Saturday, 31 August 2019

ظالم دشمن سے حفاظت کے لئے کیا کرے؟

ظالم دشمن سے حفاظت کے لئے کیا کرے؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دشمنوں کے حملوں کا اندیشہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: 
اَللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِک مِنْ شُرُوْرِهِمْ ​
(ابو داؤد ، کتاب فضائل القرآن، باب ما یقول الرجل إذا خاف قوما، الرقم: ۱۵۳۷)​
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی قوم سے کوئی اندیشہ ہوتا تو اس طرح دعا کرتے «اللہم إنا نجعلک فی نحورہم ، ونعوذ بک من شرورہم» ”اے اللہ! ہم تجھے ان کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔“
بَاب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا خَافَ قَوْمًا
1537صحيححَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَافَ قَوْمًا قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ
تشریح: دشمنوں اور بدطینت لوگوں کے شرور سے بچنے کے لئے مشروع مادی اسباب اختیار کرنا بھی توکل کا لازمی حصہ ہے۔ اور اللہ کی رحمت کا سائل رہنا مسلمان کا فریضہ اور اس کا شعار ہے۔
ایک آدمی ہے تو «اللہم إنا نجعلک فی نحورہم ، ونعوذ بک من شرورہم» کے بعد
"بحق الّا تعلوا علیّ وأتونی مسلمین" کئی آدمی ہیں تو "بحق لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" پوری فوج ہے تو "بحق لا حال ولا قوّۃ الا باللہ" بڑھائیں. 

یہ دعا پڑھ کے پھونک دو
-----------------------------------
سوال: میری خالہ خواب میں ہندؤں کو دیکھتی ہیں اور اس کے بعد ان کو گھبراہٹ ہوتی ہے اور بے چینی رہتی ہے اور بخار آجاتا ہے۔ اس کے لئے کوئی دعا بتادیں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
ہرنماز کے بعد اللهم إنا نجعلک فی نحورھم ونعوذ بک من شرورھم سات مرتبہ اور اول وآخر درود شریف سات سات دفعہ پڑھ کر ہاتھوں پر دم کرکے جسم پر پھیرلیا کریں، یہی عمل رات کو سوتے وقت کرلیا کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
--------------------------------------------
سوال: میں نے خواب میں تین بار (ایک ہفتہ کے اندر) سانپ کو اس طرح دیکھا کہ بہت سارے تندرست جوان سانپ (جو کالا رنگ کا نہیں ہے ) پھن اٹھائے ہوئے مجھے دیکھ رہے ہیں، اور یہ سب سانپ میرے بہت قریب ہیں۔ میں ان سب پر لکڑی پھینک کر وار کرتا ہوں پر سانپ کو کچھ نقصان نہیں ہوتا اور وہ سب مجھ سے بے خوف ہیں۔اس حالت کو دیکھ میں تھوڑا حیرت میں ہوں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
خواب اچھا ہے، ان شآء اللہ آپ کے دشمن کو غلبہ نہیں ملے گا، ہر نماز میں گیارہ گیارہ بار ”اللہم إنا نجعلک فی نحورہم ونعوذ بک من شرورہم“ پڑھ کر دعا کیا کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
--------------------------------------------------------------
سوال: جب ظالم کا ظلم ناقابلِ برداشت ہوجائے اور وہ گھر کی عزت خاک میں ملانا چاہتا ہو تو اس صورت حال میں کیا دعا، وظیفہ یا ورد کریں؟
الجواب وباللہ التوفیق: 
آپ فرض نماز باجماعت، تلاوتِ قرآن اور استغفار کی کثرت کا اہتمام کریں، گھر والوں کو بھی اس کی تاکید کریں اور درج ذیل اعمال بھی کریں، ان شآءاللہ  اللہ کوئی آپ کا اور گھر والوں کا بال بیکا نہیں کرسکے گا: 
1- شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے "منزل" کے نام مختلف قرآنی دعاؤں پر مشتمل مختصر سا رسالہ مرتب کیا ہے، جو بازار میں عام ملتا ہے، روزانہ ایک بار ان آیات کا پڑھ لیں اور اسے اپنی زندگی کا معمول بنالیں. 
2- یہ دو دعائیں کثرت سے پڑھیں: حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلْ نِعْمَ المَوْلیٰ وَنِعْمَ النَّصِیْر اور اللھم اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وآمِنْ رَوْعَاتِنَا.
فتوی نمبر: 143711200028 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
---------------------------------------------------------
دعاء انس رضی اللہ عنہ کی تحقیق
یہ دعا مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص ہیں، آپ نے دس سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے۔
دعا کا واقعہ یہ ہےکہ: ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، حجاج نے اپنے اصطبل خانہ کے گھوڑوں کا معائنہ کرواکے تفاخرا ً حضرت انس سے دریافت کیا کہ: کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں بھی ایسے گھوڑے تھے؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے تو جہاد کے لئے تھے، فخر وغرور ونمائش کے لئے نہیں تھے۔
 اس جواب پر حجاج آپ پر غضب ناک ہوگیا۔ اور اس نے کہا کہ: اے انس (رضی اللہ عنہ) اگر تو نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت نہ کی ہوتی اور امیر المومنین عبدالملک بن مروان کا خط تمہاری سفارش میں نہ آیا ہوتا کہ اس نے تمہارے ساتھ رعایت کرنے کے بارے میں لکھا ہے، تو میں تمہارے ساتھ وہ کچھ کرتا جو میرا دل چاہتا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں اللہ کی قسم تو ہرگز میرے ساتھ کچھ نہیں کرسکتا ،اور میری جانب بری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ بلاشبہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے چند کلمات کو سن رکھا ہے، میں ہمیشہ ان کلمات کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات کے طفیل میں کسی بادشاہ کے غلبہ اور شیطان کی برائی سے نہیں ڈرتا۔
حجاج یہ سن کر ہیبت زدہ ہوگیا اور ایک ساعت کے بعد سر اٹھاکر کہا: اے ابو حمزہ وہ کلمات مجھے سکھا دو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: نہیں میں ہرگز وہ کلمات تمہیں نہیں سکھاؤں گا کیوں کہ تم اس کے اہل نہیں ہو۔
جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی رحلت کا وقت قریب آیا تو آپ کے خادم حضرت ابان رضی اللہ عنہ کے استفسار پر آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو یہ کلمات سکھائے۔ اور کہا کہ انہیں صبح و شام پڑھاکر اللہ تعالیٰ تجھے ہر آفت سے حفاظت میں رکھے گا۔
دعاء کے کلمات مختلف کتابوں میں کمی بیشی کے ساتھ اس طرح  ہیں:
اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ،
بِسْمِ اللَّهِ عَلَى نَفْسِي وَدِينِي ، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى أَهْلِي وَمَالِي ، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ أَعْطَانِي رَبِّي،
بِسْمِ اللَّهِ خَيْرِ الْأَسْمَاءِ ، بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ دَاءٌ،
بِسْمِ اللَّهِ افْتَتَحْتُ، وَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ،
اللَّهُ اللَّهُ رَبِّي، لَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا،
أَسْأَلُكَ اللَّهُمَّ بِخَيْرِكَ مِنْ خَيْرِكَ، الَّذِي لَا يُعْطِيهُ أَحَدٌ غَيْرُكَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ،
اجْعَلْنِي فِي عِيَاذِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ سُلْطَانٍ، وَمِنْ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ ، وَمِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ،  
إِنَّ وَلِيَّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ، وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ ، فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ: حَسْبِيَ اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ، عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
اللّٰهم إني أستَجيرُك مِنْ شَرِّ جَمِيعِ كُلِّ ذِي شَرٍّ خَلَقْتَهُ، وَأَحْتَرِزُ بِكَ مِنْهُمْ،
وَأُقَدِّمُ بَيْنَ يَدَيَّ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ}، وَمِنْ خَلْفِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ يَمِينِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ يَسَارِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَمِنْ فَوْقِي مِثْلَ ذَلِكَ ، وَمِنْ تَحْتِي مِثْلَ ذَلِكَ،
وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ.
واقعہ کی تخریج:
عمل اليوم والليلة لابن السني (ص: 307)، الدعاء للطبراني (ص: 323)، الفوائد المنتقاة لابن السماك (ص: 27)،المنتظم في تاريخ الملوك والأمم (6/ 339)، تاريخ دمشق لابن عساكر (52/ 259) ، مجموع رسائل الحافظ العلائي (ص: 358) الخصائص الكبرى (2/ 298) ، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد (10/ 228)
واقعہ کی اسانید:
۱۔ أبان بن أبي عياش، عن أنس بن مالك رضي الله عنه۔
عمل اليوم والليلة لابن السني (ص: 307)، تاريخ دمشق لابن عساكر (52/ 259) الخصائص الكبرى (2/ 298) ، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد (10/ 228)۔
2۔ مُحَمَّدُ بْنُ سَهْل بن عُمَيرٍ القصَّارُ، عن أبِيهِ ، عَن أَنَس بْنِ مَالِكٍ
(الدعاء للطبراني ص: 323)، مجموع رسائل الحافظ العلائي (ص: 358)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم (6/ 339)
3- يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ
(الثاني من الفوائد المنتقاة لابن السماك ص: 27)
4- عبد الملك بن خصاف الجزري ، عن خصيف بن عبد الرحمن الجزري ، عن أنس
شرف المصطفى للخركوشي 5/7
5- علاء بن زيد الثقفي ، عن أنس 
مجموع رسائل الحافظ العلائي (ص: 359) بدون سند.
اسانید کا حال:
ابان بن ابی عیاش تو متروک ہے، تو اس کی روایت اگر تفرد ہو توشدید الضعف ہوگی، لیکن بقیہ اسانید کے راویوں کی متابعت کی وجہ سے ضعف میں تخفیف  ہوگی۔ بقیہ اسانید وطرق سے ناواقفیت کی بناء پر بعض حضرات نے اس روایت کو باطل قرار دیا، جو صحیح نہیں ہے۔
محمد بن سہل بن عمیر قصار کی توثیق مسلمۃ بن قاسم سے زین الدین قاسم بن قطلوبغا نے کتاب (الثقات ۸/۳۲۹) میں نقل کی ہے، البتہ ان کے والد کا حال معلوم نہیں ھے۔
یحیی بن عباد، اس کے باپ دادا کا بھی حال معلوم نہیں ہے، کتابوں میں ترجمہ نہیں ملا، تو سند میں مجاہیل کی وجہ سے ضعیف مانی جائے گی۔
چوتھی سند کا حال ٹھیک ہے، کسی راوی میں جرح شدید نہیں ہے، تو اس کا اعتبار کرسکتے ہیں۔
پانچویں سند بھی غیرمعتبر ہے، علاء بن زید متروک منکرالحدیث ہے۔
متن حدیث کے شواہد:
ظالم حاکم سے اندیشہ کے وقت پڑھنے کی جو دعائیں وارد ہیں، ان میں اس طرح کے الفاظ منقول ہیں، جو زیر بحث روایت کی تایید کرسکتے ہیں، مثال کے طور پر:
* حديث عبد الله بن مسعود: «إِذَا تَخَوَّفَ أَحَدُكُمُ السُّلْطَانَ فَلْيَقُلِ: اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ، وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ " - يَعْنِي الَّذِي يُرِيدُ - " وَشَرِّ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ، وَأَتْبَاعِهِمْ أَنْ يُفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ»
رواه ابن أبي شيبة، والطبراني في الدعاء 1056، والبخاري في الأدب. 707  وهو شاهد لا بأس به إلا أنه روي مرفوعا وموقوفا.
* حديث ابن عمر: إِذَا خِفْتَ سُلْطَانًا أَوْ غَيْرَهُ، فَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ۔
 رواه ابن السني في عمل اليوم والليلة (345) وهو شاهد ضعيف.
* حديث ابن عباس: إِذَا أَتَيْتَ سُلْطَانًا مَهِيبًا تَخَافُ أَنْ يَسْطُوَ بِكَ فَقُلِ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِهِ جَمِيعًا، اللَّهُ أَعَزُّ مِمَّا أَخَافُ وَأَحْذَرُ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمُمْسِكِ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ أَنْ يَقَعْنَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ، مِنْ شَرِّ عَبْدِكَ فُلَانٍ، وَجُنُودِهِ، وَأَتْبَاعِهِ، وَأَشْيَاعِهِ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ، إِلَهِي كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّهِمْ، جَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَعَزَّ جَارُكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ (ثَلَاثُ مَرَّاتٍ).
 رواه البخاري في الأدب المفرد 708 وابن أبي شيبة 29177 والطبراني في الدعاء 1060. وهو شاهد لا بأس به، رجاله رجال الصحيح.
اسی طرح  (بِسْمِ اللَّهِ عَلَى نَفْسِي وَدِينِي، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى أَهْلِي وَمَالِي) معرفۃ الصحابہ لأبی نعيم (1/ 438) میں بدر بن عبد اللہ مزنی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہیں۔
(بِسْمِ اللَّهِ خَيْرِ الْأَسْمَاءِ) التحیات کی روایات میں حضرت عمر رضی اللہُ تعالیٰ عنہ کی روایت سے منقول ہیں، السنن الكبرى للبيهقي (2/ 203)۔
(بِسْمِ اللَّهِ خَيْرِ الْأَسْمَاءِ بسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ دَاءٌ) مصنف ابن ابی شيبہ (5/ 138) میں حديث 24500.
خلاصہ:
دعاء انس صحیح ہے، اس کے پڑھنے کی اجازت ہے، متن میں کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جن پر شرعا کوئی گرفت ہو، اس کی اسانید میں اگرچہ ضعف ہے، لیکن تعدد طرق سے ضعف کا  انجبار ہوجائے گا، اور اس کے الفاظ کے شواہد بھی احادیث میں وارد ہیں۔
ھذا ما تیسر جمعہ وترتیبہ، والعلم عند اللہ

ماہ وسال کی مبارکباد دینے کی کیا حقیقت ھے؟

ماہ وسال کی مبارکباد دینے کی کیا حقیقت ھے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
ماہ وسال کی مبارک باد دینا نہ سنت ہے نہ بدعت۔ بلکہ جائز ومباح ہے۔
عیدین، شادی بیاہ کے موقعوں سے مبارکباد دینا بھی اسی قبیل سے ہے۔ احادیث واثار صحابہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ائمہ متبوعین کے یہاں بھی مجموعی طور پہ جواز مصرح ہے۔ہاں ضروری نہ سمجھا جائے ۔ اور نئے سال منانے کا باضابطہ جشن نما اہتمام نہ کیا جائے۔
مبارکباد دینے اور نیک خواہشات کے اظہار کی حد تک جواز میں کوئی کلام نہیں۔
قَال ابْنُ حَجَرٍ الْعَسْقَلاَنِيُّ: إِنَّهَا (التهنئة بالاعوام والاشهر) مَشْرُوعَةٌ، وَاحْتَجَّ لَهُ بِأَنَّ الْبَيْهَقِيّ عَقَدَ لِذَلِكَ بَابًا فَقَال: بَابُ مَا رُوِيَ فِي قَوْل النَّاسِ بَعْضِهِمْ لِبَعْضٍ فِي يَوْمِ الْعِيدِ: تَقَبَّل اللَّهُ مِنَّا وَمِنْك، وَسَاقَ مَا ذَكَرَهُ مِنْ أَخْبَارٍ وَآثَارٍ ضَعِيفَةٍ لَكِنْ مَجْمُوعُهَا يُحْتَجُّ بِهِ فِي مِثْل ذَلِكَ، ثُمَّ قَال: وَيُحْتَجُّ لِعُمُومِ التَّهْنِئَةِ لِمَا يَحْدُثُ مِنْ نِعْمَةٍ أَوْ يَنْدَفِعُ مِنْ نِقْمَةٍ بِمَشْرُوعِيَّةِ سُجُودِ الشُّكْرِ وَالتَّعْزِيَةِ، وَبِمَا فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ فِي قِصَّةِ تَوْبَتِهِ لَمَّا تَخَلَّفَ عَنْ غَزْوَةِ تَبُوكٍ أَنَّهُ لَمَّا بُشِّرَ بِقَبُول تَوْبَتِهِ وَمَضَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ إِلَيْهِ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَهَنَّأَهُ. وَكَذَلِكَ نَقَل الْقَلْيُوبِيُّ عَنِ ابْنِ حَجَرٍ أَنَّ التَّهْنِئَةَ بِالأَْعْيَادِ وَالشُّهُورِ وَالأَْعْوَامِ مَنْدُوبَةٌ. قَال الْبَيْجُورِيُّ: وَهُوَ الْمُعْتَمَدُ ( نهاية المحتاج 2 / 391، ومغني المحتاج 1 / 316، وأسنى المطالب 1 / 283، والقليوبي وعميرة 1 / 310، وحاشية البيجوري 1 / 233. الموسوعة الفقهية)
شکیل منصور القاسمی
یکم محرم الحرام سنہ ١٤٣٩هجري
https://saagartimes.blogspot.com/2019/08/blog-post_31.html


یکم محرم کو 113 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا؟

یکم محرم کو 113 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا؟
سوال: آج کل یہ کہا جا رہا ہے کہ محرم کی پہلی تاریخ کو 113 مرتبہ بسم اللہ لکھ کر گھر پر رکھنےسے ہر آفت اور بلا سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ اس کے بارے میں مولانا شفیع عثمانی صاحب نے جواہرالفقہ میں لکھا ہے؟ الجواب وباللہ التوفیق: مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ "جواھر الفقہ" میں لکھتے ہیں: "جو شخص محرم کی پہلی تاریخ کو ایک سو تیرہ (113) مرتبہ پوری "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کاغذ پر لکھ کر اپنے پاس رکھے گا، ہر طرح کی آفات ومصائب سے محفوظ رہے گا، مجرب ہے۔" (جواھر الفقہ: 2/187) یہ بزرگوں کے تجربات میں سے ہے، سنت یا لازم سمجھے بغیر اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔


-------------------------------------------------------------
ماہ وسال کی مبارکباد دینے کی کیا حقیقت ھے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
ماہ وسال کی مبارک باد دینا نہ سنت ہے نہ بدعت۔ بلکہ جائز ومباح ہے۔
عیدین، شادی بیاہ کے موقعوں سے مبارکباد دینا بھی اسی قبیل سے ہے۔ احادیث واثار صحابہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ائمہ متبوعین کے یہاں بھی مجموعی طور پہ جواز مصرح ہے۔ہاں ضروری نہ سمجھا جائے ۔ اور نئے سال منانے کا باضابطہ جشن نما اہتمام نہ کیا جائے۔
مبارکباد دینے اور نیک خواہشات کے اظہار کی حد تک جواز میں کوئی کلام نہیں۔
قَال ابْنُ حَجَرٍ الْعَسْقَلاَنِيُّ: إِنَّهَا (التهنئة بالاعوام والاشهر) مَشْرُوعَةٌ، وَاحْتَجَّ لَهُ بِأَنَّ الْبَيْهَقِيّ عَقَدَ لِذَلِكَ بَابًا فَقَال: بَابُ مَا رُوِيَ فِي قَوْل النَّاسِ بَعْضِهِمْ لِبَعْضٍ فِي يَوْمِ الْعِيدِ: تَقَبَّل اللَّهُ مِنَّا وَمِنْك، وَسَاقَ مَا ذَكَرَهُ مِنْ أَخْبَارٍ وَآثَارٍ ضَعِيفَةٍ لَكِنْ مَجْمُوعُهَا يُحْتَجُّ بِهِ فِي مِثْل ذَلِكَ، ثُمَّ قَال: وَيُحْتَجُّ لِعُمُومِ التَّهْنِئَةِ لِمَا يَحْدُثُ مِنْ نِعْمَةٍ أَوْ يَنْدَفِعُ مِنْ نِقْمَةٍ بِمَشْرُوعِيَّةِ سُجُودِ الشُّكْرِ وَالتَّعْزِيَةِ، وَبِمَا فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ فِي قِصَّةِ تَوْبَتِهِ لَمَّا تَخَلَّفَ عَنْ غَزْوَةِ تَبُوكٍ أَنَّهُ لَمَّا بُشِّرَ بِقَبُول تَوْبَتِهِ وَمَضَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ إِلَيْهِ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَهَنَّأَهُ. وَكَذَلِكَ نَقَل الْقَلْيُوبِيُّ عَنِ ابْنِ حَجَرٍ أَنَّ التَّهْنِئَةَ بِالأَْعْيَادِ وَالشُّهُورِ وَالأَْعْوَامِ مَنْدُوبَةٌ. قَال الْبَيْجُورِيُّ: وَهُوَ الْمُعْتَمَدُ ( نهاية المحتاج 2 / 391، ومغني المحتاج 1 / 316، وأسنى المطالب 1 / 283، والقليوبي وعميرة 1 / 310، وحاشية البيجوري 1 / 233. الموسوعة الفقهية)
والله أعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
یکم محرم الحرام سنہ ١٤٣٩هجري
--------------------------------
سال نو کا جشن اورمسلمان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے سال کا جشن منایا؟ کیا صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپس میں ایک دوسرے کونئے سال کی مبارک باد دی؟
کیا تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ علیہ کے زمانے میں اس رسم کو منایاگیا؟ کیا دیگر مسلمان حکمرانوں نے اس کے جشن کی محفلوں میں شرکت کی؟ حالانکہ اس وقت تک اسلام ایران، عراق، مصر، شام اور مشرقِ وسطیٰ کے اہم ممالک تک پھیل چکا تھا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہر عقل مند شخص نفی میں دے گا۔ پھر آج کیوں مسلمان اس کام کو انجام دے رہے ہیں؟
آخر یہ کس نے ایجاد کیا؟ کو ن سی قوم نئے سال کا جشن مناتی ہے؟ کیوں مناتی ہے؟ اور اس وقت مسلمانوں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ ان چند سطور کے اندر اسی کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تیوہار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تیوہار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تیوہار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے؛ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تیوہار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے۔ دراصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کا ایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ۲۵/ دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔ نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور ۳۱/دسمبر کی رات میں ۱۲/ بجنے کا انتظار کیا جاتا ہے اور ۱۲/بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھرپور انتظام رہتا ہے؛ اس لیے کہ ان کے تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اوّل شراب دوسرے عورت۔ آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور ۳۱/ دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کردیا ہے؛ جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے یہی اسلامی کیلینڈر ہے؛ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔ آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے، زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یا کم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا؛ بلکہ افسوس کیا جاتا ہے۔ گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔ اسی کو شاعر نے کہا ہے: غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔ (قیمة الزمن عند العلماء، ص: ۲۷)
حسن بصری رحمة اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزرگیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔ (حوالہ بالا)
یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”مِنْ حُسْنِ إسْلاِمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَیَعْنِیْہِ“۔ (ترمذی ۲/۵۸ قدیمی) ترجمہ: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔ یہ مختلف طر ح کے جشن یہود و نصاری اور دوسری قوموں میں منائے جاتے ہیں؛ جیسے: مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے، چلڈرنز ڈے اور ٹیچرس ڈے وغیرہ؛ اس لیے کہ ان کے یہاں رشتوں میں دکھاوا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے، اولاد کو بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال دیا جاتاہے اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا؛ اس لیے انہوں نے ان سب کے لیے الگ الگ دن متعین کر رکھے ہیں جن میں ان تمام رشتوں کا دکھلاوا ہوسکے؛ مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے اسلام نے سب کے حقوق مقرر کردیے ہیں اور پورا ایک خاندانی نظام موجود ہے؛ اس لیے نہ ہمیں ان دکھلاووں کی ضرورت ہے اور نہ مختلف طرح طے ڈے منانے کی؛ بل کہ مسلمانوں کو اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے؛تاکہ دوسری قوموں کی مشابہت سے بچا جاسکے؛ اس لیے کہ ہمارے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“۔ (ابودوٴد ۲/۲۰۳ رحمانیہ) ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس موقع پر مسلمانوں کو کیا رویّہ اختیار کرنا چاہیے جو قرآن و احادیث کی روشنی میں صحیح ہو؟ نئے سال سے متعلق کسی عمل کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو قرون اولی کا کو ئی اور عمل تو مل نہ سکا؛ البتہ بعض کتب حدیث میں یہ روایت نگاہوں سے گذری کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتا تھے: ”اللّٰہُمَّ أدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍمِّنَ الشَّیْطَانِ“ (المعجم الاوسط للطبرانی ۶/۲۲۱ حدیث: ۶۲۴۱ دارالحرمین قاہرہ) ترجمہ: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام او راپنی رضامندی؛ نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔ اس دعا کو پڑھنا چاہیے؛ نیز اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصا کر نے چاہئیں یا دوسرے الفاظ میں کہ لیجیے کہہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے:
(۱) ماضی کا احتساب
(۲) آگے کا لائحہ عمل۔
ماضی کا احتساب نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائے گی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“۔ (ترمذی ۴/ ۲۴۷ ابواب الزہد، بیروت) ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔ اس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا موٴاخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔ اسی کو اللہ جل شانہ نے اپنے پاک کلام میں ایک خاص انداز سے ارشاد فرمایا ہے: ”وَأنْفِقُوْا مِنْ مَا رَزَقْنَاکُمْ مِنْ قَبْلِ أنْ یَأتِيَ أحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلاَ أخَّرْتَنِيْ إلیٰ أجَلٍ قَرِیْبٍ فَأصَّدَّقَ وَأکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ، وَلَنْ یُّوٴَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا إذَا جَاءَ أجَلُہَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ“۔(سورئہ منا فقون، آیت/ ۱۰،۱۱) ترجمہ: اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے، اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہوجاوٴں ۔ اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالی ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالی اچھی طرح باخبر ہے۔ آگے کا لائحہ عمل اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟ انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔ یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ“۔ (مشکاة المصابیح ۲/۴۴۱ کتاب الرقاق) ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو
(۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے
(۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے
(۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے
(۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے
(۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے: ”وَأنْ لَیْسَ لِلإنْسَانِ إلاَّ مَاسَعٰی، وَأنَّ سَعْیَہ سَوْفَ یُرٰی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الأوْفیٰ“۔ (سورئہ نجم، آیت/ ۳۹،۴۰،۴۱) ترجمہ: اور ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بل کہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔ ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں؛ بل کہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔ ساتھ ساتھ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک اہم امر کی طرف بھی متوجہ کردیا جائے کہ مسلمانوں کا نیا سال جنوری سے نہیں؛ بل کہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جو ہوچکا ہے اور ہم میں سے اکثروں کو اس کا علم بھی نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں؛ اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے؛ چونکہ ہر قوم اپنی تاریخ کو کسی خاص واقعے سے مقرر کرتی ہے؛ اس لیے مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو خلیفہٴ ثانی حضرت عمر فاروق  کے دورِ خلافت میں حضرت علی المرتضی کے مشورے سے واقعہ ہجرت سے مقرر کیا ۔ ہمیں ہجری سن دوسرے مروجہ سنین سے بہت سی باتوں میں منفرد نظر آتا ہے ہجری سال کی ابتدا چاند سے کی گئی اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑاگیا؛ تاکہ چاند کو دیکھ کر ہر علاقے کے لوگ خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا جنگلوں میں، شہروں میں بستے ہوں یا دیہاتوں میں؛ نیز دور دراز جزیروں میں رہنے والے حضرات بھی چاند دیکھ کر اپنے معاملات بہ آسانی طے کرسکیں اور انھیں کسی طرح کی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ نہ اس میں کسی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے اور نہ کسی مادی سبب کی احتیاج ہے۔ اسلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مساوات ہے او رایک خصوصیت ہمہ گیری بھی ہے، اسلام نے ان خصوصیات کی حصانت و حمایت میں یہ پسند فرمایا کہ اسلامی مہینے ادلتے بدلتے موسم میں نہ آیا کریں۔ ذرا اسلام کے رکن چہارم ماہ رمضان کے روزوں پر غور کرو کہ اگر اسلام میں شمسی مہینہ مقرر فرمادیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے آسانی میں اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے تنگی و سختی میں پڑجاتے۔ پس اسلام کی مساوات ِجہاں گیری کا مقتضا ہی یہ تھا کہ اسلامی سال قمری حساب پر ہو۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: والشَّمسَ والقمرَ حُسبانا۔ حُسبانا بالضم مصدر ہے جو حساب کرنے اور شمار کرنے کے معنی میں آتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے آفتاب و ماہتاب کے طلوع وغروب اور ان کی رفتار کو ایک خاص حساب سے رکھا ہے جس کے ذریعے انسان سالوں، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں کا؛ بلکہ منٹوں اور سکنڈوں کا حساب بآسانی لگا سکتا ہے یہ اللہ جلَّ شانُہ ہی کی قدرتِ قاہرہ کا عمل ہے کہ ان عظیم الشان نورا نی کروں او ران کی حرکات کو ایسے مستحکم اور مضبوط انداز سے رکھا کہ ہزاروں سال گذرجانے پر بھی ان میں کبھی ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا، یہ دونوں نور کے کرے اپنے اپنے دائرے میں ایک معین رفتار کے ساتھ چل رہے ہیں: ”لا الشمس ینبغی لہا أن تدرک القمر ولا اللیل سابق النہار“ ہزاروں سال میں بھی ان کی رفتار میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا، قرآن کریم کے اس ارشاد نے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ سالوں اور مہینوں کا حساب شمسی بھی ہوسکتا ہے اور قمری بھی دونوں ہی اللہ تعالی کے انعامات ہیں یہ دوسری بات ہے کہ عام ان پڑھ دنیا کی سہولت اور ان کو حساب کتاب کی الجھن سے بچانے کے لیے اسلامی احکام میں قمری سن وسال استعمال کیے گیے اور چوں کہ اسلامی تاریخ اور اسلامی احکام سب کا مدار قمری حساب پر ہے؛ اس لیے امت پر فرض ہے کہ وہ اس حساب کو باقی رکھے۔ دوسرے حسابات شمسی وغیرہ اگر کسی ضرورت سے اختیار کیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں؛ لیکن قمری حساب کو بالکل نظر انداز او رمحو کردینا گناہ عظیم ہے جس سے انسان کو یہ بھی خبر نہ رہے کہ رمضان کب آئیگا اور ذی الحجہ اور محرم کب ۔ (معارف القرآن ۳/۴۰۲،۴۰۳) نیز حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: چونکہ احکام شریعت کا مدار حساب قمری پر ہے؛ اس لیے اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنالے جس سے حسابِ قمری ضائع ہوجائے تو سب گنہگار ہوں گے اور اگر وہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی مباح ہے؛ لیکن سنتِ سلف کے خلاف ضرور ہے اور حساب قمری کا برتنا بہ وجہ اس کے فرضِ کفایہ ہونے کے لا بُد افضل و احسن ہے۔ (ماخوذ از بیان القرآن ص: ۵۸ ، ادارئہ تالیفات اشرفیہ پاکستان) اس لیے ہمیں اپنی اس تاریخ قمری کو یکسر فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بچائے اور آقائے نامدار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
از: محمد حذیفہ ہردے پوری مدرس مدرسہ قاسم العلوم تیوڑہ، مظفرنگر یوپی
کیا صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپس میں ایک دوسرے کونئے سال کی مبارک باد دی؟

Friday, 30 August 2019

مجھے برے برے ڈراؤنے خواب نظر آتے ہیں

مجھے برے برے ڈراؤنے خواب نظر آتے ہیں

سوال: مجھے برے برے ڈراؤنے خواب نظر آتے ہیں۔ بسا اوقات بڑے بڑے اژدہے اور سانپ مجھے جکڑے ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ براہ کرم، مجھے بتائیں کہ میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ روزی نہیں ملتی، کچھ کام نہیں بنتا۔ کیس سے باعزت بری ہونے کے لیے اور جلد سے جلد کیس ختم ہونے کے لیے. مجھے روزی ملنے کے لیے اور اگر کوئی کچھ کروارہا ہو تو اس کے توڑ کے لیے یا کاٹنے کے لیے بھی وظیفہ بتادیں۔ 

الجواب وباللہ التوفیق:
باوضو سویا کریں ایک تسبیح درود شریف کی سونے سے قبل پڑھنے کا اہتمام کریں، ہرنماز کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف پھر گیارہ دفعہ سورہٴ قریش اس کے بعد گیارہ دفعہ درود شریف پڑھا کریں۔ گھر میں تمام اہل خانہ نماز اور تلاوت قرآن کا اہتمام کرتے رہیں اور روزانہ دو رکعت نفل صلوة الحاجة پڑھ کر دعاء کرلیا کریں۔ اللہ پاک جملہ پریشانیوں سے نجات عطا فرمائے، سعادت دارین سے نوازے اور تمام مکارہ و فتن سے محفوظ رکھے۔


Thursday, 29 August 2019

کیا حضرت رسول اکرم صلی الله علیه وسلم نے نماز میں درود شریف قرات فرمائی ہے؟

کیا حضرت رسول اکرم صلی الله علیه وسلم نے نماز میں درود شریف قرات فرمائی ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق:
جی
فرمائی ہے
جیسا کہ مسلم شریف بیہقی وغیرہ کتب احادیث میں موجود ہے

----------------------------------------------------------
الجواب بعون الملک الوھاب…
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز میں درج ذیل درو د پڑھا کرتے تھے۔
اللھم صل علی محمد واٰل محمد کما صلیت علی ابراہیم واٰل ابراہیم وبارک علی محمد واٰل محمد کما بارکت علی ابراہیم واٰل ابراہیم انک حمید مجید۔ (السنن الکبری للبیھقی۲/۱۴۷، مطبع ادارہ تالیفات اشرفیہ)
نیزاس کے علاوہ بھی الفاظ کی کمی زیادتی کے ساتھ، مختلف روایات میں درود پڑھنے کا حکم ہے۔ جیسے اللھم صل علی محمد وعلی اٰل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی اٰل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید۔ (ابن ماجہ صـ۶۵، مستدرک حاکم علی الصحیحین ۳/۱۶۰) جہاں تک ’’آپ صلی الله علیه وسلم کے لئے درود کے حکم‘‘ کی بات ہے تو آپ کے لئے اپنے اوپر درود بھیجنا واجب نہیں تھا۔
لما فی السنن الکبری للبیھقی (۱۴۷/۲): عن کعب بن عجرۃ عن النبی ﷺ انہ کان یقول فی الصلوۃ اللھم صل علی محمد واٰل محمد کما صلیت علی ابراھیم واٰل ابراھیم وبارک علی محمد واٰل محمد کما بارکت علی ابراھیم واٰل ابراھیم انک حمید مجید۔
وفی الدر المختار(۵۱۵/۱): وفی المجتبی: لا یجب علی النبی ﷺ ان یصلی علی نفسہ۔

وفی الشامیۃ تحتہ: (قولہ لا یجب علی النبی ﷺ ان یصلی علی نفسہ) لانہ غیر مراد بخطاب صلوا ولا داخل تحت ضمیرہ کما ھو المبتادر من ترکیب۔ صلواعلیہ۔ وقال فی النھر: لا یجب علیہ بناء علی ان۔ یایھا الذین امنوا۔ لا یتناول الرسول ﷺ، بخلاف۔ یایھا الناس۔ یا عبادی کما عرف فی الاصول اھـ۔
وفی النھر الفائق(۲۲۳/۱): قال فی ((المجتبی)) معزیا الی ((خزانۃ الاکمل)): ھذا فی حق الامۃ اما ھوفلا یجب علیہ ان یصلی علی نفسہ انتھی بناء علی ان (یایھا الذین امنوا) لاتتناول الرسول بخلاف (یایھاالناس) (یاعبادی) کما عرف فی الاصول۔
از کتاب النوازل

العبد محمد عفی عنہ خادم دارالافتاء والارشاد آندھلی / اسلام پور
-----------------
http://saagartimes.blogspot.com/2019/08/blog-post_93.html

عورتوں کی مکاری

عورتوں کی مکاری
ایس اے ساگر
عورت اور مرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کی بجائے مردوں کی حاکمیت ہے۔ عورت کو صنفِ نازک کہا جاتا ہے۔ صنفِ نازک کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مرد کر لیتا ہے۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے۔  جب سیدنا یوسف کی قمیص دیکھی گئی تو وہ آگے سے پھٹی ہوئی تھی۔ عزیز مصر کو معلوم ہوگیا کہ اصل مجرم اس کی بیوی ہے اور اس کا بیان محض فریب کاری ہے۔ لیکن اپنی اور اپنے خاندان کی بدنامی کی وجہ سے اس نے اپنی بیوی پر کوئی مواخذہ نہیں کیا، مبادا یہ بات پھیل جائے صرف اتنا ہی کہا کہ یہ بیان تیرا ایک چلتر تھا اور یوسف (علیہ السلام) پر بہت بڑا بہتان تھا اور تم عورتوں کے چلتر بڑے گمراہ کن ہوتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کی تم دہری مجرم ہو۔ ایک اسے بدکاری پر اکسایا۔ دوسرے اس پر الزام لگا دیا۔ لہذا اب اس سے معافی مانگو- بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت میں (اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ 28؀) 12 ۔ یوسف :28) عزیز مصر کا قول نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ چناچہ کسی بزرگ سے منقول ہے وہ کہا کرتے تھے کہ میں شیطان سے زیادہ عورتوں سے ڈرتا ہوں۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کا ذکر کیا تو فرمایا کہ شیطان کا مکر کمزور ہے۔ (٤: ٧٦) اور جب عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا کہ تمہارا مکر بہت بڑا ہے اور درج ذیل حدیث بھی اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے۔- سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ سخت کوئی فتنہ نہیں چھوڑا (بخاری، کتاب النکاح، باب مایتقی من شؤم المراۃ)- اسی طرح (وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ ښ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ 29؀ ) 12 ۔ یوسف :29) سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یوسف سے اپنے گناہ کی معافی مانگو اور یہ بھی کہ اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو۔ چھٹی صدی کے مشہور فلاسفر طاس ہارڈونگ کا قول ہے: میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ عورت ایک شیطانی جادو ہے جس کے اثر سے محفوظ رہنا نہایت دشوار امر ہے۔ عورت ایک ایسے پھول کی مانند ہے جو بظاہر خوشنما نظر آتا ہے لیکن اس میں بے شمار کانٹے ہیں۔
بدلہ لینے میں طاق:
ﺟﻤﻌﮧ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﮯ ﺧﻄﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎ ﮈﺍﻻ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻝ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺑﯿﺲ ﺑﯿﺲ ﻣﮑﺎﺭﯾﺎﮞ ﭼُﮭﭙﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺍﯾﮏ ﺩﯾﮩﺎﺗﯽ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳُﻨﺎ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺑﮭﻠﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﺎ ﺳﺮ ﮔﻨﺠﺎ ﮐﺮﮈﺍﻻ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﻭﭦ ﭘﭩﺎﻧﮓ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﺻﻔﺖ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺗﮭﯽ، ﺧﯿﺮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺩُﮐ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ؟؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﺑﻮﻻ: ﺍﺭ ﻧﯿﮏ ﺑﺨﺖ ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮨﮯ ﻧﺎ ... ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻣﮑﺎﺭﯼ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﺩﻭ۔
ﻋﻮﺭﺕ ﺑﮩﺖ ﺍُﺩﺍﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺍِﺱ ﺑﯿﻮﻗﻮﻑ ﮐﻮ ﺍﺻﻞ ﻣﮑﺎﺭﯼ ﺩﮐﮭﺎﻧﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﭨﮭﺎﻧﯽ۔ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﮔﻠﮯ ﺭﻭﺯ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻦ ﮐﻠﻮ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﭽﮭﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮕﮧ ﺟﮕﮧ ﻣﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﺎﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﻮ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍل لیا ﺍﻭﺭ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭼُﮭﭙﺎﺩﯾﺎ۔
ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﺟﺐ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺟﮕﮧ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﻣﻠﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯽ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﭽﮭﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﮭﯿﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺗﮭﻤﺎﺩﯾﺎ ﮐﮧ: ﯾﮧ ﻟﻮ ﺁﺝ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﭘﮑﺎﺋﯿﻨﮕﮯ، 
ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺋﯽ ﺍﺱ وقت؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﺑﻮﻻ: ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗ ﻟﮕﯽ ﮨﯿﮟ، 
ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﺎﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﮐﺮ کہیں ﭼُﮭﭙﺎ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﮐﺎج ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮﮔﺌﯽ، 
ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ وقت ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ: ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻻﺅ ﺗﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻮﻟﯽ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮑﺎﺅں گی ﻧﺎ ؟؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﮔﺮﺝ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ: ﺍﻭﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﻻﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﮑﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ؟؟؟
ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻮﻟﯽ: ﮐﻮﻧﺴﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ؟؟؟
ﺷﻮﮨﺮ: ﻭﮨﯽ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍﯼ ﺗﮭﯽ،
ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮐﮧ ﺟﻠﺪﯼ ﺁﺟﺎﺅ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﻮﮨﺮ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ، 
ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ؟؟
ﺗﻮﺑﻮﻟﯽ: ﮐﻞ ﺳﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﺣﺮﮐﺘﯿﮟ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻨﺠﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﮈﺍﻻ. ﺧﯿﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﮧ ﻟﻮﻧﮕﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﭘﮑﺎﺅ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮨﮯ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﻮ ﻟﭙﮑﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﮑﮍﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﺷﻮﮨﺮ ﺑﻮﻻ: ﺟﮭﻮﭦ ﻧﺎ ﺑﻮﻟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﻻﮐﺮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺗﮭﻤﯿﮟ، 
ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻮﻟﯽ: ﭼﻠﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮ! ﺍﺱ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺗﻮ ﭘﻮﭼﮭﻮﮞ
ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺁﺋﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﺑﻮﻻ: ﻣﯿﮟ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﮑﮍﮐﺮ ﻻﯾﺎ ﺗﮭﺎ، 
ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻮﻟﯽ: ﻟﻮ ﮐﮭﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺁﮔﺌﯽ؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﮭﺮ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮﺭﺳﯽ ﮐﯿﺴﺎﺗ ﮐﺮﺳﯽ ﺳﮯ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﻟﯿﺎ، ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥﺳﮯ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ سے واپس ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﻣﯿﮟ چھپالی،
ﺷﻮﮨﺮ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ: ﻭﮦ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻣﭽﮭﻠﯽ، 
ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻮﻟﯽ: ﯾﮧ ﭘﺎﮔﻞ ﭘﻦ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﺍ ﺗﻮ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﮐﭽ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﺟﻮ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﺩﮐﮭﺎﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ
ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺟﯽ ﺟﺎ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﻠﺌﮯ ﻭﮦ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﻟﯿﻨﮯ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ، ﺗﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﻣُﺴﮑﺮﺍﮐﺮﮐﮩﺎ: ﯾﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﮑﺎﺭﯼ ﺟﻮ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﺏ ﭘﺎﮔﻞ ﺧﺎﻧﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﻮ ﮔﮯ؟؟؟؟
ﺷﻮﮨﺮ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ: ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﺟﻮ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﭘﻨﮕﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ۔۔۔ لہٰذا اگلی باری ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گا.
بات پلٹنے کا ہنر:
مسافر نے کنویں سے پانی بھرتی عورت سے مانگ کر پانی پیا۔ عورت مہذب، خوبصورت اور اپنے اطوار سے نہایت ہی بھلی اور معصوم سی لگتی تھی۔
آدمی نے پوچھا: تم نے کبھی عورتوں کی مکاری کے بارے میں تو نہیں سُنا ہوگا؟...
عورت نے پانی بھرنا چھوڑا اور ایک اونچی دھاڑ مارکر اتنے زور سے چیخ و پُکار کرتے ہوئے رونا شروع کیا کہ گاؤں کے لوگ بھی اس کی آہ و پکار سُن لیں۔
آدمی عورت کی اس حرکت سے خوفزدہ ہوکر بولا: تم ایسا کیوں اور کس لئے کررہی ہو؟
عورت نے کہا: تاکہ گاؤں والے آکر تجھے قتل کر ڈالیں کیونکہ تو نے مجھے تکلیف دی ہے اور میرا دل دُکھایا ہے۔
آدمی گھگھیاتے ہوئے بولا: میری بات سُنو، میں ایک مسکین اور اپنے کام سے کام رکھنے والا مسافر ہوں، میں بھلا کیونکر تمہیں تکلیف پہنچاؤں گا؟ میں تو بس تمہاری معصومیت سے متاثر ہوا تھا تو پوچھ بیٹھا کہ تم نے تو یقیناً عورتوں کی مکاری کے بارے میں کبھی نہیں سُن رکھا ہوگا؟ تم ایک مہذب اور حسین و جمیل عورت ہو، مگر میں خدا خوفی رکھنے والا انسان ہوں، مجھے تم سے کیا لینا دینا کہ موقع پاکر تم سے بات کرنے کی خواہش کرونگا؟
اس بار عورت نے اپنا مشکیزہ اُٹھاکر اپنے اوپر اُنڈیل کر اپنے آپ کو پانی سے تربتر کرلیا۔ آدمی کی حیرت اس بار اور بھی دو چند ہوگئی۔ پوچھا: اب کیا ہوا کہ تُم نے اتنی محنت سے کنویں سے نکالا پانی اپنے اوپر ڈال کر اپنے آپ کو بھگولیا
؟
ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ گاؤں والے لوگ کنویں تک پہنچ گئے۔
عورت نے اُن لوگوں کو بتایا کہ میں کنویں میں گرگئی تھی۔ اور آج اگر یہ مُسافر یہاں نا ہوتا اور مجھے باہر نا کھینچتا تو میں مر ہی گئی تھی۔
لوگوں نے اس آدمی کے اس احسان کے بدلے اُسے گلے لگاکر شکریہ ادا کیا اور اُس کی ہمت و جوانمردی کا تذکرہ کرنے لگے۔
گاؤں کے لوگوں کے ساتھ عورت واپس جانے لگی تو اس آدمی نے پوچھا، اپنی ان دونوں حرکتوں کے پیچھے تمہاری کیا حکمت و دانائی تھی یہ تو بتاتی جاؤ!
عورت کہنے لگی کہ بس اسی طرح ہی ہر عورت ہوا کرتی ہے؛
اگر اُسے اذیت دوگے تو تمہیں قتل کر
وادینے سے کم پر راضی نہیں ہوگی۔
اور اگر آُسے راضی اور خوش رکھوگے تو تمہیں بھی خوش و خرم رکھے گی.
بودیا غلط فہمی کا کانٹا:
یوں تو بادشاہ وزیر اور نوکر کے بیٹے آپس میں تینوں گہرے دوست تھے اور انہوں نے یہ عہد بھی کر رکھا تھا کہ ہمیشہ ایک ساتھ رہیں گے مگر بادشاہ کے لڑکے کا دلی لگاؤ نوکر کے بیٹے سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ وزیر زادے کو یہ بات بہت کھٹکتی تھی چنانچہ وہ چپکے چپکے کسی ایسی ترکیب کی تلاش میں رہا جو شہزادے اور نوکر کے بیٹے میں اختلافات پیدا کردے۔ شہر میں ایک مکار عورت رہتی تھی۔ ایک ہزار روپے کے عوض اس نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا۔ اس مکار عورت نے وزیر زادے کو یقین دلایا کہ یہ کام اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہ کسی مناسب وقت کی تاک میں رہی۔ ایک روز شہزادہ اور نوکرزادہ اسے جاتے ہوئے دکھائی دئیے۔ اس نے آگے بڑھ کر نوکرزادے کو ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ وہ قریب آیا تو مکار عورت نے اس کے کان میں کچھ کہنے کا انداز اختیار کرتے ہوئے منہ جھکالیا اور بس یونہی کھڑی رہی۔ پھر پیچھے ہٹ کر اونچی آواز میں بولی: جو بات میں نے کہی ہے وہ کسی سے نہ کہنا۔ بس یہ معاملہ اب تمہارے اور میرے درمیان رہے گا۔ 
شہزادے نے پوچھا: کیا راز کی بات ہورہی تھی؟ 
نوکر زادہ نے جواب دیا: نہیں کوئی بات بھی تو نہیں تھی۔ 
شہزادے نے اسے جھٹلایا: بات تو ابھی میرے سامنے ہوئی ہے اور تم مجھ سے چھپا رہے ہو؟ اگر تم نے یہ راز نہ بتایا تو آج سے تمہاری ہماری یاری ختم ہوجائے گی۔ 
نوکرزادہ صفائی پیش کرتا رہا مگر شہزادے نے اس کی ایک بات نہ مانی۔ 
نوکر زادے نے لاچار ہوکر کہا: ’’اگر شہزادہ محترم کوئی بات کی گئی ہوتی تو میں بتاتا۔‘‘ نہ وہ بات بتاسکا اور نہ شہزادے کے دل سے غلط فہمی کا کانٹا نکلا۔ آخر دونوں میں پھوٹ پڑگئی۔ اس طرح 2 دوستوں میں دوری پیدا کرنے کی وزیر زادے کی دیرینہ خواہش ایک مکار عورت کے حیلے نے پوری کر دکھائی۔ 
(چولستانی کہانیاں سے مقتبس)
بدکاری پر عیاری کا پردہ:
بعض صالحین کی حکایت میں سے ہے کہ ایک نیک شخص نہایت ہی غیرت مند تھا۔ اور اس کی بیوی بہت خوبصورت تھی اس کے پاس باتیں کرنے والا پرندہ تھا. اس شخص نے سفر کا پروگرام بنایا تو پرندے کو حکم دیا کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی بیوی کے ساتھ جو بھی معاملہ پیش آئے۔ وہ اسے بتائے۔ بیوی کا ایک دوست تھا جو ہر روز اس کے پاس آتا۔ جب وہ شخص سفر سے واپس لوٹا تو پرندے نے اس کو سب کچھ بتادیا۔ تو اس نے اپنی بیوی کو مارا پیٹا۔
بیوی جان گئی کہ یہ کام پرندے کا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ وہ رات کو مکان کی چھت پر چکی پیسے۔ اس نے پرندے  کے پنجرے پر بوریا رکھ کر اس پر پانی کا چھڑکاؤ کیا اور چراغ کی روشنی میں شیشہ ظاہر کیا۔ اس کی شعاعیں دیوار پر پڑیں تو پرندے نے سمجھا کہ یہ  بادل کے گرجنے کی آواز ہے۔ پانی بارش کا ہے اور چمک بجلی کی ہے۔
جب دن نکلا تو پرندے نے اس شخص سے کہا کہ: اے میرے مالک رات کو بارش، کڑک اور بجلی میں آپ کیا کا حال تھا؟ 
مالک نے کہا یہ کیا بات ہوئی۔ ہم تو گرمی میں تھے۔ بیوی نے (موقع غنیمت جانا) کہا کہ تم نے اس کا جھوٹ دیکھا؟ اس نے میرے متعلق  بھی جو کچھ کہا ہے وہ سب کچھ جھوٹ ہی تھا۔ چنانچہ اس شخص نے اپنی بیوی سے صلح کرلی اور اس سے راضی ہوگیا۔ پھر پرندے سے کہا کہ تو جھوٹی تہمت لگاتا ہے۔ پرندے نے اپنی چونچ اپنے جسم پر ماری اور  خود کو لہولہان کردیا۔  پھر مالک نے اپنی بیوی کے حکم پر اس پرندے کو فروخت کردیا تاکہ بیوی کو سکون ہوجائے۔ واللہ اعلم
(علامہ شہاب الدین قلیوبی رحمة اللہ علیہ)
مختصر یہ کہ جس طرح نفقاتِ حسیہ (نان نفقہ) کے ذریعہ سے بیوی اور اولاد اور متعلقین کی جسمانی تربیت ضروری ہے اسی طرح علوم اور اصلاح کے طریقوں سے ان کی روحانی تربیت اس سے زیادہ ضروری ہے۔ اس میں بھی قسم قسم کی کوتاہیاں کی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ اس کو ضروری ہی نہیں سمجھتے یعنی اپنے گھر والوں کو نہ کبھی دین کی بات بتلاتے ہیں نہ کسی بُرے کام پر ان کو روک ٹوک کرتے ہیں۔ بس ان کا حق صرف اتنا سمجھتے ہیں کہ ان کو ضروریات کے مطابق خرچ دے دیا اور سبکدوش ہوگئے۔ حالاں کہ قرآن مجید میں نصِ صریح ہے:
یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا قُوۡۤا  اَنۡفُسَکُمۡ  وَ اَہۡلِیۡکُمۡ  نَارًا
اے ایمان والو! اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اس کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو بھلائی یعنی دین کی باتیں سکھلاؤ۔











Wednesday, 28 August 2019

فتنہ کے دور کی چار علامات

فتنہ کے دور کی چار علامات

حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تمہارے اوپر ایسے فتنوں کا ڈر ہے جو دھوئیں کی طرح ہوں گے، ان میں آدی کا دل اس طرح مرجائے گا جیسے اس کا بدن مردہ ہوجاتا ہے۔ (الفتن نعیم بن حماد : ا/ ٦٥)
حضرت حذیفہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ فتنے دلوں پر پیش ہوتے ہے، پھر جو دل اس کوقبول کرتا ہے اس پر سیاہ نقطے لگادیئے جاتے ہیں اور جو اس سے انکار کرے سفید نقطے لگادیئے جاتے ہیں،
پھر جو شخص معلوم کرنا چاہے کہ فتنہ میں پڑا ہے یا نہیں تو وہ دیکھ لے کہ اگر وہ حرام چیزوں کو حلال اور حلال چیزوں کو حرام دیکھتا ہے تو سمجھ لو وہ فتنہ میں مبتلا ہوگیا ۔ (حلیة الاولیاء)
فتنوں کے دور کی چار علامتیں ہیں:
(1) اس زمانے میں انسان مال کے پیچھے لگا ہوا ہوگا۔ 
(۲) لوگ ہر وقت خواہشات نفس کی پیروری میں لگے ہوں گے۔
(3) دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جانے لگے گی۔
(4) ہر انسان اپنی رائے پر گھمنڈ میں مبتلا ہوگا۔
بہرحال جس زمانے میں یہ چار علامتیں ظاہر ہوجائیں تو اس وقت اپنے ایمان اور اپنی ذات کو بچانے کی فکر کریں ۔
(اصلاحی خطبات : ۵/ ۱۲۵ از مفتی تقی عثمانی مدظله العالی)
اللهم اني اعوذبک من الفتن ما ظهر منها وما بطن ۔
اے اللہ! آنے والے فتنوں سے ہم تیری پناہ چاہتے ہیں، ظاہری فتنوں میں بھی اور باطنی فتنوں میں بھی۔

Tuesday, 27 August 2019

हुज़ूर ﷺ के 40 उसूल

✿ हुज़ूर ﷺ के  40 उसूल
01- आप ﷺ ने फ़रमाया:
फ़ज्र और इशराक़, अस्र और मगरिब, मगरिब और इशा के दरमियान मत सोया करो!
02- आप ﷺ ने फ़रमाया:
बदबूदार व गन्दे लोगों के साथ न बैठा करो
03- आप ﷺ ने फ़रमाया:
उन लोगों के दरमियान न सोए जो सोने से पहले बातें करते हो!
04- आप ﷺ ने फ़रमाया:
उल्टे हाथ से न खाओ!
05- आप ﷺ ने फ़रमाया:
मुंह से खाना निकालकर न खाओ!
06- आप ﷺ ने फ़रमाया:
अपने खाने पर उदास न हुआ करो ये आ़दत हमारे अन्दर नाशुक्री पैदा करती हैं!
07- आप ﷺ ने फ़रमाया:
गर्म खाने को फूंक से ठण्ड़ा मत करो!
08- आप ﷺ ने फ़रमाया:
खाना अन्धेरे में मत खाओ!
09- आप ﷺ ने फ़रमाया:
खाने को सूंघा न करो, खाने को सूंघना बद तहज़ीबी होती हैं!
10- आप ﷺ ने फ़रमाया:
मुंह भर के न खाओ क्यूंकि इस से मैदे में जमादारी बढ़ जाता हैं!
11- आप ﷺ ने फ़रमाया:
हाथ से कडाके न निकालो (चटकाया न करो)!
12- आप ﷺ ने फ़रमाया:
जूते पहनने से पहले झाड़ लिया करो!
13- आप ﷺ ने फ़रमाया:
नमाज़ के दौरान आसमान की त़रफ़ न देखो!
14- आप ﷺ ने फ़रमाया:
रफ्ए ह़ाजत की जगह (Toilet) में मत थूको!
15- आप ﷺ ने फ़रमाया:
लकड़ी के कोयले से दांत साफ़ न करो!
16- आप ﷺ ने फ़रमाया:
अपने दांतों से सख़्त चीज़ मत तोड़ा करो!
17- आप ﷺ ने फ़रमाया:
हमेशा बैठ कर कपड़े तब्दील करो!
18- आप ﷺ ने फ़रमाया:
दुसरों के ऐ़ब तलाश मत करो!
19- आप ﷺ ने फ़रमाया:
बैतुलख़ला (Toilet) में बातें मत किया करो!
20- आप ﷺ ने फ़रमाया:
दोस्त को दुश्मन न बनाओ!
21- आप ﷺ ने फ़रमाया:
दोस्तों के बारे में झूठे किस्से बयान न किया करो!
22- आप ﷺ ने फ़रमाया:
ठहर कर साफ़ बोला करो ताकि बात दुसरे पूरी त़रह़ समझ जाए!
23- आप ﷺ ने फ़रमाया:
चलते हुए बार बार पीछे मुड़कर न देखो!
24- आप ﷺ ने फ़रमाया:
एड़ियां मार कर न चला करो, एड़ियां मार कर चलना तकब्बुर की निशानियों में से हैं!
25- आप ﷺ ने फ़रमाया:
किसी के बारे में झूठ न बोलो!
26- आप ﷺ ने फ़रमाया:
शैख़ी न बघारो!
27- आप ﷺ ने फ़रमाया:
अकेले सफ़र न किया करो!
28- आप ﷺ ने फ़रमाया:
अच्छे कामों में दुसरे की मदद किया करो!
29- आप ﷺ ने फ़रमाया:
फ़ैसले से पहले मशवरा ज़रूर किया करो, और मशवरा हमेशा समझदार के बजाए तजुर्बाकार शख़्स से करना चाहिए!
30- आप ﷺ ने फ़रमाया:
कभी गुरूर न करो, गुरूर एक ऐसी बुरी आ़दत हैं जिसका नतीजा कभी अच्छा नही निकलता!
31- आप ﷺ ने फ़रमाया:
ग़ुरबत में सब्र किया करो!
32- आप ﷺ ने फ़रमाया:
मेहमान की खुले दिल से ख़िदमत करो ये आ़दत हमारी शख़्सिय्यत में कशिश पैदा कर देती हैं!
33- आप ﷺ ने फ़रमाया:
बुरा करने वालों के साथ हमेशा नेकी करो!
34- आप ﷺ ने फ़रमाया:
अल्लाह तआ़ला ने जो दिया हैं उस पर खुश रहो!
35- आप ﷺ ने फ़रमाया:
ज़्यादा न सोया करो, ज़्यादा नींद याददाश्त को कमज़ोर कर देती हैं!
36- आप ﷺ ने फ़रमाया:
इक़ामत और अज़ान के बीच में गुफ्तगू मत किया करो!
37- आप ﷺ ने फ़रमाया:
अपनी कमियों पर ग़ौर किया करो और तौबा किया करो!
38- आप ﷺ ने फ़रमाया:
रोज़ाना कम से कम सौ बार अस्तग़फार किया करो!
39- आप ﷺ ने फ़रमाया:
अज़ान के वक़्त सब काम छोड़कर अज़ान का जवाब दिया करो!
40- आप ﷺ ने फ़रमाया:
पानी हमेशा बैठ कर पिया करो!
☆●सुब्हान अल्लाह●☆
-
⚠नोट :- पोस्ट ज़रूर शेअर करें और हमेशा जारी रहने वाले सवाब ए जारीया के हक़दार बने।