Thursday, 29 June 2017

جدید مسائل میں فتوی کیسے دیا جائے؟

نئے زمانہ کے پیش آمدہ مسائل جن کا حکم متون اور شروحات وغیرہ میں صراحۃً نہیں ملتا، ان کے متعلق فتوی دینے کے لئے مفتی مقلد کو درج ذیل طریقے اپنانے چاہئے:
۱:…کتب فقہیہ کا گہرائی سے مطالعہ کرے اور اگر کوئی جزئیہ مل جائے تو اس پر فتوی دے۔
۲:…اگر صریح جزئیہ نہ مل سکے اور مفتی بالغ نظر بھی نہ ہو تو اسے مسائل جدیدہ میں خامہ فرسائی نہ کرنی چاہئے، بلکہ معاملہ بڑے مفتی صاحب کے حوالہ کردینا چاہئے۔
۳:…اگر مفتی بالغ نظر ہو اور اصول وقواعد سے بخوبی واقف ہو تو قواعد و نظائر کو سامنے رکھ کر مسئلہ کا حکم بیان کرے۔
۴:…اگر مسئلہ کے متعلق کوئی نظیر یا فقہی قاعدہ دستیاب نہ ہو تو بالغ نظرمفتی براہ راست نصوص شرعیہ سے حکم کا استنباط کرسکتا ہے۔
۵:… تا ہم اس طرح کے مسائل میں ہم عصر علماء سے مشورہ کر لینا بہتر ہے، جلد بازی میں فتوی ہرگز نہ دیا جائے۔
(فتوی نویسی کے رہنما اصول ص ۲۳۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا ایک عجیب واقعہ نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جس میں مفتی حضرات کے لئے چند مفید ہدایات ہیں۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا عجیب واقعہ
امام ابو یوسف ؒ امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کی اجازت کے بغیر مسند تدریس پر بیٹھے اور استاذ محترم کو اس کی اطلاع تک نہ دی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک شخص کو پانچ سوالات لے کر بھیجا، جن کے جواب میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے خطا واقع ہوئی۔
پہلا:… سوال یہ تھا کہ:
ایک دھوبی نے اولا کپڑے لینے سے انکار کردیا، پھر کپڑا دھوکر لایا تو کیا وہ اجرت کا مستحق ہوگا؟
امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے فرمایا:
ہاں، اجرت کا مستحق ہے۔
سائل نے کہا آپ نے غلط کہا۔
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا:
اجرت کا مستحق نہیں۔
سائل نے کہا کہ اب بھی آپ نے غلط کہا۔
پس امام ابو یوسف ؒ متحیر رہ گئے،
پھر سائل نے کہا کہ اس مسئلہ میں تفصیل ہے، اگر کپڑے کا دھلنا انکار سے پہلے پایا گیا تھا تو اجرت کا مستحق ہوگا ورنہ نہیں۔ یعنی بالاجمال حکم لگانا باطل ہے۔
دوسرا:… سوال یہ تھا کہ:
نماز میں داخل ہونا فرض کے ساتھ ہوتا ہے یا سنت کے ساتھ؟
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا:
فرض کے ساتھ۔
سائل نے اس کو غلط قرار دیا۔
امام ابو یوسف ؒنے فرمایا سنت کے ساتھ ۔سائل نے اس کو بھی غلط قرار دیا،
پھر سائل نے کہا کہ دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔(تکبیر فرض ہے اور رفع یدین سنت ہے تو فرض و سنت دونوں کے ساتھ ہوا)
تیسرا:… سوال یہ تھا کہ:
ایک ہانڈی چولھے پر رکھی ہوئی ہے جس میں گوشت اور شوربا ہے۔ اڑتا ہوا پرندہ اس میں گرگیا۔ آیا وہ دونوں (گوشت وشوربا) کھائے جائیں گے یا نہیں؟
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا:
دونوں کھائے جائیں گے۔
سائل نے اس کو غلط قرار دیا۔
اس پر امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا:
پھر دونوں نہیں کھائے جائیں گے۔
سائل نے اس کو بھی غلط قرار دیا، پھر اس نے بتلایا کہ اگر گوشت پرندے کے گرنے سے پہلے پک چکا تھا، اس کو تین مرتبہ دھوکر کھالیا جائے گا اور شوربے کو پھینک دیا جائے گا، ورنہ کل کو پھینک دیا جائے گا۔
چوتھا:… سوال یہ تھا کہ:
ایک مسلمان کی ذمیہ بیوی تھی جو بحالت حمل مرگئی اس کو کس کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا؟
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا:
مسلمانوں کے قبرستان میں۔
سائل نے کہا کہ آپ نے غلط فرمایا۔
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا کہ کافروں کے مقابر میں۔
سائل نے اس کو بھی غلط قراردیا،
پھر سائل نے بتلایا کہ یہود کے مقابر میں دفن کیا جائے گا، مگر اس کا چہرہ قبلہ سے پھیر دیا جائے گا تاکہ بچہ کا چہرہ قبلہ کی طرف ہوجائے، چونکہ پیٹ میں بچہ کا چہرہ ماں کی پیٹھ کی طرف ہوتا ہے۔
پانچواں:… سوال یہ تھا کہ:
کسی شخص کی ام ولد اگر بغیر آقا کی اجازت کے نکاح کرلے اور آقا مر جائے تو آیا اس پر عدت واجب ہے یا نہیں؟
امام ابویوسف ؒ نے فرمایا:
ہاں عدت واجب ہے۔
سائل نے کہا آپ نے غلط کہا۔
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا کہ واجب نہیں۔سائل نے کہا یہ بھی غلط ہے.
جس پر امام ابو یوسف ؒ حیران رہ گئے،
اس کے بعد سائل نے بتلایا کہ اگر شوہر نے اس کے ساتھ دخول کر لیا ہو تب تو عدت واجب نہیں ورنہ عدت واجب ہے۔
اس پر امام ابو یوسف ؒ کو اپنی تقصیر پر آگاہی ہوئی اور شرمندہ ہوئے۔
اسی طرح ’’ الاشباہ والنظائر ‘‘ کے فن ہفتم میں’’ اجازات الفیض‘‘ سے مروی ہے۔

اس واقعہ سے ہدایات

اس حکایت میں ارباب افتاء و علماء کے لئے چند اشارات عجیبہ اور ہدایات مفیدہ ہیں:
۱:… اول یہ کہ: مفتی کو چاہئے کہ سوال کے جواب میں اچھی طرح غورو فکر کرے اور جواب دینے میں عجلت سے کام نہ لے۔ دیکھو امام ابو یوسف ؒ نے اس سائل کے جواب دینے میں جلدی کی تو نتیجہ یہ ہوا کہ ندامت اور حسرت اٹھانی پڑی۔
۲:… دوسرا اشارہ یہ ہے کہ:
مفتی کو ہر مسئلہ میں مطلق جواب نہیں دینا چاہئے، ہاں جہاں موقع ہو بیشک اس موقع پر مطلق جواب دے اور جہاں تفصیل کا موقع ہو وہاں تفصیل سے جواب دے، امام ابو یوسف ؒ نے ہر سوال کا جواب مطلق دیا اور کسی جواب میں تفصیل یا شرائط نہیں بتائیں تو ا س کا نتیجہ یہ ہو اکہ امام ابو ایوسف ؒ کو پریشانی اٹھانی پڑی۔
۳:… تیسرا اشارہ یہ ہے کہ:
مفتی اور عالم کے لئے سزا وار نہیں ہے کہ وہ سائل پر سختی اور غصہ کرے، اگر چہ سوال میں سائل سختی اختیار کرے جیسا کہ سائل نے امام ابو یوسف ؒ کو ہر سوال کے جواب میں خطا کار بتلایا۔ اسی طرح ایسی بات سے مفتی کورنج و ملال نہ ہو۔
۴:…چوتھا اشارہ یہ ہے کہ:
ایک عالم و مفتی کے لئے مناسب ہے کہ قائل کے قول کو تسلیم کرے بشرطیکہ وہ حق ہو اور مردوں کی پہچان حق کی وجہ سے کرنی چاہئے نہ کہ حق کی پہچان مردوں سے ہے، چنانچہ امام ابو یوسف ؒ نے ان پانچوں مسائل کا حکم وہ تسلیم کرلیا جس کو سائل نے بیان کیا۔ حق کو اپنے میں منحصر نہیں سمجھا۔
۵:…پانچواں اشارہ یہ ہے کہ:
استاذ اور عالم کے لئے اپنے سے ادنی کا امتحان لینا جائز ہے جیسا کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے امام ابو یوسف ؒ کا امتحان لیا۔
نیز روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا امتحان لیا۔
۶:… چھٹا اشارہ یہ ہے کہ:
اپنے سے بڑوں کی موجودگی میں اپنی شہرت کی طرف رغبت نہیں ہونی چاہئے۔جیسا کہ واقعہ سے پتہ چلتا ہے۔
۷:… ساتواں اشارہ یہ ہے کہ:
اپنے نفس کے کمال پر خوش نہیں ہونا چاہئے خواہ کمال از قبیل عبادت ہو یا از قبیل علم۔ (نفع المفتی والسائل اردو ص ۱۱۹و ۱۲۰)

ہندوستان میں کار افتاء

ہندوستان میں جب تک اسلامی حکومت رہی،اس وقت عموما اسلامی قانون رائج رہا، لیکن جب مسلم دور حکومت ختم ہوا ،اسلامی نظام بھی جاتارہا ۔سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد علماء کرام کی ایک بڑی جماعت نے نصرت ربانی و توفیق ایزدی سے اسلامی نظام کی یاد گار کوکسی نہ کسی صورت میں باقی رکھا (حق تعالی ان کی قبروں کو نور سے بھر دے اور ہزاروں رحمتیں ہوں ان کی روح پر کہ ان کے احسانات سے مسلمانان عالم کی گردن جھکی ہوئی ہے) اس دور میں جن علماء کرام نے افتاء کے فرائض ذاتی طور پر انجام دیئے ان میں سب سے زیادہ مشہور حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ( م ۱۲۳۹ھ) کا نام نامی و اسم گرامی ہے۔
ان نامی گرامی علماء میں حضرت مولانا عبد الحئی فرنگی محلی ؒ ،امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒبھی ہیں۔ ان حضرات اکابر ؒ کے فتاوی ’’فتاوی عزیزی‘‘ و’’مجموعۃ الفتاوی‘‘و ’’فتاوی رشیدیہ‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہیں۔
پھر قیام دار العلوم دیوبند کے بعد عوام و خواص کا رجوع مسائل شرعیہ کے حل کے لئے اسی کی طرف ہونے لگا تو مستقل دارالافتاء کی تحریک عمل میں آئی اور جو مرکزیت دیوبند کو حاصل ہوئی ا س کی مثال ملنی نا ممکن نہیں تو مشکل ہے۔
بعد ازاں دارالافتاء کا یہ سلسلہ ہندوستان کے صوبہ صوبہ میں پھیلتا گیا اور اس کا فیض عام ہوگیا، پھر وہ وقت بھی آیا دیوبند کے فیض یافتگاں ہندوستان سے باہر دوسرے ممالک میں بغرض دعوت و تبلیغ و دینی خدمت تشریف لے گئے تو وہاں بھی دار الافتاء کا یہ مبارک سلسلہ شروع ہوا۔

لطائف افتاء

علامہ عبد النبی احمد نگری رحمہ اللہ نے فتوی کے سلسلہ میں سات اہم نکات بیان کئے ہیں، جو ایک مفتی کو اپنے پیش نظر رکھنے چاہئے:
(۱)…افتاء :جو در اصل’’ فُتِیَ‘‘ سے ماخوذ ہے ‘باعتبار ثلاثی مجرد کے افعال غیر متصرف میں سے ہے ، اس میں اشارہ ہے کہ ایک مفتی بنیادی اصول اور نصوص میں کسی قسم کا تصرف نہیں کرسکتا، البتہ فروعات میں تصرف کر سکتا ہے۔
(۲)…افتاء: ایک متعدی فعل ہے، اس لئے مفتی کا علم بھی متعدی ہونا چاہئے۔
(۳)…افتاء: باب افعال سے ہے‘ جو ثلاثی مزید فیہ کے ابواب میں پہلا باب ہے، اس لئے اس میں عبرت یہ ہے کہ جو شخص درجہ افتاء کو پہنچ گیا‘ اس کے سامنے
کامیابی اور مزید ابواب بھی کھلیں گے۔
(۴)… مفتی کے لئے مناسب ہے کہ وہ صاحب فتوت ہو، کیونکہ فتوی اور فتوۃ کے درمیان اخوت ہے، اس لئے مفتی نہ تو فتوی پوچھنے والے سے کسی قسم کا طمع یا لالچ رکھے، اور نہ فتوی کی کثرت سے کسی قسم کے ملال یا بیزاری کا اظہار کرے۔
(۵)…افتاء: کے اول و آخر میں’’الف‘‘ ہے، جس میں یہ اشارہ ہے کہ مفتی کو ابتدا سے انتہاء تک امور دین کے بارے میں استقامت و صداقت کا پیکر ہونا چاہئے۔
(۶)…افتاء: کی باعتبار ابجد عددی گنتی ۴۸۲؍ ہے، جس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ مفتی کے پاس اصول و فروع کی کتابوں کی تعداد اس سے کم نہ ہو، چنانچہ کتب ظاہر الروایہ کے تفحص و مطالعہ کے بعد محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کتب افتاء کی تعداد اس  عددی گنتی کے برابر ہے۔
(۷)…افتاء: میں پانچ حروف اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مفتی ظاہر الروایہ کی پانچ کتب پر نظر رکھنے کے علاوہ اسلام کے ارکان خمسہ کا بھی پورا پورا خیال رکھے۔
از: افادات حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ
(دائرۃ المعارف اردو ص ۱۴۰ ج۱۵۔ فتاوی حقانیہ ص ۵۷ ج۱)

کیا خرگوش کھانا حرام ہے؟

کیا خرگوش کا گوشت کھانا حرام ہے؟  مجھے  یہ پیغام فیس بک پر ملا ہے کہ "خرگوش صدیوں سے کھایا جا رہا ہے اور کھایا جاتا رہے گا کیونکہ میرے کہنے سے کوئی تھوڑا ہی رکے گا.
بڑی معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا کہ میں اس گوشت کو نہیں کھاتا اور مشورہ بھی یہ ہی دونگا کہ اسے نہ کھائیں.
اگر کوئی اس سلسلے میں حدیث لاتا ہے تو وہ بوگس ہوگی،
اللہ کا نظام قطعی درست ہے، اسے چیلنج کرنے والا غلط ہوگا
میں اس کو کیوں نہیں کھاتا حلال حرام کی کسوٹی جانور کے اندر خود قدرت نے رکھ دی اس کو کو ئی چیلنج نہیں کرسکتا
اس کسوٹی سے ایک عام آدمی بھی حلال و حرام جانور کو پہچان سکتا ہے؛
۱  حلال جانور کا پیر کھر ہوگا حرام کا پنجہ
۲ حلال جانور کے اوپر والے دانت نہیں ہوں گے حرام جانور کے اوپر کے دانت ہوںگے
۳ دودھ کی گول جگہ ہوگی حلال جانور کی  اور حرام جانور کی دودھ کی جگہ لمبائی میں ہوگی
۴ حلال جانور جب بھی زمین ہر بیٹھے گا تو پیلے اگلے گھٹنے زمیں پر ٹکائے گا  حرام جانور پہلے پچھلی ٹانگیں کلوز کرےگا اور اگلی ٹانگ سدھی رکھے گا
۵ حلال جانور کھانا کھانے کے بعد اسے دبارہ بارک کرے گا یعنی منہ میں لائے گا جس کو پنجابی میں جگالی کرنا کہتے ہیں  اور حرام جانور جگالی نہیں کرتے
ایک اور نوٹ جگالی صرف وہ جانور کرتے ہیں جن کے اندر  دو اوجھری ہوتی ہیں
ان سے معافی چاہوں گا جو خرگوش شوق سے کھاتے ہیں،
بس یہ دیکھ لیں کہ خرگوش میں ساری نشانیاں کتے بلی گیدڑ وغیرہ حرام جانورں کی ہیں، گائے بکری ہرن بھینس اونٹ وغیرہ حلال جانور کی ایک بھی نشانی نہیں ہے  خرگوش کے پیٹ میں حرام جانوروں کی طرح اوجھری بھی ایک ہے."
براہ کرم رہبری فرمائیں.

جواب: خرگوش ایسا جانور ہے کہ جو گھاس ودانہ کھاتا ہے مردار یا نجاست اُس کی غذا نہیں ہے، نہ ہی وہ اپنے پنجوں یا چونچ سے شکار کرتا ہے، پس شرعی طریق پر ذبح کرکے اس کو کھانا بلاکراہت جائز اور حلال ہے، حضرت نبیٴ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے خرگوش کا گوشت تناول فرمانا ثابت ہے، چنانچہ ہدایہ اخیرین میں ہے ولا بأس بأکل الأرنب لأن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أکل منہ حین أہدي إلیہ مشویًا وأمر أصحابہ بالأکل منہ ولأنہ لیس من السباع ولا من أکلة الجیف فأشبہ الظبي (ص: ۴۲۳، کتاب الذبائح) در مختار میں وحل غراب الزرع الذي یأکل الحب والأرنب إھ ج۵ص۳۶۸ (کتاب الذبائح)
واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم دیوبند
.......
خرگوش کا حکم
سوال: خرگوش دوقسم کے ہیں دونوں قسم کے گوشت کھانادرست ہیں یا نہیں بعض کے کان بلی کی طرح کے ہیں اور بعض کے بکری کی طرح۔ فقط
جواب: خرگوش دونوں قسم کے مباح ہیں۔
فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
فتاوی رشیدیہ
..........
حلال و حرام چیزوں کا بیان
مسئلہ: جو جانور اور جو پرندے شکار کر کے کھاتے رہتے ہیں یا ان کى غذا فقط گندگى ہے ان کا کھانا جائز نہیں جیسے شیر بھیڑ یا گیدڑ بلى کتا بندر شکرا باز گدھ وغیرہ. اور جو ایسے نہ ہوں جیسے طوطا مینا فاختہ چڑیا بٹیر مرغابى کبوتر نیل گائے ہرن بطخ خرگوش وغیرہ سب جائز ہیں.
بہشتی زیور
.........
جن جانور ں کا شکار ہندوستان کے قانون کے حساب سے جرم ہے جیسے مور، ہرن ، خرگوش وغیرہ تو کیا شریعت میں ان کا شکار کرکے کھانا جائز ہے یا کیسا ہے؟
Jul 28,2015
Answer: 59712
Fatwa ID: 918-914/B=10/1436-U
قانونی جرم کرکے اپنی جان کو اور عزت وآبرو کو خطرہ میں نہ ڈالنا چاہئے اور اپنے پیسوں کو ضائع نہ کرنا چاہئے، قرآن میں آیا ہے،
”وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَةِ“
اگر کسی نے اتفاق سے قانونی جرم کرلیا یعنی ہرن کا شکار کرلیا اور شرعی طریقہ پر اسے ذبح کرلیا تو اس کا گوشت کھانا شرعاً حلال ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
........
الجواب :
الحمد لله
الأرنب من الحيوانات التي يجوز أكلها ؛ لما روى البخاري (5535) ومسلم (1953) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه أنه صاد أرنباً ، وأتي بها أبا طلحة (فَذَبَحَهَا فَبَعَثَ بِوَرِكِهَا وَفَخِذَيْهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَتَيْتُ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبِلَهُ) .
قال النووي رحمه الله : " وَأَكْل الْأَرْنَب حَلَال عِنْد مَالِك وَأَبِي حَنِيفَة وَالشَّافِعِيّ وَأَحْمَد وَالْعُلَمَاء كَافَّة , إِلَّا مَا حُكِيَ عَنْ عَبْد اللَّه بْن عَمْرو بْن الْعَاصِ وَابْن أَبِي لَيْلَى أَنَّهُمَا كَرِهَاهَا . دَلِيل الْجُمْهُور هَذَا الْحَدِيث مَعَ أَحَادِيث مِثْله , وَلَمْ يَثْبُت فِي النَّهْي عَنْهَا شَيْء " انتهى من "شرح مسلم للنووي" .
وجاء في الموسوعة الفقهية (5/134) : " الأرنب حلال أكلها عند الجمهور ، وقد صح عن أنس أنه قال : ... وذكروا الحديث المتقدم ... ، وعن محمد بن صفوان (أو صفوان بن محمد) أنه قال : (صدت أرنبين فذبحتهما بمروة , فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأمرني بأكلهما) ، ثم إنها من الحيوان المستطاب , وليست ذات ناب تفترس به , ولم يرد نص بتحريمها , .. وقد أكلها سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه ورخص فيها أبو سعيد الخدري وعطاء وابن المسيب والليث وأبو ثور وابن المنذر " انتهى .
.......
شرعی مسائل میں عقل کے گھوڑے باندھے جائیں۔۔۔
اور حدیث کو نعوذ باللہ بوگس کہنے والے سائل سے کہئے کہ تجدید ایمان ونکاح وتوبہ کریں۔

Wednesday, 28 June 2017

بارش میں چھتری کے استعمال کا جواز

سوال: کیا بارش میں چھتری استعمال کرسکتے ہیں؟؟؟ 
سوال کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے قران میں فرمایا ہے
وهو الذي يرسل الرياح بشرا بين يدي رحمته.
رحمت فرمایا ہے، تو چھتری کےذریعہ گویا ہم اپنے آپ کو اللہ کی رحمت سے روک رہے ہیں.
جواب: بارش بالواسطہ رحمت ہوتی ہے اور کبھی بلا واسطہ
بھیگنے سے بیمار بھی ہو جاتے ہیں اور تدبیر اختیار کرنے کا حکم خود حدیث شریف سے ثابت ہے.
لہذا استعمال کرسکتے ہیں.
مزید تفصیل کے لئے فتح الباری میں
لا عدوي ولا طيرة
والی حدیث پر حافظ الدنیا (1) میں مفصل بحث کی ہے دیکھ لی جائے.
ہمارے افتاء کے زمانہ میں لطیفہ مشہور تھا۔۔
۔۔۔۔۔ پوچھا گیا بارش سے کیوں بھاگ رہے ہو؟
وہ تو اللہ کی رحمت ہے۔۔۔
اس نے جواب دیا
اللہ کی رحمت پیر میں آرہی ہے اس لئے بھاگ رہا ہوں۔۔۔۔
خیر ۔۔۔ جن کو بھیگنا ہے بھیگ جائے۔۔۔
نہ بھیگنا ہو نہ بھاگے۔۔
واللہ اعلم
(1)
مسألة:
باب لا هامة

5437 حدثني عبد الله بن محمد حدثنا هشام بن يوسف أخبرنا معمر عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال النبي صلى الله عليه وسلم لا عدوى ولا صفر ولا هامة فقال أعرابي يا رسول الله فما بال الإبل تكون في الرمل كأنها الظباء فيخالطها البعير الأجرب فيجربها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فمن أعدى الأول وعن أبي سلمة سمع أبا هريرة بعد يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم لا يوردن ممرض على مصح وأنكر أبو هريرة حديث الأول قلنا ألم تحدث أنه لا عدوى فرطن بالحبشية قال أبو سلمة فما رأيته نسي حديثا غيره
الحاشية رقم: 1
ص: 252 ] قوله : ( باب لا هامة ) قال أبو زيد : هي بالتشديد ، وخالفه الجميع فخففوها ، وهو المحفوظ في الرواية ، وكأن من شددها ذهب إلى واحدة الهوام وهي ذوات السموم ، وقيل : دواب الأرض التي تهم بأذى الناس ، وهذا لا يصح فيه إلا إن أريد أنها لا تضر لذواتها وإنما تضر إذا أراد الله إيقاع الضرر بمن أصابته . وقد ذكر الزبير بن بكار في " الموفقيات " أن العرب كانت في الجاهلية تقول : إذا قتل الرجل ولم يؤخذ بثأره خرجت من رأسه هامة - وهي دودة - فتدور حول قبره فتقول : اسقوني اسقوني ، فإن أدرك بثأره ذهبت وإلا بقيت ، وفي ذلك يقول شاعرهم :
يا عمرو إلا تدع شتمي ومنقصتي أضربك حتى تقول الهامة اسقوني


وقال : وكانت اليهود تزعم أنها تدور حول قبره سبعة أيام ثم تذهب . وذكر ابن فارس وغيره من اللغويين نحو الأول : إلا أنهم لم يعينوا كونها دودة ، بل قال القزاز : الهامة طائر من طير الليل ، كأنه يعني البومة . وقال ابن الأعرابي : كانوا يتشاءمون بها ، إذا وقعت على بيت أحدهم يقول : نعت إلي نفسي أو أحدا من أهل داري . وقال أبو عبيد : كانوا يزعمون أن عظام الميت تصير هامة فتطير ، ويسمون ذلك الطائر الصدى . فعلى هذا فالمعنى في الحديث لا حياة لهامة الميت ، وعلى الأول لا شؤم بالبومة ونحوها ، ولعل المؤلف ترجم لا هامة مرتين بالنظر لهذين التفسيرين والله أعلم .

قوله : ( عن أبي سلمة ) في رواية شعيب عن الزهري " حدثني أبو سلمة " وهي في الباب الذي بعده .

قوله : ( لا عدوى ) تقدم شرحه مستوفى في " باب الجذام " وكيفية الجمع بين قوله : لا عدوى وبين قوله لا يورد ممرض على مصح وكذا تقدم شرح قوله : ولا صفر ولا هامة .

قوله : ( فقال أعرابي ) لم أقف على اسمه .

قوله ( تكون في الرمل كأنها الظباء ) في رواية شعيب عن الزهري في الباب الذي يليه " أمثال الظباء " بكسر المعجمة بعدها موحدة وبالمد جمع ظبي ، شبهها بها في النشاط والقوة والسلامة من الداء .

قوله : ( فيجربها ) في رواية مسلم " فيدخل فيها ويجربها " بضم أوله ، وهو بناء على ما كانوا يعتقدون من العدوى ، أي يكون سببا لوقوع الحرب بها ، وهذا من أوهام الجهال ، كانوا يعتقدون أن المريض إذا دخل في الأصحاء أمرضهم فنفى الشارع ذلك وأبطله ، فلما أورد الأعرابي الشبهة رد عليه النبي - صلى الله عليه وسلم - بقوله : فمن أعدى الأول ؟ وهو جواب في غاية البلاغة والرشاقة . وحاصله من أين الجرب للذي أعدى بزعمهم ؟ فإن أجيب من بعير آخر لزم التسلسل أو سبب آخر فليفصح به ، فإن أجيب بأن الذي فعله في الأول هو الذي فعله في الثاني ثبت المدعى ، وهو أن الذي فعل بالجميع ذلك هو الخالق القادر على كل شيء وهو الله سبحانه و - تعالى - .

قوله : ( وعن أبي سلمة سمع أبا هريرة بعد يقول : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : لا يوردن ممرض على مصح ) كذا فيه بتأكيد النهي عن الإيراد . ولمسلم من رواية يونس عن الزهري لا يورد بلفظ النفي ، وكذا تقدم من رواية صالح وغيره ، وهو خبر بمعنى النهي بدليل رواية الباب . والممرض بضم أوله وسكون ثانيه وكسر الراء بعدها ضاد معجمة هو الذي له إبل مرضى ، والمصح بضم الميم وكسر الصاد المهملة بعدها مهملة منص: 253 ] له إبل صحاح ، نهى صاحب الإبل المريضة أن يوردها على الإبل الصحيحة . قال أهل اللغة : الممرض اسم فاعل من أمرض الرجل إذا أصاب ماشيته مرض ، والمصح اسم فاعل من أصح إذا أصاب ماشيته عاهة ثم ذهب عنها وصحت .

قوله : ( وأنكر أبو هريرة الحديث الأول ) وقع في رواية المستملي والسرخسي " حديث الأول " وهو كقولهم مسجد الجامع ، وفي رواية يونس عنالزهري عن أبي سلمة " كان أبو هريرة يحدثهما كليهما عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ، ثم صمت أبو هريرة بعد ذلك عن قوله لا عدوى .

قوله : ( وقلنا ألم تحدث أنه لا عدوى ) في رواية يونس " فقال الحارث بن أبي ذباب " بضم المعجمة وموحدتين وهو ابن عم أبي هريرة " قد كنت أسمعك يا أبا هريرة تحدثنا مع هذا الحديث حديث لا عدوى ، فأبى أن يعرف ذلك " ووقع عند الإسماعيلي من رواية شعيب " فقال الحارث : إنك حدثتنا " فذكره " قال فأنكر أبو هريرة وغضب وقال : لم أحدثك ما تقول " .

قوله : ( فرطن بالحبشية ) في رواية يونس " فما رآه الحارث في ذلك حتى غضب أبو هريرة حتى رطن بالحبشية فقال للحارث : أتدري ماذا قلت ؟ قال : لا . قال : إني قلت أبيت " .

قوله : ( فما رأيته ) في رواية الكشميهني " فما رأيناه " ( نسي حديثا غيره ) في رواية يونس " قال أبو سلمة : ولعمري لقد كان يحدثنا به فما أدري أنسي أبو هريرة أم نسخ أحد القولين للآخر " ، وهذا الذي قاله أبو سلمة ظاهر في أنه كان يعتقد أن بين الحديثين تمام التعارض ، وقد تقدم وجه الجمع بينهما في " باب الجذام " وحاصله أن قوله : لا عدوى نهي عن اعتقادها وقوله : لا يورد سبب النهي عن الإيراد خشية الوقوع في اعتقاد العدوى ، أو خشية تأثير الأوهام ، كما تقدم نظيره في حديث فر من المجذوم لأن الذي لا يعتقد أن الجذام يعدي يجد في نفسه نفرة ، حتى لو أكرهها على القرب منه لتألمت بذلك ، فالأولى بالعاقل أن لا يتعرض لمثل ذلك بل يباعد أسباب الآلام ويجانب طرق الأوهام والله أعلم . قال ابن التين : لعل  أبا هريرة كان يسمع هذا الحديث قبل أن يسمع من النبي - صلى الله عليه وسلم - حديث من بسط رداءه ثم ضمه إليه لم ينس شيئا سمعه من مقالتي وقد قيل في الحديث المذكور إن المراد أنه لا ينسى تلك المقالة التي قالها ذلك اليوم لا أنه ينتفي عنه النسيان أصلا . وقيل : كان الحديث الثاني ناسخا للأول فسكت عن المنسوخ ، وقيل : معنى قوله : لا عدوى النهي عن الاعتداء ، ولعل بعض من أجلب عليه إبلا جرباء أراد تضمينه فاحتج عليه في إسقاط الضمان بأنه إنما أصابها ما قدر عليها وما لم تكن تنجو منه ، لأن العجماء جبار ، ويحتمل أن يكون قال هذا على ظنه ثم تبين له خلاف ذلك انتهى . فأما دعوى نسيان أبي هريرة للحديث فهو بحسب ما ظن أبو سلمة ، وقد بينت ذلك رواية يونس التي أشرت إليها ، وأما دعوى النسخ فمردودة لأن النسخ لا يصار إليه بالاحتمال ، ولا سيما مع إمكان الجمع ، وأما الاحتمال الثالث فبعيد من مساق الحديث ، والذي بعده أبعد منه ، ويحتمل . أيضا أنهما لما كانا خبرين متغايرين عن حكمين مختلفين لا ملازمة بينهما جاز عنده أن يحدث بأحدهما ويسكت عن الآخر حسبما تدعو إليه الحاجة ، قاله القرطبيفي " المفهم " . قال : ويحتمل أن يكون خاف اعتقاد جاهل يظنهما متناقضين فسكت عن أحدهما ، وكان إذا أمن ذلك حدث بهما جميعا . قال القرطبي : وفي جواب النبي - صلى الله عليه وسلم - للأعرابي جواز مشافهة من وقعت له شبهة في اعتقاده بذكر البرهان العقلي إذا كان السائل أهلا لفهمه ، وأما من كان قاصرا فيخاطب بما يحتمله عقله من الإقناعيات . قال : وهذه الشبهة التي وقعت للأعرابي هي التي وقعت ص: 254 ] للطبائعيين أولاوللمعتزلة ثانيا ، فقال الطبائعيون بتأثير الأشياء بعضها في بعض وإيجادها إياها ، وسموا المؤثر طبيعة ، وقال المعتزلة بنحو ذلك في الحيوانات والمتولدات وأن قدرهم مؤثرة فيها بالإيجاد ، وأنهم خالقون لأفعالهم مستقلون باختراعها ، واستند الطائفتان إلى المشاهدة الحسية ، ونسبوا من أنكر ذلك إلى إنكار البديهة ، وغلط من قال ذلك منهم غلطا فاحشا لالتباس إدراك الحس بإدراك العقل ، فإن المشاهد إنما هو تأثير شيء عند شيء آخر ، وهذا حظ الحس ، فأما تأثيره فهو فيه حظ العقل ، فالحس أدرك وجود شيء عند وجود شيء وارتفاعه عند ارتفاعه ، أما إيجاده به فليس للحس فيه مدخل ، فالعقل هو الذي يفرق فيحكم بتلازمهما عقلا أو عادة مع جواز التبدل عقلا والله أعلم . وفيه وقوع تشبيه الشيء بالشيء إذا جمعهما وصف خاص ولو تباينا في الصورة . وفيه شدة ورع أبي هريرة لأنه مع كون الحارث أغضبه حتى تكلم بغير العربية خشي أن يظن الحارث أنه قال فيه شيئا يكرهه ففسر له في الحال ما قال ، والله أعلم . 
....
بارش میں دعا کی قبولیت
بارش کے وقت
چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت  میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: 
(دو دعائیں رد نہیں ہوتیں: اذان کے وقت کی دعا اور بارش کے وقت کی دعا) ابو داود نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے "صحیح الجامع": (3078) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
بارش ہوتے وقت بارش میں جسم کا کچھ حصہ گیلا کرنا مستحب ہے، جیسے کہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : 
"ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ تھے تو بارش ہونے لگی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جسم سے کپڑا ہٹایا اور بارش میں گیلا کیا، تو ہم نے کہا: 
اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ 
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
(یہ اپنے پروردگار کے پاس سے ابھی آئی ہے)" مسلم: (898)
195085: کیا بارش کے وقت دعا کرنا مستحب ہے؟ اور اگر بجلی گرے یا کڑک سنائی دے تو کیا کہا جائے؟
پہلا سوال یہ ہے کہ: بارش ہوتے وقت یا کڑک اور بجلی دیکھنے پر کون سی دعا پڑھی جائے؟ 
دوسرا سوال یہ ہے کہ: وہ کون سی حدیث ہے جس میں بارش کے وقت کی گئی دعا کو قبولیت والی دعا کہا گیا ہے؟
Published Date: 2016-04-08
الحمد للہ:
اول:
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی بارش ہوتی دیکھتے تو فرمایا کرتے تھے: (اَللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا)[یا اللہ! موسلا دھار اور نافع  بارش عطا فرما] بخاری: (1032)

اسی طرح ابو داود (5099) میں اس حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں: 
(اَللَّهُمَّ صَيِّبًا هَنِيْئًا)[یا اللہ! موسلا دھار اور برکت والی بارش عطا فرما]اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔

" صَيِّبًا " کا لفظ " صَيب" سے ماخوذ ہے اور  یہ اس بارش کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی بہنے لگے، اس لفظ کی اصل: " صَابَ يَصُوْبُ" بارش ہو تو اس وقت بولا جاتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: { أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ } آسمان سے نازل ہونے والی بارش کی مانند[البقرة: 19]  نیز " صَيِّب " کا وزن "صوب" سے "فیعل" ہے۔
دیکھیں: " معالم السنن " از: خطابی:  (4/146)
بارش ہوتے وقت بارش میں جسم کا کچھ حصہ گیلا کرنا مستحب ہے، جیسے کہ انس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ : "ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ تھے تو بارش ہونے لگی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جسم سے کپڑا ہٹایا اور بارش  میں گیلا کیا، تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ اپنے پروردگار کے پاس سے ابھی آئی ہے)" مسلم: (898)
اور جب بارش شدید ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: 
( اَللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا ، اَللَّهُمَّ عَلَى الآكَامِ وَالظِّرَابِ ، وَبُطُونِ الأَوْدِيَةِ ، وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ )[یا اللہ! ہماری بجائے ہمارے ارد گرد بارش نازل فرما، یا اللہ! ٹیلوں، پہاڑیوں ، وادیوں اور درختوں  کے اگنے کی جگہ بارش نازل فرما] بخاری: (1014)
جبکہ کڑک سننے کے وقت  دعا   کے بارے میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : "وہ جس وقت کڑک سنتے تو گفتگو کرنا چھوڑ دیتے اور کہتے: 
(سُبْحَانَ الَّذِي يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ )
ترجمہ: میرا رب پاک ہے   کہ کڑک حمد کیساتھ اس کی تسبیح   کرتی ہے اور فرشتے اس کے خوف سے تسبیح بیان کرتے ہیں۔[الرعد: 13]
پھر عبد اللہ بن زبیر کہتے تھے: یہ اہل زمین کیلیے سخت وعید ہے"
بخاری نے اسے "ادب المفرد"  (723) میں ، امام مالک نے "موطا" (3641) میں  بیان کیا ہے اور نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو "الأذكار" (235)  میں صحیح قرار دیا ہے اسی طرح البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحيح الأدب المفرد" (556) میں صحیح قرار دیا ہے۔
لیکن اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی دعا ثابت نہیں ہے۔
اسی طرح  ہمارے علم کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بجلی چمکنے پر کوئی دعا ثابت نہیں ہے، واللہ اعلم۔
دوم:
بارش نازل ہونے کا وقت فضلِ الہی، اور لوگوں پر رحمتِ الہی کا وقت ہے، اس وقت میں خیر و بھلائی کے اسباب مزید بڑھ جاتے ہیں، اور اس یہ دعا کیلیے قبولیت کی گھڑی ہے۔
چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مرفوعا منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دو قسم کی دعائیں مسترد نہیں ہوتیں: اذان کے وقت دعا اور بارش کے نیچے دعا)
اس روایت کو حاکم نے "مستدرک" (2534) میں اور طبرانی نے "المعجم الكبير" (5756)  میں روایت کیا ہے، نیز البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحيح الجامع" (3078 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم.

١. استسقا کے معنی خشک سالی کے وقت اللّٰہ تعالٰی سے بارش طلب کرنے کے لئے کیفیتِ مسنونہ کے ساتھ نماز پڑھنا و استغفار و دعا کرنا ہے یہ نماز و دعا ایسے مقام میں مشروع ہے جہاں جھیلیں تالاب نہریں اور ایسے کنویں نہ ہوں جن سے لوگ پانی پئیں اور اپنے جانوروں کو پلائیں اور کھیتوں کو پانی دیں یا اگر ہو تو کافی نہ ہو
٢. نمازِ استسقا کا جماعت کے ساتھ پڑھنا سنتِ مئوکدہ نہیں ہے البتہ جائز بلکہ مستحب ہے اور اس میں خطبہ بھی نہیں ہے لیکن دعا و استغفار ہے، اگر جدا جدا نفل پڑھیں تب بھی مضائقہ نہیں، اگر جماعت سے ادا کریں تو امام عید کی نماز کی طرح اذان و اقامت کے بغیر دو رکعت نماز استسقا پڑھائے دونوں رکعتوں میں جہر سے قرائت کرے افضل یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورة ق اور دوسری رکعت میں سورت القمر پڑھے یا پہلی رکعت میں سورت الاعلی اور دوسری میں الغاشیہ پڑھے نمازے عید کی طرح تکبیراتِ زائد کہنے میں اختلاف ہے لیکن مشہور روایت کی بنا پر نہ کہے
٣. نماز کے بعد امام لوگوں کی طرف منہ کر کے زمین پر کھڑا ہو اور امام محمد کے نزدیک دو خطبے پڑھے جن میں اللّٰہ تعالٰی کا ذکر و تسبیح و تہلیل وغیرہ کے بعد دعا و استغفار زیادہ ہو، دونوں خطبوں کے درمیان جلسہ کرے، امام ابو یوسف کے نزدیک ایک ہی خطبہ پڑھے جب کچھ خطبہ پڑھ چکے تو اپنی چادر کو پلٹ لے اس کا طریقہ یہ ہے کہ اوپر کی جانب نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر کی جانب کر لے اس طرح پر کہ دونوں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے لے جا کر اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں جانب کے نیچے کا کونہ پکڑ لے اور بائیں ہاتھ سے دائیں جانب کے نیچے کا کونہ پکڑ لے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی پیٹھ کے پیچھے اس طرح پھیرے کہ دائیں ہاتھ والا سرا دائیں کندھے پر آ جائے اور بائیں ہاتھ والا سرا بائیں کندھے پر آ جائے’ اس میں حال بدلنے کی نیک فال کی طرف اشارہ ہے مقتدی چادر نہ پلٹیں
٤. جب امام خطبہ سے فارغ ہو تو جماعت کی طرف پیٹھ کر کے قبلے کی طرف کو منھ کر لے اور پھر اپنی چادر کو پلٹے اور کھڑا ہو کر دونوں ہاتھ خوب بلند اٹھا کر استسقا کی دعا میں مشغول ہو، مقتدی امام کی دعا پر آمین کہتے رہیں جو دعائیں احادیث میں آئی ہیں بہتر ہے کہ ان کو پڑھے، اپنے الفاظ میں بھی دعائیں کرنا جائز ہے، دعا کا عربی میں ہونا ضروری نہیں، اگر احادیث کی دعائیں یاد نہ ہوں تو اپنی زبان میں اس مطلب کی دعائیں مانگے
٥. مستحب یہ ہے کہ امام لوگوں کے ساتھ برابر تین دن تک نماز استسقا کے لئے باہر نکلے تین دن سے زیادہ نہیں کیونکہ اس سے زیادہ ثابت نہیں ہے، منبر نہ لے جائیں، مستحب ہے کہ نماز استسقا کے لئے باہر نکلنے سے پیشتر لوگ تین دن تک روزہ رکھیں اور گناہوں سے خالص توبہ و استغفار کریں اور چوتھے روز امام ان کے ساتھ نکلے سب پیدل ہوں، بغیر دھلے یعنی معمولی یا پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنیں، اللّٰہ تعالٰی کے سامنے ذلت کی صورت بنائیں عاجزی و انکساری و تواضع کرتے ہوئی سروں کو جھکائے ہوئے چلیں، پائوں ننگے ہوں تو بہتر ہے، ہر روز نکلنے سے پہلے صدقہ و خیرات کرنا مستحب ہے ، ہر روز نئے سرے سے دل سے توبہ و استغفار کریں، بوڑھے مرد و عورت اور بچوں کو ساتھ لے جائیں ان کو آگے کر دیں تاکہ وہ دعا مانگیں اور جوان آمین کہیں، بچے اپنی مائوں سے جدا رکھے جائیں تاکہ ان کے بلبلانے سے رحمت الٰہی جوش میں آ جائے، اپنے جانوروں کو بھی ہمراہ لے جانا مستحب ہے، غرض کہ رحمت الٰہی کے متوجہ ہونے کے تمام اسباب مہیا کریں
٦. اگر امام نہ نکلے تو لوگوں کو نکلنے کے لئے کہے اور اگر اس کی اجازت کے بغیر نکلیں تب بھی جائز ہے، کسی کافر کو اس وقت اپنے ہمراہ نہ لے جائیں
٧. مکہ معظمہ کے لوگ نمازِ استسقا کے لئے مسجدالحرام میں جمع ہوں، بیت المقدس کے لوگ مسجد الاقصٰی میں اور مدینہ منورہ کے لوگ مسجد نبوی میں جمع ہوں اور اپنے جانوروں کو ان مساجد کے دروازوں پر کھڑا کریں، باقی جگہوں کے لوگ بستی کے باہر میدان میں نکلیں
٩. مستحب ہے کہ سر سبز جگہ کے لوگ قحط زدہ لوگوں کے لئے دعا کریں،

قضائے حاجت کے شرعی احکام

جی ہاں، کیوں نہیں!
”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سب کچھ ہی سکھلایا ہے، اور استنجے سے متعلق بھی ضروری ہدایات دی ہیں“۔
یہ تاریخی کلمات حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان مشرکین کے جواب میں ارشاد فرمائے تھے جو بطورِ استہزاء اور طنز کہہ رہے تھے کہ،
”تمھارے نبی تو تمھیں پیشاب پاخانہ کرنے کے طریقے بھی سکھاتے ہیں!“
          حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مزید یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت ہم قبلہ کی طرف رُخ کریں یا یہ کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا کریں، یا یہ کہ ہم استنجے میں تین پتھرون سے کم استعمال کریں، یا یہ کہ ہم کسی چوپائے (اونٹ، گھوڑے یا بیل وغیرہ ) کے فضلے (گوبر اور لید وغیرہ) یا ہڈی سے استنجا کریں۔
          (صحیح مسلم، کتاب الطھارة، باب الاستطابة، رقم الحدیث:۲۶۲، بیت الأفکار)
حدیثِ مبارکہ سے مستفاد امور
          علامہ طیبی رحمہ اللہ اس حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں، کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حکمت سے بھر پور جواب دیا، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے استہزاء کی کوئی پروا نہ کی اور ایسا جواب دیا جو ایک شیخ اپنے مرید کی راہنمائی کرتے ہوئے دیتا ہے، یعنی:
اس استہزاء کرنے والے کو یہ فرمایا کہ
”یہ کوئی قابل استہزاء بات نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک اٹل حقیقت اور قابلِ اعزاز بات ہے، اور جب ایسا ہے تو تم پر لازم ہے کہ ہٹ دھرمی چھوڑو اور صراط مستقیم کو اختیار کرو، یہ صراطِ مستقیم تمھارے باطن اور ظاہر کو پلیدگیوں اور نجاستوں سے پاک کردے گا“۔
(فتح الملہم، کتاب الطھارہ، باب الاستطابة،۲/۱۱۵، مکتبہ دار العلوم کراچی)
          مندرجہ بالا حدیث ِ مبارکہ میں پیشاب پاخانہ کرنے سے متعلق چار ہدایات ارشاد فرمائی ہیں:
قضائے حاجت کے وقت کس طرف منہ کیا جائے؟
          (۱ )     قضائے حاجت کے وقت اس طرح بیٹھا جائے کہ قبلے کی طرف نہ منہ ہو اور نہ ہی پیٹھ۔ یہ حکم قبلہ کے ادب و احترام اور تقدس کی خاطر تھا کہ کوئی بھی ذی شعور انسان جو لطیف اور روحانی حقیقتوں کا ادراک کرنے والا ہو وہ اس موقع پر کسی مقدس اور محترم چیز کی طرف منہ یا پشت کرنے کو بے ادبی شمار کرتے ہوئے اس طرز کے اپنانے سے گریز کرے گا۔
استنجاء کس ہاتھ سے کیا جائے؟
          (۲)      دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ اس عمل کے لئے اپنا دایاں ہاتھ استعمال نہ کیا جائے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فوقیت دی ہے، اس ہاتھ کو اعلی، محترم، مقدس، صاف ستھرے اور نفیس کاموں کے لئے تو استعمال کیا جاسکتا ہے، گھٹیا اور رذیل کاموں کے لئے نہیں؛ چناں چہ دائیں ہاتھ کے شرف و احترام کی وجہ سے استنجا کرتے ہوئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
کتنے ڈھیلوں سے استنجاء کیا جائے؟
          (۳)     تیسری ہدایت یہ کی گئی ہے کہ استنجے کے لئے کم از کم تین ڈھیلوں کو استعمال کیا جائے، اس کی وجہ یہ تھی کہ عام طور پر صفائی تین پتھروں سے کم میں پوری طرح نہیں ہوتی؛ اس لئے حکم دیا گیا کہ تین پتھر استعمال کرکے اچھی طرح اور مکمل صفائی کی جائے؛ چناں چہ اگر کسی شخص کی صفائی تین پتھروں سے حاصل نہ ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تین سے زائد پتھر استعمال کرے تاکہ کامل صفائی ہو جائے۔ نیز حدیثِ مذکور میں پتھر کا ذکر کیا گیا ہے، یہ اس زمانے میں ملنے والی عام چیز کی وجہ سے تھا، موجودہ دور میں شہروں میں بنے ہوئے پختہ بیت الخلاء میں ٹوائلٹ پیپر استعمال کیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں؛ اسی طرح ہر وہ پاک چیز جس سے صفائی کا مقصد حاصل ہوسکتا ہو اور اس کا استعمال اس کام کے لئے موضوع بھی ہو اور جسم کے لئے نقصان دہ بھی نہ ہو۔
جانوروں کے فضلات سے استنجاء کرنے کا حکم
          (۴)     چوتھی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ استنجا کے لئے کسی جانور کی گری پڑی ہڈی یا ان کے فضلے (لید، گوبر وغیرہ) کو استعمال نہ کیا جائے، دراصل اس طرح زمانہٴ جاہلیت میں کرلیا جاتا تھا؛ حالانکہ یہ فطرتِ سلیمہ کے خلاف ہے۔احادیثِ مبارکہ میں متفرق طور پر قضائے حاجت سے متعلق بہت سے احکامات مذکور ہیں، نیز فقہاء کرام نے ان احادیث کی روشنی میں بہت سے مسائل کتب ِ فقہ میں ذکر کئے ہیں، ذیل میں قضائے حاجت سے متعلق مختلف اہم مسائل نقل کئے جاتے ہیں؛ تاکہ ہم اپنا یہ عمل بھی شریعت کے مطابق انجام دے سکیں۔
قضائے حاجت سے قبل کی مسنون دعا
          حضر ت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”حاجت کے ان مقامات میں خبیث مخلوق شیاطین وغیرہ رہتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی بیت الخلاء جائے تو چاہئے کہ پہلے یہ دعا پڑھے،
أَعُوْذُ بِاللّہِ مِنَ الْخُبُثِ وَ الْخَبائِثِ“
(ترجمہ: میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں خبیث جنوں اور خبیث جنّیوں سے۔
          (سنن أبي داوٴد، کتاب الطھارة، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، رقم الحدیث: ۶،۱/۳،دار ابن الحزم)
           اس دعا کی برکت سے انسان شریر جنات کے اثرات سے محفوظ ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ یہ گندی جگہیں جنات و شیاطین کا مسکن ہوتی ہیں اور یہ مخلوق ان جگہوں پر آکر فراغت حاصل کرنے والوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے؛ اسی لئے سرکارِدو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس بات کی تعلیم دی گئی کہ جب تم قضائے حاجت کے لئے ایسی جگہوں پر جاوٴ تو ان کے شرور سے بچنے کے لئے اللہ کی پنا میں آجایا کرو؛ چناں چہ روایات میں آتا ہے کہ اس دعا کے پڑھنے والا شریر جن اورشریر جنّیوں کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
قضائے حاجت کے بعد کی دعا
           حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تو ”غُفْرَانَکَ“ کہتے تھے.
(ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں۔
          (السننالکبریٰ للنسائي، کتاب الطھارة، ما یقول إذا خرج من الخلاء، رقم الحدیث: ۹۸۲۵، موٴسسة الرسالة)
          ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“․
(سنن کبریٰ ۹۸۲۵)
ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، جس نے مجھ سے گندگی دور کی اور مجھے تکلیف سے عافیت دی۔ یہ دعا بڑی اہمیت کی حامل ہے؛ اس لئے کہ انسان جو کچھ بھی کھاتا ہے، اس کا ایک حصہ جسم کے لئے تقویت کا باعث بنتا ہے، اور ایک حصہ بہ طورِ فضلہ جسم سے خارج ہو جاتا ہے، اس غذا کا جسم سے خارج ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اگر یہ فُضلہ جسم سے نہ نکلے تو انسان بیماریوں میں مبتلا ہوجائے، اس دعا میں اللہ کی اس نعمت پر شکر ادا کرنا ہے، کہ اس نے ہمیں اس گندگی سے نجات دی، اس کو
”أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذی“
سے تعبیر کیا، اسی کے مناسب ”غُفْرانَکَ“ کے ساتھ کی جانے والی دعا ہے، حکمت اور مقصد اس دعا کا یہ ہے کہ اے اللہ جیسے تو نے میرے جسم سے زائد فضلات کو دور کر کے مجھے گندگی سے نجات عطا فرمائی اور مجھے عافیت جیسی عظیم نعمت نصیب فرمائی، ایسے ہی تو میرے باطن کو صاف فرمادے اور میرے گناہوں کی مغفرت فرما۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہم پر ایک اور انعام کیا کہ اس نے جسم سے ساری کی ساری غذا نہیں نکال دی، اگر ایسا ہو جاتا تو ہم زندہ ہی نہ رہتے، اس نعمت کے شکر کو ”وعَافَانِيْ“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
          فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ان دونوں دعاوٴں ”غُفْرَانَکَ“
اور
”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“
کو جمع کر کے پڑھا جائے؛ البتہ اگر کسی کو دوسری دعا نہ آتی ہو تو پھر صرف
”غُفْرَانَکَ“
پڑھ لے۔
بیت الخلاء اور غسل خانہ اکٹھا ہونے کی صورت میں دعائیں کس جگہ پڑھی جائیں؟
          آج کل گھروں میں باتھ روم، حمام، واش بیسن وغیرہ اکٹھے بنے ہوتے ہیں، اس صورت میں جب قضائے حاجت کے لئے ان جگہوں میں داخل ہو تو غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے دعا پڑھے، اور جب فارغ ہو کرکے نکلے تو نکلنے کے بعد دعا پڑھے۔
          نیز اگر قضائے حاجت کسی میدان، جنگل یا صحراء وغیرہ میں کرنی پڑے تو اس صورت میں قضائے حاجت سے پہلے پڑھی جانے والی دعا ستر کھولنے سے قبل پڑھے اور قضائے حاجت کے بعد پڑھی جانے والی دعا ستر چھپالینے کے بعد پڑھے۔
          (ردالمحتار، کتاب الطھارة، مطلب: في دلالة المفھوم، ۱/۲۲۷، دار عالم الکتب)
          اسی کی طرف حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں بھی اشارہ موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کے پڑھنے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ،
”جب تم بیت الخلاء میں داخل ہو، یا داخل ہونے کا ارادہ کرو تو یہ دعا پڑھ لو“․
(السنن الکبریٰ للنسائي، کتاب الطھارة، ما یقول إذا دخل في الخلاء، رقم الحدیث: ۹۸۲۳، ۹/۳۵، موٴسسة الرسالة)
          البتہ اس جگہ ایک بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ مذکورہ بالا لفظِ ”بیت الخلاء“ سے مراد زمانہ ماضی کے وہ بیت الخلاء ہیں، جہاں قضائے حاجت کرلینے کے بعد گندگی ونجاست پڑی رہتی تھی، بعد میں اسے اکٹھا کرکے دور جنگل وغیرہ میں جاکر پھینکا جاتا تھا، موجودہ دور کے پختہ اور سنگ مر مر کے بنے ہوئے بیت الخلاء اس مفہوم سے بالا تر ہیں، پس اگراس قسم کے بیت الخلاء میں گندگی وغیرہ پھیلی ہوئی نہ ہو تو اس میں دعا ستر کھولنے سے قبل پڑھ لی جائے، اس کی بھی گنجائش ہے؛ کیوں کہ ان بیت الخلاوٴں میں دعا پڑھنے کی صورت میں وہ خرابی نہیں ہے جو گندگی والے بیت الخلاء میں لازم آتی تھی؛لیکن اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ دعا بیت الخلاء سے باہر پڑھ کے داخل ہوا جائے۔
بیت الخلاء میں زبان سے کلمہ پڑھنے اور قرآنِ پاک کی تلاوت کا حکم:
          بیت الخلاء میں زبان سے کلمہ پڑھنا، کوئی ذکر کرنا، قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا یا اندر جاکر مسنون دعاپڑھنا جائز نہیں؛ البتہ دل ہی دل میں ذکر کرنا یا چھینک وغیرہ کے جواب میں دل میں ہی ”الحمد للہ“ کہنا جائز ہے۔
          (الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الطھارة، الفصل الثالث في الاستنجاء: ۱/۵۰، رشیدیہ)
بیت الخلاء میں لفظِ ”اللہ“ اور حروفِ مقطعات والی انگوٹھی یا لاکٹ پہن کے جانے کا حکم
          بیت الخلاء میں ایسی انگوٹھی یا لاکٹ پہن کے جانا، جس پر لفظِ اللہ یا حروفِ مقطعات لکھے ہوں جائز نہیں ہے، ایسی انگوٹھی یا لاکٹ باہر رکھ کے پھر داخل ہونا چاہئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو اپنی انگوٹھی اتار کر باہر ہی رکھ دیتے تھے۔
          (سنن أبي داوٴد، کتاب الطھارة، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، رقم الحدیث: ۶، ۱/۳، دار ابن الحزم)
          اگر یہ چیزیں کسی چیز میں لپٹی ہوئی ہوں یا جیب میں ہوں یا لاکٹ گریبان میں قمیص کے نیچے چھپا ہوا ہو توان کے ساتھ بیت الخلاء میں جانے کی گنجائش ہے؛ لیکن بہتر پھر بھی یہی ہے کہ یہ اشیاء باہر رکھ کے اندر جائیں۔
کن چیزوں سے استنجاء کرنا جائز ہے اور کن سے ناجائز؟
          کاغذ، کھانے کی چیز، گوشت، درخت کے پتوں، نجس اشیاء، ہڈی، لید، گوبر، شیشہ، پختہ اینٹ، کوئلہ، ٹھیکری، بال اور اسی طرح دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا جائز نہیں، اس کے علاوہ ہر ایسی چیز جو قابلِ احترام نہ ہو، خوراک نہ ہو، جسم کے لئے نقصان دہ بھی نہ ہو اور قیمتی بھی نہ ہو تو اس سے استنجا کرنا جائز ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کا حکم
          اگر کوئی شخص پانی سے استنجاء کرنے کی بجائے صرف ڈھیلوں سے استنجاء کرنا چاہے تو اس سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر نجاست مخرج سے تجاوز کرجائے اور زائد کی مقدار ایک درہم سے زائد نہ ہو، تو بغیر دھوئے صرف ڈھیلے کے استعمال کرنے سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔
          لیکن مخرج سے تجاوز کرنے والی نجاست اگر درہم کی مقدار سے زائد ہو تو اسے بلا عُذر دھوئے بغیر چھوڑدینا اور اسی طرح نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے اور اگر بقدرِ درہم یا اس سے کم ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے۔
          (رد المحتار: کتاب الطھارة، باب الأنجاس:۱/۵۲۲، دار عالم الکتب)
دیر تک قطرے آنے والوں کے لئے طہارت کا طریقہ
          اگر پیشاب کرنے کے بعد کسی کو قطرے آنے کا مرض ہو تو اسے چاہیے کہ پہلے ڈھیلے یا ٹوائلٹ پیپر سے اچھی طرح خشک کر لے، حتی کہ پیشاب کی نالی کو خالی کرنے کی اپنی مقدور بھر کوشش کرلے ، اس کے بعد پانی سے استنجاء کرے۔
          (ردالمحتار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستسقاء والاستنجاء: ۱/۵۵۸، دارعالم الکتب)
پردے کی عدم موجودگی میں صرف ڈھیلوں کے استعمال کا حکم
          اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ ہو جہاں پردے کے ساتھ استنجاء کرنا ممکن نہ ہو تو وہاں قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلوں یا ٹوائلٹ پیپر کے ساتھ استنجاء کرنے پر اکتفاء کرے، ایسی جگہ پر دوسروں کے سامنے ستر کھول کر پانی سے استنجاء کرنا جائز نہیں۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
شلّ ہاتھ والا استنجاء کیسے کرے؟
          اگر کسی شخص کا بایاں ہاتھ شل ہو اور وہ اپنے بائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے پر قادر نہ ہو؛ تو دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے اور اگر دایاں ہاتھ بھی شل ہو تو پھر ایسے شخص کے لئے حکم یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص (اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے) پانی ڈالے اور اگر کوئی ایسا شخص بھی نہ ہو تو ایسے شخص سے استنجاء معاف ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
مریض آدمی کے لئے استنجاء کا حکم
          ایسا مریض جو وضو کرنے پر قادر نہ ہو؛لیکن اس کی بیوی موجود ہو تو وہ اسے استنجاء اور وضو کروائے اوراگر اس کی بیوی نہ ہو؛ لیکن بیٹا یا بھائی موجود ہو تواس کا بیٹا یا بھائی اس مریض کو وضو کروائے۔ اسی طرح کوئی عورت مریضہ ہو اور اس کا شوہر بھی ہو تو اس کا شوہر اپنی بیوی کو بوقت ضرورت وضو بھی کروائے گا اور استنجاء بھی کروائے گا اور اگر اس کا شوہر نہ ہو؛ لیکن اس کی بیٹی یا بہن موجود ہوں تو وہ وضو کروائیں۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
قضائے حاجت کے وقت باتیں کرنا اور ایک دوسرے کے ستر کو دیکھنا
          حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”دو آدمی قضاء حاجت کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کہ دونوں ایک دوسرے کے ستر کو دیکھ رہے ہوں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں“۔
          (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن الاجتماع علیٰ الخلاء والحدیث عندہ، رقم الحدیث:۳۴۲، ۱/۷۸، مکتبة المعارف، الریاض)
           انسانی شرافت سے بہت دور اور بڑی بدتہذیبی کی بات ہے کہ دو افراد ننگے ہوکر ایک دوسرے کے سامنے اپنی حاجت سے فارغ ہوں اور اس سے بھی بڑی بے حیائی یہ ہے کہ اس دوران وہ دونوں آپس میں بات چیت بھی کرتے رہیں، یہ امر شرعاً جائز نہیں ہے۔
ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کا حکم
          اگر کسی جگہ پانی کھڑا ہو تو اس میں پیشاب کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ اس پانی کو بہت سے کاموں میں استعمال کیا جانا ممکن ہے، حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے“۔
(سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن البول في الماء الراکد، رقم الحدیث:۳۴۴، ۱/ ۷۸،مکتبة المعارف، الریاض)
کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا حکم
          آج کل جدید تہذیب کے دلدادے، مغربیت کی تقلید میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو جدیدیت، تہذیب اور اسلوب زندگی شمار کرتے ہیں، اس عمل کے لئے نہ بیٹھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں اور نہ ہی پانی سے استنجاء کرنے کو کوئی اہمیت دیتے ہیں، اب تو باقاعدہ ہر جگہ پیشاب کے لئے دیواروں میں ایسی جگہیں بنائی جاتی ہیں، جہاں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ممکن ہوتا ہے، اور ایسے بیت الخلاء ائیرپورٹ، ریلوے اسٹیشن، رُوٹ کی بڑی بسوں کے اڈوں اور سعودی عرب میں حاجیوں کے لئے تیار کی جانے والی رہائش گاہوں میں تیار کئے گئے ہوتے ہیں؛حالاں کہ کھڑے ہوکر استنجا کرنا شرعاً ممنوع ہے، اس فعل کے مرتکب اپنے کپڑوں کو بھی پاک نہیں رکھ سکتے اور اپنے بدن کو بھی نہیں۔
          حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار (ابتدائے اسلام میں جب مجھے مسئلے کا علم نہیں تھا) مجھے کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہوئے دیکھ لیا، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اے عمر! کھڑے ہو کر پیشاب مت کر“،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے (کبھی) کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔
(سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب في البول قاعداً، رقم الحدیث:۳۰۸، ۱/۱۹۶،)
          درحقیقت یہ دشمنانِ اسلام کی سازش ہے، کہ مسلمانوں کو ان کے پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کی مبارک سنتوں سے اتنا دورکر دیا جائے کہ وہ اپنے ہی مسلم معاشرے میں اپنے نبی کی اتباع میں عار محسوس کریں۔
           ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اپنی ذات سنت طریقے کے مطابق کرلیں، اور اپنی اولاد بالخصوص نابالغ اولادکی نگرانی کریں، کہ کہیں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی عادی تو نہیں بن رہی ہیں یا وہ پیشاب کرنے کے بعد استنجا لیتی ہے یا نہیں، اور اگر ایسا محسوس ہو تو فوراً مناسب تنبیہ کریں۔
پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے کا وبال
          کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی صورت میں کپڑوں پر یا بدن پر چھینٹوں کا گرنا ایک یقینی امر ہے، دیکھنے کے اعتبار سے تو یہ چھوٹا اور معمولی عمل ہے؛ لیکن جزا کے اعتبار سے پیشاب کی چھینٹوں سے اپنے آپ کو نہ بچانا بہت بڑے وبال کا سبب ہے۔
          حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک بار نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور ان دونوں کو عذاب کوئی بڑے بڑے اور مشکل کاموں کی وجہ سے نہیں ہو رہا؛ بلکہ ان میں سے ایک کو پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے اور دوسرے کو غیبت کرنے کی وجہ سے“۔
          (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب: التشدید في البول، رقم الحدیث: ۳۴۹، ۱/۲۱۹، دار المعرفة، بیروت)
          اس لئے پیشاب کرنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ پہلے کسی ڈھیلے یا ٹشو پیپر وغیرہ سے قطرات کو خشک کریں ، اس کے بعد پانی کا استعمال کریں۔ اس طریقے سے مثانہ اور پیشاب کی نالی اچھی طرح خالی ہو جاتی ہے، فارغ ہونے کے بعد قطرے وغیرہ ٹپکنے سے امن رہتا ہے۔
قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرکے پیشاب کرنے کاحکم
          قضائے حاجت کے احکام میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ اس عمل کے دوران قبلے کی طرف نہ منہ کیا جائے اور نہ ہی پُشت، ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، چاہے قضائے حاجت کا وقت ہو یا (ننگے ہوکر) غسل کرنے کی حالت ہو، شہر میں ہو یا دیہات میں، جنگل میں ہو یا صحرا میں، تمام صورتوں میں یہی حکم ہے۔
          حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ،
جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنے کے لئے آئے تو قبلے کی طرف نہ چہرہ کرے اور نہ ہی پشت کرے۔
(صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب لا یستقبل القبلة بغائط أو بولٍ، رقم الحدیث: ۱۴۴، ۱/۶۸، المکتبة السلفیة)
قبلے کی طرف بنے ہوئے بیت الخلاء کا حکم
          اگر کسی گھر میں بیت الخلاء قبلہ ُرو بنا ہوا ہو یا اس طرح بنا ہو کہ قبلہ کی طرف پُشت ہوتا ہو تو اہلِ خانہ پر ٹھیک سمت میں بیت الخلاء بنانا واجب ہے، البتہ اگر اُس بیت الخلاء میں اپنا رُخ قبلہ کی طرف سے پھیر کر بیٹھے تو جائز ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
دودھ پیتے بچوں کے لئے استقبال قبلہ کا حکم
          والدہ یا ہر ایسا شخص جو بچوں کو قضائے حاجت کروائے، اس کے لئے ان بچوں کو لے کر قبلہ کی طرف رکھ کرکے بیٹھنا یا قبلہ کی طرف پشت کر کے بیٹھنا جائز نہیں؛ بلکہ وہ بھی شمالاً یا جنوباً بیٹھ کے قضائے حاجت کروائیں۔
          (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس: ۱/۵۵۵، دار عالم الکتب)
مریض کے لئے استقبال قبلہ اور استدبار قبلہ کا حکم
          جو شخص مرض کی وجہ سے خود اپنا رُخ بدلنے پر قادر نہ ہو تو اس شخص کے تیمار دار قضائے حاجت کے وقت اس کو ایسے طریقے سے اٹھائیں یا لٹائیں کہ بہ وقت قضائے حاجت اس کا رُخ یا پیٹھ قبلہ کی طرف نہ ہو، اسی طرح ہسپتالوں میں بھی انتظامیہ کو چاہیے کہ مریضوں کے بیڈ/ بستر قبلہ رُخ پر حتیٰ الوسع بچھانے سے گُریز کریں۔
بیت الخلاء جاتے ہوئے سر ڈھانپنا
          بیت الخلاء جاتے ہوئے سر ڈھانپ کے جانا بھی سنت ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو اپنے سر کو ڈھانپ لیتے تھے۔
          (السنن الکبریٰ للبیہقي، کتاب الطھارة، باب تغطیة الرأس عند دخول الخلاء، رقم الحدیث: ۴۶۴،۱/۹۶، دائرة المعارف، دکن)
پیشاب پاخانہ کی طرف دیکھنے کی ممانعت
          اپنے بول و براز کی طرف دیکھنا خلاف ادب ہے، علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ نسیان کو پیدا کرتا ہے۔
(کتاب الطہارة: ۱/۳۱، دارالکتب العلمیة)
قضائے حاجت کے بعد زمین پر ہاتھ ملنے کا حکم
          حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ،
” نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب استنجاء کر لیا تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر رگڑا“۔
          (سنن الترمذي، کتاب الطھارة، باب: دلک الید بالأرض بعد الاستنجاء، رقم الحدیث:۵۰، دارالسلام)
           موجودہ دور میں اس عمل پر قادر شخص کے لئے یہ عمل بھی مسنون ہوگا، بصورت دیگر صابن وغیرہ سے ہاتھوں کو دھو لینا بھی اس کا قائم مقام ہوجائے گا۔
استنجا کے بعد ہاتھ دھونے کا حکم
          استنجاء کرنے کے بعد اگر ظنِ غالب ہو کہ ہاتھ صاف ہوگئے ہیں اور بدبو وغیرہ بھی ختم ہوگئی ہے تو مزید صفائی کے لئے ہاتھ دھونا مسنون ہے؛ لیکن ضروری نہیں ہے، مطلب یہ کہ اگر یہ شخص ہاتھ نہ دھوئے تو عند اللہ مجرم نہیں ہوگا۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
جن جگہوں میں استنجاء کرنا مکروہ ہے
          جن جگہوں میں استنجاء کرنا مکروہ ہے وہ درج ذیل ہیں:
1. پانی میں،
2. حوض یا چشمے کے کنارے،
3. پھل دار درخت کے نیچے،
4. کھیتی میں،
5. ہر ایسے سایہ میں جہاں لوگ بیٹھتے ہوں،
6. مساجد اور عید گاہ کے پہلو میں،
7. قبرستان میں اور مسلمانوں کی گذرگاہ میں،
8. سورج یا چاند کی طرف منہ کرکے،
9. ڈھلوان (نیچے والی سطح) میں بیٹھ کے اوپر کی جانب پیشاب کرنا،
10. ہوا کے رُخ پر پیشاب کرنا،
11. چوہے، سانپ یا چیونٹی کے بل میں پیشاب کرنا۔
غرض جس جگہ سے بھی لوگوں کا نفع وابستہ ہو اور وہاں ناپاکی یا گندگی ان کے لئے تکلیف دِہ ہو یا اس عمل کی وجہ سے خود اس کو کسی ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو، وہاں پیشاب پاخانہ کرنا جائز نہیں ہے۔
          (البحر الرائق، کتاب الطھارة، باب الانجاس، ۱/ ۶۵۲، دارالکتب العلمیة)
قضائے حاجت کا مفصل طریقہ
          جب کوئی شخص بیت الخلاء میں جانے کا ارادہ کرے، تو اس کے لئے مناسب ہے کہ ایسے وقت میں ہی چلا جائے جب اس پر قضائے حاجت کا بہت زیادہ تقاضا نہ ہو؛ بلکہ یہ شخص اس حالت کے طاری ہونے سے پہلے پہلے ہی بیت الخلاء میں داخل ہو جائے،اس دوران یہ شخص اپنے ساتھ کوئی ایسی چیزجس پر اللہ کا نام (یا قرآن ِپاک کی آیت وغیرہ لکھی ہوئی) ہو، نہ لے جائے، اور ننگے سر بھی نہ جائے، جب دروازے کے پاس پہنچ جائے تو بیت الخلاء میں داخل ہونے والی دعا پڑھنے سے قبل
”بسم اللہ الرحمن الرحیم“
پڑھے، پھر دعائے ماثورہ ”اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ“
پڑھے، پھر بایاں پاوٴں اندر داخل کرے،پھر زمین کے قریب ہوکر ستر کھولے، پھر اپنے پاوٴں کو قدرے کشادہ کر کے اس طرح بیٹھے کہ اس کے بدن کا زیادہ وزن بائیں پاوٴں پر ہو، اس حالت میں یہ شخص اُخروی امور (مثلاً: علم دین ،فقہ وغیرہ) کے بارے میں نہ سوچے، کوئی شخص اِس کو سلام کرے تو اُسے جواب نہ دے، موٴذن کی آواز اس کے کانوں میں پڑے تو اُس کا جواب نہ دے، اس حالت میں اس کو چھینک آئے تو "الحمد للہ" نہ کہے، اپنے اعضائے مستورہ کی طرف نظر نہ کرے، بدن سے نکلنے والی گندگی کی طرف بھی نہ دیکھے، پاخانہ پر تھوک، ناک کی رینٹھ، اور بلغم وغیرہ نہ تھوکے، بہت زیادہ دیر تک وہاں نہ بیٹھے، آسمان کی طرف نہ دیکھے، بلکہ معتدل کیفیت کے ساتھ رہے، پھر جسم سے خارج ہونے والی نجاست کو پانی ڈال کر اچھی طرح بہا دے، پھر جب فارغ ہوجائے تو شرمگاہ کے نیچے کی جانب موجود رَگ پر اپنی انگلی پھیرکے اُسے اچھی طرح پیشاب کے قطروں سے خالی کردے، پھر تین پتھروں سے اپنے عضو سے نجاست دور کرے، پھر فارغ ہوکے سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے پہلے اپنے ستر عورت کو چھپالے، پھر اپنا دایاں پاوٴں بیت الخلاء سے باہر نکال کر قضائے حاجت کے بعد کی دعا پڑھے،
”غُفْرَانَکَ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“۔
(ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس: ۱/۹۵۵، دارعالم الکتب)
قضائے حاجت کے وقت کی احتیاطیں
          تکمیل عبادات کے لئے چوں کہ طہارتِ کاملہ ضروری ہے؛ اس لئے قضائے حاجت سے فراغت پر استنجاء کرتے وقت مبالغے کی حد تک اپنے آپ کو پیشاب کے قطروں اور ناپاکی سے بچانا ضروری ہے، بالخصوص موجودہ دور میں جب کہ پختہ بیت الخلاء اور پانی سے استنجاء کرنے کا معمول عام ہو چکا ہے، احتیاط لازم ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی بیت الخلاء میں داخل ہو، اسی وقت ٹونٹی کھول کے پانی کے ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ کرلے، اس کے علاوہ بیٹ الخلاء میں ٹشوپیپر بھی ضرور رکھنے چاہئیں؛ تا کہ بوقت ضرورت ان کو استعمال کیا جا سکے۔
          جن مقامات میں ٹونٹیوں کی حالت معلوم نہ ہو وہاں لوٹے کو اوپر اٹھا کر ٹونٹی کے قریب کر کے پانی بھریں، پھر نیچے رکھ دیں، اسی طرح پیشاب کرنے میں احتیاط اس طرح برتی جائے کہ پیشاب فلش میں سامنے کی ٹھوس جگہ میں قوت سے نہ ٹکرائے؛ کیوں کہ اس صورت میں اسی قوت کے ساتھ چھینٹیں اڑنے کا قوی امکان ہوتاہے، اس سے حفاظت اسی صورت میں ممکن ہے کہ پیشاب فلش کی سائڈوں میں گرے نہ کہ سامنے والے حصے میں۔
          آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں دین کے اس اہم اور عظیم الشان حکم کو نہایت کامل اور احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین
از: مفتی محمد راشد ڈسکوی‏،
استاذ جامعہ فاروقیہ، کراچی
***