سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خطوط اور مراسلات کا سرنامہ” بسم الله الرحمن الرحیم“ ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کے کفار ومشرکین کو بھی جو خطوط ارسال فرماتے تو ان کی ابتدابھی اسی آیت کریمہ سے فرماتے۔ اس طرح تمام تحریرات اور مراسلات میں اس آیت کریمہ سے ابتدا کرنا سنت اور مسلمانوں کا شعار بن گیا۔ لیکن اس کو چھوڑ کر اب کچھ لوگ”786“ کا عدد یا ”باسمہ تعالیٰ“ لکھتے ہیں، حالاں کہ یہ دونوں ہی مفہوم کے اعتبار سے بالکل غیر واضح اور مبہم ہیں، کیوں کہ786 کا عدد تو بہت سے کفریہ اور شرکیہ کلمات کے حروف کا مجموعہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور ”باسمہ تعالیٰ“ کو اس کی ضمیر کا مرجع محذوف ہونے کی وجہ سے کوئی بھی اپنے اعتقاد کے مطابق جس کو اعلیٰ سمجھتا ہے اُس کے لیے استعمال کر سکتا ہے، یہاں تک کہ ایک بُت پرست بھی اپنے بتوں کو اعلیٰ سمجھتے ہوئے سرنامہ میں یہی کلمہ لکھ سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ1..”786“ اور باسمہ تعالی لکھنے کا رواج کب سے اور کس وجہ شروع ہوا؟
2..رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو قصداً چھوڑ کر مذکورہ بالا عدد یا کلمہ لکھنا شرعاً کیسا ہے؟ کیا یہ بدعت ہے؟
3..اگر بجائے باسمہ تعالیٰ کے بسم الله تعالیٰ لکھا جائے تو کیا اس کے جواز کی گنجائش ہو گی؟
اس مسئلہ کی پوری وضاحت فرماکر ممنوں ومشکور فرمائیں۔
جواب… پہلے تمہیدی طور پر چند باتوں کا جاننا ضروری ہے، اسلام ایک آسان اور سہل شریعت لے کر آیا ہے، اس میں محنت کم اور مزدوری زیادہ، عمل مختصر اور ثواب عظیم ہے، دنیوی مشاغل میں رہتے ہوئے بھی ایک آدمی ذاکر شاغل ہو جائے، رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی قولی اور عملی تعلیمات نے انسان کی ہر نقل وحرکت اور ہر وقت اور ہر مقام کے لیے ذکر الله اور دعاؤں کے ایسے مختصر جملے سکھا دیے ہیں کہ ان کے پڑھنے میں نہ کسی دنیوی کام میں خلل آتا ہے اور نہ پڑھنے والے کو کوئی مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ دین اسلام کی ان تعلیمات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر کام کو ”بسم الله“ سے شروع کرو، چناں چہ”درمنثور میں بحوالہ دارقطنی حضرت ابن عمر رضی الله عنہماسے نقل کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل امین جب کبھی میرے پاس وحی لے کر آئے تو پہلے”بسم الله الرحمن الرحیم“ پڑھتے تھے، گویا” بسم الله“ ایک کیمیا ہے ،جو خاک کو سونا بنا دیتی ہے، اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”کل أمر ذی بال لم یبدأ ببسم الله فھوأقطع“غرض اس پوری تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو فضیلت اور ثواب پوری ” بسم الله الرحمن الرحیم“ پر حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور طریقہ پر حاصل نہیں ہو گا، اب جوابات ملاحظہ ہوں۔
1..”786“ یا ” باسمہ تعالیٰ“ لکھنے کا رواج کب سے شروع ہوا، تحقیق کرنے کے بعد بھی ہمیں اس کا جواب نہیں ملا، جہاں تک وجہ کا ذکر ہے تو الله تعالیٰ کے مبارک ناموں کی بے حرمتی سے بچنے کے لیے یہ طریقے اختیار کیے گئے۔
2..قصداً آپ صلی الله علیہ وسلم کے مبارک طریقے کو نہیں چھوڑنا چاہیے، البتہ جہاں بے ادبی کا احتمال غالب ہو تو وہاں ”786“ یا باسمہ تعالی لکھنے کی گنجائش ہے۔
3..”باسمہ تعالیٰ“ اور ”باسم الله تعالیٰ“ دونوں کا ایک درجہ ہے، البتہ بات وہی ہے جو پہلے ذکر کی گئی۔۔
ل # 30897
اسلام علیکُم
مفتی صاحب
مجھے بہتے کی ٧٨٦ کا کیا مطلب ہے .میرے ابّو جب کوئی بالل یا چالان بناتے ہے تو کگاج پر پہلے ٧٨٦ لکھتے ہے کیا یہ سہی ہے .لوگ ٧٨٦ نمبر کو بہت لکے سمجھتے ہے کیا یہ سہی ہے .مجھے اسکے بارے مے تفسیر سے بہتے .اور ایک سوال یہ ہے کی کیا ففی کی لڑکی کےساتھہ نکاح سہی ہے . کچھ لوگ کہتے ہے کی ماما کی لڑکی کے ساتھ نکاح ہو جاتا ہے لیکن ففی کی لڑکی سے نہیں اور کچھ کہتے ہے کی ففی کی لڑکی سے نکاح تو ہو جاتا ہے لیکن دودھ کا بچاؤ نہیں ہے یہ بتاے کی دودھ کے بچاؤ کا کیا مطلب ہے .صحابہ مے کوئی اسی مصال ہے جہا ففی کی لڑکی سے نکاح کیا گیا ہو اپ یہ فتوا اخوار مے بھی چپواہے اور جو لوگ دودھ کے بچاؤ کی کہتے ہے انکے بارے مے بتاے جزا کلّہ
Published on: Mar 3, 2011
جواب # 30897
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل):424=316-3/1432
786 بسم اللہ الرحمن الرحیم کا عدد ہے اس عدد سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، یہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا بدل نہیں ہے اور نہ ہی اس پر تسمیہ لکھنے کا ثواب ہے، اس لیے اصل تو یہی ہے خط یا کسی اور چیز کے لکھنے کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کی جائے البتہ اگر کسی خط کے غلط جگہ ڈالے جانے کا اندیشہ ہو اس مقصد سے اگر کوئی تسمیہ کی جگہ باسمہ تعالیٰ یا 786 لکھ دے تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) پھوپھی کی لڑکی سے نکاح حلال ہے، البتہ اگر پھوپھی نے مدت رضاعت میں اپنے بھتیجے کو دودھ پلادیا ہو تو پھر اب پھوپھی کی لڑکی سے نکاح کرنا حرام ہوگا، جو لوگ ”دودھ کا بچاوٴ نہیں ہے“ کہہ رہے ہیں غالباً ان کی مراد یہی ہے، بہتر یہی ہے کہ مقامی کسی عالم سے اس کا مطلب پوچھ لیا جائے کیوں کہ مقامی عالم مقامی اصطلاحات کو زیادہ جاننے والا ہوتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند