Thursday, 29 July 2021
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو کی تحقیق
Monday, 19 July 2021
ذبح کا طریقہ اور دعاء
Saturday, 17 July 2021
ہردوئی طرز پر اذان و اقامت ایک تجزیہ
باسمہ تعالیٰ
ہردوئی طرز پر اذان و اقامت ایک تجزیہ
ہردوئی طرز پر اذان و اقامت یہ کوئی حکم شرعی نہیں ہے بلکہ حضرت مولانا ابرارالحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ عليہ کی ذوقی تحقیق ہے۔ حضرت کے اساتذۂ کرام اس سے متفق نہیں تھے. بالخصوص حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی (اور یہ بات میں نے دونوں حضرات سے سنی ہے: حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ: مولانا ابرارالحق صاحب نے سنت کے مطابق نماز کی عملی مشق مجھ سے کی تھی، اور مولانا ابرارالحق صاحب نے بھی بیان فرمایا تھا کہ: میں نے نماز کی عملی مشق حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) سے کی تھی)
دوسری بات یہ ہے کہ اذان میں رفع صوت مطلوب ہے اور اللہ تعالی کے نام کو جب اذان میں پکارا جائے تو 'المدّ التعظیمی لاسم الجلالۃ' امت کے توارث و تعامل سے ثابت ہے۔ ممانعت اس مد کی ہے جس میں طول فاحش ہو اور جن چیزوں کی نفی کی گئی ہے وہ ہے تمطیط، آواز کو لہرانا، گھمانا اور دیر تک کھینچنا. یہ ممنوعات ہیں بقیہ تحسینات ہیں۔ حضرت مولانا جلال آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت کے معتمد مفتی جو حضرت مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہجہاں پوری کے شاگرد، اور حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب لکھنوی جو حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے معتمد مفتی، اور ان کے خاص تربیت یافتہ تھے. اسی طرح ہمارے حضرت مفتی مظفر حسین صاحب، حضرت مولانا قاری حبیب احمد صاحب الہ آبادی، حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی اور مفتی نظام الدین صاحب اعظمی جو دارالعلوم دیوبند کے بڑے مفتی اور حضرت مفتی شفیع عثمانی (رحمۃ اللہ علیہ) صاحب کے شاگرد تھے. یہ تمام حضرات اس بات سے متفق نہیں تھے، ایسے ہی حضرت مولانا شاہ حکیم اختر صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے جب حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب سے تحقیق کی تو حضرت مفتی صاحب نے فرمایا تھا کہ: اس کو منکرات میں سے قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ خود احقر حضرت کی حیات میں دو مرتبہ جواب لکھ چکا تھا۔
'وللناس فيما يعشقون مذاهب.'
بنیادی وجہ:
اس سلسلے میں بنیادی بات یہ لگتی ہے کہ جب حضرت نے بڑے شدو مد کے ساتھ اس مسئلے کی تبلیغ فرمائی تو حضرت کے پیش نظر حدیثی فقہی اور آثار میں سے کوئی چیز نہیں تھی بلکہ حضرت کا مستدل صرف یہ تھا کہ میں نے حضرت مولانا قاری محی الدین صاحب الہ آبادی سے دریافت کیا تھا جو امام جامع مسجد اور قاری ضیاء الدین صاحب کے صاحبزادے و شاگرد تھے تو انہوں نے اس مد کی نفی فرمائی تھی۔ لیکن حضرت مولانا قاری حبیب صاحب کو اس پر اصرار تھا اور آپ نے ناگواری کا بھی اظہار فرمایا تھا. وہ فرماتے تھے کہ میں نے تقریباً چالیس سال حضرت مولانا قاری محی الدین صاحب الہ آبادی کے پاس قرآن کریم کا دور کیا اور تجوید پڑھی. (یہ خاص الخواص مستفیدین میں تھے اور معتمد تلمیذ تھے). انہوں نے فرمایا کہ چالیس سال کے عرصے میں کبھی حضرت کی زبان سے یہ بات میں نے نہیں سنی۔ غالباً حضرت قاری محی الدین صاحب کی بات سننے یا سمجھنے میں حضرت مولانا ابرارالحق صاحب کو کچھ مغالطہ ہوا ہے۔ اور ایسا ہونا بزرگی کے خلاف نہیں ہے 'لکل عالم ھفوۃ' کسی بھی عالم سے لغزش ہوسکتی ہے.
اسی سلسلے میں مزید دو باتیں:
اسی سلسلے کی دو باتیں اور یاد آگئیں۔
پہلی بات: تو یہ کہ حیعلتین میں تحویل وجہ کو جو مستحب لکھا ہے۔ (امدادالفتاوی)
مفتی مظفر حسین صاحب ہردوئی تشریف لے گئے تھے تو قاری امیرالحسن صاحب نے حضرت سے دریافت کیا کہ میں نے پہلے اس پر عمل نہیں دیکھا مگر حضرت کے یہاں بہت اہتمام سے اس پر عمل ہوتا ہے۔ تو اس بارے میں حکم شرعی کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلی علیہ الرحمہ نے سعایہ میں لکھا ہے کہ کہ اگر مسجد بڑی ہو تو حیعلتین میں تحویل وجہ مستحب ہے اور درمیانی مسجد میں جو نہ بڑی ہو نہ چھوٹی تو تحویل وجہ میں اختیار ہے کرے یا نہ کرے اور مسجد صغیر میں تحویل وجہ کی ضرورت نہیں ہے یعنی تحویل مستحب نہیں ہے۔ اسی طریقے سے حضرت مولانا فرنگی محلی نے لفظ 'اللّٰه' میں قصر کی بھی ممانعت فرمائی ہے، حضرت ہردوئی علیہ الرحمہ کی تنبیہ، تاکید اور اصرار کے نتیجے میں لوگ 'اللَّه اکبر اللَّه اکبر' کہنے لگے تھے۔ جس کی شکایت ہردوئی کے بعض حضرات نے خود احقر سے کی تھی۔ یہ لوگ اس خطرے اور اندیشے سے کہ مد نہ ہوجائے اذان و اقامت اور نماز میں بھی 'اللَّه اکبر اللَّه اکبر' الف ساقط کردیتے تھے جس سے اس کی ذات ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی تو صراحتاً ممانعت ہے یہ تو لحنِ جلی میں آتا ہے۔
دوسرا مسئلہ: یہ کہ حضرت اقامت میں "قد قامت الصلوۃ قد قامت الصلوۃ" کی ایک ہی سانس میں عملی مشق کرواتے تھے. حالانکہ "بدائع الصنائع" وغیرہ میں بصراحت موجود ہے کہ 'قد قامت الصلوۃ قد قامت الصلوۃ' دو سانس میں کہا جائے گا۔ ایسے ہی ایک مرتبہ احقر نے حضرت سے عرض کیا تھا کہ بیت الخلاء جانے میں بایاں قدم پہلے رکھنا چاہئے اور نکلنے میں دایاں تو غسل خانے میں کیا ترتیب ہونی چاہئے؟ حضرت نے فرمایا تھا کہ اس میں بھی وہی صورت اپنانی چاہئے. بعد میں مجھے اس کی صراحت ملی کہ غسل خانے میں پہلے دایاں قدم رکھنا سنت ہے۔ خلاصہ یہ کہ بعض چیزوں کے بارے میں آدمی ذوقاً فیصلہ کرتا ہے. صراحت اس کے علم میں نہیں ہوتی اور یہ عموما اس بات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی پڑھتا تو محنت سے ہے لیکن از اول تا آخر پڑھانے کا موقع نہیں ملتا جس کی بنا پر مطالعہ اور استحضار نہیں ہوپاتا. یہی صورت حضرت کے ساتھ بھی تھی۔ ایسے ہی بعض چیزوں میں حضرت کے یہاں جو تحقیق ہوتی تھی. اس سے معلوم ہوتا تھا کہ اصل سنت یہی ہے۔ تو حصر والی صورت جیسے غیرمقلدین اور تبلیغیوں میں ہوتی ہے. ایسے ہی بعض چیزوں میں حضرت کے یہاں بھی ہوگئی تھی۔ اور حضرت کے مریدین متبعین نے تو اس کو حضرت سے بھی آگے بڑھا دیا. گویا ایک مستقل فرقے جیسی پہچان بنالی. اللہ تعالی ہر قسم کے تعصب سے حفاظت فرمائیں، ہمیشہ اہل حق، اہل سنت، متبعین سنت اور پابند شریعت حضرات میں داخل و شامل رکھے، 'نطمع أن يدخلنا ربنا مع القوم الصالحين، وتوفنا مسلما و الحقنا بالصالحين، غير خزايا و لا ندٰمٰى ولا مفتونين. آمين يا رب العالمين.'
احقر مجدالقدوس خبیب رومی عفا اللہ عنہ
صدر مفتی مدرسہ عربی مظاہر علوم سہارنپور و مفتی شہر آگرہ
٤/ ذى الحجہ ۱٤٤٢
ناشر: مجمع الفقہ الحنفی (الہند)
اذان سے متعلق بہت ہی اہم تحقیق ہے اس کو ضرور پڑھیں.
------
کلمات اذان میں طویل مد کرنا
سوال: اذان میں اسم جلالہ (الله) کی مد کی مقدار کتنی جائز ہے؟ مدلل اور تحقیقی جواب ارشاد فرمادیں اور جو مشہور ہے کہ فقہاء نے اس مد میں سات الف تک مد کرنے کو کہا ہے، یہ قول کس حد تک درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ لفظ جلالہ ’’اللہ‘‘ کا مد، مد اصلی ہے، جس کی مقدار حرکتیں یعنی ایک الف کے برابر ہے، اس لئے اداء ِتلاوت اور قرأتِ قرآن کریم میں تو ایک الف پر زیادتی سراسر خلافِ قاعدہ اور ممنوع ہے۔البتہ غیرِقرآن بالخصوص کلماتِ اذان میں اس زیادتِ مدِاصلی کی ضرور وسعت و گنجائش ہے، تاکہ عظمت و جلالتِ شان اور مقصدِ اعلامونداء بدرجۂ اتم حاصل ہو ، اس پر ایک قوی شاہد و قرینہ یہ ہے کہ اہل عرب کے ہاں ذکر اور دعا میں ، اور مدد طلب کرتے وقت مدِ معنوی کا استعمال کتبِ فن میں نہایت صراحت سے منقول ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مواقع پر مدّ کو اپنی اصلی مقدار سے زیادہ کھینچنا جائز ہے ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں ہے:
’’وأمّا السبب المعنوي فھو قصد المبالغة في النفي، وھو سبب قوي مقصود عند العرب وھذا مذھب معروف عندالعرب؛ لأنّھا تمد عند الدعاء و عند الاستغاثة وعند المبالغة في نفي شيءٍ."
(الاتقان في علوم القرآن، النوع الثاني والثلاثون، في المد والقصر ، (۱؍۹۷) ط: مصطفی البابی مصر)
’’کتاب النشر فی القرا ءت العشر ‘‘ میں ہے:
’’واستحب العلماء المحققون مد الصوت بلا إلٰه إلاَّ اللّٰہ إشعاراً بما ذکرنا وبغیرہ، قال الشیخ محي الدین النووي رحمه اللّٰہ في الأذکار : ولھٰذا کان المذھب الصحیح المختار استحباب مد الذاکر قوله : ’’لاإلٰه إلاَّ اللّٰہ‘‘؛ لما ورد من التدبر … قال: وأقوال السلف وأئمة الخلف في مد هذا مشھورۃ. ‘‘
(النشر في القراءات العشر ، باب المد والقصر ، فصل ، (1؍269) ط: دارالکتب العلمیة بیروت)
مذکورہ بالا عبارات کی روشنی میں اگر ’’ اللّٰه أكبر‘‘ کو بغرضِ ذکر کہا جائے تب بھی مد کے دراز کرنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، اور اگر دعاء اور ندا کی غرض سے کہا جائے تو بدرجہ أولیٰ مد کی درازی کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
مزید یہ ہے کہ بعض جدید کتب میں لفظ ’’اللہ‘‘ میں مد کرنے کے لئے مستقل نام (مدِتعظیمی) وضع کیا گیا ہے. چناں چہ ’’جواہرالتجوید‘‘ میں ہے:
’’مدتعظیمی جس کو مدِمبالغہ کہتے ہیں اس واسطے کہ اس مد میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کی تعظیم و عظمت اور شانِ جلالت معلوم ہوتی ہے جو اسمِ جلالہ لفظ ’’اللہ‘‘، ’’رحمن ‘‘ اور ’’قھّار‘‘ وغیرہ میں کیا جاتا ہے، لیکن کسی قاری کے نزدیک معمول و مختار نہیں۔ (یعنی قاری صاحبان کے ہاں یہ مدِ معنوی غیر قرآن میں مستعمل ہے، لیکن قرآن مجید میں نہیں۔)‘‘
(جواہر التجوید)
امام القراء حضرت مولانا قاری عبدالرحمن رحمہ اللہ اپنے معر کۃ الآراء رسالہ تجوید ’’تحفہ ندریہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’چہارم مدِ تعظیم چناںچہ بعضے در اسم ’’اللہ‘‘ و ’’رحمن‘‘ مد می کشند‘‘ ۔ (تحفہ ندریۃ)
کتبِ تجوید کے علاوہ اگر فقہ و فتاویٰ کی طرف مراجعت کی جائے تو ’’البحرالرائق‘‘ میں ہے:
’’ویترسل فیه ویحدر فیھا، وفسر الترسل في’’ الفوائد‘‘ بإطالة کلمات الأذان ، والحدر قصرھا، ولأنّ المقصود من الأذان الإعلام والترسل بحاله ألیق.‘‘
(البحر الرائق، کتاب الصلاۃ ، باب الأذان، (۱؍۲۵۷) ط: سعید کراچی)
مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ لفظ ’’اللہ‘‘ میں مد کو خوب دراز کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کی درازی کی زیادہ سے زیادہ مقدار کیا ہونی چاہئے کہ جس مقدار اور حد سے مدِمعنوی کو زیادہ کھینچنا ناجائز ہو؟
تو اس کے جواب میں ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہئے کہ کتبِ تجوید میں جو قواعد ذکر کئے جاتے ہیں وہ صرف اداءِ تلاوتِ قرآن اور قرأتِ قرآن مجید کے متعلق ہوتے ہیں ؛ اس لئے قرآنِ مجید میں تو ان قواعد کی رعایت انتہائی ضروری ہے ۔ لیکن غیرِ قرآن کے لیے وہ قواعد منصوص اور مصرّح نہیں ، بلکہ غیرِ قرآن کے کلمات کو کلماتِ قرآن پر قیاس کرکے وہ احکام ثابت کئے جاسکتے ہیں ۔
لہٰذا محض مسائل اور اصولِ قرأت پر قیاس کرتے ہوئے راجح قول کے مطابق مد کی زیادہ سے زیادہ مقدار پانچ الف ہے ۔
جیساکہ ’’ کتاب النشرفي القراء ات العشر ‘‘ میں ہے:
"والمرتبة الخامسة فوقھا (أي فوق الرابعة) قلیلاً، وقدرت بخمس ألفات.‘‘
(النشر في القراء ات العشر، باب المد والقصر، (۱؍۲۵۴) ط: دارالکتب العلمیة بیروت)
(شرح المقدمۃ الجزریۃ، باب أحکام المد والقصر ، المد المنفصل تعریفہ وأحکامہ، (ص: ۲۲۴) ط: المکتبۃ العربیۃ السعودیۃ)
اور بعض حضرات نے زیادہ سے زیادہ مقدار سات الف تک بتلائی ہے، چناںچہ قاری فتح محمد صاحب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’مفتاح الکمال شرح تحفۃ الأطفال‘‘ میں سات الف کے قول کو نقل کیا ہے۔
(مفتاح الکمال شرح تحفۃ الأطفال، ص: ۶۶)
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کلمات اذان کو تلاوتِ قرآن پر محض قیاس کرتے ہوئے تو لفظ ’’ اللہ ‘‘ میں سات الف سے زیادہ کھینچنا خلافِ اولیٰ قرار دیا جائے گا ۔
لیکن مقصدِ ’’إعلام‘‘ کو بطورِ اتم حاصل کرنے اور عمومِ بلویٰ کا لحاظ کرتے ہوئے قیاس کو چھوڑا جائے گا اور اس زیادتی کو اس وقت تک جائز قرار دیا جاسکتا ہے، جب تک وہ کلمات عربیت کی حد سے نہیں نکلتے ہوں۔
(ماخذ: فتاوی جامعہ بنوری ٹاؤن، غیرمطبوعہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144206201020
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2021/07/blog-post_17.html?m=1
عکس: کتاب الصلوۃ
Wednesday, 14 July 2021
جانور میں حرام مغز اور غدود سے مراد کیا ہے؟ اور ان کا شرعی حکم کیا ہے؟؟؟
خوفِ خدا اور فکرِآخرت
خوفِ خدا اور فکرِآخرت
سیدی ومرشدی حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر نوراللہ مرقدہٗ نے اپنے مرشد حضرت شیخ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی اثباتِ قیامت کی تقریر کو نظم میں فرمایا تھا، جس کا آخری شعر یہ ہے:
قیامت کا دن منتہائے عمل ہے
جزائے عمل ہے سزائے عمل ہے
ان سادہ الفاظ میں جو جامعیت ونصیحت ہے وہ اظہر من الشمس ہے، یعنی دل میں خوفِ خدا اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرکے روزِ قیامت کی تیاری کے لئے فکرِآخرت پیدا کرنا ہے۔ حضور نبی کریم رحمۃ للعالمین فخرالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’آنکھوں کو بھی عبادت کا حصہ دو، یعنی قرآن میں دیکھو اور اس میں غور وتدبر کرو اور اس کے عجائبات سے درسِ عبرت لو‘‘۔ (الصحیح لابن حبان بروایت ابی سعید، کنزالعمال اردو مترجم: ۱/۳۲۳، رقم الحدیث: ۲۲۶۲) امام التابعین حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: ’’پہلے لوگ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور وتدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ ا س کے حروف اور زیر و زبر تو بہت درست کرتے ہو، مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے، اس میں غور و تدبر نہیں کرتے۔ (فضائل قرآن مجید، زیرحدیث نمبر: ۱۹)
البتہ خود سے غور وتدبر کرنے کی بجائے علمائے کرام سے اس کا طریقہ پوچھنا چاہئے اور سیکھنا چاہئے تاکہ خودساختہ طریقے پر چلنے سے گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائے، کیونکہ کلام پاک کے معنی کے لئے جو شرائط وآداب ہیں ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ اور ایک جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’افسوس اس شخص پر جس نے یہ آیت پڑھی۔۔۔۔۔-:
’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ (آل عمران: ۱۹۰)
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات ودن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔- لیکن اس میں کچھ غور وفکر نہ کیا۔‘‘ (کنزالعمال اردو مترجم: ۱/۳۵۱، رقم: ۲۵۷۶)
اس آیت پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ بھی منقول ہے، ملاحظہ ہو:
حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ عجیب بات جو دیکھی ہو، وہ ہمیں بتادیں۔ پہلے تو وہ خاموش ہوگئیں، پھر فرمایا: ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ! مجھے چھوڑو، آج رات میں اپنے رب کی عبادت کروں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! مجھے آپ کا قرب بھی پسند ہے اور جس کام سے آپ کو خوشی ہو وہ بھی پسند ہے،
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اور وضو کیا، پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے اور نماز میں روتے رہے اور اتنا روئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود گیلی ہوگئی اور بیٹھ کر اتنا روئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی آنسوؤں سے ترہوگئی، پھر سجدہ میں اتنا روئے کہ زمین تر ہوگئی، پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دینے آئے، جب انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا میں شکرگزار بندہ نہ بنوں؟ آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے کہ جو آدمی اسے پڑھے اور اس میں غور وفکر نہ کرے، اس کے لئے ہلاکت ہے، وہ آیت یہ ہے: ’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ (آل عمران: ۱۹۰) ترجمہ: ’’بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور رات ودن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘ (اخرجہ ابن حبان فی صحیحہ، کذا فی الترغیب:۳۳۲ بحوالہ حکایۃ الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین: ۳/۱۵۰، ۱۴۹)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑھاپے کے آثار قبل از وقت کیوں؟
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کے بنیادی مضمون تین ہیں:
۱:… توحید،
۲:… رسالت،
۳:… قیامت۔
قرآن پاک میں کچھ سورتیں ایسی ہیں جن میں قیامت کی ہولناکیاں اور اگلی اقوام کے حالات وغیرہ کا ذکر ہے۔ مختلف احادیث میں ان سورتوں کی نشاندہی فرمائی گئی ہے۔ ان سب روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابۂ کرامs مثلاً حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ نے ریش مبارک میں بالوں کی سفیدی دیکھ کر اظہارِ رنج کے ساتھ عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! آپ بوڑھے ہوگئے؟ سیدالانبیاء حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: مجھے سورۂ ہود اور اس کی بہنوں یعنی دوسری چند سورتوں نے بڑھاپے سے قبل ہی سفید بالوں والا یعنی بوڑھا کردیا۔ (مستفاد از کنزالعمال اردو مترجم)
ان سورتوں میں پچھلی قوموں پر نازل ہونے والے قہرالٰہی، مختلف قسم کے عذابوں، قیامت کے ہولناک واقعات اور ان کی منظر کشی، کفار وفجار کی سزا اور مؤمنین ومتقین کی جزاء وغیرہ کا ذکر خاص انداز میں آیا ہے، اس لئے ان واقعات کے خوف ودہشت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑھاپے کے آثار شروع ہوگئے۔ اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم دولت کدہ سے تشریف لاتے ہوئے داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیررہے تھے، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین مسجد میں تشریف فرما تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھا اور عرض کیا: یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کس قدر جلدی آپ پر بڑھاپا آگیا ہے اور یہ کہہ کر رونے لگے اور آنسو جاری ہورہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۂ ہود جیسی سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔ (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی، ص: ۴۳)
سورتوں کے نام:
وہ سورتیں جن کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف روایات میں فرمایا، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱:… ہود،
۲:… الواقعۃ ،
۳:… الحاقۃ،
۴:… المعارج،
۵:… المرسلات،
۶:… النبأ،
۷:… التکویر،
۸:… الغاشیۃ،
۹:… القارعۃ۔ (کنزالعمال اردو مترجم، ج: ۱، رقم الحدیث:۲۵۸۶ - ۲۵۹۲، ۴۰۹۱- ۴۰۹۶)
ان سورتوں کے علاوہ بھی اس طرح کی بہت سی سورتیں اور آیتیں ہیں، لیکن چونکہ درج بالا سورتوں میں اس موضوع کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے، اس لئے ان کے نام لے کر بتائے گئے۔ ایک ہی رات میں بال سفید ہوگئے.
(ایک واقعہ)
علامہ زمخشری کہتے ہیں: میں نے ایک کتاب میں دیکھا ہے کہ ایک شخص شام کے وقت بالکل سیاہ بال جوان تھا، ایک ہی رات میں بالکل سفید ہوگیا۔ لوگوں نے پوچھا، تو اس نے کہا کہ میں نے رات قیامت کا منظر دیکھا ہے کہ لوگ زنجیروں سے کھینچ کر جہنم میں ڈالے جارہے ہیں، اس کی دہشت مجھ پر کچھ ایسی غالب ہوئی کہ اس نے ایک ہی رات میں مجھے اس حالت پر پہنچادیا۔ اللہ اکبر! (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی:۴۴، ۴۳)
چند مخصوص آیات مبارکہ کا تذکرہ:
خوفِ خدا اور فکرِآخرت پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم، صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علماء ومشائخ رحمہم اللہ کے ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ ایک ہی آیت کو پڑھتے رہے اور خوف وخشیت سے روتے رہے۔ اپنے موضوع (خوفِ خدا اور فکر آخرت) کی مناسبت سے صرف حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند واقعات وارشادات پر ہی اکتفا کرتا ہوں، جن میں مخصوص آیاتِ قرآنیہ کا ذکر ہے:
۱: ۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: ’’سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی آیت: ’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہٗ‘‘ ہے۔ (الزلزال: ۸، ۷) ۔۔۔۔۔ ’’چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھے گا۔‘‘
سب سے زیادہ امید رساں اور دل کو تقویت بخشنے والی آیت:
’’قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ‘‘ ہے۔ (الزمر: ۵۳) ۔۔۔۔۔ ’’کہہ دو کہ: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘ (کنزالعمال اردو مترجم: ۱/۳۵۰، رقم الحدیث: ۲۵۶۰)
۲:۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’میں تم پر ایک سورت (التکاثر) پڑھتا ہوں، جو اس پر رویا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، پس جس کو رونا نہ آئے وہ رونے کی کوشش کرے۔ (شعب الایمان بروایت عبدالملک بن عمیر، مرسلاً، کنزالعمال اردو مترجم: ۱/۳۶۵، رقم الحدیث: ۲۷۱۵) اس سورت میں دنیا کی زندگی اور مال ودولت کو مقصد بنانے والوں کی مذمت کی گئی ہے، نیز مال کی بے ثباتی، روز قیامت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بارے میں سوال ہونے اور جہنم سے ڈرایاگیا ہے۔
۳: ۔۔۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے:
’’إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ‘‘ (المائدۃ: ۱۱۸) ترجمہ: ’’اگر آپ ان کو سزادیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں۔‘‘ یعنی آپ ان کے مالک ہیں اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو ان کے جرائم پر سزا دے، اس لئے آپ اس کے بھی مختارہیں، قدرت والے ہیں، معافی پر بھی آپ قادر ہیں، اس لیے اس کے بھی آپ مختار ہیں تو آپ کی معافی بھی حکمت کے موافق ہوگی، اس لئے اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہوسکتی، مطلب یہ کہ آپ دونوں حالت میں مختار ہیں، میں کچھ دخل نہیں دیتا۔ (بیان القرآن، زیرآیت ہذا: ۲۷۱، وحکایات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین :۳۶)
۴: ۔۔۔۔۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاری کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا:
’’إِنَّ لَدَیْنَا أَنْکَالًاوَّجَحِیْمًا‘‘۔ (المزمل: ۱۲) ترجمہ:۔۔۔۔۔ ’’ہمارے یہاں بیڑیاں ہیں اور دوزخ ہے‘‘۔ یہ سن کر حضور صبے ہوش ہوگئے۔ (حیاۃ الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، ج:۲، ص: ۶۸۸)
۵: ۔۔۔۔۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میں نے عرض کیا: میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں؟ حالانکہ قرآن تو خود آپ پر نازل ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ میں دوسرے سے قرآن سنوں، چنانچہ میں نے سورۂ نساء پڑھنی شروع کردی اور جب میں ’’فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰؤُلَائِ شَہِیْداً‘‘ (نسائ: ۴۱) ۔۔۔۔۔
’’پھر (یہ لوگ سوچ رکھیں کہ) اس وقت (ان کا) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور (اے پیغمبر!) ہم تم کو ان لوگوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کریں گے۔‘‘ پر پہنچا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: .بس کرو! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسو بہارہی تھیں۔ (اخرجہ البخاری، کذا فی البدایۃ: ۶/۵۹، بحوالہ حیاۃ الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین: ۲/۶۹۲)
فائدہ: تمام انبیائے کرام صلی قیامت کے روز اپنی اپنی امتوں کے اچھے برے اعمال پر گواہی دیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے لوگوں پر گواہ بناکر پیش کیا جائے گا۔ (آسان ترجمۂ قرآن: ۱/۲۶۶)
یعنی جن لوگوں نے اللہ کے احکام دنیا میں نہ مانے ہوں گے، ان کے مقدمہ کی پیشی کے وقت بطور سرکاری گواہ کے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اظہارات سنے جاویںگے، جو جو معاملات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی موجودگی میں پیش آئے تھے سب ظاہر کریں گے، اس شہادت کے بعد ان مخالفین پر جرم ثابت ہوکر سزادی جاوے گی۔ (بیان القرآن، زیر آیت ہذا: ۱۷۶)
۶:۔۔۔۔۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ ایک صاحب کوخواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ سورۂ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا، کیا بات ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اس میں ایک آیت ہے: ’’فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ‘‘ یعنی دین پر ایسے مستقیم رہو جیساکہ حکم ہے اور ظاہر ہے کہ حکم کے موافق پوری استقامت بہت ہی مشکل امر ہے، اس لئے صوفیاء نے لکھا ہے کہ استقامت ہزار کرامتوں سے افضل ہے۔ (شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی: ۴۳)
۷: ۔۔۔۔۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:’’أَفَمَنْ ہَذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَاتَبْکُوْنَ‘‘۔ (النجم: ۶۰، ۵۹) ۔۔۔۔۔ ’’سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کربھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور (خوفِ عذاب سے) روتے نہیں ہو۔‘‘ تو اصحابِ صفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اتنا روئے کہ آنسو اُن کے رُخساروں پر بہنے لگے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کے رونے کی ہلکی ہلکی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ روپڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رو پڑے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ کے ڈر سے روئے گا وہ آگ میں داخل نہیں ہوگا اور جو گناہ پر اصرار کرے گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور اگر تم گناہ نہ کرو (اور استغفار کرنا چھوڑدو) تو اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریں گے (اور استغفار کریں گے) اور اللہ ان کی مغفرت کریں گے۔ (اخرجہ البیہقی، کذا فی الترغیب: ۵/۱۹۰، بحوالہ حیاۃ الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین: ۲/۶۹۳) جناب ارمغان ارمان (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/07/blog-post_14.html
Saturday, 10 July 2021
تعریف قربانی، تاریخ، حیثیت، فضائل اور احکام ومسائل
تعریف قربانی، تاریخ، حیثیت، فضائل اور احکام ومسائل
---------------------------------
----------------------------------
قربانی کسے کہتے ہیں اور وہ کب سے ہے؟
اللہ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ایام نحر(دس، گیارہ، بارہ ذی الحجہ) میں مخصوص اوصاف کے حلال جانور ذبح کرنے کو "اضحیہ" یعنی "قربانی" کہتے ہیں۔ قربانی محبت خداوندی،عشق الہی اور جذبہ انقیاد، اطاعت و بندگی کا مظہر ہے۔
تقرب الہی کے لئے دی جانے والی جانوروں کی یہ قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہی چلی آرہی ہے، سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے ہابیل اور قابیل نے قربانی دی:
اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔ (المائدہ 27)
ترجمہ:۔ ”اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ کی روایت کے بموجب ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔ (تفسیر ابن عباس سورہ المائدہ)
قرآن کریم کی اس تصریح سے واضح ہے کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدَم علیہ السلام کے زمانے سے ہی مشروع ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہرملت میں تسلیم شدہ رہی ہے؛ ہاں! اس کی خاص شان اور پہچان حضرت اِبراہیم و حضرت اِسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی، اور اسی کی یادگار کے طور پراُمتِ محمدیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔
اسلام میں قربانی کی حیثیت کیا ہے؟
قربانی کے شعار اسلام ہونے پہ امت کے تمام ہی ائمہ متبوعین کا اتفاق واجماع ہے؛ البتہ اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں ائمہ مجتہدین کی آراء مختلف ہیں۔
حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ایک قول کے مطابق صاحب استطاعت کے لئے قربانی کو واجب کہتے ہیں، جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر علماء اسے سنت موکدہ خیال کرتے ہیں۔
قربانی واجب کیوں ہے؟
1 ۔۔۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(سورۂ الکوثر ۲) نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے۔ آیت میں نماز پڑھنے اور قربانی کرنے کا حکم صیغہ امر سے دیا گیا ہے، نماز سے مراد بقرعید کی نماز اور "وَانْحَرْ" راجح قول کے مطابق قربانی کرنے پر محمول ہے۔ لہذا نماز اور قربانی دونوں کا وجوب آیت سے ثابت ہوا۔
2 ۔۔۔ عن ابی ھریرہ۔ من وجدَ سعةً فلم يضحّ، فلا يقربنَّ مصلانا (أخرجه ابن ماجه (2123)، وأحمد (8273) واللفظ له.) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔اسطرح کی سخت وعید ترک سنت پہ نہیں ؛ بلکہ ترک واجب پر ہی ہوتی ہے۔
3 ۔۔۔ أقام النبي صلى عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي. (أحمد ٤٩٣٥.الترمذي ١٥٠٧) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا، یہ اہتمام وپابندی بھی وجوب کو بتاتا ہے۔
فضائل قربانی:
1۔۔۔ عن عائشة أم المؤمنين. ما عَمِلَ آدَمِيٌّ من عملٍ يومَ النَّحْرِ أَحَبَّ إلى اللهِ من إهراقِ الدَّمِ إنه لَيَأْتِي يومَ القيامةِ بقُرونِها وأشعارِها وأظلافِها وإنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ من اللهِ بمكانٍ قبلَ أن يقعَ من الأرضِ فطِيبُوا بها نَفْسًا. أخرجه الترمذي (1493) واللفظ له، وابن ماجه (3126)
حضرت عائشہ رَضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اِبن آدم (اِنسان) نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدِیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادَہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دِن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہٰذا تم اس کی وَجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دِلوں کو خوش کرو)
2۔۔۔ :- عن زید بن ارقم رضی اللہ عنہ قال: قال أصحاب رسول اللّٰہ: یا رسول اللّٰہ! ما ہذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم إبراہیم علیہ السلام، قالوا: فما لنا فیہا یا رسول اللّٰہ؟ قال: بکل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف؟ یا رسول اللّٰہ! قال: بکل شعرة من الصوف حسنة“۔ (مشکوٰة:۱۲۹)
ترجمہ:۔ ”حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ راوِی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رَضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت) ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لیے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اُنہوں نے عرض کیا کہ (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی) اُون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا کہ: اُون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی“۔
3 ۔۔ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی یوم اضحیٰ: ما عمل آدمی فی ہذا الیوم افضل من دم یہراق إلا أن یکون رحماً توصل“۔( الترغیب والترہیب: ۲/۷۷۲)
ترجمہ:۔ ”حضرت اِبن عباس سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے عید الاضحی کے دِن اِرشاد فرمایا: آج کے دِن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادَہ افضل عمل نہیں کیا، ہاں! اگر کسی رِشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو“۔
4:- ”عن أبی سعید رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا فاطمة! قومی إلی أضحیتک فاشہدیہا، فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا أن یغفرلک ما سلف من ذنوبک․ قالت: یا رسول اللّٰہ! ألنا خاصة أہلَ البیت أو لنا وللمسلمین؟ قال: بل لنا وللمسلمین“۔
ترجمہ:۔”حضرت ابوسعید رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیٹی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجود رہو) کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، حضرت فاطمہ رَضی اللہ عنہا نے عرض کیا! اللہ کے رسول! یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یا عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے؟ آپ … نے فرمایا ہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی“۔
5 - ”عن علی رضی اللہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا فاطمة! قومی فاشہدی ضحیتک، فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا مغفرة لکل ذنب، ما انہ یجاء بلحمہا ودمہا توضع فی میزانک سبعین ضعفا۔ قال ابو سعید: یا رسول اللّٰہ! ہذا لآل محمد خاصة، فانہم اہل لما خصوا بہ من الخیر، و للمسلمین عامة؟ قال: لآل محمد خاصة، وللمسلمین عامة“۔(۶) الترغیب والترہیب:۲/۲۷۷۔۲۷۸)
ترجمہ:۔”حضرت علی رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت) موجود رہو؛ اِس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دِن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا (زیادہ) کرکے رَکھا جائے گا، حضرت ابوسعید نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ فضیلت خاندانِ نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حق دار ہیں یا تمام مسلمانوں کے لیے ہے؟ فرمایا: یہ فضیلت آلِ محمد کے لیے خصوصاً اور عموماً تمام مسلمانوں کے لیے بھی ہے“۔
6 - ”عن علی رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا أیہا الناس! ضحوا واحتسبوا بدمائہا، فان الدم وإن وقع فی الأرض، فإنہ یقع فی حرز اللّٰہ عز وجل۔“(حوالہ سابق)
ترجمہ:۔ ”حضرت علی رَضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجر وثواب کی اُمید رَکھو؛ اِس لیے کہ (اُن کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے؛ لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتا ہے“۔
7 - ”عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما انفقت الورق فی شییٴٍ حب إلی اللّٰہ من نحر ینحر فی یوم عید“۔ (حوالہ سابق)
ترجمہ:۔ ”حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: چاندی (یا کوئی بھی مال) کسی ایسی چیز میں خرچ نہیں کیا گیا جو اللہ کے نزدِیک اُس اُونٹ سے پسندیدہ ہو جو عید کے دِن ذبح کیا گیا“۔
8:- ”عن ابی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من وجد سعة لان یضحی فلم یضح، فلایحضر مصلانا“۔ (حوالہ سابق)
ترجمہ:۔ ”حضرت ابو ہریرہ رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رَکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہمارِی عیدگاہ میں نہ آئے“۔
9 - ”عن حسین بن علی رضی اللہ عنہما قال:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ضحی طیبة نفسہ محتسباً لاضحیتہ کانت لہ حجاباً من النار۔“ (حوالہ سابق)
ترجمہ:۔ ”حضرت حسین بن علی رَضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید رَکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رُکاوَٹ بن جائے گی“۔(مفتی رفیق احمد بالاکوٹی کے مضمون سے ماخوذ )
قربانی کن لوگوں پہ واجب ہے؟
جس کی ملکیت میں سونا، چاندی، مالِ تجارت، نقدی اور ضرورت سے زائد اشیاء میں سے کوئی ایک چیز یا ان میں سے بعض اشیاء کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ 612 گرام چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس پر صدقہ فطر اور قربانی واجب ہے۔ اگر اتنی مالیت ایک سال پاس میں رہے تو پھر اب زکات بھی فرض ہوجائے گی ۔
ِ قربانی کے وجوب کے لیے چھ شرائط ہیں:
(١) مسلمان ہونا، غیرمسلم پر واجب نہیں۔
(٢) مقیم ہونا، مسافر پر واجب نہیں۔
(٣) آزاد ہونا، غلام پر واجب نہیں۔
(٤) بالغ ہونا، نابالغ پر واجب نہیں۔ (اگر باپ یا ولی نابالغ بچوں کی طرف سے اپنے مال میں سے قربانی کردے تو جائز بلکہ افضل وبہتر ہے)
(٥) عاقل ہونا، مجنون پر واجب نہیں۔
(٦) مالدار ہونا، مسکین نادار پر واجب نہیں۔
(البدائع ٥/٦٣،٦٤، ط: رشیدیہ قدیم، الہندیہ ٥/٢٩٢، ط: رشیدیہ)
مسئلہ: اگر کسی کے پاس ضرورت سے زائد آباد یا غیر آباد اور بنجر زمین ہو تو اگر اس کی قیمت اور ضرورت سے زائد پیداوار کا مجموعہ یا کوئی ایک ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا زیادہ ہو تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے ورنہ نہیں۔ (الہندیہ، ٥/٢٩٢، ط: رشیدیہ)
مسئلہ: جو شخص مقروض ہو لیکن قرض کی رقم جدا کرنے کے بعد اس کے پاس بقدرِ نصاب مال بچتا ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔ (الہندیہ، ٥/٢٩٢، ط: رشیدیہ)
مسئلہ: اگر کچھ رقم قرض دے رکھی ہے یا فروخت شدہ مال کی قیمت باقی ہے تو یہ رقم اگر قابلِ وصول ہے تو قربانی واجب ہے البتہ اگر فی الحال قربانی کے لیے نہ نقد رقم ہے اور نہ ضرورت سے زائد اتنا سامان ہے جسے فروخت کر کے قربانی کر سکے تو قربانی واجب نہ ہوگی البتہ اگر بآسانی قرض مل سکے تو قربانی کی جاسکتی ہے۔ (الہندیہ ،٥/٢٩٢،ط:رشیدیہ، احسن الفتاوی، ٧/٥١٢، ط: سعید)
قربانی نہ کرنے والوں پہ وعید:
وسعت کے باوجود اگرکوئی قربانی نہیں کرتا،تو آپؐ نے اس پرسخت ناراضگی کا اظہارفرمایا۔ حدیث میں ہے:
مَنْ کَانَ لَہٗ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلاَیَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا (ابن ماجہ ص ۳۳۶)
جس شخص کے پاس وسعت وطاقت ہو اورپھرقربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ اسے کوئی حق نہیں کہ وہ ہماری عید گاہ میں آئے!
قربان کئے جانے والے جانوروں کی عمر:
اونٹ: عمر کم ازکم پانچ سال (مسلم ٢/١٥٥، ط: قدیمی)
(٢) گائے، بیل بھینس: عمر کم ازکم دو سال (مسلم ٢/١٥٥، ط: قدیمی)
(٣) بکرابکری، بھیڑ، دنبہ: عمرکم ازکم ایک سال
(مسلم ٢/١٥٥، ط: قدیمی، اعلاء السنن ١٧/٢٤١، ط: ادارة القرآن)
البتہ دنبہ اگر اتنا فربہ اور موٹا ہوکہ دیکھنے میں پورے سال کا معلوم ہو تو سال سے کم ہونے کے باوجود بھی اس کی قربانی جائز ہے، بشرطیکہ چھ ماہ سے کم نہ ہو۔(مسلم ٢/١٥٥، ط: قدیمی)
مسئلہ: عمر کے پورا ہونے کا اطمینان ضروری ہے دانتوں کا ہونا ضروری نہیں۔
(احسن الفتاوی،٧/٥٢٠، ط: سعید)
ترمذی شریف میں ہے:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيِّ وَهُوَ الْهَمْدَانِيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَةٍ وَلَا شَرْقَاءَ وَلَا خَرْقَاءَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ وَزَادَ قَالَ الْمُقَابَلَةُ مَا قُطِعَ طَرَفُ أُذُنِهَا وَالْمُدَابَرَةُ مَا قُطِعَ مِنْ جَانِبِ الْأُذُنِ وَالشَّرْقَاءُ الْمَشْقُوقَةُ وَالْخَرْقَاءُ الْمَثْقُوبَةُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَى وَشُرَيْحُ بْنُ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيُّ هُوَ كُوفِيٌّ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ وَشُرَيْحُ بْنُ هَانِيءٍ كُوفِيٌّ وَلِوَالِدِهِ صُحْبَةٌ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ وَشُرَيْحُ بْنُ الْحَارِثِ الْكِنْدِيُّ أَبُو أُمَيَّةَ الْقَاضِي قَدْ رَوَى عَنْ عَلِيٍّ وَكُلُّهُمْ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ قَوْلُهُ أَنْ نَسْتَشْرِفَ أَيْ أَنْ نَنْظُرَ صَحِيحًا (سنن الترمذي: 1498 ۔کتاب الاضاحی)
ترجمہ: "اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم (قربانی کے جانور کے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یا پچھلی طرف سے کٹا ہوا ہو اور نہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں." یہ رویات جامع ترمذی ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے لیکن ابن ماجہ کی روایت لفظ "والاذن'' ختم ہوگئی ہے۔" یہ حدیث اور اس باب کی دیگر احادیث کے پیش نظر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں درج ذیل جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے:
جن جانوروں کی قربانی درست نہیں:
(١) لنگڑا جانو، جس کا لنگڑا پن اتنا ظاہر ہو کہ ذبح کی جگہ تک نہ پہنچ سکے۔
(ترمذی ٢/٢٧٥،ط:سعید، ابوداود ١/٣٨٧،ط: میر محمد)
(٢) اندھا یا ایسا کاناجس کا کانا پن ظاہر ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٧، ط: رشیدیہ)
(٣) ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو۔(الہندیہ ٥/٢٩٧، ط: رشیدیہ)
(٤) ایسا دبلا، مریل، بوڑھا جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔
(الہندیہ، ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(٥) جس کی پیدائشی دم نہ ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٧، ط: رشیدیہ)
(٦) جس کا پیدائشی ایک کان نہ ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٧، ط: رشیدیہ)
(٧) جس کی چکتی یا دم یا کان کا ایک تہائی یا تہائی سے زیادہ حصہ کٹا ہوا ہو۔ البتہ چکتی والے دنبے کی دم کا اعتبار نہیں. لہٰذا پوری دم کٹی ہوئی تو بھی قربانی جائز ہے۔ (الشامیہ، ٦/٣٢٥، ط: سعید، الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ، احسن الفتاوی ٧/٥١٧، ط: سعید)
(٨) جس کے پیدائشی طور پر تھن نہ ہوں۔ (الشامیہ ٩/٥٣٨، ط: رشیدیہ)
(٩) دنبی، بھیڑ، بکری کا ایک تھن نہ ہو یا مرض کی وجہ سے خشک ہوگیا ہو یا کسی وجہ سے ضائع ہوگیا ہو۔ (الشامیہ ٩/٥٣٨، ط: رشیدیہ)
(١٠) گائے، بھینس، اونٹنی کے دو تھن نہ ہوں یا خشک ہوگئے ہوں یا کسی وجہ سے ضائع ہوگئے ہوں، البتہ اگر ایک تھن نہ ہو یا خشک یا ضائع ہوگیا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ (الشامیہ ٩/٥٣٨، ط: رشیدیہ)
(١١) آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ روشنی جاتی رہی ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٢) جس کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر گرگئے ہوں یا ایسے گھس گئے ہوںکہ چارہ بھی نہ کھا سکے۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط:رشیدیہ، احسن الفتاوی٧/٥١٣، ط: سعید)
(١٣) جس کا ایک یا دونوں سینگ جڑ سے اکھڑ جائیں۔ (الہندیہ ٥/٢٩٧، ط: رشیدیہ)
(١٤) جسے مرضِ جنون اس حد تک ہوکہ چارہ بھی نہ کھا سکے۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٥) خارشی جانور جو بہت دبلا اور کمزور ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٦) جس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٧) جس کے تھن کاٹ دیئے گئے ہوں یا ایسے خشک ہوگئے ہوں کہ ان میں دودھ نہ اترے۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٨) جس کے تھن کا تہائی یا اس سے زیادہ حصہ کاٹ دیا گیا ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(١٩) بھیڑ، بکری کے ایک تھن کی گھنڈی جاتی رہی ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(٢٠) جس اونٹنی یا گائے، بھینس کی دو گھنڈیاں جاتی رہی ہوں۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(٢١) جس گائے یا بھینس کی پوری زبان یا تہائی یا اس سے زیادہ کاٹ دی گئی ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(٢٢) جلالہ یعنی جس کی غذا نجاست و گندگی ہو اس کے علاوہ کچھ نہ کھائے۔
(الہندیہ ٥/٢٩٨، ط: رشیدیہ)
(٢٣) جس کا ایک پائوں کٹ گیا ہو۔ (الہندیہ ٥/٢٩٩، ط: رشیدیہ)
(٢٤) خنثیٰ جانور جس میں نر اور مادہ دونوں کی علامتیں جمع ہوں۔ (الہندیہ ٥/٢٩٩، ط: رشیدیہ)
مسئلہ: کسی جانور کے اعضاء زائد ہوں مثلاً چار کے بجائے پانچ ٹانگیں یا چار کے بجائے آٹھ تھن تو چونکہ یہ عیب ہے لہٰذا ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ (المحیط البرہانی ٨/١٧، ط: ادارة القرآن)
مسئلہ: جس جانور کا پیدائشی طور پر ایک خصیہ نہ ہو اس کی قربانی درست ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ ١٧/٣٥٣) قربانی کے فضائل ومسائل، از مفتی احمد ممتاز، پاکستان)
جن جانوروں کی قربانی جائز تو ہے لیکن بہتر نہیں:
(١) جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں۔
(٢) جس کے سینگ ٹوٹ گئے ہوں مگر ٹوٹنے کا اثر جڑ تک نہیں پہنچا۔
(٣) وہ جانور جو جفتی پر قادر نہ ہو۔
(٤) جو بڑھاپے کے سبب بچے جننے سے عاجز ہو۔
(٥) بچے والی ہو۔
(٦) جس کے تھنوں میں بغیر کسی عیب اور بیماری کے دودھ نہ اترتا ہو۔
(٧) جس کو کھانسنے کی بیماری لاحق ہو۔
(٨) جسے داغا گیا ہو۔
(٩) وہ بھیڑ، بکری جس کی دم پیدائشی طور پر بہت چھوٹی ہو۔
(١٠) ایسا کانا جس کا کانا پن پوری طرح واضح نہ ہو۔
(١١) ایسا لنگڑا جو چلنے پر قادر ہو یعنی چوتھا پائوں چلنے میں زمین پر رکھ کر چلنے میں اس سے مدد لیتا ہو۔
(١٢) جس کی بیماری زیادہ ظاہر نہ ہو۔
(١٣) جس کا کان یا چکتی یا دم یا آنکھ کی روشنی کا تہائی سے کم حصہ جاتا رہا ہو۔
(١٤) جس کے کچھ دانت نہ ہو ںمگر وہ چارہ کھا سکتا ہو۔
(١٥) مجنون جس کا جنون اس حد تک نہ پہنچا ہوکہ چارہ نہ کھا سکے۔
(١٦) ایسا خارشی جانور جو فربہ اور موٹا تازہ ہو۔
(١٧) جس کا کان چیر دیا گیا ہو یا تہائی سے کم کاٹ دیا گیا ہو۔
نوٹ: اگر دونوں کانوں کا کچھ حصہ کاٹ لیا گیا ہو تو دونوں کو جمع کر کے دیکھا جائے اگر مجموعہ تہائی کان تک پہنچ جائے یا اس سے بڑھ جائے تو قربانی جائز نہیں، ورنہ جائز ہے۔
(١٨) بھینگا جانور۔
(١٩) وہ بھیڑ ،دنبہ جس کی اون کاٹ دی گئی ہو۔
(٢٠) وہ بھیڑ ،بکری جس کی زبان کٹ گئی ہو بشرطیکہ چارہ بآسانی کھا سکے۔
(٢١) جلالہ اونٹ جسے چالیس دن باندھ کر چارہ کھلایا جائے۔
(٢٢) وہ دبلا اور کمزور جانور جو بہت کمزور اور لاغر نہ ہو۔
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ: قال القسھتانی واعلم ان الکل لا یخلو عن عیب والمستحب ان یکون سلیما عن العیوب الظاہرة فما جوزھھنا جوز مع الکراہة کما فی المضمرات۔ (الشامیہ ٦/٣٢٣، ط: سعید)
مسئلہ: گابھن گائے وغیرہ کی قربانی بلا کراہت جائز ہے۔
مسئلہ: خصی (بدھیا) بکرے کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے۔
(ابن ماجہ، مسند احمد، اعلاء السنن ١٧/٢٥١، ط: ادارة القرآن)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے کسی مرحوم کی طرف سے قربانی کرنا؟
جس صاحب استطاعت بندہ کے پاس گنجائش ہووہ اپنے مرحوم بزرگوں کی طرف سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرے، یہ عمل بہت ہی مبارک ہے، ان سب کو اس کا ثواب اِن شاء اللہ پہنچے گا ۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دو بھیڑ ذبح فرمائے ہیں. ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی ان تمام امتیوں کی طرف سے جہنوں نے توحید کا اقرار کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دین پہونچا دینے کی گواہی دی۔
25315 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوأَيْنِ قَالَ فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ (مسند أحمد : 25315) ابن ماجہ : 3122)
حضرت علی کا حضور کی طرف سے ہمیشہ قربانی کرنا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی اتنی پسند تھی کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنے کی باضابطہ وصیت فرمائی یعنی تاکیدی حکم فرمایا ۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بلا ناغہ دو بھیڑ ذبح فرماتے تھے ایک اپنی طرف سے اور ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ۔وہ فرماتے کہ پہر میں کبھی ناغہ نہ کیا:
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ حَنَشٍ قَالَ رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ مَا هَذَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ (سنن ابي داؤد۔ 2790، بَاب الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّت)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ فَقِيلَ لَهُ فَقَالَ أَمَرَنِي بِهِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُضَحَّى عَنْ الْمَيِّتِ وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُضَحَّى عَنْهُ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَنْهُ وَلَا يُضَحَّى عَنْهُ وَإِنْ ضَحَّى فَلَا يَأْكُلُ [ص: 72] مِنْهَا شَيْئًا وَيَتَصَدَّقُ بِهَا كُلِّهَا قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ شَرِيكٍ قُلْتُ لَهُ أَبُو الْحَسْنَاءِ مَا اسْمُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ قَالَ مُسْلِمٌ اسْمُهُ الْحَسَنُ۔(سنن الترمذي 1495۔ بَاب مَا جَاءَ فِي الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّتِ)
حنش سے روایت ہے کہ مَیں نے حضرت على کو دیکھا کہ دو دُنبے قربانى کئے اور فرمایا ان میں ایک میری طرف سے ہے اور دوسرا رسول ﷲ کى طرف سے ہے۔ مَیں نے ان سے (اس کے متعلق) گفتگو کى انہوں نے فرمایا کہ حضور نے مجھ کو اس کا حکم دیا ہے کہ میں اس کو کبھى نہ چھوڑوں گا (ابوداود و ترمذى)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضور نے مجھے ان کی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیا ہے، جسے میں بلاناغہ ہمیشہ ان کی طرف سے ادا کرتا ہوں:
أمرَني رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أَن أُضحِّيَ عنهُ ، فأَنا أضحِّي عنهُ أبدًا (مسند أحمد - الرقم: 2/152 إسناده صحيح)
أمرَني رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أن أضحِّيَ عنهُ بِكَبشينِ، فأَنا أُحبُّ أن أفعلَهُ وقالَ مُحمَّدُ بنُ عُبَيْدٍ المحاربيُّ في حديثِهِ: ضحَّى عنهُ بِكَبشينِ واحدٌ، عنِ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، والآخرُ عنهُ. فقيلَ لَهُ: فقالَ: إنَّهُ أمرَني فلا أدعُهُ أبدًا.مسند أحمد. الرقم: 2/31 إسناده صحيح)
یہ تمام احادیث اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے کسی مرحوم شخص کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور ان کے نام سے قربانی کرنے سے انہیں ثواب پہونچے گا ۔امام ابودائود وغیرہ نے باضابطہ میت کی طرف سے قربانی کئے جانے کا باب قائم فرمایا یے اور اس کے تحت انہیں احادیث سے استدلال فرمایا یے ۔۔۔ ائمہ متبوعین میں حنفیہ مالکیہ اور حنابلہ کا یہی مذہب ہے ۔شافعیہ کے یہاں کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ صاحب استطاعت احباب ہرسال اپنی طرف سے بھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی، اہل بیت رسول کی طرف سے بھی مستقل جانور یا کم ازکم ساتویں حصہ میں شریک ہوکے ضرور قربانی کریں. بہت بڑے اجر وثواب کا باعث ہے۔
یہاں مسئلہ ضرور ملحوظ رہے کہ اگر میت نے اپنی طرف سے قربانی کی وصیت کررکھی ہو اور اس کے لئے ثلث مال چھوڑ گیا ہو تو میت کے ثلث مال سے کی جانے والی قربانی کا مکمل گوشت واجب التصدق یے۔ اگر وصیت تو کی ہو لیکن مال نہ چھوڑا ہویا رشتہ دار اپنے نام سے قربانی کرکے صرف ثواب میت کو پہونچانا چاہے تو آخر کی ان دونوں صورتوں میں گوشت خود بھی کھا سکتا ہے ۔عام گوشتوں کی طرح اس کا حکم ہوگا۔ اس ذیل میں یاد رکھے جانے کے قابل یہ بات بھی ہے کہ
اپنے نام سے قربانی کرکے متعدد اموات کو ثواب میں شریک کیا جاسکتا ہے. لیکن میت کی طرف سے ان کے نام سے قربانی کرنا چاہیں تو ایک میت کی طرف سےایک مکمل چھوٹا جانور ضروری ہے۔ چھوٹے جانور میں قربانی کی نیت سے ایک سے زائد ناموں کی گنجائش نہیں ہے۔ خواہ ایک فیملی کے متعدد لوگ ہوں یا الگ الگ فیملی کے۔ ادائی سنت کے لئے ایک سے زیادہ کی شرکت جائز نہیں ۔ہاں ثواب میں شرکت کے لئے تعدد کی گنجائش ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی طرف سے کی جانے والی قربانی اسی قبیل سے تھی ۔۔۔۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ [ص: 1044] بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن إبن ماجة : 3122)
قربانی کے ایک بکرے میں چند لوگوں کی شرکت؟
فقہاء احناف وشوافع کے یہاں بڑے جانوروں کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی، اور بھیڑبکری میں صرف ایک آدمی شریک ہوسکتا ہے۔ ادائیِ فریضہٴ قربانی کی حیثیت سے ایک بکرے میں کسی بھی قسم کے متعدد افراد کی شرکت ناجائز ہے، ہاں ایک بکرے کی قربانی میں حصول ثواب کے لیے بیشمار لوگوں کو شریک کرنا حنفیہ کے یہاں بھی جائز ہے۔ اس کے برخلاف حضرت امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق اور اصحابِ ظواہر وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ ایک بکرا یا ایک بھیڑ ایک گھر کے سینکڑوں افراد کی طرف سے اسقاطِ فریضہ کے لئے کافی ہے۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم:
اَفضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں، ایک حصہ فقیروں میں تقسیم کر دیا جائے، دوسرا حصہ دوست احباب اور رشتہ داروں کو پیش کردیں، تیسرا حصہ خود اپنے استعمال میں لائیں؛ اِس لئے کہ اپنی قربانی میں سے خود کھانا بھی مستحب ہے؛ تاہم اگر سارا گوشت دوسروں کو بانٹ دیں یا سب خود ہی استعمال کریں تو اِس کی بھی گنجائش ہے۔
والأفضل أن یتصدق بالثلث، ویتخذ الثلث ضیافۃ لأقربائہ، ویدخرالثلث، ویستحب لا یأکل منہا، ولو حبس الکل لنفسہ جاز۔ (شامي / کتاب الصید والذبائح ۹؍۴۷۴ زکریا، کتاب النوازل ج 17 ص 419)
قربانی کا گوشت غیرمسلم کو دینا؟
قربانی کا گوشت اپنے غیر مسلم پڑوسی کو دینا بھی جائز ہے:
ویہب منہا ما شاء للغني والفقیر والمسلم والذمي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ؍۳۰۵)
لأن القربۃ في الإراقۃ والتصدق باللحم تطوع۔ (شامي / کتاب الصید والذبائح ۹؍۴۷۴ زکریا)
چرم قربانی کے مصارف:
قربانی کی کھال کا حکم قربانی کے گوشت کی طرح ہے، جس طرح قربانی کا گوشت خود کھانا اور امیر و غریب سب کو دینا جائز ہے، اسی طرح قربانی کی کھال بھی امیر، غریب، اولاد، والدین، امام، مؤذن، معلم، سید وغیرہ سب کو دینا جائز ہے۔اور خود اپنے استعمال : جائے نماز ،مشکیزہ جوتا وغیرہ کے استعمال میں بھی لاسکتا ہے ، اسی طرح قربانی کی کھال کو کسی ایسی چیز کے عوض فروخت کرنا بھی جائز ہے جس کو باقی رکھتے ہوئے اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہو، جیسے چرم قربانی کے عوض کتابیں، جوتے اور فرنیچر وغیرہ خرید کر اپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔ ہاں قربانی کرنے والا چرم قربانی فروخت نہیں کرسکتا، جب فروخت کرے گا تو اب مستقحقین زکات پہ رقم صدقہ کرنا واجب ہوگا ، رفاہی کاموں میں صرف کرنا اب بھی جائز نہیں۔ یعنی رقم صدقہ کرنے کی نیت سے تو فروخت کرنا جائز ہے، ویسے نہیں! جس مالدار یا غریب کو چرم قربانی ہدیہ یا صدقہ کے طور پہ دیا ہے وہ اسے فروخت کرکے رقم اپنے کام میں لاسکتا ہے: ويهب منها ماشاء للغني والفقير والمسلم. الهندية ٥/٣٠٠. كتاب الأضحية، الباب الخامس) فتاوی محمودیہ جلد 26 صفحہ 371، مفتی فاروق رح)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے (muftishakeelahmad@gmail.com) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/07/blog-post_10.html