سمجھ لیا گیا ہے، اور جس طرح اس کی مقدار میں نام ونمود اور دکھلاوے کی خاطر روز بروز اضافہ کیا جارہا ہے کہ غریب سے غریب انسان قرض لے کر رشوت اور مال حرام استعمال کرکے اس مقدار کوپورا کرنا ضروری سمجھتا ہے اور جب تک اس پر قدرت نہ ہو لڑکیاں بغیر نکاح کے بیٹھی رہتی ہیں، یہ پورا طرزعمل سنت کے قطعی خلاف ہے‘‘۔

مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری لکھتے ہیں:

’’حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا کی شادی کے موقع پر آپؐ کی طرف سے دونوں کو جو کچھ دیا گیا اس کو جہیز کی مروجہ ملعون رسم کے ثبوت میں پیش کرنا بالکل غلط اور نادرست ہے‘‘۔

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:

’’لینے اور دینے کی یہ رسم چاہے اس کا جو بھی نام رکھ دیا جائے، شرعاً ناجائز اور واجب الترک ہے‘‘۔

حافظ محمد سعداللہ جونپوری ریسرچ آفیسر مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور نے جہیز سے متعلق اپنے تفصیلی مقالہ ’’جہیز کی شرعی حیثیت‘‘ میں تمام روایات کا جائزہ لینے کے بعد بالکل صحیح لکھا ہے:

’’قرآن مجید میں، کتب احادیث میں، متقدمین فقہاء کی کتابوں میں مروجہ جہیزکا وجود ہی نہیں، صحاح ستہ، معروف کتب احادیث اور چاروں ائمہ فقہاء کی امہات الکتب میں ’’باب الجہیز‘‘ کے عنوان سے کوئی باب نہیں، اگر یہ کوئی شرعی حکم ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ جہاں نکاح سے متعلق دیگراحکامات مثلاً نان نفقہ، مہر، بہتر معاشرت ، طلاق، عدت، وغیرہ تفصیلاً بیان ہوتے، وہاں جہیز کا بیان نہ ہوتا‘‘۔

خلاصہ کلام یہ کہ جہیز کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، اور جہیز فاطمی سے استدلال کرکے اس کو مذہبی رنگ دینا یا تو کم علمی ہے یا ڈھٹائی، اس لیے اس سے احتراز ہی بہترہے، رہ گئی بات گھریلو ساز وسامان کی تیاری کی تو علماء نے اس سلسلہ میں صراحت کی ہے کہ اس کا ذمہ دار خاوند ہے اور شریعت میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس کی بنیاد پرعورت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے ساتھ اسباب خانہ بھی لائے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_45.html





کیا عقیقہ کو منت کے طور مان سکتے ہیں؟

کیا عقیقہ کو منت کے طور مان سکتے ہیں؟

---------------------------------

بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی

----------------------------------

ایک صاحب نے منت مانی تھی کہ بیٹا ہوگا تو عقیقہ کروں گی. کیا عقیقہ کو منت کے طور مان سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو جو منت مانی ہے اس کا کیا حکم ہوگا؟
الجواب وباللہ التوفیق:
لڑکا پیدا ہونے پر عقیقہ کرنے کی بات معلق کرنا نذر کی وجہ سے واجب ہوجائے گا، عقیقہ کی نذر منعقد ہونے کی فقہی صراحت تو مجھے نہ ملی، البتہ ومن جنسها واجب کے پیش نظر اس کے جنس کی قربانی واجب ہے اور خود عقیقہ کرنے پر بچوں کی بیماری سے تحفظ جیسی بشارت بھی حدیث میں آئی ہے جس سے عقیقے کا قربت مقصودہ ہونا مفہوم ہوتا ہے. اس لئے لڑکا پیدا ہونے پر عقیقہ کرنے کو معلق کرنا گویا اس کی نذر ماننا ہے اور میرے خیال میں یہ نذر منعقد ہوجائے گی. چونکہ ایفائے نذر کی کوئی وقتی تحدید اس نے نہیں کی تھی؛ اس لئے اس کے ذمہ یہ باقی رہے گا، زندگی میں جب بھی مالی وسعت ہو اسے پورا کرے اور ساتویں روز کی ظاہری رعایت کرلے. عام نذر کا حکم زکات کا ہے. یعنی نذر کا مصرف وہی ہے جو زکات کا مصرف ہے. ناذر نہ خود کھاسکتا ہے نہ مالدار لوگ اسے کھاسکتے ہیں. مستحقین زکات میں گوشت تقسیم کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن یہاں یہ عام نذر نہیں ہے؛ بلکہ نذراضحیہ کی طرح نذر عقیقہ ہے جس کا مقصد محض ذبح حیوان نہیں ؛ بلکہ تقرب الی اللہ بھی ہے، لہذا صاحب بدائع کی صراحت کے بموجب اس نذر عقیقہ (نذر اضحیہ) کا گوشت ناذر اور غنی بھی کھاسکتا ہے: 
وبه یعلم أن الأصح أن المراد بالواجب مایشمل الفرض و الوا جب الإصطلاحي لاخصوص الفرض فقط (شامي، کتاب الأیمان، مطلب في أحکام النذر، قبیل مطلب النذر غیرالمعلق، مکتبہ زکریا دیوبند 523/5)
وفي فتح القدیر مما ھو طاعة مقصودۃ لنفسها ومن جنسها واجب (ج 4 ص 374)
ومنها أن یکون قربة مقصودة (بدائع الصنائع، کتاب النذر، شروط النذر، مکتبہ زکریا دیوبند 228/3)
إن الدماء أنواع ثلاثة: نوع یجوز لصاحبه أن یاکل منه بالإجماع و نوع لا یجوزله أن یاکل منه بالإجماع و نوع اختلف فيه، فالأول: دم الأضحیة نفلاً کان أو واجباً منذوراً کان أو واجباً مبتدأً، والثانی: دم الإحصار و جزاء الصید … دم النذر بالذبح، والثالث: دم المتعة والقران فعندنا یؤکل و عند الشافعی رحمہ اللہ لا یؤکل (بدائع، کتاب التضحیة، باب یستحب فی الأضحیة أن تکون سمینة، زکریا 223/4، بذل المجھود 566/9)
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_30.html


Thursday, 28 October 2021

استاذ کے کلاس میں آنے پر طلبہ کا استاد کے لئے کھڑا ہوجانا


استاذ 
کے کلاس میں آنے پر 
طلبہ کا استاد کے لئے کھڑا ہوجانا

سوال: اسکول کالج میں طلبہ استاد کے آنے پر کھڑے ہوتے ہیں. کیا یہ جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ کسی شخص کے لئے کھڑے ہونے یا نہ کھڑے ہونے سے متعلق مختلف احادیث وارد ہیں، بعض احادیث اور صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے عمل سے اس کا ناجائز ہونا معلوم ہوتا ہے اور بعض احادیث اور صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے عمل سے اس کا جواز معلوم ہوتا ہے، شراح حدیث نے ان دونوں قسم کی احادیث میں محتلف اعتبار سے تطبیق دی ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح  عمدۃ القاری میں نقل کیا ہے کہ: قیام (کسی کے لیے کھڑے ہونے) کی چار قسمیں لکھی ہیں: (۱) ممنوع (۲) مکروہ (۳) جائز (۴) مستحسن۔
(1)  ممنوع: جو شخص تکبر  کی بناپر اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے یہ پسند کرتا ہوکہ جب وہ آئے تو لوگ اس کے لئے کھڑے ہوجائیں، یہ ناجائز ہے۔
(2) مکروہ: جس شخص کے دل میں تکبر نہ ہو اور  نہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے چاہے کہ اس کے لیے لوگ کھڑے ہوں، لیکن کھڑا ہونے والا یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ کھڑا نہیں ہوا تو کچھ نقصان ہوسکتا ہے، یہ قیام ناپسندیدہ  ہے۔
(3) جائز: نیکی اور اعزاز واکرام کی غرض سے کسی کے لئے کھڑا ہونا جب کہ اُس کی طرف سے کھڑے ہونے کی کوئی خواہش نہیں۔ یہ جائز ہے۔
(4) مستحسن: کوئی سفر سے آیا تو مارے خوشی کے سلام ومصافحہ کے لئے کھڑے ہوجانا، یا کسی کو کوئی نعمت ہاتھ آگئی، اس کو مبارک باد دینے کے لئے کھڑے ہونا یا کوئی مصیبت آن پڑی تو تسلی ودلاسہ دینے کے لئے کھڑے ہوجانا۔ یہ مستحسن ہے۔
"وَعَن أبي الْوَلِيد بن رشد: أَن الْقيام على أَرْبَعَة أوجه: الأول: مَحْظُور، وَهُوَ أَن يَقع لمن يُرِيد أَن يُقَام إِلَيْهِ تكبراً وتعاظماً على القائمين إِلَيْهِ. وَالثَّانِي: مَكْرُوه وَهُوَ أَن يَقع لمن لَا يتكبر وَلَا يتعاظم على القائمين، وَلَكِن يخْشَى أَن يدْخل نَفسه بِسَبَب ذَلِك مَا يحذر، وَلما فِيهِ من التَّشَبُّه بالجبابرة. وَالثَّالِث: جَائِز وَهُوَ أَن يَقع على سَبِيل الْبر وَالْإِكْرَام لمن لَايُرِيد ذَلِك، ويؤمن مَعَه التَّشَبُّه بالجبابرة. وَالرَّابِع: مَنْدُوب وَهُوَ أَن يقوم لمن قدم من سفر فَرحاً بقدومه ليسلم عَلَيْهِ أَو إِلَى من تَجَدَّدَتْ لَهُ نعْمَة فيهنيه بحصولها. أَو مُصِيبَة فيعزيه بِسَبَبِهَا". (عمدة القاري شرح صحيح البخاري (22 / 251)
شراحِ  حدیث اور فقہاءِ کرام کی اس مسئلہ سے متعلق  عبارتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی قابل شخص کی تعظیم کے لئے، یا کسی عادل بادشاہ کے آنے پر  رعایا کا، یا استاذ کے آنے پر طلبہ کا، یا بزرگ شخصیت کے احترام کے لئے، یا بیوی کا شوہر کے لئے، اولاد کا والدین کے لئے، یا قرابت دار کے احترام میں، یا آںے والے کو سلام یا مصافحہ کے لئے اکراماً کھڑا ہونا، جائز ہے، بلکہ بعض مواقع پر مستحب ہے، البتہ جس کے لئے کھڑا ہوا جائے اس کے دل میں بڑائی یا تکبر کی وجہ سے اپنے لئے کھڑے ہونے کی خواہش نہ ہو، اور کھڑے ہونے والا اس کے شر یا مفسدہ سے بچنے کے لئے کھڑا نہ ہو۔
جب کہ اس شخص کے لئے کھڑا ہونا جو اپنے لئے کھڑا ہونے کو پسند کرتا ہو، یا جس کے لئے کھڑا نہ ہونے کی صورت میں نقصان کا اندیشہ ہو، یا وہ کوئی فاسق فاجر شخص ہو، یا اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر مستقل کھڑا رہا جائے جیساکہ عجمی بادشاہوں کا طرز ہے، یا جب تک آنے والا شخص نہ بیٹھ جائے اس کے سامنے کھڑا رہنا ضروری ہو اور نہ کھڑے ہونے پر عتاب ہو، یہ درست نہیں ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ استاذ کے کلاس میں آنے پر استاذ کے اکرام میں طلبہ ازخود کھڑے ہوجائیں اور انہیں سلام کریں اور استاذ کے دل میں یہ خواہش نہ ہو کہ میرے لئے یہ سب کھڑے ہوں اور نہ کھڑے ہونے پر ادارہ کی انتظامیہ کی طرف سے ان کے لئے کوئی سزا بھی نہ ہو تو یہ جائز ہے، یہ استاذ کا اکرام ہے، جیساکہ علامہ ابن حجر اور علامہ عینی رحمہما اللہ نے اس کی صراحت کی ہے۔
"وفيه: أن قيام المرؤوس للرئيس الفاضل والإمام العادل والمتعلم للعالم مستحب". (فتح الباری 11/51۔ عمدۃ القاری 22/251)
اور اگر اسکول/ کالج انتظامیہ یا خود استاد کی طرف سے یہ پابندی ہو کہ کلاس میں آںے پر سب طلبہ کھڑے ہوجائیں، اور جو کھڑا نہ ہو اس کو سزا دی جائے، یا جب تک استاد کلاس میں اپنی مسند پر بیٹھ نہ جائے طالب علموں کے لئے کھڑا ہونا ضروری ہو تو یہ طریقہ شرعاً درست نہیں ہے۔ جیساکہ فتح الباری میں ہے:
"وإنما يكره لمن كان بغير هذه الصفات، ومعنى حديث "من أحب أن يقام له" أي بأن يلزمهم بالقيام له صفوفاً على طريق الكبر والنخوة".  (فتح الباري لابن حجر (11 / 51)
اور دوسری صورت میں طلبہ کے لئے یہ مسئلہ ہوکہ اگر کلاس میں استاد کے لئے نہیں کھڑے ہوں گے تو استاد کے دل میں کینہ، حسد اور دشمنی پیدا ہوگی، اور یہاں عمومی فضا اسی طرح کھڑے ہونے کی بن چکی ہو تو طلبہ کے لئے ایسی صورت میں کھڑے ہونے کی گنجائش ہے، جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے:
"قال ابن وهبان: أقول: وفي عصرنا ينبغي أن يستحب ذلك أي القيام؛ لما يورث تركه من الحقد والبغضاء والعداوة، لا سيما إذا كان في مكان اعتيد فيه القيام". (6/384)
تاہم اس صورت میں خود استاد اور اسکول/کالج انتظامیہ کو اس ضابطہ پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (14 / 288):
"وَفِيه: أَمر السُّلْطَان وَالْحَاكِم بإكرام السَّيِّد من الْمُسلمين وإكرام أهل الْفضل فِي مجْلِس السُّلْطَان الْأَكْبَر وَالْقِيَام فِيهِ لغيره من أَصْحَابه وسَادَة أَتْبَاعه، وإلزام النَّاس كَافَّة بِالْقيامِ إِلَى سيدهم، وَلَايُعَارض هَذَا حَدِيث مُعَاوِيَة: من سره أَن يتَمَثَّل لَهُ الرِّجَال فَليَتَبَوَّأ مَقْعَده من النَّار، لِأَن هَذَا الْوَعيد إِنَّمَا توجه للمتكبرين وَإِلَى من يغْضب أَو يسْخط أَن لَا يُقَام لَهُ، وَقَالَ الْقُرْطُبِيّ: إِنَّمَا الْمَكْرُوه الْقيام للمرء وَهُوَ جَالس، قَالَ: وَتَأَول بعض أَصْحَابنَا. قَوْله: (قومُوا إِلَى سيدكم) على أَن ذَلِك مَخْصُوص بِسَعْد، وَقَالَ بَعضهم: أَمرهم بِالْقيامِ لينزلوه عَن الْحمار لمرضه، وَفِيه بعد، وَقَالَ السُّهيْلي: وَقَامَ رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، لِصَفْوَان بن أُميَّة ولعدي بن حَاتِم حِين قدما عَلَيْهِ وَقَامَ لمَوْلَاهُ زيد بن حَارِثَة وَلغيره أَيْضا، وَكَانَ يقوم لابنته فَاطِمَة، رَضِي الله تَعَالَى عَنْهَا، إِذا دخلت عَلَيْهِ، وَتقوم لَهُ إِذا قدم عَلَيْهَا، وَقَامَ لجَعْفَر ابْن عَمه. وَفِيه: جَوَاز قَول الرجل للْآخر: يَا سَيِّدي، إِذا علم مِنْهُ خيرا أَو فضلا، وَإِنَّمَا جَاءَت الْكَرَاهَة فِي تسويد الرجل الْفَاجِر". 
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (22 / 251):
"وَفِيه: أَمر السُّلْطَان وَالْحَاكِم بإكرام السَّيِّد من الْمُسلمين، وَجَوَاز إكرام أهل الْفضل فِي مجْلِس السُّلْطَان الْأَكْبَر، وَالْقِيَام فِيهِ لغيره من أَصْحَابه، وإلزام النَّاس كَافَّة للْقِيَام إِلَى سيدهم، وَقد منع من ذَلِك قوم وَاحْتَجُّوا بِحَدِيث أبي أُمَامَة رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه، قَالَ: خرج النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، متوكئاً على عَصا، فقمنا لَهُ فَقَالَ: لَا تقوموا كَمَا تقوم الْأَعَاجِم. قَالَ الطَّبَرِيّ: هَذَا حَدِيث ضَعِيف مُضْطَرب السَّنَد فِيهِ من لَا يعرف، وَاحْتَجُّوا أَيْضا بِحَدِيث عبدالله بن بُرَيْدَة، أخرجه الْحَاكِم: أَن أَبَاهُ دخل على مُعَاوِيَة فَأخْبرهُ أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، قَالَ: من أحب أَن يتَمَثَّل لَهُ الرِّجَال قيَاما وَجَبت لَهُ النَّار. وَقَالَ الطَّبَرِيّ: إِنَّمَا فِيهِ نهي من يُقَام لَهُ عَن السرُور بذلك لَا من يقوم إِكْرَاما لَهُ. وَقَالَ الْخطابِيّ: فِي حَدِيث الْبَاب جَوَاز إِطْلَاق السَّيِّد على الحبر الْفَاضِل، وَفِيه: أَن قيام المرؤوس للرئيس الْفَاضِل وَالْإِمَام الْعَادِل والمتعلم للْعَالم مُسْتَحبّ، وَإِنَّمَا يكره لمن كَانَ بِغَيْر هَذِه الصِّفَات، وَعَن أبي الْوَلِيد بن رشد: أَن الْقيام على أَرْبَعَة أوجه: الأول: مَحْظُور، وَهُوَ أَن يَقع لمن يُرِيد أَن يُقَام إِلَيْهِ تكبراً وتعاظماً على القائمين إِلَيْهِ. وَالثَّانِي: مَكْرُوه وَهُوَ أَن يَقع لمن لَا يتكبر وَلَا يتعاظم على القائمين، وَلَكِن يخْشَى أَن يدْخل نَفسه بِسَبَب ذَلِك مَا يحذر، وَلما فِيهِ من التَّشَبُّه بالجبابرة. وَالثَّالِث: جَائِز وَهُوَ أَن يَقع على سَبِيل الْبر وَالْإِكْرَام لمن لَا يُرِيد ذَلِك، ويؤمن مَعَه التَّشَبُّه بالجبابرة. وَالرَّابِع: مَنْدُوب وَهُوَ أَن يقوم لمن قدم من سفر فَرحا بقدومه ليسلم عَلَيْهِ أَو إِلَى من تَجَدَّدَتْ لَهُ نعْمَة فيهنيه بحصولها. أَو مُصِيبَة فيعزيه بِسَبَبِهَا".
فتح الباري لابن حجر (11 / 54):
"وقد قال الغزالي: القيام على سبيل الإعظام مكروه، وعلى سبيل الإكرام لايكره، وهذا تفصيل حسن". 
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (6 / 2547):
"(قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قوموا إلى سيدكم): قال النووي: فيه إكرام أهل الفضل وتلقيهم والقيام لهم إذا أقبلوا، واحتج به الجمهور، وقال القاضي عياض: ليس هذا من القيام المنهي عنه، وإنما ذاك فيمن يقومون عليه وهو جالس، ويتمثلون قياماً طول جلوسه، وقيل: لم يكن هذا القيام للتعظيم، بل كان للإعانة على نزوله لكونه وجعاً، ولو كان المراد منه قيام التوقير لقال: قوموا لسيدكم، ويمكن دفعه بأن التقدير: "قوموا متوجهين إلى سيدكم"، لكن الأول أظهر؛ لأن الصحابة رضي الله عنهم أجمعين ما كانوا يقومون له صلى الله عليه وسلم".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 2972):
"(قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للأنصار) أي: مخاطباً لهم كلهم أو لقومه خاصة فإنهم كانوا طائفتين. (قوموا إلى سيدكم). قيل أي: لتعظيمه، ويستدل به على عدم كراهته، فيكون الأمر للإباحة ولبيان الجواز، وقيل: معناه قوموا لإعانته في النزول عن الحمار إذ كان به مرض وأثر جرح أصاب أكحله يوم الأحزاب، ولو أراد تعظيمه لقال: قوموا لسيدكم، ومما يؤيده تخصيص الأنصار والتنصيص على السيادة المضافة، وأن الصحابة رضي الله عنهم ما كانوا يقومون له صلى الله عليه وسلم تعظيماً له، مع أنه سيد الخلق؛ لما يعلمون من كراهيته لذلك على ما سيأتي.
قال التوربشتي: ليس هذا من القيام الذي يراد به التعظيم على ما كان يتعاهده الأعاجم في شيء، فكيف يجوز أن يأمر بما إسناده صحيح أنه نهى عنه وعرف منه إلى آخر العهد، وإنما كان سعد بن معاذ رضي الله عنه وجعا لما رمي في أكحله مخوفا عليه من الحركة حذرا من سيلان العرق بالدم، وقد أتي به يومئذ للحكم الذي سلمت إليه بنو قريظة إليه عند النزول على حكمه، فأمرهم بالقيام إليه ليعينوه على النزول من على الحمار، ويرفقوا به فلايصيبه ألم من المركب، ولو كان يريد به التوقير والتعظيم لقال: قوموا لسيدكم، وأما ما ذكر في قيام النبي صلى الله عليه وسلم لعكرمة بن أبي جهل عند قدومه عليه، وما روي «عن عدي بن حاتم: ما دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قام إلي أو تحرك»، فإن ذلك مما لا يصح الاحتجاج به لضعفه، المشهور عن عدي إلا وسع لي، ولو ثبت فالوجه فيه أن يحمل على الترخيص حيث يقتضيه الحال، وقد كان عكرمة من رؤساء قريش، وعدي كان سيد بني طيئ، فرأى تأليفهما بذلك على الإسلام، أو عرف من جانبهما تطلعا إليه على حسب ما يقتضيه حب الرياسة اهـ.
والظاهر أن قيامه لعكرمة إنما كان لكونه قادما مهاجرا كما سبق أنه قال له: مرحبا بالراكب المهاجر، وقد تعقب الطيبي التوربشتي بأن" إلى "في هذا المقام أفخم من اللام، وأتى بما يرجع عليه الملام، وخرج عن مقام المرام، وقال بعض العلماء: في الحديث إكرام أهل الفضل من علم أو صلاح أو شرف بالقيام لهم إذا أقبلوا، هكذا احتج بالحديث جماهير العلماء. وقال القاضي عياض: القيام المنهي تمثلهم قياما طول جلوسه، وقال النووي: هذا القيام للقادم من أهل الفضل مستحب، وقد جاءت أحاديث ولم يصح في النهي عنه شيء صريح، وقد جمعت كل ذلك مع كلام العلماء عليه في جزء وأجبت فيه عما يوهم النهي عنه اهـ. وتعقبه ابن الحاج المالكي في مدخله ورد عليه ردا بليغا، ثم اختلفوا في الذين عناهم النبي - صلى الله عليه وسلم - بقوله: قوموا إلى سيدكم، هل هم الأنصار خاصة أم جميع من حضر من المهاجرين معهم؟ قلت: هذا وهم فإنه مع صريح قوله للأنصار: قوموا، كيف يتصور العموم الشامل للمهاجرين؟ نعم يحتمل عموم الأنصار وخصوص قومه منهم على ما قدمناه والله أعلم. وقال الإمام حجة الإسلام: القيام مكروه على سبيل الإعظام لا على سبيل الإكرام، ولعله أراد بالإكراه القيام للتحية بمزيد المحبة، كما تدل عليه المصافحة، وبالإعظام التمثل له بالقيام وهو جالس على عادة الأمراء الفخام، والله أعلم بكل حال ومقام. (متفق عليه)".
فتح الباري لابن حجر (11 / 51):
" وقال الخطابي: في حديث الباب جواز إطلاق السيد على الخير الفاضل، وفيه أن قيام المرءوس للرئيس الفاضل والإمام العادل والمتعلم للعالم مستحب، وإنما يكره لمن كان بغير هذه الصفات، ومعنى حديث "من أحب أن يقام له" أي بأن يلزمهم بالقيام له صفوفاً على طريق الكبر والنخوة، ورجح المنذري ما تقدم من الجمع عن ابن قتيبة والبخاري، وأن القيام المنهي عنه أن يقام عليه وهو جالس، وقد رد ابن القيم في حاشية السنن على هذا القول بأن سياق حديث معاوية يدل على خلاف ذلك، وإنما يدل على أنه كره القيام له لما خرج تعظيماً، ولأن هذا لايقال له القيام للرجل، وإنما هو القيام على رأس الرجل أو عند الرجل، قال: والقيام ينقسم إلى ثلاث مراتب: قيام على رأس الرجل، وهو فعل الجبابرة، وقيام إليه عند قدومه، ولا بأس به، وقيام له عند رؤيته، وهو المتنازع فيه، قلت: وورد في خصوص القيام على رأس الكبير الجالس ما أخرجه الطبراني في الأوسط عن أنس قال: إنما هلك من كان قبلكم بأنهم عظموا ملوكهم بأن قاموا وهم قعود. ثم حكى المنذري قول الطبري وأنه قصر النهي على من سره القيام له؛ لما في ذلك من محبة التعاظم ورؤية منزلة نفسه، وسيأتي ترجيح النووي لهذا القول، ثم نقل المنذري عن بعض من منع ذلك مطلقاً أنه رد الحجة بقصة سعد بأنه صلى الله عليه وسلم، إنما أمرهم بالقيام لسعد لينزلوه عن الحمار؛ لكونه كان مريضاً، قال: وفي ذلك نظر. قلت: كأنه لم يقف على مستند هذا القائل، وقد وقع في مسند عائشة عند أحمد من طريق علقمة بن وقاص عنها في قصة غزوة بني قريظة وقصة سعد بن معاذ ومجيئه مطولاً، وفيه: قال أبو سعيد: فلما طلع قال النبي صلى الله عليه وسلم: قوموا إلى سيدكم، فأنزلوه. وسنده حسن، وهذه الزيادة تخدش في الاستدلال بقصة سعد على مشروعية القيام المتنازع فيه، وقد احتج به النووي في كتاب القيام، ونقل عن البخاري ومسلم وأبي داود أنهم احتجوا به، ولفظ مسلم: لاأعلم في قيام الرجل للرجل حديثاً أصح من هذا، وقد اعترض عليه الشيخ أبو عبد الله بن الحاج فقال، ما ملخصه: لو كان القيام المأمور به لسعد هو المتنازع فيه لما خص به الأنصار، فإن الأصل في أفعال القرب التعميم، ولو كان القيام لسعد على سبيل البر والإكرام لكان هو صلى الله عليه وسلم أول من فعله وأمر به من حضر من أكابر الصحابة، فلما لم يأمر به ولا فعله ولا فعلوه دل ذلك على أن الأمر بالقيام لغير ما وقع فيه النزاع، وإنما هو لينزلوه عن دابته لما كان فيه من المرض، كما جاء في بعض الروايات؛ ولأن عادة العرب أن القبيلة تخدم كبيرها، فلذلك خص الأنصار بذلك دون المهاجرين، مع أن المراد بعض الأنصار لا كلهم، وهم الأوس منهم؛ لأن سعد بن معاذ كان سيدهم دون الخزرج، وعلى تقدير تسليم أن القيام المأمور به حينئذ لم يكن للإعانة، فليس هو المتنازع فيه، بل لأنه غائب قدم، والقيام للغائب إذا قدم مشروع، قال: ويحتمل أن يكون القيام المذكور إنما هو لتهنئته بما حصل له من تلك المنزلة الرفيعة من تحكيمه والرضا بما يحكم به، والقيام لأجل التهنئة مشروع أيضاً.
ثم نقل عن أبي الوليد بن رشد أن القيام يقع على أربعة أوجه: الأول محظور، وهو أن يقع لمن يريد أن يقام إليه تكبراً وتعاظماً على القائمين إليه. والثاني: مكروه، وهو أن يقع لمن لايتكبر ولايتعاظم على القائمين، ولكن يخشى أن يدخل نفسه بسبب ذلك ما يحذر، ولما فيه من التشبه بالجبابرة. والثالث: جائز، وهو أن يقع على سبيل البر والإكرام لمن لايريد ذلك ويؤمن معه التشبه بالجبابرة. والرابع: مندوب، وهو أن يقوم لمن قدم من سفر فرحاً بقدومه ليسلم عليه، أو إلى من تجددت له نعمة فيهنئه بحصولها، أو مصيبة فيعزيه بسببها".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 384):
"وفي الوهبانية: يجوز بل يندب القيام تعظيماً للقادم كما يجوز القيام، ولو للقارئ بين يدي العالم وسيجيء نظماً.

(قوله: يجوز بل يندب القيام تعظيما للقادم إلخ) أي إن كان ممن يستحق التعظيم قال في القنية: قيام الجالس في المسجد لمن دخل عليه تعظيماً، وقيام قارئ القرآن لمن يجيء تعظيماً لايكره إذا كان ممن يستحق التعظيم، وفي مشكل الآثار: القيام لغيره ليس بمكروه لعينه، إنما المكروه محبة القيام لمن يقام له، فإن قام لمن لايقام له لايكره. قال ابن وهبان: أقول: وفي عصرنا ينبغي أن يستحب ذلك أي القيام لما يورث تركه من الحقد والبغضاء والعداوة لا سيما إذا كان في مكان اعتيد فيه القيام، وما ورد من التوعد عليه في حق من يحب القيام بين يديه كما يفعله الترك والأعاجم اهـ. قلت: يؤيده ما في العناية وغيرها عن الشيخ الحكيم أبي القاسم كان إذا دخل عليه غني يقوم له ويعظمه، ولايقوم للفقراء وطلبة العلم، فقيل له في ذلك، فقال الغني: يتوقع مني التعظيم، فلو تركته لتضرر والفقراء والطلبة إنما يطمعون في جواب السلام والكلام معهم في العلم، وتمام ذلك في رسالة الشرنبلالي". 
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_28.html

Wednesday, 27 October 2021

ایک مجلس کی تین طلاقیں

ایک مجلس کی تین طلاقیں
سوال: تین طلاق ایک مجلس میں تین ہوتی ہیں یا ایک،مشہور یہ کیا جارہا ہے کہ طلاق عورت کے حیض سے تعلق رکھتی ہے، کیوں کہ سورہ نساء میں تین حیض کا ذکر ہے، ایک حیض میں پچاس دفعہ بھی طلاق دینے سے ایک ہوگی؟
جواب: 1۔ طلاق دینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل نہیں ہے، تاہم انتہائی مجبوری کی صورت میں اسے اختیار کرنے کی گنجائش ہے، شریعت نے مرد کو آسانی دیتے ہوئے اس کا بہترین طریقہ بھی بتادیا ہے ،تاکہ کل کو اگر  جانبین اپنے اس فعل پر نادم  اور پشیمان ہوں تو  انہیں اس غلطی کی تلافی کرنا ممکن ہو، وہ بہترین صورت یہ ہے کہ  مرد اپنی بیوی کو ایسے طہر (پاکی) میں طلاق دے جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلقات قائم نہ کیے ہوں، پھر اسے چھوڑدے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے، اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایسے طہر  (پاکی) میں طلاق دے  جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلق قائم  نہ کیا ہو، اس کے بعد اس کے قریب نہ جائے، جب دوسرا طہر (پاکی) آئے تو اس میں دوسری طلاق دے، اور پھر تیسری پاکی میں تیسری طلاق دے دے، ان دونوں طریقوں میں  مرد اور عورت  کو سوچنے اور اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ (1)
لیکن اگر کوئی شخص  شریعت کی عطاء کردہ ان سہولیات کو کام میں نہ لائے  اور بیک وقت تینوں طلاقیں زبان سے کہہ دے تو اس کا یہ اقدام  ناجائز اور بدعت ہے، تاہم  اپنی تاثیر کے لحاظ سے یہ مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ایسے امور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان سے منع کیا ہے، لیکن جب کوئی شخص اس کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ حکم  شرعی اپنے تمام احکام کے ساتھ واقع ہوتا ہے، مثلاً: ''ظہار'' کو قرآنِ مجید میں "مُنکَراً مِّنَ القَولِ وَزُورًا"  کہا گیا  ہے، لیکن جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ''ظہار'' کرتا ہے  تو اس پر حکمِ شرعی نافذ ہوجاتا ہے، قتلِ ناحق جرم اور گناہ ہے، مگر جس کو گولی یا تلوار مار کر قتل کیا جاتا ہے وہ قتل  ہو ہی جاتا ہے، اس کی موت اس کا انتظار نہیں کرتی کہ گولی جائز طریقے سے ماری گئی ہے یا ناجائز طریقہ سے؟ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن سے یہ سمجھ  میں آتا ہے کہ  جو شخص شریعت کی آسانیوں اور سہولتوں کو نظر انداز کرکے بیک وقت تین طلاقیں دے دے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ [البقرة: 229]
ترجمہ: وہ طلاق دو مرتبہ کی ہے، پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ  چھوڑدینا  خوش عنوانی کے ساتھ۔ (بیان القرآن)
اس آیت کے شانِ نزول میں مفسرین حضرات یہ بیان کرتے ہیں  کہ ابتدائے اسلام میں لوگ بغیر کسی تعداد اور گنتی کے طلاق دیا کرتے تھے، مرد جب اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور اس کی عدت مکمل ہونے کا  وقت قریب ہوتا  تو وہ  رجوع کرلیتا  اور پھر طلاق دے کر دوبارہ رجوع کرتا، اس سے ان کا مقصد اس عورت کو تکلیف دینا ہوتا تھا، جس پر قرآنِ کریم کی  یہ آیت نازل ہوئی۔ (2)
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری جیسے جلیل القدر  محدث  نے اسی آیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی  کتاب "صحیح البخاری" میں  یہ باب قائم کیا "باب من أجاز الطلاق الثلاث"(3)
 امام قرطبی رحمہ اللہ، امام بخاری  رحمہ اللہ کے اس طرز پر تبصرہ کرتے ہوئے  لکھتے ہیں: "اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  مرد کو تین طلاق کا اختیار دینا شریعت کی جانب سے ایک گنجائش ہے، جو شخص اپنے اوپراز خود تنگی کرے  اس پر یہ حکم لازم ہوجائےگا، ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ فتویٰ دینے والے  ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  ایک ساتھ دی گئی تینوں  طلاقیں واقع ہوتی ہیں، یہ جمہور سلف کا قول ہے"۔ (4)
امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ آیت ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ﴾ ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے، اگرچہ ایسا کرنا باعث گناہ ہے۔ (5)
آیت مذکورہ میں "مرتان" کا معنی "اثنان" ہے، یعنی طلاقِ رجعی دو ہیں، یہی معنی شانِ نزول کے موافق ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں "مرتان" کا معنی "اثنان" کے لیے استعمال ہوا ہے:
الف: ﴿وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا﴾ [الأحزاب: 31]
ترجمہ: اور جو کوئی تم میں سے  اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی  اور نیک کام کرے گی  تو ہم اس کو اس کا ثواب دوہرا دیں گے۔ (بیان القرآن)
ب: ﴿أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا﴾ [القصص: 54]
ترجمہ: ان لوگوں کو ان کی پختگی کی وجہ سے دوہرا  ثواب ملے گا۔ (بیان القرآن)
ج: حدیث میں عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
"أن النبي ﷺ توضأ مرتین مرتین". (6)
لہذا قرآنی حکم کا خلاصہ یہ ہوا کہ قرآن  طلاقوں کی ترتیب نہیں ،بلکہ تعداد بیان کررہا ہے۔
4۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]
ترجمہ: اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی تو جب وہ عورت دوسرے نکاح نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ (بیان القرآن)
امام شافعی رحمہ اللہ "کتاب الام" میں لکھتے ہیں قرآن پاک اس بات پر دلالت کرتا ہے جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے  وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب  تک کہ وہ دوسرے شوہر کے پاس سے نہ آجائے۔ (7)
احادیث مبارکہ  سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک کلمہ یا ایک مجلس میں دی جانے والی تین  طلاقین واقع ہوجاتی ہیں۔
الف: بخاری شریف  میں ہے:
''عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله  عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»''(8)
اس حدیث میں "طلق امرأته ثلاثاً" کا لفظ  اس بات پر دلیل ہے  تین طلاقیں اکھٹی دی  گئی تھیں، چناں چہ ''عمدۃ القاری'' میں ہے  کہ "طلق امرأته ثلاثاً" کا جملہ اس حدیث کے ''ترجمۃ الباب'' کے مطابق ہے، کیوں کہ اس سے ظاہر یہی ہے  کہ یہ تینوں طلاقیں اکٹھی دی گئی تھیں۔ (9)
''فتح الباری'' میں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے "طلقها ثلاثاً" کے ظاہرسے استدلال کیا ہے؛ کیوں کہ اس سے یہی  بات متبادر ہوتی ہے کہ یہ اکٹھی دی گئی تھیں۔ (10)
ب: صحیح البخاری میں ہے:
''أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»''۔ (11)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "فبت طلاقي" کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ انہوں نے اس عورت کو ایسی طلاق دی تھی جس کے بعد تعلق بالکل ختم ہوجاتا ہے، اوروہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک ساتھ یا الگ الگ  تین طلاقیں دی جائیں، اس احتمال کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ   نے ''کتاب الادب'' میں دوسرے طریق سے ذکر کیا ہے "طلقنی آخر ثلاث تطلیقات"۔ (12)
ج: امام بخاری رحمہ اللہ عویمر العجلانی رضی اللہ عنہ کے واقعہ لعان کے بیان کے بعد  حدیث  کے یہ الفاظ بیان کرتے ہیں:
''قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها، فطلقها ثلاثاً قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابن شهاب: «فكانت تلك سنة المتلاعنين»''۔ (13)
مذکورہ واقعہ کے متعلق امام ابو داؤد نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں  طلاقوں کو  نافذ کردیا تھا،چناں چہ فرماتے ہیں:
''عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ''۔ (14)
د: سنن ابن ماجہ میں ہے کہ عامر شعبی سے روایت ہے کہ میں نے  فاطمہ بنت حبیش سے کہا: مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتائیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں، وہ یمن سے باہر تھے تو آپ ﷺ نے ان تین طلاقوں کو نافذ قراردیا۔ (15)
اس روایت سے امام ابن ماجہ نے ایک  مجلس کی تین طلاقوں پر استدلال کیا ہے، اور باب قائم کیا ہے "باب من طلاق ثلاثاً في مجلس واحد"، جس کے تحت اس حدیث کو ذکر کیا ہے، اسی روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ نے سنن نسائی  (16)   میں   اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سنن ابی داؤد (17) میں ذکر کیا ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ  صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا  اجماع ہوچکا تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی، اس سلسلے میں محققین  فقہاء ومحدثین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
الف: علامہ ابوبکر جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم، سنتِ مطہرہ اور سلف کا اجماع  ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کا لازم قرار دینا ہے، اگرچہ ایسا کرنا گناہ  ہے۔ (18)
ب: حافظ ابن رجب حنبلی  رحمہ اللہ   لکھتے ہیں کہ ہمیں امت میں سے کسی ایک فرد کا علم نہیں  جو اس سلسلے میں فیصلہ، قضا، علم اور فتویٰ دینے میں کھل کر مخالفت کرتا ہے، تاہم ایک چھوٹی سی جماعت سے اختلاف منقول ہے، جن پر ان کے معاصرین نے انتہائی درجہ کا انکار کیا ہے، ان میں سے اکثر  اپنے اس مسلک کو چھپاتے تھے، کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ (19)
ج: علامہ شامی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں کہ جمہورصحابہ، تابعین اور ان  کے بعد مسلمانوں کے ائمہ اس مذہب پر ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ (20)
د: علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو کہے: "أنت طلاق  ثلاثاً" (تجھے تین طلاق ہیں) اس کے حکم میں اختلاف ہے، امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اور  جمہور علماء  فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوں گی۔ (21)
''صحیح مسلم'' میں مذکور حضرت ابن عباس رضی اللہ  عنہ سے  مروی روایت سے استدلال کیا  ہےجس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہوا کرتی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں نے ایک ایسے معاملے میں جلدبازی شروع کردی جس میں ان کے لیے سہولت تھی، اگر ہم ان پر تینوں کو نافذ کردیں تو اچھا ہو۔اس کے بعد انہوں نے اس حکم کو نافذ کردیا۔ (22)
اس سلسلے میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:
الف: نبی کریم ﷺ کے زمانے میں جب شوہر ایک طلاق دینے کے بعد دوسری اور تیسری مرتبہ بھی طلاق کے الفاظ استعمال کرتا تھا اور اس کی مراد پہلی دی گئی طلاق کی تاکید ہوتی تھی توآپﷺ اس طلاق کو ایک طلاق قرار دیتے تھے، آپﷺ صاحبِ وحی تھے، کوئی شخص آپ سے غلط بیانی نہیں کرسکتا تھا، اگر کوئی غلط بیانی کرتا تو آپﷺ کو وحی کے ذریعہ اطلاع مل جاتی، جب حضورﷺکے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے الفاظِ طلاق کو دیکھتے ہوئے تین طلاقوں کا فیصلہ نافذ کیا، نیتِ تاکید کا اعتبار نہیں کیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانےمیں اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا ہوگایا آیا ہوگا تو لوگوں کی دیانت کو دیکھتے ہوئے نیت کا اعتبار کیا جاتا ہوگا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سے احکام نے قانونی شکل اختیار کی جس میں سےایک قانون یہ بھی ہے۔ (23)
صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعہ کیا جاتا تھا، اب وحی منقطع ہوگئی، اب تم لوگوں کی پکڑ تمہارے ظاہری اعمال پر ہوگی،جو ہمارے سامنے خیر و بھلائی ظاہر کرےگاہم اسے امن دیں گے اور قریب کریں گے، ہمیں ا س کے باطن سے کوئی سروکار نہیں۔اللہ تعالیٰ اس کے باطن کا مواخذہ کرے گا، جو ہمارے سامنے برائی ظاہر کرے گاہم اس کو نہ امن دیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے اگرچہ وہ یہ کہے کہ میرا باطن اور میری نیت اچھی ہے۔ (24)
دورِفاروقی میں یہ فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اب صرف ظاہر کا اعتبار ہوگا، صدیوں سے اسلامی عدالتیں اسی قانون پر عمل پیرا ہیں۔
ب: صحیح مسلم کی اس روایت کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کئی روایات میں مروی ہے کہ وہ ایک جملہ میں تین طلاقوں کو تین طلاقیں سمجھا کرتے تھے، ان کے جلیل القدر شاگرد علماء، عمرو  بن دینار، سعید بن جبیر، مجاہد اور طاووس ان سے یہی نقل کرتے ہیں۔ذیل میں چند روایات مذکور ہیں:
الف: مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، ابنِ عباس رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے، یہاں تک کہ میں یہ سمجھا کہ شاید اس کی بیوی کو اس کی جانب لوٹانے والےہیں، پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی جاتا ہے اور حماقت کرجاتا ہے، پھر کہتا ہے اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کےلیے راہ نکالتے ہیں، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے، اس لیے مجھے تمہارے لیے کوئی راہ نہیں مل رہی، تو نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی۔ (25)
امام ابوداؤد اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو حمید الاعرج  وغیرہ نے مجاہد رحمہ اللہ سے اور مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہ  نقل کیا ہے، اور شعبہ رحمہ اللہ نے عمرو بن مرہ سے  اور انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے اس حدیث  کو روایت کیا ہے، ۔۔۔۔ اور ابن جریج نے عبدالحمید بن رافع سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے  ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے نقل کیا ہے، اور اس حدیث کو  اعمش نے مالک بن حارث سے، انہو ں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے نقل کیا ہے،  اور ابن جریج نے   عمروبن دینار سے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے، سب نے تین طلاقوں کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے تین طلاقوں کو  نافذ قرار دیا ہے اور  کہا کہ تم سے بیوی جدا ہوگئی ۔(26)
ب: موطا امام مالک میں ہے کہ  ایک آدمی نے  ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے فرمایا کہ  میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں، آپ میرے لیے کیا فیصلہ کرتے ہیں ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ   نے ان سے کہا  کہ تمہاری  بیوی کو تم سے تین طلاقیں ہوگئی ہیں، اور ستانوے طلاقوں کے  ذریعہ  تم نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق بنایا ہے۔ (27)
ج: موطا امام محمد میں ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی  کو رخصتی سے پہلے  تین طلاقیں  دیں ، پھر اس نے چاہا کہ  اس سے نکاح کرے تو وہ مسئلہ پوچھنے آیا، اس  نے ابن عباس  اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما  سے پوچھا، ان دونوں نے جواب دیا  اس وقت تک نکاح نہیں کرسکتے جب  وہ کسی اور  سے نکاح نہیں کرلیتی، اس  نے کہا کہ  میں نے تو صرف ایک طلاق دی  ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے اپنے ہاتھوں سے اس گنجائش کو ختم کردیا جو تجھے حاصل تھی۔(28)
8۔ مسند احمد میں ہے کہ  رکانہ بن عبد یزید  رضی اللہ عنہ نے  اپنی بیوی کو تین بار ایک مجلس میں طلاق دی،  تو اس پر وہ بہت زیادہ رنجیدہ ہوئے، رسول اکرمﷺ نے ان سے سوال کیا  تم نے کیسے طلاق دی؟ انہوں نے کہا کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا وہ ایک طلاق ہوئی، اگر چاہو تو رجوع کرلو، راوی کہتے ہیں کہ  انہوں نے رجوع کرلیا۔ (29)
اس سلسلے میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:
الف: علماء اور محدثین کی آراء کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے  یہ حدیث معلول (ضعیف) ہے،  چناں چہ حافظ ابن حجر نے ''التلخیص الحبیر'' میں اس حدیث کو ذکر کرکے فرمایا کہ " وهو معلول أیضاً" (30)  ، اسی طرح حافظ ذھبی ؒ نے اس کو داؤد ابن الحصین کے مناکیر میں شمار کیا ہے۔ (31)
ب: نیز مسند احمد کی مذکورہ روایت میں اضطراب ہے، بعض روایات میں  طلاق کی تعداد مذکور نہیں ہے، محمد  بن ثور الصنعانی کی روایت میں ہے "إني طلقتها"   یعنی میں نے تجھے  طلاق دی، اس میں نہ "ثلاثاً" کا لفظ ہے نہ "البته" کا، اور  صنعانی کی جلالت قدر محدثین میں مسلم ہے۔ (32)
جب کہ سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، اور ابن ماجہ میں "ثلاثاً" کا لفظ نہیں ہے، بلکہ "البتة" کے الفاظ ہیں، ان تینوں روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ  انہوں نے اپنی بیوی کو "البتة" سے طلاق دی (جس میں ایک سے تین طلاقوں کی گنجائش ہوتی ہے)، پھر آپ ﷺ کو اطلاع دی، اور فرمایا؛ خدا کی  قسم  میں نے لفظ  " البتة"سے  ایک طلاق کی نیت کی ہے،  جس کی تصدیق آپﷺ نے ان سے کی  کہ بخدا تمہاری نیت ایک ہی طلاق کی تھی؟ تو حضرت رکانہ  نے کہا کہ بخدا  میری  نیت ایک ہی طلاق کی تھی، تب آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے جو نیت کی تھی اسی کا اعتبار ہے۔ (33)
ج: حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ  نے  مسند احمد کی حدیث ذکر کرکے لکھا ہے کہ  امام ابو داؤد نے  اس سے بہتر طریق سے ذکر کیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی  سہیمۃ کو "البتة" کے لفظ سے طلاق دی تھی۔ (34)
د: امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ روایت جسے مخالفین ذکر کرتے ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں جسے نبی کریم ﷺ نے ایک قرار دیا وہ مجہول راویوں سے منقول ضعیف روایت ہے، صحیح روایت وہی ہے  جسے ہم نے ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو "البتة" کہہ کر طلاق دی، اور لفظ "البتة" ایک اور تین کا احتمال رکھتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس ضعیف روایت کے راوی نے  یہ سوچا کہ لفظ "البتة" تین کا احتمال رکھتا ہے تو انہوں نے  روایت بالمعنی کی، اور اس میں غلطی کی۔ (35)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی ایک نہیں، یہ کہنا غلط ہے کہ طلاق کا تعلق عورت کے حیض سے ہے، سورہ نساء میں ایسی کوئی آیت نہیں جس میں طلاق کے لیے تین حیض کو معیار بنایا گیا ہو، تاہم سورہ بقرہ میں عدت کے لیے تین حیض بتایا گیا ہے، آپ کو دونوں آیتوں میں شبہ ہورہا ہے، عدت کا حکم بتانے والی آیت کو طلاق سے جوڑ دیا۔
حوالہ جات 
أحكام القرآن للجصاص ط: العلمية (1 / 459):
قَالَ أَصْحَابُنَا: أَحْسَنُ الطَّلَاقِ أَنْ يُطَلِّقَهَا إذَا طَهُرَتْ قَبْلَ الْجِمَاعِ ثُمَّ يَتْرُكَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، وَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا طَلَّقَهَا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ وَاحِدَةً قَبْلَ الْجِمَاعِ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: وَبَلَغَنَاعَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ لَا يَزِيدُوا فِي الطَّلَاقِ عَلَى وَاحِدَةِ حَتَّى تَنْقَضِيَ الْعِدَّةُ، وَأَنَّ هَذَا عِنْدَهُمْ أَفْضَلُ مِنْ أَنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ وَاحِدَةً.

تفسير الألوسي = روح المعاني (1 / 530،  ط: دار الکتب العلمیه):
فقد أخرج مالك والشافعي والترمذي رضي الله تعالى عنهما وغيرهم. عن عروة قال: كان الرجل إذا طلق امرأته ثم ارتجعها قبل أن تنقضي عدّتها كان ذلك له وإن طلقها ألف مرة، فعمد رجل إلى امرأته فطلقها حتى إذا ما شارفت انقضاء عدّتها ارتجعها ثم طلقها ثم قال: والله لا آويك إليّ ولا تخلين أبدا، فأنزل الله تعالى الآية.

صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی):
باب من أجاز طلاق الثلاث لقول الله تعالى: {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: 229]

تفسير القرطبي (3 / 128):
تَرْجَمَ الْبُخَارِيُّ عَلَى هَذِهِ الْآيَةِ" بَابُ مَنْ أَجَازَ الطَّلَاقَ الثَّلَاثَ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: الطَّلاقُ مَرَّتانِ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ" وَهَذَا إِشَارَةٌ منه إلى أن هذاالتعديد إنما هو فسخه لَهُمْ، فَمَنْ ضَيَّقَ عَلَى نَفْسِهِ لَزِمَهُ. قَالَ عُلَمَاؤُنَا: وَاتَّفَقَ أَئِمَّةُ الْفَتْوَى عَلَى لُزُومِ إِيقَاعِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ فِي كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ السَّلَفِ.

أحكام القرآن للجصاص (1 /527، ط: قدیمی):
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْله تَعَالَى: {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} الْآيَةَ، يَدُلُّ عَلَى وُقُوعِ الثَّلَاثِ مَعًا مَعَ كَوْنِهِ مَنْهِيًّا عَنْهَا.

صحيح البخاري (1 / 43، دار طوق النجاة):
عن عبد الله بن زيد أن النبي صلى الله عليه وسلم «توضأ مرتين مرتين».

الأم للشافعي (5 / 196،  دار المعرفة - بيروت):
(قَالَ الشَّافِعِيُّ): وَالْقُرْآنُ يَدُلُّ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ عَلَى أَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَةً لَهُ دَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا ثَلَاثًا لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ الَّتِي لَمْ يَدْخُلْ بِهَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَدْ حُرِّمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا.
صحيح البخاري (2/791، ط: قدیمی):
عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول».

عمدة القاری (2/336، ط؛ رشیدیه)
مطابقته  للترجمة في قوله: طلق امراته ثلاثاً فإنه ظاهر في كونها مجموعة.

فتح الباري لابن حجر (9 / 367):
فالتمسك بظاهرقوله طلقها ثلاثا فإنه ظاهر في كونها مجموعة.

صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی):
أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»۔

فتح الباري لابن حجر (9 / 367، دار المعرفة - بيروت):
قوله فبت طلاقي فإنه ظاهر في أنه قال لها أنت طالق ألبتة ويحتمل أن يكون المراد أنه طلقها طلاقا حصل به قطع عصمتها منه وهو أعم من أن يكون طلقها ثلاثا مجموعة أو مفرقة ويؤيد الثاني أنه سيأتي في كتاب الأدب من وجه آخر أنها قالت طلقني آخر ثلاث تطليقات۔

صحیح البخاری، 2/ 791،  ط: قدیمی
سنن ابی داؤد، 1/324، باب فی اللعان، ط: رحمانیه
سنن ابن ماجه (1 /145):
 عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ: «طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»۔

سنن نسائی، 2/100، کتاب الطلاق، باب الرخصة فی ذالک ط؛ قدیمی۔
سنن ابی داؤد، 1/331، رحمانیه
أحكام القرآن للجصاص (1 /529، ط: قدیمی):
 فَالْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ تُوجِبُ إيقَاعَ الثَّلَاثِ مَعًا وَإِنْ كَانَتْ مَعْصِيَةً۔

 الاشفاق( ص: 53، 54)
قال ابن رجب : لا  نعلم من الأمة أحداً خالف  في هذه المسئلة مخالفةً ظاهرةً ولا حکماً ولا قضاءً ولا علماً ولا إفتاءً ، ولم یقع  ذلک  إلا من نفر یسیر  جداً وقد أنکر علیهم من عاصرهم  غایة الإنکار وکان أکثرهم یستخفي بذلک ، ولایظهره.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 233):
 وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.

شرح النووي على مسلم (1/474، قدیمی):
وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَمَالِكٌ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ يَقَعُ الثَّلَاثُ.

صحيح مسلم (1/477، 478، ط: قدیمی):
عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ "۔

شرح النووي على مسلم (1/478، ط: قدیمی):
 فَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَابِهِ وَتَأْوِيلِهِ فَالْأَصَحُّ أَنَّ مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ إِذَا قَالَ لَهَا أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَلَمْ يَنْوِ تَأْكِيدًا وَلَا اسْتِئْنَافًا يُحْكَمُ بِوُقُوعِ طَلْقَةٍ لِقِلَّةِ إِرَادَتِهِمُ الِاسْتِئْنَافَ بِذَلِكَ فَحُمِلَ عَلَى الْغَالِبِ الَّذِي هُوَ إِرَادَةُ التَّأْكِيدِ فَلَمَّا كَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَ اسْتِعْمَالُ النَّاسِ بِهَذِهِ الصِّيغَةِ وَغَلَبَ مِنْهُمْ إِرَادَةُ الِاسْتِئْنَافِ بِهَا حُمِلَتْ عِنْدَ الْإِطْلَاقِ عَلَى الثَّلَاثِ عَمَلًا بِالْغَالِبِ السَّابِقِ إِلَى الْفَهْمِ مِنْهَا فِي ذَلِكَ الْعَصْرِ۔

صحيح البخاري (1/360، کتاب الشهادات، ط: قدیمی):
 سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه، يقول: " إن أناسا كانوا يؤخذون بالوحي في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن الوحي قد انقطع، وإنما نأخذكم الآن بما ظهر لنا من أعمالكم، فمن أظهر لنا خيرا، أمناه، وقربناه، وليس إلينا من سريرته شيء الله يحاسبه في سريرته، ومن أظهر لنا سوءا لم نأمنه، ولم نصدقه، وإن قال: إن سريرته حسنة ".

سنن أبي داود (1/317، ط: رحمانیه):
عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ، فَيَرْكَبُ الْحُمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} [الطلاق: 2]، وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَلَمْ أَجِدْ لَكَ مَخْرَجًا، عَصَيْتَ رَبَّكَ، وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ.

سنن أبي داود (1/317، ط: رحمانیه):
رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حُمَيْدٌ الْأَعْرَجُ، وَغَيْرُهُ عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَيُّوبُ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، جَمِيعًا عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ كُلُّهُمْ قَالُوا: فِي الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ أَنَّهُ أَجَازَهَا، قَالَ: وَبَانَتْ مِنْكَ۔

موطأ مالك (199، باب ما جاء فی البتة):
 عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِي مِائَةَ تَطْلِيقَةٍ فَمَاذَا تَرَى عَلَيَّ؟ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ «طَلُقَتْ مِنْكَ لِثَلَاثٍ، وَسَبْعٌ وَتِسْعُونَ اتَّخَذْتَ بِهَا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا».

موطأ امام محمد (203)
 أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ بُكَيْرٍ، قَالَ: طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَنْكِحَهَا فَجَاءَ يَسْتَفْتِي، قَالَ: فَذَهَبَتْ مَعَهُ، فَسَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالا: «لا يَنْكِحُهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ طَلاقِي إِيَّاهَا وَاحِدَةً، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «أَرْسَلْتَ مِنْ يَدِكَ مَا كَانَ لَكَ مِنْ فَضْلٍ».

مسند أحمد (4 / 215، ط: مؤسسة الرسالة، ترکی):
حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو بَنِي الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا، قَالَ: فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟» قَالَ: طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: «فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَأَرْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ» قَالَ: فَرَجَعَهَا۔

التلخيص الحبير  (3 / 458، دار الكتب العلمية):
وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاكِمُ، وَهُوَ مَعْلُولٌ أَيْضًا.

ميزان الاعتدال (2 / 6، ط: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت)
المستدرك على الصحيحين للحاكم (2 / 533، دار الكتب العلمية - بيروت):
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّنْعَانِيُّ بِمَكَّةَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا يَزِيدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ أَبُو رُكَانَةَ أُمَّ رُكَانَةَ، ثُمَّ نَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ، فَجَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُغْنِي عَنِّي إِلَّا مَا تُغْنِي هَذِهِ الشَّعْرَةُ لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا، فَأَخَذَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِيَّةً عِنْدَ ذَلِكَ فَدَعَا رُكَانَةَ وَإِخْوَتَهُ ثُمَّ قَالَ لِجُلَسَائِهِ: «أَتَرَوْنَ كَذَا مِنْ كَذَا؟» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ يَزِيدَ: «طَلِّقْهَا» فَفَعَلَ فَقَالَ لِأَبِي رُكَانَةَ: «ارْتَجِعْهَا» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ عَلِمْتُ ذَلِكَ فَارْتَجِعْهَا» فَنَزَلَتْ {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} [الطلاق: 1] «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»۔

سنن الترمذي ت شاكر (1/222، ط: قدیمی):
 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِيَ البَتَّةَ، فَقَالَ: «مَا أَرَدْتَ بِهَا؟» قُلْتُ: وَاحِدَةً، قَالَ: «وَاللَّهِ؟» قُلْتُ: وَاللَّهِ، قَالَ: «فَهُوَ مَا أَرَدْتَ»۔

سنن أبي داود (1/318، ط: رحمانیه)

عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، أَنَّ رُكَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ، فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً؟» ، فَقَالَ رُكَانَةُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ، وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ.

سنن ابن ماجه (149، قدیمی)

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: «مَا أَرَدْتَ بِهَا؟» قَالَ: وَاحِدَةً، قَالَ: «آللَّهِ، مَا أَرَدْتَ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً؟» قَالَ: آللَّهِ، مَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً، قَالَ: فَرَدَّهَا عَلَيْهِ.

بلوغ المرام من أدلة الأحكام (2 / 98،ط: دار أطلس للنشر والتوزيع، الرياض):
وَقَدْ رَوَى أَبُو دَاوُدَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ أَحْسَنَ مِنْهُ: - أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ اِمْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ اَلْبَتَّةَ , فَقَالَ: "وَاَللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً, فَرَدَّهَا إِلَيْهِ اَلنَّبِيُّ -صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

شرح النووي على مسلم (1/478، ط: قدیمی)
وأما الرواية التي رواها المخالفون أن ركانة طلق ثلاثا فجعلها واحدة فرواية ضعيفة عن قوم مجهولين وإنما الصحيح منها ما قدمناه أنه طلقها ألبتة ولفظ ألبتة محتمل للواحدة وللثلاث ولعل صاحب هذه الرواية الضعيفة اعتقد أن لفظ ألبتة يقتضي الثلاث فرواه بالمعنى  الذي فهمه وغلط في ذلك۔ 
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200962
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
--------------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_27.html

Saturday, 23 October 2021

مسجد: اُمت ِ مسلمہ کے نشاط اور روحانی وفکری رہنمائی کا مرکز

مسجد: اُمت ِ مسلمہ کے نشاط اور روحانی وفکری رہنمائی کا مرکز

 محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ نے یہ وقیع مقالہ رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے منعقدکی گئی کانفرنس ’’مؤتمر رسالۃ المسجد‘‘ کے لئے عربی زبان میں تحریر فرمایا تھا، یہ کانفرنس رمضان المبارک ۱۳۹۵ھ مطابق ستمبر ۱۹۷۵ء میں پانچ روز جاری رہی۔ موضوع کی مناسبت سے حضرت بنوری رحمہ اللہ نے اس مقالہ میں مسجد کی اہمیت وفضیلت کے ساتھ ساتھ امام وخطیب کی ذمہ داری کو بھی اُجاگر فرمایا۔ عنوان کی اہمیت کے پیش نظر اس مقالہ کا اُردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ 

الحمد للّٰہ الذی جعل المساجدَ لإعلاء کلمۃِ اللّٰہ وإقامۃِ التوحید، والصلاۃُ والسلامُ علٰی سیدنا محمدٍ خَاتَمِ النبیین الذی بنٰی المساجدَ أساساً لفلاحٍ وخیرٍ و إرشادِ العبید، وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ الذین شَیَّدُوْا معالمَ التوحید، ورفعوا رأیاتِ مجدِ الإسلام؛ فخاب کلُّ جبار عنید، أمّا بعد:

شریعتِ اسلامیہ کا یہ حسن ہے کہ اس کا پیش کردہ ہر نظام جس مرتب انداز پر اُستوار ہے، وہ خوبی و کمال کی اتنی نوعیتیں اپنے اندر سمویا ہوا ہے کہ انسانی عقل اس کے پیش کردہ نظام سے بہتر اور مکمل نظام کا تصور بھی نہیںکر سکتی، پس پنجگانہ نمازیں جو اُمت پر روزانہ فرض ہیں، بلاشبہ ایسی عبادت ہے جو خالص اللہ کی رضا کے لئے ہے۔ ان نمازوں کے مکمل ثمرات اور عمدہ برکات عظیم اجروثواب کی صورت میں تو جنت میں ہی ملیں گی، جہاں کی نعمتیں بے مثل وبے نظیر ہیں۔ ہر نماز کے لئے اذان جیسے عظیم الشان مسنون عمل کے ذریعے لوگوں کو جمع کرنے کاحسین طریقہ مقرر کیا گیا، پھر ان نمازوں کے لئے خاص جگہیں ہیں، جن کا نام مساجد رکھا گیا۔ یومیہ پانچ مرتبہ لوگوں کے اس طرح جمع ہونے سے جہاں امت ِ مسلمہ کے روحانی اجتماع کا باعث بنا، وہیں اس کے ذریعے باہمی تعارف، الفت و محبت، اور افرادِامت کو ایک دوسرے سے قریب ہونے کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔ پھر محلہ کی مسجد میں ہونے والے اس پنج وقتہ اجتماع کے دائرے کو جامع مسجد کے ذریعے مزید وسعت دی گئی۔ شکرانے اور خوشی کے دو تہواروں یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کے لئے کھلے میدان میں باجماعت نماز کا اجتماع مقرر کرکے اس دائرے کو مزید کشادہ کیا گیا، اور پھر ان تمام اجتماعات سے بڑھ کر حج بیت اللہ کا اجتماع مقرر کیا گیا۔ اگر امت ِ مسلمہ کی جانب سے کماحقہ قدر دانی ہو تو شریعت کا عطا کردہ ہر نظام مسلمانوں میں دینی، اجتماعی اور ثقافتی روح بیدار کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، اور اہل اسلام کو قدردانی پر آمادہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔ یہ مقصد ترغیب و ترہیب، وعظ و نصیحت اور قدردانی کرنے والوں کے اجر عظیم کا بار بار تذکرہ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اس طرح شوق دلاکر اگر لوگوں کو عمل پر آمادہ کیا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ جو شخص ان حقائق کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہو اور بلند کردار کا طالب ہو، وہ اُسے جاننے کے بعد بھی احکام اسلام کی پاسداری نہ کرے۔ جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لیے ان بابرکت مساجد کا نظام وہ نظام ہے کہ انسانی عقل اس سے ارفع اور بہتر نظام کو سوچ ہی نہیں سکتی۔ اس نظام کی مندرجہ ذیل بنیادی خصوصیات ملاحظہ کیجیے:

توحید، رسالت، آخرت اور نماز کی طرف دعوت: ایک شخص ایک سے زائد مرتبہ اللہ کی عظمت و جلالت اور اللہ کی توحید بیان کرتا ہے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا اعلان کرتا ہے، پھر لوگوں کو نماز کی دعوت دیتا ہے جو ہر قسم کی ہدایت اور بھلائی کا منبع ہے، پھر اسی طرح اخروی کامیابی کی دعوت بھی دیتا ہے، اور بقول علامہ راغب اصفہانی کے ’’جس کامیابی کی بقاء کو فنا کا، جہاں کی مالداری کو فقر کا، اور جہاں ملنے والی عزت کو ذلت کا کوئی اندیشہ نہیں، وہاں کا علم ہر جہل سے مبرا ہے۔‘‘ (المفردات فی غریب القرآن، مادہ: فلح، ص: ۳۸۵، المطبعۃ المیمنیۃ، مصر) اس پر مزید اضافہ کیجئے کہ وہاں کی راحت میں تکان کا گزر نہیں۔ اس جامع اور انوکھی دعوت کو دیکھئے، پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس آواز کو مسلمانوں کے گوش گزار کرنے کے لئے منار اور منبر جیسے وسائل کا انتخاب کیا گیا، جن میں آج کی سائنسی پیش رفت کے بعد لاؤڈاسپیکر اور مائیک کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ اس اہمیت کے ساتھ مسجد میں آنے کی دعوت خود ایک عجیب شان رکھتی ہے۔ 

مسجد کی اہمیت قرآن کریم کی روشنی میں: قرآن کریم کی وہ آیات جن کا مسجد اور اس کے بنیادی اہداف و مقاصد کے بیان سے تعلق ہے، وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مساجد توحید خداوندی اور اسلام کی دعوت کے مراکز ہیں، اور دین میں اخلاص پیدا کرنے کا سرچشمہ ہیں، نیز ان کی آباد ی اللہ کے ذکر، نماز اور عبادت سے ہوتی ہے، باری جل شانہٗ کا ارشاد ہے:

’’وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ أَحَداً۔‘‘ (الجن: ۱۸)

’’اور یہ کہ مسجدیں اللہ کی یاد کے واسطے ہیں، سو مت پکارو اللہ کے ساتھ کسی کو‘‘۔ (ترجمہ شیخ الہندؒ)

یہ آیت مسجد میں توحید کا پرچار کرنے اور مساجد کو ہر نوع کے شرک سے دور رکھنے کی ہدایت کرتی ہے۔باری جل شانہٗ کا ایک اور فرمان ہے:

’’وَأَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ۔‘‘(الاعراف: ۲۹)

’’اور سیدھے کرو اپنے منہ ہر نماز کے وقت اور پکارو اس کو خالص اس کے فرمانبردار ہو کر۔‘‘ (ترجمہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ)

یہ ارشاد مساجد میں اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے اور اخلاص کے منافی ہر عمل سے بچنے کی ہدایت دیتا ہے۔ باری جل شانہٗ کا ایک اور فرمان ہے: 

’’فِیْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللّٰہُ أَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ۔‘‘ (النور: ۳۶)

’’ان گھروں میں کہ اللہ نے حکم دیا ان کو بلند کرنے کا۔‘‘ (ترجمہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ)

جمہور مفسرین کی رائے کے مطابق یہ آیت مساجد کے مقاصد کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

مسجد کے فضائل واہمیت احادیث رسول کی روشنی میں: مزید براں فضائل پرنظر ڈالیں: مساجد کی طرف پیش قدمی کے لیے اُٹھنے والے ہر قدم کے بدلے ایک درجے کی بلندی اور ایک خطا کی معافی کا وعدہ کیا گیا، ہر صبح و شام مسجد کی طرف جانے کے بدلے جنت میں صبح و شام کی خاص مہمان نوازی کا اعلان کیا گیا، جیسا کہ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص مسجد کی طرف صبح کے وقت، یا شام کے وقت جاتا ہے، اللہ جل شانہٗ اس کے لئے جنت میں ہر صبح اور ہر شام مہمان نوازی فرمائیں گے۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من خرج الی المسجد و من راح، ۱/۹۱، ط: قدیمی) 

اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہوتا ہے تو جب تک وہ اپنے مصلے پر با وضو رہے فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے رہتے ہیں: ’’اے اللہ! اس کی مغفرت فرما، اے اللہ! اس پر رحم فرما‘‘۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوٰۃ و فضل المساجد، ۱/۹۰، ط: قدیمی)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو خوب چرو، سوال کیا گیا کہ: جنت کے باغ کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مساجد۔‘‘ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب، ۲/۱۹۱، ط: قدیمی)

 اسی طرح مساجد کی تقدیس و تعظیم، اسلام میں مساجد کی بلند شان اورمسجد میں داخل ہونے والے شخص کے لئے ثواب اور اجرِعظیم کی بشارتوں کے سلسلے میں کئی روایات منقول ہیں۔

 مسجد، کتاب وسنت کی تعلیم وتربیت کا مرکز: اسلام کی عظیم الشان تاریخ ہمیں مسجد نبوی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حین حیات قائم ہونے والے دینی تعلیم کے حلقوں کا پتہ دیتی ہے۔ یہ تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ فقراء اصحابِ صفہؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مقدس کو سننے اور یاد کرنے کے لئے جمع ہونے والا پہلا قافلۂ علم تھا۔ یہ حضرات مسجد نبوی اور صفہ ہی میں رہتے، تاکہ قرآن کی کوئی آیت جو بصورتِ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کوئی فرمان گرامی سننے سے رہ نہ جائے۔ ان میں وہ قراء کرام بھی تھے جنہیں بئر معونہ پر رعل، ذکوان اور عصیہ نامی قبائل کے افراد نے دھوکہ سے شہید کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبائل کے خلاف ایک مہینے تک فجر کی نماز میں قنوتِ نازلہ کے ذریعے بددعا فرمائی۔ انہی اصحاب صفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں وہ لوگ بھی تھے جن کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے اصحاب صفہؓ میں سے ستر افراد ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے کسی کے پاس تن ڈھانکنے کے لئے مکمل کپڑا نہ ہوتا تھا، یا ازار ہوتی یا بڑی چادر ہوتی جس کو گردن پر باندھ لیتے، کسی کی یہ چادر نصف پنڈلی تک پہنچتی، کسی کی ٹخنوں تک پہنچتی، تو وہ اس چادر کو سمیٹ سمیٹ کر بیٹھ جاتے، مبادا ستر ظاہر ہوجائے۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب نوم الرجال فی المسجد، ج:۱، ص:۶۳، ط: قدیمی)

انہی اصحاب صفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد تھے، ایک انتہائی باکمال اور باصلاحیت عبقری شخصیت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تھی، آپ رضی اللہ عنہ کا شمار حفاظِ حدیث صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہوتا تھا۔ عہدِنبوت کے صرف تین سالوں میں آپ رضی اللہ عنہ نے علوم حدیث کے وہ عظیم خزانے حاصل کئے جن کی کثرت نے ایک عالَم کو انگشت بدنداں کر دیا، آپ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ احادیث جو ہم تک پہنچی ہیں، ان کی تعداد پانچ ہزار تین سو چوہتر (۵۳۷۴) ہے، یہ ایک بڑی تعداد ہے اور ’’صحیح بخاری‘‘ کی مکررات کو حذف کرکے بقیہ روایات سے زیادہ ہے۔ 

صرف مسجد نبوی اور مسجد حرام ہی کیا، دنیا میں جہاں کہیں بصرہ، کوفہ، بغداد، شام، وغیرہ ممالک فتح ہوئے تو وہاں مساجد کی تعمیر عمل میں آئی۔ یہ مساجد بھی درس و تدریس کے مراکز تھے، یہ مراکز بڑی بڑی جامع مساجد میں قائم تھے، گویا علم کے چشمے تھے جو اُبل پڑے تھے اور فراونی سے بہہ رہے تھے۔ عراق کی فتح کے بعد جامع مسجد کوفہ سب سے پہلی مسجد تھی، جس کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رکھی تھی ۔ یہ مسجد احادیث نبویہ کی تعلیم کا مرکز تھی، جہاں براء بن عازب رضی اللہ عنہ پہلے صحابی تھے جنہوں نے احادیث نبویہ کی تعلیم شروع فرمائی۔ اسی طرح بعد کے ادوار میں بھی مساجد دین کی درسگاہیں ہی ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت قاہرہ کی جامع ازہر، تیونس کی جامع زیتونہ اور اندلس کی جامع قرطبہ کو حاصل ہوئی۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایسی جامع مساجد تھیں جو کہ علوم اسلامیہ کی باقاعدہ یونیورسٹیاں تھیں، جن سے علم کے چشمے جاری تھے، جن سے نکلنے والی نہریں کرہ ٔارض کے مختلف گوشوں میں پھیل چکی تھیں، اور ان نہروں سے چھوٹے بڑے سبہی اہل علم مستفید ہورہے تھے۔ ان تاریخی روایات کو مد نظر رکھ کر یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اسلامی سلطنت و سطوت کے زمانے میں عرب و عجم کے جس شہر میں بھی کوئی مسجد قائم ہوئی، وہ کتاب و سنت کی تعلیم کا مرکز بھی رہی ہے۔ ان مبارک تاریخی نقوش کی روشنی میں اب ہم قارئین و حاضرین، ائمہ وخطبا کی خدمت میں مساجد کے لیے چند اصول و ضوابط پیش کرتے ہیں، تاکہ پنج وقتہ نماز کے لیے مسجد میں آنے والا ہر شخص شریعت کے نظامِ مساجد سے فائدہ اُٹھاسکے۔

امام مسجد کے اوصاف: ۱- ہر مسجد کے لئے ایک سمجھ دار، بیدار مغز، فاضل عالم دین بطورامام مقرر کیا جائے۔

۲- جو نمازیوں کی اچھی طرح تربیت اور انہیں دینی تعلیم سے روشناس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

۳- نیز یہ امام قرآن کریم کو درست تجوید کے ساتھ پڑھنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہو۔

۴- اور اچھے اخلاق سے بھی آراستہ ہو۔

اِمام درسِ قرآن کی تیاری کس طرح کرے؟

۱- ہر امام کو چاہیے کہ وہ نمازِ فجر کے بعد درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کرے ۔

۲- جس میں نمازیوں کو قرآن کریم کے مطالب اس اسلوب سے ذہن نشین کروائے جو اُن کے فہم اور مستویٰ کے مطابق ہو۔

۳- ایسی باتیں جو ان کے لئے کارآمد نہ ہوں، مثلاً: لغت، اعراب وترکیب کی باریکیاں، یا بے فائدہ توجیہات و تاویلات، وغیرہ میں ہرگز نہ پڑے۔

۴- بلکہ قرآن کریم کے اہم پہلوؤں پر اکتفا کرتے ہوئے قرآن کریم کے مطالب و مقاصد کو عمدہ اور نفع مند اسلوب کے ساتھ واضح کرے، کیونکہ امت کے آخری لوگوں کی اصلاح کا بھی وہی طریقہ ہے جو طریقہ اول امت کی اصلاح کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا تھا۔

۵- امام کو چاہئے کہ درس کے دوران آیات کے ترجمہ و تفسیر کی مناسبت سے نمازیوں کے عقائد کی درستگی، اور ان کے معاملات کی اصلاح کی طرف بھی بھر پور توجہ کرے۔

۶- درس کے لئے مختصر وقت مقرر کیا جائے، یہ وقت کم سے کم پندرہ منٹ اور زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ ہو، تاکہ عوام کو اُکتاہٹ نہ ہو، اور درس میں شرکت کی پابندی ہوسکے، اس لئے کہ بہترین عمل وہی ہے جو ہمیشگی اور مستقل مزاجی سے کیا جائے، اگرچہ تھوڑ اہی کیوں نہ ہو۔

درسِ حدیث کا اہتمام اور ا س کی تیاری:

۱- مناسب ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد درسِ حدیث کا اہتمام کیا جائے۔

۲- درسِ حدیث کے لیے عمدہ اور مفید کتب مثلاً: امام نووی رحمہ اللہ کی ’’ریاض الصالحین ‘‘ یا امام منذری رحمہ اللہ کی ’’الترغیب والترہیب ‘‘کا انتخاب ہو۔ 

 ۳- اس درس میں ان اختلافی مسائل کا تذکرہ جس سے نمازیوں کو فکری تشویش لاحق ہو، نہ کیا جائے۔

۴- درسِ حدیث کا بنیادی ہدف نمازیوں کی روحانی اصلاح اور ان کے دل و دماغ کی پاکیزگی کی کوشش ہو۔

۵- اس درس کا وقت کم از کم آدھا گھنٹہ مقرر کیا جائے، اور فجر کے بعد کا وقت اس کے لئے مناسب ہے، اس لئے کہ یہ فراغت و فرصت کا وقت ہوتا ہے۔

۶- اس طرز پر تعلیمی سلسلے جاری رکھنے کی صورت میں ہر مسجد ایک دینی مدرسے کی صورت اختیار کرلے گی۔ 

عام فہم اسلامی فقہی احکام سے متعلق نصاب: 

۱- ایک خاص نصاب مقرر کیا جائے، جس میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج،وغیرہ بنیادی عبادات کے فقہی احکام کا انتخاب ہو۔

۲- فجر کے علاوہ چاروں نمازوں میں سے کسی ایک نماز میں کم از کم پانچ منٹ اس نصاب کی تعلیم کے لئے متعین کیے جائیں، تاکہ نمازیوں کو ان عبادات کے احکام سے بھی ایک گونہ واقفیت ہو جائے۔

خطبۂ جمعہ اور تقریر کی تیاری: 

۱- جامع مسجد جہاں جمعہ و عیدین کی نمازیں بھی ادا کی جاتی ہوں، وہاں کے خطیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خطبے میں عالمی اسلامی مسائل کو لے کر اُمتِ مسلمہ کی حالیہ ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں بات کرے۔

۲- اسی طرح خطیب کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس خطبے کو اچھی طرح تیار کرے، ایسے الفاظ کا چناؤ کرے جو اصلاحِ قلب کے لئے مؤثر اور مفید ہوں۔

۳- نیز خطبہ معتدل انداز کا ہو، نہ اس قدر اختصار ہو کہ مقصود حاصل نہ ہوسکے، نہ موضوع سے ہٹ کر غیرضروری باتوں کی تطویل ہو کہ سننے والے اُکتا ہی جائیں۔

۴- یہ بھی خیال رہے کہ خطبے میں ایسے اختلافی مسائل کو نہ چھیڑا جائے جو اُمت میں عرصہ دراز سے اختلافی ہی چلے آرہے ہیں۔

۵- خطیب کو چاہیے کہ وہ اہمیت کے حامل فقہی احکام اور دین کے بنیادی مسائل کے بیان ہی پر اکتفا کرے۔

۶- خطیب کی دعوت ایسی حکیمانہ ہو کہ سننے والوں کے دلوں کو چھو جائے۔

۷- ساتھ ساتھ کتاب و سنت کے دلائل سے مؤید بھی ہو، تاکہ سامعین مطمئن رہیں، اور یہ سمجھ سکیں کہ دین اسلام ہی وہ آسمانی مذہب ہے جو انسان کی نیک بختی اور سعادت کا ضامن ہے، یہی وہ دین فطرت ہے جس سے انسان کا بنایا ہوا کوئی نظام مستغنی نہیں ہوسکتا، اور امریکی و یوروپی تہذیب کی کجی اور بگاڑ کی اصلاح صرف اورصرف صحیح اسلام اور شریعتِ محمدیہ پر عمل کرنے ہی میں ہے۔ دین اسلام ہی سب سے بہتر دینی و اقتصادی نظام ہے ،جو فرد و جماعت، مادی و روحانی تمام شعبہ جات کو حاوی ہے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خطیب ان موضوعات کا انتخاب کرے جو معاصر ضرورتوں میں سے اہمیت کے حامل ہوں۔

جمعہ کا خطبۂ مسنونہ غیرعربی زبان میں بدعت اور فتنہ ہے: اگر سامعین عربی زبان جاننے والے نہ ہوں تو ان کے لیے مناسب یہ ہے کہ خطبۂ جمعہ بلکہ اذان سے پہلے خطبے کے موضوع کو سامعین کی زبان میں بطور خلاصہ پیش کر دیا جائے۔ جمعے کا خطبہ صرف عربی زبان ہی میں دیا جائے، اس لیے کہ عہد نبوی ہی سے امت کا یہ معمول رہا ہے کہ جمعہ و عیدین کے خطبے عربی زبان ہی میں دیے جاتے رہے ہیں، اس لیے کہ عربی زبان قرآن اور اسلام کی زبان ہے، غیرعربی زبان میں خطبہ کسی صورت مناسب نہیں، اس لیے کہ عہد صحابہؓ میں فار س و روم کے علاقے جب فتح ہوئے تھے، اس وقت بھی خطبۂ جمعہ کی زبان عربی ہی رہی۔ اسی طرح تمام خطبات کی اصل روح باری عز اسمہٗ کا ذکر ہے، جہاں تک خطبے کے ذریعے وعظ ونصیحت کی بات ہے تو وہ ثانوی چیز ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی پوشیدگی کے باعث بہت سے لوگوں کو یہ بات اچھنبی معلوم ہوتی ہے کہ سامعین کی زبان کے علاوہ کسی زبان میں خطبہ دیا جائے، حالانکہ خطبہ ایک عبادت ہے، اس کی نوعیت ان عام خطبوں کی مانند نہیں جو عام محافل و مجالس میں سامعین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔بلکہ اگر لوگوں کے اس تعجب کے دائرے کو وسیع کیا جائے تو یہ معاملہ صرف خطبے تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ یہ نماز تک وسیع ہو جائے گا، اس لیے کہ غیر عربی دان کے لیے وہ بھی ایک مختلف زبان میں مناجات ہوگی، اس طرح یہ فتنہ بڑھتا ہی رہے گا۔ امریکہ و یوروپ کے کئی ممالک میں یہ فتنہ پھیل گیا ہے، چنانچہ وہاں ائمہ سامعین ہی کی زبان میں خطبہ دیتے ہیں، یہ ایک بدعت ہے جس کی پیروی کسی صورت نہیں کی جانی چاہیے، اللہ ہمیں اس فتنے سے محفوظ رکھے۔ بلکہ ہمارے علاقوں میں تو نماز کو اردو زبان میں ادا کرنے کا فتنہ پیدا ہوچکا ہے، اور اہل علم اس فتنے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ملازمت وتجارت پیشہ حضرات کو دین سے قریب کرنے کا ذریعہ: خلاصہ یہ ہے کہ اگر مساجد میں ان اصولوں کی رعایت رکھی جانے لگے، تو ان بالغ نمازیوں کے لئے جو اپنی مصروفیات کی وجہ سے باقاعدہ مدارس میں پڑھ نہیں سکتے، اسی طرح ان کاروبار پیشہ افراد کے لیے بھی جو بازاروں میں کاروبار میں مصروف رہتے ہیں، نیز اس ملازمت پیشہ طبقے کے لیے جو حکومتی اداروں میں ملازمت کے باعث فرصت نہیں پاتے، یہی مساجد دینی درسگاہیں ثابت ہوں گی۔ نوجوانانِ امت جن کا دین دار طبقے اور دینی تعلیمی اداروں سے تعلق ٹوٹ چکا ہے، ان کو دین اسلام کی روح سکھانے اور سمجھانے کے لئے یہ ایک بہترین طریقہ کار ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم عام گلی کوچوں اور بازاروں کے لئے لاؤڈاسپیکر وغیرہ جدید وسائل بھی استعمال کریں تو یہ نظام ان مردوں اور عورتوں کے لیے بھی جو گھروں ہی میں رہتے ہیں (مسجدوں کی طرف رخ نہیں کرتے) بیک وقت اصلاح کے لیے مفید ہو سکتا ہے، تاکہ وہ بھی چند لمحوں پر محیط اس درس کی طرف راغب ہوں اور تربیت کا دائرہ بڑھتا ہوا ان عورتوں اور بچوں کوبھی شامل ہوجائے جو گھروں میں رہتے ہیں۔ خطیب کو چاہئے کہ اس کے لیے بھی خالص ایسے تربیتی موضوعات اختیار کرے جیسے موضوعات ٹیلیوژن اور ریڈیو وغیرہ پر دیے جانے والے دروس کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ اس طرح مساجد کا یہ نظام جدید وسائل و آلاتِ نشر واشاعت کی مدد سے ایک عمدہ ترین، انتہائی نفع بخش اور تربیت کے تمام گوشوں کو بیک وقت احاطہ کئے ہوئے نظام کی صورت میں نمایاں ہوگا، لیکن بہر حال توفیق و انعام دینے والی ذات تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کی ہے۔ الغرض نمازوں کے اجتماعات کے ساتھ ساتھ یہ مساجد دراصل توحید کی طرف دعوت کا عنوان ہیں، تبلیغ دین کا عنوان ہیں، احکام شریعت کی تعلیم کا عنوان ہیں اور فکری تربیت، قلبی اور روحانی اصلاح کا عنوان ہیں، جیسا کہ پچھلے وقتوں میں یہی مساجد قضائ، افتاء اور عدالتی فیصلوں کا بھی عنوان ہوا کرتی تھیں۔ اخیر میں، میں رابطہ عالم اسلامی کے صدر اور ان کے رفقائے کار کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ائمہ مساجد کی بیداری اور ان کے منصب کی رفعت پر تنبیہ کے لیے ہدایات پیش کرنے کی غرض سے اس مجلس کا انعقاد کیا، بلا شبہ اگر اسلامی ممالک میں مساجد کا یہ نظام واقعی متحرک اور فعال ہوجائے تو یہ ایک بہترین کاوش ثابت ہوگی۔ اللہ جل شانہٗ سے دعا ہے کہ وہ رابطہ عالم اسلامی کے ارباب حل و عقد، خصوصاً محترم صدر رابطہ عالم اسلامی کو اسلام، ملت اسلامیہ، علم اور اہل علم کی اس سے بڑھ کر خدمت کی توفیق مرحمت فرمائے، اور مجلس رابطہ عالم اسلامی کو اسلام و اہل اسلام کے لئے خیر وبھلائی کی نوید بنائے۔ اللہ ہی دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والا ہے۔  محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/book.html