Sunday, 31 May 2020

وضو میں حد وجہ کہاں تک ہے؟

وضو میں حد وجہ کہاں تک ہے؟
-------------------------------
--------------------------------
دیکھنے والے کے لئے ظاہر ہونے والے حصے کو لغوی اعتبار سے "وجہ" کہتے ہیں، شرعاً واصطلاحاً فقہاء کرام نے اس کی حدود بیان کردی ہیں جس پر تقریباً ائمہ مجتہدین کا اتفاق ہے:
"والوَجْهُ مستقبَلُ كُلِّ شَيءٍ" انتهى (المحيط في اللغة" (1/314) – "كتاب العين" (4/66)
قرطبی کی احکام القرآن میں ہے:
"الوجه في اللغة مأخوذ من المواجهة، وهو عضو مشتمل على أعضاء وله طول وعرض ؛ فحده في الطول من مبتدأ سطح الجبهة إلى منتهى اللحيين، ومن الأذن إلى الأذن في العرض" "والعرب لا تسمي وجها إلا ما وقعت به المواجهة" انتهى .(الجامع لأحكام القرآن" (6/83)
مجمع بحار الانوار میں ہے:
حد الوجه مادون منابت الشعر معتاداً الی الاذنين واللحيين والذقن واحترز بالمعتاد عن الصلع  وادخل به الفم، واللحيان والذقن واحد فهو تاکيد انتهیٰ» (مجمع بحار الأنوار 22/5)
یعنی چہرے کی حد عادتاً بالوں کی اُگنے کی جگہ سے دونوں کانوں تک اور نیچے کے جبڑے اور ٹھوڑی تک اور عادتاً کی قید سے پیشانی کے اڑے ہوئے بال نکل گئے اور اس کے ساتھ منہ کو داخل کیا اور نیچے کا جبڑہ اور ٹھوڑی (سے مراد اس محل میں) ایک ہی ہے پس وہ تاکید ہے۔) 
امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
"حَدُّ الوجه عند الفقهاء: ما بين منابت شعر الرأس - ولا اعتبار بالصَّلع ولا بالغَمَم - إلى منتهى اللحيين والذقن طولا ومن الأذن إلى الأذن عرضا" (تفسير ابن كثير 3/47)
لغوی اطلاق کو بنیاد بناکر فقہاء کرام نے وجہ کی اصطلاحی وشرعی تعریف کی ہے، تقریباً ائمہ کا اتفاق ہے کہ پیشانی کے بال اگنے کی جگہ سے لیکر ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو، چہرے کی تعریف میں شامل ہے اور یہاں تک دھونا وضو میں  فرض ہے۔
ہدایہ اور فتح القدیر میں ہے:
وَحَدُّ الْوَجْهِ مِنْ قِصَاصِ الشَّعْرِ إلَى أَسْفَلِ الذَّقَنِ وَإِلَى شَحْمَتَيْ الْأُذُنِ; لِأَنَّ الْمُوَاجَهَةَ تَقَعُ بِهَذِهِ الْجُمْلَةِ وَهُوَ مُشْتَقٌّ مِنْهَا (ہدایہ)
(قَوْلُهُ مِنْ قِصَاصِ الشَّعْرِ) خَرَجَ مَخْرَجَ الْعَادَةِ، وَإِنَّمَا طُولُهُ مِنْ مَبْدَإِ سَطْحِ الْجَبْهَةِ إلَى أَسْفَلِ اللَّحْيَيْنِ حَتَّى لَوْ كَانَ أَصْلَعَ لَا يَجِبُ مِنْ قِصَاصِهِ، وَيُجْزِئُ الْمَسْحُ عَلَى الصَّلْعَةِ فِي الْأَصَحِّ وَالْقِصَاصُ مُثَلَّثٌ الْقَافِ (فتح القدير مع  الهداية ١٢/١) (المبسوط) للسرخسي (1/10)، (بدائع الصنائع) للكاساني (1/3)، (مواهب الجليل) للحطاب (1/266)، (الفواكه الدواني) للنفراوي (1/388)، (المجموع) للنووي (1/371)، (المغني) لابن قدامة (1/85)، (الإنصاف) للمرداوي (1/154)، (المحلى)) لابن حزم (1/295)
علامہ کاسانی کا خیال ہے کہ چہرے کی یہ حد بندی فقہ حنفی کی ظاہر روایہ میں نہیں کی گئی ہے، حدود اربعہ کی یہ حدبندی غیر ظاہر روایہ میں ہوئی ہے:
"وَلَمْ يَذْكُرْ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ حَدَّ الْوَجْهِ , وَذَكَرَ فِي غَيْرِ رِوَايَةِ الْأُصُولِ أَنَّهُ مِنْ قِصَاصِ الشَّعْرِ إلَى أَسْفَلِ الذَّقَنِ , وَإِلَى شَحْمَتَيْ الْأُذُنَيْنِ, وَهَذَا تَحْدِيدٌ صَحِيحٌ; لِأَنَّهُ تَحْدِيدُ الشَّيْءِ بِمَا يُنْبِئُ عَنْهُ اللَّفْظُ لُغَةً; لِأَنَّ الْوَجْهَ اسْمٌ لِمَا يُوَاجِهُ الْإِنْسَانَ, أَوْ مَا يُوَاجَهُ إلَيْهِ فِي الْعَادَةِ. وَالْمُوَاجَهَةُ تَقَعُ بِهَذَا الْمَحْدُودِ" انتهى. "بدائع الصنائع" (1/3)
اسفل ذقن سے کیا مراد ہے؟
نچلے ہونٹ ولب کے نیچے چہرے کا آخری حصہ جہاں دو نوں جبڑے ملتے ہیں اسے ذقن کہتے، باتفاق فقہاء یہ چہرے کا حصہ ہے؛ کیونکہ آمنا سامنا (مواجہہ) ہونے کے وقت یہ بھی نظر آتا ہے:
والذقن من الوجه، وهو مجمع اللحيين، وهما العظمان اللذان تنبت عليهما الأسنان السفلية، اتفق الفقهاء على أن الذقن من الوجه. (الموسوعة الفقهية. الذقن)
ذقن یعنی ٹھوڑی کا ایک حصہ وکنارہ تو بالکل سامنے نظر آتا ہے، اسے "حِدّة" یعنی ٹھوڑی کا کنارہ کہتے ہیں، ہمارے کچھ فقہاء احناف ذقن سے مراد یہی لیتے ہیں، جبکہ اس ہڈی کا جو نچلا حصہ ہے جسے اقصی الذقن“ کہتے ہیں، مواجہہ کے وقت وہ نیچے والی  ہڈی بھی نظر آتی ہے، اسے منتہائے ذقن“ یا اسفل ذقن“ کہتے ہیں۔کان کی لو، اور قصاص شعر بھی چہرے کے حدود ہیں، 
ان حدود میں قصاص شعر“ اور شحمۃ اذن  وظیفہ غسل میں داخل نہیں ہیں، لیکن ان حدود کے برعکس ذقن میں اکثر فقہاء احناف کا خیال ہے کہ منتہائے ذقن بھی (ٹھوڑی سمیت) حدِ وجہ میں داخل ہے؛ لہذا ٹھوڑی سمیت وضو میں دھونا ضروری ہے. 
جن فقہی کتابوں میں اسفل ذقن“ چہرے کی حد طول بیان ہوئی ہے تو اسفل ذقن سے وہاں یہی منتہائے ذقن مراد ہے۔ ياايها الذين اٰمنوا اذا قمتم  کے ذیل میں قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: 
«الوجه اسم لعضو معلوم مشتق من المواجهة وحده من منابت الشعر الیٰ < منتهیٰ الذقن > طولا وما بین الاذنین عرضا فمن ترک غسل ما بین اللحیة والاذن لم یجز وضوءه عندالائمة الثلاثة خلافا لمالک ویجب ایصال الماء الیٰ ماتحت الحاجبین واهداب العینین والشارب واما ما تحت اللحیة فان کانت خفیة یری ماتحتها یجب غسله و انکانت کثیفة لا یری البشرة من تحتها یسقط غسل البشرة فی الوضوء کما یسقط مسح الرأس بالشعر النابت علیه والدلیل علیه اجماع الامة وفعل الرسول صلی الله علیه وآله وسلم إلخ 
تفسیر خازن میں بھی اسفل ذقن کی تعبیر کی بجائے منتہائے ذقن ہی استعمال کیا گیا ہے:
«واما حد الوجه فمن منابت شعر الراس الیٰ منتهیٰ الذقن طولا ومن الاذن عرضا لانه ماخوذ من المواجهة فيجب غسل جميع الوجه فی الوضوء ويجب ايصال الماء الی ماتحت الحاجبين واهداب العينين والعذارين والشارب والعنفقة وان کانت کثة۔  واما اللحية فان کانت کثة لا تری البشرة من تحتها لا يجب غسل ما تحتها ويجب غسل ما تحت اللحية الخفيفة الخ ۔۔۔
علامہ قہستانی کی مختصر الوقایہ کی شرح جامع رموز الروایہ اور اس پہ علامہ ابراہیم آفندی کی شرح سے اس جانب تھوڑی رہنمائی ملتی ہے: 
وأسفل الذقن بفتحتين مجتمع اللحيين، والمراد حدته عند البعض وأقصى مايبدو للمواجهة عند الأكثرين، فأسفله في الوجهين غير داخل في الوجه۔ وفي شرحه: وفي حاشية المولوي عصام الدين لشرح الوقاية قيل: ينبغي أن يفسر أسفل الذقن بما هو خارج من الوجه كقصاص الشعر وشحمة الأذن خارجين من الوجه لئلا يكون تحديد الوجه تارة بما هو داخل وتارة بما هو خارج فيفوت التناسب، فعند البعض نهاية الوجه حدة الذقن، وعند الأكثرين بما يبدو للمواجهة، فينبغي أن يفسر أسفل الذقن بما يتصل بأحد هذين الأمرين، لا بأحدهما، وهذا كلام حسن۔ (جامع رموز الرواية في شرح مختصر الوقاية مع شرح غواص البحرين في ميزان الشرحين 116۔۔119/1)
آگے تحریر فرماتے ہیں:
 ولا يدخل الحد أي الشعر وأسفل الذقن في الوجه المحدود ص 119) 
ان تصریحات سے مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ منتہائے ذقن (اسفل ذقن) محدود ومغیا سے کچھ فقہاء  کے یہاں خارج ہے، جیسے کان کی لو اور پیشانی کے بال خارج ہیں، اکثر کے یہاں یہ بھی شامل وجہ ہے، کیونکہ مواجہہ کے وقت یہ بھی نظر آتا ہے، چہرے کی حد بندی میں چونکہ لغوی اطلاق کو ہی بنیاد بنایا گیا ہے اس لئے ٹھوڑی (اسفل ذقن) بھی داخل وجہ ہوگی اور اسے دھونا ضروری ہوگا۔ ٹھوڑی سے نیچے ذقن کی کوئی حد ہے ہی نہیں 
اس کے نیچے سے حلق تک کے درمیانی حصے کو تحت الذقن کہا جاتا ہے؛ اسفل ذقن نہیں، ماتحت الذقن حصہ، حدِ وجہ میں کسی کے یہاں بھی شامل نہیں ہے. ہاں! استیعاب وضو اور استیعاب غَسلِ وجہ کے ذیل میں بیشتر فقہاء کا خیال ہے کہ حدود وجہ سے متصل دیگر اجزاءِ راس و حلق تک بھی، واجب مقاصد نہیں؛ بلکہ واجب وسائل کے بطور احتیاطاً دھولے، جیسے اتمو الصیام الی اللیل“ میں رات کے ایک معمولی حصہ تک امساک کرنے کا حکم ہے، اسی طرح فاغسلوا وجو ھکم“ میں امر استیعاب کا تحقق اسی وقت ہوگا جبکہ چہرے سے متصل تمام اعضا یعنی اوپر سر کے بال، دائیں بائیں کان کی لو اور نیچے حلق تک کے حصوں کو بھی دھوئے۔ اسے دھوئے بغیر استیعاب غسل کے وجوب کا تحقق نہیں ہوگا، اور حسب ضابطہ مالا يتم الواجب إلا به فهو واجب کے تحت منتہائے ذقن سے حلق تک کے درمیانی حصے کو بھی دھونا اسی واجب لغیرہ کے بطور بر بنائے احتیاط واجب ہے ۔دیکھئے: 
(أحكام القرآن لابن العربي ٥٤/٢، مواهب الجليل ١٨٧/١، المستصفى ص ٦٦، المجموع ٤١٦/١)
حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ اپنے درج ذیل  فتاوی میں:
1: "فصل فی فرائض الوضو" چہرہ کی حد کہاں سے کہاں تک ہے اور داڑھی کے غسل کا حکم
سوال: حد چہرہ کہاں سے کہاں تک ہے، حد چہرہ کس کو کہتے ہیں، ٹھوڑی کے نیچے اور حلق کے درمیان میں جو عضو ہے، وہ حد چہرہ ہے یاخارج ہے، وضو میں گھنی ڈاڑھی کی جڑوں کا کس قدر خشک رہنا معاف ہے، گھنی ڈاڑھی کی جڑوں کا اور بالوں کا دھونا فرض ہے یا واجب یا سنت ہے کیا ہے، گھنی داڑھی سے چند بال خشک رہ گئے تو وضو درست ہوگا یا نہیں بالوں کا کس قدر خشک رہنا معاف ہے، داڑھی بھگونے کے لئے چلو میں پانی لے کر خوب بھگوئے یا صرف جس پانی سے منہ دھویا جائے وہی پانی کافی ہے؟
الجواب: چہرے کی حد عرض میں ایک کان سے دوسرے کان تک ہے اور لمبائی میں سر کے بالوں سے لے کر ٹھوڑی تک نیچے حلق تک ہے، گھنی داڑھی کے بالوں کی جڑوں کا ترکرنا فرض نہیں ہے، بلکہ اوپر اوپر کے بالوں کا دھونا فرض ہے، ٹھوڑی کے نیچے اور حلق کے درمیان جو عضو ہے وہ بھی چہرہ میں داخل ہے، جو پانی چہرہ پر ڈالا جاتا ہے اگر اس سے داڑھی کے اوپر کے بال خوب تر ہوجائیں تو علیحدہ چلو لینے کی ضرورت نہیں، گھنی داڑھی کے بیچ میں بال خشک رہیں تو حرج نہیں، اوپر کے بال تر ہوجانا چاہئے، واللہ اعلم، ۸ رجب ۴۱ ھ (امدادالاحکام ج۱ ص ٣٦٤. يونيكوڈ)
2: وضو میں چہرہ کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟ 
سوال: وضو میں حد چہرہ کس کو کہتے ہیں، حد چہرہ کہاں سے کہاں تک ہے،ٹھوڑی کے نیچے اور حلق کے درمیان جو عضو ہے وہ چہرہ میں ہے یا خارج ہے؟
الجواب: قال فی مراقی الفلاح وحدہ ای جملۃ الوجہ طولا من مبدأ سطح الجبھۃ سواء کان بہ شعرام لا والجبھۃ مااکتنفہ جبینان، الیٰ اسفل الذقن وھی مجموع لحیتہ واللحی منبت اللحیۃ فوق عظم الاسنان لمن لیست لہ لحیتة کثیفة وفی حقہ الی مالاقی البشرۃ من الوجہ . وحدہ عرضاما بین شحمتی الاذنین ویدخل فی الغایتین جزءا منھما لاتصالہ بالفرض . والبیاض الذی بین العذاروالاذن علی الصحیح اھ ملخصاً، ص ۳۴، چہرہ کی حد طول میں سر کے بالوں کی جڑ سے لے کرٹھوڑی کے نیچے تک ہے، اور عرضاًایک کان کی لو سے لے کردوسرے کان کی لو تک ہے ٹھوڑی کے نیچے حلق کے درمیان میں جو عضو ہے وہ بھی چہرہ میں داخل ہے اس کا دھونا بھی فرض ہے۔ (امدادالاحکام ج ۱ ص ٣٦٦، یونیکوڈ)
__________________________
ٹھوڑی اور حلق کے درمیانی حصے کو بھی جو وضو میں دھونا ضروری قرار دے رہے ہیں تو یہاں تک تو بات معقول ہے دیگر فقہاء کے یہاں بھی یہ بات ملتی ہے. لیکن اس حصے کو بھی حد وجہ میں شامل ہونے کی بات مجھ طالب علم کی سمجھ میں نہ آئی: 
ولا يدخل الحد أي الشعر وأسفل الذقن في الوجه المحدود، جامع الرموز  ص 119) 
شاید اسفل ذقن کی تعبیر سے حضرت نے یہ استنباط کیا ہو؛ کیونکہ جس مراقی الفلاح کی عبارت پیش کی گئی ہے وہاں اسفل ذقن کے علاوہ اس زائد عضو کے حد وجہ میں شمولیت اور اس کے وجوب غسل جیسی کوئی بات نہیں ہے اور نہ ہی کسی فقہی کتاب میں میری ناقص تلاش کی حد تک ایسا کچھ موجود ہے، ممکن ہے میری تلاش ناقص ہو، لیکن حضرت کی عظمت شان اور جلالت علمی کے اعتراف کے علی الرغم لگتا ہے کہ صرف اس ایک جزئیے میں حضرت سے ذہول ہوگیا ہے، مسافران علم وتحقیق اس بابت کسی تشفی بخش مستند مصدر ومرجع تک پہونچیں تو اس طالب علم کو مطلع فرماکر اس کی اصلاح فرمادیں، هذا ما عندي والصواب عند الله .


Saturday, 30 May 2020

حضرت مولانا محمد سعد کاندھلوی کا شجرہ نصب

(حضرت جی) محمد سعد کاندھلوی (پیدائش: 8 محرم الحرام 1385ھ مطابق 10 مئی 1965ء) کو بنگلہ والی مسجد، بستی نظام الدین نئی دہلی میں محمد ہارون صاحب کاندھلوی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ان کی بسم اللہ 1392ھ میں والد مرحوم مولانا محمد ہارون نے اپنے آخری حج کے دوران میں سید ابو الحسن علی ندوی سے ریاض الجنہ میں کروائی۔ ان کی پیدائش سے ایک ماہ قبل ان کے دادا محمد یوسف کاندھلوی کی وفات ہوچکی تھی اور پیدائش کے آٹھ سال بعد ان کے والد محمد ہارون کا بھی انتقال کو گیا، چناں چہ ان کی پرورش و تربیت والدہ نے اور نگرانی و سرپرستی ان کے نانا محمد اظہار الحسن کاندھلوی، محمد زکریا کاندھلوی اور تبلیغی جماعت کے اُس وقت کے امیر محمد انعام الحسن کاندھلوی نے کی۔ 1985ء میں مدرسہ کاشف العلوم دہلی سے پڑھ کر فاضل ہوئے اور وہیں پر تاحال علمی ودِینی خدمات میں مصروفِ عمل ہیں۔ اس وقت تبلیغی جماعت کے صف اوّل کے اکابر میں سے ہیں اور بنگلہ والی مسجد کے متولی و ناظم اور مدرسہ کاشف العلوم کے بھی متولی و ناظم اور استاذ الحدیث ہیں، سید محمد سلمان سہارنپوری صاحب (داماد محمد زکریا کاندھلوی و موجودہ ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارن پور) کی بڑی صاحب زادی بریرہ خاتون ان کے نکاح میں ہیں جن سے تین فرزند محمد یوسف، محمد سعید اور محمد سعود ہیں۔
سوال: مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا مولانا الیاس رحمتہ اللہ علیہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے نسل میں سے ہیں؟
جواب: مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ صدیقی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اور سلسلہٴ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مل جاتا ہے، چنانچہ علی میاں صاحب ندوی حضرت کے خاندان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”جھنجھانہ اور کاندھلہ کا یہ صدیقی شیوخ کا معتبر گھرانہ تھا جس میں علم اور دین داری پشتہا پشت سے چلی آرہی تھی“ چند سطجروں کے بعد سلسلہ نسب اس طرح بیان کرتے ہیں: ”(مولانا محمد الیاس ابن) مولانا اسماعیل بن غلام حسین بن حکیم کریم بخش بن حکیم غلام محی الدین بن مولوی ساجد بن مولوی فیض بن مولوی شریف بن مولوی حکیم اشرف بن شیخ جمال محمد شاہ بن شیخ بابن شاہ بن شیخ بہاء الدین شاہ بن مولوی شیخ محمد بن شیخ محمد فاضل بن شیخ قطب (نسب نامہ خاندانی مرسلہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب) ۔ (حضرت مولانا محمد الیاس صاحب اور ان کی دینی دعوت: ص:۴۲، موٴلفہ علی میاں صاحب ندوی) بقیہ نسب سوانح مولانا انعام الحسن کاندھلوی ص:۱۷۱ پر موجود ہے، اور ”حضرت سلمان فارسی کے نسل“ میں سے ہونے کی کہیں صراحت نہیں۔
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_30.html?m=1

Friday, 29 May 2020

کیا مرد بالوں میں ربڑ ڈال سکتا ہے؟؟

کیا مرد بالوں میں ربڑ ڈال سکتا ہے؟؟
کیا مرد اپنے سنت کے مطابق بڑے بالوں میں گرمی کی وجہ سے ربڑ ڈال سکتا ہے؟؟
الجواب وباللہ التوفیق:
مرد کے لئے اپنے بالوں میں دائمی طور پر ربڑ باندھنا، جس سے عورتوں سے مشابہت لازم آئے جائز نہیں ہے۔ تاہم تھوڑی دیر کے لیے اگر گرمی کی شدت کو رفع کرنے کی خاطر ربڑ یا کوئی چیز باندھنا جس سے بال سمٹ کر ایک جگہ جمع ہوجائیں اور گرمی سے راحت محسوس ہو جائز ہے۔ مزید یہ کہ اس طرح کی عادت نہیں بنانی چاہئے۔
الضرورة تقدر بقدرها، ولها فروع كثيرة جدًا، تدخل في العبادات وغير العبادات.
القواعد الفقهية بين الأصالة والتوجيه ١١/‏٥
---------------------------------------------
القاعدة: [٣٤]
٣ - الضرورات تَقَدَّر بقَدْرِها (م/٣٣)
الألفاظ الأخرى:
- ما أبيح للضرورة يُقدرُ بقَدْرِها.
- ما جاز للضرورة يتقدر بقدرها.
- ما ثبت للضرورة يقدر بقدرها.
- الضرورة تقدر بقدرها.
- الثابت بالضرورة يتقدر بقدر الضرورة.
التوضيح
هذه القاعدة قيد لقاعدة
«الضرورات تبيح المحظورات» (م/ ٢١)
للتنبيه على أن ما تدعو إليه الضرورة من المحظور إنما يرخص منه
القدر الذي تندفع به الضرورة فحسب.
فإذا اضطر الإنسان لمحظور فليس له أن يتوسع في المحظور.
بل يقتصر منه على قدر ما تندفع به الضرورة فقط.
فالاضطرار إنما يبيح المحظورات بمقدار ما يدفع الخطر.
ولا يجوز الاسترسال، ومتى زال الخطر عاد الحظر.
وأصل هذه القاعدة ما قاله الشافعي رحمه الله تعالى:
"كل ما أحل من محرّم في معنى لا يحل إلا في ذلك المعنى خاصة.
فإذا زايل ذلك المعنى عاد إلى أصل التحريم،وهذا يؤكد القاعدة السابقة: «إذا ضاق الأمر اتسع، وإذا اتسع ضاق» وذلك يتفرع أيضًا عن قاعدة «الضرورات تبيح المحظورات»
وكل هذه القواعد تدخل تحت القاعدة الأساسية
«المشقة تجلب التيسير»
وتدخل معظم الفروع المذكورة فيها تحت كل منها.
القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب الأربعة ١/‏٢٨١
_____________
المعجم الکبیر للطبراني:
"عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء، ولعن المتشبهات من النساء بالرجال»". (ج:۱۱،ص:۲۵۲،رقم: ۱۱۶۴۷، عکرمة عن ابن عباس، ط: مكتبة ابن تيمية – القاهرة)۔ سنن أبي داود (4/ 60)
فقط واللہ اعلم
------------------------------------
کیا مرد اپنے لمبے بالوں کو بندواسکتے ہیں؟
سوال: میں ۲۶ سال کا ہوں اور الحمدللہ با شرع داڑھی ایک مشت، دل چاہا کہ لمبے بال رکھوں، اب اس وقت میرے بال کندھے تک ہیں، کیا میں اسے صاف رکھنے کے لئے اسے بینڈ-موڑ - سکتا ہوں؟ میں نے دکھاوے اور فیشن کے لیے نہیں بلکہ اپنی خوشی کے لیے لمبے بال رکھے ہیں۔ لڑکیوں کی چوٹی کی طرح نہیں بلکہ صرف ایک کالے ربڑ بینڈ سے بینڈ سکتا ہوں یا نہیں؟ مجھے پتا ہے کہ مردوں کو عورتوں کی مشابہات نہیں کرنی ہے، اللہ کی لعنت ہے ایسے مردوں پہ۔ لیکن آج کے زمانے میں تو ہر ایک چیز ملتی جلتی ہے، جیسے کپڑے اور وغیرہ چیزیں، یہ ضرور بتادیجیئے کہ ایسے بال باندھنے کی اجازت ہے یا حرام ہے یا صرف منع ہے؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم فتوی: 260-197/B=2/1434
مردوں کے لیے اپنے بالوں کو ربڑ بینڈ سے بینڈ کرنا درست نہیں، اس میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے، یہ جائز نہیں۔ کپڑوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے بچنا چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :43500
تاریخ اجراء :Jan 8, 2013

میلاد کروانے کی نذر صحیح نہیں

میلاد کروانے کی نذر صحیح نہیں
-------------------------------
--------------------------------
حضرت مفتی صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ         
کسی نے اللہ کے لئے کسی کام کے پورا ہونے پر  مروجہ میلاد کروانے کی اور ایک مرغ غریبوں کو کھلانے کی منت مان لی ہے ۔۔ کیا اس صورت میں منت کا پورا کرنا ضروری ہے  جواب دیکر ممنون فرمائیں
الجواب وباللہ التوفیق: 
انعقاد نذر کے لیے منذوربہ کا قربت مقصودہ ہونا ضروری ہے
مروجہ میلاد بے اصل اور ایجاد بندہ چیز ہے؛ اس لیے اس کی نذر درست ہے نہ اسے پورا کرنا ضروری ہے 
ہاں مرغ یا کوئی بھی جانور ذبح کرکے غریبوں کو کھلانے کی نذر صحیح ہے اسے پورا کرے:
ومنها أن یکون قربة مقصودۃ فلا یصح النذر بعيادۃ المرضی وتشییع الجنائز والوضوء والإغتسال، ودخول المسجد، ومسّ المصحف والأذان، وبناء الرباطات والمساجد، وغیر ذلک، وإن کانت قربا، لأنها لیست بقرب مقصودۃ ۔ (بدائع الصنائع 228/4)
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی

ثالث یا پنچ کو طلاق سونپنے کے بعد بھی شوہر کو حق طلاق حاصل رہتا ہے

ثالث یا پنچ کو طلاق سونپنے کے بعد بھی شوہر کو حق طلاق حاصل رہتا ہے
-------------------------------
--------------------------------
میاں بیوی میں بات بات پر جھگڑا اور بار بارطلاق کی دھمکی کو دیکھ کر معاملہ سلجھانے کے لیے بیٹھے فیصل نے دونوں کی رضامندی سے یہ لکھوا لیا کہ آگے کے کچھ بھی معاملات بغیر ہمارے علم واجازت کے انجام نہیں پائیں گے۔ فیصل کا کہنا ہیکہ اگر اب شوہر طلاق بھی دے تو واقع نہیں ہوگی کیوں اس کا اختیار میں نے سلب کرکے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔
کیا ایسی بھی کوئی شکل بن سکتی ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق: 
مرد کو بنص قرآنی طلاق کا حق ہے اور اس پہ اجماع امت بھی قائم ہے. شوہر اپنا یہ حق اپنی بیوی یا کسی وکیل یا پنچ و ثالث وغیرہ کو بھی سونپ سکتا ہے جسے تفویض وتوکیل طلاق کہتے ہیں. شوہر حق طلاق اجنبی کو سونپ دینے کے بعد بھی طلاق دینے کا مالک باقی رہتا ہے. جب تک وہ یا اس کا وکیل وغیرہ تین طلاقیں نہ دیدے شوہر حق طلاق سے دست بردار ہونا بھی چاہے تو شرعاً نہیں ہوسکتا. 
صورت مسئولہ میں پنچ یا ثالث کو شوہر نے کن الفاظ میں اور کن شرائط کے ساتھ ، مؤقت یا مطلق کس طرح حق طلاق سونپا ہے؟ یہ واضح نہیں ہے؛ اس لئے اس کا حکم تو واضح نہیں کیا جاسکتا. تاہم فیصل کا یہ کہنا کہ شوہر اب کسی طرح طلاق نہیں دے سکتا، بالکل غلط ہے. تفویض یا توکیل کے بعد مفوّض الیہ کو حسب شرائط طلاق دینے کا حق ضرور مل جاتا ہے؛ لیکن شوہر کا حق طلاق بالکلیہ ختم نہیں ہوتا ہے. 
تفویض وتوکیل کے بعد شوہر ازخود بھی طلاق دینا چاہے تو اسے یہ شرعی حق حاصل ہے:
والتفویض: جعل الأمر بالید أو تملیك الطلاق لزوجته بطلاق نفسہا منه، أو تعلیق الطلاق علی مشیئة شخص أجنبي کأن یقول له: طلق زوجتي إن شئت (الفقه الإسلامي وأدلته للزحیلي / المبحث الرابع: التوکیل في الطلاق وتفویضه (6936/9) رجل وكل رجلا بطلاق امرأته ثم طلقها الموكل بائنا أو رجعيا ثم طلقها الوكيل فطلاق الوكيل واقع ما دامت في العدة ولا ينعزل بإبانة الموكل إذا لم يكن طلاق الوكيل بمال۔الخ۔ (الفتاوى الهندية 409/1.الباب الثالث فی تفویض)
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی


ایک گائوں میں متعدد جمعہ

ایک گائوں میں متعدد جمعہ
-------------------------------
--------------------------------
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام شرحِ دین متین کہ چار گاؤن ہین جنمیں تین جامع مسجد اور (ایک پنج وقتہ مسجد ہے جس میں تقریباً ٢٠ سال سے جمعہ نہیں ہورہا ہے) اب لوکڈاون کی وجہ سے اس مسجد میں جمعہ ہوا تو اب لوگوں کا اسرار ہے کہ اب ہم لوگ ہمیشہ کے لیے یہاں جمعہ پڑھیں گے جبکہ مقامی کچھ علماء کرام کا کہنا ہے کہ ابھی یہاں جمعہ کا قیام مناسب نہیں ہے کیونکہ ابھی ساری جامع مسجد نہیں بھری ہیں براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل مسلہ کا حکم واضح فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
الجواب وباللہ التوفیق:
جمعہ کی نماز میں مجمع کی کثرت مطلوبِ شریعت ہے ؛ اسی لئے شہر کی جامع مسجد میں جمعہ کا قیام افضل اور بہتر ہے۔ اگر شہر یا قریہ کبیرہ کی جامع مسجد میں قلت جگہ، بُعدِ مسافت یا کسی اور وجہ سے سارے لوگ پہنچ پاتے ہوں نہ سما سکتے ہوں، تو حسبِ ضرورت شہر کی دوسری متعدد جگہوں میں بھی جمعہ قائم کرنا جائز ہے، اس کے لئے مسجد شرعی ہونا بھی ضروری نہیں ؛ ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ جگہ شہر یا قریہ کبیرہ میں ہو۔
اس پنج وقتہ نماز والی مسجد میں قیام جمعہ کے بابت گائوں کے تمام مسلمانوں کی مشاورت و اتفاق رائے بھی شامل حال ہوگئی ہو. باہمی اختلاف و انتشار کا کوئی خدشہ نہ ہو تو اس مسجد میں جمعہ قائم کرنا شرعاً جائز ہے 
فقہ حنفی کے صحیح ومفتی بہ قول کے مطابق شہر کی متعدد جگہوں میں نماز جمعہ کا قیام جائز ودرست ہے:
"(وتؤدى في مصر واحد بمواضع كثيرة) مطلقاً على المذهب، وعليه الفتوى، شرح المجمع للعيني، وإمامة فتح القدير؛ دفعاً للحرج". (قوله: مطلقاً) أي سواء كان المصر كبيراً أو لا، وسواء فصل بين جانبيه نهر كبير كبغداد أو لا، وسواء قطع الجسر أو بقي متصلاً، وسواء كان التعدد في مسجدين أو أكثر، هكذا يفاد من الفتح، ومقتضاه أنه لا يلزم أن يكون التعدد بقدر الحاجة كما يدل عليه، كلام السرخسي الآتي (قوله: على المذهب) فقد ذكر الإمام السرخسي أن الصحيح من مذهب أبي حنيفة جواز إقامتها في مصر واحد في مسجدين وأكثر، به نأخذ لإطلاق: «لاجمعة إلا في مصر» شرط المصر فقط، وبما ذكرنا اندفع ما في البدائع من أن ظاهر الرواية جوازها في موضعين، لا في أكثر، وعليه الاعتماد اهـ فإن المذهب الجواز مطلقاً، بحر"(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (2/ 144)
قولہ: أو مصلاہ: أي مصلی المصر؛ لأنه من توابعه فکان في حکمه۔ والحکم غیر مقصور علی المصلی؛ بل یجوز في جمیع أفنیة المصر؛ لأنها بمنزلة المصر في حوائج أهله۔ والفناء في اللغة: سعة أمام البیوت، وقیل: ما امتد
من جوانبه کذا في المغرب۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ / باب صلاۃ الجمعۃ 140/2 کوئٹہ، حلبي کبیر ص: 155 لاہور، طحطاوي علی المراقي ص: 506)
و عبارۃ القہستاني: تقع فرضاً في القصبات، والقریٰ الکبیرۃ التي فیہا أسواق۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، کراچي 138/2)
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی

گرمی میں ظہر کی نماز کا مستحب وقت

گرمی میں ظہر کی نماز کا مستحب وقت
-------------------------------
--------------------------------
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
حضرات علماء کرام درج ذیل مسئلے کی وضاحت فرمائیں
احناف کے نزدیک گرمی میں ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھنی مستحب ہے جیساکہ آج کل اکثر جگہ ڈھائی بجے اور تین بجے کے قریب نمازیں ہورہی ہیں۔ ہماری طرف سے اس مسئلے پر جو روایت پیش کی جاتی ہے"ابردوا بالظھر فان شدۃ الحر من فیح جھنم" اس کی رو سے ظہر کی نماز اس وقت ادا کی جائے جب گرمی کی شدت کم ہوجائے، اس روایت کو اگر عرب میں رہ کر دیکھیں تو تین بجے کے قریب نماز ظہر پڑھنا حدیث کے مطابق ہے کیونکہ وہاں تین بجے کے بعد گرمی کی شدت کم ہوجاتی ہے جیساکہ ہم نے خود تجربہ کیا ہے، لیکن ہندوستان میں تین بجے گرمی کی شدت کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہمارے یہاں کئی روز سے ایک سے دو بجے کے بیچ پارہ تقریباً 44 اور 45 ڈگری ہوتا ہے جبکہ تین سے ساڑھے چار بجے کے بیچ 47 اور 48 ڈگری پہنچ جاتا ہے، ایسے میں تین بجے نماز پڑھ لینا "ابردوا" پر عمل کیوں کر مانا جائے، اب "ابردوا" پر عمل کی دو شکلیں بچتی ہیں، یا تو زوال کے فوراً بعد ظہر پڑھ لی جائے کیونکہ اس وقت پارہ 43 ڈگری کے قریب ہوتا ہے جو تین بجے کے 47 ڈگری کے مقابلے ابراد ہی ہے، یا پھر ساڑھے چار بجے کے بعد ظہر کی نماز ہو جو مساجد میں کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔  کئی دنوں سے ذہن میں یہ بات گردش کررہی تھی اور آج عوام میں بھی ایک آدمی نے تقریباً یہی سب باتیں کہہ دیں۔ علماء کرام سے گزارش ہے ناچیز کے اس خلجان کو دور فرمائیں،
سائل: ابوحنظلہ عبد الاحد قاسمی 
سوجان گڑھ راجستھان
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
-----------------------
خلاصہ جواب از مفتی عبد الرشید صاحب نعمانی کانپور 
ابراد بالظہر ایک تعبیر واسلوب ہے، اس سے مراد ٹیمپریچر کا کم ہونا نہیں؛ بلکہ دیواروں اور مکانوں کا سایہ ہوجانا ہے جس میں چل کر انسان مسجد جاسکتا ہو، در و دیوار ومکانات کے سائے ڈھائی بجے کے قریب ہوجاتے ہیں ، ایک حدیث میں کسی صحابی کا یہ قول بھی آیا ہے کہ ہم لوگ دیوار کے سائے میں مسجد آتے تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابراد ظہر کی مراد مکانات کا سایہ ظاہر ہوجانا ہے، اگر ابراد سے مراد درجہ حرارت کم ہونا مراد ہو تو پہر یہ تو چار پانچ بجے کے قریب ہوگا جبکہ اس وقت صاحبین کے مسلک کے مطابق ظہر کا وقت نکل چکا ہوتا ہے. الغرض سائنسی اعتبار سے اگرچہ دو ڈھائی بجے ٹیمپریچر بڑھا رہتا ہو لیکن مکانات کا سایہ ضرور ہوجاتا ہے اس لحاظ سے اس وقت اداء ظہر سے ابراد پر عمل ہوجاتا ہے 
فقط  عبدالرشید (آڈیو جواب کا خلاصہ) 
سوال بر جواب: 
روایت کے الفاظ ہیں "حتی رأینا فیئ التلول" یہاں عام مکانات وغیرہ کے سائے مراد نہیں بلکہ ٹیلوں کے سائے مراد ہیں، ایک روایت میں ہے "حتی ساوی الظل التلول" ان روایات کی روشنی میں ڈھائی تین بجے قطعاً حدیث ابراد پر عمل نہیں ہوتا کیونکہ آپ خود ریگستانی علاقوں میں جاکر دیکھ لیں اس وقت ٹیلوں کے سائے ان کے برابر تو دور ظاہر بھی نہیں ہوتے. میں نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہے. اس سے پتہ چلا کہ حدیث میں مزید تاخیر مراد ہے کیونکہ ٹیلوں کے سائے تقریباً چار بجے کے بعد ہی ظاہر ہونے شروع ہوتے ہیں
عبد الاحد قاسمی 
--------------------------
جواب از مفتی سعد مذکر قاسمی 
بندے کی ذاتی رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر ہم تمازت شمس اور ٹیمپریچر دونوں کو علیحدہ کر دیں تو شاید یہ اشکال باقی نہ رہے۔ حدیث میں ابراد سے مراد نصف النہار سے تاخیر مراد ہے، نہ کہ باضابطہ مثل ثانی میں ظہر کا اہتمام کرنا، اور یہ حقیقت ہے کہ نصف النہار اور اس سے متصل وقت میں تپش جان لیوا ہوتی ہے، جوں جوں سورج ڈھلتا ہے اس کی حدت کم ہوتی چلی جاتی ہے، اب حدیث کی مراد یہ ہوئی کہ جب شدت کم ہوجائے تو ظہر کی نماز پڑھی جائے، تجربہ یہ کہتا ہے کہ ڈھائی تین بجے سورج کی حدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
جب کہ ٹیمپریچر کی بنیاد فضا میں موجود گرمی کی شدت ہے، اسی کے ذریعے ٹیمپریچر ناپتے ہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے کہ جس وقت ٹیمپریچر نانپا جا رہا ہے اس وقت کی سورج کی گرمی کو بنیاد بنا کر نانپا جائے، بلکہ سورج کی بناء پر جو فضاء میں حدت پیدا ہو گئی ہے خواہ وہ پہلے سے پیدا ہوئی ہو یا ابھی ہوئی ہو، دونوں کے مجموعے کو ملا کر ٹیمپریچر کا تخمینہ کیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ تمازت آفتاب اور ٹیمپریچر دونوں میں فرق ہے۔
جو روایت آپ نے ٹیلے سے متعلق بھیجی ہے، اس کی مراد یہ نہیں ہے کہ اس وقت نماز کا دائمی اہتمام کیا جائے، بلکہ اس کو ظہر کے آخر وقت کے لیے مستدل بنایا جاتا ہے، جیسا کہ ادلہ کاملہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
شامی میں ہے 
(والمستحب) للرجل ........ (تأخیر ظہر الصیف) بحیث یمشی فی الظل (مطلقا) کذافی المجمع وغیرہ أی بلا اشتراط شدۃ حرو حرارۃ بلد وقال فی الشرح: تفسیر للاطلاق وعبارۃ ابن مالک فی شرح المجمع أی سوائٌ کان یصلی الظھر وحدہ أوبجماعۃ ای لروایۃ البخاری کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا اشتد البرد بکر بالصلوٰۃ واذا اشتد الحرأ برد بالصلاۃ والمراد الظہر وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان شدۃ الحرمن فیح جہنم فاذا اشتد فأبردوا بالصلوۃ متفق علیہ۔ (جلد ١/ ص ۲۷۰، ۲۶۹۔)
فقط واللہ اعلم باالصواب
سعد مذکر قاسمی 
---------------------------------------
جواب از مفتی شکیل منصور القاسمی 
الجواب وباللہ التوفیق:
سخت گرمی کے موسم میں ظہر تاخیر سے پڑھنا مردوں کے لئے مستحب وبہتر ہے:
أَبْرِدُوا بالظُّهْرِ فإِنَّ شِدَّةَ الحرِّ من فَيْحِ جهنَّمَ: صحیح البخاری/الموا قیت 9 (533)، صحیح مسلم/المساجد 32 (615)، سنن ابی داود/الصلا ة 4 (402)، سنن الترمذی/الصلاة 5 (157)، سنن النسائی/المواقیت 5 (501)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 7 (28)، مسند احمد (2/229، 238، 256، 266، 348، 377، 393، 400، 411، 462)، سنن الدارمی/الرقاق 119 (2887) (صحیح)‏‏‏‏
"إبراد" کے معنی ہیں ٹھنڈا کرنا یعنی ٹھنڈے وقت میں ظہر پڑھنا۔ تاخیر یعنی ابرادِ ظہر کی مقدار  ومراد کیا ہے؟ 
سنت رسول میں اس کی کہیں بھی لازمی تحدید وتوقیت نہیں کی گئی ہے. اسی لئے علماء کے درمیان اس کی مراد کی تعیین میں اختلاف ہوا ہے. بعض علماء ابراد ظہر کی مراد زوال کے بعد ہی ظہر پڑھ لینا فرماتے ہیں. علماء شوافع کے یہاں ابراد ظہر کی مراد اتنی تاخیر کرنا ہے کہ اشیائے مستطیلہ یعنی دیوار ومکان کا  سایہ ظاہر ہوجائے تاکہ لوگ تمازت شمس سے بچتے ہوئے مسجد آسکیں، یہ تاویل اس لئے قبول نہیں ہے کہ پھر تاخیر ظہر مسجد آنے والوں کے ساتھ ہی خاص ہوجائے گی جبکہ یہ گھر پہ پڑھنے والے منفردین کے لئے بھی مستحب ہے 
وقال ابن دقيق العيد في (شرح العمدة): الإبراد: أن تؤخر الصلاة عن أول وقتها بمقدار ما يظهر للحيطان ظل، ولا يحتاج إلى المشي في الشمس. (إحكام الأحكام ٤٨٢/٢)
صحیحین میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت آئی ہے:
كُنَّا مع النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في سَفَرٍ، فأرادَ المُؤَذِّنُ أنْ يُؤَذِّنَ، فقالَ له: أبْرِدْ، ثُمَّ أرادَ أنْ يُؤَذِّنَ، فقالَ له: أبْرِدْ، ثُمَّ أرادَ أنْ يُؤَذِّنَ، فقالَ له: أبْرِدْ حتَّى ساوَى الظِّلُّ التُّلُولَ فقالَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: إنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِن فَيْحِ جَهَنَّمَ.صحيح البخاري: 629. ومسلم (616)
ہم نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ساتھ سفر میں تھے مؤذن نے اذان کا ارادہ کیا کہ ظہر کی اذان دے حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ٹھنڈاکر پھر چاہا کہ اذان دے پھر فرمایا: ٹھنڈا کر، یہاں تک کہ ٹیلوں کے سائے ان کے برابر ہوگئے۔ اور مسلم میں ابراہیم کے طریق میں شعبہ سے مؤذن کا تین بار ارادہ اور حضور کا یہی حکم فرمانا وارد ہوا ہے۔ یہ روایت تاخیر ظہر میں مبالغہ کو بتاتی ہے کہ مؤذن رسول نے تین بار اذان کا ارادہ کیا اور ہر دفعہ “ابراد “ کا حکم ہوا. مؤذن رسول ہر دفعہ اس قدر فاصلہ ضرور کیا ہوگا جسے ابراد کہا جاسکے اور وہ وقت بہ نسبت پہلے وقت کے ٹھنڈا ہواہو ورنہ صحابی رسول کے لئے عدم امتثال امر رسول کا اشکال لازم آئے گا جو متصور نہیں، پھر یہ مبالغہ آمیز تاخیر صرف اذان میں ہوئی ہے، وضو اور دیگر حوائج طبعیہ سے فراغت کے لیے لازماً وقت دیا گیا ہوگا، جس سے جماعت ظہر میں مزید تاخیر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے. ٹیلے عموماً اجسام بسیطہ  یعنی پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اجسام مستطیلہ نہیں، اجسام بسیطہ  کا سایہ آخر وقت ظہر جانے کے بعد ظاہر ہوتا ہے. حضرت عبدالله  بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہ  کی یہ روایت بھی دیکھیں:  
كانت قدرُ صلاةِ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم في الصيفِ ثلاثةَ أقدامٍ إلى خمسةِ أقدامٍ ، وفي الشتاءِ خمسةُ أقدامٍ إلى سبعةِ أقدامٍ. صحيح أبي داود: 400.وصحیح النسأی: 502
یعنی گرمی میں حضور سرور عالم صَلَّی اللہ  عَلَیْہِ  وَسَلَّم ظہر کی نماز کا وقت اس وقت ہوتا تھا جب کہ ہر چیز کے  سایہ کی مقدار تین قدم سے پانچ قدم تک ہوتی تھی۔ ایک قدم تیس ۳۰ سینٹی میٹر کے قریب ہوتا ہے، اس لحاظ سے ۹۰ سے ۱۵۰  سینٹی میٹر سایہ ہوجانے کے بعد  حضور گرمی میں تاخیر ظہر فرماتے تھے،
بقول علامہ عینی (جلد ۵ ص ۳۲ کتاب المواقیت ۹) یہ تقریب ہے تحدید نہیں؛ یعنی ملکوں اور شہروں کی جغرافیائی احوال کے لحاظ سے اس میں کمی بیشی کا امکان موجود ہے لیکن حرمین شریفین میں گرمی کے موسم میں اس قدر سایہ نہایت دیر میں واقع ہوتا ہے. اس سے پتہ چلتا ہے کہ سنت رسول ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنا ہے، گرم ترین علاقوں میں جہاں درجہ حرارت اور ٹیمپریچر ظہر کے بالکل آخر وقت میں کم ہوتا ہو تو وہاں عصر شروع ہونے سے احتیاطا آدھ گھنٹہ قبل تک بھی ظہر پڑھنے کی گنجائش ہے. تاخیر ظہر کی کوئی تحدید وتوقیت شرعا نہیں کی گئی ہے. تین سے پانچ قدم سایہ والی روایت بھی تحدید پہ محمول نہیں ہے. لیکن اتنی تاخیر کی بھی گنجائش نہیں ہے جس سے ظہر کے وقت کے خروج کا مظنہ ہو. ابتدائے وقت عصر سے بیس تیس منٹ پہلے تک گرم ترین علاقوں میں تاخیر ظہر کی جاسکتی ہے ، ٹیلے جیسے اجسام بسیطہ کا سایہ اس سے پہلے ظاہر ہونا خلاف مشاہدہ ہے. وقت ظہر کے خروج کا مظنہ ہو تو اتنی تاخیر کی اجازت نہ ہوگی:
شَكَونا إلى رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ حَرَّ الرَّمضاءِ فلم يُشْكِنا; عن عبدالله بن مسعود. : 64. أخرجه الترمذي في (العلل الكبير) (89) واللفظ له، وابن ماجه (676)
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دھوپ کی تیزی کی شکایت کی لیکن آپ نے ہماری شکایت نہ مانی“ 
شکایت اس لئے نہ مانی گئی ہوگی کہ  «ابراد» سے قدر زائد تاخیر جو خروج وقت کو مستلزم ہو کا مطالبہ ہوا ہوگا لہذا خروج وقت ظہر کو مستلزم تاخیر کی اجازت نہیں ہے
واللہ اعلم 
-----------------------------------------
اس جواب پر سائل کا تبصرہ:
بہترین و عمدہ جواب ہے. آپ کی تحریر کا خلاصہ جو میں سمجھا وہ ذیل ہے:
ابراد کے لیے وقت کی کوئی تحدید نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تین بار"ابرد" فرمانا اور صحابی کا ٹیلوں کے سایوں کا حوالہ دینا تاخیر میں مبالغے کی جانب صاف مشیر ہے۔ اس صورت میں اتنے وقت تک تاخیر کرنا جس میں حسّاً و مشاہدۃً تبرید  ہوجائے اور دخول عصر کا بھی شائبہ نہ ہو حدیث کا مقتضا ہے، یعنی اکثر بلاد ہند میں جہاں عصر کا وقت تقریباً پانچ بجے کے بعد شروع ہوتا ہے وہاں ساڑھے چار بجے کے قریب نماز ظہر پڑھنا مراد ہے۔ اس صورت میں ڈھائی بجے اور تین بجے نماز پڑھ لینے سے حدیث ابراد پر عمل نہیں ہوتا۔
فجزاکم اللہ احسن الجزاء
عبد الاحد  قاسمی
----------------------------------
اس جواب پر مفتی عبدالرشید صاحب کا سوال: 
یعنی ابھی کلیر بات نہیں آئی کہ کس وقت ظہر افضل ہے۔ اگر ڈھنگ سے ابراد کی رعایت کی جائے تو صاحبین کے مسلک کے اعتبار سے ظہر اپنے وقت پر نہیں ہو پائے گی اور اگر صاحبین کے مسلک کی رعایت کی جائے جو لازم ہے ورنہ نماز مکروہ ہوگی تو اس سے ابراد نہیں ہوتا۔ پھر حدیث کا محمل کیا ہوگا؟ 
الجواب وباللہ التوفیق:
انتہائے وقت ظہر میں صاحبین اور امام صاحب دونوں فریق کے قول پہ ہمارے یہاں فتوی دیا گیا ہے 
مثلین تک وقت باقی رہنا بھی مفتی بہ ہے اور صاحبین کا قول بھی مفتی بہ ہے. پورا وقت یہاں کامل ہے 
ناقص کوئی جز نہیں کہ اس میں نماز مکروہ ہوجائے. علاقے علاقے اور شہروں کی شدت وقلتِ حرارت کے پیش نظر ابراد کی رعایت کرلی جائے. گرم علاقوں میں مثلین سے تھؤرا پہلے تک ابراد کرلے. معتدل علاقوں میں مثل اوّل تک بھی ابراد ممکن ہے. تمام علاقوں میں تاخیر و ابراد ظہر کی ایک متعینہ تحدید گھڑی گھنٹوں سے کرنا مشکل ہے. مثلین تک وقت باقی رہتا ہے. اس کے اختتام سے آدھا گھنٹہ قبل تک ابراد ظہر کرلے
واللہ اعلم 

کیا اسلام اور مولوی ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں؟

کیا 
اسلام اور مولوی
ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں؟
یا ہر فرد کے لئے دین کی بنیادی تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے؟
الجواب وباللہ بالتوفیق:
دونوں ہی لازم ہیں، ہر مسلمان پر بنیادی ضروری دینی تعلیم حاصل کرنا فرض عین ہے اور کچھ لوگوں پر مکمل دینی علوم کی مہارت حاصل کرنا فرض کفایہ ہے! قرآن مجید کی آیت ہے: وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جس کے افراد (لوگوں کو) (ترجمہ: مفتی محمد تقی عثمانی) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں ۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں) اس کے علاوہ اس کی دلیل خود حضور صلی اللّہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں موجود ہے. اصحابِ صفہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقامتی مدرسہ کی پہلی نظیر ہے، عموماً تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی دین کا علم علم رکھتے تھے لیکن ان میں متعدد اصحابِ تخصص اہل علم بھی تھے جو اپنے وقت پر اپنے اپنے علاقوں میں مولوی اور مفتی کی حیثیت سے مسلمانوں کی دینی رہنمائی کیا کرتے تھے، ایسے صحابہ کرام میں خلفاء راشدین کے بعد عبداللہ ابنِ مسعود، عبداللہ ابنِ عباس، عبداللہ ابنِ عمر، عبداللہ ابنِ ابوبکر، ابوموسیٰ اشعری، ابوہریرہ، ابودرداء، عمر ابن العاص وغیرہ بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طویل فہرست تیار کی جاسکتی ھے جو اپنے دور میں اپنے اپنے حلقوں میں میں مولوی مفتی محدث معلم کے فرائض انجام دیتے تھے۔ قاضی اطہر مبارکپوری رحمہ اللّٰہ علیہ نے اس سلسلے میں کافی رہنمائی کی ہے. ان کی کتابوں سے استفادہ کیا جاسکتا ھے!


Thursday, 28 May 2020

پہلےکرونا وائرس ..... اور اب ٹڈی دل


پہلے
کرونا وائرس 
..... اور اب ٹڈی دل 

     ٹدی دل بہت عرصے کے بعد ایک بار پھر حملہ آور ہوا ہے، اس بار خلیج، مشرقی افریقہ کے کچھ علاقے اور جنوبی ایشیا میں ہندوستان اور پاکستان وغیرہ اس کا خاص نشانہ ہیں ـ............ ہندوستان میں ٹدیوں کے تقریبا پانچ الگ الگ جھنڈ مختلف علاقوں  آسام، بہار،  بنگال، یوپی، گجرات، راجستھان اور مہاراشٹر وغیرہ میں سرگرم ہیں ـ کہتے ہیں کہ ایک جھنڈ میں کئی ارب ٹڈیاں ہوتی ہیں، اِن کے بعض جھنڈ کئی کئی مربع کلومیٹر پر محیط ہوسکتے ہیں، جس علاقے میں ایک جھنڈ زمین پر اترتا ہے وہاں کی تمام ہریالی چاٹ جاتا ہےـ 
    انسان اپنی تمام تر مادی ترقیوں کے ساتھ مچھر اور ٹڈی جیسے معمولی کیڑوں کا صدیوں سے مقابلہ کررہا ہے مگر آج تک ختم نہیں کرپایا، ہر سال انکی وجہ سے بے شمار جانی مالی نقصانات اُٹھانے پڑتے ہیں  ..........  ٹڈیوں سے براہ راست جانی نقصان تو نہیں ہوتا، مگر مالی نقصان بہت ہوتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق اِن کا ایک جھنڈ ایک رات میں کھیتوں سے اتنا اناج وغیرہ کھا جاتا ہے جو ڈھائی ہزار لوگوں کے ایک سال تک کے کھانے کےلئے کافی ہوسکتا تھا، .......  چنانچہ ٹڈیوں کو مارنے کے لئے ہیلی کاپٹر، ہوائی جہاز وغیرہ کے ذریعے کرم کش دواؤں کا چھڑکاؤ ہوتا ہے آج کل بھی ہورہا ہے، اب اس کے لئے ڈرون جہاز کی مدد بھی لی جارہی ہے ـ
     ٹڈیوں کا استعمال غذا کے طور پر بھی ہوتا ہے، اسلام میں بھی اس کا کھانا حلال ہے ـ بعض لوگ اس کو خشکی کا جھینگا بھی کہتے ہیں، جھینگے کی طرح ٹڈی بھی بہت لذیذ ہوتی ہے، جس طرح جھینگے کی بظاہر شکل کریہہ ہوتی ہے مگر جب کام ودھن سے سابقہ پڑتا ہے تو اس کا ذایقہ پیٹ بھر کر کھانے کے لئے مجبور کردیتا ہے، اسی طرح ٹڈی بھی ایک بار منہ لگ جائے تو پیٹ بھر کر کھائی جاتی ہے ـ 
   اس کو کھانے کا طریقہ بھی جھینگے سے ملتا جلتا ہے، جس طرح جھینگے کے اوپر کا سخت حصہ الگ کرکے نرم حصہ پکاکر غذا کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اسی طرح ٹڈی بھی کھائی جاتی ہے، کھانے میں بعض لوگ ٹڈی کو تیل میں تل کر ہلکا نمک مرچ شامل کرکے سوکھے سوکھے کرکرے کے طور کھاتے ہیں اور محفوظ بھی رکھتے ہیں، بعض اس کو چاولوں اور مصالحوں کے ساتھ پکالیتے ہیں اور ٹدی بریانی بناکر استعمال کرتے ہیں، بعض لوگ تلی ہوئی ثڈیوں کوسینڈویچ میں ککڑی وغیرہ کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ـ .......... ٹڈی میں غذائیت بھی ہوتی ہے، اس کے اندر تقریبا ۶۲ فیصد پروٹین ہوتا ہے، ۲۱ فیصد بغیر کروسٹرال والا تیل ہوتا ہے، باقی کیلشیم، آئرن، فاسفورس وغیرہ ہوتے ہیں، .........  ٹڈی جوڑوں اور کمر درد وغیرہ کے لئے بھی مفید ہوتی ہے، ......... اِس کے استعمال سے انسان میں قوت مدافعت بڑھتی ہے، آجکل کرونا وائرس کے علاج کے لئے اب تک کوئی دوا سامنے نہیں آئی ہے، صرف دوسرے عوارض کے علاج کے ساتھ مریض کی قوت مدافعت بڑھانے کی کوششیں کی جاتی ہیں جس کے اضافے کی وجہ سے ہی ابتک ہزاروں کرونا مریض شفایاب ہوئے ہیں  ............. بہت ممکن ہے اللہ تعالی نے ان ٹڈیوں کو غریبوں کے لئے غذائی ضروت پوری کرنے کے بہترین ذریعے کے ساتھ ان کے لئے کرونا وائرس کا علاج بھی بنا کر بھیجا ہو ـ
     عام طور پر ٹڈیاں صبح سورج کی کرن ظاہر ہونے کے بعد سفر شروع کرتی ہیں اور شام ہوتے ہوتے کسی نہ کسی علاقے میں اترجاتی ہیں اور رات بھر اس جگہ کی تمام ہریالی چاٹ لیتی ہیں اور اگلی صبح پھر سفر شروع کردیتی ہیں ........ اس لئے دن میں ان کا پکڑنا مشکل ہے، البتہ رات میں باسانی ہاتھ آتی ہیں، لوگ جال، چادر وغیرہ کے ذریعے پکڑلیتے ہیں ـ
    آج کل ہندوستان اور دیگر ممالک میں کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاوں نافذ ہے جس کی  وجہ سے تجارتی سرگرمیاں مکمل ٹھپ ہیں، لاک ڈاون کے اِن تین مہینوں میں  کھربوں کا تجارتی نقصان ہوچکا ہے اور ابھی جلد حالات میں سدھار کی امید بھی نظر نہیں آتی، .......... ایسے میں کسانوں کے ذریعے حاصل ہونے والی پیداوار اناج اور سبزیوں کا سہارا تھا جو ملک کی غذائی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ایکسپورٹ وغیرہ کے ذریعے بیرونی زر مبادلہ حاصل ہونے کا ایک ذریعہ بن سکتے تھے  ..........  مگر ٹڈیوں کے حملے اگر یوں ہی جاری رہے تو یہ ہمارے ملک کی گرتی ہوئی معیشت کے لئے دوھرا عذاب ثابت  ہوگا  ـ مستقبل میں عوام کو غذائی اشیا کی قلت اور گرانی سے بھی جھوجھنا پڑسکتا ہے ـ
     فرعون کی قوم کے لئے اللہ نے پسو (جراثیم) کے ساتھ ٹڈیوں کا عذاب بھی مقرر فرمایا تھا، موجودہ حالات میں بھی اللہ نے ایک وائرس (جراثیم)  کے ساتھ ٹڈیاں بھیجدی ہیں ہیں، اس موقع پر ہم سب کو توبہ، استغفار وانابت الی اللہ کا سہارا لینا چاہئے، اگر یہ ہمارے لئے عذاب ہے تو اپنے گناہوں کی معافی، حقوق العباد، صلہ رحمی اور غربا ومساکین کی دستگیری کی طرف خصوصی توجہ رکھنا چاہئے، ........ فراٰض واجبات کی پابندی کے ساتھ خلوت اور جلوت کے تمام گناہوں سے بچنے کا اہتمام بھی ہونا چاہئےـ اللہ تعالی اپنا فضل فرمائے، اور ہر طرح کے عذاب اور بلاوں سے محفوظ رکھے ـ آمین ـ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
--------
ٹڈی اور مچھلی بغیر ذبح کے حلال ہیں یا حرام؟
سوال ]۹۸۱۴[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: ٹڈی اور مچھلی بغیر ذبح کے حلال کب سے ہیں، تخلیق کے وقت سے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے، یہ دونوں مردے حلال کیوں؟ حکمت کیا ہے؟
المستفتی: انور الحق امام بڑی مسجد ہنومان گڈھ راجستھان
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے پہلے کے احکام کے ہم مکلف نہیں ہیں، بلکہ ہم اس کے مکلف ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے حلال کہا ہے اسے حلال سمجھیں اور جسے حرام کہا ہے، اسے حرام جانیں، ٹڈی اور مچھلی کو بغیر ذبح کے حلال بتلایا ہے اس لئے  اسے ہم حلال سمجھتے ہیں اور بلا ذبح کے کھاتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے زمانہ کی بات ہم کو معلوم نہیں ہے۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ: أحلت لنا میتتان و دمان، فأما المیتتان: فالحوت والجراد، وأما الدمان: فالکبد والطحال۔ (مسند أحمد بن حنبل ۲/۹۸، رقم: ۵۷۲۳، سنن ابن ماجہ، باب الکبد والطحال، النسخۃ الہندیۃ ۲/۲۳۸، دار السلام رقم: ۳۳۱۴، سنن الدار قطنی، کتاب الأشربۃ وغیرہا، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۴/۱۸۴، رقم: ۴۶۸۷) 
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
یکم ذیقعد ۱۴۲۵ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۸/۸۵۸۷)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۱؍۱۱؍۱۴۲۵ھ
----------
ٹڈی جس کو عربی میں ’’جراد‘‘ اور انگریزی میں  ’’Locust ‘‘ کہتے ہیں، یہ حلال ہے، ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے لئے دو میتہ (مچھلی اور ٹڈی) اور دو خون (جگر اور تلیّ) حلال کردیے گئے ہیں۔
مسند أحمد ط الرسالة (10/ 16):
"عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ، وَدَمَانِ. فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ: فَالْحُوتُ وَالْجَرَادُ، وَأَمَّا الدَّمَانِ: فَالْكَبِدُ وَالطِّحَالُ ".
الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (6/ 307):
"(وحل الجراد) وإن مات حتف أنفه، بخلاف السمك (وأنواع السمك بلا ذكاة)؛ لحديث: «أحلت لنا ميتتان: السمك والجراد، ودمان: الكبد والطحال» بكسر الطاء.
(قوله: لحديث: «أحلت لنا ميتتان» إلخ) وهو مشهور مؤيد بالإجماع فيجوز تخصيص الكتاب به، وهو قوله تعالى: {حرمت عليكم الميتة والدم} [المائدة: 3] على أن حل السمك ثبت بمطلق قوله تعالى: {لتأكلوا منه لحماً طرياً} [النحل: 14]، كفاية". فقط واللہ اعلم بالصواب۔
اس کی تائید میں جامعہ علوم اسلامیہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ پیش کیا جاتا ہے۔
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب نیل الاوطار میں ابن العربی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جراد کی دو قسمیں ہیں، ایک حجاز کی ٹڈیاں اور دوسری اندلس کی ٹڈیاں، پھر اندلس کی ٹڈیوں سے متعلق لکھا کہ اس کو نہیں کھایا جائے گا؛  اس لئے کہ اس کے کھانے میں ضررِ محض ہے، اس لئے اس کا کھانا درست نہیں، لہذا ٹڈی کی جس قسم میں ضرر ہو اس کو نہیں کھایا جائے گا، باقی کو کھایا جاسکتا ہے، البتہ احادیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں مل سکی۔ نيل الأوطار (8/ 169):
"ونقل النووي الإجماع على حل أكل الجراد. وفصل ابن العربي في شرح الترمذي بين جراد الحجاز وجراد الأندلس، فقال في جراد الأندلس: لايؤكل؛ لأنه ضرر محض، وهذا إن ثبت أنه يضر أكله بأن يكون فيه سمية تخصه دون غيره من جراد البلاد تعين استثناؤه".
مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (9/ 415):
"والحديث يدل أيضًا على جواز أكل الجراد مطلقًا وقد حكى غير واحد من أهل العلم الإجماع على إباحة أكله، لكن فصل ابن العربي في شرح الترمذي بين جراد الحجاز وجراد الأندلس، فقال في جراد الأندلس: لايؤكل؛ لأنه محض، وهذا إن ثبت أنه يضر أكله بأن يكون فيه سمية تخصه دون غيره من الجراد البلاد تعين استثناؤه، كذا في الفتح". 
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144004201547
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
---------------
ٹدی دل --- کرونا کے بعد اگلی بھیانک عالمی وباء
Locusts--- Next Pandemic
ٹڈی دَل کیا ہے؟ یہ ٹڈیوں یعنی grasshoppers کی ایک مخصوص قسم ہے جو شدید سبزہ خور یعنی Gregarious ہوتے ہیں. ٹڈیوں کی 7000 اقسام میں سے 20 جدید شکل کی سبزی خور ہیں. یہ ٹڈی دَل اپنی ساخت، شکل اور رنگ تبدیل کرتے رہتے ہیں اور جیسے جیسے ان کو خوراک ملتی جاتی ہے، یہ مزید طاقتور، خطرناک اور بھیانک ہوتے جاتے ہیں اور جہاں جہاں سے گزرتے ہیں فصلوں اور سبز درختوں اور چراگاہوں کا صفایا کرکے تباہ و برباد کرتے جاتے ہیں. ٹڈی دل کی تعداد میں اضافہ بھی بھیانک شرح سے ہوتا ہے. ایک مادہ ایک دن میں 1000 انڈے دیتی ہے اور نمی میسر آجائے تو ان میں سے سینکڑوں انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں جو ٹڈی دل کی پہلے سے موجود فوج ظفر موج میں مزید لاکھوں کا روزانہ کی بنیاد پہ اضافہ کردیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ٹڈی دل کو دور سے آتے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے گرد کا کوئی خطرناک طوفان یا گہرے سیاہ بادل آگے بڑھ رہے ہوں. نئے ٹڈی دل میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ یہ زہریلے پودے اور پتے بھی کھا جاتا ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا. جو کہ اس کو مزید خطرناک بنادیتی ہے. ایک اندازے کے مطابق یہ ٹڈی دل ایک دن میں 90 میل سے زیادہ کا سفر بآسانی طے کرسکتے ہے. اور فصلوں کو چَٹ کرتے جاتے ہیں. یہ دانے دار فصلوں گندم، مکئ، باجرہ، چاول، چنا، دالوں، پھل دار درختوں کی سخت ترین دشمن ہے، جو کہ انسانی خوراک کیلئے انتہائی اہم ہیں. ایک اندازے کے مطابق ایک مربع کلومیٹر میں پھیلا ٹڈی دل لشکر تقریباً 35،000 انسانوں کی خوراک ایک دن میں چٹ کر جاتا ہے. آپ اسی سے اس وباء کے بھیانک پن کا اندازہ لگالیجئے.
اب آتے ہیں اس اہم سوال کی طرف کہ یہ موجودہ وباء کب اور کیسے پھوٹی؟
بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ خطہ عرب میں "ربع الخالی" کے علاقے میں دو عدد cyclones آنے کے باعث ٹڈی دل کو پانی اور نمی میسر آئے جس کے باعث اس کی افزایش میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا اور محض چند ماہ میں کروڑوں اربوں ٹڈی دل جمع ہوگئے اور جیسے ہی موسم گرم ہوا، انہوں نے یمن اور اومان کی جناب حجرت کردی. اور ایرن کے راستے پاکستان، جبکہ دوسری طرف افریقہ تک جا پہنچے. یہ تو وہ "سرکاری کہانی" ہے جو سنائی جا رہی ہے. مگر خود ٹڈی دل ماہرین حیران ہیں کہ کروڑوں اربوں ٹڈی دل کی افزایش "ربع الخالی" جیسے صحرا میں اس قدر تیزی سے کیسے ہوئی جبکہ وہاں سبزہ بھی نہیں ہے؟؟ جب آزاد ماہرین نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یمن کے بارڈر کے ساتھ،  ربع الخالی کے صحرا میں انتہائی دور دراز اور ناقابلِ رسائی علاقے میں ایک خفیہ امریکی فوجی بیس ہے. جس میں ڈرونز کا علاقائی آڈہ بھی ہے جو یمن میں ڈرون حملوں اور نگرانی کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے جو 2011 میں بنایا گیا. یہ بات بھی ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ چھوٹے جہازوں اور ڈرونز کو مصنوعی بارش برسانے کیلئے عرصہ دراز سے استعمال کیا جارہا ہے. لہذا یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ امریکہ نے افریقہ، ایران، صومالیہ سوڈان پاکستان میں زرعی اجناس کو  نقصان پہنچانے اور شدید زرعی بحران پیدا کرکے خوراک کی کمی کا شکار کرنے کی کوشش کی ہو. مصنوعی سائیکلون ، نمی اور مصنوعی بارش سے وہاں genetically modified locusts کی ایسی نسل کی افزایش کی گئی جو تیزی سے بڑھتے ہیں. جہاں سے ٹڈی دل وباء پھوٹی، آزاد ماہرین بھی وہاں سے ان لشکروں کے نکلنے پہ حیران ہیں، لہذا وہاں امریکی خفیہ فوجی بیس اور ڈرونز کی موجودگی conspiracy theory کو تقویت دیتی ہے. یاد رہے کہ genetically engineered locust کی تیاری کوئی نئ بات نہیں، فصلوں کیلئے نقصاندہ حشرات الارض کو کھانے کیلئے genetically engineered locust اور دیگر ٹڈیوں کی بڑے پیمانے پہ لیبارٹری میں تیاری open secret ہے،  جو عام گوگل سرچ سے بھی دیکھی جاسکتی ہے.
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عالمی اشرافیہ خوراک کی سپلائی کو اپنے ہاتھ میں کرنا چاہتی ہے تاکہ جہاں ایک طرف وہ genetically modified food لوگوں کو کھلا سکیں،  وہیں عالمِ انسانی کو اپنا محتاج بھی بناسکیں. چنانچہ ایسے ٹڈی دل حملوں کے بعد بڑے پیمانے پہ فصلوں اور زرعی زمینوں پہ خطرناک کیمیکلز کا سپرے کروایا جائے گا اور فضا سے بھی جہازوں کے ذریعے کیمیکل سپرے کیا جائے گا، جو بظاہر تو ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے ہوگا مگر اس کا اہم مقصد نیچرل فصلوں اور بیجوں کی تباہی اور زمینوں کی زرخیزی میں کمی ہوگا. جس کے بعد genetically modified بیجوں کے استعمال پہ ہی زور دیا جائے گا. جبکہ زیادہ اجناس ملٹی نیشنل کمپنیوں سے خریدی جانے لگیں گی.
اس وباء کو locusts infestation 2019-20 کا نام دیا گیا ہے. جبکہ موجودہ ٹڈی دل کو schistocerca gregaria اور desert locusts کا نام دیا جاتا ہے. یہ وباء اب تک جن ممالک کو شدید متاثر کرچکی ہے ان میں پاکستان سرفہرست ہے. دیگر ممالک میں صومالیہ، ایتھوپیا، یوگنڈا، سوڈان، یمن، سعودی عرب، ایران، بھارت شامل ہیں. تاہم پاکستان میں اس کا حملہ سب سے سخت ہے. بھارت نے اس وباء سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو تعاون کی درخواست بھی کردی ہے کیونکہ بھارت بھی اس سے شدید متاثر ہو رہا ہے. 
ماہرین موجودہ ٹڈی دل حملے کو کرونا کے بعد ایک نئی اور خطرناک عالمی وباء قرار دے کر خبردار کررہے ہیں کہ اگر بروقت اس کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی گئی تو خوراک کا ایک عالمی بحران پیدا ہو سکتا ہے، جس سے لاکھوں لوگوں کی جان جاسکتی ہے. عالمی ادارہٴ خوراک نے اس عالمی ٹڈی دل وباء کے باعث عالمی سطح کے خوراک بحران کی پیش گوئی کر دی ہے. اقوام متحدہ کے Food and agriculture Organization نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران اس وبا سے شدید متاثر ہونگے. پاکستان میں حالیہ ٹڈی دل حملے سے نقصان کا تخمینہ، پاکستانی ماہرین کے مطابق 205 ارب روپے ہوسکتا ہے. جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے FAO کے مطابق پاکستان میں فصل ربیع کا نقصان 353 ارب روپے جبکہ خریف کا نقصان 464 ارب روپے ہوسکتا ہے. (پاکستان کا کل دفاعی بجٹ 1200 ارب ہوتا ہے، جبکہ محض ٹڈی دل سے ہونے والا نقصان 800 ارب سے زائد ہے، جس سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے- یہ اعداد وشمار ڈان نیوز نے 11 مئ کو شائع کئے ہیں)
اس عالمی وباء کو اللہ کا عزاب قرار دیا جائے، ہمارے انفرادی واجتماعی گناہوں کی سزا گردانا جائے، مسلمانوں پہ آزمائش یا کوئی عالمی سازش سمجھا جائے، یہ ایک قدرتی phenomenon ، بہرصورت ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام کی عموماً اور پاکستان کی زرعی یونیورسٹیوں میں خصوصاً جنگی بنیادوں پہ اس حوالے سے تحقیق کی جائے اور ٹڈی دل سے نجات کے طریقوں پہ غور کرکے ایسا لائحہ عمل اپنایا جائے کہ جس سے کم سے کم نقصان ہو اور سائنسدانوں کے ساتھ مل کے ایسا سپرے تیار کیا جائے جس سے فصلوں و زمین کی زرخیزی کو قطعاً نقصان نہ پہنچے. جن عالمی اداروں کے مشورے پہ سپرے کی جائے، اس سپرے کو اپنی لیبارٹریوں میں مکمل تحقیق کے ساتھ چیک کیا جائے اور اس کے مضر اثرات یا side effects سامنے آنے پہ نہ صرف وہ کیمیکل استعمال نہ کیا جائے ایسے کیمیکل بنانے والوں پہ ہرجانے کا دعویٰ بھی کیا جائے. اور عالمی فورمز پہ اس حوالے سے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا جائے. اس سلسلے میں آزاد عالمی ماہرین اور زراعت کے شعبے میں ترقی یافتہ اسلامی ممالک کے ماہرین سے بھی مدد اور مشاورت لے جائے. پاکستان جو کہ پہلے ہی خوراک کی شدید کمی کا شکار ہے، اس وباء کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا. پاکستان میں 70 سال بعد ٹڈی دل کا یہ بدترین حملہ ہے. کراچی میں گزشتہ 70 سال جبکہ پنجاب اور کے پی میں نقصانات کا گزشتہ 25 سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے.
(ماخوذ)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_28.html?m=1

Wednesday, 27 May 2020

حنفیہ کے یہاں ایثار قربات

حنفیہ کے یہاں ایثار قربات 
-------------------------------
--------------------------------
دوسروں کی بھلائی کو اپنی بھلائی پہ مقدم رکھنا جسے “ایثار قربات“ کہتے ہیں، جائز ہے یا نہیں؟ علماء کے مابین یہ اختلافی مسئلہ ہے. 
عام اصول اور فقہی کتابوں میں قربات مقصودہ (جس میں اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہو) میں ایثار کو مکروہ لکھا جاتا ہے.
احناف کے یہاں مندوب ومستحب عبادات وقربات (نہ کہ فرائض وواجبات) میں دوسروں کو خود پہ ترجیح دینا بلاکراہت جائز ہے، واجبات و فرائض میں یہ ہمارے یہاں بھی مکروہ ہے.
علامہ ابن نجیم مصری اور شامی کی نقل کے مطابق اس کی گنجائش ہے جبکہ شوافع وحنابلہ  کے یہاں مکروہ کا قول ملتا ہے 
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ کو اپنے حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تدفین کی اجازت دے کر ایثار فرمایا تھا.
علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں:
[وَإِنْ سَبَقَ أَحَدٌ بِالدُّخُولِ إلَى الْمَسْجِدِ مَكَانَهُ فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ فَدَخَلَ رَجُلٌ أَكْبَرُ مِنْهُ سِنًّا أَوْ أَهْلُ عِلْمٍ يَنْبَغِي أَنْ يَتَأَخَّرَ وَيُقَدِّمَهُ تَعْظِيمًا لَهُ] البحرالرائق شرح كنزالدقائق 3/419) 
علامہ شامی لکھتے ہیں: 
وإن سبق أحدٌ إلى الصفّ الأول، فدخل رجلٌ أكبر منه سنّاً أو أهل علمٍ، ينبغي أن يتأخر ويقدّمه تعظيماً له.أ.هـ.فهذا يفيد جواز الإيثار بالقُرَب بلا كراهةٍ،ونقل العلامةُ البيريّ فروعاً تدلّ على عدم الكراهة،ويدلّ عليه قوله تعالى: {وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ} (حاشية الأشباه للحمويّ حاشية ابن عابدين 1/382) اوجز المسالک شرح موطا مالک ج 4. ص 238)
علامہ عزالدین بن عبدالسلام لکھتے ہیں: 
[لا إيثار في القُرَبات، فلا إيثار بماء التيمم، ولا بالصف الأول ولا بستر العورة في الصلاة، لأن الغرض بالعبادات التعظيم والإجلال، فمن آثر به فقد ترك إجلال الإله وتعظيمه، فيصير بمثابة من أمره سيده بأمرٍ فتركه، وقال لغيره: قُم به، فإن هذا مُستقبحٌ عند الناس، لتباعده من إجلال الآمر وقُربه.] القواعدالكبرى 1/259)
امام الحرمین جوینی کے حوالے سے علامہ ابن حجر لکھتے ہیں:
[لا يجوز التبرعُ في العبادات، ويجوز في غيرها.] فتح الباري 10/9)
ابن قیم جوزیہ لکھتے ہیں:
وكذلك كره الإمام أحمدُ التأخرَ عن الصف الأول وإيثار الغير به، لما فيه من الرغبة عن سبب الثواب، قال أحمد في رواية حنبل، وقد سئل عن الرجل يتأخر عن الصف الأول ويقدم أباه في موضعه قال: ما يعجبني هو يقدرُ أن يبرَّ أباه بغير هذا] الروح 1/123.) (مقتبس من مقال ا، د حسام الدین عفانہ)
واللہ اعلم بالصواب 



طویل المیعاد قرض کی منہائی؟

طویل المیعاد قرض کی منہائی؟
--------------------------------
---------------------------------
سوال: ایک شخص ہے، جس کے پاس چار لاکھ روپے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ قرض چکانا ہے، لیکن اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ چھ ماہ بعد یا دو ماہ بعد قرض ادا کرے گا تو یہ شخص مذکورہ رقم کو منہا کرے گا یا نہیں؟
منہا کرنے کے لئے کتنے دنوں کی واجبی رقوم کا اعتبار کیا جائے گا، ایک مہینہ یا چھ مہینہ، یا پھر ایک سال وغیرہ۔
اس سلسلے میں اصولی بات سے آگاہ فرمادیں
الجواب وباللہ التوفیق:
زکاۃ سالانہ ادا کی جانے والی مالی عبادت ہے 
نصاب کا مالک ہونے کے بعد وجوب ثابت ہوتا اور اس نصاب پہ حولان حول کے بعد ادائی واجب ہوتی ہے 
یہ مسئلہ ائمہ مجتہدین کے یہاں اختلافی ہے کہ قرض وجوب زکاۃ کے لیے مانع ہے یا نہیں؟
شوافع ودیگر فقہاء مطلق قرض کو مانع زکاۃ نہیں سمجھتے ہیں 
جبکہ احناف وموالک کا خیال ہے کہ ایک سال کے اندر اندر ادا کیا جانے والا قرض مانع زکاۃ ہوگا یعنی ایک سال کی ادا طلب اقساطِ قرض منہا کی جائیں گی باقی مال، اگر نصاب کو پہنچے تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی۔
ایک سال سے زیادہ کی اقساط والے قرض کی کل رقم کو سالانہ زکاۃ کی ادائی کے وقت منہا نہیں کیا جائے گا 
اگر ایک سال سے زیادہ میعاد والے قرض بھی منہا ہونے لگیں پھر تو آج کل کے اقتصادی ہوشیاری کے زمانے میں (جہاں ارب پتی لوگ اپنا مال سرمایہ کاری میں لگائے رکھتے ہیں اور بینک سے دس بیس سال کی طویل ترین مدتوں اور معمولی شرح سود پہ قرض لئے رہتے ہیں، قرض میں دیئے جانے والے سود سے درجہا زیادہ ان کے وہ منافع ہوتے ہیں جو ذریعہ سرمایہ کاری انہیں موصول ہوتے ہیں) تو اکثر اربوں پتی لوگوں پہ زکاۃ ہی واجب نہ ہوگی! 
اور ظاہر ہے یہ روح شریعت اور فقہ زکاۃ کے صریح خلاف ہے 
اس لئے زیادہ سے زیادہ ایک سال کی اقساط والے قرض کی منہائی ہوگی، اس سے زیادہ میعاد والی اقساط قرض ادائی زکاۃ سے منہا نہیں ہونگی؛ 
ورنہ تو آدمی کروڑ پتی رہتے ہوئے بھی صاحب نصاب نہ بن سکے گا۔
"نصاب حولي" جیسی قیود سے یہ حکم مستفاد معلوم ہوتا ہے۔
شامی میں ہے:
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول؛ لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)" الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (2/ 259)
مشہور اور ممتاز فقیہ شیخ مصطفی احمد زرقا ارقام فرماتے ہیں:
[الدَّين المؤجل والمُقَسَّط (غيرالحال) لا يمنع الزكاة على المال الذي لدى الشخص، وإنما الذي يطرح من الزكاة هو الدَّين الحال الخاضع للمطالبة حالاً حين وجوب الزكاة بحولان الحول، وبناءً عليه تجب الزكاة في المال الذي يأخذه الشخص قرضاً فيتملكه ويعمل به، ما دام دين القرض المذكور مقسطاً أو مؤجلاً، وليس مطالباً به في الحال دفعةً واحدةً] فتاوى مصطفى الزرقا ص137-138)
واللہ اعلم

Tuesday, 26 May 2020

‎کیا محمد عبدالرحمن نام رکھ سکتے؟

 کیا محمد عبد الرحمن نام رکھ سکتے؟
سوال: محمد عبدالرحمن نام رکھ سکتے کیا؟ کیونکہ ہمارے محلے کی مسجد کے حافظ وامام صاحب کا کہنا ہے کہ ایسا نام۔مت رکھو صرف عبد الرحمن رکھو یا محمد رکھو. براہ کرم رہنمائی فرمایئے
جواب: رکھ سکتے ہیں. ان کو کہو کہ نام تو صرف عبدالرحمان ہی ہے. اور محمد کو بطور تبرک لگایا ہے. جس کی بہت بڑی فضیلت ہے.
سوال: اپنے نام کے آگے یا پیچھے محمد یا احمد لگانے کی فضیلت کسی حدیث شریف میں آئی ہے؟ یا لگانا کیسا ہے؟
(۲) اپنے نام کے آگے یا پیچھے محمد یا احمد لگانے کی فضیلت زیادہ ہے یا اللہ کے نام جوڑنے کی؟
Published on: Jul 22, 2010 
جواب # 22978
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی (م):932=932-6/1431
آپ علیہ السلام کے نام کی فضیلت حدیث شریف میں وارد ہے: چنانچہ آپ علیہ السلام کا اشاد ہے: من ولد لہ مولودٌ فسمّاہ محمّدًا کان ہو ومولودہ في الجنّة (شامي: ۹/۵۹۸) یعنی جس نے اپنے بچے کا نام ”محمد“ رکھا تو وہ اور اس کا وہ بچہ جنت میں داخل ہوگا۔ نیز ”مالابد منہ“ میں ہے: ”کہ خدائے تعالی می فرماید کہ: مرا قسم عزت وجلال خود ست کہ ہرگز عذاب نخواہم کرد بر کسے را کہ نامش مثل نام تو باشد درآتش، یعنی مثل نام پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مثل ”محمد احمد،”محمد علی“، احمد حسن“ وغیرہا (ص:۱۸۰، کتب خانہ رحیمیہ)
(۲) اپنے نام کے ساتھ اللہ کا نام جوڑنے کی فضیلت زیادہ ہے، حدیث شریف میں ہے:
أحبّ الأسماء إلی اللہ تعالیٰ عبد اللہ وعبد الرحمن (مسلم/ ۲۱۳۲، ابوداوٴد/۴۹۵۰، نسائی/۲۱۸) شامی میں ہے: قال المناوي: وعبد اللہ أفضل مطلقًا حتی من عبد الرحمن، وأفضلہما بعدہما محمد ثم أحمد ثم إبراہیم․ (۹/۵۱۱، زکریا)


طلوع آفتاب کے بیس منٹ بعد نماز عید ادا کرنا؟

طلوع آفتاب کے بیس منٹ بعد نماز عید ادا کرنا؟
-------------------------------
--------------------------------
عید کے روز ہمارے علاقے میں طلوع آفتاب 5 بج کر 7 منٹ پر ہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسجد یا گھر ہر جگہ زیادہ افراد کے ساتھ جماعت پر قانونی سختی ہے. ہم عیدالفطر کی نماز اگر تاخیر سے پڑھتے ہیں تو کم لوگ ہی شریک ہوسکیں گے. پھر یہ سالانہ نماز ہے. ہر ایک کی خواہش ہوگی. کس کو منع کیا جاسکتا ہے. اگر 5:30 ساڑھے پانچ بجے ہی باجماعت اداء کرلی جائے تو کیا وقت کا انتخاب درست ہوگا؟ شرعی اعتبار سے کوئی قباحت تو نہیں؟ امید ہے کہ جواب دے کر ممنون فرمائیں گے. 
محمد انور داؤدی اعظم گڈھ
الجواب وباللہ التوفیق:
عید موخر کرنا اور بقرعید کی نماز معجل کرنا بہتر ہے 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو نجران میں حکم دیا:
عَجِّلِ الأَضْحَى وَأَخِّرِ الْفِطْرَ وَذَكِّرِ النَّاسَ.
عید الاضحی کی نماز جلدی ادا کرو اور عید الفطر کی نماز دیر سے ادا کرو اور لوگوں کو وعظ سناؤ۔
(بيهقی، السنن الکبری، 3 : 282، رقم : 5944، مكة المكرمة: مكتبة دار الباز)
لیکن نماز فجر کا وقت ختم ہونے کے بعد آفتاب کے مکمل طلوع ہوجانے کے بعد نمازِ عید ادا کرسکتے ہیں۔
آپ کے سوال کے مطابق ساڑھے پانچ بجے عید کی نماز ادا کرنا صحیح ہے.
فقط واللہ اعلم 
حديث: لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر وأخروا السحور

عید کی نماز کی قضاء؟


عید کی نماز کی قضاء؟
--------------------------------
-------------------------------------
عید کی نماز مخصوص تاریخ ، محدود وقت و تعداد میں ہی حنفیہ کے یہاں واجب ہے 
تنہا عید کی نماز مشروع نہیں ہے، اگر کسی وجہ سے کسی شخص کی عید کی نماز چھوٹ جائے یا مفسدات نماز کی وجہ سے فاسد ہوجائے تو 
اب عید کی نماز کی قضا وقت کے اندر بھی اور خروج وقت کے بعد بھی! انفرادًا ہے نہ اجتماعاً توبہ استغفار کرے جبکہ دیگر ائمہ چار رکعات اشراق کی صورت میں قضا کرنے کو فرماتے ہیں 
ہاں اگر رویت ہلال میں شہادت کے مسائل کی وجہ پہلی تاریخ میں عید نہ پڑھی گئی تو دوسری تاریخ میں باجماعت قضا کی جائے گی 
عید کی قضا کی تین صورتیں 
الموسوعۃ الفقہیہ میں بتائی گئی ہیں، معلومات افزا بحث ہے؛ اس لئے بعینہ پیش کررہا ہوں:
صلوة العيدين حكمها بعد خروج وقتها لفوات صلاة العيد عن وقتها ثلاث صور‏:‏
7 - الصّورة الأولى‏:‏ أن تؤدّى صلاة العيد جماعةً في وقتها من اليوم الأوّل ولكنّها فاتت بعض الأفراد، وحكمها في هذه الصّورة أنّها فاتت إلى غير قضاء، فلا تقضى مهما كان العذر ؛ لأنّها صلاة خاصّة لم تشرع إلاّ في وقت معيّن وبقيود خاصّة، فلا بدّ من تكاملها جميعاً، ومنها الوقت‏.‏ وهذا عند الحنفيّة والمالكيّة‏.‏
وأمّا الشّافعيّة‏:‏ فقد أطلقوا القول بمشروعيّة قضائها - على القول الصّحيح في المذهب - في أيّ وقت شاء وكيفما كان‏:‏ منفرداً أو جماعةً، وذلك بناءً على أصلهم المعتمد، وهو أنّ نوافل الصّلاة كلّها يشرع قضاؤها‏.‏
وأمّا الحنابلة‏:‏ فقالوا‏:‏ لا تقضى صلاة العيد، فإن أحبّ قضاءها فهو مخيّر إن شاء صلّاها أربعاً، إمّا بسلام واحد، وإمّا بسلامين‏.‏
8 - الصّورة الثّانية‏:‏ أن لا تكون صلاة العيد قد أدّيت جماعةً في وقتها من اليوم الأوّل، وذلك إمّا بسبب عذر‏:‏ كأن غمّ عليهم الهلال وشهد شهود عند الإمام برؤية الهلال بعد الزّوال، وإمّا بدون عذر‏.‏
ففي حالة العذر يجوز تأخيرها إلى اليوم الثّاني سواء كان العيد عيد فطر أو أضحى ؛ لأنّه قد ثبت عن رسول اللّه صلى الله عليه وسلم‏:‏ «أنّ قوماً شهدوا برؤية الهلال في آخر يوم من أيّام رمضان، فأمر عليه الصلاة والسلام بالخروج إلى المصلّى من الغد»‏.‏
وهذا عند الحنفيّة والشّافعيّة والحنابلة فيشرع قضاء صلاة العيد في اليوم الثّاني عند تأخّر الشّهادة برؤية الهلال‏.‏ أمّا المالكيّة‏:‏ فقد أطلقوا القول بعدم قضائها في مثل هذه الحال‏.‏
إلاّ أنّ الشّافعيّة لا يعتبرون صلاتها في اليوم الثّاني قضاءً إذا تأخّرت الشّهادة في اليوم الّذي قبله إلى ما بعد غروب الشّمس‏.‏ بل لا تقبل الشّهادة حينئذ ويعتبر اليوم الثّاني أوّل أيّام العيد، فتكون الصّلاة قد أدّيت في وقتها‏.‏
9 - الصّورة الثّالثة‏:‏ أن تؤخّر صلاة العيد عن وقتها بدون العذر الّذي ذكرنا في الصّورة الثّانية‏.‏ فينظر حينئذ‏:‏ إن كان العيد عيد فطر سقطت أصلًا ولم تقض‏.‏ وإن كان عيد أضحى جاز تأخيرها إلى ثالث أيّام النّحر، أي يصحّ قضاؤها في اليوم الثّاني، وإلاّ ففي اليوم الثّالث من ارتفاع الشّمس في السّماء إلى أوّل الزّوال، سواء كان ذلك لعذر أو لغير عذر ولكن تلحقه الإساءة إن كان غيرمعذور بذلك‏.‏
(الموسوعة الفقهية . صلوة العيدين)
فقط واللہ اعلم